ماںعابدہ رحمانیپڑوس کے اپارٹمنٹ سے چینخ و پکا ر کی آوازیں نا قابل برداشت ہورہی تھیں -یون تو اس گھر میں جب مکیں گھر میں ہوں ایک چینخ پکار مچی ہوتی تھی - لیکن آج انکی ماں کی سسکیا ں اور روتی ہوئی آوازیوں لگ رہا تھا کوئی تشدد ہو رہا ہے-روزی اس سے اکثر ایلیویٹر میں ملتی رہی ہے - ہیلو ہائے کرلیتی تھی ، ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات چیت ہو جاتی -اسلئے وہ اس آواز کو صاف پہچانتی تھی- روزی ٹام سے کہنے لگی" یہ لوگ لگتا ہے اپنی ماں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں میں پولیس کو کال کرلیتی ہوں مجھ سے یہ سب برداشت نہین ہو رہا اس سے پہلے کہ ٹام جواب دیتا روزی نے پولیس کو ڈائل کردیا تھا اسنے پولیس کو تفصیلات بتائیں اپنا نام پتہ اور ساتھ والے اپارٹمنٹ کا نمبر بتایایہ ایک پاکستانی خاندان تھا روزی اور دوسرے پڑوسی انکو انڈین سمجھتے تھے لیکن انکی ماں نے بتایا کہ ہم پاکستانی ہیں تو اسے معلوم ہوا -ایک ہی جیسے تو لگتے ہیں یہ انڈین اور پاکستانی ویسے ہی ہیں جیسے امریکہ کینیڈا، لیکن انمیں تو اب بھی کچھ نہ کچھ تنازغہ چلتا ہے - لیکن یہ بیچاری عورت کاش پولیس جلدی آئے اس عورت کے رونے اور کچھ بولنے کی آواز صاف آرہی تھی- ےٹام کہنے لگا انکی عورتیں خاموشی سے اذیت برداشت کرتی رہتی ہیں انکو اسی طرح پالا جاتا ہے اب یہ د یکھو یہ اس عورت کا بیٹا اور بہو ہیں اور اسکے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں - یہ عورت کہیں الگ کیوں نہیں رہتی؟ یہ انکا کلچر نہیں ہے یہ اسی طرح خوش رہتے ہیں روزی اسے سمجھانے لگی-اتنے میں پولیس نے آکر دروازے پر دستک دی چینخ پکار اب بھی جاری تھی دروازے کے لینس سےپولیس دیکھ کر بشیر ہکا بکا رہ گیا - بھاگ کے ماں اور بیوی کے پاس گیا دونوں کو ھاتھ سے پکڑ کر غسلخانے لے گیا ماں کے منہ پر ھاتھ رکھا اماں خدا کیلئے خاموش ہو جاؤدروازے پر پولیس آئی ہے لگتا ہے کسی پڑوسی نے شکایت کی ہے اب وقت نہیں ہے ھکچھ سوچو وہ تمیں بھی لے جائینگے اور ہمیں گرفتار کر لینگے اگر تم نے حقیقت بتا دی- پولیس نے اس مرتبہ زور سے دستک دی اسنے دروازہ کھولاہمیں خبر ملی ہے تمہارے گھر میں کسی بوڑھی عورت ہر تشدد ہورہا ہے ہم اندر آکر دیکھنا چاہتے ہیںاماں نے اتنی دیر میں آنسو پونچھ لئے تھے پولیس نے آکر پوچھانہیں نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے میں نہارہی تھی تو ٹب میں بہت زور سے پھسلی نلکے سے میری پیٹھ ٹکرائی - یہ لوگ مجھے دوائی لگا رہے تھے جس سے مجھے جلن ہورہی تھی تو میں رو رہی تھی- اماں نے بڑی ہوشیاری سے کہانی گھڑ لی تھیتم صحیح تو کہہ رہی ہو نا " پولیس نے اسکو غور سے دیکھتے ہوئے کہا اچھا اس کاغذ پر دستخط کردو کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور یہ میرا کارڈ رکھ لو اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے فون کر دینا-اماں نے کارڈ لیکر تھینک یو کہا" میرے مولا جنکو تیرا خوف نہیں ہے اس پولیس سے کیسے خوفزدہ ہیں اور یہ کارڈ تو اب ترپ کا پتہ ہوگااماں نے اپنے رب کا شکر اداکیا
Wednesday, February 13, 2013
ماں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ReplyDeleteعابدہ رحمانی صاحبہ ایسی ایک حقیقت میرے ذھن میں بھی ھے
انشاءاللہ کل پوسٹ کروں گا
امریکہ میں ماں ماں نہیں ھوتی آیا ھوتی ھےان کے لیے جو ڈالر کی چمک میں
ماں کی عظمت بھول جاتے ہیںں
بخشالوی
Muhammad Arif Sultan
ReplyDeleteAstaghfirullah,
As you sow so shall you reap.
ReplyDeleteعابدہ جی! پہلے داد ۔ مجھے یہ کہانی اچھی لگی ۔ روانی ہے سسپنس ہے بیانیہ صاف و سہل ہے اور انجام منطقی ہے ۔ تھوڑی سی مزید محنت اور نظر ثانی اسے کا تاثر بڑھا سکتی ہے (ا ب بھی) ۔ ویسے مجھے اس کی کاٹ اور ہم وطنوں کے دہرے معیار پر آپ کو مبارکباد دینی چاہئے ۔ آپ نے بغیر تکلف بڑی سہولت سے باہمی محبتوں کے جھوٹے پن کا پول کھول دیا ہے ۔ ہاں! پولیس سے ڈرنے والے خوف خدا سے عاری ہیں اور رشتوں کا تقدس پامال کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں !!۔
مقصود ۔
کریہ جناب آپ ٹہرے پوپ کھانی اسپیشلسٹ دیکھئے کچھ اور نوک پلک درست کرتی ہوں-
ReplyDelete