Wednesday, January 15, 2025

Caribbean Cruise, سمندر کی تفریح

 Exploring The Caribbean shores with Norwegian cruise!


سمندر کی تفریحی سیا حت( Cruising on the sea)

از


عابدہ رحمانی


جب سے بحری جہاز رانی سے سفر کا رواج ختم ہوا ہے ، جہاز راں کمپنیوں نے نئی تجاویز نکال لی اور بحری جہازوں کو تفریحی دوروں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔۔کئی ناموں سے یہ کروز دنیا بھر میں سمندر کے مختلف خطوں کی طرف لے جاتے ہیں اور قریبی ساحلی شہروں میں اتارتے ہیں جہاں پر مزید اخراجات کر کے اس شہر کے تفریحی دلچسپ و دلفریب پروگرام منتظر ہوتے ہیں ۔ 

میں چند سہیلیوں کے ہمراہ پچھلے سال نارویجین کروز ( Norwegian cruise ) پر الاسکا گئی تھی اور آج اسی کمپنی کے ساتھ کریبئن کروز ( CaribbeanCruise ) کر کے واپس پہنچی ہوں ۔ تھکن سے چور ہوں لیکن سوچا کچھ یاد داشتیں قلمبند کردوں ۔۔

یہ جہاز سمندر کے سینے پر چلتے پھرتے ایک بہت بڑے رہائشی کمپلیکس کی صورت میں ہیں ۔۔ پچھلا جہاز بھی سترہ منزلہ تھا لیکن اسکی لمبائی چوڑائی قدرے کم تھی ۔ 

ہمارا یہ جہاز جسکا نام ( Epic) یعنی عظیم الشان تھا واقعی ایپک تھا ۔۔ ان دونوں جہازوں کا اندرونی نقشہ، طریقہ کار اور ڈیزائن ملتے جلتے تھے ۔۔  اسلئے پچھلے سفر کے تجربے کی روشنی میں کافی آسانی ہو گئی تھی کہ کونسی منزل میں کیا ہے پھربھی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جا بجا تفصیلی بورڈ لگے ہوئے ہیں ۔۔

یہ سترہ منزلہ جہاز ہر قسم کی سہولت سے آراستہ ہیں اندرونی طور پر معتدل درجہ حرارت ، کمرے یا کیبن ہوٹل کے طرز پر لیکن قدرے چھوٹے ، ان میں گرم ، ٹھنڈے درجہ حرارت کے لئے تھرمو سٹیٹ ، غسلخانے ،بیت الخلا ،الماریاں ، لاکر ، چھوٹا فرج ،فون کی سہولت موجود، صفائی کرنے والے حاضر ہوتے ہیں باہر بورڈ سیٹ کرکے روز کمرہ درست کروائیں یا نہ کروائیں۔۔ ہمارے کیبن کے ساتھ بالکنی تھی جہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی اس بے پایاں قدرت کے مظہر سمندرکا نظارہ خوب کیا۔ 

یہاں پر ہر جانب ایلیویٹرز ( Elevators) لگے ہوئے ہیں ، سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور کہیں کہیں خودکار سیڑھیاں بھی ہیں ۔۔ایلیویٹرز یا لفٹ پر بسا اوقات ایک اژدھام کی کیفیت ہو جاتی ۔بیچوں بیچ ایک خود کار وہیل چیئر ضرور آجاتی ۔ ایک بڑی تعداد معذوروں اور ضعیفوں کی تھی ۔ دو دس گیارہ سال کے معذور بچوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔۔کافی لوگ خوب لحیم شحیم تھے اور یہاں کے کھانوں سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے ۔۔

کہیں پر آرٹ کے فن پاروں کی نمائش اور فروخت تھی ، تو آگے فوٹو گرافر کھڑے یاد گار تصاویر اور پورٹریٹ بنا رہے تھے جہاں پر اکثر جوڑے اپنی تصویر بنا رہے تھے۔۔وہیں پر زیورات کی دکان میں ریفل ٹکٹ پر قرعہ اندازیاں ہو رہی تھیں اور انعامات نکل رہے تھے ۔۔میری سہیلی اور کمرے کی ساتھی کو اسی طرح قرعہ اندازی میں انعام ملا۔۔اسی طرح اور کئی دکانوں پر مختلف سیل جاری تھے ۔۔

الاسکا ہم بحر الکاہل سے گئے تھے جبکہ اب بحر اوقیانوس میں سفر کر رہے تھے ، کچھ وقت کے لئے بحیرہ کیریبین میں بھی سفر کیا ۔۔۔

ہمارے اس جہاز میں ساڑھے چار ہزار مسافر اور ایک ہزار ملازمین تھے ۔۔ہم سات مسلمان اور پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی خواتین تھیں ، ایک صومالی مسلمان جوڑے کو دو چھوٹے بچوں کے ہمراہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اسکے علاوہ خریداری کے مرکز یا شاپنگ مال میں کئی بھارتی مسلمان لڑکوں کو اچھے عہدوں پر کام کرتے دیکھ کر بہت اچھا لگا ۔۔جنرل منیجر عامر ،میرے بڑے بیٹے کا ہم نام ،اسکا تعلق سلوواکیا سے تھا۔ سارے سٹاف کا تعارف جا بجا لگے سکرینوں پر آتا رہتا تھا۔ ملازمین میں ایک بڑی تعداد فلپائنی ، دوسرے انڈین اور تیسرے انڈونیشیا کے تھے دیگر ممالک کے لوگ بھی نظر آئے لیکن کوئی پاکستانی دکھائی نہیں دیا۔۔ان سب کو ایجنسیاں براہ راست انکے ممالک سے منتخب کرتی ہیں ۔حیرت ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں کا اس طرف دھیان نہیں ہے یا آپس کی افرا تفری میں مصروف ہیں ۔۔

یہ کروز بنیادی طور پر خورد و نوش اور جوئے کے مراکز ہیں ۔۔ سمندر میں جوئے پر کوئی پابندی نہیں ہے اسلئے جہاز کی چھٹی منزل پر بہت بڑا جوا خانہ ہے جہاں پر جوئے کے شوقین مصروف ہوتے ہیں ۔ اورلینڈو ائر پورٹ پر ایک جوڑا ساتھ بیٹھا تھا ۔باتوں باتوں میں خاتون نے بتایا کہ وہ کارنیوال کروز پر جارہے ہیں اور یہ اسکے شوہر نے جوئے میں جیتا ہے ۔۔۔

یہاں پر چینی، جاپانی، اطالوی ( Italian) ، فرانسیسی اور دیگر کھانوں کے ریسٹورنٹس ہیں جو ہمارے پیکج یعنی کرائے کے معاہدے میں شامل ہوتے ہیں ۔ ایک بہت بڑا بوفے ، انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ Garden Cafe کے نام سے ہے جو ناشتے ، کھانے کیلئے ہمارا منتظر ہوتا ہے ۔۔یہاں بھانت بھانت کے کھانے ، روٹیاں ،پیزا،سلاد ، سبزی خوروں کے لئے مختلف سبزیاں ، دال ، مچھلی ، کئی قسم کے میٹھے، شربت  اور آئس کریم میسر ہوتے ہیں ۔۔ یہاں پر دنبے کا گوشت حلال ملتاہے یہ گوشت نیوزی لینڈ کی طرف سے ساری دنیا میں حلال مہیا کیا جاتاہے ۔ لیکن اس مرتبہ معلوم ہواکہ مرغی کا گوشت بھی حلال ہے ۔۔ چاروں طرف مستعد بیروں کی ایک فوج پلیٹیں اٹھانے میں مصروف ہوتی ہے صاف ستھرے کپڑے کے سفید دھاری دارنپکن کے اندر کانٹا اور چھری لپٹا ہوا ہر میز پر موجود ہوتے ہیں ۔ بیشتر لوگ کھانے کے ضیاع کو شاید برا نہیں سمجھتے ، پلیٹیں بھر بھرکر لیتے ہیں ، تھوڑا کھاتے ہیں ، زیادہ پھینکتے ہیں ۔۔ اس بچے ہوئے کھانے کو ایک مشین میں باریک پیس کر سمندر میں ڈالدیا جاتاہے ۔

شراب پانی کی طرح مل رہی ہے ۔۔ہر طرف عوام نے مختلف الکحل والے مشروبات کے جام پکڑے ہوتے تھے اور انکو بیرے بھی بنا کر دیتے تھے ۔۔ یہ بکتی ہے لیکن غالبا خشکی کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے ۔۔کچھ شوقین اس کا پیکج پہلے سے خرید لیتے ہیں  ۔۔۔۔


الاسکن کروز ( Alaskan cruise) میں موسم ٹھنڈا تھا اسلئے مغربی عوام جامے میں تھے اور صرف جام ونوش اور جوئے میں مصروف تھے ۔۔۔۔ لیکن اس مرتبہ کریبئین میں گرم موسم کی وجہ سے خلقت جامے سے تقریبا باہر تھی ۔ مردوں کے جسموں پر ٹیٹو کی عجیب و غریب خوفناک چھاپیں تھیں ، جبکہ خواتین نیم تو نہیں  تہائی عریاں تھیں اور اوپر کے عرشے پر پول اور جکوزی سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ لمبی کرسیوں پر دراز غسل آفتابی لے رہے تھے۔۔ ہاں یہ بات قابل تعریف ہے کہ جو کوئی جو کچھ کر رہا ہے کسی کو اس سے کوئی مطلب نہیں ، نہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ آوازہ کسنا۔۔ شاید یہی ترقی یافتہ ہونے کی نشانی ہو ۔۔

ہمارے جہاز کو ساحل پر چار مقامات پر رکنا تھا لیکن تین پر رکا ۔۔پورٹو پلاٹا ، ڈومینیکن ،سینٹ تھامس یو ایس ورجن آئی لینڈ ، ٹار ٹولا بر ٹش ورجن آئی لینڈ اور بہاماس ۔۔لیکن وہ موسم کی خرابی کی وجہ سے بہاماس میں نہیں رکا اور واپس اور لینڈو آگیا۔۔پورٹوپلاٹا پر ایک بس پر ہم شہر کا چکر لگایا بعد میں وہ ہمیں دوکانوں میں لے گئے ، جہاں آئس کریم کھائی اور کچھ خریداری کی ، معلوم ہوا کہ کولمبس پہلے یہیں آیا تھا۔۔۔ سخت گرمی اور حبس تھا لیکن بس ائر کنڈیشنڈ تھی ۔۔سینٹ تھامس میں ہم نے کیبل کار کی سیر کی اور شہر کا نظارہ کیا ، جبکہ ٹار ٹولا میں ایک لانچ اور بس سے سیر کی ۔ میں اس کشتی میں سامنے کے جانب تھی کہ اچانک موسم خراب ہوا، تیز بارش اور اونچی لہر سے میرے کپڑے بالکل بھیگ گئے اور مشکل سے پیچھے کی طرف آئے ۔۔ پھر ہم نے ایک کھلی بس میں اس شہر یا قصبے کادورہ کیا۔ بے انتہا سبزہ ، جا بجا ناریل اور آم کے درخت دکھائی دیے  اور ہر طرف مرغیاں پھرتی ہوئی نظر آئیں ۔۔ یہاں کے گھر اور عمارات کی طرز تعمیرپاکستان جیسی لگی ۔۔

الحمد للہ یہ  آٹھ روزہ سفر  خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔۔۔۔