Wednesday, December 12, 2012

گئو ماتا



گئو ماتا





عابدہ رحمانی
اس مضمون سے کسی کی دل آزاری ہرگز  مقصودنہیں--

بچپن میں اسمٰعیل میرٹھی کی نظم پڑھتے تھے - رب کا شکر ادا کر بھائی ، جس نے ہماری گائے بنائی-
آج کل پاکستان میں بھارت سے برآمد شدہ اشیاء کے خلاف ایک مہم چلی ہوئی ہے خاص طور پر اشیاۓ خورد و نوش اور کاسمیٹکس وغیرہ، اسکے تصویری ثبوت اور حقائق مہیا کئے گئے ہیں کہ ا ن اشیاء میں گائے کے پیشاب اور گوبر کی آمیزش ہے- اس حقیقت سے کسی کو انکار نھیں کہ گائے کا گوبر اور پیشاب ہندو دھرم میں پاک پوتر سمجھا جاتاہے-میں خود کبھی بھارت یاترا پر نہیں گئی اور ان مناطر کی چشم دید گواہ نہیں ہوں-لیکن بہت کچھ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے- بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لئیے بھی گائے کا گوشت ایک نعمت غیر مترقبہ ہے- بوڑھی گایوںکوبیو پاری پاکستان کے بیوپاریوںکے ہاتھ سستے داموں بیچ دیتے ہیںاور یوں لوگوں کو کافی بیکار گوشت ملتا ہے - گائے کے ذبح پر بھارت میں کئی ہندو مسلم فسادات ہو چکے ہیں- اسلئے لوگوں نے اہنی تسلی کے لئے یہ کہنا شروع کیا ،" ہم بڑا گوشت نہیں کھاتے" جبکہ مغرب میں بڑا گوشت یعنی بیف انتیہائی پسندیدہ اور مہنگا ہے----
 آپ لوگوں نے جے لینو کا ٹو نائیٹ شو دیکھا ہوگا بسا اوقات دلچسپ مذاق ہوتے ہیں- کہنے لگے،" انڈیا سے ہائی ٹیک اندسٹری اور اعلےٰ تعلیم کے لیے جو ھندو بچے آتے ہیں انکو متبرک بنانے کے لئے گائے کے پیشاب سے نہلا کر امریکہ بھیجا جاتا ہے،" اور اسکے ساتھ اسنے کافی کراہئت دکھائی- "they are actually drenched in cow's urine." جبکہ یہی بچے یہاں کی ہایئ ٹیک اور دوسرے شعبوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیئت سے ہیں اور رفتہ رفتہ یہآں کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں-مشہوربھارتی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کا پسندیدہ مشروب خود انکا اپنا------تھا -وہ اسے ایک ٹانک اور آب حیات کا درجہ دیتے تھے،  اسکے طبی اور نفسیاتی فوائید پر اکثر بحث کرتے اور اپنے اس فعل پر کافی فخر کرتے تھے، بلکہ اپنی لمبی اور صحتمند زندگی کا راز اسی کو بتاتے تھے- اکثر ہندو مٹھائی والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ دھی کے کونڈوں اور مٹھائی کی ہانڈیوں کو تبرکا گوبر لگاتے ہیں- ڈھا کے میں ایک مشہور رس ملائی والا کالا چاند تھا اسکے بارے میں یہی مشہور تھا کہ تمام ہانڈیوں کو پہلے گوبر لگا لیا جاتاہے- یہ قصہ بھی اسی سے متعلق ہے-

ہمارے پیچھے کی طرف نئے مکانوں میں ایک خاندان آیا تھا -کھڑکیوں سے تاک جھانک ہوتی تھی-اگلے روز ہی مٹھائی کا ڈبہ لئیے ہوۓ کانتا بائی آئیں -احمد آباد گجرات سے تعلق تھا- وہاں کے ہندو مسلم فساد کی بازگشت تازہ تازہ تھی-اسکے باوجود مجہے انکی گرمجوشی اور پہل کرنا اچھا لگا-اور پھر تو یہ روز کا معمول ہوگیا کہ وہ بلا تکلف جب جی چاھتا ، دروازہ کھٹکھٹا کر آجاتی تھیں- جو کچھ انھوں نے پکایا ہوتا اس میں ہمارا حصہ ضرور ہوتا-زیادہ تر دالیں لوبیا، سبزیاں ،کھانوں میں ہلکی سی مٹھاس رہتی،بتایا کہ وہ لوگ کھانے میں گڑ ضرور ڈالتے ہیں- ہم نے واپس انکو جب بھی پکا کر بھیجا تو منع کر دیتی تھیں، " ارے میری بہو نہیں کھاتی کہ انھی برتنوں میں پکایا ہوگا جس مین گوشت پکاتے ہیں- لیکن ھمارے منع کرنے کے باوجود وہ ہمارا حصہ ضرور کرتیں- بتاتی تھیں  بیٹا بہو یہاں آکر دھرم میں اور چست ہوگئے- ڈاؤن ٹاؤن میں ایک بڑا مندر بن رہاتھا ہر ویک اینڈ پر جا کر وہاں کام کرتے تھے ، 500 ڈالر ماہوار مندر کو دیتے بیٹے نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مندر تیار نہیں ہوتا وہ میٹھا نہیں کھائے گا - مجہے تو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئ کہ وہ لوگ ہندی فلمون کے سخت خلاف تھے ، گانے بھی سننا پسند نہ کرتے، بتاتیں کہ بس بھجن ، کیرتھن سن لیتے ہیں - بیٹا کیمیکل انجینئر تھا،" پائی جوڑ جوڑ کر پرھایا ہے"بہو کینیڈیئن شہری تھی ، پہلے بیٹا آیا ، بعد میں ماں باپ اور دو بھائیوں کو سپانسر کیا-ھلاکوخان قسم کی بہو تھی کینیڈئن شہریئت نے اسکا کچھ خاص نھیں بگاڑا تھا- اٹھتے بیٹھتے اپنا احسان جتلاتی تھی- خود کسی فیکٹری میں ملازم تھی کانتا با ئی گھر کا سب کام کرتی، کھانا پکانا،گھر کی صفائی ، بچوں کی دیکھ بھال-  ابھی ان مکانوں میں جنگلے نہیں لگے تھے- نئی نئی آئی تھیں یہاں کے طور طریقوں سے واقف نہیں تھیں ، بہار کا موسم آیا تو ہمارے گلابوں میں بھر کر پھول آئے  ،اکثر صبح صبح آدھمکتیں دو گلاب کے پھول دیدٰیں بھگوان کے چرن چڑھانے ہیں ! سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ عمر میں مجھ سے 6،8 سال بڑی تھیں ، لیکن میرے بچوں کی دیکھا دیکھی امی پکارنے لگیں ،مجھے انکی سادگی اور محبت بہت بھائی- ایک روز آئیں آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ، بیحد دکھی لہجے میں کہنے لگیں،' بہو نے بہت تنگ کیا ہوا ہے، انڈیا بیٹی سے بات کرنی ہے ، فون میں کچھ گڑ بڑ کر گئی ہے- میں کارڈ لائی ہوں اگرآپ ملادینگی--میں نے ملایا کافی دیر اپنی زبان میں باتیں کرتی رہیں - ؐمین اوپر تھی جب اندازہ ہوا کہ انکی بات ختم ہوگئی تو نیچے آنے لگی - سیڑھیوں کے پاس کھڑی تھیں
جھٹ سے میرے پاؤں پکڑ کر اوپر سر رکھ لیا-" ارے کانتا بائی خداکے لئے یہ آپ کیا کر رھی ہیں؟ "آج تو آپ میرے بھگوان ہو" وہ فرط جذبات سے کیا کیا کہتی رہیں - میں استغفار پڑھتی رہی اور انکو گلے لگایا - دیکھیے آپ مجھے گنہگار کر رھی ہیں آپ میری بہن کی طرح ہیں- میں نے کافی کوشش کی کہ انکو اپنے سنٹر لے جاکر  مختلف پروگراموں میں شامل کر دوں ہما رے اس ملٹی کلچرل کونسل میں عمر رسیدہ خواتین کے لیے کافی دلچسپ پروگرام تھے ، اسکے علاوہ ESL ( english as a second language) کی کلاسز ہوتی تھیں اگر آپ لوگوں نے انگریزی کا مزاحیہ پروگرام ( Mind your language) دیکھا ہو تو بالکل وہی حال ہوتا ہے، اسکے علاوہ ہم نئے آنے والوں کو انکےشہری حقوق اور فرائض کے بارے میں بہی آگاہی دیتے،آنے جانے کے لئے بس کے فری ٹکٹ میسر تھے - لیکن انکو سیوا کرم سے فرصت کہاں تھی؟ ھندی اور گجراتی جانتی تھیں-- لیکن انگریزی سے نابلد تھیں--
ہمارے ہاں دعوت تھی کھانا شروع ہونے ہی والا تھا کہ کانتا بائی لوبئے کا پیالہ لے آئیں میں نے وہ بھی میز پر لگادیا- فرزانہ کہنے لگیں آپ لوگ انکا کھانا کھا لیتے ہیں ؟ ہاں کیوں؟ " آپ نہیں جانتیں یہ تو کھانے میں گائے کا پیشاب ڈالتے ہیں" اتنا کافی تھا
لوبیا تو کوڑے کی نذر ہوا لیکن یقین پھر بہی  نہیں آیا -اگلے روز کانتا بائی کو ایک لمبی چھل قدمی پر لے جانے کی پیش کش کی ، شکر ہے وہ تیار ہو گئیں- " کانتا بائی آپ لوگ گاۓ کا گوشت نہیں کھاتے ، کیا اسکو ناپاک سمجھتے ہیں ؟ " " گائے تو ماتا ہے ہمیں دودھ دیتی ہے ہمیں پالتی ہے ،ہم اسکی سیوا کرتے ہیں اسکا بہت خیال کرتے ہیں ، اسکو کاٹنا تو بہت بڑا پاپ ہے"- " اور اسکا گوبر اور پیشاب وغیرہ اسکو آپ کیا کرتے ہیں؟ " اسکو ہم پوتر سمجھتے ہیں ، پیشاب گھر میں چھڑک دیتے ہیں اور گوبر سے گھن نہین کرتے ، پھلے تو جب کچے فرش ہوتے تھے تو گوبر سے لیپ لیتے تھے-کانتا بائی صاف گوئی کے موڈ میں تھیں--اور اب کبھی دیوار پر تھوڑا سا لگالیتے ہیں یا گھر کے باہر کی طرف لگاتے ہیں"- "اورکھانے مین بھی ڈالتے ہیں؟" وہ کچھ خاموش ہویئں " نہیں کھانے میں نہیں دالتے" نمعلوم کیوں مجھے لگا جیسے وہ  اب غلط بیانی کر رہی ہیں-" تو یہاں پر آپ لوگ کیا کرتے ہیں" " ارے یہاں کہاں یہ سب ملے گا " لیکن فرزانہ نے بتایا کہ یہ لوگ بوتل میں لے آتے ہیں اور تبرکا ایک قطرہ،دو ڈالتے ہیں-
پھر میری ہیوسٹن میں رہنے والی ایک دوست نے بتایا کہ ایک روز وہ لوگ ایک فارم پر دودھ خریدنے گئے -فارم والوں نے انہیں انڈئین سمجھا اور پوچھا کہ کیا گائے کا پیشاب بھی چاہئے؟ یہ کافی حیران ہوئے اسپر انہوں نے کہا " ہمارے انڈئین گاہک ہم سے کنستر میں پیشاب رکھوا لیتے ہیں اور پھر لے جاتے ہیں-اسکے بعد کانتا بائی سے دوستی تو قائیم رہی لیکن انکا کھانا حلق سے نہین اترا--لیکن اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ انڈیئن ریستوراں کا کھانا ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اب بھی کھاتے ہیں جب وہ ہمیں یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ strictly vegetarian ہیں اور کبھی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ کیا آپ گئو ماتا کا 
پوتر موتر ڈالتے ہیں؟------واللہ اعلم اسپربھارتی باشندے بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں--------------

India makes cola from cow urine

To millions of devout Hindus, it's the real thing: a cola made from the urine of India's sacred cows.

Cow nose: India makes cola from cow urine
Hindus worship cows for their life-sustaining dairy products Photo: GETTY
The Rashtriya Swayamsevak Sangh, India's leading Hindu cultural group, has developed Gau Jal or Cow Water, at its research centre in the Indian holy city of Haridwar on the River Ganges, and hopes it will be marketed as a 'healthy' alternative to Coke and Pepsi.
Hindus worship cows for their life-sustaining dairy products, but many also consume bovine urine and faeces in drinks and spice mixes for their "health-giving" properties.
In some Indian states, cow dung and urine are sold in regular dairy shops alongside milk and yogurt, and "ayurvedic" Indian health food companies make porridge, toothpaste and tonic drinks which claim to cure ailments ranging from liver complaints to diabetes and cancer. The urine is also believed to have disinfectant properties while the dung is used in many Indian village huts as a clean and antiseptic flooring.
Now, the RSS's Cow Protection Department has invented a new urine-based soft drink it hopes will promote its health-giving properties to a wider market. "We refer to gau ark (cow urine) as gau jal (cow water) as it has immense potential to cure various diseases. We have developed a soft drink formula with gau jal as the base and it has been sent to a laboratory at Lucknow for testing," said director Om Prakash.
His team is now focusing on packaging, marketing, and of course preservation to stop its curative drink from going whiffy in the summer heat.
"It will be a revolution of sorts. The acceptance of cow urine as a potent medicine is increasing day by day and once it comes as a cold drink, its demand will definitely increase. It will prove and justify the high stature accorded to a cow in Indian culture." he added.

24 comments:

  1. INDIA'S NEXT BIG EXPORT: COW URINE SODA
    Updated Jul 7 2009 - 4:54pm · Posted Feb 12 2009 - 3:00pm by YumSugar · 16 comments
    News · Drinks · Coke · India · Urine · Pepsi · Cows · Would You Eat This · Gau Jal
    Holy cow. India's oldest, biggest nationalist Hindu group, the Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS), plans to introduce a new soft drink made from cow urine.

    The radical RSS group has long campaigned against beverages such as Coke and Pepsi, foreign imports that it believes to be a corrupt influence and a symbol of Western imperialism. In India, bovine urine is considered medicinal and is, like the cow itself, seen as sacred, particularly at religious festivals. In some traditional rituals, cow urine is consumed to purify those who belong to the lowest rung of the Hindu caste system. Although the group hasn't confirmed flavors or pricing for the drink, to be known as gau jal, or "cow water" in Sanskrit, the elixir will be mixed with aloe vera, gooseberry, and other herbs that allegedly combat diabetes, cancer, and other diseases. The RSS and its offshoots have been promoting gau jal as a cure-all since as early as 2001, but Om Prakash, the head of the RSS's Cow Protection Department, said the drink will be introduced "very soon, maybe by the end of this year." He added:
    Don't worry, it won't smell like urine and will be tasty, too. It's going to be very healthy. It won't be like carbonated drinks and would be devoid of any toxins. We're going to give [American soda brands] good competition as our drink is good for mankind. We may also think of exporting it.
    How do you feel about this? I think it's disgusting, but at the same time, I've promised myself that I will try anything once. Would you drink cow urine for its purported health benefits?

    Source

    ReplyDelete
  2. یہ سو فیصد مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندو اور خصوصا برہمن گائے دودھ کے ساتھ اس کاپیشاب اور گوبر تبرکا استعمال کرتے ہیں. اور ہر چیز کو پاک کرنے کیلئے گائے کے گوبر اور پیشاب کا استعمال ناگزیر ہے.
    Mohd. Inamul Haque Qasmi
    Saudi Railway Company {SAR}
    PO Box: 64447, Riyadh 11536, KSA
    Tel: +966 1 250 1111 Ext. 248
    Fax: +966 1 480 7517
    Mob: +966 559 064 904
    mohammadihaque@yahoo.co.in
    mihqasmi@gmail.com

    ReplyDelete

  3. آپ نے مضمون کے شروع میں جو معذرت چاہی وہ بے کار ہے ۔ ہم لوگ پیشاب پاخانے و دیگر گندگی کو گندگی ہے تصور کرتے ہیں ۔ البتہ دیگر اقوام اسے ناپاک نہ سمجھیں تو ہم معذرت خواہ کیوں ہوں؟
    ٓآپ کا جس طرف اشارہ ہے اس سے یہ بات تو سمجھ آجاتی ہے کہ آپ کی پڑوس والی خاتون گجراتی تھیں بلکہ گمان غالب ہے کہ اس خاندان کاتعلق جین مذہب کے ماننے والوں سے ہو۔ کیونکہ جین لوگ ہر کھانے میں گڑ اور املی کا استعمال کرتے ہیں بھلے وہ مرچ ڈال کر پکایا جائے، یہی حال دیگر گُجو اورسندھیوں ( ہندوں)کا بھی ہے۔
    ان کے یہاں گائے ہی نہیں بلکہ بکری ،اونٹ اور حد تو یہ بھی کہ خود انسان کا پیشاب بھی متبرک ہے ۔ جس کی وضاحب آپکے مضمون کے ایک واقعہ سے ہوجاتی ہے۔
    قدیم زمانے میں ہندو لوگ بکثرت گائے کا گوشت کھاتے تھے۔ بلکہ گائے کی قربانی بھی کرتے تھے جسے گؤ یگیہ کہا جاتا ہے۔ آ ج بھی بعض برہمن خاندانوں میں یہ رسم عام ہے مگر اب گؤ یگیہ میں اصلی گائے کے بجائے کدویا پھر آٹے سے بنی گائے کی آہوتی دی جاتی ہے۔
    گجراتی ہوٹل مالکان تو بھلے ہی کہیں بھی رہیں اپنے ہوٹل اور کھانوں میں اسے پابندی سے چھڑکتے ہیں۔ یہی حال مارواڑی ( راجستھانی ) لوگوں میں کا بھی ہے۔ اب جب سے ہندوتواوادی تحریکات نے زور پکڑاہے اس کا استعمال بڑی بڑی ادویاتی کمپنیوں میں بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ہندوستان کی مشہور آیور ویدک ادویاتی کمپناں بشمول ڈابر اور بیدناتھ کے سبھی گائے کے پیشاب کا استعمال کرنے لگی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کو سڑانے ، ان کے عرق نکالنے ، کشید کرنے کے لیے گؤ متر کا استعمال ان ادویاتی کمپنیوں میں عام ہے۔ ہر غیرمسلم میڈیکل اور ہوسکتا ہے کہ مسلم میڈیکلس میں بھی اس قسم کی ادویات دستیاب ہیں۔
    اس لیے ہند کے مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ یونانی ( مسلم) کمپنیوں کے ہی ادویات استعمال کریں۔

    اللہ ایسی ادویات اور غذاؤں سے ہماری حفاظت فرمائیں ۔

    --------------------------
    عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
    سخن فروش ہوں داد ہنر کمانی ہے

    ReplyDelete
  4. عبدالمقیت صاحب اپکی، انعام الحق قاسمی صاحب، رشید انصاری صاحب اوربہن عالیہ تبسم کی آراء کیلئے بیحد ممنون ہوں
    آپلوگوں نے اسپر مہر تصدیق ثبت کردی کہ ہندو معاشرے میں یہ ایک جانا بوجھا پسندیدہ فعل ہے-جہان تک صفائی ستھرائی کا تعلق ہے جس خاندان کا میں نے ذکر کیا ہے وہ انتہائی صاف ستھرا خاندان تھا اور شاید جین ہی تھے کیونکہ پیاز لہسن بھی نہیں کھاتے تھے بلکہ ہم نے ایک دو مرتبہ بغیر پیاز لہسن کے پکا کر دیا تو کانتا بائی نے بتایا کہ میری بہو پھینک دیتی ہے اور سب سے حیرت کی بات یہ کہ وہ کوئی انڈئین فلم اور گانے نہیں سنتے تھے -انہوں نے بتایا کہ کینیڈا آکر دھرم میں زیادہ چست ہوگئے ہم سے تعلقات قائم کرنے میں انکا دخل اور خلوص زیادہ تھا- بہر کیف اپنے اپنے دھرم کی بات ہے-

    کچھ عرصہ پہلے ایک خبر نظر سے گزری کہ سعودی عرب میں اونٹ کے پیشاب پر کینسر کے علاج کی ریسرچ ہو رہی ہے- اس سلسلے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے Chapter 51, Hadith #s 173 & 174): -------
    عکل یا عورینہ سے کچھ لوگ مدینہ آئے ، مدینے کی آب و ہوا انکو راس نہ آئی اور وہ بیمار ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو ایک اونٹوں کی چراہگاہ میں بھیجا اور انکو بطور علاج اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کی تاکید کی جس سے وہ صحت یاب ہوگئے - انہوں نے گلہ بان کو مار ڈالا اور اونٹوںکو لیکر فرار ہوئے آپ ص کو خبر ہوئی تو انکے پیچھے آدمی روانہ کئے انکو قتل اور ڈکیتی کی سزا کے طور پر مار دیا گیا اور اونٹ پکڑ کر واپس لے آئے

    174-- مسجد نبوی کی تعمیر سے پہلے رسول اللہ ص خالی زمیں پر نماز ادا کرتے تھے جہاں پر بکریاں باندھی جاتی تھیں تشریح نگار کا خیال ہے کہ بکری کا پیشاب ناپاک نہیں ہوتا یا اسے زمیں جذ ب کر لیتی ہے-
    اس فورم پر موجود علماء سے رائے دینے کی درخواست ہے

    والسلام




    Abida Rahmani

    ReplyDelete

  5. جناب رشید انصاری صاحب

    یہ

    Sangh Parivar



    کیا ہوتا ہے؟

    combind family

    or

    mixed communities?



    farooq



    Date: Fri, 14 Dec 2012 18:02:01 +0800
    From: rasheedmansari@yahoo.co.in
    Subject: Re: Reply: {17197} گئو ماتا
    To: BAZMeQALAM@googlegroups.com
    CC: abida.rahmani7@gmail.com; muqeet24@ibibo.com

    RASHEED ANSARI
    ===============
    I have eaten Gujrati food at the houses of other
    communities ( Ismaeelis, Bohras and Memons almost all eat
    curries and even pickles having sweet taste with salt and
    chillies. Some snacks ( Chudva, Sambosa etc) contain sugar
    or gud. Non Veg too could have light sweet taste!
    I also found people having very neat and clean way
    of living along some people with dirty homes and similar
    life style.
    Generally Gujrati people are peaceful and have mild nature
    but Sangh Parivar have made them aggressive and hostile!

    ReplyDelete

  6. تحریک خلافت کے ساتھ ہی متحدہ ہندوستان میں شدھی سنگھٹن نے جنم لیا ، جس کے بطن سے راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر يس يس ) نےجنم لیا
    اسی تحریک کی سیاسی ونگ تھی جن سنگھ ، جسے ایمرجنسی کے بعد ۱۹۷۷ میں واجپائی اور اڈوانی نے سابق وزیر اعظم مرارجی دیسائی کی قیادت میں قائم جنتا پارٹی میں ضم کردیا
    بلراج مدھوک نے جن سنگھ کے نام سے دوسری سیاسی پارٹی قائم کی تو یہ نام اور اس کا سمبل اس کی سابقہ قیادت کو نہ مل سکا ، لیکن یہ پارٹی زیادہ دن چلی نہیں ، جنتاپارٹی کے خاتمے یا ٹوٹ پھوٹ کے بعد
    واجپائی اور اڈوانی کی قیادت میں غالبا ۱۹۸۱ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) قائم ہوئی۔ اس طرح آر یس یس سے کئی ایک دوسری جماعتیں نکلیں
    راشٹریہ سیونگ سنگھ کے بطن سے جنم دینے والا یہی خاندان سنگھ پریوار کہلاتا ہے



    A Rare Collection Of Audio And Video
    www.bhatkallys.com
    www.urduaudio.com ; www.bhatkaltv.com
    Collection And Presentation By

    ReplyDelete

  7. آپا آپ یہ کس بحث میں بزم (امت ) کو ڈال رہیں ہیں؟ ایسا نہ کریں۔
    میں کوئی فقہی یا شیخ الحدیث تو نہیں کہ اس حدیث کی جس کا آپ نے اوپر ذکر کیا سند وغیرہ پر بحث کروں البتہ میرے کمزور حافظہ میں ایک بات یاد آرہی ہے کہ میں نے کہیں یہ ارشاد نبویﷺ پڑھا ہے کہ ’’ میری جو بات قرآن سے ٹکرائے اسے دیوار پر مارو‘‘ ( اسکا حوالہ بھی مجھے یاد نہیں اور یہ بھی کہیں یاد نہیں کہ یہ واقعی حدیث کا حصہ ہے) مگر ایک بات تو واضح ہے کہ ’’ اسلام صاف ستھرا مذہب ہے‘‘ جس نے شراب، خون کو گندہ قرار دیاہے وہ پیشاب کو پاکیزہ قرار نہیں دے سکتا۔ مدینہ میں ہجرت کے ساتھ ہی مسجد قبا کی تعمیر ہوئی۔ اسکے بعد مسجد نبویﷺ کی بنیاد رکھی گئی ۔ پھر یہ بکریوں کی قیام گاہ کہاں سے آگئی؟ مدینہ کی جغرافیائی ساخت کے اعتبار سے یہ تو ممکن ہے کہ وہ زمین بکری کا پیشاب جلد جذب کرلیتی ہو۔ ہم لوگ بھی کھیتوں میں نماز پڑھتے ہیں اور یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہاں پر کسی چرندے ، درندے یا انسان نے کبھی ( یا کچھ دیر پہلے ) پیشاب کیا ہو ! کیونکہ دھوپ کی وجہ سے زمین جلد پہلے جیسی حالت میں لوٹ آتی ہے ۔
    متعلقہ حدیث کی بات پتہ نہیں احادیث کی کتابوں میں گھس آئی ہے یا بالکل مستند ہے۔ اگر مستند حوالے سے بھی آئی ہے تو اس کا اطلاق کن حالات میں تھا۔ اس کے پیچھے وجوہات کیا تھیں ؟ کیا ان صاحبان نے اسلام قبول کرلیاتھا یا اپنے پرانے دین پر قائم تھے؟ اگر قبول کرلیا ہوتا تو ان سے قتل سرزد ممکن ہی نہیں تھا ورنہ منافقین کو پیشاب کیا اسے بھی گندی اشیاء دی جائے تو کوئی برائی نہیںآخر ان کا ایمان ایسی ہی گندہ چیزوں کے لائق ہوتا ہے۔ اگر وہ مومن ہوتے تو اللہ کے رسول ان کے قتل کے لیے واقعی وفد ارسال کرتے؟؟
    اس طرح کے سوالات ایسی احادیث کی تحقیق کے لیے میرے ذاتی نوعیت کے ہیں۔ لہذا ایسے واقعات کے لیے اس تجزیے کو بنیاد نہ بنایا جائے ۔
    آخر میں آپ کی التماس دوبارہ دہراتا ہوں کہ بزم پر موجود اہل علم جن کی پکڑ قرآن وحدیث پر پختہ ہوں تو ضرور تحقیق کریں۔
    مجھے یقین ہے کہ جناب محی الدین غازی صاحب ( انڈیا) بھی اس بز م سے دور نہیں ہونگے اگر ان تک یہ میل پہنچتا ہے تو ان پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ اس پر اہل علم کی تحقیق بیان کریں ۔

    ------------------
    ہر کسی کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتاہے۔ خدا نے انسان کو یہ آزادی دے رکھی ہے۔ اس لیے میر ا نظریہ بے شک قابلِ گرفت ہوسکتاہے
    ----------------------------
    عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
    سخن فروش ہوں داد ہنر کمانی ہے

    ReplyDelete
  8. ابن القیم رحمہ اللہ نے حدیث عرنیین (عرینہ والی اونٹ کے پیشاب سے علاج والی حدیث) سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حلال جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ' (ماکول اللحم) کے پیشاب سے علاج کیا جاسکتا ہے حرام جانور سے نہیں (زاد المعاد من هدي خير العباد(4/46-48) اس سے معلوم ہوا کہ حلال ماکول اللحم جانور کا پیشاب ہی اگر علاج کا ذریعہ ہے تو اسے اپنایا جاسکتا ہے
    جہاں تک اس حدیث کی صحت کے بارے میں اگر کسی کو اعتراض یا شک ہے تو قابل اعتبار نہیں ہے اس لئے کہ یہ صرف بخاری میں ہی نہیں بلکہ مسلم سنن أربعہ کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی آئی ہے اور اس پر امت کے محدثین اور اطبہ نے بحث کی ہے اور زخیر ہ بھرا پڑا ہے
    سہولت کے خاطر تخریج حدیث منسلک ہے جس کسی کو تحقیق یا سیر حاصل مطالعہ مطلوب ہے ان حوالہ جات کی شروحات کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے
    کتاب قانون کے مصنف : ابن سیناء کا یہ قول ہی کافی ہے کہ أنفع الأبوال: بول الجمل الأعرابي، وهو النجيب،.
    سعودی عرب میں رہنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے پینے سے کتنے ہی لوگ صحتیاب ہوئے ہیں خاص طور سے پیٹ کی خرابی اور کینسرسے متاثر مریض

    2012/12/15 syed hashim
    مولوي صاحب ..... السلام عليكم

    اپكا وقت ساتہ دے اور مصروفيات مانع نہ ہوں تو گزارش هے كہ زير نظر موضوع بر اپنے نگارشات روانہ فرمايں تاكہ تشفي ہو سكے۔

    خير انديش
    سيد هاشم الدين

    ReplyDelete
  9. م میں ہے۔صحیح مسلم
    ۱:۔ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آئے ۔انھیں وہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم چاہو تو صدقہ کی اونٹنیوں کے باڑے میں جائو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو ۔انھوں نے اسی طرح کیا اور تندرست ہو گئے ۔ پھر انھوں نے اونٹوں کے چرواہوں پہ حملہ کیا اور ان کو قتل کر دیااور دین اسلام سے مرتد ہو گئے اور رسول اللہ کے اونٹ لے کر بھاگ گئے ۔رسول اللہ تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں لوگوں کو بھیجا ،ان کو پکڑ کر لایا گیا ،آپ نے ان کے ہاتھوں پیروں کو کٹوا دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں اور ان کو تپتے ہوئے میدان میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے ۔
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں درج ذیل حدیث مروی ہے ۔
    عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 )
    ’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔
    حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اسی حدیث کے حوالے سے اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے ۔
    بعض لوگوں کی جانب سے اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں 1)نقلاً(2)عقلاً۔
    قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاکا ذکر ہوا ہے :
    إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ الْمَیتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَآ أُہِلَّ بِہِ لِغَیرِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ ۔آیت 172)
    ’’ تم پر مردار ،خون ، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘
    اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیا کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثنابھی کردیا ۔
    فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط
    ’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘(سورۃ البقرۃ ۔آیت 173)
    اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال کرنے کو کس نے روکاہے ؟جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے ؟
    بعض لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کرتے ہیں کہ “ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ” تو گزارش ہے کہ قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔
    خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیا کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اونٹنی کے پیشاب کو اس کے دودھ میں ملاکر ایک مخصوص بیماری میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔
    کیمسڑی کے اُ صولوں کو بھی مدنظر رکھیں
    اگر آپ کو واقع ہی کیمسٹری کے اصول یاد ہیں تو آ

    ReplyDelete
  10. پ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دو مختلف کیمیکلزکے ملنے سے ایکشن اور ری ایکشن ہوتا ہے۔ یاد دہانی کے لئے میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔
    پانی کے لئے H2O ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور اکسیجن کا ایک مالیکیول مل کر پانی بنتا ہے۔
    نیلا تھوتھا زہر ہے اور آپ کو پتہ ہو گا کہ اگر نیلا تھوتھا کی قلمیں بنا لی جائیں تو پھر نیلا تھوتھا سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور اسے پھرکچھ بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
    “سوڈیم” اسے اگر کھولیں تو ہوا سے آکسیجن ملتے ہی اسے آگ لگ جاتی ہے ، اور ” سوڈیم کلورائیڈ” جو ہم روزانہ کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو کچھ نہیں ہوتا۔
    اونٹنی کے دودھ میں “ پوٹاشیم ” بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین، آئرن، فیٹ، پانی، فاسفورس ، کیلشیم، اور وٹامن سی، کیکٹوس/قدرتی مٹھاس اور ڈیوریٹک/پیشاب آور، ہوتے ہیں۔
    اب دودھ کے اندر پائی جانے والے یہ کیمیکلز جن کو لال رنگ سے مارکنگ کی ہے اگر انہی کو سامنے رکھیں تو پیشاب کے پائے جانے والے ٹاکسس کے اثر کو ختم کرنے کے لیئے یہی کافی ہیں۔کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔
    پانی کے ایک گلاس کو میٹھا کرنے کے لئے چینی کی کچھ مقدار/ ایک چمچ ڈالی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پانی کے ایک گلاس میں چینی کا ایک گلاس ڈالا جائے۔ اسی طرح دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ کے ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو سکتے ہیں اور چمچ بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہائیڈروجن کے دو مالیکول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول ان کو اکٹھا کریں تو دونوں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور اس سے جو تیسری چیز بنتی ہے جسے ہم پانی کہتے ہیں۔
    جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید
    عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس

    ReplyDelete
  11. بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں :
    ’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites)
    محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں ۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان د ہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔
    محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو مخصوص مقداروں میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا جاسکے۔
    عبدالمقیت صاحب نے جو ارشاد پیش کیا ہے کہ میری جوبات قرآن سے ٹکرائے اسے دیوار پر مارو۔ یہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی منشا سے نکلتی تھی۔ اگر کوئی بات اللہ کی منشاء کے خلاف ہوتی تو فوراً اس کی تصحیح کر دی جاتی تھی۔ لہٰذایہ قول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے۔
    اصل میں یہ قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے میری جوبات حدیث سے ٹکرائے وہ دیوار پر دے مارو۔ کم و بیش ایسی ہی بات باقی آئمہ نے بھی کہی ہے۔

    ReplyDelete
  12. اور یہ بھی آپ نے دیکھ لیا ہوگا اس مراسلے کے شروع میں جہاں اونٹنی کے دودھ اور پیشاب پلانے والی حدیث کا ذکر ہے وہ حدیث مسلم شریف کی ہے جب کہ دوسری حدیث صحیح بخاری کی ہے جس کی صحت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
    پیشاب کو کہیں بھی پاکیزہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ صرف حالت اضطرار میں دوا کی صورت میں اجازت دی گئی۔ اس کے نجس ہونے کی دلالت اس حدیث سے ملتی ہے کہ ایک بار حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر میں موجود ایک مردے کے عذابِ قبر کی خبر دی اور وجہ یہ بتائی کہ وہ پیشاب کے قطروں سے بچاو نہیں کرتا تھا۔آپ نے پہلی حدیث میں یہ بھی پڑھا ہوگا کہ وہ لوگ بھی مرتد ہوگئےتھے۔
    قبا میں قیام کے دوران اسلام کی پہلی مسجد تعمیر کی گئی تھی اور پھر مدینہ روانہ ہوئے۔ وہاں جس جگہ آپ کی اونٹنی ٹھہری وہ ایک خالی احاطہ تھا جو دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھا۔اورسامنے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ جس خالی جگہ پر اونٹنی بیٹھی تھی اسی جگہ کو خرید کو مسجد کے لیے وقت کیا گیا۔ اس دور میں بکریاں اور اونٹ تو عام پالے جاتے تھے۔ اس لیے ان کے بول و براز ہر خالی جگہ ہوسکتے تھے۔ میرے علم کے مطابق اصول یہ ہے کہ خشک جگہ پاک قرار دی گئی ہے۔ اور یہ بھی حدیث ہے کہ اللہ نے ساری زمین کو مسلمانوں کے لیے مسجد قرار دیا ہے اور ہر پاک جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اسی وجہ سے آپ بھی کھیتوں میں نماز ادا کرتے رہے۔جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ صرف عبادت گاہوں ہی میں عبادت کرسکتے ہیں۔
    چنانچہ وہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی۔ اور نماز بھی خالی زمین پر ہی پڑھی جاتی تھی۔ اس وقت چٹائیوں ، صفوں، چادروں، قالین اور پختہ فرش کا رواج نہیں تھا۔ چنانچہ مسجد کی زمین بھی خالی ہی تھی اور وہاں جوتوں کی ساتھ ہی نماز پڑھی جاتی تھی۔ جو آج ہمیں بہت عجیب بات لگتی ہے ۔ جب کہ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ یہود کے ہاں جوتوں کے ساتھ نماز نہیں ہوتی اور تم ان کی مخالفت کیاکرو اور جوتوں کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے لیے کتنی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ ہاں البتہ جوتے پاک ہونے چاہییں۔
    ویسے بعض علماء نے آغاز میں پیش کی گئی مسلم کی حدیث پر کچھ بحث بھی کی ہے۔ کیونکہ اس حدیث کا متن بعض دوسری روایات میں کچھ مختلف ہے۔مثلا ًقبیلے کا نام،بیماری کا نام، قتل کی واردات کی تفصیل اور سزا۔ جس کی وجہ سے بعض علماء اس حدیث کو پیشاب کے جواز کے لیے حجت نہیں مانتے۔ واللہ اعلم بالصواب
    میں یہ بات واضح کردوں کہ میں ہرگز کسی بھی درجے میں علماء کے صف میں شمار نہیں ہوتا۔ یہ بس اپنی واجبی سے معلومات کا اظہار ہے جو مختلف جگہوں سے اکٹھی کی گئی ہیں۔ لہٰذا اس میں اختلاف کی بڑی گنجائش ہوسکتی ہے اور میرا کہا حرفِ آخر نہیں ہوسکتا۔
    والسلام
    مخلص

    ReplyDelete
  13. ب


    From: Tanwir Phool
    To: BAZMeQALAM@googlegroups.com
    Sent: Saturday, December 15, 2012 7:23 PM
    Subject: Re: Reply: {17248} گئو ماتا
    Assalaam-u-alaikum wa RAHMATULLAH wa BarakaatuHu
    Is silsilay maiN taqreeban aik ghanTay pahlay apni ma'arooZaat tafSeelan bhaij chukaa hooN
    daikh leeji'ey gaa.Elaaj ki baat aur hai lekin is kaa yeh matlab naheeN ke ham aik najis cheez
    ko cold drink banaa kar peenaa shuroo' kar daiN.Telegraph kaa yeh link mulaaHiZaa keeji'ey
    http://www.telegraph.co.uk/news/newstopics/howaboutthat/4592608/India-makes-cola-from-cow-urine.html Aap ne jootoN ke saath namaaz paRhne waali Hadees paish ki hai Ghaaliban yahi wajh hai ke maiN ne Khaana-e-Ka'aba ke paas Masjid-e-Haraam ke andar farsh par aur muSallay par bhi aam taur se namaaziyoN ki SafoN ke darmiyaan
    shurtoN ko boot pehnay ghoomtay daikhaa hai.MaiN ne aik shurtay ko Tokaa aur Surah No.20 ki Aayat
    No.12 kaa Hawaalaa de kar us say kahaa ke "ALLAH TA'AALAA ne Apne Nabi (AS) ko muqaddas
    maqaam par jootay utaarnay kaa Hukm diyaa thaa" to woh kahnay lagaa ke yahaaN is par amal
    karnaa bahut mushkil hai aur muskuraa kar rah geyaa..Aik Hadees yeh bhi meri naZar se guzri hai ke
    HUZOOR(SAWAWS) ne farmaayaa ke jis ne aeisi baat mujh se mansoob ki jo maiN ne naheeN kahi
    woh apnaa Thikaanaa jahannam maiN banaa ley, is li'ey mashkook baatoN par yaqeeni raaey denaa
    iHtiyaat kaa taqaaZaa naheeN,ALLAHUMMA IHDINASSIRAATAL MUSTAQEEM---aHqar : Tanwir Phool
    2012/12/15 aapka Mukhlis

    ReplyDelete
  14. سم اللہ الرحمن الرحیم
    اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ :
    {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً }الأحزاب21
    یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے

    1- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سوال کیا گیا ؟
    أكان النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ يصلي في نعليه؟ قال: (( نعم )) [ رواه البخاري: 386 ]
    ’’کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں۔‘‘

    2- سیدنا ابوسعیدالخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
    بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بأصحابه إذ خلع نعليه فوضعهما عن يساره فلما رأى ذلك القوم ألقوا نعالهم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته قال ما حملكم على إلقاء نعالكم قالوا رأيناك ألقيت نعليك فألقينا نعالنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن جبريل صلى الله عليه وسلم أتاني فأخبرني أن فيهما قذرا أو قال أذى وقال إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذرا أو أذى فليمسحه وليصل فيهما
    ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ علیھم اجمعین کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک نعلین مبارک اتار کر بائیں طرف رکھ دیں ـ یہ دیکھتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے جوتے اتار دئیے ـنماز ختم ہونے پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :''آپ کو کون سی چیز نے جوتے اتارنے پر آمادہ کیا ہے ؟'' عرض کرنے لگے ـ'' ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھا ، آپ نے اپنےجوتے مبارک اتار دیے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیے ''تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :'' کہ مجھے جبریل نے آکر بتایا ہے کہ آپ کے جوتوں کے نیچے گندگی لگی ہے ـ''(تو میں نے جوتے اتار دیے )پھرفرمایا :'' جب بھی تم میں سے کوئی مسجد کو آئے ، تو اپنے جوتے دیکھ لے ـ اگر کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو صاف کرلے! اور جوتوں کے ساتھ نماز پڑھ لے ـ ''
    صحيح سنن أبي داود

    اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ اگر جوتے صاف ہوں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم مسجد میں جوتے پہن کر جماعت کرایا کرتے تھے ـ

    3-سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
    (خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلاَخِفَافِهِم)
    یہودیوں کی مخالفت کرو ! وہ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے "
    صحيح سنن أبي داود

    4-عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ـ
    رأيت رسول ﷲ يصلي حافيا منتعلاً
    ’’ میں نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کو ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
    صحيح سنن أبي داود

    ان احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ جوتوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں ـ صاف جوتوں میں نماز جائز ہے تو طواف اور صفا مروہ کی سعی بھی کر سکتے ہیں‌۔ بعض مذاہب میں ہے کہ حالت جنگ اور ایمرجنسی میں جوتے پہن کرنمازپڑھ سکتے ہیں ورنہ نہیں ـ یہ شرط صحیح نہیں ـ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بھی جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ـ
    آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ اسی خاص مقام کے بارے میں ہے۔ حرم میں عمرہ و حج ادا کرنے کے سلسلے میں بھی جوتے اتارے کی کوئی روایت کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ موسم گرما میں شدید گرم پتھریلی زمین پر بغیر جوتوں کے طواف کرنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہوگا۔آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ میں نے ایک صاحب کو دیکھا انھوں نے اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے الگ جوتے خریدے جوصرف نماز کے لیےمسجد میں پہنتے تھے۔
    اس دور میں ہر کچے راستے ہی ہوتے تھے۔ جوتا اگرناپاک ہو تو اس کو اگر مٹی پر رگڑ کر صاف کر لیا جائے تو وہ جوتا پاک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بعض علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ گھاس پر بھی جوتے رگڑے جائیں تو بھی جوتا پاک ہوجاتا ہے۔آج کل ایسی صورت حال نہیں ہے۔ پکی سڑک یا فرش ہوتے ہیں جن پر رگڑنے سے جوتا پوری طرح پاک نہیں ہوسکتا۔دوسرے صفائی کا خاص اہتمام،صفائی اور صفیں،چٹائیاں اور قالین وغیرہ کی وجہ سے بھی گرد آلود جوتے مسجد میں لے جانا مناسب نہیں۔میں نے ایک صاحب کو دیکھا انھوں نے اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے الگ جوتے خریدے جوصرف نماز کے لیےمسجد میں پہنتے تھے۔
    وللہ اعلم بالصواب
    باقی کولڈ ڈرنک والی بات تو ان کے لیے ہی ہوسکتی ہے جو گائے کے بول کو متبرک سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی فطرتِ سلیم اس کو کہاں قبول کرتی ہے۔

    ReplyDelete
  15. جزاک اللہ خیر مخلص صاحب اتنا مفصل اور مدلل جواب دینے کے لئے اگرچہ اکثر چیزیں طبیعت گوارا نہیں کرتی جسے مکروہ کہا جاتا ہےلیکن اللہ تعالئ نے ہر چیز میں شفا رکھی ہے- ہمارے اکثر بزرگ برانڈی گھر میں رکھتے تھے جو نمونیہ کے مریضوں کو پلائی جاتی تھی آپ کا کہنا اس آیت کے مطابق
    فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط
    ’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘
    - ہندوؤن نے بھی یقینا گائے کے پیشاب پر کچھ تحقیق کی ہو گی --؟
    واللہ اعلم بالصواب






    Abida Rahmani

    ReplyDelete
  16. Syed Raheem
    Dec 15 (4 days ago)

    to BAZMeQALAM
    یہ حدیث اور اس معنی میں نہ صرف زیادہ تر انس بن مالک کی روایت سے مختلف تابعین نے روایت کی ہے بلکہ مندرجہ ذیل صحابہ سے بھی دوسری کتابوں میں مروی ہے
    ۱- انس بن مالک (صحاح ستہ / مسند احمد / مسند ابن أبی شیبہ / مسند ابی یعلی /
    ۲- جریر بن عبداللہ (الخامس من الافراد لابن شاہین)
    ۳- عائشہ بنت عبداللہ ( العلل لدار قطنی)
    ۴- عبداللہ بن عباس ( مسند احمد)
    ۵- عبدالرحمن بن صخر ( الفصل للوصل المدرج فی النقل)
    ۶- عبداللہ بن عمر (کتاب المحارب)
    مجموعی طور سے مندرجہ ذیل جدول اس حدیث کی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے

    عرض
    صحيح
    حسن
    ضعيف
    شديد الضعف
    متهم بالوضع
    وضاع
    أسانيد
    أسانيد
    5
    0
    0
    0
    0
    0
    5
    تخريج
    219
    65
    80
    17
    6
    1
    388
    شواهد
    234
    98
    97
    38
    16
    1
    484

    یہ جملہ حدیث کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ امام ابو حنیفہ اور اس معنی میں دوسرے فقہی امام کی طرف منسوب ہے
    میری جو بات قرآن سے ٹکرائے اسے دیوار پر مارو
    آپ ﷺ سے یہ بات منسوب ہو ہی نہیں سکتی اس لئے کہ آپ وما ینطق عن الہوی کے پابند تھے اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ایک بات کہیں اور یہ بھی کہیں کہ مری جو بات قران سے ٹکرائے اسے دیوار پر ماردو
    رہی بات کون سی چیز گندی ہے اور کونسی نہیں یہ شریعت کا اختیار ہے ہماری اپنی سمجھ نہیں یہی وجہ ہے کہ شیرخوار لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں فرق کیا گیا جب کہ بادی النظر میں دونوں کی ایک ہی حیثیت ہے۔

    From: BAZMeQALAM@googlegroups.com [mailto:BAZMeQALAM@googlegroups.com] On Behalf Of Tanwir Phool
    Sent: 15 December 2012 19:23
    To: BAZMeQALAM@googlegroups.com
    Subject: Re: Reply: {17248} گئو ماتا

    Assalaam-u-alaikum wa RAHMATULLAH wa BarakaatuHu
    Is silsilay maiN taqreeban aik ghanTay pahlay apni ma'arooZaat tafSeelan bhaij chukaa hooN
    daikh leeji'ey gaa.Elaaj ki baat aur hai lekin is kaa yeh matlab naheeN ke ham aik najis cheez
    ko cold drink banaa kar peenaa shuroo' kar daiN.Telegraph kaa yeh link mulaaHiZaa keeji'ey
    http://www.telegraph.co.uk/news/newstopics/howaboutthat/4592608/India-makes-cola-from-cow-urine.html Aap ne jootoN ke saath namaaz paRhne waali Hadees paish ki hai Ghaaliban yahi wajh hai ke maiN ne Khaana-e-Ka'aba ke paas Masjid-e-Haraam ke andar farsh par aur muSallay par bhi aam taur se namaaziyoN ki SafoN ke darmiyaan
    shurtoN ko boot pehnay ghoomtay daikhaa hai.MaiN ne aik shurtay ko Tokaa aur Surah No.20 ki Aayat
    No.12 kaa Hawaalaa de kar us say kahaa ke "ALLAH TA'AALAA ne Apne Nabi (AS) ko muqaddas
    maqaam par jootay utaarnay kaa Hukm diyaa thaa" to woh kahnay lagaa ke yahaaN is par amal
    karnaa bahut mushkil hai aur muskuraa kar rah geyaa..Aik Hadees yeh bhi meri naZar se guzri hai ke
    HUZOOR(SAWAWS) ne farmaayaa ke jis ne aeisi baat mujh se mansoob ki jo maiN ne naheeN kahi
    woh apnaa Thikaanaa jahannam maiN banaa ley, is li'ey mashkook baatoN par yaqeeni raaey denaa
    iHtiyaat kaa taqaaZaa naheeN,ALLAHUMMA IHDINASSIRAATAL MUSTAQEEM---aHqar : Tanwir Phool

    ReplyDelete
  17. یک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اللہ نے کوئی مفید چیز ہم پر حرام نہیں کی اور کوئی مضر چیز حلال نہیں کی
    یہ حلال اور حرام خواہ مخواہ نہیں بنائے گئے بلکہ اپنے اثرات کی وجہ سے قرار دیے گئے ہیں
    جیسے کہ شراب کی حرمت کی ذیل میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ اس میں تمھارے لیے نقصان زیادہ ہے
    جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار شہد نہ کھانے کا عہد کر لیا تو فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا
    اس لیے ان نجس چیزوں میں گندگی اور ضرررسانی زیادہ ہے۔
    یہ تو صرف انتہائی تکلیف دہ حالت میں انتہائی واجبی مقدار میں دوا کی غرض سے رخصت ہوتی ہے۔
    لہذا ان کو خواہ مخواہ اطمینان کے ساتھ استعمال نہیں کر لینا چاہیے
    طبع سلیم پر بھی یہ چیزیں ناگوار گزرتی ہیں
    یہ کس نے کہا کہ اللہ نے ہرچیز میں شفا رکھی ہے
    ہاں یہ ضرور ہے کہ اللہ نے موت کے سوا ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے
    وہ بزرگ برانڈی سے نمونیہ کا علاج غالبا انگریزی اثرات کی وجہ سے کرتے تھے
    ورنہ ہمارے حکماء اس کا بڑا شافی علاج کرلیتے ہیں

    ہندووں نے گائے کے بول پر کوئی تحقیق نہیں کی بلکہ صرف تبرک سمجھ کر اس کو نوشِ جان فرماتے ہیں
    جس طرح ہم آبِ زم زم پیتے ہیں

    مجبوری کے وقت دوا کے طور پر لینا اور تبرک سمجھنا،ان کے درمیان بڑا فرق ہے
    جب یہ چیز نجس اور مکروہ قرار دی گئی ہے تو اس کا مطلب اس کا نقصان ہے

    ReplyDelete
  18. Please read the attached book.Hadith was being taught by teachers of Hadith from first generation .By second generation Hadith was written down in personal capacity by most Hadith scholars and teachers. This went on for few generations. From these Hadith teachers Muhaddisin who made formal Hadith books took Hadith with chains of transmission.
    Bukhari or Muslim or others did not write Hadith books without sound investigation.
    They also said which Hadith is Zaif in their collections. Even then later Muhaddisun checked more and found some more Zaif Hadith. But in Muslim and Bukhari, they found only few Zaif Hadith(for instance Imam Dara qutni)

    Shah Abdul Hannan

    From: BAZMeQALAM@googlegroups.com [mailto:BAZMeQALAM@googlegroups.com] On Behalf Of Tanwir Phool
    Sent: Sunday, December 16, 2012 1:27 AM
    To: BAZMeQALAM@googlegroups.com
    Subject: Re: Reply: {17259} گئو ماتا

    Bahut Shukriya lekin Bukhari Shareef bhi taqreeban 200 saal ba'ad
    taHreer ki ga'ee hai ,deegar kutub-e-aHaadees aur ba'ad ki haiN us waqt
    SaHaabaa(RA) bhi dunyaa maiN maujood naheeN thay is li'ey tamaam
    aHaadees ko Qur'aan-e-Majeed ki taraH 100% durust qaraar naheeN
    diyaa jaa saktaa,Bashari Ghalati aur sahv kaa imkaan bahar Haal
    maujood hai.ShaKhSiyaat aur aHaadees kaa iHtiraam zaroori hai lekin woh
    HUZOOR(SAWAWS) aur Qur'aan-e-Majeed ke baraabar naheeN haiN.
    Yeh links bhi daikhi'ey http://urdunetjpn.com/ur/2012/12/09/javed-akhter-bhatti-85/
    http://urdunetjpn.com/ur/2012/12/10/tanwir-phool-new-york-59/ WALLAH AA'LAM

    ReplyDelete

  19. السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہٗ
    جناب مجھ جیسے کم علم کی بات کو اس بزم پر اہمیت نہ دی جائے تو بہتر ہوگا۔ میں نے پہلے ہی واضح کردیا کہ میری بات کو دیوار پر مارو اس کے حدیث نہیں ہونے کا مجھے علم نہیں تھا۔ اپنی جہالت پر میں شرمندہ ہوں۔
    ہندؤں میں بھی گائے کے پیشاب پر تحقیقات کی جارہی ہیں۔ آیوروید اور طب یونانی میں صرف فرق اتنا ہی ہے کہ آیور وید والے گائے کا پیشاب ، بھسم (انسانی راکھ ) کا استعمال کیا جاتاہے ۔ جبکہ طب یونانی میں ان کاموں کے لیے دہی، گلاب کا پانی وغیرہ کا استعمال کیا جاتاہے۔
    اگر ان احادیث سے استدلال کیا جائے تو کیا حلال جانور (گائے) کا پیشاب بہ حالت مرض استعمال کیا جاسکتا ہے؟؟؟؟؟؟؟،،
    ------------------
    ہر کسی کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتاہے۔ خدا نے انسان کو یہ آزادی دے رکھی ہے۔ اس لیے میر ا نظریہ بے شک قابلِ گرفت ہوسکتاہے---------------------------- عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر سخن فروش ہوں داد ہنر

    ReplyDelete
  20. علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    محترمی ۔ علم کسی انسان کا کامل نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ ہم سب اسی طرح ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
    طب یونانی میں جو متبادل پیش کیے گئے ہیں وہ ہزار درجے بہتر ہیں ان نجس اشیاء سے۔
    میرے خیال میں میڈیکل سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ وہ ان اشیاء میں موجود کارگر اور موثر اجزاء دریافت کر کے لیبارٹری میں ہی ان
    کیمیائی اجزا پر مشتمل ادویہ تیار کی جاسکتی ہیں اور صنعتی پیمانے پر ان کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔
    والسلام
    مخلص

    ReplyDelete
  21. Assalaam-u-alykum wa RAHMATULLAH wa BarakaatuHu
    Aap ne farmaayaa ke saKht garmi maiN nangay pair Ka'abay kaa tawaaf karnaa kitnaa
    mushkil ho gaa , is li'ey jootaa Zaroori thaa lekin namaaz paRhtay waqt garm zameen
    par sajday karte huey peshaani kis taraH bachaatay hoN gey? Aap hi kuchh waZaaHat
    farmaai'ey , JAZAAK ALLAH

    ReplyDelete
  22. Comment:People may should have their views and belief and I have no business to talk about it. We came across Desiacola during the interview of Indian PM Morarrji Desai with Barbara Walters about 35 yeras ago. I would only suggest to check with the Health Lab about such things. Emotinal feelings should be left with the indivivduals.
    A.Q

    ReplyDelete
  23. Salam Alaikum,
    I read the explanation on the hadith of camel urine.
    I wish I had an access to an Urdu software to add a few words that many of our scholars have said about this hadith and its authenticity. The inclusion in Sahih Bukhari or Sahih Muslim of a statement attributed to the Prophet does not mean that it is what the Prophet actually said and recommended to all people for all time. The purpose of the Prophethood was not to suggest cure for physical conditions, but to invite people to believe that the universe is created a Creator and the human beings should use the divine guidance in their relations with all the creations. It is simple.
    Our scientific understanding of the creation and its relevance to human beings will keep on changing based on our level of comprehension. Science is evolving in its understanding of the divine guidance imbedded in every material thing that exists.
    In this respect we need to remember two things. If our scientific understanding is contradicting anything that is clearly written down in the Quran, we should wait until the last person has completed his or her research before passing a judgement.
    If our scientific understanding is contradicting anything that is attributed to the Prophet, we must critically examine the statement because there is a distinction between what Allah said and what is attributed to the Prophet. In the case of the Quran, the Prophet himself verified every word that we read today. In the case of statements attributed to the Prophet, he was not there to verify the attributes. Mortal human beings compiled this literature and they were not prophets.
    I wish if someone can send me information about urdu software that can be downloaded.
    Aslam Abdullah
    Imam and Director
    Islamic Society of Nevada,
    Las Vegas

    ReplyDelete
  24. Friends we cant decide these things by arguments.these problems are to be settled by Ameer,and Ummat is really away from the instruction of Quran,by not having an Ammer.I am sure we canot be one unless we obey one Ameer.As per Quran we have to refer any disagreement to Allah,Rasool or Ulil -amr.


    Dr. Sikandar Hussain,
    Professor Physiology,
    Dr. V.R.K Women's Medical College,
    Hyderabad.
    Mob: 08712737913

    ReplyDelete