Tuesday, February 28, 2012



عابد ہ رحمانی

قوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر تباہی آتی ہے تو ہمیشہ اسکے اسباب اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے دوسروں کے اندر  ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں  حالانکہ اس کے  اسباب خود ان کے اندر موجود ہوتے ہیں -لیکن جس طرح آنکھیں بند کر کے چلنے والے بعض لوگ کسی روڑے سے ٹھوکر کھا کر اپنے آپ کو الزام دینے کے   بجاۓ   روڑے کو گالیاں دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارا قصور اس روڑے کا ہے ، نہ کہ انکی غفلت کا-اس طرح قوموں کا بھی بالعموم یہی حال رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس ظاہر ہونے والے طاقتور ہاتھ کو دیکھا ہے ، جس کا طمانچہ ان کے منہ پر لگا ہے - اس بزدلی اور اخلاقی کمزوری کی طرف ان کی نظر کبھی نہیں گئی جس نے در اصل اس طاقتور ہاتھ کو ان پر حملہ کرنے کی جرات دلائی اور جس کی اپنے اندر پرورش کرنے کی سو فیصد ذمہ داری خود ان پر عائد ہوتی ہے  نہ کہ دوسروں پر -           
قوموں کی اس بر خود غلطی کی کھلی وجوہات دو  ہیں - پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انکا قومی غرور اس امر کے اقرار میں مانع ہوتا ہے کہ ان پر جو تباہی آئ   ہے وہ خود ان کی کسی مذہبی و اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہوسکتی ہے - دوسری وجہ یہ ہے کہ الله تعالہ  کا قانون مکافات اس دنیا میں ہمیشہ قوموں کو ان کی غلطیوں کی سزا دوسروں سے دلواتا رہا ہے - یہ نہیں ہوتا کہ ان کے اعمال و کردار خود مجسم ہو کر انکے سامنے آ جاتےہوں - اس وجہ سے وہ اپنے اعمال و اخلاق پر غصہ ہونے کے بجاے ساری غضبناکی ان لوگوں پر ظاہر کرتے ہیں جن کا قصور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے لئے انکی قوت تقاضا کرتی ہے - مسلمان اگر دنیا میں ایک قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایسا قومی کردار پیدا کریں جو کسی قوم کا اصلی محافظ ہوتا ہے ، اور اگر ایک جہانی طاقت بن کر رہنا ہے تو اس نظام زندگی کو اختیار کریں جو الله اور رسول کا بتایا ہوا ہے - ان دونوں چیزوں کے بغیر نہ وہ بحثیت ایک قوم کے زندہ رہ سکتے ہیں نہ بحیثیت ملّت کے ،اس کے بغیر نہ کوئی زمیں انکو پناہ دیگی ، نہ کوئی آسمان انکو اپنے سایے کے نیچے لے گا ----
(امین احسن  اصلاحی )         

No comments:

Post a Comment