ہمیں بطور مسلمان آپ صلعم کی اطاعت و اتباع دونوں کا حکم ہے اور ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو اطاعت اور اتباع ایک ہی دکھائے دیتے ہیں - جیسے کہ سورہ آل عمران کی آیت میں آللہ نے اپنے محبوب ہونے کا دار و مدار آپ صلعم کی اتباع میں رکھا ہےاتباع کو ہم تقلید کے معنوں میں لے سکتے ہیں یعنی جو افعال آپﷺنے جس طرح انجام دئے اسکی ہم پیروی کریں -اسمیں وہ افعال بھی آجاتے ہیں جو آپ ﷺ کی نشست برخاست کھانے پینے سے متعلق ہیں جنکو اپنانا باعث سعادت ہے لیکن جنکو چھوڑ دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے -مثلا بیٹھ کر پانی پینا ، تین سانس میں پینا ، بیٹھ کر کھانا کھانا، ہاتھ سے کھانا یا آخر میں انگلیا ں چاٹنا -اس تفصیل میں ہم جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول پاک صلعم کے ہاں تو کئی روز تک چولھا ہی نہیں جلتا تھا جبکہ آج ہماری امت میں بسیار خوری اتنی زیادہ ہے-
آپ کی اطاعت اور اتباع سے واقفیت کیلئے سیرت طیبہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺکی زندگی میں مختلف النوع حالات پیش آئے اور مختلف قسم کے حالات میں آپ ﷺ نے جو طرز عمل اختیار کیا اس کے بارے میں ہمیں علم ہوتا ہے۔ ایسا وقت تھا جب آپ ﷺ دولت مند تھے پھر مفلسی بھی دیکھی۔ اطاعت گزاری کا وقت گزارا اور فرمانروائی کا بھی۔ دوستی بھی نبھائی، دشمنی بھی جھیلنی پڑی۔ صحت مند و تندرست رہے، بیماری سے بھی سابقہ پڑا۔ حکومت و جماعت کا انتظام چلایا، معلمی بھی کی، فوج کے سپہ سالار رہے، قاضی اور جج کے فرائض انجام دیئے۔ رشتہ داریاں نبھائیں، باپ کی حیثیت سے، شوہر کی حیثیت سے، سسر کی حیثیت سے، مسلموں اور غیر مسلموں سے تعلقات۔ دوسرے بڑے آدمیوں کی طرح آپکی زندگی کا کوئی گوشہ خفیہ نہیں ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا ہر رخ ہمارے سامنے ہے اور مکمل ہے۔ چمکتے سورج کی طرح واضح ہے۔ آپ ﷺ کا شخصی کردار اور آپ ص کا اعلیٰ اخلاقی اوصاف، شرافت، صبر، شجاعت، توکل، عبادت سب کی کیفیت اور عملی نمونے موجود ہیں۔
اس طرح آپﷺاپنی گھریلو زندگی میں اچھے شوہر، شفیق باپ، مہربان نانا کی حیثیت میں کس طرح کے تھے ہم بخوبی جانتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں اچھے ساتھی، ہمدرد سربراہ، اعلیٰ کمانڈر، بہترین منتظم و مدبر، دشمنوں کے خیرخواہ وغیرہ ۔غرضیکہ ہر عمل کا نمونہ بہترین نمونہ آپ کی ذات میں ملتا ہے۔
حضرت عائشہ ﷺ کا قول ’’حضور ﷺکا اخلاق مجسم قرآن ہے۔ ‘‘
قرآن پاک کی آیت ہے۔ وَمااٰتکُم الرسول فخذوہ وَمانھا کم عنہ فانتھوٰہ۔ یعنی تمہارا رسول تمہیں جو چیز دے اسے خوشی سے لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے باز رہو۔
اس کے ساتھ ہی سورہ النجم سے اس بات کی تشریح کر دی وَماینطق عن الھوٰی اِن ھو اَلاَّوحی یوحیٰ کہ نبی ﷺ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو ان کو وحی کی جاتی ہے وہی بولتے ہیں۔
قرآن پاک میں آیا ہے۔
انا ارسلنک شاھداً و مبشراً و نذیراً لیُؤمنو باللہ و رسولِہِ (الفتح 8-9)
بیشک ہم نے بھیجا آپ کو گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا تاکہ اے لوگو!تم اللہ اوراس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ۔
شاہد، مبشر، نذیر کی تشریح۔
سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے۔
فاٰمنوباللہ رسولہ النبی الامّی الذی یُومن باللہ و کلمتِہِ و اتبعوہ لعلَکُم تھتدون۔
پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو خود اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا لو۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
ومن لم یومن باللہ وَرسولِہ فانَّااعتدنا لِلکٰفرین سعیراً۔
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لایا تو پس ہم نے کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے۔
ان آیات سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ حضورﷺ پر ایمان لانا فرض ہے اور حضو ﷺ پر ایمان لائے بغیر نہ ایمان پورا ہے اور نہ اسلام درست ہے۔
حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ اس وقت تک جہاد و قتال کروں جب تک کہ وہ اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کے ساتھ ان باتوں کی تصدیق نہ کرلیں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمائی ہیں۔اب ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔
آنحضرت ﷺکا معاملہ یہ کہ آپ نبی اُمّی تھے (اَن پڑھ) آپ اس قوم میں مبعوث ہوئے جوتمام کی تمام جاہل تھی۔ آپ ﷺ کی نشوونما اس شہر میں ہوئی جہاں گزشتہ علوم کو جاننے والا کوئی نہ تھا نہ ہی آپ ﷺنے کسی ایسے شہر کا سفر کیا جس میں کوئی عالم تھا جس سے آپ ﷺعلم حاصل کرتے اور توریت و انجیل اور گزشتہ امتوں کے حالات جانتے۔ یہ ایک مصلحت خداوندی تھا اس کے باوجود آپ ﷺ نے دنیا کے تمام ملتوں کے ہر فریق میں ایسی محبت قائم کی کہ اگر تمام دنیا کے عالم و نقاد بھی جمع ہو جائیں تو بھی اس کی مثل کی کوئی دلیل نہیں لاسکتے۔ اُمّی ہونے کے باوجود آپ ﷺ کا ہر قسم کے علوم میں ماہر ہونا آپ ﷺ کی عظمت کی روشن دلیل ہے۔
آپﷺ پر صرف ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں آپ ﷺ کااتباع ضروری ہے۔ آپﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے اور آپﷺ کی اطاعت و اتباع کی بدولت ہی ہدایت ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔جو شخص واضح ہدایت اور رہنمائی ملنے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے، اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں اسے جھونک دیا جائے گا اور اپنے انکا رکے سبب سے عذاب کا مزہ چکھے گا۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete
ReplyDeleteمحترمہ کیا ھی بہتر ھوتا اگر آپ اطاعت اور اتباع کی کچہ مثالین بھی پیش کرتی مثلاتعددازواج'عربی بولنا'اونٹ کی سواری کرنا'عرپی لباس پہننا' کیا اتباع رسول ھےاگرنھین تو کیون؟'
Dr. Sikandar Hussain,
Professor Physiology,
Dr. V.R.K Women's Medical College,
ReplyDeleteالسلام علیکم
جناب دوسرا مضمون جو میں نےپوسٹ کیا تھا وہ قدرے مفصل ہے آپ دیکھ لیجیے گا آپ کے یہ پوائنٹ کافی اچھے ہیں اور یہ مثال بھی دی جا سکتی ہے-
جزاک اللہ
asma khan
ReplyDelete11:35 AM (58 minutes ago)
to BAZMeQALAM
Aapa
Excellent write up,thank you so much.
Abida Rahmani
ReplyDelete12:23 PM (13 minutes ago)
to BAZMeQALAM
Thank you Asma , JazakAllah khair!
Good to see you back after a long absence!
Apaa
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔Thanks......شکریہ
ReplyDelete