Friday, November 25, 2016

موت کا ایک دن معین ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے 
از
عابدہ رحمانی

مرزا غالب نے فرمایا ،
موت کا ایک دن معین ہے ،نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کارخانہ اجل میں روزانہ لاکھوں کروڑوں نفوس کا آنا جانا  لکھا ہوا ہے ۔ کسی کو موت سے فرار نہیں ہر ذی روح جو ا س دنیا میں آئی ہے اسے اس دنیا سےرخصت ہونا  ہے  اور یہ ایک ا اٹل  اور واشگاف حقیقت ہے۔قرآن پاک  کے ہر دوسرے صفحے پر موت  کی ماہیت ، اللہ کے پاس واپسی ، جنت دوزخ  ، عذاب وثواب  اور أخرت میں سر خروئی کا ذکر ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے” کل نفس ذائقۃ الموت “ہر نفس یا شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ سورہ رحمان  میں ارشاد باری تعالی  ہے” کل  من علیھا فان و یبقی وجه  ربک ذوالجلال والاکرام  “ ہر ایک چیز فنا ہو جائے گی اور باقی رہے گا تمہارا رب جو رعب ، دبدبے اور عزت والا ہے ۔۔


ایک حکایت میں درج تھا کہ جب اللہ تعالی نے زمین پر انسانوں کی پیدائش کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کومشاہدہ کرایا کہ قیامت تک اتنے انسان روئے زمین پر آئینگے۔فرشتوں نے کہا اے باری تعالی یہ تو بے شمار لوگ ہیں اور زمین بہت چھوٹی ہے ۔اسپر اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ سب ایک وقت میں نہیں ہونگے بلکہ انکے پیچھے موت لگی ہوگی یہ  پیدا ہونگے اور مرتے رہینگے۔ اس پر فرشتوں نے کہا کہ اے خالق پھر تو  یہ ہر وقت موت سے  خوفزدہ  رہینگے اور زندگی کا کوئی لطف   حاصل نہیں کر پائیں گے اسپر اللہ  تعالی نے فرمایا کہ میں دنیا میں انکے لئے اسقدر دلچسپیاں اور رونقیں پیدا کر دونگا کہ وہ انمیں کھو کر موت کو بھولے رہینگے۔
اور یہ ایک حقیقت ہے  کہ زندگی میں اسقدر مصروفیات ، دلچسپیاں ، رونقیں اور گہما گہمی ہے  کہ بسا اوقات اسمیں غرق ہوگر ہم موت کو وقتی طور پر فراموش کر دیتے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ نہ جانے ہم کب تک زندہ رہینگے ،  زندگی کی جائز خوشیوں کے حصول کا اللہ تعالی نے ہمیں حقدار بنایا ہےاور انکے  جائزحصول میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
طبی سائنس نے بے انتہا ترقی کر لی ہے ۔۔ مہلک بیماریوں کے نت نئے علاج دریافت ہوئے ، جن سے عمروں میں اضافہ  تو ہو گیا  لیکن ترقی یافتہ  ممالک میں بوڑھوں کی ایک فوج ظفر موج ہے بلکہ  اکثر ممالک میں  جوانوں کی  نسبت بوڑھوں کی أبادی  زیادہ ہے۔۔ انمیں جو بوڑھےفعال   اور  قدرے صحت مندہیں وہ تو ابھی تک کار أمد  ہیں ۔  ورنہ اکثر نہ ہی زندوں میں ہیں  نہ مردوں میں ہیں ۔ 
زندگی کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت موت ہےکہتے ہیں زندگی موت کی امانت ہے ۔۔ ایک مومن کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ ہر انسان دنیا میں آتے ہوئے اپنا نوشتہ اجل حق تعالی کے پاس سے لکھوا کر آتا ہے  اور وقت مقررہ پر اسکا خاتمہ ہو جاتاہے ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا یستاخرون ساعتہ و لا یستقدمون۔ ہم اسمیں ایک گھڑی کی تاخیر و تقدیم نہیں کرتے۔

زندگی اور موت کا یہ کھیل مختلف صورتوں سے  ازل   سے جاری ہے اور ابدتک جاری رہے گا۔ موت کیلئے نہ عمر کی حد ہے  نہ ہی کوئی اور تعین ۔ بچہ ، جوان  بوڑھا جسکی اجل     جب أجائے  اسے رخصت ہونا پڑتا ہے ۔
سب ٹاٹ پڑا رہ جائے گا ، جب لاد چلے گا بنجارا
سامان سو برس کا ، پل کی خبر نہیں ۔
ہر ذی روح جسکا جو بھی  مذہب ، مسلک اور عقیدہ ہے اسے موت سے فرار نہیں ہے ۔ دنیا میں روزانہ  ہی کہیں پر فساد  برپا ہے ، جنگ ہے حادثات ہیں  جنمیں  مجموعی  طور پر بےشمار  انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔  دنیا کی تاریخ میں بے شمار شقی ،ظالم ،جابر ،قاہرحکمران اور  لوگ  آئے جنکی وحشت ،  دہشت  اورجبروت سے ایک عالم کانپتا تھا ۔۔کسی نے کھوپڑیوں کے مینار بنائے کسی نے اتنا قتل عام کیا کہ گلیوں میں خون کی نہریں بہتی رہیں  انکے نام سے ایک عالم دہشت زدہ ہوتا  تھا   لوگ انکا نام سنکر تھر تھر کانپتے تھے ۔لیکن  جب اجل أئی تو  ہر ایک نے موت کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ۔ انکی اکثریت  انتہائی عبرت ناک حالات میں دنیا سے ر خصت  ہوئی۔۔
 انبیاء، صدیقین، شہداء   اور  صالحین جو اس دنیا سے رخصت ہوئے انکے لئے اللہ تبارک و تعالی نے بلند درجات اور اعلے مقام رکھے ہیں ۔۔  ہم بحیثیت مسلمان  حیات بعد الموت میں سرخروئی  اور کامیابی کے طلبگار ہیں  ۔ پوری زندگی اسکے لئے جدوجہد کرتے   ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں وہ فوز عظیم بلند کامیابی عطا فرمائے ۔  انبیاء ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کی صحبت عطا فرمائے  اور اپنی جنتوں کاحق دار  بنائے۔۔
اللہ تعالی سے  انتہائی گڑ گڑا کر دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیا و أخرت کی رسوائی سے اور ہر طرح کی جسمانی وذہنی معذوری سےأ ّخری وقت تک  بچائے اپنی رضا ،ایمان کی سلامتی اورأسانی کے  ساتھ خاتمہ بالخیر کرے  اور أخرت میں سرخروئی عطا فرمائے۔۔ أمین ثم أمین 
کون کہتا ہے کہ موت ائی تو مر جاؤںگا 
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤ نگا 
Sincerely,

Friday, November 4, 2016

رشتوں میں محبت کیسے پیدا کریں ۔۔



رشتوں میں محبت کیسے پیدا کریں؟


1. ایک دوسرے کو سلام کریں - (مسلم: 54)

2. ان سے ملاقات کرنے جائیں - (مسلم: 2567)

3. ان کے پاس بیٹھنے اٹھنے کا معمول بنائیں۔ - (لقمان: 15)

4. ان سے بات چیت کریں - (مسلم: 2560)

5. ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آئیں - (سنن ترمذی: 1924، صحیح)

6. ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ دیا کریں - (صحیح الجامع: 3004)

7. اگر وہ دعوت دیں تو قبول کریں - (مسلم: 2162)

8. اگر وہ مہمان بن کر آئیں تو ان کی ضیافت کریں - (ترمذی: 2485، صحیح)

9. انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں - (مسلم: 2733)

10. بڑے ہوں تو ان کی عزت کریں - (سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)

11. چھوٹے ہوں تو ان پر شفقت کریں - (سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)

12. ان کی خوشی و غم میں شریک ہوں - (صحیح بخاری: 6951)

13. اگر ان کو کسی بات میں اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کریں - (صحیح بخاری: 6951)

14. ایک دوسرے کے خیر خواہ بنیں - (صحیح مسلم: 55)

15. اگر وہ نصیحت طلب کریں تو انہیں نصیحت کریں - (صحیح مسلم: 2162)

16. ایک دوسرے سے مشورہ کریں - (آل عمران: 159)

17. ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں - (الحجرات: 12)

18. ایک دوسرے پر طعن نہ کریں - (الھمزہ: 1)

19. پیٹھ پیچھے برائیاں نہ کریں - (الھمزہ: 1)

20. چغلی نہ کریں - (صحیح مسلم: 105)

21. آڑے نام نہ رکھیں - (الحجرات: 11)

22. عیب نہ نکالیں - (سنن ابو داؤد: 4875، صحیح)

23. ایک دوسرے کی تکلیفوں کو دور کریں - (سنن ابو داؤد: 4946، صحیح)

24. ایک دوسرے پر رحم کھائیں - (سنن ترمذی: 1924، صحیح)

25. دوسروں کو تکلیف دے کر مزے نہ اٹھائیں - (سورہ مطففین سے سبق)

26. ناجائز مسابقت نہ کریں۔ مسابقت کرکے کسی کو گرانا بری عادت ہے۔ اس سے ناشکری یا تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں - (صحیح مسلم: 2963)

27. نیکیوں میں سبقت اور تنافس جائز ہےجبکہ اس کی آڑ میں تکبر، ریاکاری اور تحقیر کارفرما نہ ہو - (المطففین : 26)

28. طمع ، لالچ اور حرص سے بچیں - (التکاثر: 1)

29. ایثار و قربانی کا جذبہ رکھیں - (الحشر: 9)

30. اپنے سے زیادہ آگے والے کا خیال رکھیں - (الحشر: 9)

31. مذاق میں بھی کسی کو تکلیف نہ دیں - (الحجرات: 11)

32. نفع بخش بننے کی کوشش کریں - (صحیح الجامع: 3289، حسن)

33. احترام سے بات کریں۔بات کرتے وقت سخت لہجے سے بچیں - (آل عمران: 159)

34. غائبانہ اچھا ذکر کریں - (ترمذی: 2737، صحیح)

35. غصہ کو کنٹرول میں رکھیں - (صحیح بخاری: 6116)

36. انتقام لینے کی عادت سے بچیں - (صحیح بخاری: 6853)

37. کسی کو حقیر نہ سمجھیں - (صحیح مسلم: 91)

38. اللہ کے بعد ایک دوسرے کا بھی شکر ادا کریں - (سنن ابو داؤد: 4811، صحیح)

39. اگر بیمار ہوں تو عیادت کو جائیں - (ترمذی: 969، صحیح)

40. اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو جنازے میں شرکت کریں - (مسلم: 2162)

Tuesday, November 1, 2016

ہیلری ڈونلڈ ٹرمپ اور برنجلینا


ہیلری ڈونلڈ ٹرمپ اور برنجلینا 

ہیلری ، ڈونلڈ ٹرمپ اور برنجلینا

از
عابدہ رحمانی
امریکی انتخابات میں بمشکل 10 ,11روز باقی ہیں اتنے مرحلے سر ہونیکے بعد اب اونٹ کا سوئے کے ناکے نکلنا باقی ہے ۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ ہیلری کی جیت ہی جیت ہے۔ ہیلری کی جیت سے امریکی تاریخ کا ایک انوکھا نیا باب رقم ہو نے جا رہا ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کو صدارتی نامزدگی حاصل ہوئی جو عہدہ صدارت تک پہنچنا ہی چاہتی ہے ۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اسکی کردار کشی یا بد کر داری کا ٹرمپ کارڈ سامنے لے آئی یہ سب عین موقع پر ہیلری کے حواریوں اسکے ابلاغ عامہ کے حامیوں کے باعث ہی ممکن ہوا ہوگا اس ویڈیو میں ڈونلڈ کی اخلاق باختہ ،بیہودہ شیخی خوریوں نے اسکی صدارتی امیدواری کا بٹّہ بٹھا دیا ۔۔ اسکے متنازغہ بیانات میکسیکن اور مسلمانوں کے خلاف اور اسکے روئے سے پہلے ہی کافی ووٹر اور امریکی عوام نالاں تھے ۔خود ریپلکن میں صدر جارج بش نے کہا کہ وہ اس مرتبہ ڈیمو کریٹک  امیدوار یعنی ہیلری کو ووٹ دینگے۔۔اریزونا کے مشہور اخبار اریزونا ریپبلک نے پہلی مرتبہ ڈیمو کریٹک امیدوار کی حمایت کی ہے ۔یوٹاہ کی ریپبلکن ریاست بھی پیچھے ہٹ رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بل کلنٹن کے مونیکا اور دوسرے سکینڈل کو اچھالنے کی کوشش کی لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اسے محض ہیلری کے ای میلز ہیک ہونے اور بن غازی میں امریکی سفیر کے ہیلری کے وزارت خارجہ کے دور  میں مارے جانے کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں مل سکی ۔ اس موضوع پر کانگریس اور سینیٹ کمیٹی ہیلری کا کڑا احتساب کر چکی ہے ۔
بس اب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو
صدارتی انتخابات میں کامیابی کسکا مقدر ہے۔یہ آٹھ نومبر کو امریکی عوام فیصلہ کرینگے۔ 
 
أنجلينا جولي اور بریڈپٹ جب ایک جان دو قالب ہوئے تو بر نجیلینا کہلائے ۔سالہا سال بغیر شادی کے  جوڑا بنے رہے ،چند اپنے بچے پیدا کئے اور چند بچے گود لئے جنمیں مختلف رنگ و نسل کے بچے ہیں ۔۔بڑی مشکلوں سے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے کہ انکی شادی ہوئی اور انا فانا طلاق کی نوید آگئی اب اسکی نوبت کیسے اور کیوں آئی اسکی تفصیل میں کون جائے ۔۔
مجھے فلموں اور فلمی اداکاروں کی انتہائی معمولی شد بد ہے ۔انجلینا جولی کو اسکے فلموں سے زیادہ اسکے رضاکارانہ اور مخیرانہ کام سے جانا جب وہ دنیا بھر کے آفت زدہ علاقوں میں جاتی اور متاثرین کے دکھ درد کا مداوا بنتی ۔پاکستان کے زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کے امداد کے لئے وہ پاکستان میں پاکستانی سادہ سے لباس میں سر پر دوپٹہ اوڑھے موجود تھی۔ یونیسکو نے اسے اپنا خیر سگالی سفیر بنایا ہوا ہے ۔۔
بریڈپٹ ،جینیفر انیسٹون کا شوہر نامدار تھا جب مسٹر اور مسز سمتھ کے ٹی وی ڈرامے میں انجلینا کے ساتھ آیا اور یوں جینیفر کو روتا دھوتا چھوڑ کر وہ برنجلینا بنتے گئے۔
ہالی ووڈ کی اپنی ہی دنیا ہے ،عزت ،دولت ،شہرت ،دغابازیاں ،بے وفائیاں اپنے معراج پر ہیں ۔۔کچھ تھوڑے بہت فلاح و بہبود کے کام کرکے نیک نام بن گئے ورنہ اس معاشرے میں بھی بدنامیوں کی کمی نہیں۔۔ امریکہ میں اس اسطرح کی بیوفائیاں کوئی گردن زدنی جرم نہیں ہےاور  یوں تو کہیں بھی نہیں ابلاغ عامہ اور اب سوشل میڈیا کا پیٹ بھرنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے ۔ ہاں عہدہ صدارت پر آنیوالوں کا کڑا احتساب ہوتا ہے اور کوئی بے قاعدگی اور بیہودگی برداشت نہیں ہوتی۔۔



Sent from my iPad

Monday, June 13, 2016

An encounter with child beggars!


An encounter with the child beggars!

Today while walking in a nearby park, came across a bitterly crying small girl of Afghan origin. We went towards her and asked her if some thing went wrong with her. She was barely 6,7 years old a beautiful young lady holding a wiper and duster in her hand. I first talked to her in Pushtu but she told me that she is better in Urdu, therefore we conversed in Urdu. She told that her brother and sister are taken away by police to the police station and that is the reason of her crying . She pointed to a nearby police station across the road and further told us that her father has died and the mother is under debt, therefore they are working or begging to help her out. She told us that the mother is studying Quran at home and they live in Golra.(Golra is a nearby slums)
The girl was wearing nice clothes but quite a bit dusty and dirty. We decided to help her as we approached the road she pointed to the oncoming police truck," this is it, my brother and sister are inside this truck. We signalled the truck to stop. It was full with small kids like them and a whole team of police was sitting with them and on the front seat in plain clothes. One of the gentleman came down and told us that they are from  Police working with Child protection and welfare bureau, CPWB  . These kids run after cars on busy thoroughfares and any of them can come under the wheels and any bad accidents can happen. No one under 14 is  allowed on road to beg or work.( Why the over 14 then?) We take  these kids  into custody and hand them over to Child protection agency , who sends them to schools.The small ones go to Edhi centre from there they are handed over to their parents with an affidavit that they would not beg again.
A boy screamed from the truck , they do not follow it and come again. " What about you I asked?"
We asked the girl if she wishes to join them on truck because the gentleman told us that we are doing this exercises for their protection and to make them better citizens. She insisted that she wants her siblings back . On our assurance three kids came down from the truck , one boy two girls. To my utter amazement  small girl may be 3 and the boy a year older,tiny small lovely kids.The other girl may be 8 years old. The boy told us that he had Rs.500 earnings which he handed over to police . The other girl had Rs100 .They promised us not to beg and went to towards their home.
Such a weired feeling  about their mother , how she left these tiny small  kids on the streets to beg and run after cars and how  are we promoting these beggars by giving our alms, charity  and donations.How could we help these kids to be  useful  and productive citizenz of Pakistan?
Are we the counter parts to help these emotional black mailers? There are so many unanswered questions...

Abida Rahmani
 Islamabad Pakistan
Sent from my iPad

رمضان کا چاند

رمضان کا چاند تو دیکھا نہیں

از

عابدہ رحمانی


مغرب کے وقت بے خبر برآمدے میں بیٹھے رہے پھر مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد واٹس ایپ پر تاکاجا نکی کی تو جابجا چاند دیکھنے کی تصاویر ،مبارکبادیں اور خبریں ۔ وقت گزر چکا تھا پھر بھی باہر دوڑ لگائی ، گویا کہ پہلی کا چاند  اب بھی ہمارا ہی منتظر ہوگا۔۔ اب حبیب جالب تو ہیں نہیں کہ کہیں ،

" اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔بے نام سے سپنے دیکھا کر۔

ہمارے خیال کے مطابق رویت ہلال کمیٹی اپنی دکان سجاتی ، چاند دیکھنے یا نہ دیکھنے کی خبریں موصول ہوتیں  اور پھر فیصلہ ہوتا کہ کل روزہ ہوگا یا نہیں ۔۔

 لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس مرتبہ باآسانی رمضان کا چاند بہتوں کو دکھائی دیا ، مدتوں بعد اہل پاکستان نے ساتھ روزہ رکھا اور اسی طرح دنیا کے دیگر خطوں میں بھی ہوا ۔۔ پاکستان میں مولانا پوپل زئی اور مفتی منیب کا معرکہ اپنی موت آپ مرگیا۔ اب اللہ کرے کہ اسی طرح عید کے چاند کی بھی جلوہ أرائی ہو جائے۔۔ اور یک جہتی کی ایک مثال قایم ہو۔

 ہاں چاند تو دیکھا نہیں پر پہلا روزہ رکھ کر دن میں تارے نظر آرہے تھے۔۔ گرمی کی شدت اور پھر چاہنے والوں کے فون پر فون ، رمضان کی مبارکباد اور طویل گپ شپ ۔۔ واٹس ایپ کی مفت سہولت اگر وائی فائی موجود ہو اور آواز صاف ہو تو کیا کہنے ۔۔اور کال دوسری جانب سے آرہی ہو تو اس شخص کی دل شکنی کرنیکا کیا فائدہ جسنے اتنی چاہت سے رمضان مبارک کا فون کیا ہو۔۔"بس  خدا کیلئے کسی تیسرے شخص کی بات نہ کرو چاہے اسنے آپکو کتنا ہی کیوں نہ ستایا اور دل دکھایا ہو ۔۔میری جان اپنا اور میرا روزہ پرائی غیبت سے آلودہ نہ کرو ساری محنت اکارت جائیگی اور اجر وہ کمبخت مفت میں لے جائے گا" لیکن یہ تاکید  مجھے بات ختم کرنیکے  بعد ہی یاد آئی اور میں مارے مروت کے بے مقصد سب سنتی رہی اور ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔ وہ رحمان و رحیم میری مغفرت فرمادے ۔۔ استغفار کرتی رہی ۔۔بندہ بشر ہوں بھول چوک ہوسکتی ہے۔۔ زبان سوکھ کر کانٹا ہوا چاہتی تھی ۔۔ذہن میں آیا جاکر غٹا غٹ تین گلاس ٹھنڈا پانی پی لوں ۔۔ قدم اٹھایا ہی تھا کہ یاد آیا میرا روزہ ہے ۔۔ بھول چوک ہو جاتی تو اللہ کی مہربانی اور رحم ہوتا ۔۔ یہی تو اس عبادت کی خاصیت ہے بندے اور أقا کا ایسا تعلق کہ وہی  اپنے بندےکے ظاہر    و باطن سے  باخبر ہے  اسلئے اسنے  اس عبادت کو اپنے لئے مخصوص ہی کر لیا۔۔

شروع شروع کے روزوں میں اسی طرح اکثر ہوجاتا ہے ،مہینے کے اختتام پر عید کے بعد بھی ایسی عادت ہوگئی ہوتی ہے کہ کچھ کھاتے پیتے ہوئے ایک لمحہ سوچنا پڑتا ہے  کہ کیں روزہ تو نہیں ہے ۔۔ایک مرتبہ تو تقریباً پورا کھانا کھانے بعد یاد آیا کہ روزہ ہے ۔۔یہ مضمون شروع کیا ہی تھا اور آج ساتواں روزہ بھی آن پہنچا اتنی تیزی سے ، میں تو پانچواں سمجھ رہی تھی۔۔اللہ کی شان کہ ادھر گرمی بڑھی اور ادھر دھؤواں دھار بارش ہوگئی جس سے موسم خوشگوار ہوگیا ۔۔

سوچا تھا اس مرتبہ رمضان میں تلی ہوئی چیزیں نہیں کھائینگے ۔کھجور ، پھل اور شربت لیکن بھلا کیسے صبر ہو ۔۔پکوڑے ، سموسے تو جیسے لوازم ہو گئے۔۔وہ بھی وقت تھا جب بچے کہتے تھے "کھانا تو سال بھر کھاتے ہی ہیں ۔۔یہی ایک مہینہ ان چٹخاروں کا ہے ۔ اور وہ اسی کو روزے کا نام دیتے تھے اور شاید اسی بہانے روزہ بھی رکھ لیتے تھے ۔۔

پاکستان میں ابھی رمضان أیا ہی چاہتا ہے  کہ گرانی ساتھ أجاتی ہے ۔ اشیا ئے خورد و نوش کی قیمتیں أسمان پر أ جاتی ہیں۔۔ یہ أج کی بات نہیں ہے بلکہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ہر رمضان یہی رونا ہوتا ہے ۔۔لیکن ہر ایک اپنی بساط بھرخوراک  پر خرچ کرتا ہے ۔  دن کے وقت بازاروں میں عید کی خریداری کا ہجوم اور شام کو افطار سے ایک دو گھنٹے پہلے مشہور  مٹھائی اور پکوان والے اپنے تلنے کے سٹال سجا لیتے ہیں جہاں اسقدر ہجوم ہوتا ہے  ۔لمبی لمبی قطاریں ، جیسے کہ سب کچھ مفت بٹ رہاہے ۔۔ قسما قسم کے پکوڑے ، سموسے ، جلیبیاں ، چاٹ ، دہی بڑے اور نہ جانے کیا کیا  اشیاء لذت کام و دہن کیلئے ۔ ہر شخص کے ہاتھ میں اشیائےخورد  و  نوش کا ایک تھیلا  اسکی بساط کے مطابق ضرور ہوگا ۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہر ایک  اپنی خواہش  کے مطابق اچھا کھانا چاہتا ہے ایسا دنیا کے تمام مذاہب میں ہے کہ وہ اپنے خصوصی دنوں میں اہتمام کرتے ہیں اور مسلمانوں کا رمضان تو رمضان ہی ہے ۔۔پاکستان میں خربوزے اور تر بوز کے ماشاء اللہ ڈھیر لگے ہوئے ہیں اب تو أموں کی بہار بھی شروع ہوگئی ہے مہنگا کرنیکے  باوجود خوب بک رہے ہیں رمضان کے اختتام تک قیمتیں خود بخود گر جائینگی ۔ ایک مرتبہ کراچی میں ایسے ہی موسم کے رمضان میں تربوز کی قیمت دگنی تگنی ہوگئی اور أخر میں خوب بارشیں ہوئیں ۔ٹرکوں نے جو ڈھیر لگایا تو سڑے ہوئے تربوز کے تعفن میں سانس لینا مشکل ہو گیا۔

سخی اور صاحب دل  خواتین و حضرات اور اداریں رمضان راشن  اور افطاریاں دل کھول کر تقسیم کر رہے ہیں۔۔رمضان جو کہ نیکیوں کا موسم بہار کہلاتا ہے ۔جب فرض کا اجر ستر گنا  اور نفل کا فرض کے برابر ہو جاتا ہے  اسی عالم ا لغیب  پر ہمارا ایمان ہے  اور ہماری تمام تگ و دو اسی عالم الأخرت کی کامیابی کے  لئے ہے ۔۔ جسکے لئے اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ وہ سب سے بڑی کامیابی ہے  جسکی تمنا کی جاسکتی ہے ۔۔


أپ سبھوں کو جاتے ہوئے رمضان کی دلی مبارکباد ۔۔ اپنی دعاؤں میں مجھ عاجز  اور بالخصوص  متفرق و منتشر ، لہو لہو امت مسلمہ  کو ضرور یاد رکھیں۔۔

Wednesday, June 8, 2016

Ramzan ration distribution?

ASOA
Please find Link of Ramzan Ration Activity Report for kind information.

http://www.sapulse.com/new_comments.php?id=13761_0_1_0_M1

Best regards,
Rana Abdul Baqi,
Chairman,
Jinnah Iqbal South Asian Pulse Forum 

Ramzan Ration distribution by Rana Abdul Baqi sahib and his devoted team.
Abida Rahmani had the honor of participation in this exclusive ceremony.

Thursday, June 2, 2016

امریکی سیاسی دنگل






Subject: امریکی سیاسی دنگل




امریکی سیاسی دنگل 

از 

عابدہ رحمانی 


میرے شہر میں بہار کا موسم ہے باہر نکلو تو فضا میں ایک بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ہر طرف پرندوں کی چہچہا ہٹ ہے کچھ اپنے گھونسلوں کے لئے ٹھکا نے ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ہمنگ برڈ۔ بالکل منا سا پرندہ جو اردو میں پدی کہلاتا ہے جا بجا درختوں اور پھولوں سے جھول رہا


ہے اسکا منا سا گھونسلا بھی ایک شاہکار ہوتا ہے ۔


۔ جو شاخ نازک پہ آشیانہ ..بنے گا نا پائدارہوگا ۔


اس مختصر سے پرندے کے لئے اردو میں یہ محاورہ بھی مشہور ہے "کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ "۔ لیکن یہ اس حقیقت سے بے خبر اسی چھوٹے سے أشیانے میں خوش و خرم ہے ۔ یہ امریکہ کا وہ خطہ ہے جہاں کی سردیاں مختصر اور گرمیاں ہولنا ک ہوتی ہیں ۔۔

لیکن امریکہ میں اسوقت صدارتی امیدواروں کو چننے کا موسم ہے اور اس موسم نے پورے ملک ، ٹھنڈے ، گرم سب شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے پورے ملک میں بوڑھا، جوان ، بچہ سب ہی اس انتخابی مہم میں غلطاں و پیچاں ہے ۔وہ بھی جو ابھی قانوناووٹ دینے کے حقدار نہیں ہیں ۔ میڈیا کے ہر چینل سے امیدواروں کے بحث مبا حثے کا انتظام ہے ۔۔ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے تو امیداروں کی پوری ایک برات تھی جو اب چھٹتے چھٹتے ایک رہ گئی ہے 

۔۔ مشہورارب پتی تاجر اور ساہوکار ڈونلڈ ٹرمپ  اپنے تمام تر متعصب بیانات کے ساتھ سرفہرست ہے ۔۔۔ 

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اور حقیقتا ہے بھی- ہر چار سال کے بعد یہاں کے صدارتی انتخابات ہوتے ہیں ایک صدرچاہے کتنا ہی مقبول اور قابل کیوں نہ ہو ،دو مرتبہ سے زائد اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتا- سوائے فرینکلن  ڈی روزویلٹ کے جو چار مرتبہ صدارت کے عہدےپر فائز رہے اور انکا انتقال چوتھی مرتبہ کے انتخابات کے چند مہینے کے بعد ہوا۔  ۱۹۵۱ کے دوران امریکی أئین کی ۲۱ ویں ترمیم میں امریکی کانگریس نے یہ قانون منظور کر لیا  کہ اب صدارتی میعاد کا دورانیہ لگاتار دو مرتبہ جیتنے تک محدود ہوگا۔

مخالف پارٹیاں عموما دو بڑی پارٹیاں ہیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ - ریپبلکن جو عام طور پر جی او پی کہلاتی ہے اسکا کا انتخابی نشان ہاتھی ہے جبکہ ڈیموکریٹ کا گدھا ہے -ہاتھی کے مقابلے میں گدھا ایک کمزورسا جانور ہے لیکن باربرداری اور بوجھ ڈھونے کے لئے ہاتھی سے زیادہ مفید اور ہلکا پھلکا  ،  سیدھا سادا سا جانور ہے۔ ہاتھی کی نسبت اسکی ضروریات کافی قلیل ہیں-ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور --بہر حال یہ سب ہمارے دیسی محاورے اور استعارے ہیں جن سے امریکی قطعی نابلد ہیں نہ معلوم امریکیوں کو اپنے انتخابی نشان کے لئے ان ایشیائی، افریقی یا بر صغیری جانوروں کا خیال کیوں آیا؟ کیا امریکی جانوراس قابل نہیں تھے ؟--- اسپر غور کرنا پڑے گا

علاوہ ازیں ریپبلکن کا رنگ سرخ اور ڈیمو کریٹ کا نیلا ہے اسلئے جن ریاستوں میں ڈیموکریٹ اکثریت ہے انکو نیلی اور ریپبلکن اکثریت والی سرخ کہلاتی ہیں۔ووٹر  (رائے دہندگان )بھی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کے لئے پہلے سے رجسٹر شدہ ہوتے ہیں ۔


۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے ہیلری کلنٹن میدان میں ہیں برنی سینڈرز ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں لیکن نامزدگی کی امیدیں  دن بدن معدوم ہوتی جا رہی ہیں ۔۔۔۔ کھود کھود کر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔۔ ریپبلکن کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ ہر ایک کی ایسی کی تیسی کر تے ہوئے نامزدگی کے دروازے پر کر و فر سے کھڑا ہے۔۔ اسی طرح ہیلری کلنٹن امریکہ میں پہلی خاتون صدارتی امیدوار کا اعزاز حاصل کرکے تاریخ  رقم کر رہی ہیں ۔اب وہ اس تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح برنی کو مفاہمت پر أمادہ کردے ۔ برنی ایک یہودی نژاد  أزاد خیال  سینیٹر ہے اگر وہ منتخب ہوتا تو امریکی تاریخ میں اولیں یہودی نامزد امیدوار ہوتا۔


اوباما اپنا ّأخری برس خیر و خوبی سے گزارنے کی کوشش میں ہیں اسلئے یہ الزامات کہ وہ مسلمان ہے، امریکہ میں پیدا ہی نہیں ہوا یا اسکا اوبامہ کیئر ایک ناکام پروگرام تھا ،اسکا بال بیکا نہیں کرسکتے وہائٹ ہاؤس میں اسکے  ساڑھے سات برس پورے ہوا چاہتے ہیں ۔۔اور یہ کہ اب کب اور کیسے کوئی سیاہ فام قصر ابیض میں داخل ہوگا  ،یہ تو وقت ہی بتائے گا  اور یہ بھی کہ ہاتھی اور گدھا کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔۔


پچھلی مرتبہ  ۲۰۰۸ میں جب ڈیموکریٹک پارٹی اپنے امیدوار کو منتخب کر رہی تھی اور اس کیلئے باقاعدہ الیکشن کے طرز پر انتخاب ہو رہاتھا- اسوقت ہیلری کلنٹن کے متعلق سبکو یقین تھا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہوںگی اور امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہونگی -امریکہ جو روشن خیالی اور آزادئی را ئے  کا اتنا بڑا علمبردار ہے یہاں ابھی تک کوئی خاتون صدارتی نامزدگی تک حاصل نہیں کر سکی ۔سربراہ مملکت  بننا تو بہت دور  کی بات ہے ۔ نہ ہی صدر اور نہ ہی نائب صدر-اس معاملے میں تو ہمارے پسماندہ  تیسری دنیا کے ممالک ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں -پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش جہاں آئے دن خواتین حکمران ہوتی ہیں اب بھی آصف علی زرداری  بی بی کے بل بوتے پرہی سیاست کر رہے ہیں-اور نواز شریف مریم کو جانشین بنانے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔۔ بنگلہ دیشی حسینہ واجد ۴۵ برس کے بعد جماعت اسلامی کے معمر رہنماؤں کو پے درپے پھانسی دیکر اپنے انتقامی جذبے کی تسکین کر رہی ہے۔۔اور  وہ جو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزائیں پارہے ہیں۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔۔

  کلنٹن مونیکا سکینڈل میں مجھے ہیلری کا اپنے شوہر سے باوفائی کا انداز بہت بھایا تھا ،کچھ اپنی اپنی سی لگتی تھی ۔ اس زمانے میں، میں امریکہ میں تھی کچھ امریکن خواتین سے بات ہوئی تو انکو اسکے روئے پر سخت اعتراض تھا ٓ ایک عورت کہنے لگی 'ہیلری کا رویہ ہرگز ایک امریکن عورت کا نہیں ہے- اسکو فورا اپنے شوہر سے طلاق لینی چاہئے " لیکن ہیلری اپنےشوہر کے ساتھ کھڑی رہی - بالکل ہمارے ہاں کی خواتین کی طرح کہ صبح کا بھولا شام کو گھرآجا ئے تو اسکو ہرگز بھولا مت کہو-  کیونکہ ہم لوگ جس معاشرے اور ماحول سے ہیں وہاں پر عورت ایک وفا کا پیکر، وفا کی پتلی ہی تو ہے اور اس وجہ سے۲۰۰۸میں اس سے رابطے مٰیں تھی -بلکہ اسکے لئے رضاکارانہ کام کر رہی تھی- آئے دن میرے پاس ہیلری، بل کلنٹن اور چیلسی کے تعریفی اور شکرئے کے ای میلز آتے اور پرائمریزمیں ، ہیلری کی ٹاپ کالر اور ای میل بھیجنے والوں میں سے ایک بن گئی- کافی دلچسپ مشغلہ تھا- قصہ مختصر یہ کہ ہم نے ایڑی چوٹی کازور لگایا لیکن اوباما آیا اور چھا گیا - ہیلری نے ہار مان لی اور اوبامہ ڈیموکریٹ کا صدارتی نامزد بن گیا - لیکن امریکی سیاست اور مزاج دیکھئے دو دن پہلے وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئےہر حربہ آزمارہے تھےاور اب  ہیلری نے اعلان کیا کہ اب ہمارے سارے رضاکار اوباما کیلئے کام کرنگے اور ہم جیت کر دکھائینگے- تو پھر ہم نے وہی کام اوبامہ کیلئے کیا اور پھر اوبامہ اور مشل کے ای میلز ملنے لگے -انگلی پر خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والی بات تھی ۔۔ لیکن دلچسپ کام تھا ۔۔ اس مرتبہ میری کچھ اپنی مصروفیات تھیں اور ابھی تک نظر انداز کیا ہوا ہے۔۔

امریکہ معاشی کساد بازاری سے ایک حد تک تو نکل آیا ہے لیکن اب بھی کافی مقروض ہے ، ملازمتوں کی عدم دستیابی یعنی بیروزگاری  ایک بڑا مسئلہ ہے۔۔ ٹرمپ ہر دوسرے جملے میں یہ اعلان کرتا پھر رہاہے کہ میں امریکہ کو از سر نوایک شاندار ملک بنا دونگا۔۔شروع میں اسنے غیر قانونی تارکین وطن لاطینی یا میکسیکن افراد کے لئے سخت بیانات دئے اور یہ  کہ میکسیکو کی سرحد پر ایک دیوار بنا دی جائیگی تاکہ انکا امریکہ میں داخلہ بند ہو جائے ۔وہ بھی نت نئے جتن کرکے بہتر زندگی کی تمنا لئے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔نسبتا کم داموں پر وہ کام اور مزدوری کرتے ہیں جنکی عام امریکی زیادہ اجرات لیتے ہیں ۔لیکن بقول ٹرمپ انکے ساتھ جرائم پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد آجاتی ہے ۔ اسمیں ایک حد تک حقیقت بھی ہے ۔

سان برنارڈینو اور پیرس کے واقعے کے بعد ٹرمپ نے مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی کےسخت بیانات دئے جسکی عموماً اسکے ووٹر نے پذیرائی کی ۔۔حالانکہ ٹرمپ کے بزنس میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا کافی بڑا سرمایہ ہے۔۔  

ساتھ ہی اسنے یہ بیان بھی دئے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک سے امریکی فوجوں کو ہٹا لیگا اور اسلامی ممالک میں دخل اندازی بند کردیگا۔۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہوگا جسکے متعلق امریکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ عامہ بالکل خاموش ہے ۔۔

امریکی خارجہ پالیسیوں مین افراد یا صدور کے أنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اب تو یہ أنے والا وقت ہی بتا ئے گا کہ اس صدارتی دنگل میں کوں جیتتا ہے اور کون چاروں شانے چت ہو جاتا ہے ۔۔۔

ایک عام امریکی کی زندگی میں کیا فرق پڑ سکتا ہے ۔۔

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

منزل جاناں سے کوئی کامیاب أیا تو کیا ۔۔




  Sincerely,

Friday, May 20, 2016

15th of Shabaan rituals and innovation ( Bidaa )



Subject: 15th of Shabaan rituals and innovation ( Bidaa )



Shabi baraat , it's rituals, sunnah and Biddah !


by: Abida Rahmani


We are fast approaching into the night of 15th of Shaabaan. This night marks a night of festivity and celebrations in our culture and some of the Muslims all around the world.

Being a small kid, I remember impatiently waiting for this month of Shaabaan. This month marked the month of fireworks for us. We would make a big rag ball, dipped in kerosene oil for days. At night set it on fire and tried our muscles to throw it higher and higher.

Our elders would always participate in this fun. Sometimes this burning ball of rags would make ablaze here and there. Then we would get money from our elders for other fireworks, crackers, tracers, bombs (bums) and the innocent ones phuljarian , the twinkling stars. It was a month of celebrations and fun for us. 

Then after growing up a little bit, we were told to offer at least 100 rakaas of nawafil (nonobligatory prayers) on that night. Our maulvis or scholars were against the fireworks and called it a night of worship and salvation. In our families the ladies would gather and try to offer at least 100 rakaas,. The ladies used to make and distribute special meals among friends and families on that night. it was considered rewarding to be awake whole night and doing ibada.


In Urdu speaking families mostly it was a big ritual of making different kind of halwas. (This tradition is mostly related to the loss of teeth of Prophet s.a.w in battle of Uhad). So much toil and efforts were done in the preparations, days before this ritual would start. A variety of Halwas of suji, gram( channa), eggs, dry dates, coconut etc. the kids would distribute the delicacies among neighbors and friends. Those with sweet tooth would wait whole year for these Halwas . Meanwhile the cooking ladies tried their best to show expertise .All other cultures were not far behind in cooking their best meals and distributing to  poor and friends.

In General it was considered a night of festivities. I remember some of my friends wearing new clothes on this evening ,especially stitched for this occasion .

 The scholars or maulvis then asked the ladies not to get so tired in those preparations, it is not needed at all.They should preserve their energy for the night of worship, solitude and salvation. They have to fast the next day too.

Then after going through and interacting with  some more learned and authentic scholars of Islam came to know that even this is not a night of worship and salvation , therefore no extra efforts are required for this night and no fast is authentic according to sunnah for the next day. The Ahadith related to this night are weak and this celebrated night of power is ليلة القدرin the last 10 nights of Ramadan and not ليلة البراءات .

Once when I was visiting Egypt. On 14th of Shaabaan in Old Muslim Cairo, saw people buying beautifully made lanterns, sweets and vermicelli. On my query I was told that it is for the celebrations of this night the 15th Shabban.
Next day we were in haram Baitullah  Makkah for Umrah and many of the ladies were fasting.

It is great to practice authentic and pure religion and to simplify life but in this way we are taking all the beauty, fun and festivities from kids and families.

Here I ' m quoting some of the authentic narrations.

In preparation of Ramadan Muhammed (saaw) did fast frequently in the month of Sha’ban, and he recommended not to fast after 15th of Shabaan so that we can have full strength for Ramadan to fast.

There is no evidence of fasting on 15th of Sha'ban as compulsory/recommended ................ one can fast whenever, other than the obligatory fasting of RAMADHAN !

On The night of 15th Sha’ban the preparation for the Shab-e-Baraat festivities is also heating up. Most mainstream Sunni and Shia sects believe this night to be blessed and perform special prayers, keep a fast and distribute food. 

There is only one blessed night mentioned in the Qur’an, which is Laila tul Qadr. The Qur’an was sent down in this night and it is one of the nights in the last 10 days of Ramadan. However, those who believe that 15th Sha’ban is blessed interpret the verses in Surah Ad-Dukhan to refer to this night rather than the night of Qadr.

 حمٓ (١) وَٱلۡڪِتَـٰبِ ٱلۡمُبِينِ (٢) إِنَّآ أَنزَلۡنَـٰهُ فِى لَيۡلَةٍ۬ مُّبَـٰرَكَةٍۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ By the manifest Book (this Qur'ân) that makes things clear, (2) We sent it (this Qur'ân) down on a blessed night, addukhan 2,3

Many Scholars refer to this Ayah for Shabi Baraat or 15th of Shabaan anstead of Lailatul Qadar and made this night very special.


But is Surah Ad-Dukhan referring to the 15th Sha’ban or to the night of Qadr? The clue is in the reference to the revelation of the Qur’an:


Verily, We have sent it (this Qur’an) down in the night of Al-Qadr (Decree). [Surah Al-Qadr 97:1]
Therein descend the angels and the Ruh [Jibril (Gabril)] by Allah’s Permission with all Decrees. [Surah Al-Qadr 97:4]
The verses quoted above prove that the Qur’an was revealed on the night of Qadr, when Allah’s angels also descend with all Decrees (related to life, death and wealth). We then find the key evidence in Surah Al-Baqara which tells us exactly which month it is:

The month of Ramadan in which was revealed the Qur’an, a guidance for mankind and clear proofs for the guidance and the criterion (between right and wrong). So whoever of you sights (the crescent on the first night of) the month (of Ramadan i.e. is present at his home), he must observe Saum (fasts) that month, and whoever is ill or on a journey, the same number [of days which one did not observe Saum (fasts) must be made up] from other days. Allah intends for you ease, and He does not want to make things difficult for you. (He wants that you) must complete the same number (of days), and that you must magnify Allah [i.e. to say Takbir (Allahu Akbar; Allah is the Most Great] for having guided you so that you may be grateful to Him. [Surah Al-Baqara 2:185] [Emphasis added]

We can then conclude that the only night of blessing referred to in the Qur’an is the night of Qadr. There is no reference whatsoever to a Shab-e-Barat (or the night of 15th Sha’ban) as a blessed night.

The practices and beliefs associated with this night are a strange mish-mash of information found in the Qur’an and Sahih Hadith. Of the many things associated with this, it is said that Prophet Muhammad (SAW) visited a graveyard on the night of 15th Sha’ban. He prayed for the forgiveness of those who died as believers and were buried in Al-Baqi). Based on this hadith, Muslims have now created a ritual whereby they visit graveyards on this night every year. This 15 Sha’ban hadith is found in Tirmidhi. There is jirah (criticism) on this hadith and Tirmidhi himself acknowledged that the reference to 15th Sha’ban was based on a single report (this means that the hadith is classed as weak and is unreliable).

Crucially, we find authentic reports of this incident in Sahih Muslim (Sahih Muslim, Book #004, and Hadith #2127). There is no mention at all of Sha’ban, or of any other month when this incident happened. In fact, the Prophet (SAW) explained that he was ordered by angel Gabriel (AS) to pray for the forgiveness of the inhabitants of Al-Baqi. This is an isolated incident, in the sense that the Prophet (SAW) did not repeat this practice as a matter of routine. What we do learn from this hadith is a prayer for forgiveness for those who died as believers but we find no mention of a particular date, so we do not know which night it was.

Despite this, the 15 Sha’ban myths has gained acceptance and Muslims have started to visit graveyards on the 15th Sha’ban every year; this is a ritual that can only be classed as a Bidd’ah. Rather than sending a prayer for forgiveness regularly, what they have started to do instead is to congregate in graveyards, put flowers and kewra (fragrance) on graves and say Salat un Tasbeeh prayers all night. It is worth pointing out that Salat un Tasbeeh itself is an innovated prayer not proven from Prophet (SAW). And while some spend this night saying prayers, others light up fireworks and sparklers. As we do not tire of repeating, Bidd’ah tend to grow into more Bidd’ah very quickly and what we see is that one innovated festival makes room for many more.

It is also believed by these sects that reports of actions or deeds are taken to Allah on this night and this is why one should fast on the day. What we find in Sahih Hadith is that all matters are taken to Allah on Monday and Thursday every week, which is why Prophet (SAW) used to fast on these days. (Sahih Muslim, Book #006, Hadith #2603)

Abu Huraim reported Allah’s Messenger (may peace be upon him) as saying, “The deeds of people would be presented every week on two days, viz. Monday and Thursday, and every believing servant would be granted pardon except the one in whose (heart) there is rancor against his brother and it would be said: Leave them and put them off until they are turned to reconciliation. (Sahih Muslim, Book #032, Hadith #6224)

It is also believed that Allah’s decisions regarding matters of life, death and wealth are revealed to angels on 15 Sha’ban. This view contradicts the Qur’an, where we are told clearly that all such Decrees are brought by angels on the night of Qadr, which is a night in Ramadan.

We can conclude that:

There is only one blessed night, the night of Qadr, mentioned in the Qur’an. The Prophet (SAW) recommended nafl Ibadah in the last 10 nights of Ramadan, one of which may be the night of Qadr. This is the night when the Qur’an was revealed and when angels bring Allah’s Decrees.

The Prophet (SAW) visited the graveyard of Al-Baqi one night and said a prayer for those who died as believers. There are no authentic reports which tell us exactly which night this was.


Here is  the Hadith:

Muhammad b. Qais said (to the people): Should I not narrate to you (a hadith of the Holy Prophet) on my authority and on the authority of my mother? We thought that he meant the mother who had given him birth. He (Muhammad b. Qais) then reported that it was ‘A’isha who had narrated this: Should I not narrate to you about myself and about the Messenger of Allah (may peace be upon him)? We said: Yes. She said: When it was my turn for Allah’s Messenger (may peace be upon him) to spend the night with me, he turned his side, put on his mantle and took off his shoes and placed them near his feet, and spread the corner of his shawl on his bed and then lay down till he thought that I had gone to sleep. He took hold of his mantle slowly and put on the shoes slowly, and opened the door and went out and then closed it lightly. I covered my head, put on my veil and tightened my waist wrapper, and then went out following his steps till he reached Baqi’. He stood there and he stood for a long time. He then lifted his hands three times, and then returned and I also returned. He hastened his steps and I also hastened my steps. He ran and I too ran. He came (to the house) and I also came (to the house). I, however, preceded him and I entered (the house), and as I lay down in the bed, he (the Holy Prophet) entered the (house), and said: Why is it, O ‘A’isha, that you are out of breath? I said: There is nothing. He said: Tell me or the Subtle and the Aware would inform me. I said: Messenger of Allah, may my father and mother be ransom for you, and then I told him (the whole story). He said: Was it the darkness (of your shadow) that I saw in front of me? She said: Whatsoever the people conceal, Allah will know it. He said: Gabriel came to me when you saw me.. He (gabriel) said: Your Lord has commanded you to go to the inhabitants of Baqi’ (to those lying in the graves) and beg pardon for them. I said: Messenger of Allah, how should I pray for them (How should I beg forgiveness for them)? He said: Say, Peace be upon the inhabitants of this city (graveyard) from among the Believers and the Muslims, and may Allah have mercy on those who have gone ahead of us, and those who come later on, and we shall, God willing, join you. this night was the 15th of Shaabaan.

We should beg forgiveness for our deceased near and dear ones always. However this practice had become a norm in subcontinent and this is just one instance of Prophet S.a.w going to Baqee on the night of 15th of Shabaan.

والله اعلم بالصواب

 



عابدہ

Abida Rahmani





-- 
Sent from Gmail Mobile

Monday, May 9, 2016

مدرز ڈے ، ماؤں کا عالمی دن۔۔

اؤں کا عالمی دن
از
عابدہ رحمانی

۸ مئی 2016 کو عالمی سطح پر ماؤں کا دن Mothers day منایا جاۓ گا یہ روز ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے-اسی کے حساب سے تاریخیں بدل جاتی ہیں--امریکہ کوئی دن منائے اور دنیا اسکی پیروی نہ کرے یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ اور یوں ساری دنیا میں ہر طرف مادرز ڈے کا شور مچا ہوا ہے مادر ڈے اور اسکے بعد فادر ڈے -

امریکہ میں پہلا مادر ڈے مغربی ورجینیا کےشہر گریفٹن میں اینا جاروس نے اپنی ماں کی یاد میں 1908 کو منا یا  ، وہ اپنی ماں کے 1905 میں انتقال کے بعد اسکی کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ اس روز کو سرکاری سر پرستی حاصل ہو لیکن جب یہ دن ایک کاروباری حیثیت اختیار کر گیا تو اینا کافی دل برداشتہ ہوئی- ایک اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اینا جا روس خود کبھی ماں نہیں بن سکی ۔ آسدن کو کاروباری حلقوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا  اب ہر سال کمرشل، بازاری سطح پر ہر طرف مادر ڈے کی ہلچل مچ جاتی ہے - نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے لوگ ماؤں کو یاد کر لیتے ہیں یا کوئی تحفہ،کارڈ، پھول یا کیک وغیرہ دے دیتے ہیں یا بھیج دیتے ہیں  --
ماں کو بھی کم ازکم مغربی معاشرے میں احساس ہوتا ہے کہ اسکا بھی کوئی وجود ہے- خاصکر بوڑھی مائیں جنکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا--حالانکہ انمیں سے بیشتر وہ ہوتی ہیں جنہوں نے تنہا اولاد کی پرورش کی ہوتی ہے --اللہ بھلا کرے ڈی این اے ٹیسٹ کا ورنہ بیشتر کو تو باپ کا معلوم ہی نہ ہو پاتا--
اب دنیا کے تمام ممالک مشرق ، مغرب ، شمال اور جنوب میں مادرز ڈے اپنے اپنے لحاظ سے منایا جاتا ہے-
ماں کی اہمئت تو آفرینش سے مجسم ہے ٍ-ماں کے وجود اور اسکی قربانیوں سے کون انکار کرسکتا ہے وہ نو ، دس مہینے حمل( جسکے معنی بوجھ کے ہیں) اٹھاتی ہے -درد زہ سے گزر کر جنم دیتی ہے پھر پالنے پوسنے کا عمل شروع ہوتا ہے دودھ پلانے سے لیکر تمام پرورش کی بیشتر ذمہ واری ماؤں پر ہی عائد ہوتی ہے --دودھ چاہے اپنا ہو چاہے بوتل کا ہو- ایک کمزور محتاج بچہ ماں کی توجہ اور محبت سے ہی پروان چڑھتا اور نشو و نما پاتاہے-اسلئے ہمارے معاشرے میں دودھ کو جتلانا پرانی ماؤں کا ایک مؤثر ہتھیار ہوتا تھا " میں تمہیں دودھ ہرگز نہیں بخشونگی" وہ بات بے بات اپنی اولاد کو دھمکی دیتی ہیں - ماں کی اہمئت ، محبت اور ایثار پوری دنیا اور تمام معاشروں میں مسلم ہے - جب ڈایپرز کا زمانہ نہیں تھا تو مائیں گیلے پر لیٹ کر بچے کو سوکھے پر ڈالدیتیں یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں کتنی ماؤں کو بے انتہا قربانیوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتاہے- یہ قربانیاں ہمیشہ مختلف صورتوں سے جاری رہتی ہیں چاہے بچے بڑی عمروں کے ہی کیوں نہ ہو جائیں-- ماں بننا عورت کی ذات کی تکمیل اور ایک حسین ترین جذبہ ہے ۔۔اسکی محرومی کا احساس بے اولاد ماؤں سے بہتر کون جان سکتا ہے-
اکثر مسلمان جو مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں کہتےہیں ہمارے لئے تو ہر روز ہی مادر ڈے اور فادر ڈے ہے --
 
اسلام میں قرآن و حدیث میں ماں اور والدین کے حقوق کا پر زور تذکرہ ہے  “وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدَھُمَا اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔” (بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)
         ترجمہ:… “اور تیرے رَبّ نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی “اُف” (ہوں) بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے اِنکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اور یوں دُعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔”  
ایک حدیث میں ہے:
         “عن أبی أمامة رضی الله عنہ أن رجلًا قال: یا رسول الله! ما حق الوالدین علٰی ولدھما؟ قال: ھما جنتک أو نارک۔”                   (ابنِ ماجہ ص:۲۶۰)
         ترجمہ:… “حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد کے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاوٴگے، ان کی نافرمانی کروگے تو دوزخ خریدوگے)۔”
         ایک اور حدیث میں ہے:
         “عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصبح مطیعًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنّة وان کان واحدًا فواحدًا ومن أصبح عاصیًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النّار ان کان واحدًا فواحدًا۔ قال رجل: وان ظلماہ؟ قال: وان ظلماہ وان ظلماہ وان ظلماہ۔”                                 (مشکوٰة ص:۴۲۱)
         ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص والدین کا فرمانبردار ہو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک، اور جو شخص والدین کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ: خواہ والدین اس پر ظلم کرتے ہوں؟ فرمایا: خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں۔”


حضرت ابوہریرہؓ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیا:
مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أَبُوكَ(صحیح بخاری:5971صحیح مسلم:2548)
’’میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض کیا :پھر کون؟ آپ نے فرمایا:تیری ماں۔ اس نے عرض کیا :پھر کون؟ آپ نے فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض کیا:پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تیرا باپ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أَبُوكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ(صحیح مسلم:2548)
’’تیری ماں ،پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ،پھر جوشخص زیادہ قریب ہے ، وہ اسی قدر زیادہ مستحق ہے۔‘‘
مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے کہ آپ ﷺ نے ماں کے حق کو تین بار قرار دیا اور اس کا سبب یہ ہے کہ ماں نے حمل ، وضع حمل، دودھ پلانے ، دودھ چھڑاے اور پرورش و تربیت کے سلسلہ میں بہت سی صعوبتوں اور مشقتوں کو برداشت کیا ہوتا ہے اورباپ نے جو نفقہ اور تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دیے ، ان کی وجہ سے اس کا ایک حق مانا گیا ہے۔
ایک اور حیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تماری ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے --دنیا کے کسی اور مذہب میں ماں باپ کے حقوق اسطرح اجاگر نہیں کئے گئے اسطرح اسلامی لحاظ سے تو جسکی ماں زندہ ہےاور ساتھ ہی رہایش پذیرہے اسکے لۓ ہر روز مادرز ڈے ہے - لیکن جو اپنی ماں سے دور ہیں تو اسکو یاد کرنیسے اسکی خوشیوں میں اضافہ تو ضرور ہوگا لیکن اسکا حق اس سے کہیں زیادہ ہے-- کہ اسکو سال میں محض ایک دن یاد کیا جائے۔۔
دنیا کی تمام ماؤں کو ماں کا دن مبارک ہو-


عابدہ

Friday, May 6, 2016

بہار اردو یوتھ فورم کے سیمینار کے لئے لکھا گیا مختصر مقالہ

:
بہار اردو یوتھ فورم کے سیمینار کے لئے لکھا گیا مختصر مقالہ۔۔


اردو کی کی ترویج و اشاعت میں انٹر نیٹ کا استعمال
از 
عابدہ رحمانی
21 ویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج ،چھوٹے سے گاؤں میں بدل دیاہے -کمپیوٹر کے بعد انٹرنیٹ کے اجراء نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا اور دنیا کو نت نئے طرز بیان، طور طریقوں اور الفاظ سے روشناس کر دیا ہے وہ معلومات، خط و کتابت جسکی دنیا میں ترسیل ایک دقّت طلب مسئلہ ہوا کرتا تھا وہ پلک جھپکتے کمپیوٹر کے ماؤس کی ایک کلک سے دنیا کے آر پار پہنچ جاتی ہیں ۔انٹر نیٹ سے حاصل ہونیوالے فوائد اور نقصانات کی فہرست کافی طویل ہے--
کمپیوٹر اب جیسے ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن گیا ھے اسکی روز افزوں ترقی اور نت نۓ اضافوں نے بنی نوع انسان کو ہکا بکا کر دیا ہے- اتنے اضافی اور نت نئے اپپس apps ہوتے ہیں کہ عقل دنگ بلکہ ماؤف رہ جاتی ہے کمپیوٹر کی ہر بنانے والی کمپنی کی کوشش ہےکہ کچھ ایسا نیا پن لے آئے جو پچھلے میں نہ ہو- 

پچھلے 18 -20 سالوں میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دنیا میں ایک عظیم انقلاب لے آۓ محض 18 برس پہلے 1996 کے اوائل میں ، جب میں امریکا کینیڈا اپنے پیاروں سے ملنے آئی تو میرے بھائی نے مجھے انٹرنیٹ اور ای میل سے روشناس کیا اس سے پہلے بس اتنا ہی واقف تھی کہ ایک نئی ایجاد ہوئی ہے ' اسی کے ہمراہ ٹورنٹو کے شیرٹن ہوٹل میں انٹرنیٹ پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کی-اسکو پیش کرنے والے مختلف افادیات ظاہر کر رہے تھے- ہم سمیت سب شرکا اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ آخر یہ کیا بلا ہے اور اس بلا نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو جکڑ لیا بلکہ ایک اژدہا کی طرح لپیٹ لیا --
کسکے گھر جائے گا طوفان بلا میرے بعد--

مجھے سب سی زیادہ ای-میل نے متاثر کیا مجہے اسکی اشد ضرورت بھی تھی کیونکے میرے بچے امریکا میں زیر تعلیم تھے -اس زمانے میں عام خط کو امریکا پہونچنے میں دس بارہ روز لگتے تھے ، ٹیلیفون کی کال بھی مہنگی تھی 3 منٹ کی کال 155 روپے کی تھی جو اسوقت کچھ قیمت رکھتے تھے - واپسی کی بعد پہلا کام یہ کیا کہ IBM کا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر خریدا اور بیٹے نے اس پر ڈائیل اپ انٹرنیٹ کی لائن لگوائی- UNDP کے تعاون سے  SDNPK کے نام سے کلفٹن میں انکا دفتر تھایہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں  بلکہ پورے پاکستان میں واحد اور اولین انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والے تھے- ہم انکے معدود چند صارفین میں سے تھےاس زمانے میں ابھی عام لوگ اس سہولت سے ناواقف تھے- مجھے تو اسمیں بیحد لطف آیا- بچوں ،بھایئ ، رشتہ دار اور دوستوں  سے باقاعدہ رابطہ استوار ہوا ابھی بمشکل دو چار ہی کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت تھی --دیگر کو ترغیب دی کہ وہ اس سہولت سے مستفید ہوں- اسی کے ذریعے اہنے انگریزی مضامین بھی لکھے اور جب اخبارات کو یہ سہولت ملی تو بھیجنے شروع کیے،اس طرح کمپیوٹر سے دوستی کچھ اتنی بڑھی کہ ہم دونوں  ایک جان دو قالب ہو گئے ! تم ہوئے ہم ،اور ہم ہوئے تم  ،والا حال ہوا-- اسلئے میں نے اپنے ایک کمپیوٹر کا نام رکھا" میرا نیا دوست "

دیکھتے ہی دیکھتے اس عفریت نے پوری دنیا کو قبضے میں لے لیا - معلومات کا ایک ذخیرہ، ایک خزانہ,ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندرہماری انگلیوں کے پوروں تلے آگیا - کمپیوٹر کا ماؤس والٹ ڈزنی کے مکی ماؤس سے کہیں آگے بڑھ گیا -نئی نئی اصطلاحات وضع ہوئیں اور زبان زد عام ہوئیں - سرمایہ کاروں کو نۓ نۓ کاروبار مل گۓ پاکستان میں بھی کافی لوگوں نے انٹر نیٹ کمپنیاں کھول دیں  -کیلیفورنیا امریکا میں پورا خطہ سیلیکون ویلی کے نام سے مشھور ہوا اور اب بھی ہے یہاں پر تمام مشہورIT کمپنیاں ہیں -،Yahoo, Google,Hewlett Packard,Cisco,Intel,Oracle,Apple, Facebook,Micron اور دوسری بے شمار چھوٹی بڑی کمپنیاں- ہزاروں لاکھوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے-مایکرو سوفٹ نے اپنا صدر دفتر Seattle میں رکھنے کو ترجیح دی - یہ تمام کاروبارایک یا دوسری صورت میں کمپوٹر اور IT کی صنعت سے وابستہ ہیں - Google اور Yahoo دو بڑے سرچ انجن کہلاتے ھیں جبکہ دوسرے بھی بے شمار ہیں -

سال 2000 میں جو خطرہ تھا اسکو Y2K کا نام دیا گیا تھا اس سلسلے میں جنوبی بھارت سے خوب لڑکے، لڑکیاں امریکا آۓ اسکے بعد جنوبی بھارت نے بھی اس صنعت میں خوب ترقی کی حیدرآباد کے قریب سائبر آباد بنا اوربنگلور میں تمام مشہور کمپنیوں نے انکے ہنر سے فائدہ سستے داموں حاصل کرنے کے لئے اپنے دفاتر کھول دۓ- اپنے پاکستان میں بھی ہنر اور ذہانت کی قلت نہیں ،پاکستانی بچے بھی کمالات دکھانے میں کسی سے کم نہیں بہت سے بیرون ملک اور اندرون ملک اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھا رھے ہیں،نام اور دولت کما رہے ہیں جبکہ بہت سوں کی ناگفتہ حالات نے راہیں مسدود کررکھی ہیں - وقت کے ساتھ یھاں بھی اب کوئ کمی نہیں نظر آتی-اب یہاں  زیادہ تر گھروں میں وائی فائی لگا ہواہے اور بچہ بچہ سمارٹ فون ،ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ لیۓ بیٹھا ہے- یہ دوسری بات ہے کہ وہ کر کیا رہاہے؟ چین اسی ٹیکنالوجی کے پرزہ جات سستے داموں بناتے ہوۓ آج ترقی کی شاہراہ پرکافی آگے کھڑا ہے -کوریا اور جاپان تو پہلے ہی ہائی ٹیک تھے-

مختلف تنظیموں نے اسے اپنے اچھے یا برے مقاصد فکر کے لیے استعمال کیا- اسلامی لحاظ سے دین کی ترویج اور تفھیم کے لئے انٹرنیٹ انتہائی کارآمد ثابت ہوا-خواتین کے لئے قرآن پاک ، تفسیر و تفہیم کی کئی آن لاین کلاسز شروع ہوئیں جو کئی مشہور اور مستند عالماؤں کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں -- اپنی اندیکھی بہنوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے اور اپنی علمی صلا حیتوں میں اضافے کے لئے' ہم پال ٹاک 'ہاٹ کانفرنس ' ویب نار Webinar ، سکائپ اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں-ان کمروں(chat rooms) سے ہم خوب فائدہ اٹھاتے ہیں-تفہیم القرآن کی انگریزی اور اردو کی کلاسیں پال ٹاک پر،آن لائن وومن انسٹیٹوٹ کی کلاسیں ویب نار پر منعقد ہوتی ہیں -سکائپ پر بھی کافی درس و تدریس ہو رہی ہے- بہت سارے ادبی ، اسلامی گروپ انٹرنیٹ پر کافی فعال ہیں -- ان گروپوں میں مثبت کے علاوہ منفی کام بھی بہت ہورہے ہیں -دوسروں کو جانے دیجئے اپنے اسلامی ، اردو داں گروپ تفرقہ بازی ، دشنام طرازی اور لامذہبی پر چار میں لگے ہوئے ہیں اور اسکے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں --
  اردو زبان جب سے انٹرنیٹ پر آئی ہے ہمارے جیسوں کے تو وارے نیا رے ہو گئے ۔اس سے اردو تحریر،ادب وثقافت کو کافی سہولت اور آفزودگی ملی ،مصنفین اور قلم کاروں کو اپنی تحاریر عوام تک پہنچانے کے لئے بہترین ذرائع میسر آئے۔۔ اردو رسم الخط اب کمپیوٹر پر با آسانی ڈاؤن لوڈ ہو جاتا ہے ۔۔آئی پیڈ پر تو کی بورڈ بھی اردو میں تبدیل ہو جاتاہے ۔سمارٹ فون پر بھی اردو رسم الخط کی سہولت ہے ۔۔اسلئے مجھے اسوقت حیرت اور افسوس ہوتا ہے جب ان سہولتوں کے باوجود لوگ رومن میں اردو لکھتے ہیں ۔۔ اردو رسم الخط نوری نستعلیق اور دیگر خوشخط طرز تحریر میں بھی موجود ہے ۔۔ ای میل میں لکھی گئی تحریر یونی کوڈ کہلاتی ہے جب کہ انپیج پر نشر و اشاعت کے لئے تحاریر لکھی جاتی ہیں ۔۔ اسی طرح ناشروں ، مدیروں اور چھاپہ خانوں کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے کافی سہولت اور توانائی حاصل ہوئی۔۔
اردو کی ایک مشہور ویب سائٹ "بہار اردو یوتھ فورم "ہے اسکے نگران جاوید محمود صاحب تندہی سے اردو کی خدمت میں مصروف ہیں ۔پچھلے کئ برس سے اردو ادب ، شاعری، متفرق مضامین ، دینی اور سیاسی تحاریر کو پوسٹ کر رہے ہیں اسکے علاوہ وہ روزمرہ کی خبریں بھی نشر کرتے ہیں انہوں نے اب ہر مصنف اور شاعر کے لئے اسکا اپنا ایک مخصوص گوشہ یا صفحہ بنا دیا ہے جسمیں اسکے نام کے ساتھ اسکی تمام تحاریر پڑھی جا سکتی ہیں ۔۔ ہر مصنف اور شاعر کی مختصر سوانح عمری بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔۔میں انکے ساتھ پچھلے چار پانچ سال سے منسلک ہوں اور انہوں نے میری تحاریر کو کافی پذیرائی دی ہے ۔۔ اسی طرح دیگر کئی آن لائن ویب سائٹس اور اخبارات بھی اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں متحرک ہیں ۔۔
 اردو کے کئی  ادبی گروپ انٹر نیٹ پر متحرک ہیں مجھے ان گروپس میں شامل ہوکر اور کمپیوٹر پر اردو ٹائپ کر کے اپنی تحاریر کو منظر عام پر لانے کا آسان ذریعہ میسر آگیا ،اس ذریعے سے بہت آسانی سے مختلف رسایل و اخبارات کو میں مضامین بھیج دیتی ہوں --وہ چھاپ کر مجھے اسکی فائیل بھیج دیتے ہیں -- ایک تحریر کوبیک وقت  متعدد
لوگوں ،گروپس اور ویب سائٹس کو ہم ایک کلک میں بھیج دیتے ہیں --

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے تو ایک لوٹ اور دھوم مچا دی-انمیں فیسبک بہت زیادہ مقبول ہوا-- فیسبک پر بھی اردو ادب ، شعر و شاعری اور نشر و اشاعت کی کافی ترویج ہو رہی ہے ۔۔اردو کے شائقین اور اردو دانوں کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی بدولت وہ تمام سہولیات میسر ہیں جو کبھی کتابوں ،اخبارات اور لائبریری کی مرہون منت تھیں ۔۔
انٹر نیٹ کے اس جن کو قابو میں کرنے کی کوششیں ھو رہی ہیں لیکن اس کا حال بوتل کی جن جیسا ھو گیا ہے-

اب حالات بدل گۓڈاکۓ اور خطوط کا انتظاراب ہماری زندگی سے خارج ہو گیا اب ای میل کا انتظار ہوتا ہے اگرچہ ڈاک اب بھی آتی ہے لیکن وہ یہاں کے بقول زیادہ تر جنک میل ہوتی ہے بہت کم کام کے خطوط ہوتے ہیں -ہاتھ سے لکھی سطریں دیکھنے کو نظریں ترس جاتی ہیں زور اس پر ہے کہ ٹائپ کرنے کی رفتار کتنی ہے؟ امریکا کینیڈا میں  Postal service کی حالت خراب ہے اور دیوالیہ ہونے کے قریب ہے -

ہمارے بچپن میں قلمی دوستی پر زور ھوتا تھا بمشکل ایک دو قلمی دوست بن پاتے اب آن لائن دوستی کا زمانہ ہے ' یہ دوستی کہیں صرف ای میل اور گپ شپ ( چیٹنگ) تک ہے لیکن کبھی کبھار بات ذرا آگے بھی نکل جاتی ہے ، کچھ نادان غلط کاموں میں پھنس جاتے ھیں،جب کہ کئ خشگوار رشتے بھی قائم ہو جاتے ہیں-

آجکل ویب سائٹ کا زمانہ ہے ہر ایک کا ویب بنا ہوا ہے اسکے اردو معنی مکڑی کے جال کے ہیں جس میں آپکو پھنسانے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن انٹرنیٹ کی اپنی زبان ہے! ورلڈ وائڈ ویب کے معنی ہیں 'پوری دنیا میں پھیلا ہوا مکڑی کا جال 'اس جال میں اب پوری دنیا پھنسی ہوئ نظر آتی ہے-اب اردو کے دیگر بےشمار ڈاٹ کام ، ڈاٹ آرگ،ڈاٹ نیٹ آپکو نظر آئنگے بلاگ ہیں اور نہ جانے کیا کیا ؟ لیکن ان سب میں "بہار اردو یوتھ فورم "کی ایک ممتاز اور انفرادی مسلمہ حیثیت ہے ۔۔
 

بہار اردو یوتھ فورم کے سیمینار میں عابدہ رحمانی کا مقالہ پیش کیا گیا۔۔


Firstly you see News File & then go to www.urduyouthforum.org and see the video, Please release this news in News Papers of Pakistan & others .I have not any email id of Pakistan & others International News Papers.
پٹنہ:معروف ادبی لسانی سماجی اورثقافتی تنظیم اورحکومت بہارسے رجسٹرڈ’’ بہاراردویوتھ فورم ‘‘کے زیراہتمام اردوزبان وادب کی نشرواشاعت میںانٹرنیٹ کاکردارکے موضوع پرپہلی بارعالمی سمینارکاانعقادکیاگیاجس میںریاست وملک وبیرون ممالک کے ناموراسکالروںنے اس اہم موضوع پراپنے پرمغزمقالات پیش کئے،اورجدیددورمیںانٹرنیٹ کی اہمیت وافادیت پربھرپورروشنی ڈالی۔بہاراردواکاڈمی کے کانفرنس ہال میں منعقدہ اس عالمی سمینارمیں ماہرین نے اردوزبان وادب کی نشرواشاعت میں انیٹر نیٹ کے کردارپرتفصیلی روشنی ڈالی۔بہار اردویوتھ فورم کے صدراورمعروف ملی سماجی اورسیاسی رہنماجاویدمحمودنے اپنے استقبالیہ کلمات میںاپنی نوعیت کے اس پہلے سمینارمیںکثیرتعدادمیںماہرین انٹرنیٹ ،ناموراسکالروں،صحافیوںاوردانشوروںکی شمولیت پراظہارمسرت کرتے ہوئے ان کاشکریہ اداکیااوریقین دہانی کرائی کہ مستقبل قریب میںبھی اس طرح کے سمینارکاانعقادکیاجائے گااورپروگرام کواوربہتربنایاجائے گا۔کولکاتہ سے تشریف لائے اردوکے معروف اسکالرخورشیداقبال نے اپنے تحقیقی مقالہ میںبتایاکہ ہم آج کسی نہ کسی شکل میںانٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے اس حقیقت کاانکشاف کیاکہ سب سے پہلے عرب اورایران نے خط نسخ کے ذریعہ کمپیوٹر پردستک دیامگراردوکمپیوٹنگ کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے میںقدرے تاخیرہوئی کیونکہ ہم کسی بھی قیمت پرنستعلیق کوچھوڑنے کیلئے تیار نہیںہیں۔خورشیداقبال نے اردوکمپیوٹنگ کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے مرزاجمیل احمدنے اسے ڈیولپ کیااورانہوں نے نوری نستعلیق کے نام سے اردوفونٹ کاایجادکیا انہوں نے بتایاکہ سب سے پہلے مملکت خدادادپاکستان کے کراچی شہرسے شائع ہونے والے کثیرالاشاعت اردوروزنامہ’’جنگ‘‘نے نوری نستعلیق میں1991میںاخبارچھاپا۔بعدمیںدیگراخبارات نے اس کی تقلیدکی ۔امریکہ میںمقیم اردوکے معروف اسکالرتنویرپھول نے اپنامقالہ پاورپوائنٹ کی مددسے پیش کیا۔انہوں نے اپنے مقالہ میں اس بات کی وضاحت کی کہ ترقی یافتہ دورمیںبغیرانٹرنیٹ کے ہم ترقی کے دوڑمیںشامل نہیں ہوسکتے ۔اگرہم انٹرنیٹ سے  منسلک ہیں تودنیاکے تمام واقعات حادثات سیاسی وسماجی تبدیلی سے باخبررہیںگے۔کناڈہ میںمقیم پاکستانی نژادخاتون ادیبہ عابدہ رحمانی نے اپنے مقالہ میںانٹرنیٹ کووقت کی اشدضرورت قراردیتے ہوئے اردوآبادی کواس سے بھرپوراستفادہ کرنے کی اپیل کی ۔انہوں نے کہاکہ 21 ویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج ،چھوٹے سے گاؤں میں بدل دیاہے -کمپیوٹر کے بعد انٹرنیٹ کے اجرائ�  نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا اور دنیا کو نت نئے طرز بیان، طور طریقوں اور الفاظ سے روشناس کر دیا ہے وہ معلومات، خط و کتابت جسکی دنیا میں ترسیل ایک دقّت طلب مسئلہ ہوا کرتا تھا وہ پلک جھپکتے کمپیوٹر کے ماؤس کی ایک کلک سے دنیا کے آر پار پہنچ جاتی ہیں۔انٹر نیٹ سے حاصل ہونیوالے فوائد اور نقصانات کی فہرست کافی طویل ہے--
کمپیوٹر اب جیسے ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن گیا ھے اسکی روز افزوں ترقی اور نت نئے اضافوں نے بنی نوع انسان کو ہکا بکا کر دیا ہے- اتنے اضافی اور نت نئے اپپس apps ہوتے ہیں کہ عقل دنگ بلکہ ماؤف رہ جاتی ہے کمپیوٹر کی ہر بنانے والی کمپنی کی کوشش ہیکہ کچھ ایسا نیا پن لے آئے جو پچھلے میں نہ ہو- مجھے سب سی زیادہ ای-میل نے متاثر کیا مجھے اسکی اشد ضرورت بھی تھی کیونکے میرے بچے امریکا میں زیر تعلیم تھے -اس زمانے میں عام خط کو امریکا پہونچنے میں دس بارہ روز لگتے تھے ، ٹیلیفون کی کال بھی مہنگی تھی 3 منٹ کی کال 155 روپے کی تھی جو اسوقت کچھ قیمت رکھتے تھے - واپسی کی بعد پہلا کام یہ کیا کہ IBM کا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر خریدا اور بیٹے نے اس پر ڈائیل اپ انٹرنیٹ کی لائن لگوائی- UNDP کے تعاون سے  SDNPK کے نام سے کلفٹن میں انکا دفتر تھایہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں  بلکہ پورے پاکستان میں واحد اور اولین انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والے تھے- ہم انکے معدود چند صارفین میں سے تھیاس زمانے میں ابھی عام لوگ اس سہولت سے ناواقف تھے- مجھے تو اسمیں بیحد لطف آیا- بچوں ،بھایء ، رشتہ دار اور دوستوں  سے باقاعدہ رابطہ استوار ہوا ابھی بمشکل دو چار ہی کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت تھی --دیگر کو ترغیب دی کہ وہ اس سہولت سے مستفید ہوں- اسی کے ذریعے اہنے انگریزی مضامین بھی لکھے اور جب اخبارات کو یہ سہولت ملی تو بھیجنے شروع کیے،اس طرح کمپیوٹر سے دوستی کچھ اتنی بڑھی کہ ہم دونوں  ایک جان دو قالب ہو گئے ! تم ہوئے ہم ،اور ہم ہوئے تم  ،والا حال ہوا-- اسلئے میں نے اپنے ایک کمپیوٹر کا نام رکھا" میرا نیا دوست "
روزنامہ قومی تنظیم کے ایڈیٹر ایس ایم اشرف فریدنے کہاکہ زبان کے فروغ کیلئے جدیدتکنیک سے آہنگی ضروری ہے۔اگراردوصحافت انٹرنیٹ سے نہیںجڑتی تواردواخبارات کافی پیچھے رہ جاتے ۔آج روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ،رانچی اورلکھنؤسے بوقت شائع ہونے والا کثیرالاشاعت روزنامہ ہے۔جوویب سائٹ پر دستیاب ہے۔روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹراحمدجاویدنے کہاکہ کل کادوراسی کاہوگاجوانٹرنیٹ کی تکنیک سے باخبرہوگاکیوںکہ دنیاتیزی سے پیپرلیس ہورہی ہے۔معروف صحافی ومصنف اشرف استھانوی نے اطلاعاتی انقلاب کے اس دورمیںانٹرنیٹ وقت کی اشدضرورت قراردیتے ہوئے اردوآبادی سے گذارش کی کہ وہ انٹرنیٹ کاضروراستعمال کریںتاکہ دنیاسے آپ کارشتہ براہ راست بنارہے۔اشرف استھانوی نے کہاکہ اردوکے فروغ میںانٹرنیٹ کااہم کردارہے۔سوشل میڈیاکے توسط سے بالخصوص فیس بک اورواٹس اپ کے ذریعہ ہم اپنے نظریات افکارخیالات اپنی تہذیب وتمدن اوراپنی زبان کے فروغ میںاہم کرداراداکرسکتے ہیں۔مولاناآزادریونیورسٹی کولکاتہ کے ریجنل ڈائریکٹرڈاکٹرامام اعظم نے وکی پیڈیاکی خصوصیات پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔اردوکے نامورادیب ڈاکٹرسیداحمدقادری نے انٹرنیٹ کی افادیت سے اردوآبادی کوباخبرکرتے ہوئے اردوکے دانشوروںسے اپیل کی کہ اپنے خیالات وتاثرات انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیاتک پہنچاسکتے ہیںجس کاہمیں بھرپوراستعمال کرناچاہئے۔
جاپان کے ناصرناکاگاوانے اپنے مقالہ میںکہاکہ1822 میںجام جہاں نما(اردوکاپہلااخبار)کی اشاعت کے وقت کسی نے سوچابھی نہیں ہوگاکہ ایک وقت ایسا بھی آئے گاکہ اخبارات اسم بامسمیٰ ’’جام جہاںنما‘‘ ہوںجائیںگے۔ 21ویں صدی میںسائبرورلڈکی دریافت نے اخبارات ورسائل کی دنیا میںانقلاب برپاکردیاہے۔ دنیااب ہماری انگلیوں کے اشاروںپرگھوم رہی ہے۔ سائبرورلڈکی کھوج اوراس کی ترقی نے نہ صرف سرحدوں کے فرق کومٹادیاہے بلکہ تہذیبی ولسانی افتراق کی دیواریں بھی مسمارکردی ہیں۔ سائبرکی دنیا میں سفرکرنے کیلئے نہ توکسی پاسپورٹ کی ضرورت ہے اورنہ ہی ویزاکی ،بس چندکلک اورانگلیوںکے اشارے پردنیاہماری اسکرین کے سامنے ہوتی ہے۔،
پاکستان کی محترمہ عینی نیازی نے اپنے مقالہ میںکہاکہ ہرانسان کی خواہش ہوتی ہے کہ جس چیز کووہ جذبہ دل سے طلب کرے وہ فوراًحاضرہوجائے منزل کیلئے دوگام چلے سامنے منزل آجائے انٹرنیٹ کی دنیا اسی خواہش کوپوراکرتی نظرآتی ہے موجودہ دورمیں سائنس کی بے شمار ایجادات کے ساتھ انٹرنیٹ کپیوٹر نے ہماری زندگیوں میں سہولتیںفراہم کی ہیں وہاں شعروادب کی دنیا بھی اس کی احسان وممنون ہے۔
پاکستان کی معروف ادیبہ محترمہ صبانازکامقالہ اسکرین کے ذریعہ پیش کیاگیاجس میںانہوں نے کہاکہ دورِجدیدمیں انٹرنیٹ ہماری بنیادی ضرورت کالازمی جزبن چکاہے۔ اس میں اب کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کادورہے آج کوئی فیلڈیسی نہیں رہی جس میں کسی نہ کسی مرحلے پر کمپیوٹر بالخصوص انٹر نیٹ کاعمل دخل نہ رہاہو۔ پہلے پہل اپنے خیالات کے اظہار کیلئے خطوط تحاریر کیے جاتے تھے جووصول کنندہ کوکئی کئی ہفتوں اورماہ بلکہ اکثرسال میں وصول ہوتے تھے لیکن آج انٹرنیٹ نے ہمیں اتناگلوبولائز کردیاہے کہ خط کی جگہ ای۔ میل نے لے لی ہے۔ یہ سب نت نئی ٹیکنالوجی کے سبب ہی ہے جس نے ہمیں انتظارکی جھنجھٹ سے آزادکرایااور پوری دنیا کوگلوبل ویلیج بناڈالا۔
ممبئی کے سیدنثاراحمدنے اپنے مقالہ میں کہاکہ انٹرنیٹ اورانٹرنیٹ پرسماجی ابلاغ کواسٹرانگ میڈیاتسلیم کیاجاچکاہے۔ پرنٹ میڈیا کامقام بھی کچھ کم نہیں ہے، مگردستیابی کی بنیادپرانٹرنیٹ کافی مقبول ہوچکاہے۔ اب خواہ اخبارہوںکہ رسالے، لغات ہوکہ دائرۃ المعارف، سائٹ ہوکہ بلاگ ہوکہ بروشر، تمام کے تمام انٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل کرنااور پڑھنا، لکھنا اور اپ لوڈ ڈائون لوڈ کرناایک معمولی بات ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ پر علم کے ہرشعبہ میں معلومات کاحاصل ہوناایک عظیم نعمت سے کم نہیں۔
دہلی کے جناب غوث سیوانی نے اپنے مقالہ میں کہاکہ عہدحاضرسائنس اور ٹیکنالوجی کادورہے اورانسانی زندگی کاانحصار بہت حدتک مشینوں پر ہوچکاہے۔ انسانوں کی طرح ان کی زبانیں بھی جدیدٹیکنالوجی پرمنحصرہوتی جارہی ہیں۔ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ دنیاکی جوزبان جدیدٹکنالوجی سے دورہوگی وہ تاریخ کاحصہ بن جائے گی۔ اس لئے آج ضرورت بھی ہے کہ زبانوں کوعہدحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجائے۔ اردوزبان دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اسے بولنے اور سمجھنے والوں کی بڑی تعدادموجودہے اور اسے لکھنے پڑھنے والے بھی کم نہیں ہیں۔اردوزبان میں علمی کتابوں کابڑاذخیرہ موجودہے مگرآج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردوزبان کوعہدحاضرکی نئی دریافت انٹرنیٹ سے منسلک کیاجائے۔ خوشی کی بات ہے کہ اہل اردو نے اس کام کاآغازبھی کردیاہے اورجہاں ایک طرف اردوکے سینکڑوںاخبارات ،میگزین انٹرنیٹ پراپنی سائٹس رکھتے ہیں وہیں بہت تیزی سے انٹرنیٹ لائبریریاںبھی اپنی جگہ بناتی جارہی ہیں۔
حیدرآبادکے سیدفاضل حسین پرویز،دہلی کی محترمہ مسرت انجم،اترپردیش کے انجینئرمحمدفرقان سنھلی،دہلی کے  فیروزہاشمی،عبدالحئی اورنوئیڈاکے ڈاکٹر محمدآصف،راجستھان کے عمران عاکف خان کا مقالہ اسکرین کے ذریعہ پیش کیاگیاجس سے لوگوںنے بھرپوراستفادہ کیا۔
معروف ادیب اورکثیرالاتصانیف مصنف ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈیافتہ ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی نے اردوکے نوواردصحافیوںاورقلمکاروںسے اپیل کی کہ وہ انٹرنیٹ کاضرور استعمال کریں،اس کے رازونیازسے ضرورباخبرہوںاگرانٹرنیٹ سے آپ منسلک ہیںتوپوری دنیاآپ کی مٹھی میںہے۔جلسہ کے مہمان ذی وقاراور بہاراردواکاڈمی کے سکریٹری مشتاق احمدنوری نے بہارمیںپہلی باراس اہم موضوع پرعالمی سمینارکے انعقادپراردویوتھ فورم کے صدرجاویدمحمودکومبارکباددیتے ہوئے کہاکہ آج کے سمینارمیںجومقالے پڑھے گئے ہیںاس کے نتائج دورس ہوںگے۔جلسہ کی نظامت اردوہندی کے معروف اسکالرقاسم خورشیدنے بحسن خوبی انجام دیا۔جلسہ سے  کامران غنی،ایس اے حق نے بھی خطاب کیا۔مہمان خصوصی ڈکٹرتنویرحسن نے انٹرنیٹ کے موضوع پرتاریخی سمینارکے انعقادکیلئے اردو یوتھ فورم
  کے روح رواںکی حددرجہ ستائش کی۔جناب شاہد جمیل نے اس موقع پرانٹرنیٹ  کے موضوع پر اپنی مشہور غزل پیش کی۔اس موقع پراس شعبہ میں گراں قدرخدمات انجام دینے والے قلمکاروںاوراس کے ماہرین کی عزت افزائی شال پیش کرکی گئی۔ایوارڈیافتگان میںروزنامہ فاروقی تنظیم کے سب ایڈیٹر اورانٹرنیٹ کے ماہرمحمدایوب،ارون کمارپاٹھک،مطیع الرحمان باری ،خورشیداقبال ،سیدوسیم الحسن دانش اورشمس الدین انصاری وغیرہم کے نام قابل ذکرہے۔
چار گھنٹہ سے اوپر چلے اس پروگرام کوویڈیواسٹریمنگ کے ذریعہ انٹرنیٹ سے جوڑدیاگیاجس سے پوری دنیا میں پھیلے اردوکے شائقین نے پروگرام کودیکھا۔ یہ ویڈیو بہاراردویوتھ فور م کے ویب سائٹ پر موجودہے۔


                                        مطیع الرحمان باری                                            سکریٹری
                                بہاراردویوتھ فورم
                                رابطہ:9308054929


On Sat, Apr 30, 2016 at 9:10 PM, Jawaid Mahmood <biharurduyouthforum@gmail.com> wrote:
Many many thanks for your email,I will reply to you if need.
Kindly visit my websites : www.urduyouthforum.org
www.imrozehind.com
www.muslimyouthmajlis.org