Tuesday, February 28, 2012

!ایک باب زندگی ایک سفر


'بی بی عبدیہ سے عابدہ رحمانی تک' نام میں کیا رکھا ہے؟
جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے آپ کو بی  بی  عبدیہ، عبدیہ اور عبدیے پکارتے سنا -بے بے اور گل داجی ( امی اور ابا )عبدیے پکارتے ، جب کبھی ڈانٹ     اور غصے میں ہوتے تھے تو یے کو تھوڑا لمبا اور موٹا  کر لیتے تھے ،محبت کے جذبات میں یے نرم اور پیار بھرا ہو جاتا تھا - 
بڑے بوڑھے ملازم وغیرہ بی بی عبدیہ  پکارتے -یہ نام پورے گاؤں  اور علاقے میں انوکھا تھا یعنی کسی اور کا نہیں تھا -           
جب میں پیدا ہوئی تو میری دادی کی پسند کے مطابق میرا  نام بی  بی  عبدیہ رکھا گیا میری والدہ کے مطابق ایک عراقی خاتوں ہمارے گھر آئی تھیں انکا یہی نام تھا اور دادی جان  کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر پوتی ہوئی تو وہ یہی نام رکھیںگی  اور یوں    میرا  یہ نام ہوا - اس نام میں کوئی قباحت نہیں تھی اور مجہے کافی پسند بھی تھا نہ صرف اس لیے کہ یہ میرا اپنا نام تھا بلکہ اس کے معنی بھی اچھے تھے عبدیہ ' یعنی اسکی بندگی کرنے والی،کسکی اللہ تعالی کی'--  
پھر زندگی کا ایک اور دور آیا ، کچھ رشتہ دار مجہے ہدیہ بولنے     لگے اور زیادہ تر عابدہ ، اسکول میں بھی زیادہ تر عابدہ پکارا جاتا تو نامعلوم کس طرح 
یہ فیصلہ ہوا کہ اسکول میں  نام" بی بی  عابدہ" ہوگیا -اس وقت نو خیزی کا زمانہ تھا بی بی کچھ دقیا نوسی معلوم ہوا کلاس میں ایک اور عابدہ بھی  تھی تو میں اپنے والد کے نام کے ساتھ عابدہ قاسم کھلانے لگی -اگرچے گھر میں ابھی بھی عبدیہ تھی لیکن  اسکول  میں عابدہ ----معنی دونوں ناموں کے ایک ہیں-
شادی کے بعد سرکاری طور پر شوہر کا پہلا نام احد لگا لیا اور عابدہ احد ہو گئی کچھ عرصے کے بعد آخری بھی لگالیا اور بہت سارے کاغذات میں عابدہ احد رحمانی ہو گئی -
شادی کے بعد پہلے تو یہ ہوا کھ میرے شوہر کو میرے والدین کے پکارنے کا انداز عبدیے بہت اچھا لگا - اور وہ کافی عرصے تک مجھے عبدیے پکارتے رہے   -    
بالاخر نام کو مختصر کر کے عابدہ رحمانی کر لیا اب سرکاری طور پر اور عام طور پر یہی نام استعمال ہوتا ہے اگر چہ میرے پرانے اور گاؤں کے رشتہ دار مجھے اب بھی عبدیہ اور بی بی عبدیہ کہتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کھ یہ عابدہ رحمانی کون ہے ؟در اصل یہ کتاب انکے لیے بھی ہے اس لیے میں نے اپنا اصلی نام بھی  استعمال کیا ہے - دیار غیر تو میں نہیں کہونگی (کیوں کہ اب یہ اپنا ٹھکانہ ہی ہے اور غالبا مدفن بھی ہو!) میں عابدہ کو عبیدہ پکارتے ہیں رحمانی کو رامانی ، بقول شکسپیر گلاب تو گلاب ہے چاہے کسی نام سے پکارو --لیکن نام کی اہمیت ہے اور مجھے اپنا پرانا نام پھر سے اچھا لگتا   ہے - --------     
اب رحمانی کی وجہ تسمیہ بھی بتا دوں کہ یہ میرے نام کا آخری حصہ کیسے بنا - میرے مرحوم شوہر کا اصلی نام عبدل احد خان تھا اور والد کا نام عبدالرحمن خان تھا یہ لوگ لکھنو کے پٹھان تھے اور آخری نام خان ضرور لگاتےہیں،شجرہ پٹھانوں کے قبیلے یوسف زئی سے ملتا ہے اسی قبیلے سے 
میرا یعنی میرے ابا و اجدا کا تعلق ہے اگر چھ ہم انکو بناسپتی پٹھان کہتے ہیں -- عبدل احد خان کے ساتھ معاملہ کچھ الٹا ہوا میٹرک تک تو انکا یہی نام تھا اگر چہ احد پکارے جاتے تھے -کالج میں اردو ادب کے دلدادہ ہوۓ بلکہ اس وقت کے مشہور ادبی رسائل میں لکھنا شروع کیا ، جو انہوں نے احد رحمانی کے نام سےشائع کۓ نام میں غنائیت   پیدا کرنے کے لۓرحمان سے رحمانی ہو گۓ ،بعد میںیہ نام اتنا بھا یا کہ سرکاری طور پر اپنا نام یہی کر لیا     باقی
خاندان کے نام میں خان ہے بچوں کے نام میں خاص طور پر خان لگا دیا تھا، جب کہ رحمانی میرا لاحقہ بن گیا -بعض لوگ مجھے ایک حلقہ ارادت سے سمجھتے ھیں ،حالانکہ  حقیقت اس کے بر عکس ہے- ---     


عابد ہ رحمانی

قوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر تباہی آتی ہے تو ہمیشہ اسکے اسباب اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے دوسروں کے اندر  ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں  حالانکہ اس کے  اسباب خود ان کے اندر موجود ہوتے ہیں -لیکن جس طرح آنکھیں بند کر کے چلنے والے بعض لوگ کسی روڑے سے ٹھوکر کھا کر اپنے آپ کو الزام دینے کے   بجاۓ   روڑے کو گالیاں دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارا قصور اس روڑے کا ہے ، نہ کہ انکی غفلت کا-اس طرح قوموں کا بھی بالعموم یہی حال رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس ظاہر ہونے والے طاقتور ہاتھ کو دیکھا ہے ، جس کا طمانچہ ان کے منہ پر لگا ہے - اس بزدلی اور اخلاقی کمزوری کی طرف ان کی نظر کبھی نہیں گئی جس نے در اصل اس طاقتور ہاتھ کو ان پر حملہ کرنے کی جرات دلائی اور جس کی اپنے اندر پرورش کرنے کی سو فیصد ذمہ داری خود ان پر عائد ہوتی ہے  نہ کہ دوسروں پر -           
قوموں کی اس بر خود غلطی کی کھلی وجوہات دو  ہیں - پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انکا قومی غرور اس امر کے اقرار میں مانع ہوتا ہے کہ ان پر جو تباہی آئ   ہے وہ خود ان کی کسی مذہبی و اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہوسکتی ہے - دوسری وجہ یہ ہے کہ الله تعالہ  کا قانون مکافات اس دنیا میں ہمیشہ قوموں کو ان کی غلطیوں کی سزا دوسروں سے دلواتا رہا ہے - یہ نہیں ہوتا کہ ان کے اعمال و کردار خود مجسم ہو کر انکے سامنے آ جاتےہوں - اس وجہ سے وہ اپنے اعمال و اخلاق پر غصہ ہونے کے بجاے ساری غضبناکی ان لوگوں پر ظاہر کرتے ہیں جن کا قصور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے لئے انکی قوت تقاضا کرتی ہے - مسلمان اگر دنیا میں ایک قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایسا قومی کردار پیدا کریں جو کسی قوم کا اصلی محافظ ہوتا ہے ، اور اگر ایک جہانی طاقت بن کر رہنا ہے تو اس نظام زندگی کو اختیار کریں جو الله اور رسول کا بتایا ہوا ہے - ان دونوں چیزوں کے بغیر نہ وہ بحثیت ایک قوم کے زندہ رہ سکتے ہیں نہ بحیثیت ملّت کے ،اس کے بغیر نہ کوئی زمیں انکو پناہ دیگی ، نہ کوئی آسمان انکو اپنے سایے کے نیچے لے گا ----
(امین احسن  اصلاحی )         

"While on face book you never face a book"
What is in a name?  you may call a rose by any name because in face book you never face a book rather it has taken away the book from your face.
Face book is a phenomenon , a trend and a requirement in today's cyber world. What kind of requirement ?it is not that a requirement that you can not survive with out it or can not manage your day to day life . Most of the computer literates has made it a point to get in touch with their friends, family , acquaintances and fans through face book, still their are many who are scared or cautious to use this web page.  It has enveloped & coiled the whole world like a serpent. You can get in touch with your friends all around the globe in just one single page, chat with them , exchange pictures,chuckles, share songs, videos , messages , missions, events & ideas on just one single page.You can even promote your products and give your ads. There are a dozen similar sites , my space, Digg , stumble upon , Reddit, LinkedIn etc etc but   no comparison to face book and  now the messages are coming along on Twitter,our small sentences are tweeting side by side.
This whole social networking phenomenon has millions & billions of users on its site.It is the biggest social networking site where one can get in touch with the click of the mouse to all his online friends. You have to be watchful for  not sharing  a handful of your personal details that you should never say if you don't want criminals -- cyber or otherwise -you should be careful about  providing too much  private details- Even President Obama warned people to be careful about their pictures and this warning is especially for ladies because of the predators and  evil minded people. A precaution is must, watch your steps what are you doing especially in social media. I my self like to share my personal pictures or information with my close net circle, on Facebook a lot many things go public instead of doing all your privacy control. We make friends knowingly or unknowingly. The posting we do, the updates we provide, show all the details of  our day to day activities, in a way your whole circle knows what new is up or what are you up to do.Some times it is embarrassing  to know that all about you is known by all on your link.  You feel like advertising it to the public and that sitting quiet or idle  on face book is just nonsense, click on the likes of your friends postings if you are  not doing any postings right now, comment on their pictures & posts . Some of my FB friends though keeping quiet would inform me." Oh yeah, I know where you are and what is going on ?."
It is a good tool for FBI and other secret services to check your records through FB. Some of the records are revealed when the crime is done, the murder or the suicide is committed . Then they will look into their profile to investigate the details.
The records are checked and criminals are nabbed some times before the crime is committed .  While other  times some con artist is nabbed just for over smartness. 
Facebook was founded by Mark Zuckerberg  with his college roommates and fellow students Eduardo Saverin, Dustin Moskovitz and Chris HughesThe Web site's membership was initially limited by the founders to Harvard students, but was expanded to other colleges in the Boston area, the Ivy League, and Stanford University. It gradually added support for students at various other universities before opening to high school students, and eventually to anyone aged 13 and over. However,on February 2004, operated and privately owned by Facebook Inc.. As of February 2012, Facebook has more than 845 million active users. Users must register before using the site, after which they may create a personal profile, add other users as friends, and exchange messages, including automatic notifications when they update their profile. Additionally, users may join common-interest user groups, organized by workplace, school or college, or other characteristics, and categorize their friends into lists such as "People From Work" or "Close Friends".
Mark kicked off his two partners and became CEO of Face book and Time magazine's Person of the year in 2011 when he was only 26 years old. Wearing his hoodie jacket which is  his trade mark (like the sweat shirt of Steve jobs in which he was seen in all his presentations), with  his sparkling face and shining eyes when he sends a message on my profile . I'm so enthralled to see him , while he is sending this to thousand and millions at the same time. His head quarter was at Palo Alto California. In early 2011, Facebook announced plans to move to its new headquarters, the former Sun Microsystems campus in Menlo Park, California .

 On Wall street the Facebook's value is almost 70 billion dollars. The investors and financiers are looking forward to buy its lucrative shares.Now, like Gates and Jobs before them, social media entrepreneurs are following the path of past high-growth enterprises by hitching their wagons to Wall Street’s star through an initial public offering (IPO) of stock.  But in doing so, companies like Facebook enter the world of very sharp pencils

Facebook has affected the social life and activity of people in various ways. Especially with its availability on many mobile devices and smart phones. Travelling on a delta flight found a free WiFi available in the air for face book. The entire print media , You tube & other video net works are linked to face book . With a click of a mouse you can add it up to your profile , from there one is able to share it with the whole group.  Facebook allows users to continuously stay in touch with friends, relatives and other acquaintances wherever they are in the world, as long as there is access to the Internet. It can also unite people with common interests and/or beliefs through groups and other pages, and has been known to reunite lost family members and friends. One such reunion was between John Watson and the daughter he had been seeking for 20 years. They met after Watson found her Facebook profile Another father-daughter reunion was between Tony Macnauton and Frances Simpson, who had not seen each other for nearly 48 years.
Some argue that Facebook is beneficial to one's social life because they can continuously stay in contact with their friends and relatives, while others say that it can cause increased antisocial tendencies because people are not directly communicating with each other.It is so much common in families and the family rooms that three or four people sitting their , holding their laptops , tablets or phone screens and busy on FB or other networks while the TV is running on. A lot is now said & preached about disconnection to get on some family time & chat.
Some studies have named Facebook as a source of problems in relationships. Several news stories have suggested that using Facebook causes divorce and infidelity, but the claims have been questioned and refuted by other commentators. Yet we can say that it is addictive and you wish to get in touch and be on it from time to time. New relations are formed while divorces are occurred. Like every other networking it depends on a person's own discipline and self control. Last year a 13 months old  baby drowned while the mother was hooked up on Facebook. 
About Pakistan almost every one with a computer has a Facebook account. I have about half of my family and friends sitting there, chatting and exchanging views.
Learned from a friend  about a person whose wife has died and the man was in total loss and grief. A close friend while consoling him asked," can I help you with any thing, do you need any thing ?"  "Yes  bring me my laptop, I would like to update my  status."
Their are so many people with fake identities . A girl with a profile picture and friend with a couple of other friends was with me for the last 3 years.The other day she informed me that if you do not mind I would like to tell you that actually I am a boy. I told her that it does not matter with me , you should consider properly in which gender you are satisfied and pleased.
Facebook keep on changing and updating from 2008 when I started using it. Now it has a "Time line' showing all the posts in the time frame you have posted on it. It will make collage of your posted pictures, a summary of your year in status , a lot many games , mafia wars , translations and a lot more...
Now it depends on us are we just wasting our times or making some good & useful  use out of it ? ...

Friday, February 17, 2012

مشہور مصور صادقین سے ایک ملاقات--


صادقین سے ایک غیر متوقع  دلچسپ ملاقات

یہ اس زمانے کی بات ہے جب صادقین فریر ہال میں سنگ مرمر پر اپنی خطاطی کی نمائش کرنے والے تھے اخبارات سے خبریں مل رہی تھیں  میری والدہ کراچی آئی تھیں- انکو  سیر  و تفریح کرتے ہووے  فریر ہال پونچے   وہاں کے سبزازار پر بڑی  خوبصورتی سے سنگ مرمر  کی تختیاں سورہ الرحمن  کی  آیات سے آراستہ   سجی ہوئی تھیں   ہر ایک کے نیچے روشنی کا انتظام تھا ابھی روشنی تھی- کام  کرنے والے نے بتایا کہ باقاعدہ نمائش کل سے شروع ہورہی ہے ابھی ہم تیاری کر رہے ہیںصرف  ہم لوگ تھے -اتنے میں صادقین ایک خاتون کے ہمراہ اندر سے برآمد ہوے- دبلا پتلا سراپا اٹنگا سا پاجامہ اوپرقدرے گرم سرمئی کرتا بال الجھے بےترتیب، جیسے ان بالوں نے مدتوں سے حجام اور کنگھی کی شکل نہ دیکھی ہو - مری والدہ ذرا نفاست پسند تھیں ، انکا حلیہ دیکھ کر کہنے لگیں 'اس کا حلیہ دیکھو ،شہرت اور کام دیکھو "      بہت تپاک سے ملے ایک ایک تختی کے پاس   جا کر اپنے کام کی تفصیلات بتاتے رہے اتنے میں روشنیاں جل اٹھیں سبحاناللہ کیا منظر تھا سنگ مرمر کا ایک ایک رگ و ریشہ نمایاں ہو چکا  تھا اور اس پر خوبصورت  خطاطی کہ ہم عش عش کر رہے تھے -انہوں نے بتایا کہ یہ تخلیقات انہوں نے ٣-١/٢ سال کے عرصے میں پوری کی ہیں - کراچی شہر اور شہریوں  کے لئے انکا تحفہ ہے - میںنے  انکے لاہور عجائب گھر میں  انتہائی خوبصورت کام کے حوالے سے بات کی - جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ چھت پر سورہ یاسین کی خطاطی انہوں نے لیٹ کر کی ہے اور کبھی کبھی تو وہ گھنٹوں چت لیٹے  رہتے اور کمر بری طرح   اکھڑ جاتی- 
ایک شیٹ پر اپنے ہاتھ سے   سورہ الرحمن کی آیت لکھ کرہمیں  دی -کیا بہترین تحفہ تھا  اور کیا فیاضی ؟ 
حق مغفرت کرے کیا آزاد مرد تھا !
عابدہ رحمانی
An old page of diary: "Trip to Montreal"
This is the first trip of its kind that I planned ,executed& traveled all alone all by myself.

Last night was quite disturbing, I just could not sleep well. The idea of waking up early in the morning & going to VIA station was so much on my mind that I ultimately decided to wake up at 3:30 am. Offered my prayers first tahajjud then fajr, got ready , had breakfast , rolled out my pull man out of the door. After locking the door recited my duas and started walking to the station. It was still almost dark , luckily the area is well lit.It was nice that I don't have to go too far . The station is just next to my building. Walked under the tunnel ; when arrived at the station , the doors were not even open yet. what an early bird?It was just like a kid going on his first day of school. Eventually a lot of passengers started arriving but the train was late by 45 minutes.The ride was quite comfy and the food was sufficient for today. At the station , tried to find my way to Rene Levesque Blvd. My hotel Travelogue was just down the street. I got a nice room , freshened up and walked around to look in the area. Us embassy was just 10 minutes away from the hotel,I was visiting US Embassy @ Montreal  for my immigration interview. Montreal and the people looked like I am in a French country. Most of the people speaking french , all the street signs, every sign board was  in French. While talked to a few , I was told that they do not understand English.
The down town is quite impressive. A bit similar to Toronto's down town , tall uprising buildings, narrow streets, a lot of Tulips blooming around and a lot of pedestrians. Mcgill and Concordia  universities were just around the corner. The China town starts up after the hotel with typical architecture of big Pagoda Golden arch
and the white lions. There were Chinese, Vietnamese and Korean restaurants. Had my dinner and brewed some coffee. The manager seemed like an Arab Muslim. Most of the French speaking Arabs are settled in here.

Thursday, February 16, 2012

"خزاں کے بعد " عابدہ رحمانی



"خزاں کے بعد " عابدہ رحمانی  
کل رات سے تیز آندھی اور جھکڑ چل رہے تھے- یہاں کی سونڈ پروف کھڑکیوں اور دروازوں سے بھی ہوا کے غرانے  کے آوازیں آرہی تھیں، ٹیلے وِثِن کے چنل مستقل موسم کا حال بتا رہے تھے ساٹھ ستر میل کے رفتار سے ہوا چل رہی تھی  خزاں رسیدہ پتوں کی بوچھاڑ تھی اور سرسرانے کے آوازیں- قدرت کا قانون بھی نرالا ہے کچھ دِن پہلے ہی ان درختوں کے پتوں پر رنگوں کا ایک جوبن تھا  یوں لگتا تھا ہر ایک پتا ایک پھول بن گیا ہے مجھے یہاں کا یہ موسم بہت پیارا لگتا ہے موسم بہار میں تو پتے کھلتے ہیں اور اس موسم میں کیا دلکش رنگ، سبحان الہ-میں تو ان رنگوں سے بلکل سحر زدہ ہو جاتی ہوں جب دیکھنے سے طبیعت نہیں سیر    ہوتی تو کیمرے کو لیا اور تصویریں لینا شروع کیا -گھنے  درختوں میں لال پیلے ہرے قرمزی جامنی رنگ کے پتے   کیا     قدرت کی   صناعی، کہ انسان عش عش کر اٹھے -یہ بہار دکھانے کی عمر بہت مختصر  ہوتی ہے  - یہاں پر انکو      fall  colors             کہا  جاتا ہے  -   - ہم اسکو" خزاں کے رنگ"    کہتے ہیں - سردی کے شدت کے ساتھ یہ پتے جھڑنے لگتے ہیں اور نیچےگرے ہوے بھی اپنا حسن دکھاتے ہیں -        
باقی پتے تیزی سے پیلے اور پھر بھورے ہونے لگتے ہیں یوں لگتا ہے اب انکا آخری وقت آن پہونچا ان پتوں کو پایا انجام تک پہونچانے کے لئے ایک تیز زوردار آندھی اور جھکڑ چلتے ہیں اور رہے سہی پتے بھی  گر جاتے ہیں -
دوپہر کو جاب کچھ خاموشی چا گئی تو میں نے اپنےجوگرس اور جکٹ پہنی فون  جیب میں ڈالا اور دروازہ کھول کر باہرنکل آئی - میں جب سے ان ممالک میں ہوں روزمرہ کے چہل قدمی یا واک کو اپنے معمول کا حصہ بنالیا ہے -اس کے بہت سے فوائد ہیں - صحت کے لحاظ سے بھی اور نفسیاتی لحاظ سے بھی - باہر کے تازہ ہوا خوبصورت روشوں اور صاف ستھرے  پاتھوں پر گھوم پھر میں کافی تازہ د م ہوجاتی ہوں ، کچھ لوگوں سے  ہیلو ہائی   بھی ہوجاتے ہے - ہر طرف پتوں کا ڈھیر لگا تھا کچھ لوگ نکل کر اسے سمیٹنے میں مصروف نظر آئے ،کچھ بچے    rack  کر کے شغل  کر رہے تھے -مجھے قدرے دور سے ایک بوڑھی خاتون نظر آئیں -ایک وکوم کلینرچلا کر اسکے موٹے پائپ سے کچھ پتوں کو یکجا کرکےلرزتے ہاتھوں سے  ساتھ رکھے ہوئی ڈرم میں ڈالتی -پتوں کا ایک ڈھیر تھا اور وہ بمشکل دو چار پتے  اٹھاتی -مجھ میں  حسب معمول خدمت خلق کا جذبہ جاگا -    میں نے سوچا کہ اسکی مدد  کرنی چاہیے -"کیا میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں ؟"میں نے انگریزی میں کہا -"ہاں ہاں کیوں نہیں "-"مجھے دستانے دے دو اگر ہو سکے-"وہ جلد ہی میرے لئے باغبانی کے دستانے لے آئی- اسکو  پہن کر میں نے دونوں ہاتھوں سے پتے ڈرم میں  بھرے وہ بھی تھوڑی مدد کر نے لگی -پتے سمٹے تو اس نے مارے محبت کے مجھے چمٹالیا اور یوں اے لن سے میری دوستی ہوگئی - میں نے اس سے اجازت لی تو اس وعدے کے ساتھ کے میں اس سے ملنے اونگی-  "میں زیادہ تر گھر پہ ہوتی ہوں -تم جب جی چاہے آجانا -" دو چار دیں کے بعد پھر وہاں سے گزر ہوا تو میں نے سوچا گھنٹی بجا کر دیکھ لیتی    
ہوں -گھنٹی کی آوازکے ذرا در بعد اس نے دروازہ کھولا اس نے چمکیلا سرخ رنگ کا بند گلے اور پوری آستیں کا بلوز اور سیاہ سکرٹ زیب تن کیا تھا
ہلکا مک اپ ونچی ایڑی کے جوتے ،غرض یہ کے خوب تیار تھی -"وہ میں کیا غلط وقت پر آگئی ہوں ،تم لگتا ہے کسی پارٹی میں جا رہی ہو ؟-"   " نہیں نہیں بلکل صحیح ائی ہو میں بس ابھی چرچ سے آئی ہوں -"اس نے مجھے کرسی پیش کی " ہاں وہ آج اتوار ہے - اے لن تم کونسے چرچ میں جاتی         ہو؟ " "میں مؤرمون ہوں -" اور اس نے مجھے اپنے چرچ کا محل وقوع بتانا شروع  کیا  - ایک لمحے کے توقف کے بعد بولی "اور تمہارا چرچ اور مذہب 
کونسا ہے؟ _" "میں مسلم ہوں " اس نے ذرا غور کے بعد کہا" اوہ موزلم! " میں اس کے چہرے پر آنے والے تاثرات دیکھ رہی تھی -مسلمانوں  
کو یہاں اب جتنا تفتیشی انداز سے یہاں دیکھا جاتا ہے اور میڈیا میں دکھایا جاتا ہے ،یہ کچھ غیر متوقعہ نہیں تھا -"اچھے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں 
اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا - پھر میں نےسوچا کہ یہ اچھا موقع ہے اسے اپنے دین کہ بارے میں بتانے کا -" ہم لوگ مسجد جاتے ہیں اور گھر 
میں بھی پڑھ سکتے ہیں -ہم لوگ دِن میں پانچ دفع نماز ادا کرتے ہیں -"اسے کافی حیرت ہو رہی تھی  -اس کے بعد ہمارا گھریلو تعارف ہوا -  اس نے بتایا کہ وہ ٣ بچوں کی ماں سولہ کی نانی دادی اور چھتیس کی پر نانی پر دادی ہے -"واو  بہت بڑا خاندان  ہے  تمہارا !" حقیقتاً میں حیرت زدہ تھی کیونکے یہاں لوگ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنا ہی نہیں چاہتے -"ہم مورمون میں شادیاں جلد ہوجاتی ہیں اور ہم زیادہ اولاد کی پیدائش  پر یقین رکھتے ہیں،اسکے علاوہ ہم جائز ازواجی تعلقات قائم کرتے ہیں- باکریت اور پاکیزہ رہتے ہیں  "-یہ جملہ تو مجھے بیحد بھایا اور الله کا شکر ادا کیا کہ یہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں -وگرنہ جنسی لحاظ سے تو جانوروں والا حال ہے - میں بیحد حیران ہوتی ہوں کہ اتنی منظم قوم نے اس شعبے کو بلکل ہی کھلا اور بے لگام  چھوڑ رکھا ہے -(مورموں عیسائی فرقہ ہے لیکن اس میں اب بھی پغمبر آتے ہیں بہت سے عیسائی انھی عیسائی نہیں مانتے )      
ای لن کا صاف ستھرا سجا سجایا گھر بہت خاموش تھا -ایک طرف اس کا پوڈل  پھر رہا تھا جو وقتاً فوقتاً آکر اسکی گود میں بیٹھ جاتا اور وہ اس کو پیار سے سہلانے لگتی'یہ میرا   چھوٹا   سا     بچہ   ہے اور بہت ہی پیارا !"اتنے بڑے خاندان کے ہوتی ہوئی وہ بلکل تنہا تھی اور یہی تنہائی  یہاں کے  بوڑھوں               
  کا المیہ ہے  ؟       -کرسٹمس کے دِن تھے اس کی چہل پھل ہر طرف تھی اسکا کرسمس tree   جگمگا    رہا  تھا -کرسمس پر اسکا چھوٹا بیٹا اپنے بیٹے کے ساتھ آرہا تھا وہ سوچ سوچ کر بیحد خوش  تھی -شوھر کو مرے ہوئی دس سال ہوچکے تهے اور اسکے بعد وہ تنہا تھی "میں نے کوئی دوسرا پارٹنر ڈھونڈھنے کی کوشش ہی نہیں کی " -چند دِن بعد میں اس کے لئے کرسمس کا تحفہ لے گئی قرآن پاک کا یوسف علی کا انگریزی ترجمہ  اور پاکستان کا ایک کڑھا ہوا بیگ ،اسنے بھی مجھے بہت خوبصورت تصویری فرہم دیا اپنی بیک کی ہوئی کوکیز ...اور مجھے کرسمس پر کھانے کی دعوت دی -                -ہم چھٹتیوں  میں شہر سے باہر جا رہے تھے،اس وجہ سے میں نے معذرت کر لی -    واپسی پر میں اس سے ملنے گئی تو گھر میں خاموشی تھی-نئی                  سال کی مبارکباد کے لئے میں نے اس کےفون پر پیغام دیا -فورن ہی اسکا جوابی پیغام آیاکہ وہ آجکلUtah میں اپنے خاندان کے پاسس چند دیں کے لئے گئی ہے -یھاں کے بوڑھوں میں تنہائی کے وجہ سے حد درجہ خود اعتمادی اور خود داری پائی جاتی ہے -وہ اپنے سارے کام خود انجام دیتی -
مجھے نئی سال کے لئے بہترین خواہشات دیں اور بتا کہ اس نے میرے  bible     کو تھوڑا پڑھ لیا ہے اور کچھ کہانیاں انکے   bible       کے            
جیسے ہیں. میں آ کر تم کو کال کرونگی -   
ہائی وے پر کوئی بہت برا حادثہ ہوگیا تھا-- خبروں میں مستقل آرہا ہے -ایک بوڑھی عورت نے غلط لین لیا تھا ، آگے پیچھے کی گاڑیاں لپیٹ میں آگئی تھیں زیادہ   تفصیلات  نہیں آئیں - اگلے روز میں اس کےفون  کا انتظار کرتی رہی  پھر خود ہی اسے کال کر کے پیغام دیا کوئی جواب نہیں آیا تو واک سے واپسی پر اسکے گھر کی طرف مڑ گئی  -گھنٹی بجانے پر ایک جوان سال لڑکا باہر آیا "کیا میں آپکی کوئی مدد کر سکتا ہوں ؟" میں ائے   لن کی دوست ہوں کیا وہ گھر پر ہے ؟" وہ سپاٹ لہجے میں بولا -" پرسوں کے حادثے میں اسکی موت ھوگئی ہے-" ہیں! میں نے بمشکل  اپنے آپکو سنبھالا اور حسبی عادت منہ سے" انا للہ وہ انا الیھ  راجعون"  کہا لڑکا مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا - اس نے بتایا کہ جمعے کو میت funeral home  میں آئیگی ،اگر تم اسکو دیکھنا چاہو تو وہاں آجانا یوں ہمارا خاندانی معاملہ ہے - میں نے اس سے راستہ اور پتا معلوم کیا - وقت مقررہ پر میں پیلے اور سفید گلاب کا گلدستہ لے کر وہاں پہونچ گئی - کچھ مرد اور خواتین سیاه لباس میں ملبوس تھے میں نے بھی کالا سوٹ پہنا تھا لیکن وہ اپنے درمیان ایک رنگدار عورت کو دیکھ کر حیران تھے اور ایک دوسرے کو کن آنکھوں سے دیکھنے لگے -
لڑکا Jeff اگے بڑھا  مجھے آہستہ سے  ہائی کہا اور ایک عورت کے کان میں کھسر پھسر کی - وہ آگے آئی اور مجھے تابوت کے پاس لے گئی آئی لن ویسے لگ رہی تھی جیسا میں نے اسے اس دِن چرچ سے واپسی پر دیکھا تھا اور وہی سرخ چمکدار بلوز پہنا تھا بلکل تیار ،مک اپ کیا ہوا، بال سامنے سے بنے ہوئی ،چہرے پر ہلکا جالی کا سیاہ نقاب --     - عورت آہستہ سے بولی پیچھے سے جسم بری طرح زخمی ہے  - میں نے خاموشی سے گلدستہ تابوت کے ایک طرف رکھا پانچ منٹ خاموش کھڑی رہی ایک خزاں رسیدہ لرزیدہ پتا تیز آندھی سے زمیں بوس ہو چکا تھا ............................      


2012/2/9 Abida Rahmani




"راشد اشرف اور کتابوں کا اتوار بازار "

( راشد سے معزرت کے ساتھ )

عابدہ رحمانی

لگ بھگ دو ڈھائی سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میرے میل میں پاکستان سے اردو میں کافی ڈاک آنی شروع ہوئی - کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ ای- میل کا پتا کیسے کیسے نشر ہو جاتا ہے - میرے اکاونٹ پر اتنے گروپ کی ڈاک آتی کہ مجھے جن کو روکنا ہوتا ہے انکو spam میں ڈال دیتی ہوں ظاہر ہے کچھ وقت کا تعین بھی کرنا پڑتا ہے یہاں کی تمام time management کی کلاسوں میں اسی پر زور ہوتا ہے کہ اوقات کی بہترین اور صحیح تقسیم کریں اور کیسے کریں ؟- روز قیامت بھی ہم سے وقت کی صحیح اور غلط استعمال کے حوالے سے سوال ہوگا

الله تعالہ ہمیں سرخرو فرمائے آمین -

ان ای میلوں میں ایک لاہورکے فرحان ولایت بٹ اور ایک کراچی کے راشد اشرف تھے -فرحان کی mails یا اردو میں نوشتے کافی جاذب نظر ہوتے لاہور کے ثقافتی،سماجی اور ادبی پروگراموں کی جھلکیاں،سر گر میاں اور تصویریں اسمیں الحمرا اور آرٹس council وغیرہ میں ہونے والےتقاریب کی جھلکیاں ہوتیں اور کچھ تبصرہ بھی، اکثر وہ اچھی کہانیاں لکھتے --راشد اشرف کے"کتابوں کے اتوار بازار کا حال'جس سے مجھے یہ گمان ہوا کہ شاید اس شخص کی اتوار بازار میں کتابوں کی دکان ہے اور یہاسکی تشہیر کرنا چاہتا ہے ایک مرتبہ فراغت میں اسے پڑھا تو جانا کہ یہ کوئی کتابوں کا شوقین اور خریدار ہے -سوچا اچھا ہے کوئی بوڑھا retired شخص ہوگا اچھا مشغلہ ہے کتابیں اس عمر میں خصوصاًبہترین ساتھی ہیںجب باقی ساتھی ساتھ چھوڑ جاتے ھیں'بسا اوقات اپنا سایہ بھی ، اور اگر آنکھیں ساتھ دے رہی ہیں تو -

چند مہینے پہلے میرا yahoo کا اکاونٹ hack ہوگیا اور اس سے میرے تمام رابطوں کو انتہائی غلط قسم کے پیغامات جانے لگے - جو مجھے جانتے تھے وہ جان گے کہ یہ میں ہرگز نہیں ہوں اور مجھے فورا مطلع کر دیا -میں نے اپنا اکاونٹ محفوظ کر لیا لیکن کافی سارے گروپس سے رابطہ منقطع ہوا اسی بھیڑ میں فرحان ولایت بھی غائب ہوگے ،انہیں ڈھونڈھنے کی کوشش بھی نہ کی ،اور میلbox میں قدرے خاموشی چھا گئی-چونکہ بزم میرے رابطے کی فہرست میں نہ تھا تو بچ گیا ( اپ لوگ اگلے حملے کی لئے تیار رہیں ) تو میں نے سپام کو ٹٹولا کچھ دلچسپ تحریریں نظر آئین اس میں راشد کی کافی تحاریر تھیں میں نے چند پر تبصرہ کیا اور یوں راشد اور بزم سے باقاعدہ رابطہ ہوا -پھر نامعلوم کس طرح یہ رابطہ قدرے مزید بڑھا حال ہی میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ ماشااللہ ایک گھبرو جوان ہیں،البتہ روح بوڑھی ہوسکتی ہے -لیکن اردو پر فدا اور اب تو ہندی حروف سے بھی گریزاں ہیں -جانکاری والے واقعے کے بعد ،فارسی کا استعمال بہت خوبصورتی سے کرتے ہیں -اردو زبان کی خوش قسمتی کہ ایسا جانثار بندہ مل گیا ہے - جہاں اکثریت اردو سے جان چھڑارھی ہے اور اردو بولنا ،پڑھنا اور لکھنا احساس کمتری کی نشانی سمجھا جاتا ہے -وہاں راشد کے اردو سے اس درجہ وفاداری قابلی قدر ہے -

کراچی سے جب میں نے اپنا سامان سمیٹا تو میرے پاس بچوں کے ادب کا ایک انبار تھا بلا مبالغہ ہزاروں کتابیں تھیں -میرے عزیز و اقارب، دوست احباب نے انگریزی کتابیں اٹھا لیں اور کہا " دیکھئے ہمارے بچے صرف انگریزی پڑھتے ہیں -ان میں لانڈھی کورنگی سے تعلق رکھنے والے اہل زبان بھی تھے ،ملازمین نے کسری نفسی کا مظاہرہ کیا اور کچھ اپنے بچوں کے لئے لےگئے باقی ردی والے --
ں

فیس بک یا کتاب چہرہ - از عا بدہ رحمانی

فیس بک یا کتاب چہرہ - از عا بدہ رحمانی




فیس بک یا کتاب چہرہ  - از عا بدہ رحمانی

ایک مرتبہ میں نے اپنے اکونٹ کا اردو ترجمہ کیا تو فیس بوک کا ترجمہ ہوا" کتاب چہرہ" - میرے ذہن میں عبیداللہ علیم کی غزل گونجنے لگی " چاند چہرہ  ستارہ  آنکھیں " کتابی چہرہ بھی اردو کی ایک اصطلاح ہے لیکن یہ کتاب چہرہ ، جس نے کتاب کی اہمیت ختم کردی ہےاور تمام دنیا کو ایسے لپیٹ لیا ہے جیسے کوئی اژدہا لپٹ جاتا ہے -  ہر پڑھا   لکھا دوسرے سے پوچھتا ہے " کیا آپ فیس بوک پر ہیں ، کیا نام ہے اور جب آپ انجانے میں انکی تلاش کریں تو ان جیسے - بیشمار نام  آتے  ہیں اس سے جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا بہت چھوٹی ہے وہاں اپنے نام کی کم مائگی بلکّہ فراوانی   کا احساس  ہوتا ہے فیس بوک کے خالق Mark Zuckerberg نے اپنے دو ساتھیوں کو لات مار دی اور ٢٦ سال کی عمر میں  time magazine   2011 کی بہترین شخصیت کے طور پر سامنے آیا - 2004 میں جب وہ ہارورڈ میں زیر تعلم تھا اس وقت اسنے اپنے دوستوں سمیت   فیس بوک  شرو ع کیا تھا   اس وقت فیس بک کی قیمت وال سٹریٹ پر70 بلین ڈالر ہے بڑے بڑے سر مایہ دار اسکے شیرز خریدنے کی درپے ہیں -اس میں 45500 ملازمین ہیں اور استعمال کرنے والے کروڑوں بلکہ اربوں میں ہیں - اب مارک ایک انتہائی سمجھدار بزنس مین اور سلبرٹی یعنی مشہور اور اہم شخصئیت بن چکا ہے- اپنی ایک ساتھی کے ساتھ شادی شدہ زندگی گزار رہاہے-
مارک جب اپنے   مسکراتے شوخ و شنگ    چہرے کے ساتھ مجھے  کوئی پیغام دیتا ہے تو میں اس خوش  فہمی میں ہوتی ہوں  کہ یہ خاص میرے لئے ہے حالانکہ وہ لاکھوں لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے - Hoodie جیکٹ پہنے ہوے یہ نو خیز لڑکا اس وقت دنیا پر چھایا ہوا ہے - apple کے " Steve jobs"  کی طرح جو ایک جینز اور سویٹ شرٹ میں آکر دنیا کو اپنے کمالات دکھاتا  تھا - ہمارے تو آدھی زندگی استری کرنے میں گزر تی ہے -        
  کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد کے ساتھ نئی اصطلاحات نکل آئی ہیں - کمپیوٹر پر اسے social net working ( معاشرتی یا سماجی  رابطے ) کی سب سے بڑی جگہ       
site قرار دیا جاتا ہے حالانکہ دیگر بیشمار معاشرتی ویب سائٹ ہیں-ویب سائٹ کو اردو میں مکڑی کا جال کہا جاتا ہے اور حقیقتا یہ انٹرنیٹ ایک مکڑی کا جال ہے جسمیں ہم ایک مکھی کی طرح الجھ گئے ہیں اور سلجھنے کی اب کوئی صورت نظر نہیں آتی   -لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں ہزارہا مثبت مقاصد کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں اپنے کاروبار اور مشن کو پھیلانے کے لئے بہترین ذریعہ ھے- ہزاروں بچھڑے دوست,اسکول ، کالج ، یونیورسٹی کے بچھڑے ساتھی اسکے ذریعے ایک دوسرے سے ملے اور لاکھوں نئے لوگ ایک دوسرےکے دوست بنے ، کئی تو عاشق  معشوق بھی بن گئے ،جہاں کتنے نئے رشتے جوڑ رہے ہیںوہیں پرانے  ٹوٹ  رہے ہیں - ان سارے رابطوں میں اپنی ذات پر قابو لازمی ہے - گھریلو تعلقات میں بڑے بڑے رخنے پڑ گئے طلاق تک نوبت پہنچ گیئ اکثر اوقات ان آن لا ئن تعلقات میں ایک ناگفتہ بہ اور انتہائی افسوسناک کیفئت ہو جاتی ہے یہ بھی سننے میں آیا  کہ اکثر رومانی چیٹنگ کرنے والے کہیں باپ بیٹی اور کہیں بھائی بہن نکل آئے یہ سب ایک غلط شناخت اور پتے کی پروفائیل بنانے کے بعد ہوا جسمیں اکثر لوگ اپنے آپکو محفوظ خیال کرتے ہیں -اسوقت فیسبک ہر اخبار ، رسالے ، ٹیلی وژن پروگرام کے ساتھ منسلک ہے F پر شامل کرنے  کا بٹن دبا دیں اور کوئی چٹ ہٹی خبر اپنے فیس بک کے صفحے کی زینت بنا دیں اسظرح ہم  اپنے صفحے کی خبروں ، پوسٹنگ اور تصاویر کو اپنے تمام دوستوں کے ساتھ شیئرکرتے ہیں-دنیا کے حالات سے اسطرح ہم انتہائی با خبر رہتے ہیں - دلچسپ لطیفے، اشعار، مضامین، خوبصورت تبصرے ، دنیا بھر کی خبریں، ظلم زیادتی ، قتل عام خوبصورت کارڈ، اردو ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہم دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں- اسلامی تعلیم کے لئے بے شمار صفحات ہیں جو روزانہ قرآن ، حد یث  اور اقوال زریں سے مومنین کے دلوں کو منور کرتے ہیں- کوئی بھی ویڈیو یو ٹیوب اور باقی تمام ذرائع سے  فیس بک پر پوسٹ کی جاسکتی ہے-    اور یہ سب کچھ فیس بک کے ذریعے ہی ممکن ہوا- 
 وہیں لاکھوں اسے منفی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں حتی کہ صدر اوبا ما کو بھی خبردار کرنا پڑا کہ فیس بوک پر تصویر ڈالتے ہوے احتیاط لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ انتباہ  خواتین کے لئےہے کیونکہ غلط لوگ انہیں اپنے مذموم  مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں - لیکن شائقین کی ہرگز کمی نہیں ہے ادھر تصویریں کھینچیں اور فیس   بوک  پرفورا  آگئیں ،ذرا ہی دیر میں سب دوست احباب نے دیکھ لیں--پسند کرنے کا انتخاب ہے لیکن ناپسند کا نہیں - اور پھر ہر تحریر پر تبصرہ ، چھوٹے چھوٹے چھبتے ہوئے فقرے قارئین کے لئے انتہائی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں-
فیس بک اب ایک لازم و ملزوم بن گیا ہے - امریکہ میں بحرالکاہل کے نظام الاوقات کے مطابق جب میں اہنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر ہوتی ہوں اسوقت ساتھ سمندر پار میرے عزیز و اقارب  ، دوست احباب جنمیں زیادہ تر مجھ سے 12، 13 گھنٹے آگے ہیں وہ اپنے چھوٹی چھوٹی  تحاریر، چٹکلوں، تصاویر اور ویڈیو  سمیت اس صفحے پر میرے ساتھ ہوتے ہیں-اکثر سے چیٹنگ بھی ہوجاتی ہے بلکہ اب تو با آوازسکائپ کے انداز میں ویڈیو کے ساتھ بلند بات چیت بھی کی جاسکتی ہے- مجھے اسوقت کافی حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں فیس بک کی بیماری پڑھے لکھے طبقے میں خطرناک حد تک عام ہے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا بھی فیس بک اکاؤنٹ ہے - لیکن اسکو کنٹرول کرنے کا ایک خود کار نظام لوڈ شیڈنگ کی صورت میں موجود ہے-     
لت کوئی بھی بری ہے چاہے وہ فیس بوک ہی کیوں نہ ہو - اس کی لت تو ایسی ہے کہ اب سمارٹ فون پر بھی گھڑی گھڑی دیکھتے رہو کہ فیس بک پر کون ہے یا کیا ہوا- عرب بہار کی مہم ہو ، روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار  ، غزہ کی تباہی و بربادی ، شام کا قتل عام ہو یا پاکستان کی سیاسی شعبدہ بازی  - ہر تحریر، بیان بازی اور تاثرات کے لئے  فیس بک حاضر ہے -  دنیا بھر کے کھیل ہیں اور فضول وقت گزاری کی چیزیں- اب یہ ہم پر منحصر کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور کتنا خوف خدا  ہے ؟ 
 پچھلے  سال یہں امریکا میں ماں نے 13 ماہ کے بچے کو ٹب میں بٹھایا اور خود فیس بوک میں اتنا کھو گئی کہ جب ہوش آیا تو بچہ ڈوب چکا تھا -ایک جاننے والے اپنی بیوی کو اس وجہ سے طلاق دینے والے ہیں کہ بیوی شوہر کو بری طرح نظر انداز کر رہی ہے اور زیادہ وقت فیس بک پر گزرتا ہے-
میرے      صفحے پر پچھلے ٣ سال سے ایک لڑکی منسلک تھی  اپنی تصور بھی لگائی تھی - ابھی دو روز پہلے اس نے انکشاف کیا "کہ آپ برا نہ مانیں تو میں بتاؤں کہ میں  در اصل لڑکا ہوں - " میں نے اس سے کہا کہ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا تم اچھی طرح سوچ لو کہ تم کونسی جنس میں خوش ہو ؟ 
اب اس کے ساتھ ٹوتٹر بھی منسلک ہوگیا  ہمارے چھوٹے فقرے اب ساتھ ہی ساتھ اس پر چہچہا رہے ہیں - 
لیکن  اب بھی ایسے ہٹ دھرم اور انوکھے موجود ہیں جو یہ  کہتے ہیں " ہمارا کوئی اکاونٹ فیس بوک وغیرہ کا   نہیں ہے ان سب فضولیات کے لئے وقت کہاں ؟" 
فیس بک کے اتنے لطیفے اور واقعات اب سننے میں آتے ہیں "  ایک صاحب کی بیگم کا انتقال ہوا تو انتہائی افسردگی کے عالم میں تھے، انکے دوست انکی دلجوئی کرنے میں لگے ہوئے تھے- وہ صا حب کہنے لگے،" ذرا میرا لیپ ٹاپ تو لادو میں اپنا سٹیٹس سنگل کردوں"-