Tuesday, January 8, 2013

قا ضی حسین احمد ایک دھوپ تھی جو ساتھ گیئ آفتاب کے


قاضی حسین احمد
ایک دھوپ تھی جو ساتھ گیئ آفتاب کے

عابدہ رحمانی

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کاررواں کیلئے

علامہ اقبال نے یہ شعر غالبا قاضی حسین احمد کے لئے لکھا تھا -ایک ہمہ وقت متحرک ، چھا جانیوالی شخصیت آواز میں گھن گرج ، سراپے میں رعب و دبدبہ'اللہ کے دین کا مجاہد اور علمبردار،بے باک ، نڈر ، بے خوف ، دیانت دار، بے داغ اور اجلی شخصیت-- 
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں نوشہرہ کے قریب زیارت کاکا خیل کے قاضی خانوادے کے اس چشم و چراغ نے جب جماعت کی امارت کو  اپنایا تو جماعت اسلامی پاکستان قاضی صاحب کے نام سے ہی چار دانگ عالم میں جانی پہچانی جانے لگی- جماعت والے اور اسکے موسس اعلے سید ابوالاعلیٰ مودودی شخصیت پرستی کے مخالف اور نفی کرتے تھے- لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ اپنے آپکو منوا کر ہی دیتی ہیں اور قاضی صاحب انہی شخصیات میں سے ایک تھے- جماعت کا اپنا ایک تشخص اور شناخت تھی قاضی صاحب نے اسکو چار چاند لگا دئے، لگاتار چار مرتبہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے اس پر تو میں نے بھی کہا کہ اب قاضی صاحب کو امارت سے دستبردار ہونا چاہئے- 

ابھی پچھلے ہفتے تو پر وفیسر غفور احمد کا انتقال ہوا تھا- قاضی صاحب اپنے بھائی کے جنازے کو کندھا دے رہے ہیں انکے لئے دعا گو ہیں ،  انسے جنت الفردوس میں ملنے کی دعا کرتے ہیں اور یہ دعا اس قدر جلدی قبول ہوگئی-- کون سوچ سکتا تھا کیاا تنی لگن و محبت تھی- مرحوم پروفیسر صاحب کے لئے الفلاح مسجد اوکول کینڈا میں تعزیتی اجلاس میں شریک ہوئ تھی سوچا تھا اسکے متعلق کچھ اظہار خیال کرونگی معروف عربی سکالر زاہد ابی غدہ نے دعا کی تھی - پروفیسر صاحب کے ایک شاگرد  نے اظہار خیال کیا  اس وعدے کے ساتھ کہ ایک اور باقاعدہ تعزیت انکے صاحبزادے کی پاکستان سے واپسی کے بعد ہوگی- اب ان دونوں کے تعزیتی اجلاس ساتھ ہو رہے ہیں-

 قاضی صاحب پچھلے کچھ عرصے سے میرے ساتھ فیس بک پر تھے( اب جو بھی یہ صفحہ انکے نام سے چلاتاہے؟) لیکن میرے پاس تحاریر قاضی حسین احمد صاحب کے نام سے آتی ہیں - پروفیسر غفور صاحب کے جنازے کو کاندھا دے رہے ہیں ، چارسدہ میں الخدمت کے دو کارکنوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں یہ بس کل ہی کی بات ہے ابھی تو اخبارا ت نے اپنی شہ سرخیاں بھی نہیں بدلیں-
کہ آنا فانا وہ خود آللہ تبارک و تعالئ کے حضور چلے گۓ-یہی اس زندگی کا انجام ہے اس لمحے کے لئے ہر انسان اور بالخصوص ایک مومن کو تیا ر رہنا چاہئے - اسلئے کہ یہ لمحہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے-
پرانی بات ہے، ایک مرتبہ میں لاہور گئی تھی میرا بھائی خالد کہنے لگا یہاں منصورہ میں میرے ایک دوست قاضی صاحب رہتے ہیں چلئے آپکو انکے ہاں ملانے لے جاتے ہیں، ہم گئے تو قاضی صاحب کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی بہت تپاک سے ملی کہنے لگی بابا لائبریری میں ہیں چھوٹا بیٹا لقمان بھی تھا- بات چیت ہونے لگی میں نے اچانک انکی بیگم سے پوچھا یہ قاضی کا پورا نام کیا ہے؟ "قاضی حسین احمد"
انہوں نے جواب دیا اسپر میں نے دوبارہ کہا لیکن وہ  آجکل جو جماعت کے سکرٹری جنرل ہیں انکا بھی تو یہی نام ہے " کہنے لگی وہی تو ہیں - اور یہ ایک دلچسپ خوشگوار حیرت ناک بات تھی ، مجھے اسوقت تک یہ ہرگز معلوم نہیں تھا کہ قاضی صاحب پٹھان بھی ہیں - پھر میں نے بھائی کی خبر لی کہ اسنے مجھے تفصیلات کیوں نہ بتائیں؟،یہ منصورہ کا ایک چھوٹا سا دو بیڈ روم کا مکان تھا -قاضی صاحب کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا یونیورسٹی ٹاؤن پشاور اور غالبا اسلام آباد میں انکے شاندار بڑے بڑے مکانات تھے - قاضی صاحب سرحد چیمبرز آف کامرس کے نائب صدر رہ چکے تھے لیکن سکرٹری جنرل بننے کے بعد اور امارت کے 8 سال انہوں نے اسی دو کمرے کے  مکان میں گزار دئے انکی بیگم اور بیٹیاں گھر کے تمام کام کاج اپنے ہاتھ سے انجام دیتیں تھیں سادہ سا گھر صرف ضروری اشیاء سے مزین، میرا چھوٹا بیٹا ساتھ تھا اسنے لقمان سے پوچھا کہ وہ آجکل کونسے کارٹون ں دیکھتا ہے جسپر انکی بیگم نے کہا کہ بیٹا ہمارے ہاں ٹی وی نہیں ہے - مجھے یاد ہے کہ انہوں نے جلدی جلدی ہمارے لئے چائے کے ساتھ بڑے لذیز گرم گرم پکوڑے تلے-بھائی سے تو انکے تعلقات کی نوعیت یہ تھی کہ جب قاضی صاحب جماعت اسلامی سرحد کے امیر تھے ، خالد اسوقت پشاور انجینیرنگ کالج میں جمیعت کا ناظم تھا - بھٹو کا زمانہ تھا کیمپس میں سیاسی افراد کے داخلے پر پابندی تھی لیکن قاضی صاحب خالد کے مہمان کے طور پر پشاور یونیورسٹی میں داخل ہوتے تھے - اس بات کا ذکر وہ اکثر کافی فخر اور تشکر سے کرتے تھے-
 جب میں جماعت کے ذرا زیادہ قریب آئی اسوقت قاضی صاحب کی امارت تھی قاضی صاحب سے خط و کتابت ہوئی میں نے انکے خطوط کو کافی سنبھال کر رکھا تھا فون پر بھی باتیں ہوئیں لیکن بالمشافہ ملاقات کبھی نہ ہوسکی - انکے ساتھ لانگ مارچ کئے ، ملین مارچ کئے،مظاہرے کئے، دھرنے دئے اجتماعات اور جلسون میں شرکت کی وہ اور دیگر زعماء ہمارے کافی قریب ہوتے تھے، ہمارے جماعتی بھائی اپنی بہنوں کی حفاظت پر مستعد ہوتے تھے - پاکستان میں نظم و ضبط سیکھنا ہو تو جماعت اسلامی سے سیکھنا چاہئے--شمالی امریکہ کی اثنا  اسلامک سوسائیٹی آف نارتھ امریکہ ، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ اکنا انہی کا پرتو ہیں- انکی تقاریر کی گھن گرج ابھی بھی کانوں میں گونج رہی ہے بے حد شستہ زبان بولتے تھے لیکن پشتو لب ولہجہ غماز ہوتا تھا جماعت کو مقبول عام کرنیکے لئے وہ مسلسل نئی نئی تجاویز اور محرکات کو سامنے لاتے تھے 
اگر یہ کہا جائے کہ صوبہ سرحد یا خیبر پختونخواہ میں جماعت کی تحریک کو آگے بڑھانے میں قا ضی صاحب کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے تو بیجا نہ ہوگا- اگرچہ ان کوششوں کو بعد میں تحریک طالبان اور لال مسجد کے افسوسناک واقعے سے بہت دھچکا لگا - قاضی صاحب جب کسی حکومت کی مخالفت میں ڈٹ جاتے تو یقین ہوتا تھا کہ یہ اب جانے ہی والی ہے-  پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے انکے اچھے مراسم تھے لیکن انکی غلطیوں پر انکا کڑا احتساب کرتے تھے - زرداری صاحب جب بد عنوانیوں کے مقدمے میں جیل میں تھے تو قاضی صاحب انہیں تفہیم القرآن اور دیگر کتابوں کا سیٹ دے آئے جو بقول زرداری اسنے پڑہیں اور اس سے بہت کچھ سیکھا-واللہ اعلم، عمران خان اپنے اسلام فہمی کا ذمہ دار قاضی صاحب کو ٹھیراتے ہیں باقی تمام سیاست دانوں سے اگرچہ انکے مراسم تھے لیکں انکی غلطیوں پر ببانگ دہل نکتہ چینی اور اعتراض کرتے تھے - پنجاب یونیورسٹی میں جب جمیعت کے اہل کاروں نے عمران خان کے ساتھ بد تمیزی کی تو اس رنج میں انکی طبیعت خراب ہوگئی - عمران کو گلے لگا کر ان سب کی طرف سے معذرت کی- نواز شریف کے گھرانے سے خصوصی تعلقات تھے- ابھی حال میں ہی بشیر بلور کی تعزیت کی اسطرح اے این پی سے بھی اپنے تعلقات نبھاتے تھے -انسے اکثر یہ سوال ہوتا تھا کہ وہ اسلامی جماعتوں کے اتحاد پر زور کیوں نہیں دیتے - انہوں نے جب متحدہ مجلس عمل بنائی تو شاہ احمد نورانی کو اسکا صدر بنایا تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ یہ  جماعت کی سرپرستی میں ایک جماعت ہے-
 دینا کی تمام جہادی تنظیموں سے انکا رابطہ تھا  بلکہ انکے پشت پناہ تھے افغانستان ، کشمیر، بوسنیا ، چیچنیا ، فلسطین ، عراق ،برما ، فلپائن ، تھائ لینڈ ، مسلمانوں اور   عالم اسلام کے ہر دکھ اور المئے پر  ہر ایک کے لئے اواز اٹھانے والے انکے دکھ درد میں شریک اور انکی پشت پناہی کرنیوالے ، قاضی صاحب دو مرتبہ دل کی بائی پاس سرجری کروا چکے تھے - چاہے ترکی ہو ، افغانستان ہو ، فلسطین ہو، مصر ہو یا دیگر اسلامی ممالک انکے آپس کے معاملات طے کرنیکیلئے اکثر انکو مصالحتی مشن پر جانا پڑتا  تھا -  گلبدین حکمتیار کے متعلق نہ جانے کیسے یہ غلط مشہور ہوگیا کہ وہ انکے داماد ہیں ؟ اسکی وجہ غالبا یہ تھی کہ جہاد افغانستان میں حد درجہ عمل دخل اور  اثر تھا جہاد کشمیر کے لئے جماعت اسلامی پاکستان نے حد درجہ قربانیاں دیں
اخوان المسلمین کی مصر میں کامیابی پر بے حد خوش تھے -  طیب اردگان ، نجم الدین اربکان عرب و عجم کے تمام مسلم لیڈران سے انکے تعلقات اور روابط تھے- حماس کے رہنما خالد مشعل کے متعلق یہ مشہور ہے کہ انکے والد نے انہیں قاضی صاحب کی خدمت میں تربیت کے لئے بھیجا - ایک اسلامی روشن خیال رہنما تھے انکے بچوں نے اعلے تعلیم حاصل کی بڑی بیٹی راحیل کو حال ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی - وہ قومی اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں وہ خود  ایک طویل عرصے تک سینیٹر اور دو  مرتبہ ممبر قومی اسمبلی رہ چکے تھے -پاکستان اکے حالیہ واقعات پر از حد ملول اور رنجیدہ رہتے تھے- جب انہوں نے جماعت کو مزید متحرک کرنیکے لئے نیشنل سالیڈیریٹی فرنٹ بنایا اسوقت جماعت اسلامی کا ایک گروہ جو جدیدیت کو اپنانے کے خلاف تھا علیحدہ ہوگیا - ہمارے لئے یہ ایک کافی کڑا اور پر آزمائش وقت تھا کتنی ہی اچھی اور بے لوث ساتھی اس دھڑے کے ساتھ مل گیئں- لیکن قاضی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ انہوں نے یہ قدم جماعت کی بہتری کے لئے اٹھایا ہے اس طرح انہوں دیگر تجربات کئے - پاسبان بنائی ، شباب ملی بنائی وہ چاہتے تھے کہ وہ نوجوان وہ صالح عنصر جو تھوڑے بہت بھی دین کے قریب ہوں وہ تحریک کا حصہ بن جائیں انکی یہ کاوشیں کس حد تک کامیاب ہوئیں اسکے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بہت حد تک ایک عام پاکستانی ذہن دین کو سمجھنے ضرور لگا ہے-
ایک مرد حق و صادق اپنے رب کے حضور جا چکا ہے اللہ تبارک و تعالی انکی خدمات کو قبول فرمائے اور انکی کوتاہیوں کو معاف کرے -
-- 

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی


7 comments:

  1. س میں کوئی شک نہیں کہ قاضی صاحب جوش و جذبے سے بھرپور ایک انتہائی متحرک شخصیت تھے
    قطر میں کئی بار ان کی آمد ہوئی اور ان کو سننے کا موقع ملا
    آج ہی یہاں کی مرکزی مسجد عمر بن خطاب میں عشاء کی نماز کے بعد معروف عالم دین علامہ یوسف القرضاوی نے ان کا غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھایا
    اور کافی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی
    نماز سے پہلے قرضاوی صاحب نے قاضی صاحب کی خدمات پر روشنی بھی ڈالی
    "aapka Mukhlis"

    ReplyDelete
  2. asaf jilani
    محترمہ عابدہ رحمانی صاحبہ۔ سلام۔ قاضی صاحب کے بارے میں آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے واقعی ان کی دلاویز اور پر کشش شخصیت اجاگر ہو گی ہے۔لند ن میں ان سے کَی بار ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا ہے اور لا تعداد مرتبہ ان سے بی بی سی کے لیے ٹیلی فون پر انٹرویو کرنے کا موقع ملا ہے ۔ ان کی شفقت بے تکلفی اور دلیری سے اپنے موقف کو پیش کرنے کے انداز سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں ۔ وہ واقعی اپنی بلند نگہی اور اپنے دل نواز سخن کے ساتھ ایک ہیرا انسان تھے جو آجکل خال خال ہی نظر آتے ییں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے جوار رءمت میں ان کے درجات بلند کرے اور ان سب کو صبر جمیل عطا کرے جو قاضی صاحب سے جدای میں غمزدہ ہیں۔ آمین۔ آصف

    ReplyDelete
  3. وعلیکم السلام
    آصف جیلانی صاحب
    جزاک اللہ خیر اپکی مخلصانہ دعاؤں کیلئے

    ReplyDelete
  4. Buhat khoob Abida baji aapki yeh tehreer to shayad ham buhat saroon ki dil ki awaz hey ... Allah taala Qazi sahab key haq main is shahdat ko qubool karey aur on ko buland moqam ata karey ... hamain is dunya main onka naim ul badal ata farkaye or in key mission ko aagey barhaney ki taufiq dey Ameen

    "Humaira Ahmed"

    ReplyDelete
  5. کچھ عرصہ قبل میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں
    اقبال اور فیض کو اردو ادب کے دو عظیم ترین شاعر قرار دیا تھا۔
    میرے اس مضمون نے بہت سے ادب دوستوں کی پیشانیوں پر شکنیں ڈال دیں تھیں۔
    میں نے اقبال اور فیض کو عظیم ترین شاعر ان کی شاعری میں
    مقصدیت اور پیغام کو
    قرار دیا تھا۔
    آج جیو پر جیو کے ساتھ ایک دن میں قاضی حسین احمد کا سہیل وڑائچ صاحب کے ساتھ انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
    سہیل وڑائچ صاحب نے قاضی صاحب سے ان کے پسندیدہ شاعروں کے بارے میں پوچھا تو
    قاضی صاحب نے اقبال اور فیض کا نام لیا۔
    قاضی صاحب کی اقبال کی پسندیدگی تو قابل فہم تھی لیکن سہیل وڑائچ نے ان کے فیض کو پسند کرنے پر اظہار تعجب کیا تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ فیض
    کو پسند کرنے کی وجہ ان کا تبدیلی کی خواہش اور پیغام ہے ۔
    پھر قاضی صاحب نے فیض کی نظم صبح آزادی کے یہ شعر پڑھے۔
    ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
    نجات دیدہ و دل کی گڑی نہیں آئی
    چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔
    قاضی صاحب فیض صاحب کے یہ شعر پڑھ رہے تھے تو پروگرام کے ہوسٹ سہیل وڑائچ کے ساتھ مجھ پر بھی
    حیرانی طاری تھی۔
    حیرانی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ قاضی صاحب فیض کو اپنا پسندیدہ شاعر قرار دے رہے تھے۔ بلکہ حیرانی
    کی وجہ یہ تھی کہ
    فیض صاحب کی شاعرانہ عظمت اب ان کے نظریاتی مخالفین کے لئے بھی انسپائریشن
    کا سبب بن رہی ہے۔ یہی حال اقبال کا بھی ہے۔ اقبال کی شاعری بھی بلا نظریاتی امتیاز
    سب مجلسوں میں پڑھی جاتی اور بطور حوالہ پیش کی جاتی ہے۔
    نیازمند
    کے اشرف

    ReplyDelete
  6. پ صحیح فرما رہے ہیں
    قاضی صاحب کافی روشن خیال معتدل ذہن کے مالک انسان تھے- اور فیض کی شاعری بھی باکمال ہے - یوں آپ بھی کافی اچھی شاعری کرتے ہیں-

    ReplyDelete

  7. شکریہ عابدہ جی۔
    قاٗضی صاحب واقعی لاجواب انسان تھے۔
    وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی گفتگو سننا اچھا لگتا تھا۔
    کے اشرف

    ReplyDelete