Friday, March 16, 2012

'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے


'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے '
انفار میشن ٹیکنالوجی کی قلانچیں ( میرےمطابق) 
عابدہ رحمانی
کل Apple نے3 ipad کا اجراء کیا ہے یہ پچھلے ipad کی نسبت زیادہ تیز اور 4G نیٹ ورک پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-اسمیں 5 mega pixel کا کیمرہ اور املالینے کے لیۓ مائکروفون بھی ہے-اس کی چپ کافی تیز ہے اور تصویر انتہائی صاف ہے یعنی اسکی ریزولوشوں   بہت اعلۓ ہے-  یہ ipad2 کی نسبت تھوڑا بھاری ہے اور موٹا ہےلیکن کارکردگی میں زیادہ بہتر ہے- ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب ٹیبلٹ پر آگۓ جو کہ ایک چھوٹی سی 
تختی ہی تو ہے-
   کمپیوٹر اب جیسے ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن گیا ھے اسکی روز افزوں ترقی اور نت نۓ اضافوں نے بنی نوع انسان کو ھکا بکا کر دیا ہے- اتنے اضافی    اپپس ہوتے ہیں کو عقل دنگ بلکہ ماؤف  رہ جاتی ہے اس میں ہر بنانے والی کی کوشش ہےکہ کچھ ایسا نیا پن لے آئے جو پچھلے میں نہ ہو- 
21   ویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج میں بدل دیاہے ایک کلک کے ساتھ معلومات دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہیں- پچھلے 15 سالوں میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دنیا میںایک عظیم انقلاب لے آۓ محض 16 برس پہلے 1996 کے اوائل میں ،   جب میں امریکا کینیڈا اپنے پیاروں سے ملنے آ یئ تو میرے بھائ نے مجہے انٹرنٰیٹ اور ای میل سے روشناس کیا اس سے پہلے بس اتنا  ہی واقف تھی کہ ایک نئی ایجاد ہوئی ہے    ' اسی کے ہمراہ ٹورنٹو کے شیرٹن ہوٹل میں انٹرنیٹ پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کی-اسکو پیش کرنے والے مختلف افادیات ظاہر کر رہے تھے- ہم سمیت سب شرکا اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش میں تھے - 
 مجہے سب سی زیادہ ای-میل نے متاثر کیا مجہے اسکی اشد  ضرورت بھی تھی  کیونکے  میرے بچے امریکا میں زیر تعلیم تھے -اس زمانے میں عام خط کو امریکا پہونچنے میں دس بارہ روز لگتے تھے ، ٹیلیفون کی کال بھی مہنگی تھی 3 منٹ کی کال 155   روپے   کی تھی - واپسی کی بعد پہلا کام یہ کیا کہ  IBM    کا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر خریدا اور بیٹے نے اس پر ڈائیل اپ انٹرنیٹ  کی لائن لگوائی یہ غالبا ٰ ISBDN کے نام سے ایک ادارہ تھا ،کلفٹن میں انکا دفتر تھا ،نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں یہ واحد اور اولین انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والے تھے- ہم انکے معدود چند صارفین میں سے تھےاس زمانے میں ابھی عام لوگ اس سہولت سے ناواقف تھے- مجھے تو اسمیں بیحد لطف آیا اور بچوں سے ،بھائ سے باقاعدہ رابطہ استوار ہوا اسی کے ذریعے اہنے انگریزی مضامین بھی لکھے اور جب اخبارات کو یہ سہولت ملی تو بھیجنے شروع کیے،اس طرح کمپوٹر سے دوستی کچھ اتنی بڑھی کہ ایک جان دو قالب ہو گئے  !   اس سے پہلے بچوں نے ایک کمپیوٹر commodore 64  اپنے کھیلنے  کے لیے لیا تھاوہ پھر کسی کام کا نہیں رہا تو کسی کو دے دیا- 
  دیکھتے ہی دیکھتے اس عفریت نے پوری دنیا کو قبضے میںلے  لیا  - معلومات کا ایک ذخیرہ، ایک خزانہ,ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ھمارے انگلیوں کے پوروں تلے آگیا - کمپیوٹر کا ماؤس والٹ ڈزنی کے مکی ماؤس سے کہیں آگے بڑھ گیا  -نئی نئی اصطلاحات وضع ہوئیں اور زبان زد عام ھوئیں - سرمایہ کاروں کو نۓ نۓ کاروبار مل گۓ پاکستان میں بھی کافی لوگوں نے انٹر نیٹ کمپنیاں کھول دیں -کیلیفورنیا امریکا میں پورا خطہ سیلیکون ویلی کے نام سے مشھور ہوا اور اب بھی ہے یہاں پر تمام مشہورIT کمپنیاں ہیں -،Yahoo, Google,Hewlett Packard,Cisco,Intel,Oracle,Apple, Facebook,Micron اور دوسری بے شمار چھوٹی بڑی کمپنیاں- ہزاروں لاکھوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے-میکرو سوفٹ نے اپنا صدر دفتر Seattle میں رکھنے کو ترجیح دی  - یہ تمام کاروبارایک  یا دوسری صورت میں کمپوٹر اور IT  کی صنعت سے وابستہ ہیں - Google اور Yahoo دو بڑے سرچ انجن کہلاتے ھیں جبکہ دوسرے بھی بے شمار ہیں -
سال  2000 میں جو خطرہ تھا اسکو Y2K کا نام دیا گیا تھا اس سلسلے میں جنوبی بھارت سے خوب لڑکے، لڑکیاں  امریکا آۓ اسکے بعد  جنوبی   بھارت  نے   بھی اس صنعت میں خوب ترقی کی حیدرآباد کے قریب سائبر آباد بنا اوربنگلور میں تمام  مشہور کمپنیوں نے انکے ہنر سے فائدہ سستے داموں حاصل کرنے کے لئے اپنے دفاتر کھول دۓ- اپنے پاکستان میں بھی ہنر اور ذہانت کی قلت نہیں ،پاکستانی بچے بھی کمالات دکھانے میں کسی  سے کم نہیں بہت سے بیرون ملک اور اندرون ملک اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھا رھے ہیں،نام اور دولت کما رہے ہیں جبکہ بہت سوں کی  ناگفتہ حالات نے  راھیں مسدود کررکھی ہیں - وقت کے ساتھ یھاں بھی اب کوئ کمی نہیں نظر آتی- پچھلے سال میں نے دیکھا کہ زیادہ تر گھروں میں وائی فائی لگا ہواہے اور بچہ بچہ لیپ ٹاپ لیۓ بیٹھا ہے-  یہ دوسری بات ہے کہ وہ کر کیا رہاہے؟PTCL کی سروس کافی تیز ہے ہاں لیکن اگر بجلی موجود ہو یا u ps کام کر رہا ہو؟ چین اسی ٹیکنالوجی کے پرزہ جات سستے داموں بناتے ہوۓ آج ترقی کی شاہراہ پر کھڑا ہے -کوریا اور جاپان تو پہلے ہی ہائی ٹیک تھے-
مختلف تنظیموں نے اسے اپنے اچھے یا برے مقاصد فکر کے لیے استعمال کیا- اسلامی لحاظ سے دین کی ترویج اور تفھیم کے لئے انٹرنیٹ انتہائی کارآمد ثابت ہوا- ہماری اکنا سسٹرزکی فورم پر اپنی اندیکھی بہنوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے اور اپنی علمی صلا حیتوں میں اضافے کے لئے' ہم پال ٹاک 'ہاٹ کانفرنس ' ویب نار Webinar ، سکائپ اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں-ان کمروں(chat rooms) سے ہم خوب فائدہ اٹھاتے ہیں-تفہیم القرآن کی انگریزی اور اردو کی کلاسیں پال ٹاک پر،آن لائن وومن انسٹیٹوٹ کی کلاسیں ویب نار پر منعقد ہوتی ہیں -سکائپ پر بھی کافی درس و تدریس ہو رھی ہے-
اگر چہ اب اس جن کو قابو میں کرنے کی کوششیں ھو رہی ہیں لیکن اس کا حال بوتل کی جن جیسا ھو گیا ہے-
اب حالات بدل گۓڈاکۓ اور خطوط کا انتظاراب ہماری زندگی سے خارج ہو گیا اب ای میل کا انتظار ہوتا ہے اگرچہ ڈاک اب بھی آتی ہے لیکن وہ یھاں کے بقول زیادہ تر جنک میل ہوتی ہے بہت کم کام کے خطوط ہوتے ہیں -ہاتھ سے لکھی سطریں دیکھنے کو نظریں ترس جاتی ہیں زور اس پر ہے کہ ٹائپ کرنے کی رفتار کتنی ہے؟ امریکا میں  US Postal service  کی حالت خراب ہے اور دیوالیہ ہونے کے قریب ہے -
 ہمارے بچپن میں قلمی دوستی پر زور ھوتا تھا بمشکل ایک دو قلمی دوست بن پاتے اب آن لائن دوستی کا زمانہ ہے ' یہ دوستی کہیں صرف ای میل اور گپ شپ ( چیٹنگ) تک ہے لیکن کبھی کبھار بات ذرا آگے بھی نکل جاتی ہے ، کچھ نادان غلط کاموں میں پھنس جاتے ھیں،جب کہ کئ خشگوار رشتے بھی قائم ہو جاتے ہیں-  ہم ایک ای میل پر ہم بیشمار لوگوں کو شریک کر سکتے ہیں روزانہ کروڑوں، اربوں ای میل بھیجے جاتے ہیں -بنک ،کریڈٹ کارڈ کمپنیاں ہم سے درخواست کرتے ہین کہ سب حساب کتاب آنلائن ہو جاۓ اور ہم کاغذ بچا کر ماحولیات پر احسان کریں -مصارف کے بل آن لائن ادائگی کی سہولت ہے ، نمعلوم پاکستان مں یہ سہولت اب میسر ہے ورنہ سخت گرمی، چلچلاتی دھو پ میں لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا تھا - ہیکرز جنکو ہمیں انٹرنیٹ چور کہنا چاہئے تاک میں لگے بیٹھے ہیں کہ وہ پاس ورڈ چرا کر آپکی معلومات چرا لیں خاص طور پر مالیاتی اداروں کی چوری ہمیں مشکلات میںڈال سکتی ہے -اسکا سد باب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں-
انٹرنیٹ پر روزانہ اربوں ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے ،گھر بیٹھے آپ من پسند خریداری کر سکتے ہیں ہاں اگر بازاروں میں رلنے میں لطف آتا ہے تو علیحدہ بات ھے- ہزاروں لوگوں کا کاروبار ہی آن لائن ہورہا ہے اور وہ اس سے خوب کما رہے ہیں محض ایک کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کنکشن چاہیۓ-ہزاروں کمپنیاں صرف آن لائن بزنس سے وابستہ ہیں-
آجکل ویب سائٹ کا زمانہ ہے ہر ایک کا ویب بنا ہوا ہے اسکے اردو معنی مکڑی کے جال کے ہیں جس میں آپکو پھنسانے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن انٹرنیٹ کی اپنی زبان ہے! ورلڈ وائڈ ویب کے معنی ہیں 'پوری دنیا میں پھیلا ہوا مکڑی کا جال 'اس جال میں اب پوری دنیا پھنسی ہوئ نظر آتی ہے-بےشمار ڈاٹ کام ، ڈاٹ آرگ،ڈاٹ نیٹ آپکو نظر آئنگے بلاگ ہیں اور نہ جانے کیا کیا ؟ ٹیلی فون کی دنیا میںانٹرنیٹ سے بڑا انقلاب آگیا VOIPکے ذریعےسے ٹیلیفون تمام دنیا میں کافی سستا ہوگیا اب گوگل کے زریعے اور سکائپ کے ذریعے مفت کال کر سکتے ہیں جبکہ میجک جیک اور دیگر سستی کمپنیاں بھی موجود ہیں-
 اکثر لوگوں کا یہ اعتراض بھی حق بجانب ہے کہ انٹرنیٹ میں سرفینگ کی سہولت سے علمی اور اخلاقی فوائد کے بجاۓ منکرات ہی کو فروغ حاصل ہو رہاہے انکی لت addiction سے شائد ہی کوئی انکار کر سکے- ہاں البتہ ہمیں یہ ضرور جانناچاہئے کہ انٹر نیٹ پر فحاشی و عریانی کے سیلاب سے بچنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جا ئیں خاص طور پر بچوں کے لیے، کہ انکو کیسے بچایا جاۓ-انکو پاس ورڈ وغیرہ لگا کر parental control ہونا چاہئے اور سمجھا نا انتہائی ضروری ہے-
ان تمام ویب سرفنگ اور تعلقات قائم کرنے میں ہمیں قرآن کے واضح احکامات کا خیال رکھنا ضروری ہے-بنی اسرائیل کی آئت 36 میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے " یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی سے باز پرس ہوگی" جو کچھ بھی ہم دیکھتے سنتے اور اخذ کرتے ہیں سب کی آللہ کے حضور جواب دہی ہوگی--اللہ تعالئ ہماراحساب آسان کرے-

7 comments:

  1. ہزاروں سائٹیں ایسی کہ ہر سائٹ پہ دم نکلے
    نہ پوچھو کس طرح پھر سائبر کیفے سے ہم نکلے
    سب عاشق تھک گئے اَپ لوڈ کرکے اپنی سائٹ پر
    وصالِ یار کی ، سی ڈی میں سو سو پیچ و خم نکلے!
    وہاں اب ہر طرف کمپیوٹروں کے چوہے پھرتے ہیں
    مرے لکھنے کے کمرے سے سبھی کاغذ قلم نکلے
    عدد کا پاس ورڈ اُف کس بَلا کا پیرہن نکلا
    غضب کی جلوہ آرائی میں شیشے کے صنم نکلے!
    ہمیں ’سائٹ نوردی کو تو’گوگل‘ جامِ جم ٹھہرا
    جہاں بینی کو اب کیونکر یہ کمرے سے قدم نکلے
    قیامت خیز چیٹنگ،میں ہلاکت خیزہیکنگ تھی
    سو اپنی پاس بک میں ڈھیر سے اعداد کم نکلے
    بلاگنگ کی قسم بد قسمتی کیا وائرس نکلی!
    خوشی کی ڈاون لوڈنگ کی، الم کے زیر و بم نکلے
    رقیب و یار کی ’ ٹیوننگ ‘ کہاں چل کر کہاں پہنچی
    برآمد ’جنک میلوں، میں مرکب پیچ و خم نکلے
    خوشا، اے وادیِٔ ، سرفنگ،بہ چشم شاہدؔ حیراں
    ہمارے بائی فوکل میں غضب کے زیر وبم نکلے

    ReplyDelete
  2. kafi achcha aor maloomati mazmoon ha.
    bhot psand aaya
    isi liye apne akhbar me shaya karne ki ijazat chahta hu.
    nazam bhi achchi ha
    shukria ke sath
    M. rhaman aziz

    ReplyDelete
  3. جی ضرور شائع کر دیں آپکا اخبار کہاں سے شائع ہوتا ہے ؟اور بعد میں لینک بھیج دیں تو مشکور ہونگی

    ReplyDelete
  4. www.hamaramaqsad.com
    me aaj ke din dekh saktiN haN
    baki aaj ik akhbar me aor shaya hone ki ummid ha.
    www.nadiatimes.com

    ReplyDelete
  5. Meri Behn,

    Allah aap ka ilm fazoon-tar karay. Darya ko koozay mein bund karnay ki misaal to cliche bun gaie hay. Aap kay mazmoon ki tehseen lafzon mein karna mujh jesay kum ilm kay liye mumkin nahin. Iss mazmoon ko Jang mein Imran Lari sahib ko to bhejiyay. Mumkin hay wo shaae kar dein. Ye Tabinda Lari kay chhotay bhai hein aur buhat qabil. IT inn ka khaas subject hay. Aap ka mazmoon mojooda daur kay naujawanon kay matlab ka hay. Parh kar ji khush hua.

    ReplyDelete