Thursday, December 20, 2012

سقوط ڈھاکہ!

mashriq e-paper

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی قلانچیں

بدلتے موسموں کی رت

بدلتے موسموں کی رت




عابدہ رحمانی
کہتے ہیں موسم انسان کے اندر ہوتا ہے اندر کا موسم خوشگوار ہو تو باہر کا موسم کسی کا کچھ نہین بگاڑتا جبکہ میرے مطابق باہر کا موسم انسان کے اندر کے موسم سے مربوط ہے اور اسپر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے-دنیا میں چار موسموں کا چرچا ہے - بہار، خزاں ، گرما ، سرما یا گرمی سردی ہاں دنیا کے  کچھ شہروں اور خطوں میں موسم میں برائے نام تبدیلی آتی ہے جیسے کراچی میں اتنی لمبی گرمیاں چلتیں کہ گرمی ، پسینوں اور رطوبت سے طبیعت بری طرح پریشان ہو جاتی, جتنی گرمی میں شدت آتی ہر کوئی لڑنے مرنے پر تیار اور سردیاں، کوئٹہ لہر کی مرہون منت ہوتیں گرم کپڑوں کے استعمال کا کچھ موقع مل جاتا ان دنوں مجھے اسلام آباد جاکر جاڑوں کا بیحد مزہ آتا تھا اور جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہمارے گھر اندر سے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں اور اب تو گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے--
جغرافیائی لحاظ سے منطقہ حارہ پر واقع ممالک میں موسم میں مرطوبیت اور گرمی زیادہ تر رہتی ہے جبکہ شمال کی طرف جیسے جیسے جائیں تو سردی ہی سردی اور پھر بحر منجمد شمالی کی طرف برف ہی برف--
  اب میرا حال دیکھئے چند روز پہلے جب میں ایل اے میں تھی کیا خوبصورت معتدل موسم تھا - گلابوں اور پھولوں کی بہار، البتہ کچھ درختوں پر پت جڑ کے آثار تھے ایل اے کا یہ موسم اپنے اعتدال کے لئے کافی مشہور ہے اور سان ڈیاگو کاا س سے بھی اعلئ  وہ تو تقریبا سال بھر یکساں رہتا ہے یعنی معتدل- یہاں  ایک عزیز کے ہاں مدعو تھی جب انکو بتایا کہ چند روز میں شکاگو جانے والی ہوں تو خوب ہنسے "اپکا تو جواب نہیں گرمیاں آپ پاکستان میں گزارتی ہیں اور سردیوں مین شکاگو جا رہی ہیں"- جب میں نے انہیں بتایا کہ میں برف باری کی عاشق ہوں اور گزشتہ سال مختلف وجوہات کی بناء پر برف باری نہ دیکھ سکی، تو وہ بہت حیران ہوئے کہ میرا یہ شوق اور ارمان ابھی تک پورا نہیں ہوا؟- اس برف باری کودیکھنے کے لئے ایک زمانے میں مری کا چکر ضرور لگتا تھا - مال روڈ کی ڈھلوان پر پھسلن میرا نشان امتیاز بن چکا تھا اسلئے کہ دو مرتبہ یہاں  برف پر اس دھڑام سے پھسلی تھی - پہلی بار تو اچھی خاصی چوٹ بھی آئی جنہوں نے میرا ہاتھ تھاما تھا وہ بھی ساتھ پھسلیں اور پیچھے آنے والی دونوں بھی ہمارے ٹکر سے گر گیئں بجائے اسکے کہ ہمیں اٹھانے کی مدد کی جاتی ادھر ادھر ایک تماشا کھڑا ہوگیا ہنسی ، ٹھٹھے ، آوازیں وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے مردوں کا کہ انہوں نے اپنی خریدی ہوئی لاٹھیاں بڑھائیں اور ہمیں سہارا دیا-- اسی برف باری میں برف کے گولے ایک دوسرے کو مارنا ایک پسندیدہ مشغلہ تھا جسقدر برف میں لت پت ہوتے اتنا ہی لطف آتا-برف باری میں چئیر لفٹ کی سواری کا اپنا ایک مزہ تھا کچھ خوابناک سی کیفیت ہو جاتی-- پھر نچلے ریسٹوراں میں گرم گرم نان کڑھائی چکن اور گرم گرم سبز چائے کیا لظف کیا ذائقہ آ؟ وہاں کے خشک میوؤں کی دکان سے خوب خریداری ہوتی ، اسی طرح گرم شالوں، کوٹیوں، واسکٹوں اور نمدوں کی بھی--چلغوزے یہاں کا خاصہ تھے - بلکہ ہمارے بچپن میں چلغوزوں اور سردیوں کا چولی دامن کا ساتھ تھا- بس کے اڈوں پر گرم گرم چلغوزے بیچنے والے پڑیا بنا کر کھڑے ہوتے ، راستے کا شغل لیتے جاؤ ، سفر آرام سے کٹ جائے گا- اور واقعی چلغوزے چھیلتے چھیلتے راستے کا پتہ ہی نہ لگتا اس زمانے کی بسوں میں زیادہ سے زیادہ ریڈیو بجتا تھا اور اباجی ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر ڈرائیور کو زیادہ سے زیادہ خبریں لگانے کی ہی اجازت دیتے -  اب چلغوزوں کی جگہ مونگ پھلی نے لے لی-میرا ایک بیٹا چلغوزوں کا عاشق ہے اسے پاکستان کی ایک ہی سوغات چاہئے اور وہ ہے چلغوزے، امریکہ میں چھلے ہوئے چلغوزے خوب ملتے ہیں لیکن اسکو چھیلنے والے ہی چاہئیں کیونکہ اسکو اسی میں لطف آتاہے-  پاکستان چھوٹا ، پاکستانیئت چھوٹی لیکن چلغوزوں کا  وہ بیحد منتظر رہتا ہے جو کہ اب واقعی ایک سوغات بن چکے ہیں -
 خزان کے موسم یا سردیوں کی اپنی ایک خوبصورتی اور حسن ہے  دن کا پتہ ہی نہیں چلتا ابھی دن پوری طرح چڑھا ہی نہیں کہ شام ہوگئی اور خاص طور پر ان ممالک میں جہاں وقت گرمیوں میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جاتا ہے اور سردیوں میں پلٹا دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی روشنی کو نہیں روک پاتے سکینڈے نیویا کے ممالک تو ہم سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں اور جہاں پر سردیوں میں رات ہی رات اور گرمیوں میں دن ہی دن ہوتا ہے-
 بقول شاعر


خزاں کے موسم کی سرد شامیں
سراب یادوں کے ہاتھ تھا میں

کبھی جو تم سے حساب مانگیں
مایوسیوں کے نصاب مانگیں

بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں
تو جان لینا کے خواب سارے

میری حدوں سے نکل چکے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ آ روکے ہیں

مسافتوں سے تھکے ہوئے ہیں
غبار راہ سے اٹے ہوئے ہیں

تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں
کچھ اس طرح سے دارئ ہوئے ہیں

سوالی نظروں سے تک رہے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے 
جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں
جب موسم کی پہلی برف باری ہوتی ہے تو عجیب سی ایک سر شاری کی کیفیئت ہوتی ہے جی چاہتا ہے بس دیکھتے ہی جاؤ  کبھی باریک اور کبھی روئی کے گالوں کی طرح خاموشی سے چھپ چھاپ گرتی ہوئی برف ہر چیز کو ایک سفید چادر کی طر ح ڈھانپ لیتی ہے درختوں کی ٹہنیوں پر کسقدر خوبصورتی سے جم جاتی ہے اور پھر چیڑ، دیار اور دیودار کے پتے انکا حسن تو برف کے ساتھ ہی نکھر آتا ہے اور یہان پر یہی تو کرسمس ٹریز کہلاتے ہیں- اسقدر اجلا پن ہوتا ہے کہ رات کو بھی چکا چوند ہو جاتی ہے- کرسمس اور برف کا چولی دامن کا ساتھ ہے دراصل کرسمس کے ساتھ  ؑعیسی علیہ السلام کی پیدائش کو تو زبردستی نتھی کردیا گیا ہے- حقائق کے پیش نظر انکی پیدائش گرمیوں میں ہوئی تھی-کرسمس دراصل ٹھنڈے ممالک کے باسیوں کا سردیوں کا تہوار ہے اور اگر کرسمس میں برف نہ ہو تو کرسمس کا لطف ہی جاتا رہتا ہے- سفید کرسمس خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہے  اور کیا طمانئت، خوشی و سرشاری ہوتی ہے کہ کرسمس سفید ہوگیا-آخر کو سانٹا کلاز نارتھ پول  یعنی شمال کے برفانی خطے سے رینڈئر سے دوڑاتی ہوئی رتھ پر سوار بچوں کے لئے ڈہیروں  تحائف لے کر آتا ہے -حالانکہ سانٹا ہر جگہ ہر شہر کے مال میں موجود ہے - میری ایک دوست اچھے خاصے معاوضے پر سانٹا بنی رہتی - ڈزنی لینڈ میں کرسمس پریڈ پر مصنوعی برف باری ہوتی ہے کیا خوبصورت منظر ہوتا ہے ، ہلکے ہلکے ارد گرد اچھا خاصا سفید ہوجاتا ہے-کیلی فورنیا اور اریزونا کے شہروں میں دیکھا کہ مصنوعی طور پر برفباری کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہیں تو روئی بچھا دی جاتی ہے کہیں کوئی اور سفید چیز ورنہ قریبی پہاڑوں سے برف لاکر ڈہیر کر دیا جاتا ہے آئس سکیٹنگ ہورہی ہے آئس ہاکی ہوتی ہے سردیوں کے اولمپکس دیکھو تو برف کے کھیل ہی کھیل اور پہاڑوں پر سکیینگ کی تفریح گاہیں ، سڑکوں سے غائب ہو  ۓ تو  تفریح گاہوں میں موجود -زندگی سے لطف اٹھانا تو کوئی ان سے سیکھے
میرا تو ایسا جی مچلتا ہے  کہ جیکٹ ،دستانے ، ٹوپی پہن کر اسکا لطف لینے کے لئے پہنچ جاتی ہوں-ارد گردہر طرف خاموشی ہوتی ہے اکا دکا گاڑیاں آتی جاتی نظر آتی ہیں  اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ کاروبار زندگی میں کوئی فرق آجاتا ہے - ڈھیروں برف پڑ رہی ہو یا چھاجوں بارش برس رہی ہو کاروبار زندگی میں کوئی خلل نہیں آتا البتہ سڑکوں پر لوگ چلتے پھرتے نظر نہیں آتے-لوگ حیران ہو  ہو کر دیکھتے ہیں،  ایک آدھ تو گاڑی روک کر خیر خیریت بھی پوچھ لیتے ہیں- کیونکہ ٹھنڈے علاقوں کے لوگ ایسے موسم میں سڑکوں سے  غائب اور گوشہ نشین ہوجاتے ہیں - لیکن جب ڈھیروں برف پڑ جائے تو برف صاف کرنے والی گاڑیاں حرکت میں آجاتی ہیں،سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں سے برف ہٹانے کا کام شروع ہو جاتا ہے اسکے لئے برف پگھلانے کا مادہ اور نمک ڈالا جاتا ہے اگر درجہ حرارت بڑھ گیا تو یہ کام قدرتی طور پر ہوتا ہے اور یہ پگھلا ہوا پانی رات کو جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے تو اسکی  شیشے کی طرح برف جمتی ہے جوانتہائی خطرناک ہوتی ہے -خود پھسلو یا گاڑی پھسلے دونوں صورتوں میں خطرہ ہی خطرہ اسکو یہاں پر بلیک آئس کہتے ہیں-جب برف کے ڈہیروں پر پگھلانے والا مادہ اور نمک ڈال دیا جاتا ہےجس سے یہ ایک کیچڑ بن جاتا ہے اور اسمیں چلنا پھرنااورلتھڑے ہوئے جوتون کے ساتھ گھومنا پھرنا ، گاڑیوں اور گھروں کے پاؤندانوں پر کیچڑ اورنمک کا ڈھیر لگ جانا مجھے ہرگز پسند نہیں ہے- ایک مرتبہ برف باری میں اپنی گاڑی باہر پارک کی کچھ دیر کے بعد باہر نکلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی کہیں برف کے ڈہیر میں غائب ہوگئی ہے-نرم برف تو آرام سے جھڑ جاتی ہے البتہ جمی ہوئی برف کو ہٹانا اور کھرچنا ایک کار دارد کم از کم دس منٹ گاڑی کو گرم کرنے میں لگ جاتے ہیں  باہر نکلو تو تہ در تہ مؤٹے موٹے کوٹ جیکٹ پہنو اور جیسے ہی اندر داخل ہو ایک ایک کر کے اتارنا شروع کرو کیونکہ اندر اسقدر گرم کیا ہوا ہوتا ہے -عجیب نفسیات ہے اے سی اتنا تیز ہوگا کہ کمبل اور جیکٹ لینے کی ضرورت  ہوتی ہےجبکہ ہیٹنگ اتنی زیادہ ہوگی کہ اندر اکثر لوگ گرمیوں کے لباس میں نظر آئینگے- ہاں جب یہ برفباری طول پکڑ جائے یا ایسی صورت ہو کہ جمی ہوئی برف کا طوفان آجائے تو پھر خدا کی پناہ ہر چیز کرسٹل کی طرح ہو جاے اور اس چکا چوند میں اکثر بجلی بھی غائب ہو جاتی ہے - انسان بھی عجیب چیز ہے ہر چیز کی زیادتی یا تسلسل سے  اکتا جاتا ہے  اور پھر گرم دنوں کی خواہش کرنے لگتا ہے اور یہان کے برفانی پرندے   سنو برڈز
جنکی اڑان گرم خطوں کی جانب ہوتی ہےانمیں اکثریت بوڑھے ریٹاریز  کی اور کینیڈا کی مرغابیاں ہوتی ہیں کینیڈا کا جو علاقہ امریکہ کے ساتھ ساتھ ہے نسبتا کم ٹھنڈا ہے جبکہ شمال کی جانب ٹھنڈک اور برف بڑھتی چلی جاتی ہے- مرغابیوں سے تو امریکہ والے خوب تنگ ہیں جبکہ بوڑھے سنو برڈز کیلئے پورے پورے شہر بسا رکھے ہیں-
اسوقت تو ہمارا موسم کنیٹیکٹ کے سکول میں بیگناہ مارے جانے والے بچوں اور استادوں کے غم میں سوگوار ہے لیکن 
کرسمس کی چہل پہل اور برفباری کا ارمان اپنی جگہ -کیونکہ شکاگو میں ابھی تک برفباری نہیں ہوئی نہ معلوم یہان کے  باسیوں کی قسمت میں اس مرتبہ سفید کرسمس ہے بھی کہ نہیں؟

 میں زندگی کی تمازت کو ڈھونڈنے نکلی
برف کے سرد موسم میں 


-- 



عابدہ









Thursday, December 13, 2012

Journey of life: پل صراط

Journey of life: پل صراط

پل صراط

عیید جو گزر گئی"

"عید جو گزر گئی"

عابدہ رحمانی

وقت بدلا حلات بدلے ملک بدلے تو عید کے طور طریقے بھی بدل گئے ایک شہر کے ایک گھر میں ایک زمانے میں عید کی ساری ٹینشن ساری پریشانی ایک ہی خاتون کو ہوا کرتی تھی چاہے وہ عیدالفطرہو یا عیدالالضحی کا موقع ، بس یہی فکر کہ کہیں پر کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوکسی قسم کی کمی نہ رہ جائے ہفتوں پہلے تیاریاں شروع ہو جاتیں ، سب کیلئے کپڑے نئے تیار ، سوتی کپڑوں میں کلف لگی ہوئی  ہو، استری کئے ہوئے ، آزاربند ڈلے ہوئے، جوتے ، چپل نئے ہوں تو بہتر، گھر میں کوئی لڑکی تو تھی نہیں اسلئے لڑکیوں والے تکلفات تو نہیں تھے لیکن لڑکوں کے اپنے مطالبے اور شوق-- گھر صاف ستھرا چھم چھم کرتا ہوا عید پر پکوان کی تیاریاں، میٹھا بھی ، نمکین بھی ہو ، دو تین اقسام کی سوئیاں، مٹھائیاں، دہی بڑے ،کباب، چٹنیاں-- بقر عید پر یہ مصروفئیت اور تیاری قربانی کے جانور کےآنے سے اور بڑھ جاتی -قربانی کا جانور منڈی سے لانا اگرچہ مردوں اور لڑکوں کا کام تھا- گھر کے بچے قربانی کے جانور کی خاطر مدارات میں لگ جاتے - گلی محلے، اڑوس پڑوس سے بکروں کے ممیانے اور گائیوں کے ڈکرانے کی آوازیں آرہی ہوتیں سڑکوں کے نکڑ پر چارہ، گھاس اور چنے بیچنے والے بیٹھ جاتے--  -- مصالحے کون کونسے ڈالے جائیںگے  ابھی شان مصالحوں کا چرچا نہیں تھا 
جمعہ بازاروں کے چکر اتوار بازار عید بچت بازار گھر کے کسی فرد کا کسی ملازم ،ملازمہ کا جوڑا نہ رہ جائے ، درزیوں کے چکر اور پھر سب کو عید کے لئے تیار کرنا اور بقر عید پر گوشت کا  بانٹنا ،سمیٹنا ، پکانا عزیز و اقارب کی   خاطر تواضع شام کو سیخیں لگانا ، تکے ، بہاری کباب اور نہ جانے کیا کیا؟   ایپرن پہننے کے باوجود خاتون کے کپڑے گوشت کی خوشبو یا بد بو میں بس گئے ہوتے تھےٓ
 بقر عید میں  نماز کے فورا بعد قصائی کی ڈھونڈھیا، جیسے تیسے جانور ذبح ہوا تو  " بس آپکی کلیجی نکال کر قریشی صاحب کا بکرا گرا کر آتا ہوں - پھر آکر آپکی تکا بوٹی ، چانپیں ،سری پاۓ سب بنوادونگا  " اور جسکو سب سے زیادہ قربانیوں کا شوق تھا اسکی تو پھر جیسے  بات ہی نہ ٹالی جاتی قصائیوں تک سے دوستی ہوگئی ، پھر تو قصائی ایک آدھ روز پہلے خود ہی آجاتا جانور کو پانی پلاکر نہلا دینا میں اتنے بجے تک آجاونگا-سب حیران یہ قصائی کو کیا گیدڑ سنگھی سونگھائی ہے ایسا رام کر لیا ہے- اس مبارک صبح وہ اس گھر کا خاص   الخاص مہمان ہوتا تھا دو یا تین ہوتے تھے- مشہور تھا کہ بقر عید میں ہر کوئی چاقو ، چھری سنبھال کر قصائی بن جاتا ہے-تازہ تازہ کلیجی نکال کر اسکے پارچے کاٹ کر تل دئے جاتے-یہ انکے ہاں کی مخصوص ڈش تھی- احباب بھی فرمائش کرتے-  حصے بخرے کرنا، مانگنے والوں کی ایک لائن لگ جاتی، ملازم پہلے سے تلقین کردیتے ہمارا حصہ تو فریزر میں ڈالدیں وہ سوچتی چلو اسطرح شائد ثواب میں مزید اضافہ ہو- کھالوں کے لئے پہلے سے تعئین ہوچکا ہوتا تھا کس کو دینی ہے ورنہ  شہر میں کھالوں کی چھینا جھپٹی بقر عید پر ایک معمول تھا، اور اگر کارپوریشن والوں نے غفلت برتی تو ڈھیروں پڑی ہوئی اوجھڑیاں اور دیگر آلائیشیں جو تعفن پھیلاتیں کہ خدا کی پناہ-- سانس لینا دوبھر ہوجاتا--

 ایک مرتبہ اسکی بقر عید امریکہ میں گزری -توبہ توبہ یہ بھی کوئی عید ہے ٹھٹھروں ٹوں ایک گھر میں عید باقی تمام شہر جانتا بھی نہیں کہ آج عید ہے -خاتون خانہ اپنی جاب پر تھیں ایک کوشر کلیجی منگوا کر پکائی اور عید کا قدرے اہتمام ہوا لیکن اسنے کان پکڑے کہ ائیند ہ اس ملک میں عید کبھی نہیں منانی- اسکا بڑا بول شائد اللہ کو بھی پسند نہ آیا حالا ت نے ایسا پلٹا کھایا کہ اسکی قیام گاہ یہی ممالک بن گئے اور عید منانے کی" ہمت ہر کس بقدر او است، کوئی تو اسے واقعتا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے ایک قابل ذکر دن بنانا چاہتا ہے -وہ جو دین سے منسلک ہیں وہ کوشش میں ہیں کہ اس دن کو خوب دل کھول کر منائیں اور ہر طرح سے اہتمام کریں ، گھروں کو سجائین ، قمقمے لگائین ، بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایسی محفلوں میں لے جائیں تاکہ انکو اس روز کی اہمئیت کا احساس ہوٓ اور کچھ ہو نہ ہو اسلامک سنٹرز جاکر نماز عید کی آدایئگی  ان ممالک کا خاصہ ہے اور یہ پہلو پاکستان میں اسکی زندگی سے غائب تھا- کیا لطف آتا ہے ہر رنگ اور ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ملکر-جتنا بڑا اجتماع اتنا ہی تنوع- اکثر مساجد میں نماز کے بعد اہتمام خورد و نوش بھی ہوتا ہے ورنہ بعد میں عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں ہر چیز ایک منظم انداز سے  - اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کافی پروگرام بن جاتے ہیں وگرنہ اکثر اسکولوں اور کاموں سے چھٹی لینا دشوار ہوتا ہے -جو بھی کرلیں اس ماحول کو بنانے کے تگ و دو کرنی پڑتی ہے  اب تو بڑے شہروں میں کچھ معلومات لوگوں کو حاصل ہو گیئ ہیں ورنہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟-- بقر عید جمعے کوتھی اگلے دو روز ویک اینڈ کے تھے دعوتوں کے خوب سلسلے ہوئے - اوپن ھاؤس یہیں کا خاصہ ہیں وقت طے کرکے احباب کو مطلع کر دیا جاتا ہے کہ میرے ہاں دوپہر 12 بجے سے شام 5 بجے تک اوپن ہاؤس ہے- صاحبان خانہ مختلف پکوان تیار کرکے رکھ دیتے ہیں اور مہمانوں کا سلسلہ وقت مقررہ تک چلتا ہے تحفے تحائف کا خوب تبادلہ ہوتا ہے بچوں کے خوب مزے ہو جاتے ہیں-- نیئ تہزیب سے بہت سی نئی اور اچھی باتیں سیکھ لیگیئ ہیں--اس مرتبہ اوکول کینیڈا میں اکنا کی طرف سے عید کے روز پروگرام تھا -" ایک کھلونا اپنے بچے کیلئے اور ایک پڑوسی بچے کے لئے لے جائیں " اور یہ پروگرام وہاں سٹی ٹی وی سے براہ راست دکھایا گیا- مسلمان گروہ بہت سارے تفریحی پارکوں کو بک کر دیتے ہیں  اسطرح مسلم کمیونٹی کو آپس میں ملنے کے مواقع مل جاتے ہیں-
 رہیںقربانیاں اور اسکا اہتمام، دنیا رفتہ رفتہ جدت پسند ہوتی جارہی ہے اب تو حج میں بھی ٹوکن سسٹم ہوگیا ورنہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا کتنا مشکل کام ہوتا تھا - یہ شعبہ تو زندگی سے  جیسےخارج ہوگیا اللہ سلامت رکھے اپنے پیاروں کو انکے توسط سے قربانیاں یا تو مادر وطن میں ہورہی ہیں یا پھر آن لائن خیراتی ادارون کے ساتھ، اور یہاں کی قربانیوں کا کیا کہنا  کسی کسی فارم میں اجازت ہے کہ آکر اپنے جانور پر چھری پھیر دو لیکن وہ بھی ہزار تکلفات کے ساتھ  البقرقی میں ایک فارم تھا مشرق وسطی کا باشندہ وہ اسوقت تازہ کلیجی نکال کر دے دیتا تھا  ایک صاحب کا سنا تھا کہ وہ اپنے باتھ ٹب میں لاکر بکرا ذبح کرتے تھے  خوش قسمت تھے جو بچ گئے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا آجکل پاکستان میں اچھے عھدے پر فائز ہیں-  قربانی کا گوشت عموما تیسرے روز ملتاہے وہ بھی انکی مرضی سے جیسے کاٹ کردیں پچھلی بقر عید پر ران رکھنے کو کہا تو ثابت سری مل گئ  یوں دنبے ،بکرے اور گائے  سب کی  قربانیاں موجود ہیں- بلکہ فینکس میں ایک خاتون نے بتایا کہ انکا دو ایکڑ کا گھر ہے  ایک ایکڑ پر مویشی پالے ہیں اپنے گھر کے پلے بکرے  ہمیشہ ذبح کرتے ہیں واہ یہ لطف تو گاؤ ں ہی میں آسکتا ہے- - پاکستان میں جو ہوشربا گرانی ہے اب بکرے کا گوشت    6 یا 7سو روپے کلو تک ملتا ہے گائے کا 4 یا 5 سو روپے کلو، کافی مہنگا ہے اب وہاں بھی مرغی سب سے سستی ہے اسلئے بقر عید پر غریبوں کو اب واقعی خوشی ہوتی ہے اور فریج فریزر تو اب ہر ایک کے ہاں ہے-
اور وہ جن خاتون کا تذ کرہ تھا انکے تو اب عیش ہی عیش ہیں نہ گوشت کا جھنجھٹ نہ ہانڈی نہ چولھا وقت بھی کیا کروٹ بدلتا ہے ----- بس اسکا شکر ادا کرنے کی دیر ہے--


-- 


Wednesday, December 12, 2012

The Presidential Election in USA and the Role of Muslim Voters

The Presidential Election in USA and the Role of Muslim Voters


… By Abida Rahmani

After every four years it is election time to select a President and vice president in United States of America. America being the greatest democracy of the world choose a president only for two consecutive terms. Which is a total of eight years. It is regardless of the fact how talented and capable a president is? He only can stay for two consecutive terms and if he lost that is the end.
In this election respectively the representatives to Congress and Senators to Senate are elected for both Parties.
Therefore it  is election fervor and election fever in the United  States. The ages old symbols are Elephant for Republicans and Donkey  for Democrats. Their colors are respectively Red and Blue. Republicans is generally called GOP (Grand ole party). Governor Mitt  Romney is Nominee for Republican Party while Barack Hussein Obama is  the incumbent President of Democrats. Both of the parties and  nominees are working their best to win these elections. For Obama and Democrats it is a matter of great honor and prestige to re win these elections and stay as president for his second term. They have  gone through three crucial debates. The first one won by Romney and in the second one Obama settled the scores. The third and final one was almost a drawn one on foreign policy. On relations towards Pakistan and the drone attacks both of the candidates are unanimous. It is must for a US commander- in - chief to prioritize the US interest.  These debates in general show the trend and mindset of the Candidates and their chances to win the elections.These debates generally set the future course for the victory of a President and impact the polls a lot.  Read the full article @ 
http://bit.ly/Py0wC9
US Election debate - Obama vs Romney

سینڈی کے بعد!!

افسانہ

mashriq e-paper

“That life is not a bed of Roses!


Life is not a bed of Roses! Life O life are you a riddle?

By: Abida Rahmani

This is a true story about a niece of mine who passed away this July 2012.
Her kids are now with their father in Houston and the wailing mother is left in Karachi Pakistan.
Let us pray to Allah swt for the departed soul to give her high status in Jannah ,success , well being and harmony for her kids.

Abida Rahmani


Hazrat Abu Sa`id and Abu Hurairah (May Allah be pleased with him) reported that The Messenger of Allah[SAWW](PBUH) said: "Never a believer is stricken with a discomfort, an illness, an anxiety, a grief or mental worry or even the pricking of a thorn but Allah will expiate his sins on account of his patience".
[Al-Bukhari Book 07,Chapter 70, Hadith # 545

She was thrilling with excitement when she called me, aunty I have got the papers for our immigrant visa and we are going to Islamabad for our visa by the end of the month. Is this possible that I stay with your brother? The shuttle leaves early in the morning for embassy , it will be easier for me to catch a taxi from Islamabad to diplomatic enclave.” “ Yes , of course. I am so glad to hear that , lots of congratulations . Don't worry you can stay with my brother and he will drop you at the embassy early in the morning. I 'll talk to him and let them know.” I assured her . “ Aunty I have taken off the kids from school , otherwise I had to pay summer vacation fee. I too have resigned from my job it was so strenuous and I was quite a bit tired.” “Yes you should ask Raza to enroll them here after you get visa, I am so happy for you that you are getting united with your husband and coming to USA.” We talked for quite a while . Nasrat was busy doing all the preparations to come to Houston to join her husband here.
After talking her I send an e-mail to my brother and he assured me that there is no problem in their stay with them and he will take care of her embassy's pick and drop.
It was almost 10 years when her husband Raza got immigration through his family and moved to USA. He was not highly educated but had some skills. He started work in a factory. She was lucky to have support of her mother. Her father had died long time ago , she was her lone child both of them lived together in their house. Being a very good driver, last time when I was in Karachi she gave me good rides and took me for shopping and eating around. It is always a blessing provided by some one when you do not have your own car. She narrated me the ordeals when her car got vanished from jumma bazaar . Luckily she had full coverage and got compensated.
On other occasion she and her mother both were robbed of cash, gold bangles, other jewelery and her purse got snatched . It was such a big hassle to re issue the id card and driving license. That is how the life in Karachi is?Insecure and unstable on the streets . One has to be prepared for these kind of situation. I comforted her and asked her to be grateful to Allah that their lives and honor is saved from those miscreants. She was looking forward to a peaceful life, where both husband and wife will be mutual partner taking and sharing their responsibilities.
Over the years she was the mother of three kids , one daughter and two sons. Lovely and growing up a little bit. The oldest one turned 15 this year , daughter 9 and youngest one 6years. She was a Montessori teacher at a local school, her mother was quite efficient taking care of the house and kids mostly. Both mother and daughter getting along nicely but she used to get desperate at times. She was a friend with me on face book .she was a great enthusiastic girl , dresses, hair styles, shoes a lot of fashionable stuff used to come through her page. Posting pictures used to be her hobby. A lot many pictures and albums were there on her profile. Kids birthday, Ameen, Bismillah she used to cover and celebrate all the occasions for them. Once I reprimanded her , while she started postings , “I miss my hubby”. “Nasrat there is no need of crying on Face book. Just pray to Allah for his help.”

This immigration process has taken a toll on her. After Raza got his citizenship then he was able to apply for them. It took years and a lot of efforts to go through the process. Earlier a lot many friends and relatives have advised her to apply for a visit visa to USA, go and stay there . It was not an easy task for this she has to tell the authorities lot of fake stuff. When she asked me once. I warned her not to follow any thing illegal or fake way otherwise she will get into more trouble. Wait and see and you will get your immigration one day and now the day has arrived. I felt so happy for her and her family. We the humble creatures of Allah are bonded in destiny and never know what is in store next for us?
After a week I saw her post that she is running a high fever and is diagnosed with Malaria. I called her and she told me that she was quite sick for a week and feeling very weak and exhausted. She was planning of going to Islamabad by bus which was almost 24 hours journey but now she plans to go by air. “Aunty , I'll stay with Raza's uncle. They live in Pindi because they felt it bad.”
I tried to call her cell # the day she went for interview to the embassy but my call did not get through. In the evening I called Raza , he told me that there is some problem with her picture , which she needs to change all other work went satisfactory. I was so glad for her , Called her mother whom I call bhabhi to congratulate. She told that again she has a bit of fever. May be she is weak or tired .
She will be OK now , I assured her. After she got back to Karachi, I talked her for a while and asked her to book her seat and come here as soon as possible. She was a bit upset with her ongoing high temperature, going to doctors who were doing a lot of tests and not finding some thing specific. At one time she was told that it is typhoid, then liver abscess and then dengue fever. She was quite a bit upset with her plans tampered, at one point she told me,” aunty I have a lot of pending work , shopping, tailoring and selling my car.”
For some of my work I had to visit Pakistan and went to Karachi. Visited them too with a few gifts, she was a bit pale and coughing. Worried about her on going fever, “ I take panadol( the Pakistani Tylenol) and then it is a bit down. I am just fed up with this fever and sickness.”
I got worried too , after two weeks the doctors decided to do a bone marrow test on her and she was diagnosed with acute leukemia. She posted on her face book profile
This bone marrow test was so painful... We were just shocked to learn about the severity of the disease. So full of life a thriving woman of 37 years. That is what is called luck and destiny and Allah's will. I discussed with Raza , he informede me that he is going to Karachi and will bring her and kids with him. My son who is a doctor here in US told me that there are best hospitals in Houston for cancer treatment. They should send her as soon as possible. But her family in Karachi decided to start the treatment at the earliest. They admitted her to a cancer hospital in Karachi. Her chemotherapy got started , the doctors seemed quite hopeful and as I learned she told them to be informed about the whole process. Raza went but came back heart broken and dis appointed because she herself refused to come to USA. A big turn back and disappointment.
The side affects of chemotherapy had great effects . She lost all her hair and became weak and fragile with each passing day. In her 5th or 6th treatment she got lung and respiratory infection. AS it happens in Pakistan , the doctors gave up on her. AS the Hospital ventilator not working , she was moved to another hospital on ventilator. I visited her and was so appalled to see her condition.
Doctors and the hospital charging huge bills and giving statement every hour that now she is 70% on ventilator and 30% on herself. The cousins in the family rushing for arranging blood, plasma and platelets. The mother was totally devastated.
On her 10th day on ventilator the doctors told the family that there is no use to keep her further on ventilator and she breathed her last.
انا للہ و انا الیہ راجعون
And surely We shall try you with something of fear and hunger, and loss of wealth and lives and crops; but give glad tidings to the patient, Who says, when afflicted with calamity: “To Allah We belong, and to Him is our return”: They are those on whom (descend) Blessings from Allah, and Mercy, and they are the ones that receive guidance. (Al-Baqarah 2:155-157)
In another verse, Allah Almighty says:
He Who created Death and Life, that He may try which of you is best in deed: and He is the Exalted in Might, Oft-Forgiving. (Al-Mulk 67:2)
Whatever misfortune happens to you, is because of the things your hands have wrought, and for many (of them) He grantsforgiveness. (Ash-Shura 42:30)
There is one hadith in which the Prophet Muhammad (Salallahu Allaihi Wassalaam) tells us that the people who face the harshest trial are the prophets, then those next to them (in faith and devotion), and then the next. Everyone will be tried according to his level of faith; one who has strong faith will undergo a harsh trial and one who is of weak faith will receive a weak trial. And the affliction will encompass one until he becomes free of sins altogether.
Whatever befalls us, just keep in our mind what Allah Almighty says :
So, verily, with every difficulty, there is relief: (5) Verily with every difficulty there is relief. (Surah Al-Inshirah 94-6)

In our trying times in our trial we seek Allah SWT ' s mercy and guidelines through Quran as we are his humble creatures and it shows
That life is not a bed of Roses!

گئو ماتا



گئو ماتا





عابدہ رحمانی
اس مضمون سے کسی کی دل آزاری ہرگز  مقصودنہیں--

بچپن میں اسمٰعیل میرٹھی کی نظم پڑھتے تھے - رب کا شکر ادا کر بھائی ، جس نے ہماری گائے بنائی-
آج کل پاکستان میں بھارت سے برآمد شدہ اشیاء کے خلاف ایک مہم چلی ہوئی ہے خاص طور پر اشیاۓ خورد و نوش اور کاسمیٹکس وغیرہ، اسکے تصویری ثبوت اور حقائق مہیا کئے گئے ہیں کہ ا ن اشیاء میں گائے کے پیشاب اور گوبر کی آمیزش ہے- اس حقیقت سے کسی کو انکار نھیں کہ گائے کا گوبر اور پیشاب ہندو دھرم میں پاک پوتر سمجھا جاتاہے-میں خود کبھی بھارت یاترا پر نہیں گئی اور ان مناطر کی چشم دید گواہ نہیں ہوں-لیکن بہت کچھ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے- بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لئیے بھی گائے کا گوشت ایک نعمت غیر مترقبہ ہے- بوڑھی گایوںکوبیو پاری پاکستان کے بیوپاریوںکے ہاتھ سستے داموں بیچ دیتے ہیںاور یوں لوگوں کو کافی بیکار گوشت ملتا ہے - گائے کے ذبح پر بھارت میں کئی ہندو مسلم فسادات ہو چکے ہیں- اسلئے لوگوں نے اہنی تسلی کے لئے یہ کہنا شروع کیا ،" ہم بڑا گوشت نہیں کھاتے" جبکہ مغرب میں بڑا گوشت یعنی بیف انتیہائی پسندیدہ اور مہنگا ہے----
 آپ لوگوں نے جے لینو کا ٹو نائیٹ شو دیکھا ہوگا بسا اوقات دلچسپ مذاق ہوتے ہیں- کہنے لگے،" انڈیا سے ہائی ٹیک اندسٹری اور اعلےٰ تعلیم کے لیے جو ھندو بچے آتے ہیں انکو متبرک بنانے کے لئے گائے کے پیشاب سے نہلا کر امریکہ بھیجا جاتا ہے،" اور اسکے ساتھ اسنے کافی کراہئت دکھائی- "they are actually drenched in cow's urine." جبکہ یہی بچے یہاں کی ہایئ ٹیک اور دوسرے شعبوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیئت سے ہیں اور رفتہ رفتہ یہآں کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں-مشہوربھارتی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کا پسندیدہ مشروب خود انکا اپنا------تھا -وہ اسے ایک ٹانک اور آب حیات کا درجہ دیتے تھے،  اسکے طبی اور نفسیاتی فوائید پر اکثر بحث کرتے اور اپنے اس فعل پر کافی فخر کرتے تھے، بلکہ اپنی لمبی اور صحتمند زندگی کا راز اسی کو بتاتے تھے- اکثر ہندو مٹھائی والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ دھی کے کونڈوں اور مٹھائی کی ہانڈیوں کو تبرکا گوبر لگاتے ہیں- ڈھا کے میں ایک مشہور رس ملائی والا کالا چاند تھا اسکے بارے میں یہی مشہور تھا کہ تمام ہانڈیوں کو پہلے گوبر لگا لیا جاتاہے- یہ قصہ بھی اسی سے متعلق ہے-

ہمارے پیچھے کی طرف نئے مکانوں میں ایک خاندان آیا تھا -کھڑکیوں سے تاک جھانک ہوتی تھی-اگلے روز ہی مٹھائی کا ڈبہ لئیے ہوۓ کانتا بائی آئیں -احمد آباد گجرات سے تعلق تھا- وہاں کے ہندو مسلم فساد کی بازگشت تازہ تازہ تھی-اسکے باوجود مجہے انکی گرمجوشی اور پہل کرنا اچھا لگا-اور پھر تو یہ روز کا معمول ہوگیا کہ وہ بلا تکلف جب جی چاھتا ، دروازہ کھٹکھٹا کر آجاتی تھیں- جو کچھ انھوں نے پکایا ہوتا اس میں ہمارا حصہ ضرور ہوتا-زیادہ تر دالیں لوبیا، سبزیاں ،کھانوں میں ہلکی سی مٹھاس رہتی،بتایا کہ وہ لوگ کھانے میں گڑ ضرور ڈالتے ہیں- ہم نے واپس انکو جب بھی پکا کر بھیجا تو منع کر دیتی تھیں، " ارے میری بہو نہیں کھاتی کہ انھی برتنوں میں پکایا ہوگا جس مین گوشت پکاتے ہیں- لیکن ھمارے منع کرنے کے باوجود وہ ہمارا حصہ ضرور کرتیں- بتاتی تھیں  بیٹا بہو یہاں آکر دھرم میں اور چست ہوگئے- ڈاؤن ٹاؤن میں ایک بڑا مندر بن رہاتھا ہر ویک اینڈ پر جا کر وہاں کام کرتے تھے ، 500 ڈالر ماہوار مندر کو دیتے بیٹے نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مندر تیار نہیں ہوتا وہ میٹھا نہیں کھائے گا - مجہے تو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئ کہ وہ لوگ ہندی فلمون کے سخت خلاف تھے ، گانے بھی سننا پسند نہ کرتے، بتاتیں کہ بس بھجن ، کیرتھن سن لیتے ہیں - بیٹا کیمیکل انجینئر تھا،" پائی جوڑ جوڑ کر پرھایا ہے"بہو کینیڈیئن شہری تھی ، پہلے بیٹا آیا ، بعد میں ماں باپ اور دو بھائیوں کو سپانسر کیا-ھلاکوخان قسم کی بہو تھی کینیڈئن شہریئت نے اسکا کچھ خاص نھیں بگاڑا تھا- اٹھتے بیٹھتے اپنا احسان جتلاتی تھی- خود کسی فیکٹری میں ملازم تھی کانتا با ئی گھر کا سب کام کرتی، کھانا پکانا،گھر کی صفائی ، بچوں کی دیکھ بھال-  ابھی ان مکانوں میں جنگلے نہیں لگے تھے- نئی نئی آئی تھیں یہاں کے طور طریقوں سے واقف نہیں تھیں ، بہار کا موسم آیا تو ہمارے گلابوں میں بھر کر پھول آئے  ،اکثر صبح صبح آدھمکتیں دو گلاب کے پھول دیدٰیں بھگوان کے چرن چڑھانے ہیں ! سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ عمر میں مجھ سے 6،8 سال بڑی تھیں ، لیکن میرے بچوں کی دیکھا دیکھی امی پکارنے لگیں ،مجھے انکی سادگی اور محبت بہت بھائی- ایک روز آئیں آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ، بیحد دکھی لہجے میں کہنے لگیں،' بہو نے بہت تنگ کیا ہوا ہے، انڈیا بیٹی سے بات کرنی ہے ، فون میں کچھ گڑ بڑ کر گئی ہے- میں کارڈ لائی ہوں اگرآپ ملادینگی--میں نے ملایا کافی دیر اپنی زبان میں باتیں کرتی رہیں - ؐمین اوپر تھی جب اندازہ ہوا کہ انکی بات ختم ہوگئی تو نیچے آنے لگی - سیڑھیوں کے پاس کھڑی تھیں
جھٹ سے میرے پاؤں پکڑ کر اوپر سر رکھ لیا-" ارے کانتا بائی خداکے لئے یہ آپ کیا کر رھی ہیں؟ "آج تو آپ میرے بھگوان ہو" وہ فرط جذبات سے کیا کیا کہتی رہیں - میں استغفار پڑھتی رہی اور انکو گلے لگایا - دیکھیے آپ مجھے گنہگار کر رھی ہیں آپ میری بہن کی طرح ہیں- میں نے کافی کوشش کی کہ انکو اپنے سنٹر لے جاکر  مختلف پروگراموں میں شامل کر دوں ہما رے اس ملٹی کلچرل کونسل میں عمر رسیدہ خواتین کے لیے کافی دلچسپ پروگرام تھے ، اسکے علاوہ ESL ( english as a second language) کی کلاسز ہوتی تھیں اگر آپ لوگوں نے انگریزی کا مزاحیہ پروگرام ( Mind your language) دیکھا ہو تو بالکل وہی حال ہوتا ہے، اسکے علاوہ ہم نئے آنے والوں کو انکےشہری حقوق اور فرائض کے بارے میں بہی آگاہی دیتے،آنے جانے کے لئے بس کے فری ٹکٹ میسر تھے - لیکن انکو سیوا کرم سے فرصت کہاں تھی؟ ھندی اور گجراتی جانتی تھیں-- لیکن انگریزی سے نابلد تھیں--
ہمارے ہاں دعوت تھی کھانا شروع ہونے ہی والا تھا کہ کانتا بائی لوبئے کا پیالہ لے آئیں میں نے وہ بھی میز پر لگادیا- فرزانہ کہنے لگیں آپ لوگ انکا کھانا کھا لیتے ہیں ؟ ہاں کیوں؟ " آپ نہیں جانتیں یہ تو کھانے میں گائے کا پیشاب ڈالتے ہیں" اتنا کافی تھا
لوبیا تو کوڑے کی نذر ہوا لیکن یقین پھر بہی  نہیں آیا -اگلے روز کانتا بائی کو ایک لمبی چھل قدمی پر لے جانے کی پیش کش کی ، شکر ہے وہ تیار ہو گئیں- " کانتا بائی آپ لوگ گاۓ کا گوشت نہیں کھاتے ، کیا اسکو ناپاک سمجھتے ہیں ؟ " " گائے تو ماتا ہے ہمیں دودھ دیتی ہے ہمیں پالتی ہے ،ہم اسکی سیوا کرتے ہیں اسکا بہت خیال کرتے ہیں ، اسکو کاٹنا تو بہت بڑا پاپ ہے"- " اور اسکا گوبر اور پیشاب وغیرہ اسکو آپ کیا کرتے ہیں؟ " اسکو ہم پوتر سمجھتے ہیں ، پیشاب گھر میں چھڑک دیتے ہیں اور گوبر سے گھن نہین کرتے ، پھلے تو جب کچے فرش ہوتے تھے تو گوبر سے لیپ لیتے تھے-کانتا بائی صاف گوئی کے موڈ میں تھیں--اور اب کبھی دیوار پر تھوڑا سا لگالیتے ہیں یا گھر کے باہر کی طرف لگاتے ہیں"- "اورکھانے مین بھی ڈالتے ہیں؟" وہ کچھ خاموش ہویئں " نہیں کھانے میں نہیں دالتے" نمعلوم کیوں مجھے لگا جیسے وہ  اب غلط بیانی کر رہی ہیں-" تو یہاں پر آپ لوگ کیا کرتے ہیں" " ارے یہاں کہاں یہ سب ملے گا " لیکن فرزانہ نے بتایا کہ یہ لوگ بوتل میں لے آتے ہیں اور تبرکا ایک قطرہ،دو ڈالتے ہیں-
پھر میری ہیوسٹن میں رہنے والی ایک دوست نے بتایا کہ ایک روز وہ لوگ ایک فارم پر دودھ خریدنے گئے -فارم والوں نے انہیں انڈئین سمجھا اور پوچھا کہ کیا گائے کا پیشاب بھی چاہئے؟ یہ کافی حیران ہوئے اسپر انہوں نے کہا " ہمارے انڈئین گاہک ہم سے کنستر میں پیشاب رکھوا لیتے ہیں اور پھر لے جاتے ہیں-اسکے بعد کانتا بائی سے دوستی تو قائیم رہی لیکن انکا کھانا حلق سے نہین اترا--لیکن اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ انڈیئن ریستوراں کا کھانا ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اب بھی کھاتے ہیں جب وہ ہمیں یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ strictly vegetarian ہیں اور کبھی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ کیا آپ گئو ماتا کا 
پوتر موتر ڈالتے ہیں؟------واللہ اعلم اسپربھارتی باشندے بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں--------------

India makes cola from cow urine

To millions of devout Hindus, it's the real thing: a cola made from the urine of India's sacred cows.

Cow nose: India makes cola from cow urine
Hindus worship cows for their life-sustaining dairy products Photo: GETTY
The Rashtriya Swayamsevak Sangh, India's leading Hindu cultural group, has developed Gau Jal or Cow Water, at its research centre in the Indian holy city of Haridwar on the River Ganges, and hopes it will be marketed as a 'healthy' alternative to Coke and Pepsi.
Hindus worship cows for their life-sustaining dairy products, but many also consume bovine urine and faeces in drinks and spice mixes for their "health-giving" properties.
In some Indian states, cow dung and urine are sold in regular dairy shops alongside milk and yogurt, and "ayurvedic" Indian health food companies make porridge, toothpaste and tonic drinks which claim to cure ailments ranging from liver complaints to diabetes and cancer. The urine is also believed to have disinfectant properties while the dung is used in many Indian village huts as a clean and antiseptic flooring.
Now, the RSS's Cow Protection Department has invented a new urine-based soft drink it hopes will promote its health-giving properties to a wider market. "We refer to gau ark (cow urine) as gau jal (cow water) as it has immense potential to cure various diseases. We have developed a soft drink formula with gau jal as the base and it has been sent to a laboratory at Lucknow for testing," said director Om Prakash.
His team is now focusing on packaging, marketing, and of course preservation to stop its curative drink from going whiffy in the summer heat.
"It will be a revolution of sorts. The acceptance of cow urine as a potent medicine is increasing day by day and once it comes as a cold drink, its demand will definitely increase. It will prove and justify the high stature accorded to a cow in Indian culture." he added.

Thursday, December 6, 2012

رخمان بابا


You are absolutely correct. All these regional languages of Pakistan are so enriched in culture and poetry. All our saint poets , Bhulllay shah, baba Farid,Abdul lat if bhittai , Sachal sarmast,Rahman baba and many others have wonderful Rhymes which are so solacing spiritually too.

Rahman baba is like Saadi and Raazi to Pashto language. My late father used to quote his verses so frequently matching every drastic  and lovely occasion. So was Khushal Khan Khattak who had Razmia Poetry to incite the valour . That is a good combination of Urdu and Pashto song for Rahim Shah.
a small sample of Rahman bab's poetry.