Friday, March 23, 2012

چلو بھر پانی----- عابدہ رحمانی


 مجھے اپنے کراچی کے دن یادآگۓ جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی  کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے
 اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا- یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوھات ہیں- 
 میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک مین آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین تو جیسےہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنےکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہےہرگز ہرگز مبالغہ آرایئ نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول آللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایئ ہیں وہ میں اور میرا رب ہا گھر والے جانتے ہیٰں-
ٹنکی میں گرتے ھوۓ پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لیےکئ فون کال 'واٹر بورڈ کےکئ چکر اور والو مین کے مختاف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجاۓ تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد--ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا -- اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی لازم تھی کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور پھر سال میں دو مرتبہ پانی آنے سے بھی محروم ہوجاتے-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-

پچھلے سال یھاں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رھا جاۓ، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے- لیکن جو بچے یھاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?
24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاؤٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور جھاں دین بھی داؤ پر لگا ہوا ہے- مختلف زرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-
پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اور جھاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے-  
ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آۓ توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میںصفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نےکہا' زم زم" رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا--------
 

"خزاں کے بعد اور بہار کی آمد"



"خزاں کے بعد اور بہار کی آمد" عابدہ رحمانی
کل رات سے تیز آندھی اور جھکڑ چل رہے تھے- یہاں کی سونڈ پروف کھڑکیوں اور دروازوں سے بھی ہوا کے غرانے  کے آوازیں آرہی تھیں، ٹیلے وِثِن کے چنل مستقل موسم کا حال بتا رہے تھے ساٹھ ستر میل کے رفتار سے ہوا چل رہی تھی  خزاں رسیدہ پتوں کی بوچھاڑ تھی اور سرسرانے کے آوازیں- قدرت کا قانون بھی نرالا ہے کچھ دِن پہلے ہی ان درختوں کے پتوں پر رنگوں کا ایک جوبن تھا  یوں لگتا تھا ہر ایک پتا ایک پھول بن گیا ہے مجھے یہاں کا یہ موسم بہت پیارا لگتا ہے موسم بہار میں تو پتے کھلتے ہیں اور اس موسم میں کیا دلکش رنگ، سبحان الہ-میں تو ان رنگوں سے بلکل سحر زدہ ہو جاتی ہوں جب دیکھنے سے طبیعت نہیں سیر    ہوتی تو کیمرے کو لیا اور تصویریں لینا شروع کیا -گھنے  درختوں میں لال پیلے ہرے قرمزی جامنی رنگ کے پتے   کیا     قدرت کی   صناعی، کہ انسان عش عش کر اٹھے -یہ بہار دکھانے کی عمر بہت مختصر  ہوتی ہے  - یہاں پر انکو      fall  colors             کہا  جاتا ہے  -   - ہم اسکو" خزاں کے رنگ"    کہتے ہیں - سردی کے شدت کے ساتھ یہ پتے جھڑنے لگتے ہیں اور نیچےگرے ہوے بھی اپنا حسن دکھاتے ہیں -        
باقی پتے تیزی سے پیلے اور پھر بھورے ہونے لگتے ہیں یوں لگتا ہے اب انکا آخری وقت آن پہونچا ان پتوں کو پایا انجام تک پہونچانے کے لئے ایک تیز زوردار آندھی اور جھکڑ چلتے ہیں اور رہے سہی پتے بھی  گر جاتے ہیں -
دوپہر کو جاب کچھ خاموشی چا گئی تو میں نے اپنےجوگرس اور جکٹ پہنی فون  جیب میں ڈالا اور دروازہ کھول کر باہرنکل آئی - میں جب سے ان ممالک میں ہوں روزمرہ کے چہل قدمی یا واک کو اپنے معمول کا حصہ بنالیا ہے -اس کے بہت سے فوائد ہیں - صحت کے لحاظ سے بھی اور نفسیاتی لحاظ سے بھی - باہر کے تازہ ہوا خوبصورت روشوں اور صاف ستھرے  پاتھوں پر گھوم پھر میں کافی تازہ د م ہوجاتی ہوں ، کچھ لوگوں سے  ہیلو ہائی   بھی ہوجاتے ہے - ہر طرف پتوں کا ڈھیر لگا تھا کچھ لوگ نکل کر اسے سمیٹنے میں مصروف نظر آئے ،کچھ بچے    rack  کر کے شغل  کر رہے تھے -مجھے قدرے دور سے ایک بوڑھی خاتون نظر آئیں -ایک وکوم کلینرچلا کر اسکے موٹے پائپ سے کچھ پتوں کو یکجا کرکےلرزتے ہاتھوں سے  ساتھ رکھے ہوئی ڈرم میں ڈالتی -پتوں کا ایک ڈھیر تھا اور وہ بمشکل دو چار پتے  اٹھاتی -مجھ میں  حسب معمول خدمت خلق کا جذبہ جاگا -    میں نے سوچا کہ اسکی مدد  کرنی چاہیے -"کیا میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں ؟"میں نے انگریزی میں کہا -"ہاں ہاں کیوں نہیں "-"مجھے دستانے دے دو اگر ہو سکے-"وہ جلد ہی میرے لئے باغبانی کے دستانے لے آئی- اسکو  پہن کر میں نے دونوں ہاتھوں سے پتے ڈرم میں  بھرے وہ بھی تھوڑی مدد کر نے لگی -پتے سمٹے تو اس نے مارے محبت کے مجھے چمٹالیا اور یوں اے لن سے میری دوستی ہوگئی - میں نے اس سے اجازت لی تو اس وعدے کے ساتھ کے میں اس سے ملنے اونگی-  "میں زیادہ تر گھر پہ ہوتی ہوں -تم جب جی چاہے آجانا -" دو چار دیں کے بعد پھر وہاں سے گزر ہوا تو میں نے سوچا گھنٹی بجا کر دیکھ لیتی    
ہوں -گھنٹی کی آوازکے ذرا در بعد اس نے دروازہ کھولا اس نے چمکیلا سرخ رنگ کا بند گلے اور پوری آستیں کا بلوز اور سیاہ سکرٹ زیب تن کیا تھا
ہلکا مک اپ ونچی ایڑی کے جوتے ،غرض یہ کے خوب تیار تھی -"وہ میں کیا غلط وقت پر آگئی ہوں ،تم لگتا ہے کسی پارٹی میں جا رہی ہو ؟-"   " نہیں نہیں بلکل صحیح ائی ہو میں بس ابھی چرچ سے آئی ہوں -"اس نے مجھے کرسی پیش کی " ہاں وہ آج اتوار ہے - اے لن تم کونسے چرچ میں جاتی         ہو؟ " "میں مؤرمون ہوں -" اور اس نے مجھے اپنے چرچ کا محل وقوع بتانا شروع  کیا  - ایک لمحے کے توقف کے بعد بولی "اور تمہارا چرچ اور مذہب 
کونسا ہے؟ _" "میں مسلم ہوں " اس نے ذرا غور کے بعد کہا" اوہ موزلم! " میں اس کے چہرے پر آنے والے تاثرات دیکھ رہی تھی -مسلمانوں  
کو یہاں اب جتنا تفتیشی انداز سے یہاں دیکھا جاتا ہے اور میڈیا میں دکھایا جاتا ہے ،یہ کچھ غیر متوقعہ نہیں تھا -"اچھے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں 
اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا - پھر میں نےسوچا کہ یہ اچھا موقع ہے اسے اپنے دین کہ بارے میں بتانے کا -" ہم لوگ مسجد جاتے ہیں اور گھر 
میں بھی پڑھ سکتے ہیں -ہم لوگ دِن میں پانچ دفع نماز ادا کرتے ہیں -"اسے کافی حیرت ہو رہی تھی  -اس کے بعد ہمارا گھریلو تعارف ہوا -  اس نے بتایا کہ وہ ٣ بچوں کی ماں سولہ کی نانی دادی اور چھتیس کی پر نانی پر دادی ہے -"واو  بہت بڑا خاندان  ہے  تمہارا !" حقیقتاً میں حیرت زدہ تھی کیونکے یہاں لوگ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنا ہی نہیں چاہتے -"ہم مورمون میں شادیاں جلد ہوجاتی ہیں اور ہم زیادہ اولاد کی پیدائش  پر یقین رکھتے ہیں،اسکے علاوہ ہم جائز ازواجی تعلقات قائم کرتے ہیں- باکریت اور پاکیزہ رہتے ہیں  "-یہ جملہ تو مجھے بیحد بھایا اور الله کا شکر ادا کیا کہ یہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں -وگرنہ جنسی لحاظ سے تو جانوروں والا حال ہے - میں بیحد حیران ہوتی ہوں کہ اتنی منظم قوم نے اس شعبے کو بلکل ہی کھلا اور بے لگام  چھوڑ رکھا ہے -(مورموں عیسائی فرقہ ہے لیکن اس میں اب بھی پغمبر آتے ہیں بہت سے عیسائی انھی عیسائی نہیں مانتے )      
ای لن کا صاف ستھرا سجا سجایا گھر بہت خاموش تھا -ایک طرف اس کا پوڈل  پھر رہا تھا جو وقتاً فوقتاً آکر اسکی گود میں بیٹھ جاتا اور وہ اس کو پیار سے سہلانے لگتی'یہ میرا   چھوٹا   سا     بچہ   ہے اور بہت ہی پیارا !"اتنے بڑے خاندان کے ہوتی ہوئی وہ بلکل تنہا تھی اور یہی تنہائی  یہاں کے  بوڑھوں               
  کا المیہ ہے  ؟       -کرسٹمس کے دِن تھے اس کی چہل پھل ہر طرف تھی اسکا کرسمس tree   جگمگا    رہا  تھا -کرسمس پر اسکا چھوٹا بیٹا اپنے بیٹے کے ساتھ آرہا تھا وہ سوچ سوچ کر بیحد خوش  تھی -شوھر کو مرے ہوئی دس سال ہوچکے تهے اور اسکے بعد وہ تنہا تھی "میں نے کوئی دوسرا پارٹنر ڈھونڈھنے کی کوشش ہی نہیں کی " -چند دِن بعد میں اس کے لئے کرسمس کا تحفہ لے گئی قرآن پاک کا یوسف علی کا انگریزی ترجمہ  اور پاکستان کا ایک کڑھا ہوا بیگ ،اسنے بھی مجھے بہت خوبصورت تصویری فرہم دیا اپنی بیک کی ہوئی کوکیز ...اور مجھے کرسمس پر کھانے کی دعوت دی -اے لن نے مجہے مارمن مذہب کے بارے بتایا اسکی فیملی کے کافی لوگ  مبلغ تھے اور مختلف ممالک میں تبلیغ میں مصروف تھے -            یہ فرقہ شمالی امریکہ میں تیزی سے پھیل رہاھے اسکےعلاوہ یوروپ اور افریقہ میں بھی اسکے مبلغ کافی سرگرم ہیں، امریکا کے ریاست یوٹاہ میں ان کی اکثریت ھے اس وقت ریپبلکن پارٹی کا مضبوط امیدوار Mitt Romney اسی فرقے سے ھے اسکے علاوہ مارمن اسپر بہت فخر کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ کا موجد Tim Berners-Lee بھی مارمن تھا-



       -ہم چھٹتیوں  میں شہر سے باہر جا رہے تھے،اس وجہ سے میں نے معذرت کر لی -    واپسی پر میں اس سے ملنے گئی تو گھر میں خاموشی تھی-نۓ  سال کی مبارکباد کے لئے میں نے اس کےفون پر پیغام دیا -فورن ہی اسکا جوابی پیغام آیاکہ وہ آجکلUtah میں اپنے خاندان کے پا س چند دن کے لئے گئی ہے -یھاں کے بوڑھوں میں تنہائی کی وجہ سے حد درجہ خود اعتمادی اور خود داری پائی جاتی ہے -وہ اپنے سارے کام خود انجام دیتی - ڈرایئونگ،گروسری،کھانا بنانا ،لانڈری وغیرہ ،صفائی کے لیے البتہ ہفتے دو ہفتے میں میڈ بلا لیتی- وہ اپنے گھر میں ہی رہنا چاہتی تھی "میری اس گھر سے بھت یادیں ہیں-اپنے شوہر کے ہمراہ میں نے یہان بہترین وقت گزارہ ہے"
مجھے نئی سال کے لئے بہترین خواہشات دیں اور بتا کہ اس نے میرے  bible     کو تھوڑا پڑھ لیا ہے اور کچھ کہانیاں انکے   bible       کے  جیسے ہیں. میں آ کر تم کو کال کرونگی -  -اسکی باتوں سے اندازہ ہو رہاتھا   جیسے کہ اسے اسلام سے دلچسپی ہو رہی ہے-"تم آنا تو پھر ملتے ہیں" میں نے اسے بایئ کہا -تقریبا ایک ہفتے کے بعد اسکا فون آیا،" عابدہ میں واپس آگئ ہوں، کل میں 11 بجے تم سے ملنے آسکتی ہوں"-"ہاں ضرور کل میں فارغ ہوں- تم میرے ساتھ لئنچ کرنا" ' نہیں میں صرف کافی لے لونگی" یھاں لوگ بغیر کسی تردد کے اپنی پسند نا پسند بتا دیتے ہیں اور بیجا تکلفات میں نہیں پڑتے- میں نے حسب عادت کافی کے ساتھ دو تین چیزیں رکھ دیں- یوٹاہ میں اسکے کافی رشتہ دار تھے ،کافی بڑا خاندان تھا" ہمارے مارمن میں عورتیں بہت محفوظ زندگی گزارتی ہیں" میں نے اسے بتایا کہ ہمارے ہاں بھی یہی طریقہ ہے -شوہر،باپ،بھائی ،بیٹا عورت کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں- وہ میرے لیے نۓ سال کا ایک خوبصورت سا برف گرتا ہوا گلوب لائ اس میں ھلکی سی موسیقی کی دھن میں ایک گھر کے اوپر برف باری ہورھی ہے-اس نے خود ہی کہاِ' تمھارا بائیبل میں نے پورا پڑھ لیا ہے" "یہ در اصل قرآن کا ترجمہ ہے اصل قرآن عربی میںہے-میں قرآن پاک اٹھاکر لے آیئ اور اسے عربی دکھانے لگی-"تمہیں معلوم ہے کہ قرآن اسی حالت میں ہے جسطرح یہ ہمارے پیغمبر محمد ص پر نازل ہوا تھا" وہ کافی دلچسپی سے سن رہی تھی ،" ہاں میں نے محمد کا نام سنا ہے جسکے ڈنمارک کے اخبار میں کارٹون آۓ تھے اور موزلمز نے بہت ہنگامہ کیا تھا" وہ کافی باتوں سے باخبر تھی،پھر خود ھی کہنے لگی " کسی کے دین یا پیغمبر کے مزاق بنانے کو میں بلکل پسند نہیٓں کرتی- لیکن میں نے سنا ہے کہ تم لوگ اپنے پیغمبر کی نہ تو تصویر بناتے ہو اور نہ statue؟" " ہاں بالکل صحیح ہمارے پیغمبر نے خود اسکو سختی سے منع کیا کیونکہ بعد میں اسی سے بت پرستی شروع ہو جاتی ہے اور بت پرستی اسلام میں حرام ہے"-میں اسے تھوڑا تھوڑآ سمجھانے کی کوشش میں تھی کہ اسکی دلچسپی بھی برقرار رہے اور پریشان بھی نہ ہو- پھر میں نے جان کر سیاست کی بات شروع کی وہ Mitt Romney کی بھت تعریف کر نے لگی " تم جانتی ھو سالٹ لیک سٹی میں جو اولمپک ہوۓ تھے تو اسکا آرگنائزر مٹ رومنی تھا ،وہ بیحد ہوشیار اور تیز شخص ہے خدا کرے کہ  وہ صدر بن جاۓ تو امریکا کا سنہرا دور لوٹ آۓ گا" اسنے گھڑی دیکھی " اوہ دو بج گۓ ،3 بجے میری ڈاکٹر سے اپوائنٹمنٹ ہے اب چلتی ہوں" میں نے اسے رخصت کیا اور یوں ہماری وقتا فوقتا ملاقات شروع ہوئی--
اگلی مرتبہ جب میں جانے لگی تو میں نے اسکے لیے  Dr. Mustafa Abu sway   کی مشھور کتاب Jesus Christ the Prophet Of Islam   لے لی یہ مجہے خود تحفے میں ملی تھی لیکن میرے لیے اسکا اس سے بہتر مقصد نہیں تھا اس سے پہلے میں نے اسے اتنا بتایا تھاکہ ہم  Jesus کو بہت بڑا پیغمبر مانتے  ہیں اور اس پر اور تمام پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور یہ کہ انکو عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں وہ بیحد حیران ہوئی کہ یہودی ان کو نہیں مانتے اور پھر عیسائی اور یہودی تمہارے پیغمبر محمد صلاللہ علیہ و سلم پر ایمان نہیں لاتے-  در اصل تبلیغ میں قرآن کی اس آیت کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے " لا اکراہ فی الدین" اور مخاطب کی دلچسپی برقرار رہنی چاہئے- وہ بھی مجھے مورمن کے بارے میں بتاتی رہی یوں لگ رہاتھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن میرا پلڑا بھاری تھا- " ہم باپ' بیٹے پراور Jesus کے دوبارہ آنے پر یقین کرتے ھیں"-"ہم مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو ایک برگزیدہ پیغمبر مانتے ہیں اور انکے معجزوں او ر معجزاتی پیدائش پر ایمان لاتے ہیں لیکن اللہ ایک ہے اور اسکا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی ہے - تم یہ کتاب پڑھنا اسمیں کافی تفصیلات ہیں اور ہم پھر ملینگے تو باقی باتیں ہونگی"- میں نے اجازت لی اسنے مجھے گلے لگا کر پیار کیا ' تمھاری وجہ سے میرا اتنا اچھا وقت گزر جاتا ھے کاش کہ ہم جلد ملیں - " میں نے کہا ہاں انشاءاللہ " اسنے فورا پوچھا کہ اسکا کیا مطلب ہے ؟ میں نے وضاحت کی-
کچھ دن کافی مصروف گزرے اسکا فون آیا " کہاں ہو؟ میں نے کتاب پوری پڑھ لی بلکہ سمجھو دو مرتبہ پڑھی وہ تیز پڑھنے والوں میں تھی اور بہت متاثر ہوں"  مجھے بیحد خوشی ہے، اچھا اگر شام کو فارغ ہو تو میں ملنے آؤنگی---اور یوں ہم کبھی ساتھ لنچ کرنے چلے جاتے ، کبھی کسی پارک میں جاکر بیٹھ جاتے اور میں تھوڑا تھوڑا باتوں باتوں میں اسے کچھ نہ کچھ پیغام دیتی رہتی --اسکو سب سے زیادہ پریشانی پانچ وقتہ نماز کی تھی- اگلی مرتبہ میں نے اسکے سامنے نماز ادا کی، وہ میری محوئت کو بھت دلچسپی سے دیکھتی رہی،" بہت اچھی meditation مراقبہ ہے"- میں اسکو سنانے کے لیے باآواز بلند تلاوت کرتی رھی- اسے یہ سب بہت بھلا لگ رہاتھا- ' تم  لوگ اتنا زیادہ اللہ سے تعلق رکھتے ہو؟ " ہماری ساری تگ و دو آخرت کے لیے ہے ،زندگی اسی کی تیاری میں گزرتی ہے، اور اسی امید میں کہ آللہ تعالیٰ آخرت میں بہتر ؐمعاملہ کرے گا" " مانتے تو ہم بھی ہیںلیکن اتنی توجہ نہیں دیتے " 
میں نے اسکو بتانا مناسب نہ جانا کہ بہت سے مسلمان بھی اسطرح کے ہیں بلکہ ایک کثیر تعداد اسی قسم کے ہیں   -- میں مسجد سے اسکے لئے WHY Islam , Gain Peace کےبھت سارے پمفلٹ اٹھا لائی جو دعوہ کے لحاظ سے کافی دلچسپ تھے اور انمیں کافی سوالوں کے  جوابات تھے- ایک روز جب اسنے نماز پڑھنے کی خواھش کی تومیں نےاللہ تعالیٰ کا بیحد شکر ادا کیا اسنے بتایا کہ وہ جھک نہیں سکتی کیونکہ اسکی کمر کی سرجری ہوئی تھی تو میں نے اسے تسلی دی کہ وہ کرسی پر بیٹھ کر بھی پڑھ سکتی ہے اور اسکو مختصرا بتایا کہ بیمار کے لیے نماز میں کیا سہولت ہے اسی طرح وضو اور تیئمم  کا بھی سمجھا دیا اسنے میرے ساتھ وضو کیا اور پھر میں تلاوت کرتی رھی اور اسکو بتاتی رھی کہ کیسے کرنا ہے اسنے  صرف اللہ اکبر سیکھا اور وہی پڑھتی رہی- چونکہ میں پوری طرح ادا کر رھی تھی تو کہنے لگی" یہ تو یوگا کی طرح پورا ورک آؤٹ ہے "ہاں کہ سکتے ہیں اگرچہ مقصد یہ نہیںہے بلکہ اللہ کے حضور حاضری ہے- اسکا ذہن رفتہ رفتہ اسلام اور مسلمانوں سے صاف ہوتا گیا میں نے اسے اپنے آزمائشوں کے قصے سنائے، اور یہ کہ ہر جگہ اندوہناک المیےرونما ہوتےہیں اسکے کرتا دھرتا ہم میں سے ہی ہوتے ہیں-جرائم اور حادثات کی داستانیں ہر جگہ ایک ہی جیسی ہیں اور اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں stereo type نہیں کرنا چاہئے جیسے کہ یھاں میڈیا میں مسلمانوں کو دکھا یا جاتا ہے ،حالانکہ اسقدر مسلمان اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں اور بس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں-اکثریئت امن پسند اور قانون پسند شہری ہیں-
اسنے ایک روز آخرکہہ ہی دیااورحقیقت میں اللہ کی ذات ہی ہدائت دینے والی ہے- "اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو میری کمیونٹی مارمن میرا بائکاٹ کر لیںگے اور پھر میرا خاندان بھی ناراض ہوگا"-میں نے سمجھایا کہ وہ اسکو چھپا کر بھی رکھ سکتی ہے وہ 80 برس کی ہونے والی تھی- اسنے مجھ سے شھادہ لینے کا فیصلہ کیا -کہنے لگی کہ اسنے تھوڑی دیر پہلے غسل کیا ہے اور وضو سے ہے اسنے سر پر رومال باندھا اور میرے ساتھ کلمہ شھادت دوہرانے لگی ہم نے اسکو آہستہ آہستہ تین مرتبہ دہرایا، پھر میں نے اسے معنی بتاۓ- فرط مسرت سے میں نے اسے چمٹالیا وہ بری طرح لرز رہی تھی شدیدد جذبات کی مغلوبیت تھی -- میں نے اسے اسکی شال اوڑھائی پھر اسنے رونا شروع کیا، ' ابیدہ ایسا تو نہیں ہوگا کہ میں مرنے کے بعد ڈیوڈ سے نہ مل سکوں، مجھے وہ بری طرح یاد آتاہے ہم نے بیحد حسین 52 سال اکٹھے گزارے ہیں وہ بہت اچھا شوہر تھا "- " دیکھو ہمارے عقیدے کے مطابق تم اللہ کی چنی ہوئی بندی ہو تمھارے پچھلے تمام گناہ معاف ہو چکے اللہ تعالیٰ تم پر بیحد رحم کرے گا اور تمھاری تمام خواہشات پوری کریگا"-- مین نے اسے تسلی دی اور یہ طے ہوا کہ جمعے کی نماز کے بعد وہ شیخ عبدالحکیم سے شھادت قبول کر لے گی میں نے سب کچھ طے کر لیا تھا اسی شام کو ہم نے مسجد میں کھانے کا انتطام کر لیا تھا - میری دیگر دوستوں نے اسکے لیے تحفے لے لیے--میں بھی دو روز اسکے لیے خریداری کرتی رھی لمبے سکرٹ خریدے بلاؤز تو وہ زیادہ تر پورے استین کی پہنتی تھی- خوبصورت نفیس اسکارف لیے اور جمعے کا شدت سے انتظار تھا--- دن میں ایک دو مرتبہ ھماری بات ہوجاتی تھی-

 -    
ہائی وے پر کوئی بہت برا حادثہ ہوگیا تھا-- خبروں میں مستقل آرہا ہے -ایک بوڑھی عورت نے غلط لین لیا تھا ، آگے پیچھے کی گاڑیاں لپیٹ میں آگئی تھیں زیادہ   تفصیلات  نہیں آئیں - اگلے روز میں اس کےفون  کا انتظار کرتی رہی  پھر خود ہی اسے کال کر کے پیغام دیا کوئی جواب نہیں آیا تو خود ہی اسکے گھرچلی گئی،  -گھنٹی بجانے پر ایک جوان سال لڑکا باہر آیا "کیا میں آپکی کوئی مدد کر سکتا ہوں ؟" میں ائے   لن کی دوست ہوں کیا وہ گھر پر ہے ؟" وہ سپاٹ لہجے میں بولا -" کل کے حادثے میں اسکی موت ھوگئی ہے-" ہیں! میں نے بمشکل  اپنے آپکو سنبھالا اور حسب عادت منہ سے" انا للہ وہ انا الیھ  راجعون"  کہا لڑکا مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا -میرے دل سے ایک ہوک اٹھی ایک غم و اندوہ مجہ پر طاری تھا،جیسے میری ایک عزیز ترین ہستی مجھسے جدا ہوگئ ہو- اب میں اسکے گھر والوں کو کیسے بتاؤں کہ اسنے اسلام قبول کر لیا تھا ، میری بات کا یقین کون کریگا- اس نے بتایا کہ جمعے کو میت funeral home  میں آئیگی ،اگر تم اسکو دیکھنا چاہو تو وہاں آجانا یوں ہمارا خاندانی معاملہ ہے - میں نے اس سے راستہ اور پتا معلوم کیا - وقت مقررہ پر میں پیلے اور سفید گلاب کا گلدستہ لے کر وہاں پہونچ گئی - کچھ مرد اور خواتین سیاه لباس میں ملبوس تھے میں نے بھی کالا سوٹ پہنا تھا لیکن وہ اپنے درمیان ایک رنگدار عورت کو دیکھ کر حیران تھے اور ایک دوسرے کو کن آنکھوں سے دیکھنے لگے - یہ مورمن چرچ تھا ہلکی غمناک موسیقی کی دھن بج رھی تھی -فضاسوگوار تھی'ھلکی روشنی موم بتیاں ہلکی ہلکی خوشبو کے ساتھ جھلملا تی رہیں- اسکے بیٹے ، پوتے اور پوتیاں آکر اسکی خوبیاں بیان کرتے رہے کہ وہ کتنی اچھی ماں ،نانی اور دادی تھی اسنے انکو کتنے تحفے تحائف دئے- اتنے میں اسکے بڑے بیٹے نے اعلان کیا کہ مام MOM کا وکیل اسکی وصئت سنانی چاھتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس میں کوئی بڑی خاص با ت ہے (یہاں کے لوگ اس لحاظ سے اتنے باعمل ہوتے ہیں کہ جوان جوان لوگ اپنی وصیئت کر کے لکھ لیتے ہیں اور بوڑھے اسکا خصوصاخیال رکھتے ہیں)- میرے سمیت ہر ایک ہمہ تن گوش تھا-
وکیل بتانے  لگا " دو روز پہلے اے لن نے مجھے فون کیا کہ وہ اپنے وصیئت نامے میں کچھ ضروری تبدیلی کرنا چاہتی ہے اور مجھے فورا ملنے کو کہا، میں شام کو گیا تو وہ میری منتظر تھی ،کہنے لگی مجھے اس وصیئت میں اپنے مذہب کو بدلنا ہے ،میں دو دن پہلے میں مسلمان ہوگیئ ہوں اور اپنی مرضی سے ہوئی ہوں ،عابدہ میری گواہ ہے - اگر مجھے کچھ ہو جاتاہے تو میری تدفین اسلامی لحاظ سے ہونی چاہئے- سب لوگ بیک نگاہ میری طرف متوجہ ہوۓ میرے سر پر بندھے سکارف سے انہیں یقین تھا کہ یہ میں ھی ہوں-
لڑکا Jeff اگے بڑھا  مجھے آہستہ سے  ہائی کہا اور ایک عورت کے کان میں کھسر پھسر کی - وہ آگے آئی اور مجھے تابوت کے پاس لے گئی اے لن ویسے لگ رہی تھی جیسا میں نے اسے اس دِن چرچ سے واپسی پر دیکھا تھا اور وہی سرخ چمکدار بلوز پہنا تھا بلکل تیار ،مک اپ کیا ہوا، بال سامنے سے بنے ہوۓ ،چہرے پر ہلکا جالی کا سیاہ نقاب --     - عورت آہستہ سے بولی پیچھے سے جسم بری طرح زخمی ہے  - وہ کہنے لگی ،" اب تم ہمیں راستہ دکھاؤ کہ ہم مام کی تدفین کو کیسے کریں ؟ ( انکا یہ کمال ھے کہ وصئیت کو پوراکرنے میں کوتاھی نہیں کرتے حالانکہ ہم مسلمانوں کو قرآن میں خاص تاکید ہے) میں نے پھلے تو امام مسجد شیخ عبدالحکیم کو فون کیا انکو تمام صورت حال بتائی اور اپنی دوسری دوستوں کو فون کئے- مسجد میں مردہ خانہ موجود تھا ہم مئیت وہاں لے آئے،پھر اسکو غسل دیا ،کفن تیار تھا -اسکے گھر والے حیران پریشان سب دیکھ رھے تھے -اجلے کفن میں وہ جنت کی حور لگ رھی اسقدر پاکیزہ اور نورانی چہرہ کہ نظر نہیں ٹھرتی تھی،ایک عجیب سی فضا تھی لگ رھاتھا فرشتوں نے اسے گھیرے میںلیا ہواہے یوں لگتا تھا ابھی بول پڑیگی'ابیدہ دیکھو میں اس سارے معاملے میں کتنی سنجیدہ تھی" اسی جمعے میں جسمیں اسکو شھادہ لینا تھا    اسمیں اسکا جنازہ ہوا امام نے جنازے سے پہلے نمازیوں کو اسکے متعلق بتایا اسکے گھر والے بھی جنازے میں شریک ہوۓ اسلامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا .... بہت ساری دعاؤں کے سا تھ اے لن رخصت ہوئی ،اے راہ حق کی مجاہدہ اور شہید میں اور میری امت تمہیں سلام پیش کرتی ہے- -------سردیاں گزر چکی تھیں بھار کی آمد آمد ٹیولپ اور ڈیفاڈل کے پھول بہار دکھا رہے تھے --سب کہاں کچھ لالہ و گل  میں نمایاں ہوگئیں- خاک میں کیا صورتٰیں ہونگی  کہ پنھاں ہوگیئں -----

Journey of life: "While on face book you never face a book"What is...

Journey of life: "While on face book you never face a book"
What is...
: "While on face book you never face a book" What is in a name?  you may call a rose by any name because in face book you never face a book...

Friday, March 16, 2012

Journey of life: 'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

Journey of life: 'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے: 'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ' انفار میشن ٹیکنالوجی کی قلانچیں ( میرےمطابق)  عابدہ رحمانی کل Apple نے3 ipad کا اجراء کیا ہے یہ پچھلے ...

'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے


'جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے '
انفار میشن ٹیکنالوجی کی قلانچیں ( میرےمطابق) 
عابدہ رحمانی
کل Apple نے3 ipad کا اجراء کیا ہے یہ پچھلے ipad کی نسبت زیادہ تیز اور 4G نیٹ ورک پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-اسمیں 5 mega pixel کا کیمرہ اور املالینے کے لیۓ مائکروفون بھی ہے-اس کی چپ کافی تیز ہے اور تصویر انتہائی صاف ہے یعنی اسکی ریزولوشوں   بہت اعلۓ ہے-  یہ ipad2 کی نسبت تھوڑا بھاری ہے اور موٹا ہےلیکن کارکردگی میں زیادہ بہتر ہے- ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب ٹیبلٹ پر آگۓ جو کہ ایک چھوٹی سی 
تختی ہی تو ہے-
   کمپیوٹر اب جیسے ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن گیا ھے اسکی روز افزوں ترقی اور نت نۓ اضافوں نے بنی نوع انسان کو ھکا بکا کر دیا ہے- اتنے اضافی    اپپس ہوتے ہیں کو عقل دنگ بلکہ ماؤف  رہ جاتی ہے اس میں ہر بنانے والی کی کوشش ہےکہ کچھ ایسا نیا پن لے آئے جو پچھلے میں نہ ہو- 
21   ویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج میں بدل دیاہے ایک کلک کے ساتھ معلومات دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہیں- پچھلے 15 سالوں میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دنیا میںایک عظیم انقلاب لے آۓ محض 16 برس پہلے 1996 کے اوائل میں ،   جب میں امریکا کینیڈا اپنے پیاروں سے ملنے آ یئ تو میرے بھائ نے مجہے انٹرنٰیٹ اور ای میل سے روشناس کیا اس سے پہلے بس اتنا  ہی واقف تھی کہ ایک نئی ایجاد ہوئی ہے    ' اسی کے ہمراہ ٹورنٹو کے شیرٹن ہوٹل میں انٹرنیٹ پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کی-اسکو پیش کرنے والے مختلف افادیات ظاہر کر رہے تھے- ہم سمیت سب شرکا اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش میں تھے - 
 مجہے سب سی زیادہ ای-میل نے متاثر کیا مجہے اسکی اشد  ضرورت بھی تھی  کیونکے  میرے بچے امریکا میں زیر تعلیم تھے -اس زمانے میں عام خط کو امریکا پہونچنے میں دس بارہ روز لگتے تھے ، ٹیلیفون کی کال بھی مہنگی تھی 3 منٹ کی کال 155   روپے   کی تھی - واپسی کی بعد پہلا کام یہ کیا کہ  IBM    کا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر خریدا اور بیٹے نے اس پر ڈائیل اپ انٹرنیٹ  کی لائن لگوائی یہ غالبا ٰ ISBDN کے نام سے ایک ادارہ تھا ،کلفٹن میں انکا دفتر تھا ،نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں یہ واحد اور اولین انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والے تھے- ہم انکے معدود چند صارفین میں سے تھےاس زمانے میں ابھی عام لوگ اس سہولت سے ناواقف تھے- مجھے تو اسمیں بیحد لطف آیا اور بچوں سے ،بھائ سے باقاعدہ رابطہ استوار ہوا اسی کے ذریعے اہنے انگریزی مضامین بھی لکھے اور جب اخبارات کو یہ سہولت ملی تو بھیجنے شروع کیے،اس طرح کمپوٹر سے دوستی کچھ اتنی بڑھی کہ ایک جان دو قالب ہو گئے  !   اس سے پہلے بچوں نے ایک کمپیوٹر commodore 64  اپنے کھیلنے  کے لیے لیا تھاوہ پھر کسی کام کا نہیں رہا تو کسی کو دے دیا- 
  دیکھتے ہی دیکھتے اس عفریت نے پوری دنیا کو قبضے میںلے  لیا  - معلومات کا ایک ذخیرہ، ایک خزانہ,ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ھمارے انگلیوں کے پوروں تلے آگیا - کمپیوٹر کا ماؤس والٹ ڈزنی کے مکی ماؤس سے کہیں آگے بڑھ گیا  -نئی نئی اصطلاحات وضع ہوئیں اور زبان زد عام ھوئیں - سرمایہ کاروں کو نۓ نۓ کاروبار مل گۓ پاکستان میں بھی کافی لوگوں نے انٹر نیٹ کمپنیاں کھول دیں -کیلیفورنیا امریکا میں پورا خطہ سیلیکون ویلی کے نام سے مشھور ہوا اور اب بھی ہے یہاں پر تمام مشہورIT کمپنیاں ہیں -،Yahoo, Google,Hewlett Packard,Cisco,Intel,Oracle,Apple, Facebook,Micron اور دوسری بے شمار چھوٹی بڑی کمپنیاں- ہزاروں لاکھوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے-میکرو سوفٹ نے اپنا صدر دفتر Seattle میں رکھنے کو ترجیح دی  - یہ تمام کاروبارایک  یا دوسری صورت میں کمپوٹر اور IT  کی صنعت سے وابستہ ہیں - Google اور Yahoo دو بڑے سرچ انجن کہلاتے ھیں جبکہ دوسرے بھی بے شمار ہیں -
سال  2000 میں جو خطرہ تھا اسکو Y2K کا نام دیا گیا تھا اس سلسلے میں جنوبی بھارت سے خوب لڑکے، لڑکیاں  امریکا آۓ اسکے بعد  جنوبی   بھارت  نے   بھی اس صنعت میں خوب ترقی کی حیدرآباد کے قریب سائبر آباد بنا اوربنگلور میں تمام  مشہور کمپنیوں نے انکے ہنر سے فائدہ سستے داموں حاصل کرنے کے لئے اپنے دفاتر کھول دۓ- اپنے پاکستان میں بھی ہنر اور ذہانت کی قلت نہیں ،پاکستانی بچے بھی کمالات دکھانے میں کسی  سے کم نہیں بہت سے بیرون ملک اور اندرون ملک اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھا رھے ہیں،نام اور دولت کما رہے ہیں جبکہ بہت سوں کی  ناگفتہ حالات نے  راھیں مسدود کررکھی ہیں - وقت کے ساتھ یھاں بھی اب کوئ کمی نہیں نظر آتی- پچھلے سال میں نے دیکھا کہ زیادہ تر گھروں میں وائی فائی لگا ہواہے اور بچہ بچہ لیپ ٹاپ لیۓ بیٹھا ہے-  یہ دوسری بات ہے کہ وہ کر کیا رہاہے؟PTCL کی سروس کافی تیز ہے ہاں لیکن اگر بجلی موجود ہو یا u ps کام کر رہا ہو؟ چین اسی ٹیکنالوجی کے پرزہ جات سستے داموں بناتے ہوۓ آج ترقی کی شاہراہ پر کھڑا ہے -کوریا اور جاپان تو پہلے ہی ہائی ٹیک تھے-
مختلف تنظیموں نے اسے اپنے اچھے یا برے مقاصد فکر کے لیے استعمال کیا- اسلامی لحاظ سے دین کی ترویج اور تفھیم کے لئے انٹرنیٹ انتہائی کارآمد ثابت ہوا- ہماری اکنا سسٹرزکی فورم پر اپنی اندیکھی بہنوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے اور اپنی علمی صلا حیتوں میں اضافے کے لئے' ہم پال ٹاک 'ہاٹ کانفرنس ' ویب نار Webinar ، سکائپ اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں-ان کمروں(chat rooms) سے ہم خوب فائدہ اٹھاتے ہیں-تفہیم القرآن کی انگریزی اور اردو کی کلاسیں پال ٹاک پر،آن لائن وومن انسٹیٹوٹ کی کلاسیں ویب نار پر منعقد ہوتی ہیں -سکائپ پر بھی کافی درس و تدریس ہو رھی ہے-
اگر چہ اب اس جن کو قابو میں کرنے کی کوششیں ھو رہی ہیں لیکن اس کا حال بوتل کی جن جیسا ھو گیا ہے-
اب حالات بدل گۓڈاکۓ اور خطوط کا انتظاراب ہماری زندگی سے خارج ہو گیا اب ای میل کا انتظار ہوتا ہے اگرچہ ڈاک اب بھی آتی ہے لیکن وہ یھاں کے بقول زیادہ تر جنک میل ہوتی ہے بہت کم کام کے خطوط ہوتے ہیں -ہاتھ سے لکھی سطریں دیکھنے کو نظریں ترس جاتی ہیں زور اس پر ہے کہ ٹائپ کرنے کی رفتار کتنی ہے؟ امریکا میں  US Postal service  کی حالت خراب ہے اور دیوالیہ ہونے کے قریب ہے -
 ہمارے بچپن میں قلمی دوستی پر زور ھوتا تھا بمشکل ایک دو قلمی دوست بن پاتے اب آن لائن دوستی کا زمانہ ہے ' یہ دوستی کہیں صرف ای میل اور گپ شپ ( چیٹنگ) تک ہے لیکن کبھی کبھار بات ذرا آگے بھی نکل جاتی ہے ، کچھ نادان غلط کاموں میں پھنس جاتے ھیں،جب کہ کئ خشگوار رشتے بھی قائم ہو جاتے ہیں-  ہم ایک ای میل پر ہم بیشمار لوگوں کو شریک کر سکتے ہیں روزانہ کروڑوں، اربوں ای میل بھیجے جاتے ہیں -بنک ،کریڈٹ کارڈ کمپنیاں ہم سے درخواست کرتے ہین کہ سب حساب کتاب آنلائن ہو جاۓ اور ہم کاغذ بچا کر ماحولیات پر احسان کریں -مصارف کے بل آن لائن ادائگی کی سہولت ہے ، نمعلوم پاکستان مں یہ سہولت اب میسر ہے ورنہ سخت گرمی، چلچلاتی دھو پ میں لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا تھا - ہیکرز جنکو ہمیں انٹرنیٹ چور کہنا چاہئے تاک میں لگے بیٹھے ہیں کہ وہ پاس ورڈ چرا کر آپکی معلومات چرا لیں خاص طور پر مالیاتی اداروں کی چوری ہمیں مشکلات میںڈال سکتی ہے -اسکا سد باب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں-
انٹرنیٹ پر روزانہ اربوں ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے ،گھر بیٹھے آپ من پسند خریداری کر سکتے ہیں ہاں اگر بازاروں میں رلنے میں لطف آتا ہے تو علیحدہ بات ھے- ہزاروں لوگوں کا کاروبار ہی آن لائن ہورہا ہے اور وہ اس سے خوب کما رہے ہیں محض ایک کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کنکشن چاہیۓ-ہزاروں کمپنیاں صرف آن لائن بزنس سے وابستہ ہیں-
آجکل ویب سائٹ کا زمانہ ہے ہر ایک کا ویب بنا ہوا ہے اسکے اردو معنی مکڑی کے جال کے ہیں جس میں آپکو پھنسانے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن انٹرنیٹ کی اپنی زبان ہے! ورلڈ وائڈ ویب کے معنی ہیں 'پوری دنیا میں پھیلا ہوا مکڑی کا جال 'اس جال میں اب پوری دنیا پھنسی ہوئ نظر آتی ہے-بےشمار ڈاٹ کام ، ڈاٹ آرگ،ڈاٹ نیٹ آپکو نظر آئنگے بلاگ ہیں اور نہ جانے کیا کیا ؟ ٹیلی فون کی دنیا میںانٹرنیٹ سے بڑا انقلاب آگیا VOIPکے ذریعےسے ٹیلیفون تمام دنیا میں کافی سستا ہوگیا اب گوگل کے زریعے اور سکائپ کے ذریعے مفت کال کر سکتے ہیں جبکہ میجک جیک اور دیگر سستی کمپنیاں بھی موجود ہیں-
 اکثر لوگوں کا یہ اعتراض بھی حق بجانب ہے کہ انٹرنیٹ میں سرفینگ کی سہولت سے علمی اور اخلاقی فوائد کے بجاۓ منکرات ہی کو فروغ حاصل ہو رہاہے انکی لت addiction سے شائد ہی کوئی انکار کر سکے- ہاں البتہ ہمیں یہ ضرور جانناچاہئے کہ انٹر نیٹ پر فحاشی و عریانی کے سیلاب سے بچنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جا ئیں خاص طور پر بچوں کے لیے، کہ انکو کیسے بچایا جاۓ-انکو پاس ورڈ وغیرہ لگا کر parental control ہونا چاہئے اور سمجھا نا انتہائی ضروری ہے-
ان تمام ویب سرفنگ اور تعلقات قائم کرنے میں ہمیں قرآن کے واضح احکامات کا خیال رکھنا ضروری ہے-بنی اسرائیل کی آئت 36 میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے " یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی سے باز پرس ہوگی" جو کچھ بھی ہم دیکھتے سنتے اور اخذ کرتے ہیں سب کی آللہ کے حضور جواب دہی ہوگی--اللہ تعالئ ہماراحساب آسان کرے-

Friday, March 9, 2012


   The Criterion & Limits of Friendship – Friendship vs Kinship
Abida Rahmani


Human being is a social animal. He wants to interact with people and enjoy their company. Much of our lives are spent in interaction with others. Some of the people are relatives, with them we have blood relations e.g. mother, father, brother, sister, grand parents, uncle, aunt, cousins and so on. The relation of a Husband and a wife is an acquired one which is the most intimate relation for a human being. After that are son, daughter and grand kids. The whole human society survives on this structure.
However the relationship of friend ship is altogether a different one. For relatives we have to accept what ever we had, while for friendship we can pick and choose a friend of our choice. As a whole we choose or get a company of the like minded people. With them we feel comfortable, sharing and enjoying them. This does not happen always some times we are indulged into a group through another friend, relative or a co worker, that have a quite different mind set. We some how are tempted by their ways and life styles and we are compelled to look upon our own self. Why are we going through so many restrictions and forbidding ourselves from the bounties of this world. These are the people like us and they are fully enjoying themselves, having lots of fun. Then we stealthily try to follow them, we are greatly attracted towards them.
The Prophet (saws) said, “The case of the good companion and the bad companion is like that of the seller of musk and the blower of the bellows (iron-smith). As for the seller of musk, he will either give you some of the musk, or you will purchase some from him, or at least you will come away having experienced its good smell. Whereas the blower of the bellows will either burn your clothing, or at least you will come away having experienced its repugnant smell.” [Al-Bukhaaree and Muslim]
In his commentary of this Hadith, Imam an-Nawawy said that the Prophet (saws) compared a good companion to a seller of musk and spoke of the virtue of having companions who are good, who have noble manners, piety, knowledge and good culture. Such are those who grant us from their virtue. And he (saws) forbade us to sit with those who do evil, commit a lot of sins and other bad deeds, as well as with innovators, backbiters, and so forth. Another scholar said: “keeping good company with the pious results in attainment of beneficial knowledge, noble manners and righteous actions, whereas keeping company with the wicked prevents all of that.” Many times a Muslim is encouraged by his friends to do evil and to forget his duties.
The bad companion is the Shaytaan from amongst mankind, and the Shayaateen are both men and jinns. Sometimes the harm that comes from the Shayaateen amongst men is greater than the harm that comes from the Shayaateen of the jinn. As a matter of fact the Shayaateen amongst mankind could probably teach the Shayaateen from the jinn a few things they didn’t know!
A good example of this can be found in the Prophet (saws),. When he was making the hijrah (migration) from Makkah to Madinah he chose Abubakar Siddique (RA) as his companion because he was the closest and confident among his friends..
Allah mentioned about it in Quran,
“Allaah did indeed help him (Muhammad) when the disbelievers drove him out. The second of the two, when they (Muhammad and Abu Bakr) were in the cave, and he (saws) said to his companion, ‘Be not sad (or afraid), surely Allaah is with us’.” [9:40]
He (saws) said, ‘Surely Allaah is with us’, not ‘with me’, since Abu Bakr had supported the Prophet in the establishing of the Deen of Allaah, he had thus earned the right to be supported by Allaah also.
We can even befriended with our kin, our parents, siblings, husband, kids or any one else. It is very common to have great intimacy, love and affection to some of our relatives or among couples. A husband and a wife could be best friends and companions. We know about prophet (saw) when he got the first revelation, he was frightened and shaken. He came to Khadija (ra) , she comforted him and trusted him all that he told her about his experience with angel Jibrael . She was the first one who believed in him and authenticated him as the Messenger of Allah. She suffered so much along with him in the path of Allah.All the closest companions or friends of Prophet (Saws) were his closest relatives or kins. Aisha (RA) was the daughter of Abubakar (ra), Hafsa(RA) was the daughter of Omar(RA). Usman and Ali (RA) were son –in- laws of prophet (SAW). Ali (ra) was his cousin too. Therefore these kinships made the bonds stronger and closer. We know about all these trusted companions or friends of prophet (saw) how they were with him in his trials, wars and dawaa.
When he was leaving for hijra to Madina, he left Ali (ra) behind to take care of the people’s belongings as amana to be returned to them.
Abu Bakr - a good friend and companion, one who was willing to sacrifice everything for the sake of Allaah and to the service of His Messenger (saws); his blood, his wealth, his sweat, his tears and everything that he owned he gave for Allaah’s sake. Abu Bakr As-Siddeeq, may Allaah be pleased with him and he pleased with Allaah, the first Khaleefah after the Prophet (saws) and his great companion, the best of this Ummah after the Prophet, sets for us this great example of the good companion  and friendship who is like the perfume merchant.
Omar and USman (RA) were not far behind; they did a lot in the path of deen and Allah.
All of the above companions who were related to prophet (SAW) were so close to him that he always used to council them in his decisions. Apart from them there were other companions too, who were not related to the Prophet (Saw).
Therefore it is permissible and required that we are befriended with our kin who are on straight path of Islam, are righteous, virtueous and piteous.  At the same time we should not ignore those, who are misguided to lead them to the guidelines of Islam because it would be the best gift and wish for them.

A hadith of Prophet (SAWS) to call your brother to deen of Allah is better for you than 100 red camels. Which was a fortune in those days.
We always notice in our relationships, it is quite common that a friendship is changed into kinship. Therefore a friend could be a kin too quite often and the relations get strong in this way.
Good and sincere friendship is a universal criterion. It is an old English proverb, “a man is known by the company he keeps.”This is about all human beings, men and women. In Farsi the famous poet Saadi said, “If you sit in the company of flowers, you will smell like it and if you sit in the company of filth, you will stink like this. Therefore, it is greatly important to choose good friends with nice behavior, positive thoughts and attitudes. For us as a Muslim it becomes essentially urgent to choose friends who are the followers of deen, those who deliver good and forbid bad are righteous in their deeds and dealings.
Here in North America Muslims who are living in a society where we are clearly a minority, the issue of choosing the right friends is essential for preserving our Deen. Befriending righteous and virtuous Muslims is an essential means for staying on the Straight Path. Strong individuals, on the other hand, are the core of a strong community, something that Muslims should always strive for.
In an authentic Hadith, the Prophet Muhammad (saws) said: “A person is likely to follow the faith of his friend, so look whom you befriend.”
The person noblest in character and dealings with fellow humans gave us a very clear message and advice in regard to friendship. We should choose the friend that is satisfied with our Deen and avoid the friend that is displeased with it. Our friendship should be based on the pleasure of Allah (swt) and his messenger Muhammad (SWs).
The actions of those who follow the evil ways are corrupt; their actions are built upon misguidance and deviation. Their deeds are worthless, to them Allah (swt) said: “And we will proceed to what they have done of deeds, so We shall render them to scattered floating dust.” Qur’an 25:23
Friends are those who feel for their companions, in both happy and sad moments. If we share our feelings with the wrong-doers whose actions are worthless and based on corruption, then we are following the same ways and standards as they are. If we agree, follow and are pleased with such friends, then we inherit their habits, behaviors and even religion. Such a Muslim would find himself in a situation wherein he is willing to hide his Islam in front of those who despise it (those that he considers as friends) and to separate from the believers. When this situation occurs, a point is reached when there is a very slight difference between the Muslim and his wrong-doing companion. Such a companionship is the root of sickness of one’s heart and loss of one’s Deen.
Instead of making friends with the misguided ones we should befriend the righteous and treat the rest in a gracious and just manner. Staying at sufficient distance is necessary; yet treating everybody in a noble and kind manner is required.So take heed before the inevitable Day comes when we are called to account for our actions.
Allah, the All-Wise also says: “Friends on that Day will be enemies one to another, except al-Muttaqoon (i.e. those who have Taqwah).” Qur’an 43:67
Sealing a friendship for Allah’s sake will result in one’s receiving protection of Allah (swt). And as Ibn Abbas said: “No one may taste true faith except by this (i.e. building relationships for Allah’s sake), even if his prayers and fasts are many. People have come to build their relationship around the concerns of the world, but it will not benefit them in any way.”
A scholar has said: “To seal a friendship for Allah’s sake indicates the obligation of establishing relationships of love and trust for His sake; this is a friendship for the sake of Allah. It also indicates that simple affection is not enough here; indeed what is meant is a love based upon alliance. This entails assistance, honor, and respect. It means being with those whom you love both in word and deed.” Loyalty for the sake of Allah really means to love Allah and to come to the assistance of His Deen; to love those who are obedient to Him and to come to their help. Moreover, the Shahadah “La Ilaha Illa Allah” requires us to ally ourselves for the sake of Allah, and it requires us to ally ourselves to the Muslims wherever we find them.
In two other authentic narrations’ of the Prophet (saws) we were commanded to keep company with a believer only and told that a person will be with those he loves So if we love and associate ourselves with those who are misguided, we should fear for our fate. The wise person is the one who prepares himself for the Hereafter, not the one who neglects his faith and falls into the trap of Satan who tells him that he will be forgiven and that he can do whatever he wishes. If we truly believe that the best speech is the Speech of Allah and that he best guidance is the guidance of Prophet Muhammad (saws), we should act in accordance with them, lest we build a proof against ourselves.
Ali (raa) said: “Mix with the noble people, you become one of them; and keep away from evil people to protect yourself from their evils.”  
If we are truly concerned about our fate, we must come to this realization: those who take us away from remembering Allah, from obeying Him and His Prophet (saws), those who fail to remind us of our daily prayers and those who do not give us sincere advice in regard to our Deen; such are really our foes and not our friends. On the other side, “a believer is the mirror of his brother and if he sees any faults in the other believer, he draws his attention to it, helps him to give it up and helps him wipe away any evil that he may have.
 “O you who believe! Take care of your own selves. If you follow the right guidance and enjoin what is right and forbid what is wrong no hurt can come to you from those who are in error. The return of you all is to Allah, then He will inform you about (all) that which you used to do.” Qur’an 5:105
We ask Allah to make us of the righteous ones and give us companions that will take us away from His Wrath and lead us to His Pleasure and Paradise.
 Those people who you sit with and make your friends are inevitably going to fall into one of two categories. Either they are going to be good individuals - who guide and encourage you towards what is good and help you to accomplish that which Allaah has ordered, or they are going to be bad - encouraging you to do what is pleasing to Shaytaan, that which misleads you, and leads you to the Hell-Fire.
 When the Prophet (saws) was sent with the Da’wah to establish the Deen of al-Islaam, he did not do it on his own. Rather, Allaah chose for him companions who accompanied him and who carried the Message until it was complete.
These aspects show the importance of having good friends, companions who are Saalih (righteous). Such a companion will help you to do what is good and remind you of Allaah, he will enjoin what is good and forbid what is evil. They also show the importance of avoiding keeping bad companions. Such a companion will have a bad effect upon you, they help you to do those deeds which are displeasing to Allaah and which lead to the Hell-Fire - and we seek Allaah’s refuge from that.
The Prophet (saws) explained the matter of good companionship, so that no room is left for doubt or confusion, when he said: “A person is upon the Deen of his khaleel - close friend, so look to whom you befriend.” [Abu Dawood and At-Tirmidhee]
There is an Arabic expression - ‘Your companion is what pulls you to something.’ So if your companion is good, he will pull to towards that which is good. But if your companion is bad, he will only pull you towards that which is evil. We must choose our friends and companions carefully so that we take friends who are sincere, and who will order us with what is good and forbid us from what is evil. If he observes us committing sins he would warn us, if he becomes aware of our shortcomings he would advise us, and if he finds a fault in us he would cover it. About this the Prophet (saws) said, “A Muslim is the brother of another Muslim. He neither betrays him nor tells him a lie, nor humiliates him.” [At-Tirmidhee]
So should you see a fault in your brother, you should wish to remove that fault from him and not expose it to the people. This is what is required by brotherhood and again stresses the importance of choosing friends who are upon the correct way, who are loyal, and who hide your faults whilst ordering you with good and forbidding you from evil, who stand beside you and support you, and co-operate with you upon all that is good.
The Prophet (saws) also explained this great principle further in another narration, wherein he stated, “Do not keep company except with a believer, and do not feed except a person who has taqwaa (fear of Allaah).” [Abu Dawood and At-Tirmidhee]
This principle is important from the standpoint of how the Deen is to be established, and from the standpoint of what brotherhood is and what it does. Indeed, the reason that one takes a companion is to help him establish his Islaam, and to help him worship Allaah. We find a good example in the Prophet Moosaa - the one whom Allaah chose and spoke to. When Allaah sent him to Fir’awn, he said, “And appoint for me a helper from my family, Haaroon - my brother; increase my strength with him, and let him share my task (of conveying Allaah’s Message and Prophethood), that we may glorify You much and remember You much.” [20:29-34]
It is only the brotherhood that is based upon Eemaan and Taqwaa that is the true and lasting brotherhood. All of those who come together for materialistic reasons; because of creed, color, ethnicity, nationality, or for whatever other reason, will be enemies of one another at the Day of Judgment “.except al-Muttaqoon.” Those who have Taqwaa, and love a brother only because he is upon the Path of Allaah and has the same Eemaan that they have; he has taken the path of the Messenger (saws) and the righteous deeds..
Good, sincere and righteous friendship and kinship is an ultimate blessing of Allah (swt). For which a believer should be a lot grateful to almighty.
He If you tried to count Allah's blessings, you could never count them. Man is indeed wrongdoing, ungrateful. (Surah Ibrahim: 34)
never count them. Man is indeed wrongdoing, ungrateful.

References:
 Abu Dawood and at-Tirmithi Al-Bukhari and Muslim,

Journey of life: "ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا"اکشے کمار کی کی ...

Journey of life:
"ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا"
اکشے کمار کی کی ...
: "ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا" اکشے کمار کی کی تیز آواز گونجی اور اس کے ساتھ بےہنگم چنختی ہوئی موسیقی اور تھرکتی ہوئی خوبصورتیاں، کان...

Tuesday, March 6, 2012

Journey of life: "ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا"اکشے کمار کی کی ...

Journey of life:
"ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا"
اکشے کمار کی کی ...
: "ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا" اکشے کمار کی کی تیز آواز گونجی اور اس کے ساتھ بےہنگم چنختی ہوئی موسیقی اور تھرکتی ہوئی خوبصورتیاں، کان...

    "ارے گنپت بجا نہ کاہے کو رک گیا"
    اکشے کمار کی کی تیز آواز گونجی اور اس کے ساتھ بےہنگم چنختی ہوئی موسیقی اور تھرکتی ہوئی خوبصورتیاں، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی سارے حاضرین دم بخود اس زبردست, بےہنگم ناچ گانے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں-
    انسان نے ناچنا کب سے شروع کیا تھا اور اس کی کیا تاریخ ہے؟ خاموش بیٹھے بیٹھے میرا ذہن بھٹکنے لگا کہتے ہیں ناچنا گانا انسان کا بنیادی حق ہے خوش ہوں تو لگتا ہے ساری کائنات جھوم رہی ہے اور خود بھی جھومنے کو جی چاہتا ہے اسی ناچ کو فنون لطیفہ میں شامل کیا گیا اس فن کو دنیا بھر میں مختلف نام دئےگئے ،قدموں کی الٹ پھیر' جسمانی حرکات کو کسی نے اعضاء کی شاعری کہا' تو کسی نے فحاشی و بیباکی کہا - کچھ دل پھینک ایسے بھی نکلے جو اسی کوچے اور ڈیرے کے اسیر ہوۓ اور دین دنیا دونوں وار دی، دیوالیہ ہو گئے ' فقیر ہوگۓ' تباہ و برباد ہو گئے ,بے ننگ و نام ھوۓ -
    کہیں یہ چاچا چا کہلائی 'کہیں راک انڈ رول ' کہیں والٹز ' کہیں کتھک 'بھنگڑا 'ا بھارت ناٹیم اور کہیں محض علاقائی'لوک'لڈی'خٹک ڈانس اور دیہی ناچ -- اسکا ایک باقاعدہ علم کا شعبہ بنا اور کوریو گرافی کہلایا اسکی ڈگریاں ملنے لگیں ناچ کے ماہر کوریو گرافر کہلاۓ ادارے اور اکادمیاں کھلیں ---
    یہ کوئی ڈسکو کلب نہیں ہے نہ ہی کوئی کونسرٹ ہے، یہ میرے عزیزوں کی شادی ہے اور یہاں خوشیاں دل کھول کر منائی جارہی جہاں خوشی کا معیار یہ ہے کہ اتنا ناچو اتنا ناچو کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں ناچنے والیاں لڑکے کی ماں بہنیں اور رشتہ دار ہیں- ماں جو جوانی میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوہ ھوگئی تھی آج ناچ ناچ کر اپنے ارمان پورے کر رہی ہے- یہ میری تہذیب اور ثقافت کا ہمیشہ سے حصّہ رہا ہے جہاں خوشیوں میں میراثنیں گا تی بجاتی تھیں اور گھر کی خواتین ساتھ ساتھ پھیرے لگاتی تھیںاور ناچتی تھیں یہ خوشیاں منانے کا ایک انداز تھا - کچھ اوباش اور من
    چلے ناچنے والیوں کو بلاتے تھے لیکن وہ مردانے کا حصہ تھا - اب مجھے لگتا ہے جیسے کہ میں پیچھے رہ گئی ہوں اور زمانہ غضب کی چال چل گیا ! اب میںطویل وقفوں کے بعد اس میں شامل ہوتی ہوںاور اب یہ مغربی اور ہندوانہ ثقافت کا ملغوبہ بن گیا ہے -
    میری دوست عرفہ کے بیٹے کی ایک شامی لڑکی سے شادی تھی انتہای دیندار گھرانہ ،مجھے بتایا گیا کہ دلہن حافظ قرآن ہے لیکن دو گھنٹے مسلسل دولہن ،اسکی رشتہ دارلڑکیاںناچتی رہیں, خوشی کے اس موقعے پر سب جائز تھا، عربی معاشرے میں دلہن کا ناچ اسکی خوشی کی علامت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ باقی رشتہ دار بھی ناچتے ہیں -عرفہ اور انکی والدہ بھی شامل ہوگئیں لڑکیوں نے عبایا ،حجاب اتارا تو اندر سے ہالی ووڈ کے جیسے جھلملاتے ایوننگ گاؤں پہنے ہوے خواتین نکلیں، پاکستانی خواتین کا لباس پھر بھی شریفانہ اور با حیا تھا - ہاں یہ ضرور تھا کہ خالص
    زنانہ محفل تھی پانچ سال سے بڑے بچے کو اجازت نہیں تھی -
    یہ یہاں کا طبقہ اشرافیہ ہے ساری خواتین چادریں اور بڑے بڑے دوپٹے پہنے آئین ان میں سے اکثر وہ ہیں جو پردہ دار ہیں لیکن آج خوشی کا موقع ہے اور آج سب جائز ہے ان کا تعلق ان گھرانوں سے ہے جہاں غیرت کے نام پر دس قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے -انتہای خوبصورت ملبوسات ، دلکش جھلملاتے زیورات، میک اپ سے اراستہ حسین چہرے آراستہ گیسو ایک باغ و بہار والی کیفیت ہے -
    DJ اور اسکے ساتھی ان نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے بیچ اٹھکھیلیاں کرتے پھر رہے ہیں ویڈیو والے بھی ان لمحات کو محفوظ کرنے میں مصروف ہیں اگرچھ محفل زنانہ ہے لیکن کافی مرد حضرات آ جا رہے ہیں بیچ بیچ میں بیرے بھی چکر لگاتے ہیں- میرے پاس بیٹھی ہوئی خاتون جو کہ اب ذرا سستانے کو بیٹھی تھیں DJ کو اشارے سے بلاتی ہیں "دیکھو اب شیلا کی جوانی ،منی ہوئی بدنام اور چمک چھلو لگانا " DJ حکم کی تعمیل کرنے جاتا ہے وہ میرے کان میں کہتی ہیں میری بیٹیوں اور انکی دوستوں نے ان گانوں پر بہت تیاری کر رکھی ہے آپ دیکھیے گا-
    پڑوسی ملک کی ثقافتی یلغار نے تو ہمیں کہیں کا نہیں رکھا ، انکے بیہودہ سے بیہودہ گانے پر ہماری بچیاں اور بچے تھرکنے کو تیار ہیں - اس وقت نہ کوئی قومی حمیت اور نہ ہی دینی حمیت یاد رهتی ہے -زندگی میں خوشیوں کی اتنی قلت ہے کہ ان لمحات سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہونا چاہئے
    یہ میری لاؤڈ ثقافت ہے جہاں پر شور شرابہ پسندیدہ ہے - اتنا شور ہے کہ مجھے NBA کا ارینا یاد آرہا ہے جہاں پر اعلان پر اعلان ہوتا ہےہnoiseeeee اور حد درجہ شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی -خواتین نوٹوں کی گڈیاںلے کر ناچنے والی لڑکیوں پر وارنے لگیں 'اس وقت یہاں کوئی دکھ نہیں ، کوئی غم نہیں ،خوشیاں ہی خوشیاں ہیں- خوشیاں جو بہت تھوڑی بہت مختصر ہیں،زندگی آج پورے شباب پرہے -نہ ہی مہنگائی کا عفریت دکھائی دے رہا ہے ،نہ ہی بجلی اور گیس کی کمیابی ، نہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر، ٹوٹی پوٹی بد حال سڑکیںاور گلیاں ، کاسہ گدائی لے کر کھڑی ہوئ
    حکومت ،تباہ کن سیلاب اور بد ترین زلزلہ ،بد ترین خانہ جنگی،چاہے وہ کراچی کی گلیوں میں بہتا ہوابے گناھوںکا لہو ہے ،خواہ بلوچستان کی کٹی ہوئ لاشیں ہیں، اچانک غائب ھونے والے جن کے اہل خانہ انکی زندگی کی آس میں جی رھے ہیں ،غموں کو بھولنا ہی بہتر ہے دکھوں کے ساتھ کوئی کتنا جی سکتا ہے - میری یہ قوم جینا جانتی ہے اور جینا چاہتی ہے -
    ا یھاں سے ایک میل کے فاصلے کی چوکی پر پرسوں خود کش دھماکے میں بمبار سمیت 12 افراد لقمہ اجل ھوگئے جہاں سے40'50 میل کے فاصلے پر میری فوج اپنے ہی لوگوں سے بر سر پیکار ہے ہزاروں جوان مارے جاچکے ہیں، اور دوسرے جانب کتنا نقصان ہوا ہے اس کا حساب کون جانے؟ وہ بھی تو میرے ہی بچے ہیں میرے ہی بھائ بہن ہیں -انکے بسے بساۓ گھروں کو اجاڑنے کا ذمہ دار کون ہے- وہ دوسری انتہا پر ہیں، انتہا پسندی یہ کہ وہ بچیوں کے اسکول تباہ وبرباد کر رہے ہیں، انکی نظر میں سارا قصور ان سکولوں کا ہے - اوپر سے الله کی قہر کی طرح ڈرون کے حملے ،نامعلوم یہ الله کا عذاب ہے یا
    انکے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا ہے -ایک طرف وہ انتہا پسندی دوسرے طرف یہ روشن خیالی! ہم کیا شتر مرغ کی طرح حقائق سے آنکھیں بند کرنے والی قوم ہیں یا غموں اور دکھوں کو ایک بڑ ی چادر سے ڈھانپنے کے قائل؟ 60 میل کے فاصلے پر ایستادہ غیر ملکی افواج میرے اس ملک کا تیا پانچا کرنے کے لیے تیارکھڑی ہیں--
    موسیقی میں مزید شدت آگئی اب دولہا کے آنے کا وقت آگیا دولہا کے ساتھ اسکے بزرگ رشتدار بھی ہیں ،داڑھیاں ، پگڑیاں اونچے شلوار - مجہے خطرہ محسوس ہوا اور خوشی بھی کہ اب شاید کچھ خاموشی چھا جاۓ لیکن یہ کیا خواتین انکو پکڑ کر سٹیج پر لے گئیں اور ما ما والے گانے کی دہن پر زبردست ناچ شروع ہوا- ماما اور چا چا سب کے ساتہ مل کر اپنی خوشیاں دوبالا کرنے لگے--
    اکشے کمار کی تیز اواز گونجی" ارے گنپت بجا نہ زور سے بجا ،روک کیوں گیا ھے اور زور سے بجا نا اور زور سے بجا"

Journey of life: !ایک باب زندگی ایک سفر

Journey of life: !ایک باب زندگی ایک سفر: 'بی بی عبدیہ سے عابدہ رحمانی تک' نام میں کیا رکھا ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے آپ کو بی بی عبدیہ، عبدیہ اور عبدیے پکارتے سنا -بے بے...

Journey of life: عابد ہ رحمانیقوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر...

Journey of life:
عابد ہ رحمانیقوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر...
: عابد ہ رحمانی قوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر تباہی آتی ہے تو ہمیشہ اسکے اسباب اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے دوسروں کے اندر ڈھ...

Journey of life: "While on face book you never face a book"What is...

Journey of life: "While on face book you never face a book"
What is...
: "While on face book you never face a book" What is in a name? you may call a rose by any name because in face book you never face a book...