Tuesday, May 27, 2025

وہ دس سیکنڈ

وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-
 عابدہ رحمانی

پاکستان اور اہل پاکستان آ ج یوم تکبیر منا رہے ہیں ۔ ٢٨ مئ ١٩٩٨ کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے آپ کو اسلامی ایٹمی قوت کے طور پر منوا لیا تھا۔۔ وقت کا پہیہ بہت تیزی ے گھوم گیا  ایٹمی دھماکوں کا سہرە باندھنے والے میاں نواز شریف اسوقت پھر بر سر اقتدار ہیں  ۔۔یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن پاکستان میں بھی یقینا ایسا قانون لاگو ہونا چاہیۓ کہ اقتدار کا دورانیہ زیادە ے زیادە دو مرتبہ تک محدود کر دیا جاۓ۔ جیسے کہ امریکہ میں ہے تاکہ نئی قیادت اور رہنماؤں کو آزمایا جائے۔۔الله کرے کہ میاں  صاحب اقتدار کی مدت بحسن و خوبی پوری کریں اور پاکستان کے لیۓ ایک خوش آئند اور نیک فال ثابت ہوں۔
پاکستانی ایٹمی قوت کے باواآدم بجا طور پر ذوالفقار علی بھٹو ہیں  جنہوں نے پاکستان کی حفاظت ایٹمی قوت بننے میں ہی جانی اور کہا،"ہم گھاس کھا لینگے لیکن ایٹم بم ضرور بنائینگے "اس لیۓ اب ہمیں گلہ نہیں کرنا چاہیۓ کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہمار ے گونا گوں معاشی ، اقتصادی اور سب بڑھ کر توانائی کے مسائیل  کیوں ہیں- اسکے بعدبھٹو صاحب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے دریافت کرکے لاۓ اور باقی ایک زندە تاریخ ہے۔۔۔۔
 And rest is history

28 مئی 1998 کا دن پاکستانی قوم کی زندگی میں بہت اہمئیت کا حامل ہے کیونکہ آج پاکستان نے ایک طویل جد و جھد اور قربانیوں کے بعد اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا سے منوالیا -اس دھماکے کے بعد جہاں پاکستا نیوں کا سر فخر سے بلند ہوا وہاں انکو مزید بندشوں اور قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت بن سکا ہےاور ابتک واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت سے مالا مال ہے۔ اس سے پہلے عراق نے کوشش کی تھی لیکن اسکا ایٹمی ری ایکٹر اسرائیل نے فضا ئی حملہ کرکے منٹوں میں تباہ کردیا- اس دہماکےاور ایٹمی طاقت بننے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے دائمی حریف بھارت کی جارحیت میں کچھ کمی آگئی ہےاور اب وہ ہم سے دوستی کا خواہاں ہے -کیونکہ اگر مد مقابل برابر کا ہو تو ہوش ٹھکانے رہتے ہیں-حالانکہ باقی دراندازیان اور چالیں جاری ہیں- 

ایران اس صف میں شامل ہونے کی کوشش میں ہے دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے-آیٹمی طاقت ہونا جہاں ایک ملک اور قوم کی طاقت اور مضبوطی کی علامت ہے وہاں اس کرہ ارض، ہماری دنیا اور انسانیت کی تباھی و بربادی کے لئے ایک مہلک ترین ہتھیارہے- شائد کرہ ارض پر قیامت اسی ایٹمی تباہ کاری کے نتیجے میں آئے اور پورے کرہ ارض کو نیست و نابود کر کے رکھ دے- انسان نے اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کر رکھاہے -اب ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ اسرافیل صور لئے ہوئے تیار کھڑا ہے اور نمعلوم کب نفخالاولیٰ کا وقت آجائے-اور اسکے بعد ہی محشر بپا ہو-

چند برس پہلے امریکی ریاست نیو میکسیکومیں البقرقی کے مقام پر کرک لینڈ ایرفورس بیس میں ایٹمی عجائب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا-یھاں ان ایٹم بموں کے ماڈل دیکھے جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے-ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے متعلق ایک فلم بھی دیکھی " وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا"

پولینڈ کی مادام کیوری وہ پہلی سائنسدان تھی جنہوں نے ریڈئم کو سرطان کے علاج کے لئے استعمال کیا -انکے بعد انکی بیٹی بھی اس شعبے میں آیئں اس پر مزید تحقیق ہوتی رہی- دوسری جنگ عظیم کے دوران یورینئم کی افزودگی پر کام ہوتا رہا -یورو پین اور جرمن سائنسدان ہٹلر اور مسولینی سے عاجز آکر امریکہ روانہ ہوگئے، ان میں مشہور سائنسدان البرٹ آئین سٹائن شامل تھے یوں 1938 اور 39 میں امریکہ سائنسدانوں کا مرکز بن گیا-البرٹ آئن سٹائن پہلے تو حکومت امریکہ کے لئے ایٹمی تحقیق کرنے سے انکار کیا- اسکے نتیجے میں امریکی صدر روزویلٹ نے انہیں قید کیا، بعد ازاں وہ راضی ہوئے اور یون تحقیقی کام شروع ہوا- انکے ساتھ کولمبیا یونیورسٹی کے نوبل یافتہ کیمیا دان اور مشہور سائنسدان شامل تھے - ان پناہ گزیں سائنسدانوں کے اشتراک سے میں ہٹن پروجیکٹ کا آغاز ہوا-

-

16 جولائی 1945 کو امریکہ نے لاس الاموس ، نیو میکسیکو میں پہلا ایٹمی دھماکہ ٹرینیٹی کے نام سے کیاجب تجرباتی طور پر پہلی مرتبہ ایٹم بم کا دہماکہ ہواتو بے انتہا خوشیاں منائی گئیں-اسطرح دنیا ایک نئے ایٹمی عھد سے روشناس ہوئی اور امریکہ کو دنیا میں بالادستی حاصل ہوئی-

اس دہماکے کے بعد امریکہ نے اپنےپہلے دو ایٹم بم بنائے ان کے نام 

little boy ,Fat man

تھے- اگرچہ امریکہ ایٹمی قوت بن چکا تھا اور دنیا کو اسکی مہلک تباہ کاریوں کا اندازہ بھی تھا لیکن پھر بھی کوئی قوم ذہنی طور یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نھیں تھی کہ یہ گھناؤنا تجربہ اسکے اوپر اسے آزمایا جائے گا-

دوسری جنگ عظیم آخری مراحل میں تھی کہ امریکہ اسپر بضد ہو گیا کہ وہ پرل ہاربرکے حملے کا بدلہ لے کر جاپان کو مزا چکانا چاہتا ہے-اسوقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپان پر ایٹم بم بنانے کی دستاویز پر دستخط کر دئے دو بی -29 بمبار جنکے نام اینولائے گے اور بوک اسکار تھے ایٹم بموں کو لے کر جاپان کی طرف روانہ ہوئےاسوقت امریکہ کے سپہ سالارجنرل آئزن ہاور تھے-

16 اگست 1945 کی بد قسمت صبح تھی امریکہ میں صبح کی چہل پہل تھی سان ڈیئاگومیں ایک مرین ڈویژن جاپان پر قبضے کی تیاری کر رہاتھا- اینولائے گے کے پہونچنے سے کچھ دیر قبل تین بمبار طیاروں نے ہیروشیما پر ہلکی بمباری کیان جہازوں کے جانے کے بعد آل کلئر کا سائرن بج رہا تھا اینولا گے صبح آٹھ بج کر گیارہ منٹ پر اپنے مقررہ ہدف پر پہونچا، ھواباز نے فیٹ مین کو گرانے کا لیور دبایا- فیٹ مین کو ہیروشیما کی زمین تک پھنچنے میں 43 سیکنڈ لگے، 15 سیکنڈ میں جھاز وہاں سے بحفاظت نکل گیا-بم کے پھٹنے میں دس سیکنڈ لگے-ان دس سیکنڈ میں اتنی بڑی تباہی ہوئی کہ دو لاکھ پچاس ہزار افراد کی آبادی کا یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا، ہیرو شیما کا 67 فیصد حصہ بالکل تباہ ہوگیا-دوسرا بم لٹل بوائے جسے بوک سکار لے کر ناگاساکی گیا تھا اس نے نسبتا کم تباہی مچائی اس کم درجے کی تباھی میں 39 ہزار افراد ہلاک اور 25 ہزار زخمی ہوئے-اس ایٹمی بمباری کے اثرات اتنے شدید تھے کہ چار ہزارمیٹر کے نصف قطرتک لوگوں کے کپڑے جلنے شروع ہوگئے اور ایک ہزار میٹر کے نصف قطر کے لوگوں کے جسم جل کر خاکستر ہوگئے، شھر میں تمام مکانات یا تو جل گئے یا مٹی کا ڈھیربن گئے، دہماکےکی شدت سے لوگ بیس فٹ دور جا گرے-

بمباری کے مرکز سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر موجود لوگ ایک گھنٹے کے اندر ہلاک ہوگئے، تجوریوں میں بند نوٹ اور کاغزات خاکستر ہو گئے- سکول کے بچوں کے ناشتہ دانوں میں کھانا سیاہ اور انکی پانی کی بوتلیں پگھل گئیں-دریاۓ توبسو کے کنارے ہزاروں لوگ پانی پیتے ہوۓ ہلاک ہوۓ - حد درجہ بلند درجہ حرارت سے بچ جانے والوں کو سردی نے آگھیرا اور سخت سردی سے ٹھٹھر گئے -شہر کے شمال مغرب میں کالی بارش ہوئی اس بارش سے تمام آبی جانور ہلاک ہوۓ تابکاری کے اثرات سے پتھروں پر انسانی تصویریں ابھر آئیں --تابکاری کے اثرات 66 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بہی نسل در نسل چلے آ رہے ہیں--

اس تباہی کے بعد جاپان نے اپنی شکست کا اعتراف کیا 2 ستمبر 1945 کو ٹوکیو کی بندرگاہ پر کھڑے جنگی جہاز میسوری کے عرشے جنرل میک آرتھر نے جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو سے شکست نامے پر دستخط کروالئے-آج ہیرو شیما پھر ایک ہنستا بستا شہرہے- 
یہ ابھی تک اعلانیہ ایٹم بم کا پہلا اور آخری حملہ ہے، اگرچہ عراق اور افغانستان میں کلسٹر اور فاسفورس بموں کا استعمال ہوا اور اب اگر امریکہ چاہے تو ڈرون یا میزائیل کے زریعے اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتی ہے-

بھارت اور پاکستان نے بھی اپنےمیزائیل اس مقصد کے لئے تئار رکھے ہیں وہ اپنے ترشولوں اور ہم اپنے حتفوں اور شاہینوں کے فاصلے ناپتے ہیں- اور اب تو ڈرون بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں ۔۔

لیکن نیوکلیائی ھتیاروں کی اس دوڑ میں کیا بنی نوع انسانی کی تباہی بربادی اور ہلاکت کے علاوہ کوئی اور راز بھی پوشیدہ ہے-؟

عابدہ

Abida Rahmani

Sunday, May 25, 2025

جنگ یا جھڑپ

 جنگ یا جھڑپ ( الحمد للہ کہ ہم غزہ نہیں ہیں )


از


عابدہ رحمانی


 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے کے دوران ۲۸ سیاح ہلاک ہو جاتے ہیں   اور بھارت اس دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر ببانگ دہل بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے ۔۔ سب سے پہلے تو وہ سندھ طاس  معاہدہ ختم کرنےکا اعلان کرتا ہے ، اور پاکستانیوں کو پیاسا  مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب  کو چھ مختلف مقامات پر میزائل حملہ کر تا ہے، جس سے کئی افراد بشمول بچے اور خواتین شہید ہو جاتے ہیں ۔ بھاولپور میں جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر کے گھرانے کے دس افراد شہید ہو جاتے ہیں ۔۔کیونکہ بھارت کا الزام جیش محمد اور لشکر طیبہ پر تھا ۔۔ اسکو ایک طرح سے بھارت نے اپنی کامیابی جانا کہ اسنے درست   اہداف کو نشانہ بنایا ، زیادہ تر  اسنے نے مساجد کو نشانہ بنایا جو کہ خوش قسمتی سے اس وقت خالی تھے لیکن اس بزدلانہ حملے کے نتیجے میں ۳۱ افراد جاں بحق ہوئے ۔ 

ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ پاکستان غافل تھا ، جانی نقصان تو حد درجہ افسوسناک تھا لیکن پاکستانی چینی ساختہ جے تھنڈر نے بھارت کے فرا نسیسی ساختہ تین رافیل تباہ کر دیے ( غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پانچ یا چھ) رافیل  جہاز انکی اپنی سرحدوں میں تباہ کئے  ،میڈیا پر ایک ہنگامہ مچ گیا ۔۔بھارت بوکھلاہٹ میں انٹ شنٹ بکے جا رہا تھا ۔۔ سر مایہ کاری میں رافیل کے شئیر بری طرح گرے جبکہ چینی کمپنی کے اوپر جا پہنچے ۔۔

پہلی مرتبہ ان جہازوں کے نام اور انکے متعلق جانا یوں لگا جیسے کہ انکی کارکردگی کی آزمائش ہو رہی ہے ۔۔


اس آپریشن کو بھارت نے آپریشن سیندور کا نام دیا ۔۔  وہ سرخ رنگ جو ہندو اپنی سہاگنوں کی مانگ میں بھرتے ہیں ۔۔ ۔۔ 

اگلے روز یعنی ۸ مئی کوپاکستان میں جگہ جگہ ڈرون آنے شروع ہوئے ۔کراچی ،لاہور ، راولپنڈی ، سر گودھا اور دیگر کئی مقامات پر ڈرون آئے ۔۔ ان ڈرونز سے کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوا لیکن ایک سراسیمگی پھیل گئی اور یہ بھی معلوم ہواکہ یہ سب اسرائیل ساختہ ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ یہود و ہنود پاکستان کے خلاف متحد ہو چکے ہیں ۔۔ہمیں یہ تشویش تھی کہ پاکستان نے ڈرونز کو آنے سے پہلے تباہ کیوں نہیں کیا ؟ لیکن یہ حکمت عملی یوں سمجھ میں أئی ، کہ ان ڈرونز کو دراصل پاکستان کے فوجی اہداف اور صلا حیت کو جانچنے کیلئے بھیجا گیا تھا ، جسپر پاکستان نے کمال ہوشیاری اور عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جام کردیا ، ان پر میزائل مارنا حد درجہ بے وقوفی تھی ۔۔ اس لئے انہوں نے اسے خود تباہ ہونے دیا یا مارٹر گن سے مار گرایا ۔۔۔یہ جنگ یا جھڑپ دراصل ٹیکنالوجی کی مہارت اور برتری کی جنگ تھی۔۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام واقعے سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے جن میں بھارت پوری طرح ملوث تھا ، لیکن پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی طور پر نہیں اچھالا ۔۔ اور نہ ہی بھارت پر چڑھائی کی لیکن بھارت کے عزائم کچھ اور لگ رہے تھے ۔۔ 

آٹھ مئی کی رات کو نور خان ائر بیس air base پر میزائل حملہ ہوتا ہے جس سے قریبی عمارات بھی متاثر ہوتی ہیں اسی طرح بھلواری ائر فورس کے اڈے پر حملہ ہوتا ہے جس سے اسکواڈرن لیڈر سمیت کئی شہادتیں ہو جاتی ہیں ۔

نو مئی کو پاکستانی فوج اور ائر فورس کا صبر کا  پیمانہ  لبریز ہونے کے بعد آپریشن کیا گیا جسے بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡص یعنی سیسہ پلائی دیوار  کا نام دیا گیا (یہ  نام سورہ صف کی چوتھی آیت سے لیا گیا) ۔ اور اس میں بھارت کی متعدد عسکری تنصیبات نشانہ بنایا گیا۔ اور انکے اور کئی ہوائی جہاز تباہ ہوئے ۔۔ تمام پاکستانی یکجان و متحد تھے عسکری تنصیبات اور کارخانوں میں بلیک أۄٹ کیا کیا ، نئے قومی ترانے بنے ۔ ایک جوش اور ولولے کی کیفیت ہوئی ۔۔۔۔ترکی ، چین اور دیگر چند ممالک نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ۔۔ غزہ والوں نے اپنی تباہ حالی بھلا کر پاکستان کے جھنڈے بنائے ۔۔

لیکن یہ کیا کہ دس مئی کو ہی شام پانج بجے امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش سے جنگ بندی عمل میں آئی ۔۔ الحمد للہ کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے سرخروی اور فتح سے نوازا ورنہ یہود و ہنود کو ایک اور غزہ تشکیل دینے میں کیا دیر تھی ۔۔۔ اللہ تعالی ان مردان حق و جہاد کو بہترین اجرعطا فرمائے جنہوں نے پاکستان کی دفاع کو مضبوط بنایا ۔۔

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے

 ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق


عابدہ رحمانی


سات سمندر پار کا سفر کر کے مادر وطن پہنچی تو 12 گھنٹے پورے 12 گھنٹے میری زندگی سے حذف ہو چکے تھے دن رات میں بدلی اور رات دن میں' عرف عام میں اسکو جیٹ لیگ کہتے ہیں یعنی جیٹ طیاروں کی برق رفتاری سے جو ہمارے اوقات بدل جاتے ہیں نمعلوم اردو میں اسکا کوئی متبادل ہے؟ جیٹ طیاروں کی برق رفتاری کی بدولت جب ہم مغرب سے مشرق کی سمت اتے ہیں تو وقت کا زیاں'ہوتا ہے  جبکہ مشرق سے مغرب کی سمت ہمیں فائدہ ہوتا ہے لیکن جسم کی گھڑی جسکو ہم باڈی کلاک کہتے ہیں اسکو تعین کرنے میں اور اپنی رفتار متوازن کرنے میں وقت لگ جاتا ہے نمعلوم پاکستان آکر میری یہ گھڑ ی کچھ سست کیوں  پڑ جاتی ہےرات کو سوئی ہوں تو لگتا ہے دوپہر کا قیلولہ کیا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے اور جب وہاں رات شروع ہوتی ہے تو نیند آنے لگتی ہےکم ازکم ایک ہفتہ ان اوقات کار کے عادی ہونے میں لگتاہےعلاوہ ازیں خاموش اور ساؤنڈ پروف ماحول کا عادی ہونے کے بعد جہاں زیادہ سے زیادہ شور اپنے ٹی وی کا یا رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی ایمرجنسی گاڑیوں کے سائرن کا ہوتا ھےیہاں لگتا ہے کہ ہر طرف ایک شور بپا ہے-جس بالائی کمرے میں مقیم ہوں اسکے باہر کی طرف ایک گلی گزرتی ہےجہاں رات بھر آمد و رفت رہتی ہے لوگوں کی باتیں، موٹر سائیکلوں کا شور اور رات کے سناٹے کو درہم برہم کرتے ہوۓ من چلوں کے قہقہےاور چینخیں ،ذرا سا خاموشی چھائ تومساجدسے آذان فجر بلند ہوئی آداب سحر گاھی کے تقاضےاس سے قبل ہی پوری کرنے کی کوشش ہوتی ہےساتھ ہی ساتھ بیشمار پرندوں کی چھچھاہٹ سامنے لگے ہوۓ لوکاٹ کے درخت پر ہلہ بول دیا جاتاہے بلبل، قمری،ٖفاختائیں،چڑیایں  ،کوے ،طوطے  جھنڈ کے جھنڈ آنا شروؑع ہوئیں- خوبصورت سریلی صدائیں ایک نئی صبح کے آغاز کی نوید لے کر آتی ہیں - ۔۔اب تو کوئل بھی خوب کوکتی ہے ۔گویا اسلام آباد میں بھی کوئل کا رسک ہو گیا ہے۔

 کراچی میں علی الصبح کوکتی ہوئی کوئلوں کی صدائیں سب پرندوں پر حاوی ہوتیں جب وہ میرے شریفے ، چیکو ،جامن اور انجیر کے پھل ٹونک بجا کردیکھتیں- ماحولیات کے ایک ماہر نے ایک مرتبہ کہا 'کراچی کی کوئل دیوانی ہوگئی ہے 'کوئل برسات میں کوکتی ہے جبکہ کراچی میں سارا سال کوکتی رہتی ہے غالبا نمی اور رطوبت کی وجہ سے انہیں برسات کا لمس ملتا ہے-

اب جبکہ نیند نہیں آرہی ہے تو بہتر یہ ہے کہ اٹھکر فطرت سے رشتہ جوڑا  جاے اور قریبی پارک میں چہل قدمی کی جاۓ کافی اچھا بڑا پارک ہے-روشیں چہل قدمی یا جاگنگ کے لئے بنی ہوئی ہیں-اسلام اباد میں موسم بہار بھر پور انداز میں آتا ہے ہر طرف خوبصورت ، خوشنما پھول بہار دکھا رہے ہیں شائقین نے سڑک تک کیاریاں بنا رکھی ہیں -پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے اسی وجہ سے جب میں ترقی یافتہ ممالک میں جاتی ہوں تو انکے پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں  یا فٹ پاتھوں سے جہاں مستفیدہوتی ہوں، وہاں مجھے سخت رشک و رقابت بھی ہوتی ہے۔۔۔ -

چہل قدمی میں صحت کی صحت اور چشم ما روشن و دلے ما شاد والی کیفیئت ہوتی ہے کیونکہ پھول پودے ہمیشہ سے اپنی کمزوری ہیں ۔۔صبح آٹھ بجےسے گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں  مالی ،ماسی ڈرائیور،کوڑا اٹھانے والےکی آمد شروع ہوئی ان سب سلسلوں سے ہم کافی بے نیاز ہو چکے ہیں ۔۔اگر ہفتے دو ہفتے میں کوئی میڈmaid یا مالی آتا ہے تو اسکے اوقات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں باقی شوفر وہ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں اگر کسی کو بتاؤ کہ پاکستان میں ہمیں یہ سہولیات ہیں تو انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں -۔۔

اسکے بعد آوازوں اور صداؤں کا ایک سلسلہ بندھ جاتاہے اور جہاں تک کوڑا اٹھانے کا سلسلہ ہے ، میرے مختلف ٹھکانوں میں یہ طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے مثلا ایک جگہ ایک ہفتے باورچی خانہ کے کوڑے کے ساتھ باغ کے کچرے کا ڈمپسٹر جائے گا اگلے ہفتے ری سائیکل کا، ایک جگہ ہفتے میں دو روز کوڑا جاتا ہے -کوڑا اٹھانے والے ٹرک کا  ڈرائیور بیٹھے بیٹھے اپنے ہائیڈ رالک گئیر سے اس کوڑا دان کو اٹھاکر الٹ دیتا ہے اور یہ جا وہ جا-ٹورنٹو والے کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہیں انکے ہاں باورچی خانے کے کچرے کے لئے ایک الگ کوڑا دان ہوتا ہے جسمیں ایک مخصوص پلاسٹک کی تھیلی لگتی ہے یہ پلاسٹک جلد تحلیل ہوتا ہے اور ماحول کا دوست ہے-اس میں اگر ایک کاغذ بھی پایا گیا تو اسپر چٹ لگا کر چھوڑ دیا جائےگا-اس سے وہ کھاد بناتے ہیں -  

 ہمارے یہاں پاکستان میں ری سائیکل کا انتظام کیا بہترین ہے بچے کوڑے سے ایک ایک کاغذ چن کر الگ کرتے ہیں ،انکو کوڑا چننے والے بچوں کا ناام دیا گیا ہے کیونکہ یہی  انکا ذریعہ معاش ہے- کوڑا اٹھانے والوں نے بھی مختلف تھیلے رکھے ہوتے ہیں-  اور اس میں مختلف اشیاء کو علئحدہ رکھا جاتاہے-اسے بیچ کر انکی کمائی  ہوتی ہے --      "ردیاں اخباراں ،ٹین ڈبے لینے والے  کی صدائیں میں بچپن سے سنتی آئی ہوںوہ بھی ریسائکل یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک بہتریں ذریعہ ہے -بیچنے والے کو رقم الگ مل جاتی ہے-کراچی میں جب اپنا گھر سمیٹا تو بلا مبالغہ ہزاروں کی ردی بیچی جسمیں آڈیو کیسٹ ،ویڈیو کیسٹ اور  بیشمار کتابیں، رسائل شامل تھے-،۔۔

پریشر کوکر بنوالو ، منجی پیڑی ٹھکوالو،پہلے ایک اور صدا آتی تھی پانڈے قلعئی کروالو جو اب خارج از وقت ہو چکی' سبزی والے ،آئیس کریم والے جو اب چاکلیٹ بھی بیچتے ہیں انکے ٹھیلوں کی موسیقی رات گۓ تک بچوں کو کشاں کشاں کھینچتی ہے- بھانت بھانت کی آوازیں اور صدائیں ایک چہل پہل ایک رواں دوں    زندگی کی علامت ہیں ۔۔۔۔

-انہی آوازوں میں مجہے وہ بچی بری طرح یاد آتی ہے جو چونی مٹھی میں دبانے ہوئی اسوقت گیٹ پر لپک کر جاتی جب دور سے یہ   صدا آتی' چنا جور  گرم  بابو میں لایا مزیدار چنا جور گرم' اسے اسکا گانا بھی بیحد پسند تھا اور اسکا گرم گرم چنا جور بھی۔۔-پھر اسکا اور چنا جور والے کا رشتہ اتنا گہرا ہوا کہ اگر کسی روز اسے وہ نہ ملی- تو وہ گیٹ پر کھڑا گھنٹیاں بجاتا رہتا  اور اپنے گانے کو اور اونچا اور لمبا کر دیتا 'بےبی آگیا تیرا چنا جور گرم والا ۔۔۔" 

جب بڑے ہوکر اسنے 'کابلی والا' دیکھی تو اسے اپنا چنا جور گرم والا بہت یاد آیا جب امی ابا کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی،کہ اسکو پیچھے کیوں لگادیا ہے  --   --

Friday, May 9, 2025

یوم مئی

شکاگو کے جن مزدوروں کی یاد میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ ممالک میں یہ دن یعنی یوم مئی منایا جارہا ہے ، شکاگو کے مزدور اس سے قطعا بے خبر ہیں۔۔
امریکہ اور کینیڈا میں لیبر ڈے ستمبر کے پہلے ویک اینڈ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور یہ عام تعطیل ہوتی ہے -- یہ سہ روزہ چھٹی لیبر ڈے ویک اینڈ کہلاتی ہے۔۔۔۔۔