Tuesday, May 27, 2025
وہ دس سیکنڈ
Sunday, May 25, 2025
جنگ یا جھڑپ
جنگ یا جھڑپ ( الحمد للہ کہ ہم غزہ نہیں ہیں )
از
عابدہ رحمانی
22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے کے دوران ۲۸ سیاح ہلاک ہو جاتے ہیں اور بھارت اس دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر ببانگ دہل بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے ۔۔ سب سے پہلے تو وہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنےکا اعلان کرتا ہے ، اور پاکستانیوں کو پیاسا مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کو چھ مختلف مقامات پر میزائل حملہ کر تا ہے، جس سے کئی افراد بشمول بچے اور خواتین شہید ہو جاتے ہیں ۔ بھاولپور میں جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر کے گھرانے کے دس افراد شہید ہو جاتے ہیں ۔۔کیونکہ بھارت کا الزام جیش محمد اور لشکر طیبہ پر تھا ۔۔ اسکو ایک طرح سے بھارت نے اپنی کامیابی جانا کہ اسنے درست اہداف کو نشانہ بنایا ، زیادہ تر اسنے نے مساجد کو نشانہ بنایا جو کہ خوش قسمتی سے اس وقت خالی تھے لیکن اس بزدلانہ حملے کے نتیجے میں ۳۱ افراد جاں بحق ہوئے ۔
ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ پاکستان غافل تھا ، جانی نقصان تو حد درجہ افسوسناک تھا لیکن پاکستانی چینی ساختہ جے تھنڈر نے بھارت کے فرا نسیسی ساختہ تین رافیل تباہ کر دیے ( غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پانچ یا چھ) رافیل جہاز انکی اپنی سرحدوں میں تباہ کئے ،میڈیا پر ایک ہنگامہ مچ گیا ۔۔بھارت بوکھلاہٹ میں انٹ شنٹ بکے جا رہا تھا ۔۔ سر مایہ کاری میں رافیل کے شئیر بری طرح گرے جبکہ چینی کمپنی کے اوپر جا پہنچے ۔۔
پہلی مرتبہ ان جہازوں کے نام اور انکے متعلق جانا یوں لگا جیسے کہ انکی کارکردگی کی آزمائش ہو رہی ہے ۔۔
اس آپریشن کو بھارت نے آپریشن سیندور کا نام دیا ۔۔ وہ سرخ رنگ جو ہندو اپنی سہاگنوں کی مانگ میں بھرتے ہیں ۔۔ ۔۔
اگلے روز یعنی ۸ مئی کوپاکستان میں جگہ جگہ ڈرون آنے شروع ہوئے ۔کراچی ،لاہور ، راولپنڈی ، سر گودھا اور دیگر کئی مقامات پر ڈرون آئے ۔۔ ان ڈرونز سے کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوا لیکن ایک سراسیمگی پھیل گئی اور یہ بھی معلوم ہواکہ یہ سب اسرائیل ساختہ ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ یہود و ہنود پاکستان کے خلاف متحد ہو چکے ہیں ۔۔ہمیں یہ تشویش تھی کہ پاکستان نے ڈرونز کو آنے سے پہلے تباہ کیوں نہیں کیا ؟ لیکن یہ حکمت عملی یوں سمجھ میں أئی ، کہ ان ڈرونز کو دراصل پاکستان کے فوجی اہداف اور صلا حیت کو جانچنے کیلئے بھیجا گیا تھا ، جسپر پاکستان نے کمال ہوشیاری اور عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جام کردیا ، ان پر میزائل مارنا حد درجہ بے وقوفی تھی ۔۔ اس لئے انہوں نے اسے خود تباہ ہونے دیا یا مارٹر گن سے مار گرایا ۔۔۔یہ جنگ یا جھڑپ دراصل ٹیکنالوجی کی مہارت اور برتری کی جنگ تھی۔۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام واقعے سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے جن میں بھارت پوری طرح ملوث تھا ، لیکن پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی طور پر نہیں اچھالا ۔۔ اور نہ ہی بھارت پر چڑھائی کی لیکن بھارت کے عزائم کچھ اور لگ رہے تھے ۔۔
آٹھ مئی کی رات کو نور خان ائر بیس air base پر میزائل حملہ ہوتا ہے جس سے قریبی عمارات بھی متاثر ہوتی ہیں اسی طرح بھلواری ائر فورس کے اڈے پر حملہ ہوتا ہے جس سے اسکواڈرن لیڈر سمیت کئی شہادتیں ہو جاتی ہیں ۔
نو مئی کو پاکستانی فوج اور ائر فورس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد آپریشن کیا گیا جسے بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡص یعنی سیسہ پلائی دیوار کا نام دیا گیا (یہ نام سورہ صف کی چوتھی آیت سے لیا گیا) ۔ اور اس میں بھارت کی متعدد عسکری تنصیبات نشانہ بنایا گیا۔ اور انکے اور کئی ہوائی جہاز تباہ ہوئے ۔۔ تمام پاکستانی یکجان و متحد تھے عسکری تنصیبات اور کارخانوں میں بلیک أۄٹ کیا کیا ، نئے قومی ترانے بنے ۔ ایک جوش اور ولولے کی کیفیت ہوئی ۔۔۔۔ترکی ، چین اور دیگر چند ممالک نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ۔۔ غزہ والوں نے اپنی تباہ حالی بھلا کر پاکستان کے جھنڈے بنائے ۔۔
لیکن یہ کیا کہ دس مئی کو ہی شام پانج بجے امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش سے جنگ بندی عمل میں آئی ۔۔ الحمد للہ کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے سرخروی اور فتح سے نوازا ورنہ یہود و ہنود کو ایک اور غزہ تشکیل دینے میں کیا دیر تھی ۔۔۔ اللہ تعالی ان مردان حق و جہاد کو بہترین اجرعطا فرمائے جنہوں نے پاکستان کی دفاع کو مضبوط بنایا ۔۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے
ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق
عابدہ رحمانی
سات سمندر پار کا سفر کر کے مادر وطن پہنچی تو 12 گھنٹے پورے 12 گھنٹے میری زندگی سے حذف ہو چکے تھے دن رات میں بدلی اور رات دن میں' عرف عام میں اسکو جیٹ لیگ کہتے ہیں یعنی جیٹ طیاروں کی برق رفتاری سے جو ہمارے اوقات بدل جاتے ہیں نمعلوم اردو میں اسکا کوئی متبادل ہے؟ جیٹ طیاروں کی برق رفتاری کی بدولت جب ہم مغرب سے مشرق کی سمت اتے ہیں تو وقت کا زیاں'ہوتا ہے جبکہ مشرق سے مغرب کی سمت ہمیں فائدہ ہوتا ہے لیکن جسم کی گھڑی جسکو ہم باڈی کلاک کہتے ہیں اسکو تعین کرنے میں اور اپنی رفتار متوازن کرنے میں وقت لگ جاتا ہے نمعلوم پاکستان آکر میری یہ گھڑ ی کچھ سست کیوں پڑ جاتی ہےرات کو سوئی ہوں تو لگتا ہے دوپہر کا قیلولہ کیا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے اور جب وہاں رات شروع ہوتی ہے تو نیند آنے لگتی ہےکم ازکم ایک ہفتہ ان اوقات کار کے عادی ہونے میں لگتاہےعلاوہ ازیں خاموش اور ساؤنڈ پروف ماحول کا عادی ہونے کے بعد جہاں زیادہ سے زیادہ شور اپنے ٹی وی کا یا رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی ایمرجنسی گاڑیوں کے سائرن کا ہوتا ھےیہاں لگتا ہے کہ ہر طرف ایک شور بپا ہے-جس بالائی کمرے میں مقیم ہوں اسکے باہر کی طرف ایک گلی گزرتی ہےجہاں رات بھر آمد و رفت رہتی ہے لوگوں کی باتیں، موٹر سائیکلوں کا شور اور رات کے سناٹے کو درہم برہم کرتے ہوۓ من چلوں کے قہقہےاور چینخیں ،ذرا سا خاموشی چھائ تومساجدسے آذان فجر بلند ہوئی آداب سحر گاھی کے تقاضےاس سے قبل ہی پوری کرنے کی کوشش ہوتی ہےساتھ ہی ساتھ بیشمار پرندوں کی چھچھاہٹ سامنے لگے ہوۓ لوکاٹ کے درخت پر ہلہ بول دیا جاتاہے بلبل، قمری،ٖفاختائیں،چڑیایں ،کوے ،طوطے جھنڈ کے جھنڈ آنا شروؑع ہوئیں- خوبصورت سریلی صدائیں ایک نئی صبح کے آغاز کی نوید لے کر آتی ہیں - ۔۔اب تو کوئل بھی خوب کوکتی ہے ۔گویا اسلام آباد میں بھی کوئل کا رسک ہو گیا ہے۔
کراچی میں علی الصبح کوکتی ہوئی کوئلوں کی صدائیں سب پرندوں پر حاوی ہوتیں جب وہ میرے شریفے ، چیکو ،جامن اور انجیر کے پھل ٹونک بجا کردیکھتیں- ماحولیات کے ایک ماہر نے ایک مرتبہ کہا 'کراچی کی کوئل دیوانی ہوگئی ہے 'کوئل برسات میں کوکتی ہے جبکہ کراچی میں سارا سال کوکتی رہتی ہے غالبا نمی اور رطوبت کی وجہ سے انہیں برسات کا لمس ملتا ہے-
اب جبکہ نیند نہیں آرہی ہے تو بہتر یہ ہے کہ اٹھکر فطرت سے رشتہ جوڑا جاے اور قریبی پارک میں چہل قدمی کی جاۓ کافی اچھا بڑا پارک ہے-روشیں چہل قدمی یا جاگنگ کے لئے بنی ہوئی ہیں-اسلام اباد میں موسم بہار بھر پور انداز میں آتا ہے ہر طرف خوبصورت ، خوشنما پھول بہار دکھا رہے ہیں شائقین نے سڑک تک کیاریاں بنا رکھی ہیں -پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے اسی وجہ سے جب میں ترقی یافتہ ممالک میں جاتی ہوں تو انکے پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں یا فٹ پاتھوں سے جہاں مستفیدہوتی ہوں، وہاں مجھے سخت رشک و رقابت بھی ہوتی ہے۔۔۔ -
چہل قدمی میں صحت کی صحت اور چشم ما روشن و دلے ما شاد والی کیفیئت ہوتی ہے کیونکہ پھول پودے ہمیشہ سے اپنی کمزوری ہیں ۔۔صبح آٹھ بجےسے گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں مالی ،ماسی ڈرائیور،کوڑا اٹھانے والےکی آمد شروع ہوئی ان سب سلسلوں سے ہم کافی بے نیاز ہو چکے ہیں ۔۔اگر ہفتے دو ہفتے میں کوئی میڈmaid یا مالی آتا ہے تو اسکے اوقات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں باقی شوفر وہ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں اگر کسی کو بتاؤ کہ پاکستان میں ہمیں یہ سہولیات ہیں تو انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں -۔۔
اسکے بعد آوازوں اور صداؤں کا ایک سلسلہ بندھ جاتاہے اور جہاں تک کوڑا اٹھانے کا سلسلہ ہے ، میرے مختلف ٹھکانوں میں یہ طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے مثلا ایک جگہ ایک ہفتے باورچی خانہ کے کوڑے کے ساتھ باغ کے کچرے کا ڈمپسٹر جائے گا اگلے ہفتے ری سائیکل کا، ایک جگہ ہفتے میں دو روز کوڑا جاتا ہے -کوڑا اٹھانے والے ٹرک کا ڈرائیور بیٹھے بیٹھے اپنے ہائیڈ رالک گئیر سے اس کوڑا دان کو اٹھاکر الٹ دیتا ہے اور یہ جا وہ جا-ٹورنٹو والے کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہیں انکے ہاں باورچی خانے کے کچرے کے لئے ایک الگ کوڑا دان ہوتا ہے جسمیں ایک مخصوص پلاسٹک کی تھیلی لگتی ہے یہ پلاسٹک جلد تحلیل ہوتا ہے اور ماحول کا دوست ہے-اس میں اگر ایک کاغذ بھی پایا گیا تو اسپر چٹ لگا کر چھوڑ دیا جائےگا-اس سے وہ کھاد بناتے ہیں -
ہمارے یہاں پاکستان میں ری سائیکل کا انتظام کیا بہترین ہے بچے کوڑے سے ایک ایک کاغذ چن کر الگ کرتے ہیں ،انکو کوڑا چننے والے بچوں کا ناام دیا گیا ہے کیونکہ یہی انکا ذریعہ معاش ہے- کوڑا اٹھانے والوں نے بھی مختلف تھیلے رکھے ہوتے ہیں- اور اس میں مختلف اشیاء کو علئحدہ رکھا جاتاہے-اسے بیچ کر انکی کمائی ہوتی ہے -- "ردیاں اخباراں ،ٹین ڈبے لینے والے کی صدائیں میں بچپن سے سنتی آئی ہوںوہ بھی ریسائکل یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک بہتریں ذریعہ ہے -بیچنے والے کو رقم الگ مل جاتی ہے-کراچی میں جب اپنا گھر سمیٹا تو بلا مبالغہ ہزاروں کی ردی بیچی جسمیں آڈیو کیسٹ ،ویڈیو کیسٹ اور بیشمار کتابیں، رسائل شامل تھے-،۔۔
پریشر کوکر بنوالو ، منجی پیڑی ٹھکوالو،پہلے ایک اور صدا آتی تھی پانڈے قلعئی کروالو جو اب خارج از وقت ہو چکی' سبزی والے ،آئیس کریم والے جو اب چاکلیٹ بھی بیچتے ہیں انکے ٹھیلوں کی موسیقی رات گۓ تک بچوں کو کشاں کشاں کھینچتی ہے- بھانت بھانت کی آوازیں اور صدائیں ایک چہل پہل ایک رواں دوں زندگی کی علامت ہیں ۔۔۔۔
-انہی آوازوں میں مجہے وہ بچی بری طرح یاد آتی ہے جو چونی مٹھی میں دبانے ہوئی اسوقت گیٹ پر لپک کر جاتی جب دور سے یہ صدا آتی' چنا جور گرم بابو میں لایا مزیدار چنا جور گرم' اسے اسکا گانا بھی بیحد پسند تھا اور اسکا گرم گرم چنا جور بھی۔۔-پھر اسکا اور چنا جور والے کا رشتہ اتنا گہرا ہوا کہ اگر کسی روز اسے وہ نہ ملی- تو وہ گیٹ پر کھڑا گھنٹیاں بجاتا رہتا اور اپنے گانے کو اور اونچا اور لمبا کر دیتا 'بےبی آگیا تیرا چنا جور گرم والا ۔۔۔"
جب بڑے ہوکر اسنے 'کابلی والا' دیکھی تو اسے اپنا چنا جور گرم والا بہت یاد آیا جب امی ابا کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی،کہ اسکو پیچھے کیوں لگادیا ہے -- --