Thursday, October 25, 2012
Journey of life: کولمبس ڈے
Journey of life: کولمبس ڈے: کولمبس ڈے عابدہ رحمانی ریاستہاۓ متحدہ امریکہ میں کولمبس ڈے منایا گیا- اسوجہ سے یہ سہ روزہ ویک اینڈ تھا چونکہ یہ ایک وفاقی چھٹی ...
کولمبس ڈے
کولمبس ڈے
عابدہ رحمانی
ریاستہاۓ متحدہ امریکہ میں کولمبس ڈے منایا گیا- اسوجہ سے یہ سہ روزہ ویک اینڈ تھا چونکہ یہ ایک وفاقی چھٹی ہےاوریہاں کے معاشرے میں سہ روزہ ویک اینڈ کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے -یہاں کے کافی ریاستوں میں اسکے ساتھ موسم خزاں کی چھٹیوں کو ملا دیا جاتا ہے-کافی لوگ اس طرح کے ویک اینڈ پر سیر و تفریح کا پروگرام بنا ڈالتے ہیں - اور کچھ نہیں تو سٹوروں میں زبردست سیل لگ جاتے ہیں اور خریداری کا لطف اٹھایا جاتا ہے- کیونکہ آیئندہ thanksgiving اور کرسمس کے تحائف کی بھی خریداری کرنی ہے--- یہ ساہوکاری اور کاروباری معاشرہ ہے ہمہ وقت سٹور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کب اور کیسے خریداروں کو نشانہ بنایا جاءے اسی کو ٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں-
امریکہ کرسٹوفر کولمبس کا ممنون احسان ہے کہ اسنے اسے مغالطے میں دریافت کرلیا وگرنہ ابھی تک دنیا امریکہ سے محروم رہتی اور وہ کہیں گوشہ گمنامی میں پڑا رہتا-ذرا سوچئے اگر امریکہ اب تک دریافت نہ ہو چکا ہوتا تو کیا ہوتا شائد دنیا کا کچھ بھلا ہی ہوجاتا- جاپان، چین ،ویٹنام، عراق، افغانستان ،ایران ، پاکستان ، شمالی کوریا اور دیگر بے شمار ممالک چین کی بانسری بجاتے رہتے اور باقی دنیا میں بھی راوی چین ہی چین لکھتا- نہ ہی یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی نہ ہمیں ان کمپیوٹروں کی لت پڑتی - پھریہ ڈہیروں ڈھیر سائینسی ایجادات کا کیا ہوتا؟ بقول حسن نثار کے" ہم تو اپنے پوتڑے بنانے کے قابل بھی نہیں" بہر کیف دنیا اسکے باوجود بھی چل رہی تھی لوگ زندہ تھے کھا پی رہے تھے اور خوب لڑ جھگڑ بھی رہے تھے- البتہ یہ ایٹمی دوڑ اور یہ ڈرون خدا کی پناہ---- امریکہ نے دنیا کا جانے انجانے میں وہی حشر کیا جو کولمبس نے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کے مقامی باشندوں کا کیا --جسکی لاٹھی اسکی بھینس!
ہاں دنیا کا بھلا ہوتا نہ ہوتا امریکہ کا تو ہو ہی جاتا -- ہر وقت امریکہ کو کتنی گالیاں پڑتی ہیں ، جھنڈے جلائے جاتے ہیں صدر کے پتلے جلائے جاتے ہیں، شرم دلائی جاتی ہے لیکن امریکہ ایسا ڈھیٹ کہ ٹھس سے مس ہی نہیں ہوتا بلکہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے-پاکستان میں ہر جلوس میں نعرے بازی ہوگی گو امریکہ گو Go America Go اس سے ایک تو وہ دوبئی چلو والا قصہ لگتا ہے کہ جاؤ چلے جاؤ امریکہ چاہے کیسے بھی ممکن ہو ، دوسرےامریکہ میں یہ نعرہ کھیلنے والی ٹیموں کو بڑ ھاوا دینے کے لئے کہا جاتا ہے Go Go کہ آگے بڑھو اور سب کو مات دو- نعرے بازی کی بھی ایک آرٹ ہے-- لیکن پھر وہی امرکہ ہمارے ہر دکھ کا مداوا بھی ہے زلزلے آۓ ، سونامیاں آئیں ، سیلاب آئے ،ہر تباہی میں امریکی امداد پیش پیش ، پھر نہ ہمیں انکی امدادی ٹیمیں بری لگتی ہیں نہ انکے جہاز اور نہ ہی ہیلی کوپٹرجب انجیلینا جولی ہمارے کیمپوں کے دوروں پر ہوتی ہے تو ہمیں سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے- میرے ساتھ یہی تو مشکل ہے کہ موضوع سے بھٹک جاتی ہوں اور کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہوں--
اسوقت امریکہ کا یہ حال ہے کہ ویزے کے لئے سب سے لمبی لائینیں اسی کی ایمبیسی میں لگی ہوتی ہیں ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ جائے ، کم از کم ایک مرتبہ تو جائےاور جس کو ویزہ نہیں ملتا وہی سب سے زیادہ برا بھلا کہتا ہے , ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے میرے والد صاحب مرحوم ایک مرتبہ میں نے مشورہ دیا کہ آپ امریکہ گھوم آئیے ، کہنے لگے اللہ تعالی مجھ سے یہ ہرگز نہیں پوچھے گا کہ امریکہ گئے تھے یا نہیں ؟--میں نے انکو قائل کرنے کی کافی کوشش کی کہ دیکھئے گا "فردوس گر بر روئے زمیں است --ہمیں است ہمیں است ہمیں است" لیکن وہ نہیں مانے ،اسی جنت کو تو بچانے کے لئے امریکہ ساری دنیا کو تگنی کا ناچ نچاتا رہتا ہے ہے--
اور یہ سب کولمبس کا قصور ہے نہ وہ امریکہ دریافت کرتا نہ ہی امریکہ کو یہ دن دیکھنے پڑتے-اب کولمبس نکلا تو ہندوستان کی تلاش میں تھا لیکن جا پہنچا امریکہ ، اب نجانے اسوقت امریکہ کا کیا نام تھا؟ وہ اپنے تیئں یہی سمجھا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے کولمبس اطالوی نژاد ہسپانوی جھاز راں تھا اسوقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلایا کرتا تھا- کولمبس کو 1492 عیسوی میں باد شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے مالی امداد کے ساتھ اس مہم پر روانہ کیا، اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ کامیاب لوٹے گا تو اسکو امیرالبحر یا گورنر بنادینگے - فرڈیننڈ اور ازابیلا مسلمانوں کے جانی دشمن جنہوں نے اسپین سے اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانؤں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا- جب مسلمان یورپ میں آئے اسوقت یورپ مکمل تاریکی میں تھا - یہ اسلام کا سنہری دور تھا وہ اپنے ساتھ علم و دانش، علوم و فنون لائے - اسپین میں اب بھی انکے سنہرے شاندار ماضی کے آثار نمایا ں ہیں- کولمبس پہلی مرتبہ تین جھازوں کے بیڑے میں جزیرہ بہاماس کے پاس اترا ان سب علاقوں میں قبائیلی اطوار تھے یہاں کے لوگ نسبتا پر امن تھے- کولمبس کو یہاں عیسائیت پھیلانے کے اور اپنی نو آبادیا ں بسانے کی کافی گنجائش نظر ائی اور اسکے بعد اسنے مزید تین سفر کئے اور کافی جہازوں کی معئیت میں ہر قسم کے آبادکاروں کو لایا جنمیں کسان ، تاجر ، کاریگر اور صناع شامل تھےاور یوں اپنی نو آبادیا ں بسا کر یہاں کا وائس رائے بن بیٹھا البتہ اسکے ظلم و ستم کی اتنی داستانیں بادشاہ کو پہنچیں کہ بالاخر بادشاہ نے اسکو پابہ جولاں داخل زنداں کیا جھاں 54 سال کی عمر میں وہ دار فانی سے کوچ کرگیا-
اس سارے قصے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کولمبس کا ذیادہ عمل دخل اور حاکمئیت جزائر غرب الہند اور کیوبا میں رہی اور وہ مرکزی امریکہ میں جو اب ریاستہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے - اسمیں کبھی داخل ہی نہی ہوا لیکن پھر بھی امریکہ والے اسکو اپنا سمجھتے ہیں اور اسکی اس دریافت پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اسکے آنے کے بعد ہی یوروپی آباد کاروں کو امریکہ اپنے خوابوں کی منزل کی صورت میں نظر آیا اور شمالی امریکہ یوروپی سفید فام تارکین وطن کا نیا ملک بن گیا --جبکہ لاطینی امریکہ میں ہسپانوی نو آبادیا ں بنیں-
اسی خراج تحسین کی خوشی میں نیویارک میں بہت بڑا کولمبس کا مجسمہ ایستادہ ہے اور وہ کولمبس اسکوائیر کہلاتا ہے-البتہ اس مجسمے پر دل جلے ریڈ انڈئینز Red Indians نے خوب سنگ باری بھی کی ہے اب کولمبس نہیں تو اسکا مجسمہ ہی سہی - سی این این پر دکھا رہے تھے کہ اب 550 سال کے بعد ایک کولمبس اپارٹمنٹ بھی بن گیا ہے جس سے مین ہٹن کا بڑا خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا ہے-شائد کولمبس کی روح اسمیں آکر قیام کرے--
ریڈ انڈئینز کو ہم لال ہندوستانی کہتے ہیں اسلئے کہ انکے سامنے اسطرح کہنا ایک نسلی گالی کہلاتا ہے جسے یہاں racial slur کہتے ہیں جیسے کسی سیاہ فام کو نیگرو یا نیگر کہنا اسکی توہین ہے اور وہ قا نونی چارہ جوئی کر سکتا ہے- کیا کہنے امریکہ کے قوانین اور قانونی چارہ جوئی کے ؟ لال ہندوستانی نام بھی کولمبس نے دیا ورنہ تو انکے بڑے بڑے قبائیل تھے جنکے کافی اچھے اچھے نام ہیں - چروکی ، اپاچی،نواؤ navajo اب اپاچی، ہیلی کاپٹر ہوگیا چروکی مشہور جیپ اور اسی طرح کے بیشمار نام - امریکن انکو عزت سے اب native بلاتے ہیں جبکہ کینیڈئین فرسٹ نیشن چلئے اسطرح ہی سہی کچھ عزت تو دی گئی ورنہ تو غالب, حملہ آور یوروپیئن اقوام نے مار مار کر ایک چوتھائی بہی رہنے نہ دیا--اور اب جو انکا حال ہے کہ عموما ایک نمائیشی حیثیئت ہے خوب نشے میں دھت رہتے ہیں جگر کے امراض کثرت شراب نوشی سے عام ہیں ، فربہی کی بیماری بہت عام ہے جسکی وجہ سے انمیں ذیابیطس بھی کافی پایا جاتا ہے -مختلف مواقع پر اپنے پروں والے لباس پہن کر ڈانس کرینگے - انکی زمینوں پر جوۓ کی اجازت ہے اس بناء پر بڑے بڑے کسینو بناۓ گئے ہیں --سرخ ہندوستانیوں کا ذکر پھر کبھی تفصیل سے کرونگی -
اسوقت مجھے Macy's جاناہے جہاں کولمبس ڈے کی زبردست سیل لگی ہوئی ہے-----
Journey of life: یہ میرا لہو رنگ وطنعابدہ رحمانیاے وطن پیارے و...
Journey of life:
یہ میرا لہو رنگ وطن
عابدہ رحمانی
اے وطن پیارے و...: یہ میرا لہو رنگ وطن عابدہ رحمانی اے وطن پیارے وطن پاک وطن اے میرے پیارے وطن اے وطن میرے وطن پیارے وطن وطن کے گیت گاتے ...
یہ میرا لہو رنگ وطن
عابدہ رحمانی
اے وطن پیارے و...: یہ میرا لہو رنگ وطن عابدہ رحمانی اے وطن پیارے وطن پاک وطن اے میرے پیارے وطن اے وطن میرے وطن پیارے وطن وطن کے گیت گاتے ...
یہ میرا لہو رنگ وطن
عابدہ رحمانی
اے وطن پیارے وطن پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
اے وطن میرے وطن پیارے وطن
وطن کے گیت گاتے ہوئے حب الوطنی اور وطن سے حد درجہ وفاداریکے جذبے سے سرشاریوں سمجھئے جیسے یہ وفاداری ہماری گھٹی میں ڈالدی گیئ ہو، ہم زندگی کے منازل طے کرتے رہے۔ ہم اور ہمارے وطن کا چولی دامن کا ساتھ ہے کچھ ہمجولی والا حساب بھی ہے، ہمیشہ کوشش کی کہ کسی معاملے میں وطن سے دھوکہ نہ ہو غداری نہ ہو -اچھے شہری اور اچھے مسلمان کی یہی تو ایک پہچان ہے- ساری دنیا ٹیکس چوری میں لگی ہوتی تھی اور ہمارے ذمے اتنے ٹیکس کہ ہمارے شراکت کار پریشان ہوجاتے ، بہر کیف اپنی پاکیئ دامانی کا ذکر ہرگز مقصد نہیں ہے- ورنہ یہاں پر بدعنوانی کا جو دور دورہ ہے کہ سر فہرست نہیں تو تیسرا چوتھا نمبر تو ضرور رہتا ہے- اسوطن کو اسوقت بحالت مجبوری چھوڑنا پڑا جب میرا اپنا دامن لہو سے تر ہوچکا تھا او روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی، مجھے یہ دکھ یہ صدمہ، یہ تباہی دینے والے میرے اپنے ہم وطن اور ہم مذہب تھے یہ ہرگز را ، موساد یا سی آئی اے کے لوگ نہیں تھے-یہ میرے وطن کی ایک بھیانک تصویر ہے اور اس دکھ کو اس بار گراں کو وہی جان سکتا ہے جو اس سے گزرا ہو-
لیکن ہم نے اسے کیا چھوڑا یہ بھی کوئی چھوڑنا ہوا؟ پاکستان والوں کو خبریں بعد میں معلوم ہوتی ہے اور ہمیں پہلے معلوم ہوجاتی ہے اللہ بھلا کرے یہ خبر رساں اداروں کا بلکہ میڈیا کی تمام دنیا پر حکومت کا، دنیا میں ہر سیکنڈ خبریں ایک جگہ سے ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں خبر رسانی کا یہ حیرت انگیز انتظام اور اتنی سرعت کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا؟ - اسی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کا خبر رسانی کا نظام کسقدر ہائی ٹیک ہوگا - پچھلے سال اسلام آباد میں ناشتے کی میز پر فون کی گھنٹی بجی تو امریکہ سے میرے بیٹے کا فون تھا ،" کہنے لگا وہاں تو بڑی ہلچل ہوگی " "بھلا کیوں ؟" آپکو نہیں معلوم اسامہ کو ایبٹ آباد میں ماردیا گیا ہے اور ہم سب ٹی وی دیکھنے بھاگے"
پاکستان سے باہر تو پاکستان کی پل پل کی خبریں ہمہ وقت لرزا دینے والی خبریں ، جنمٰیں اچھی کم اور بری زیادہ ہوتی ہیںآگ کیطرح تیزی سے پھیلتی ہیں،چند بہی خواہ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں بس بھول جائیں پاکستان کو اور پاکستانی معاملات کو ، بھلا کیسے بھول سکتے ہیں، ناممکن!اور پھر جب یہ پوچھا جاتا ہے-where are you originally from - اور جب بھی پاکستان جانے کے ارادے کا اپنے مقامی دوست احباب سے ذکر کرو-پہلا تاثر یہ ہوگا دیکھو وہاں اپنی حفاظت کا خیال رکھنا ، بڑا ہی خطرناک ملک ہے- "stay safe, its a dangerous country" اس قدر خواہش ہوتی ہے کہ کاش کسی خوش ائیند بات سے اپنے مادر وطن کا تعلق ہو - وہ روز ہمارے لئے انتہائی باعث اطمینان و شکر ہوتا ہے جبکہ کسی بڑ ے سانحے کی خبرنہ آئے ورنہ وہان کے باشندے تو روزمرہ کے بھاینک حوادث کے اتنے عادی ہو چکے ہیں
کہ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے --اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے-
وہ جو کچھ فلسطین میں ہوتا تھا اسپر اسرائیل نے اپنی حکمت عملی سے قابو پالیا -پھر وہی کچھ عراق ، افغانستان اور اب پاکستان میں ہونے لگا - خود کشی ، ھارا کیری جاپان اور کوریا کے باشندوں کا شوق و جذبہ ہوا کرتا تھا -جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر اپنے جہازوں سمیت اپنی جانوں کی بازی لگا دی تھی -دور کیوں جائیں جب پاکستانی فوجی 65 کی جنگ میں سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تو ہم ابھی تک انکی بہادری کے گیت گاتے ہیں، ہم نے انکو شجاعت کے تمغے دئے اسلئے کہ انہوں نے اپنے وطن کی آن بچانے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی- ایک مشہور شاعر کی نظم تھی -
لہو جو سرحد پہ بہہ رہاہے لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے --ہم اس لہو کا خراج لینگے
وہی لہو اب میرے وطن کی گلیوں میں بہہ رہاھے بم باندھنے والے بھی میرے ہم وطن ، ہم مذہب ، ہم زبان اور مرنے والے بھی میرے ہم وطن ، ہم مذہب اور ہم زبان ہیں- سر کاٹنے والے بھی میرے ہم وطن اور سر کٹنے والے بھی میرے بھائی بندے - اور جب آپکا کوئی عزیز کوئی شناسا اس لپیٹ میں آجائے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ بلا اب میرے گھر آپہنچی ہے - دکھ، کرب اور بے بسی کا احساس ، پچھلے دنوں پشاور کے نواحی علاقے متنی میں ایس پی خورشید خان کو وہاں کے دہشت گردوں نے جھانسے سے قتل کر دیا -انکے ساتھ 8، 10 اور اہل کار بھی مارے گئے دہشت گرد انکا اور دو اور اہلکاروں کا سر کاٹ کر لے گئے - بطورانتقام، تمغہ یا بطور انعام جیسے ہلاکو خان اور چنگیز خان کا فعل تھا، کھوپڑیوں کا مینار بنا کر اپنی وحشت اور بر بریئت کی تسکین کرتے تھے، اگر یہ طالبان ہیں تو کونسا اسلام اس فعل کی تلقین کرتا ہے ؟ اس موضوع پر یہ اوریا مقبول جان،جاوید چوہدری ، حامد میر اور دیگر بیشمار کے قلم گنگ ہوتے ہیں یہ جو لفاظی کے ماہر ہیں اور حق و صداقت سے بے بہرہ قلم فروش ہیں یہ تمام لکھنے والے ففتھ کالمسٹ تو کہلائے جاسکتے ہیں --بہر کیف مجھے انسے کیا لینا دینا-
یہ خبر اخبارات میں کافی تفصیل سے آئی یہ اہلکار اپنے فرائض منصبی نبھانے والے ان دہشت گردوں کا آسان نشانہ ہوتے ہیں - وہ اپنا سارا غصہ انپر ہی نکال سکتے ہیں-
دکھ اور صدمہ تو اس بات کا تھا کہ تمغہ شجاعت پانے والے اس اہلکار کی ماں جب آخری وقت اپنے بیٹے کا دیدار کرنا چاہ رہی تھی تو بہت مشکل مرحلہ تھا بڑی مشکلوں سے اسکو یہ کہہ کر قابو کیا گیا کہ شہیدوں کے چہرے نہیں دکھائے جاتے-
اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے بعد انہوں نے چند روز کے بعد نہ جانے کسطرح یہ سر واپس کیا جسکو دوبارہ انکے جسم کے ساتھ دفنایا گیا--
نمعلوم میرے ملک میں یہ بہتا ہوا لہو کب تھمے گا ، ان جوانوں کو ان کی صلاحئیتوں کو سیدھا راستہ کب سجھائی دیگا----؟
کب کب ؟
Saturday, October 13, 2012
دعا
مرے رب میں تجھ سے دعا مانگتی ہوں
ترا فضل، تیری عطا مانگتی ہوں
میں عاصی میں تیری خطا کاربندی
ترا عفوِ بے انتہا مانگتی ہوں
میں ڈالی گئی ہر نفس امتحاں میں
ہر اک امتحاں کا صلہ مانگتی ہوں
دو عالم ہیں آغوشِ رحمت میں تیری
تری رحمتوں کی ردا مانگتی ہوں
نہیں عابدہؔ مجھکو دنیا کی پروا
فقط اپنے رب کی رضا مانگتی ہوں
ملالہ کا ملال
عابدہ رحمانی
ملالہ کے متعلق پچھلے چند روز سے اتنا کچھ نشر و اشاعت میں آچکا ہے کہ اس تفصیل میں جانا فضول ہے کہ وہ کون ہے اور اسے کیا ہوا ہے ؟ - بینظیر کے قتل کے واقعہ کے بعد پاکستان اور بیرونی دنیا میں اس واقع کو جو شہرت ملی ہے وہ ناقابل بیان ہے فرق یہ ہے کہ بے نظیر اپنی جان سے گزر گیئں اور تمام پاکستان کو تخت و تاراج کر دیا گیا- پاکستان ریلوے کی جو تباہی ہوئی کہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہی- ملالہ کو بچانے کی پوری کوششیں جاری ہیں اور شورتمام ابالغ عامہ کی سطح پربھی مچا ہو ا ہے- ملالہ کی جان بچانے کے لئے جسقدر جانفشانی دکھا ئی گئی ہے اور تمام مقتدرہ طبقہ جس طرح سے متحد ہو گیا ہے اس سے یہ شکا ئیت کرنا بے جا ہے کہ پاکستان میں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں ہے - وہ ملک جہاں روزانہ کتنے بے گناہ اپنے ناکردہ گناہوں کے لئے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا مجھے اس واقعہ کی جیسے اطلاع ملی میں نے فورا اسکو خراج تحسین دینے کے لئے یہ نظم لکھ ڈالی
ملالہ یوسف زئ کے نام
تو عزم و ہمت کا نشان ہے ملالہ
ان ظالموں نے تم کو نشانہ بنا ڈالا
نہیں انکی نظر میں عورت کا کوئی مقام
کہلاتے ہیں یہ خود کو داروغہ اسلام
اس دور کو تاریکی میں لے جانا چاہتے ہیں
عورت کی ہر آواز کو دبانا چاہتے ہیں
عورت کو ایک بیجان کھلونا بناناچاہتے ہیں
اسلام کی دیدی ہوئی عظمت مٹانا چاہتے ہیں
تم گل مکیئ کے نام سے جو کچھ لکھا کرتی تھی
حیرت سے بی بی سی سے ہمیشہ سنا کرتی تھی
ملالہ نہ ملال کر ہم تمہارے ساتھ ہیں
ملالہ نہ ملال کر ہم تمہارے ساتھ ہیں
یہ ساری دعائیں یہ خواہشیں تمھارے ساتھ ہیں
لیکن ہماری توقعات کے برعکس یہ کیا پوری سرکاری مشینری اس بچی کو بچانے کے لئے متحرک ہوگئی -اس بچی میں کیا خاص بات تھی کیا وہ کسی بڑے عہدہ دار کی بیٹی تھی، کیا وہ بہت ذہین تھی اور تعلیمی میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیا تھا؟ -اس سے پہلے پاکستان کی ایک اور ذہین و فطین بچی ارفع کریم دنیا سے رخصت ہوئی تو میڈیا میں جوش آیا تھا لیکن ارفع کا معاملہ مختلف تھا، اس ے کسی طالب نے گولی نہیں ماری تھی ملالہ نے جب گل مکئی کے نام سے بی بی سی کو اپنے ٹوٹے پھوٹے خطوط بھیجنے شروع کئے تو میں کافی دلچسپی سے سنتی تھی۔ ایک معصوم بچی خوفزدہ ہو کر اپنےاسکول کے تباہ ہونے اپنے تعلیمی نقصان کے معصوم خواہشات اور خوف کا اظہار کیا کرتی تھی- ظا ہر ہے اسکے اس جذبے کے پس پردہ کسی کا ساتھ ہوگا ورنہ عام طور سے اس طرح کی تحاریر کوڑے کے ڈھیر میں چلی جاتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا خوف و دہشت کے مارے بھی لوگ زبانیں بند رکھتے ہیں- بعد میں معلوم ہوا کہ اسے اہنے والد کی سر پرستی حاصل تھی اور انہون نے ہی نشریاتی ادارے تک رسائی حاصل کر لی تھی اب یہ چودہ سالہ بچی جرآت و ہمت کا نشان بنگیئ ،ایک زبان ایک آواز جو طالبان کے مظالم کو اجاگر کرتی تھی- اسے اسقدر سرکاری اداروں کی سر پرستی حاصل ہے یہ تو اب معلوم ہوا لیکن اسے ایوارڈملے، نشریاتی اداروں پر آئی، انٹرویو ہوئے اور تو اور ایک مارکسی ویب سائٹ نے دعوہ کیاہے کہ وہ ایک مارکسی ہے وہ اور اسکا باپ انکا کامریڈ ہے-حیرت ہے کہ مارکسزم اب سوات میں زندہ ہو رہاہے پاکستان اور افغانستان میں کچھ بھی ہونا بعید نہیں ہے اب یہ تو پاک فوج ہی فیصلہ کرسکتی ہے کہ انکا اگلا حریف کون ہے؟ نا معلوم تاریخ پہرپلٹ جائے اور ان طالبان کو دوبارہ مجاہدین کی صورت میں ملانا پڑ جاۓ - اسوقت تو پاکستان میں یہ مقابلہ چل رہاہے کہ ملالہ کی خیرئیت کس نے پوچھی کس نے نہیں پوچھی - جس نے نہیں پوچھی اور کوئی بیان جاری نہیں کیا اس پر لعن طعن کی جارہی ہے سب اپنی دوکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیںاپنے نمبر بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں -اور تو اور میڈونا نے اپنے جسم پر ملالہ کا نام لکھا اور اپنا گانا اسکے نام کردیا -ساتھ میں دو بچیاں اور زخمی ہیں انکے ماں باپ چینخ رہے ہیں یہ بھی پاکستانی بچیاں ہیں انکو بھی علاج چاہئے-ملالہ کے طفیل تھوڑی بہت ان کی بھی پزیرائی ہوئی اور اخبارات میں
خبرٰیں بھی ائیں - ہماری تو دعا ہے کہ ملالہ مکمل صحت یاب ہو کیا معلوم وہ کل کو ہمارے ملک اور قوم کا نام روشن کرے اور پھر اسکا تعلق ہمارے قبیلے سے بھی ہے-----
Wednesday, October 3, 2012
امریکی صدارتی انتخابات کا غلغلہ
عابدہ رحمانی
امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہورئیت ہونے کا دعویدار ہے اور حقیقتا ہے بھی- ہر چار سال کے بعد یہاں کے صدارتی انتخابات ہوتے ہیں ایک صدرچاہے کتنا ہی مقبول اور قابل کیوں نہ ہو دو مرتبہ سے زائد اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتا- مخالف پارٹیاں عموما دو بڑی پارٹیاں ہیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ - ریپبلکن جو عام طور پر جی او پی کہلاتی ہے اسکا کا انتخابی نشان ہاتھی ہے جبکہ ڈیموکریٹ کا گدھا ہے -ہاتھی کے مقابلے میں گدھا ایک کمزورسا جانور ہے لیکن باربرداری اور بوجھ ڈھونے کے لئے ہاتھی سے زیادہ مفید اور ہلکا پھلکا ہے پھر سیدھا سادھا سا جانور ہے ہاتھی کی نسبت اسکی ضروریات کافی قلیل ہیں- ھاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور --بہر حال یہ سب ہمارے دیسی محاورے اور استعارے ہیں جن سے امریکی قطعی نابلد ہیں نہ معلوم امریکیوں کو اپنے انتخابی نشان کے لئے ان ایشیائی، افریقی یا بر صغیری جانوروں کا خیال کیوں آیا؟ کیا امریکی جانور قلیل تھے؟--- اسپر غور کرنا پڑے گا-
اسوقت ہاتھی کی نمائیندگی مٹرومنی اور پال ریان جبکہ گدھے کی باراک اوبامہ اور جو بائیڈن کر رہے ہیں-ارے نہین در حقیقت یہ سب امریکی عوام کے نمائندے ہیں- امریکہ کا اسوقت سب سے بڑا مسئلہ خراب معاشیات ، اقتصادیات, مکانات کی گرتی ہوئی قیمتیں، بنکوںکو گروی شدہ مکانات کی واپسی اور ملازمتوں کی فراہمی ہیں-اوباما یہاں کی صحت کو عام آدمی کے لئے قابل حصول بنانے کے حسب سابق وعدے کر رہا ہے-اوباما نے اپنے دوسرے دور کے حصول کے لئے کافی دور رس اور دور اندیش اقدامات کئے -عراق سے فوجوں کو واپس بلایا ، اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں مار دیا (بقول انکے وہ خطرناک دھشت گرد جسکے لئے جاج بش نے تورا بورا کو بورا بورا کر دیا تھا) پاکستان کے شمالی وزیرستان پر ڈرونوں سے میزائیلوں کی برسات کردی - عرب ممالک میں عرب بہار کا بھر پور جلوہ دکھایا -جنمیں شام میں ابھی تک صبح نہیں ہوسکی اور خون مسلم کی ارزانی کی کھلی تصویر بنا ہوا ہے- اسکے باوجود آئے دن کے تجزیوں میں اوبامہ کی ریٹنگ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے- کہں کہیں برابر اور کہیںمعمولی فرق ہے رومنی اسے ہرانے اور نیچا دکھانے کی پوری کوشش میں ہے ایک دوسرے پر خوب بھپتیاں کسی جاتی ہیں- کل ڈینورDenver کے مقام پر ان دونوں کا پہلا 90 منٹ کا تقریری مناظرہ یا مظاہرہ ہو رہا ہے اسمیں داخلی معاملات پر زیادہ توجہ دی جائے گی- ابھی سے اندازے لگائے جارہے ہیں کہ کون جیتے گا ،دونوں کیمپ اپنے امیدواروں کو خوب تیار کرنے میں لگے ہیں- امریکی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا چاہے جو بھی آئے-
ابھی آخری رینکنگ کے مطابق اوبامہ کے اس ڈ یبیٹ کو جیتنے کے امکانات کافی روشن ہیں--
" باراک حسین اوبامہ" اس نام میں کسقدر اپنایئت ہے ٓاوبامہ جب پچھلے الیکشن میں پہلی مرتبہ منظر عام ہر آیا تو سی این این پر اسامہ کے ہموزنی پرJean نے اسکا خوب خوب مذاق اڑایا کہ اب ہمارے پاس اسامہ کے بعد اوبامہ بھی ہے- ایک غیر معروف سیاہ فام شخص جو شکاگو کا سینیٹر تھا، جسکا باپ ایک کینیائی مسلمان تھا اور ماں سفید فام امریکن تھی - بقول اوبامہ کے میرا باپ کوئلے کی طرح سیاہ اور ماں دودھ کی طرح سفید تھی-پھر دوسرا باپ ایک انڈونیشی مسلمان تھا اوبامہ کا کچھ بچپن انڈونیشیا مین گزرا جہاں اسنے اسلا می اسکول میں تعلیم پائی-اس کی رگوں میں مسلمان باپ کا خون، لیکن اس سے کیا فرق پڑتاہے اسطرح کے مسلمان دنیا میں بھرے پڑے ہیں اورجب فوکس نیٹ ورک ، رش لمبو، سارا پالن اور دوسرے دائیں بازو کے لیڈر اور میڈیا اسپر بحث کرنے لگتے ہیں کہ اوبامہ در حقیقت ایک مسلمان ہے،چوری چھپے قرآن پڑھتا ہے ، تو وہ اپنے اہل خانہ سمیت گرجوں کی سروس میں جانا شروع کرتا ہے جسکی خوب تصویر کشی ہوتی ہے- کچھ لوگ اسپر بضد ہیں کہ اوبامہ دراصل جزیرہ ہوائی میں پیدا ہی نہیں ہوا اور پیدائشی سر ٹیفیکیٹ جعلی ہے لیکن ان سب کے باوجود اوبامہ صدر امریکہ ہے-
اوبامہ جب پہلی مرتبہ منظر عام ہر آیا،اسکا سراپا اور اسکی رعبدار آوازسنکر مجھے اپنے قائد اعظم کی آواز کی گھن گرج یاد آئی -
پچھلی مرتبہ جب ڈیموکریٹک پارٹی اپنے امیدوار کو منتخب کر رہی تھی اور اس کیلئے باقاعدہ الیکشن کے ظرز پر انتخاب ہو رہاتھا- اسوقت ہیلری کلنٹن کے متعلق سبکو یقین تھا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہوںگی اور امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہونگی - یہ امریکہ جو روشن خیالی اور آزادئی راۓ کا اتنا بڑا علمبردار ہے یہاں ابھی تک کوئی خاتون سربراہ مملکت نہیں بن سکی - نہ ہی صدر اور نہ ہی نائب صدر-اس معاملے میں تو ہمارے پسماندہ ممالک ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں -پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش جہاں آئے دن خواتین حکمران ہوتی ہیں اب بھی پاکستانی صدر صاحب بی بی کے بل بوتے پرہی قیادت کر رہے ہیں-
کلنٹن مونیکا سکینڈل میں مجھے ہیلری کا اپنے شوہر سے باوفائی کا انداز بہت بھایا تھا ،کچھ اپنی اپنی سی لگتی تھی اس زمانے میں، میں امریکہ میں تھی کچھ امریکن خواتین سے بات ہوئی تو انکو اسکے روئے پر سخت اعتراض تھا ٓ ایک عورت کہنے لگی 'ہیلری کا رویہ ہرگز ایک امریکن عورت کا نہیں ہے- اسکو فورا اپنے شوہر سے طلاق لینی چاہئے " لیکن ہیلری اپنےشوہر کے ساتھ کھڑی رہی - بالکل ہمارے ہاں کی خواتین کی طرح کہ صبح کا بھولا شام کو گھرآجاۓ تو اسکو ہرگز بھولا مت کہو- کیونکہ ہم لوگ جس معاشرے اور ماحول سے ہیں وہاں پر عورت ایک وفا کا پیکر، وفا کی پتلی ہی تو ہے اور اس وجہ سے میں اس سے رابطے مٰیں تھی -بلکہ اسکے لئے رضاکارانہ کام کر رہی تھی- آئے دن میرے پاس ہیلری، بل کلنٹن اور چیلسی کے تعریفی اور شکرئے کے ای میلز آتے اور پرائمریزمیں ، ہیلری کی ٹاپ کالر اور ای میل بھیجنے والوں میں سے ایک بن گئی- کافی دلچسپ مشغلہ تھا- قصہ مختصر یہ کہ ہم نے ایڑھی چوٹی کازور لگایا لیکن اوباما آیا اور چھا گیا - ہیلری نے ہار مان لی اور اوبامہ ڈیموکڑیٹ کا صدارتی نامزد بن گیا - لیکن امریکی سیاست اور مزاج دیکھئے دو دن پہلے وہ ایک دوسے کو نیچا دکھانے کیلئےہر حربہ آزمارہے تھےاور اب ہیلری نے اعلان کیا کہ اب ہمارے سارے رضاکار اوباما کیلئے کام کرنگے اور ہم جیت کر دکھائینگے- تو پھر ہم نے وہی کام اوبامہ کیلئے کیا اور پھر اوبامہ اور مشل کے ای میلز ملنے لگے -انگلی پر خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والی بات تھی -اور پھر پانسہ پلٹا -امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر بارک حسین اوبامہ بن گیا اور اب شائد دوبارہ بھی ہوجاۓ یہ واقعی اتنی بڑی اور انوکھی تبدیلی تھی کہ سیاہ فام اپنی اس کامیابی پر پھوٹ پھوٹ کر روئے وہ کچھ ہوا جو انکے خواب و خیال میں ہی تھا- اگرچہ اوبامہ کی ماں سفید فام تھی اور باپ نسل غلاماں میں سے نہیں تھا لیکں پھر بھی سیاہ فام اسے اپنا سمجھتے ہیں-
ہاں یہ علئحدہ بات ہے کہ متواتر اصرار کے بعد میں ان کیلئے کام نہیں کر رہی ہوں -شائد یہ ایک خاموش احتجاج ہے وزیرستان کی جلی ہوئی لاشوں کیلئے --کیا اس سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے ؟ شائد نہیں لیکن میرا ضمیر تو مطمئن رہے گا--
--
عابدہ
Tuesday, October 2, 2012
ایک شعر کا ہنگامہ
اسلام علیکم
نہیں نہیں عاصمہ صاحبہ لکھیں اور خوب لکھیں ہم ضروربالضرور چاہتے ہیں کہ ہماری سب کی ہر دلعزیز عابدہ کہ ہم جیسا کہ میں نے لکھا ہے اسے آنکھوں سے لگا ئیں مگر آپنے درست لکھا ہے کہ "آپ کے آئندہ "شعر" کا انتظار رہے گا ہمیں بھی ان کے "شعر" کا انتظار ہے۔ آپ کا شکریہ۔ ۔
, nasirali syed hangama hai q barpa ak shair jo likha hai
ان اشعار سے متاٰثر ہو کر اپنی زندگی کا پہلا شعر لکھ رہی ہوں لگتا ہے یوسف عالمگیرین کے بعد اب میری باری ہے-
اے چارہ گر تو کیا جانے دل کے اندر کیا کیا ہے
تو نے عبث اسے چیر ڈالا رفو کرنے کوـ
|
اسلام علیکم
عابدہ آپا شعر اچھا ہے کو شش کرتے رہیے آپ میں بھی شاعری کے جراثیم مو جود ہیں اور ویسے بھی انسان جن لو گوں کی صحبت میں بھیٹھتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے تو ہمارا بزم قلم فورم ایک ایسا فورم ہے جس کی صحبت میں قلم اٹھا نا تو آہی جاتا ہے لیکن اپ تو ما شاللہ بہت وخوبصورت لکھتی ہیں
2012/10/1 Amin Tirmizi <meriurdu@yahoo.com>
بی بی ایک ہیلمیٹ خرید لیں کام کی چیز ہے۔ کیونکہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ آپ میں اتنی بہت سی خوبیاں ہیں تو کیا ضروری ہے کہ آپ شاعر بھی ہوں۔ اللہ نے ماشااللہ اتنی عزت دی ہے اس کا شکر کریں اور اس کی عطا کی ہوئی چیز کی حفاظت کریں ۔ اللہ آپ کا اقبال بلند کرے آمین۔
وعلیکم سلام عینی
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟تمہاری محبت ہے ورنہ من آنم کہ من دانم-
اب یہ تم نے ترمذی صاحب کے تبصرے کے باوجود لکھا ہے
قلم تو پہلے بہی اٹھتا رہا بلکہ زیادہ شدت سے، اب تو کمپیوٹر اور ک بورڈ سے چولی دامن کا ساتھ ہے
خوش رہئے
2012/10/1 Amin Tirmizi <meriurdu@yahoo.com>
بی بی آپ عابدہ بھی ہیں اور بحمداللہ آپ پر رحمانی سایہ بھی ہے اور اسی یقین کے ساتھ میری مانیں میں آپ کا ہمدرد بھی ہوں اور یہ جو محترمہ عینی نے کہا ہے گو کہ ان کا تعلق عین سے ہے مگر انہیں نہ جانے کہاں نظر آیا وہ شعر جو انہیں پسند آیا۔ میں بوڑھا آدمی ہوں شاید نظر کمزور ہو گئی ہو گو کہ مجھے دور کی سوجھتی ہے مگر مجھے وہ شعر نظر نہیں آیا جن کی انہوں نے مروتاً یا رسماً تعریف کی ہے کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے جس دن مجھے آپ کی تحریر میں شعر نظر آیا میں انتہائی عقیدت سے اسے آنکھوں سے لگا کر آپ کو اطلاع دونگا۔ اب آپ چاہیں تو مجھے ڈیلیٹ کردیں لیکن ایک بار سوچ لیں زمانہ خراب ہے اچھے ساتھی مشکل سے ملتے ہیں بلکہ اب تو ایسا زمانہ آن لگا ہے کہ ہر سال نہیں ملتے ۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اِک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مذہبی خاتون ہیں اور مزہب غصے کو حرام قرار دیتا ہے اس لئے میں محفوظ ہوں۔
فن اور رموزِ شعر و شاعری سے نا بلد شعراء و شاعرات کے لئے امین ترمذی صاحب کی تحریر ایک ایسی نصیحت ہے جس کے بارے میں کَہا گیا ہے کہ
نصیحت گوش کُن جاناں کہ از جاں دوست تر دانند ؎
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را
خیر اندیش
ضامن جعفری
Aapa, Mashq e sukhan jari rakhiye gaa,
Shukriya
Waiting for the moment when you will share your next sheir!
With due apologies to the people who don't want you to write your next sheir,
asma
Shukriya
Waiting for the moment when you will share your next sheir!
With due apologies to the people who don't want you to write your next sheir,
asma
2012/10/2 Abida Rahmani <abidarahmani@yahoo.com>
شکریہ ضامن کہ اسی بہانے آپ بھی بولے
rehu
"آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے"والسلام
نہیں نہیں عاصمہ صاحبہ لکھیں اور خوب لکھیں ہم ضروربالضرور چاہتے ہیں کہ ہماری سب کی ہر دلعزیز عابدہ کہ ہم جیسا کہ میں نے لکھا ہے اسے آنکھوں سے لگا ئیں مگر آپنے درست لکھا ہے کہ "آپ کے آئندہ "شعر" کا انتظار رہے گا ہمیں بھی ان کے "شعر" کا انتظار ہے۔ آپ کا شکریہ۔ ۔
محترمہ عابدہ صاحبہ
آپ کے اس "شکریہ ضامن" کا مخاطَب زندگی کے پچھتّر سال سے بول رہا ہے اور اس بزم میں بھی نہ کسی بَہانے سے بولا ہے اور نہ پہلی مرتبہ بولا ہے۔ چند روز قبل بھی میں نے ایک غزل قارئینِ بزم کی خدمت میں پیش
کی تھی۔ ترمذی صاحب نے جو کچھ فرمایا تھا اور میں نے جو فارسی کا مشہور شعر درج کِیا تھا اُن دونوں کو پیشِ نظر رکھتے ہُوئے آپ نے جو ایک مصرع تحریر فرمایا ہے وہ قطعاً بے محل ہے کیونکہ آپ کے شعر کے معاملے میں "ٹھیک ہی کہتے ہونگے" کی گنجائش نہیں ہے بلکہ ٹھیک کَہا گیا ہے۔ آپ کے شعر سے صاف عیاں ہے کہ آپ کم از کم فی الحال فنِ شاعری سے بالکل نابلد ہیں۔ شاعری اگر کرنا چاہیں تو ضرور کیجئے لیکن اس فن سے حتیٰ المقدور واقفیت اور اس کا علم بھی حاصل کر لیجئے۔
خیر اندیش
ضامن جعفریے
محترم عابدہ رحمانی صاحبہ پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے ضامن جعفری صاحب کی بات پر صاد کیا اور پھر ضامن جعفری صاحب کی خدمت میں ایک مصرعہ : اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے: ۔ شکریہ بصد خلوص و احترام۔ ایک طالبِ علم۔
بصد خلوص و احترام
معاف کیجئے گا میں نے ضامن صاحب لکھا تھا یا لکھنا چاہا تھا جلدی میں حذف ہوگیا
بہر حال مجھے آپکی بزرگی کا اندازہ ہے اور ظاہر ہے کہ آپ ہم جیسوں کو اس میدان میں کیسے گوارہ کر سکتے ہیں
|
سلام مسنون
اس بحث میں ایک دو باتیں مجھے بھی کہنی ہیں۔عابدہ رحمانی نے کوئی استادی کا دعویٰ نہیں کیا ۔انھوں نے صاف لکھا ہے کہ یہ ان کا پہلا شعر ہے۔ یہ شاعری کے میدان میں پہلا قدم ہے۔کسی بھی میدان میں پہلا قدم لڑکھڑاتے ہوے ہی رکھا جاتا ہے۔ اور اسی لڑکھڑاتے ہوئے پہلے قدم سے ہی ہزاروں میل کا فاصلہ طۓ ہوتا ہے۔یہاں جو کہنہ مشق اور قادرالکلام شعرا ہیں کیا انھوں نے اپنا پہلا شعر تمام تر پختگی اور کمال کے ساتھ کہا تھا؟ کیا ان کے استادوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی یا طنز و استہزا ء کیا جیسا وہ عابدہ رحمانی کے ساتھ کر رہے ہیں؟ عابدہ رحمانی کی اصل لغزش یہ ہے کہ انھوں نے بزم قلم کو ایک خاندان ایک برادری سمجھ کر سادگی کے ساتھ اپنی پہلی کوشش کو سربزم لا رکھا۔ جب کہ یہ ان کی غلط فہمی تھی۔پھر عابدہ رحمانی کے اس ایک شعر سے زبان ،ادب ، معاشرے کا ایسا کونسا نقصان ہو رہا تھا کہ سب یکلخت چوکنا ہو گئے۔اسی بزم قلم سے جب کبھی شاعری اور ادب کے نام پر مخرب اخلاق بات ہوتی ہے تو کیوں ایسی ہی مستعدی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔
نیاز کیش
سید طلحہ
2012/10/2 Amin Tirmizi <meriurdu@yahoo.com>
محترمہ عابدہ صاحبہ معاف کیجئے گا آپ کے نئے جملے میں پھر ایک چبھن ہے "آپ ہم جیسوں کو اس میدان میں کیسے گوارہ کرسکتے ہیں" یہ بھلا کیا بات ہوئی کیوں نہیں گوارہ کرسکتے۔ مگر جیسا میدان ہوتا ہے اسی میدان کا کھلاڑی چاہئے ہوتا ہے۔ہم کرکٹ کے میدان میں گلی ڈنڈے کا کھلاڑی پسند نہیں کرسکتے۔ مگر شاعری کے میدان میں شاعر ہی پسند کیا جائے گا اور میں نے انتہائی احترام سے لکھا ہے کہ جس دن آپ کی تحریر میں مجھے شعر نظر آیا تو میں اسے آنکھوں سے لگاونگا اور آپ کو مبارکباد دونگا۔ اور ہر نئے شاعر سے کہتا ہوں کہ نادان دوستوں سے بچئے وہ آپ کو بیوقوف بناتے ہیں اور مزید مشق سے باز رکھتے ہیں وہی میرا فرمولا مشق۔ مطالع اور مصلح۔۔ میں خود شاعر نہیں ہوں اور کس لئے نہیں ہوں کہ مجھے اچھے شعر کی پرکھ ہے۔ بس وہی پرکھ نہ مجھے خود شاعری کرنے دیتی ہے اور نہ کسی اونگی بونگی تحریر کو شعر ماننے دیتی ہے۔ ایک آخری گستاخی اور کرلوں وہ جو شعر جس کی کچھ نادان دوست نما دشمن تعریف کرکے آپ کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں کسی طرح سے شعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔شاید اس تلخ حقیقت بیان کرنے کے بعد میں اس بزم سے نکالا جاوں لیکن۔۔۔ نشیمن چھوڑنا ممکن ہے لیکن یہ نہیں ممکن ۔۔ خزاں کا دور دیکھوں اور یہ کہدوں بہار آئی۔۔۔۔ اگر آپ نے میری اس بات کو جو حقیقت
کی طرح تلخ ہے برداشت کرلیا تو یار زندہ صحبت باقی۔ ورنہ سلامِ آخر۔
انیسبعد السلامطلحہ صاحب کی راے سے میں متفق ہوں. بقول کسی کے
ہنگامہ ہے کیوں برپا ایک شعر لکھا تھا بسمیں نے گزشتہ ایک بحث پر چند اشعار بال کی کھال کے عنوان سے عرض کِیے تھے. وہ اس گفتگو میں بھی اسی حد تک موزوں ہیں.
ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی تھی
دعاگو
, nasirali syed hangama hai q barpa ak shair jo likha hai
ایک شعر جو لکھا ہے
دل پہ انکے لگا ہے
ایک تیر کی صورت میں
نشتر یہ چھبویا ہے
عابدہ
محترمہ میں نے آپ کے شعر کا نہیں بلکہ شاعری کی کوشش کے آپ کے حق کا دفاع کیا ہے۔
2012/10/3 Abida Rahmani <abida.rahmani7@gmail.com>
بیحد شکریہ انیس صاحب اور طلحہ صاحب کہ اپ میرے معصوم سے شعر کا اتنے خلوص سے دفاع کر رہے ہیں -
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میرے دل میں بھی شاعری کا شوق چٹکیاں لینے لگا۔ بلکہ ایک عدد نظم لکھ ڈالی اور اتفاق سے گھر والوں کی اس پر نظر بھی پڑ گئی ۔ انھوں نے اصرار کرکے مجھ سے سُنی اور واہ واہ بھی کی اور ہم خوش ہوئے۔ چند دن گزرے تو ایک ایم اے اردو دوست کا ایک نظم پر تبصرہ پڑھا۔تمام اشعار کی تشریح و تنقید کے بعد آخر میں ایک جملہ انھوں نے ایسا لکھا کہ میرا سر چکرا گیا۔ انھوں نے کچھ ایسا لکھا تھا کہ یہ نظم فاعلاتن فاعلاتن فاعلات"یا کچھ ایسے ہی الفاظ" کی ترکیب میں لکھی گئی ہے۔ یہ بات میرے سر سے گزر گئی۔ البتہ اتنی بات میری سمجھ میں آگئی کہ کچھ فنی باریکیاں بھی ہوتی ہیں شاعری میں ،جس میں وزن،بحر وغیرہ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور صرف شاعر کا تخیل یا پیغام ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔بس اس کے بعد میں نے اس بھاری پتھر کو چُوم کر چھوڑ دیا۔
اس بزم اور بعض دوسرے گروپوں میں شعراء و شاعرات اکثر اپنی تخلیق کردہ شاعری کے نمونے بغرضِ اصلاح وتبصرہ ارسال کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اشعار مجھے پسند بھی آتے ہیں۔ لیکن میں اس وجہ سے ان کی تعریف نہیں کرتا کہ کچھ دیر بعد ہی کسی اور صاحب کی طرف سے انتہائی نیازمندانہ انداز میں کچھ ایسا تبصرہ آجاتا ہے کہ فلاں شعر کا قافیہ تنگ ہے، وزن برابر نہیں ،بحر میں اضطراب ہے وغیرہ وغیرہ تو ایسی تعریف سے الٹا اپنی نالائقی سرِ عام آشکار ہوجاتی ہے۔
اگر آپ ان اسرارورموز سے بخوبی واقف ہیں تو ضرور اس میدان میں قدم رکھیے۔جیسا کہ ضامن جعفری صاحب نے کہا کہ پانی میں اُترنے سے پہلے فنِ پیراکی سیکھنا ضروری ہے۔ورنہ تمام ماہرینِ فن تو اپنے اپنے فن کی توقیر کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں ۔اسی وجہ سے جعفری صاحب، ترمذی صاحب اور اعجاز صاحب نےپزیرائی نہیں فرمائی۔ اتنا مجھے معلوم ہے کہ آپ کے خیالات بہت عمدہ ہیں اور آپ کی شاعری میں اچھا پیغام ہی پڑھنے کو ملے گا۔ اس لیے ذرا فنی باریکیوں کو دیکھ لیجیے گا۔
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
مخلص
"With due apologies to the people who don't want you to write your next sheir,
asma"
Mohtarama Asma saheba,
To my knowledge, no one said that she should not write her next shay'r. If someone has, please quote the writer in his/her own words. Unless you do this your apology would seem uncalled for.
She is a reasonably good prose writer and, by all means, has every right to try her hand at poetry as well. However, there is no harm intended if and when her well-wishers advise her not to jump into a river without learning the art of swimming first. Unfortunately, there are some people doing just that. They do not realize the damage they may cause to her literary image by ill-advising her simply because of their own possible lack of the required knowledge, personal experience and exposure in the field of poetry.
A Persian poet has beautifully summed up in the following couplet what she and some people are reluctant to comprehend.
نا بردہ رنج گنج میسّر نمی شَوَد
مزد آں گرفت جانِ برادر کہ کار کرد
Without hard labor you do not lay your hands on a treasure. My dear brother, it is only a worker who receives the wages.
Now, this is equally applicable to all fields of life with poetry being no exception and a true well-wisher must always pass on this advice to all novices in all fields irrespective of how those novices or their ill-advisers take it and in whatever colors they wish to paint such a sincere advice. A non-swimmer cannot and ought not to try to appraise and appreciate the intricacies and complexities of art of swimming. If he/she does, the person receiving it must be very careful and always on guard.
To sum it all up in one sentence, trying new venues may not be a bad idea but prepare yourself well for and before every venture.
Regards.
Zamin Jafari
محترمہ عابدہ صاحبہ! آپ نے لکھا ہے کہ
|
Subscribe to:
Posts (Atom)