Tuesday, May 27, 2025

وہ دس سیکنڈ

وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-
 عابدہ رحمانی

پاکستان اور اہل پاکستان آ ج یوم تکبیر منا رہے ہیں ۔ ٢٨ مئ ١٩٩٨ کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے آپ کو اسلامی ایٹمی قوت کے طور پر منوا لیا تھا۔۔ وقت کا پہیہ بہت تیزی ے گھوم گیا  ایٹمی دھماکوں کا سہرە باندھنے والے میاں نواز شریف اسوقت پھر بر سر اقتدار ہیں  ۔۔یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن پاکستان میں بھی یقینا ایسا قانون لاگو ہونا چاہیۓ کہ اقتدار کا دورانیہ زیادە ے زیادە دو مرتبہ تک محدود کر دیا جاۓ۔ جیسے کہ امریکہ میں ہے تاکہ نئی قیادت اور رہنماؤں کو آزمایا جائے۔۔الله کرے کہ میاں  صاحب اقتدار کی مدت بحسن و خوبی پوری کریں اور پاکستان کے لیۓ ایک خوش آئند اور نیک فال ثابت ہوں۔
پاکستانی ایٹمی قوت کے باواآدم بجا طور پر ذوالفقار علی بھٹو ہیں  جنہوں نے پاکستان کی حفاظت ایٹمی قوت بننے میں ہی جانی اور کہا،"ہم گھاس کھا لینگے لیکن ایٹم بم ضرور بنائینگے "اس لیۓ اب ہمیں گلہ نہیں کرنا چاہیۓ کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہمار ے گونا گوں معاشی ، اقتصادی اور سب بڑھ کر توانائی کے مسائیل  کیوں ہیں- اسکے بعدبھٹو صاحب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے دریافت کرکے لاۓ اور باقی ایک زندە تاریخ ہے۔۔۔۔
 And rest is history

28 مئی 1998 کا دن پاکستانی قوم کی زندگی میں بہت اہمئیت کا حامل ہے کیونکہ آج پاکستان نے ایک طویل جد و جھد اور قربانیوں کے بعد اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا سے منوالیا -اس دھماکے کے بعد جہاں پاکستا نیوں کا سر فخر سے بلند ہوا وہاں انکو مزید بندشوں اور قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت بن سکا ہےاور ابتک واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت سے مالا مال ہے۔ اس سے پہلے عراق نے کوشش کی تھی لیکن اسکا ایٹمی ری ایکٹر اسرائیل نے فضا ئی حملہ کرکے منٹوں میں تباہ کردیا- اس دہماکےاور ایٹمی طاقت بننے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے دائمی حریف بھارت کی جارحیت میں کچھ کمی آگئی ہےاور اب وہ ہم سے دوستی کا خواہاں ہے -کیونکہ اگر مد مقابل برابر کا ہو تو ہوش ٹھکانے رہتے ہیں-حالانکہ باقی دراندازیان اور چالیں جاری ہیں- 

ایران اس صف میں شامل ہونے کی کوشش میں ہے دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے-آیٹمی طاقت ہونا جہاں ایک ملک اور قوم کی طاقت اور مضبوطی کی علامت ہے وہاں اس کرہ ارض، ہماری دنیا اور انسانیت کی تباھی و بربادی کے لئے ایک مہلک ترین ہتھیارہے- شائد کرہ ارض پر قیامت اسی ایٹمی تباہ کاری کے نتیجے میں آئے اور پورے کرہ ارض کو نیست و نابود کر کے رکھ دے- انسان نے اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کر رکھاہے -اب ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ اسرافیل صور لئے ہوئے تیار کھڑا ہے اور نمعلوم کب نفخالاولیٰ کا وقت آجائے-اور اسکے بعد ہی محشر بپا ہو-

چند برس پہلے امریکی ریاست نیو میکسیکومیں البقرقی کے مقام پر کرک لینڈ ایرفورس بیس میں ایٹمی عجائب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا-یھاں ان ایٹم بموں کے ماڈل دیکھے جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے-ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے متعلق ایک فلم بھی دیکھی " وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا"

پولینڈ کی مادام کیوری وہ پہلی سائنسدان تھی جنہوں نے ریڈئم کو سرطان کے علاج کے لئے استعمال کیا -انکے بعد انکی بیٹی بھی اس شعبے میں آیئں اس پر مزید تحقیق ہوتی رہی- دوسری جنگ عظیم کے دوران یورینئم کی افزودگی پر کام ہوتا رہا -یورو پین اور جرمن سائنسدان ہٹلر اور مسولینی سے عاجز آکر امریکہ روانہ ہوگئے، ان میں مشہور سائنسدان البرٹ آئین سٹائن شامل تھے یوں 1938 اور 39 میں امریکہ سائنسدانوں کا مرکز بن گیا-البرٹ آئن سٹائن پہلے تو حکومت امریکہ کے لئے ایٹمی تحقیق کرنے سے انکار کیا- اسکے نتیجے میں امریکی صدر روزویلٹ نے انہیں قید کیا، بعد ازاں وہ راضی ہوئے اور یون تحقیقی کام شروع ہوا- انکے ساتھ کولمبیا یونیورسٹی کے نوبل یافتہ کیمیا دان اور مشہور سائنسدان شامل تھے - ان پناہ گزیں سائنسدانوں کے اشتراک سے میں ہٹن پروجیکٹ کا آغاز ہوا-

-

16 جولائی 1945 کو امریکہ نے لاس الاموس ، نیو میکسیکو میں پہلا ایٹمی دھماکہ ٹرینیٹی کے نام سے کیاجب تجرباتی طور پر پہلی مرتبہ ایٹم بم کا دہماکہ ہواتو بے انتہا خوشیاں منائی گئیں-اسطرح دنیا ایک نئے ایٹمی عھد سے روشناس ہوئی اور امریکہ کو دنیا میں بالادستی حاصل ہوئی-

اس دہماکے کے بعد امریکہ نے اپنےپہلے دو ایٹم بم بنائے ان کے نام 

little boy ,Fat man

تھے- اگرچہ امریکہ ایٹمی قوت بن چکا تھا اور دنیا کو اسکی مہلک تباہ کاریوں کا اندازہ بھی تھا لیکن پھر بھی کوئی قوم ذہنی طور یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نھیں تھی کہ یہ گھناؤنا تجربہ اسکے اوپر اسے آزمایا جائے گا-

دوسری جنگ عظیم آخری مراحل میں تھی کہ امریکہ اسپر بضد ہو گیا کہ وہ پرل ہاربرکے حملے کا بدلہ لے کر جاپان کو مزا چکانا چاہتا ہے-اسوقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپان پر ایٹم بم بنانے کی دستاویز پر دستخط کر دئے دو بی -29 بمبار جنکے نام اینولائے گے اور بوک اسکار تھے ایٹم بموں کو لے کر جاپان کی طرف روانہ ہوئےاسوقت امریکہ کے سپہ سالارجنرل آئزن ہاور تھے-

16 اگست 1945 کی بد قسمت صبح تھی امریکہ میں صبح کی چہل پہل تھی سان ڈیئاگومیں ایک مرین ڈویژن جاپان پر قبضے کی تیاری کر رہاتھا- اینولائے گے کے پہونچنے سے کچھ دیر قبل تین بمبار طیاروں نے ہیروشیما پر ہلکی بمباری کیان جہازوں کے جانے کے بعد آل کلئر کا سائرن بج رہا تھا اینولا گے صبح آٹھ بج کر گیارہ منٹ پر اپنے مقررہ ہدف پر پہونچا، ھواباز نے فیٹ مین کو گرانے کا لیور دبایا- فیٹ مین کو ہیروشیما کی زمین تک پھنچنے میں 43 سیکنڈ لگے، 15 سیکنڈ میں جھاز وہاں سے بحفاظت نکل گیا-بم کے پھٹنے میں دس سیکنڈ لگے-ان دس سیکنڈ میں اتنی بڑی تباہی ہوئی کہ دو لاکھ پچاس ہزار افراد کی آبادی کا یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا، ہیرو شیما کا 67 فیصد حصہ بالکل تباہ ہوگیا-دوسرا بم لٹل بوائے جسے بوک سکار لے کر ناگاساکی گیا تھا اس نے نسبتا کم تباہی مچائی اس کم درجے کی تباھی میں 39 ہزار افراد ہلاک اور 25 ہزار زخمی ہوئے-اس ایٹمی بمباری کے اثرات اتنے شدید تھے کہ چار ہزارمیٹر کے نصف قطرتک لوگوں کے کپڑے جلنے شروع ہوگئے اور ایک ہزار میٹر کے نصف قطر کے لوگوں کے جسم جل کر خاکستر ہوگئے، شھر میں تمام مکانات یا تو جل گئے یا مٹی کا ڈھیربن گئے، دہماکےکی شدت سے لوگ بیس فٹ دور جا گرے-

بمباری کے مرکز سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر موجود لوگ ایک گھنٹے کے اندر ہلاک ہوگئے، تجوریوں میں بند نوٹ اور کاغزات خاکستر ہو گئے- سکول کے بچوں کے ناشتہ دانوں میں کھانا سیاہ اور انکی پانی کی بوتلیں پگھل گئیں-دریاۓ توبسو کے کنارے ہزاروں لوگ پانی پیتے ہوۓ ہلاک ہوۓ - حد درجہ بلند درجہ حرارت سے بچ جانے والوں کو سردی نے آگھیرا اور سخت سردی سے ٹھٹھر گئے -شہر کے شمال مغرب میں کالی بارش ہوئی اس بارش سے تمام آبی جانور ہلاک ہوۓ تابکاری کے اثرات سے پتھروں پر انسانی تصویریں ابھر آئیں --تابکاری کے اثرات 66 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بہی نسل در نسل چلے آ رہے ہیں--

اس تباہی کے بعد جاپان نے اپنی شکست کا اعتراف کیا 2 ستمبر 1945 کو ٹوکیو کی بندرگاہ پر کھڑے جنگی جہاز میسوری کے عرشے جنرل میک آرتھر نے جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو سے شکست نامے پر دستخط کروالئے-آج ہیرو شیما پھر ایک ہنستا بستا شہرہے- 
یہ ابھی تک اعلانیہ ایٹم بم کا پہلا اور آخری حملہ ہے، اگرچہ عراق اور افغانستان میں کلسٹر اور فاسفورس بموں کا استعمال ہوا اور اب اگر امریکہ چاہے تو ڈرون یا میزائیل کے زریعے اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتی ہے-

بھارت اور پاکستان نے بھی اپنےمیزائیل اس مقصد کے لئے تئار رکھے ہیں وہ اپنے ترشولوں اور ہم اپنے حتفوں اور شاہینوں کے فاصلے ناپتے ہیں- اور اب تو ڈرون بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں ۔۔

لیکن نیوکلیائی ھتیاروں کی اس دوڑ میں کیا بنی نوع انسانی کی تباہی بربادی اور ہلاکت کے علاوہ کوئی اور راز بھی پوشیدہ ہے-؟

عابدہ

Abida Rahmani

Sunday, May 25, 2025

جنگ یا جھڑپ

 جنگ یا جھڑپ ( الحمد للہ کہ ہم غزہ نہیں ہیں )


از


عابدہ رحمانی


 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے کے دوران ۲۸ سیاح ہلاک ہو جاتے ہیں   اور بھارت اس دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر ببانگ دہل بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے ۔۔ سب سے پہلے تو وہ سندھ طاس  معاہدہ ختم کرنےکا اعلان کرتا ہے ، اور پاکستانیوں کو پیاسا  مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب  کو چھ مختلف مقامات پر میزائل حملہ کر تا ہے، جس سے کئی افراد بشمول بچے اور خواتین شہید ہو جاتے ہیں ۔ بھاولپور میں جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر کے گھرانے کے دس افراد شہید ہو جاتے ہیں ۔۔کیونکہ بھارت کا الزام جیش محمد اور لشکر طیبہ پر تھا ۔۔ اسکو ایک طرح سے بھارت نے اپنی کامیابی جانا کہ اسنے درست   اہداف کو نشانہ بنایا ، زیادہ تر  اسنے نے مساجد کو نشانہ بنایا جو کہ خوش قسمتی سے اس وقت خالی تھے لیکن اس بزدلانہ حملے کے نتیجے میں ۳۱ افراد جاں بحق ہوئے ۔ 

ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ پاکستان غافل تھا ، جانی نقصان تو حد درجہ افسوسناک تھا لیکن پاکستانی چینی ساختہ جے تھنڈر نے بھارت کے فرا نسیسی ساختہ تین رافیل تباہ کر دیے ( غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پانچ یا چھ) رافیل  جہاز انکی اپنی سرحدوں میں تباہ کئے  ،میڈیا پر ایک ہنگامہ مچ گیا ۔۔بھارت بوکھلاہٹ میں انٹ شنٹ بکے جا رہا تھا ۔۔ سر مایہ کاری میں رافیل کے شئیر بری طرح گرے جبکہ چینی کمپنی کے اوپر جا پہنچے ۔۔

پہلی مرتبہ ان جہازوں کے نام اور انکے متعلق جانا یوں لگا جیسے کہ انکی کارکردگی کی آزمائش ہو رہی ہے ۔۔


اس آپریشن کو بھارت نے آپریشن سیندور کا نام دیا ۔۔  وہ سرخ رنگ جو ہندو اپنی سہاگنوں کی مانگ میں بھرتے ہیں ۔۔ ۔۔ 

اگلے روز یعنی ۸ مئی کوپاکستان میں جگہ جگہ ڈرون آنے شروع ہوئے ۔کراچی ،لاہور ، راولپنڈی ، سر گودھا اور دیگر کئی مقامات پر ڈرون آئے ۔۔ ان ڈرونز سے کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوا لیکن ایک سراسیمگی پھیل گئی اور یہ بھی معلوم ہواکہ یہ سب اسرائیل ساختہ ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ یہود و ہنود پاکستان کے خلاف متحد ہو چکے ہیں ۔۔ہمیں یہ تشویش تھی کہ پاکستان نے ڈرونز کو آنے سے پہلے تباہ کیوں نہیں کیا ؟ لیکن یہ حکمت عملی یوں سمجھ میں أئی ، کہ ان ڈرونز کو دراصل پاکستان کے فوجی اہداف اور صلا حیت کو جانچنے کیلئے بھیجا گیا تھا ، جسپر پاکستان نے کمال ہوشیاری اور عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جام کردیا ، ان پر میزائل مارنا حد درجہ بے وقوفی تھی ۔۔ اس لئے انہوں نے اسے خود تباہ ہونے دیا یا مارٹر گن سے مار گرایا ۔۔۔یہ جنگ یا جھڑپ دراصل ٹیکنالوجی کی مہارت اور برتری کی جنگ تھی۔۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام واقعے سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے جن میں بھارت پوری طرح ملوث تھا ، لیکن پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی طور پر نہیں اچھالا ۔۔ اور نہ ہی بھارت پر چڑھائی کی لیکن بھارت کے عزائم کچھ اور لگ رہے تھے ۔۔ 

آٹھ مئی کی رات کو نور خان ائر بیس air base پر میزائل حملہ ہوتا ہے جس سے قریبی عمارات بھی متاثر ہوتی ہیں اسی طرح بھلواری ائر فورس کے اڈے پر حملہ ہوتا ہے جس سے اسکواڈرن لیڈر سمیت کئی شہادتیں ہو جاتی ہیں ۔

نو مئی کو پاکستانی فوج اور ائر فورس کا صبر کا  پیمانہ  لبریز ہونے کے بعد آپریشن کیا گیا جسے بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡص یعنی سیسہ پلائی دیوار  کا نام دیا گیا (یہ  نام سورہ صف کی چوتھی آیت سے لیا گیا) ۔ اور اس میں بھارت کی متعدد عسکری تنصیبات نشانہ بنایا گیا۔ اور انکے اور کئی ہوائی جہاز تباہ ہوئے ۔۔ تمام پاکستانی یکجان و متحد تھے عسکری تنصیبات اور کارخانوں میں بلیک أۄٹ کیا کیا ، نئے قومی ترانے بنے ۔ ایک جوش اور ولولے کی کیفیت ہوئی ۔۔۔۔ترکی ، چین اور دیگر چند ممالک نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ۔۔ غزہ والوں نے اپنی تباہ حالی بھلا کر پاکستان کے جھنڈے بنائے ۔۔

لیکن یہ کیا کہ دس مئی کو ہی شام پانج بجے امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش سے جنگ بندی عمل میں آئی ۔۔ الحمد للہ کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے سرخروی اور فتح سے نوازا ورنہ یہود و ہنود کو ایک اور غزہ تشکیل دینے میں کیا دیر تھی ۔۔۔ اللہ تعالی ان مردان حق و جہاد کو بہترین اجرعطا فرمائے جنہوں نے پاکستان کی دفاع کو مضبوط بنایا ۔۔

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے

 ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق


عابدہ رحمانی


سات سمندر پار کا سفر کر کے مادر وطن پہنچی تو 12 گھنٹے پورے 12 گھنٹے میری زندگی سے حذف ہو چکے تھے دن رات میں بدلی اور رات دن میں' عرف عام میں اسکو جیٹ لیگ کہتے ہیں یعنی جیٹ طیاروں کی برق رفتاری سے جو ہمارے اوقات بدل جاتے ہیں نمعلوم اردو میں اسکا کوئی متبادل ہے؟ جیٹ طیاروں کی برق رفتاری کی بدولت جب ہم مغرب سے مشرق کی سمت اتے ہیں تو وقت کا زیاں'ہوتا ہے  جبکہ مشرق سے مغرب کی سمت ہمیں فائدہ ہوتا ہے لیکن جسم کی گھڑی جسکو ہم باڈی کلاک کہتے ہیں اسکو تعین کرنے میں اور اپنی رفتار متوازن کرنے میں وقت لگ جاتا ہے نمعلوم پاکستان آکر میری یہ گھڑ ی کچھ سست کیوں  پڑ جاتی ہےرات کو سوئی ہوں تو لگتا ہے دوپہر کا قیلولہ کیا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے اور جب وہاں رات شروع ہوتی ہے تو نیند آنے لگتی ہےکم ازکم ایک ہفتہ ان اوقات کار کے عادی ہونے میں لگتاہےعلاوہ ازیں خاموش اور ساؤنڈ پروف ماحول کا عادی ہونے کے بعد جہاں زیادہ سے زیادہ شور اپنے ٹی وی کا یا رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی ایمرجنسی گاڑیوں کے سائرن کا ہوتا ھےیہاں لگتا ہے کہ ہر طرف ایک شور بپا ہے-جس بالائی کمرے میں مقیم ہوں اسکے باہر کی طرف ایک گلی گزرتی ہےجہاں رات بھر آمد و رفت رہتی ہے لوگوں کی باتیں، موٹر سائیکلوں کا شور اور رات کے سناٹے کو درہم برہم کرتے ہوۓ من چلوں کے قہقہےاور چینخیں ،ذرا سا خاموشی چھائ تومساجدسے آذان فجر بلند ہوئی آداب سحر گاھی کے تقاضےاس سے قبل ہی پوری کرنے کی کوشش ہوتی ہےساتھ ہی ساتھ بیشمار پرندوں کی چھچھاہٹ سامنے لگے ہوۓ لوکاٹ کے درخت پر ہلہ بول دیا جاتاہے بلبل، قمری،ٖفاختائیں،چڑیایں  ،کوے ،طوطے  جھنڈ کے جھنڈ آنا شروؑع ہوئیں- خوبصورت سریلی صدائیں ایک نئی صبح کے آغاز کی نوید لے کر آتی ہیں - ۔۔اب تو کوئل بھی خوب کوکتی ہے ۔گویا اسلام آباد میں بھی کوئل کا رسک ہو گیا ہے۔

 کراچی میں علی الصبح کوکتی ہوئی کوئلوں کی صدائیں سب پرندوں پر حاوی ہوتیں جب وہ میرے شریفے ، چیکو ،جامن اور انجیر کے پھل ٹونک بجا کردیکھتیں- ماحولیات کے ایک ماہر نے ایک مرتبہ کہا 'کراچی کی کوئل دیوانی ہوگئی ہے 'کوئل برسات میں کوکتی ہے جبکہ کراچی میں سارا سال کوکتی رہتی ہے غالبا نمی اور رطوبت کی وجہ سے انہیں برسات کا لمس ملتا ہے-

اب جبکہ نیند نہیں آرہی ہے تو بہتر یہ ہے کہ اٹھکر فطرت سے رشتہ جوڑا  جاے اور قریبی پارک میں چہل قدمی کی جاۓ کافی اچھا بڑا پارک ہے-روشیں چہل قدمی یا جاگنگ کے لئے بنی ہوئی ہیں-اسلام اباد میں موسم بہار بھر پور انداز میں آتا ہے ہر طرف خوبصورت ، خوشنما پھول بہار دکھا رہے ہیں شائقین نے سڑک تک کیاریاں بنا رکھی ہیں -پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے اسی وجہ سے جب میں ترقی یافتہ ممالک میں جاتی ہوں تو انکے پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں  یا فٹ پاتھوں سے جہاں مستفیدہوتی ہوں، وہاں مجھے سخت رشک و رقابت بھی ہوتی ہے۔۔۔ -

چہل قدمی میں صحت کی صحت اور چشم ما روشن و دلے ما شاد والی کیفیئت ہوتی ہے کیونکہ پھول پودے ہمیشہ سے اپنی کمزوری ہیں ۔۔صبح آٹھ بجےسے گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں  مالی ،ماسی ڈرائیور،کوڑا اٹھانے والےکی آمد شروع ہوئی ان سب سلسلوں سے ہم کافی بے نیاز ہو چکے ہیں ۔۔اگر ہفتے دو ہفتے میں کوئی میڈmaid یا مالی آتا ہے تو اسکے اوقات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں باقی شوفر وہ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں اگر کسی کو بتاؤ کہ پاکستان میں ہمیں یہ سہولیات ہیں تو انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں -۔۔

اسکے بعد آوازوں اور صداؤں کا ایک سلسلہ بندھ جاتاہے اور جہاں تک کوڑا اٹھانے کا سلسلہ ہے ، میرے مختلف ٹھکانوں میں یہ طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے مثلا ایک جگہ ایک ہفتے باورچی خانہ کے کوڑے کے ساتھ باغ کے کچرے کا ڈمپسٹر جائے گا اگلے ہفتے ری سائیکل کا، ایک جگہ ہفتے میں دو روز کوڑا جاتا ہے -کوڑا اٹھانے والے ٹرک کا  ڈرائیور بیٹھے بیٹھے اپنے ہائیڈ رالک گئیر سے اس کوڑا دان کو اٹھاکر الٹ دیتا ہے اور یہ جا وہ جا-ٹورنٹو والے کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہیں انکے ہاں باورچی خانے کے کچرے کے لئے ایک الگ کوڑا دان ہوتا ہے جسمیں ایک مخصوص پلاسٹک کی تھیلی لگتی ہے یہ پلاسٹک جلد تحلیل ہوتا ہے اور ماحول کا دوست ہے-اس میں اگر ایک کاغذ بھی پایا گیا تو اسپر چٹ لگا کر چھوڑ دیا جائےگا-اس سے وہ کھاد بناتے ہیں -  

 ہمارے یہاں پاکستان میں ری سائیکل کا انتظام کیا بہترین ہے بچے کوڑے سے ایک ایک کاغذ چن کر الگ کرتے ہیں ،انکو کوڑا چننے والے بچوں کا ناام دیا گیا ہے کیونکہ یہی  انکا ذریعہ معاش ہے- کوڑا اٹھانے والوں نے بھی مختلف تھیلے رکھے ہوتے ہیں-  اور اس میں مختلف اشیاء کو علئحدہ رکھا جاتاہے-اسے بیچ کر انکی کمائی  ہوتی ہے --      "ردیاں اخباراں ،ٹین ڈبے لینے والے  کی صدائیں میں بچپن سے سنتی آئی ہوںوہ بھی ریسائکل یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک بہتریں ذریعہ ہے -بیچنے والے کو رقم الگ مل جاتی ہے-کراچی میں جب اپنا گھر سمیٹا تو بلا مبالغہ ہزاروں کی ردی بیچی جسمیں آڈیو کیسٹ ،ویڈیو کیسٹ اور  بیشمار کتابیں، رسائل شامل تھے-،۔۔

پریشر کوکر بنوالو ، منجی پیڑی ٹھکوالو،پہلے ایک اور صدا آتی تھی پانڈے قلعئی کروالو جو اب خارج از وقت ہو چکی' سبزی والے ،آئیس کریم والے جو اب چاکلیٹ بھی بیچتے ہیں انکے ٹھیلوں کی موسیقی رات گۓ تک بچوں کو کشاں کشاں کھینچتی ہے- بھانت بھانت کی آوازیں اور صدائیں ایک چہل پہل ایک رواں دوں    زندگی کی علامت ہیں ۔۔۔۔

-انہی آوازوں میں مجہے وہ بچی بری طرح یاد آتی ہے جو چونی مٹھی میں دبانے ہوئی اسوقت گیٹ پر لپک کر جاتی جب دور سے یہ   صدا آتی' چنا جور  گرم  بابو میں لایا مزیدار چنا جور گرم' اسے اسکا گانا بھی بیحد پسند تھا اور اسکا گرم گرم چنا جور بھی۔۔-پھر اسکا اور چنا جور والے کا رشتہ اتنا گہرا ہوا کہ اگر کسی روز اسے وہ نہ ملی- تو وہ گیٹ پر کھڑا گھنٹیاں بجاتا رہتا  اور اپنے گانے کو اور اونچا اور لمبا کر دیتا 'بےبی آگیا تیرا چنا جور گرم والا ۔۔۔" 

جب بڑے ہوکر اسنے 'کابلی والا' دیکھی تو اسے اپنا چنا جور گرم والا بہت یاد آیا جب امی ابا کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی،کہ اسکو پیچھے کیوں لگادیا ہے  --   --

Friday, May 9, 2025

یوم مئی

شکاگو کے جن مزدوروں کی یاد میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ ممالک میں یہ دن یعنی یوم مئی منایا جارہا ہے ، شکاگو کے مزدور اس سے قطعا بے خبر ہیں۔۔
امریکہ اور کینیڈا میں لیبر ڈے ستمبر کے پہلے ویک اینڈ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور یہ عام تعطیل ہوتی ہے -- یہ سہ روزہ چھٹی لیبر ڈے ویک اینڈ کہلاتی ہے۔۔۔۔۔

Sunday, March 9, 2025

Note from my diary:

 Long time ago I worked as a sales associate in Fabric Land Oakville for some time. At the time of Salaat , I would quietly go to the staff room and do my Fard. 

Our manager was a Palestinian Muslim and she turned out to be my worst critic. She warned me that I can’t do this leaving the floor and should do Qaza as she does. I told her that I’m quite watchful about the customers. 

Anyway then came Ramadan and we used to do iftaar on the same table but she wouldn’t pray while I’ll hurriedly pray Fard. 

وہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار تھی ۔۔

At that time there was CAIR Canada, I sent an email to them about this situation and they responded that I have every right to be accommodated for my prayers. When I told her about this, she got flabbergasted and warned me about my job.

( In fact I was doing this job just for fun and to be preoccupied).

After some time with all her loyalty, the assistant manager replaced her and she was forced to leave the job. 

She was bitterly crying, I hugged and consoled her and she then told me that she is taking care of her family here and some in Palestine . “ I’m totally pissed off today.”She sobbed.

نہ خدا ہی ملا ، نہ وصال صنم

Monday, February 24, 2025

I stand for Hijab


I stand for Hijab! Why Hijab Necessary in Islam for women?


By Abida Rahmani •


 Feb 1st, 


On February 1st the world Hijab day is celebrated in recognition of millions of Muslim women who choose to wear the hijab and live a life of modesty. Islam uplifted the status of women and granted them their just rights 1400 years ago. Islam expects women to maintain their modesty. Modesty is required even for me Allah swt first mention Hijab or lowering their gaze first for men before women.


 

The Qur’an mentions in Surah Noor:


“Say to the believing men that they should lower their gaze and guard their modesty: that will make for greater purity for them: and Allah is well acquainted with all that they do.”

[Al-Qur’an 24:30]


The moment a man looks at a woman and if any brazen or unashamed thought comes to his mind, he should lower his gaze.


Hijab for women.:


The next verse of Surah Noor, says:


“ And say to the believing women that they should lower their gaze and guard their modesty; that they should not display their beauty and ornaments except what (must ordinarily) appear thereof; that they should draw veils over their bosoms and not display their beauty except to their husbands, their fathers, their husbands’ fathers, their sons…”

[Al-Qur’an 24:31]


following verses of Surah Al-Ahzab:


“O Prophet! Tell thy wives and daughters, and the believing women that they should cast their outer garments over their persons (when abroad); that is most convenient, that they should be known (as such) and not teased. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.”

[Al-Qur’an 33:59]


The Qur’an says that Hijab has been prescribed for the women so that they are recognized as modest women and this will also prevent them from being teased.


The status of women in Islam is often the target of attacks in the secular media. The ‘hijab’ or the Islamic dress is cited by many as an example of the ‘subjugation’ of women under Islamic law.  There are many benefits or advantages of hijab in Islam.

criteria for Hijab.


According to Qur’an and Sunnah there are basically few criteria for observing


hijab:


1. Extent:

The first criterion is the extent of the body that should be covered. This is different for men and women. The extent of covering obligatory on the male is to cover the body at least from the navel to the knees. For women, the extent of covering obligatory is to cover the complete body except the face and the hands up to the wrist and the feet. If they wish to, they can cover even these parts of the body. Some scholars of Islam insist that the face and the hands are part of the obligatory extent of ‘hijab’. All the remaining five criteria are the same for men and women.


2. The clothes worn should be loose and should not reveal the figure.


3. The clothes worn should not be transparent such that one can see through them.


4. The clothes worn should not be so glamorous as to attract the opposite sex.

Muslim women have different type of hijabs or coverings in different cultures and societies. The main purpose is to remain modest and chaste. In western countries and here in America a convenient style of covering is adopted . It is not too loose or falling apart and one can carry out day to day work conveniently wearing this hijab.

It is a a symbol for Muslim woman. What ever dress she is wearing  and covering her head , it is easily recognizable of her being a Muslim.


Hijab includes conduct and behaviour among other things.


Complete ‘hijab’, besides the criteria of clothing, also includes the moral conduct, behavior, attitude and intention of the individual. A person only fulfilling the criteria of ‘hijab’ of the clothes is observing ‘hijab’ in a limited sense. ‘Hijab’ of the clothes should be accompanied by ‘hijab’ of the eyes, ‘hijab’ of the heart, ‘hijab’ of thought and ‘hijab’ of intention. It also includes the way a person walks, the way a person talks, the way he behaves, etc.


To celebrate hijab day  the idea is  to foster religious tolerance and understanding by inviting women, both non-hijabi Muslims and non-Muslims, to experience hijab for one day.. By opening up new pathways to understanding, to counteract some of the controversies surrounding why Muslim women choose to wear the hijab.


So many Muslim women left wearing Hijab in USA , Canada, Europe and many countries because of the hatred, backlash and fear to Muslims after the incident of 9/11 and a lot of Islamophobic remarks.


It is a good revival of bonds and giving strength the ideology especially in youth to practice this order of Allah and Quran.

Tuesday, February 18, 2025

چلو بھر پانی

 چلو بھر پانی----- عابدہ رحمانی

چلو بھر پانی؛ میں ڈوب جاؤ یا ڈوب مرو،اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے اور زبان زد عام ہے ۔عام طور سے یہ غیرت دلانے اور شرمندہ کرنیکے لئے کہا جاتاہے اسلئے کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو درکنار کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا ، البتہ پیاس سے تڑپتے ہوئے شخص کے لئے چلو بھر پانی بھی کافی ہوتا ہے ۔۔

امریکی ریاست مشی گن کے قصبے فلنٹ ' میں پانی کی آلودگی نے پورے امریکہ میں ایک ہلچل اور تشویش پھیلادی۔۔پانی اس حد تک آلودہ تھا کہ اسکا رنگ بھورا تھا اور اسمیں سیسے کی آمیزش خطرناک حد تک تھی۔۔اس سے کئی لوگ بیمار اور متاثر ہوئے۔۔اسطرح کا ألودہ پانی اور وہ بھی امریکہ میں پورے ملک میں ایک زبردست ہنگامہ مچ گیا ۔۔ اسکو نسلی ، طبقاتی رنگ بھی دیا گیا کیونکہ اس علاقے میں بیشتر أبادی سیاہ فام لوگوں کی ہے ۔۔ مشہور و معروف حق کی أواز بلند کرنیوالے ہالی ووڈ کے متنازغہ فلمسازاور ہدایت کار مائیکل مور کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے ۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے یہاں کے باشندوں کو سہارا دینے کیلئے یہاں ایک صدارتی امیدواروں کا مبا حثہ رکھا۔۔ابھی حال ہی میں ان افسران کا کڑا احتساب کیا گیا ،انکو معطل کیا گیا اور کڑی سزائیں تجویز ہوئیں وہ جو فلنٹ میں پانی کی رسد اور ترسیل کے ذمہ دار تھے اور جنکی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوسناک واقع ظہور پذیر ہوا۔۔

اس واقعے سے مجھے اپنے کراچی میں رہائش کے وہ تکلیف دن یادآگئے جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی  کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے

اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا، یا میں پمپ چلانا بھول گئی ہوں ۔۔یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوہات ہیں-

میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک میں آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین valve manتو جیسےہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنےکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہے،ہرگز ہرگز مبالغہ آرایئ نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول اللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایئ ہیں وہ میں اور میرا رب یا میرے گھر والے جانتے ہیں ۔ جب میرے ہاں رہائشی مہمان أتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہوتی تھی کہ پانی کی رسد میں فراوانی کیسے کی جائے ۔۔؟ ایسی صورتحال اکثر پیش أئی کہ اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں پونچھ پانچھ کے رکھ دیں اور پھر مہنگے داموں پانی کے حصول کے لئے دوڑتے رہے۔ افسوس کی اسوقت پانی کے ڈسپنسر اورپانی کی بوتلیں میسر نہیں تھیں۔۔

ٹنکی میں گرتےہوئے پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم ،جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لیےکئ فون کال 'واٹر بورڈ کےکئ چکر اور والو مین کے مختلف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد—ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا — اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی بھی لازم تھی  یہ سوچے بغیر کہ سال میں کتنی مرتبہ واقعی ہمیں انکی جانب سے پانی میسر تھا ،کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور ہمیں احتجاج کرکے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں تھی-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-کیونکہ اس پانی کے فراہمی پربعد میں اس  سیاسی پارٹی کی  اجارہ داری تھی  جن سے ٹکر لینا ہم جیسے بے  بسوں کے بس میں نہیں تھا۔۔

اب بھی کراچی میں وہی حال ہے شہر کاأدھا ٹریفک پانی کے ٹینکروں کا ہوتا ہے۔۔پورا ٹینکر مافیا ہے جسکی شہر میں اجارہ داری ہے۔کراچی کے وہ باشندے اور شہری جنکے ہاں پانی کی فراوانی ہے خوش قسمت ترین شہری کہلانے کے حقدار ہیں۔۔


پچھلے سال یہاں امریکہ میں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رہا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے بلکہ ایسے بحرانوں کو معمولی جانتے ہیں - لیکن جو بچے یہاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی گئی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?

24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر اور ترددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاؤٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- ہاں لیکن یہاں پر پانی بھاری اور سخت ہے جسکے لئے ایک مشین لگی ہوئی ہے ، ساتھ میں ایک جدید فلٹر لگا ہوا ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور یہاں ،جہاں دین بھی داؤ پر لگا ہوا ہے- مختلف ذرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-

پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اورجہاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے- اسی اصول کے مطابق دنیا کی بیشتر أبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں ہے۔۔

ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آۓ توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نےکہا’ زم زم" رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا— اس پانی میں معدنیاتی تاثیر انتہائی مشفی ہے موجودہ سعودی حکومت نے اس پانی کی ترسیل کا بہترین انتظام حرمین شریفین میں کیا ہے ۔ حرم شریف میں تو یہ کنوواں موجود ہے اور زم زم کے پانی کی جانچ پڑتال کی لیبارٹری ہے تاکہ پانی میں کسی قسم کی ألودگی نہ ہونے پائے لاکھوں کے حساب سے صاف ستھرے کولر حرمین میں موجود رہتے ہیں ۔۔جس سے لاکھوں زائرین روزانہ فیض یاب ہوتے ہیں ۔۔

دنیا میں اسوقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ،دریا ، کنوئیں ، ندیاں ألودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔کتنے ممالک ہیں  جہاں کی أبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی دستیاب نہیں ہے ۔ عرب اور مشرق وسطے کے ممالک نے سمندر کے پانی سے نمک ہٹاکر  استعمال کے قابل لانیکے لئے بڑے بڑے پلانٹ لگائے ہیں۔ وہاں پر پینے کے پانی اور پٹرول کی قیمت یکساں ہے ۔اس لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں میٹھے پانی کی وسیع و عریض جھیلیں پانی کا ایک بڑا خزانہ اور ذریعہ ہیں۔۔

پانی سے زندگی ہے اللہ تعالی قرأن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔۔ اسلئے زندہ اشیاءکی زندگی پانی کی مرہون منت ہیں۔۔اور مصیبت کے وقت ایک چلو بھی کافی ہو جاتا ہے۔۔


Sent from my iPadچلو بھر پانی----- عابدہ رحمانی

چلو بھر پانی؛ میں ڈوب جاؤ یا ڈوب مرو،اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے اور زبان زد عام ہے ۔عام طور سے یہ غیرت دلانے اور شرمندہ کرنیکے لئے کہا جاتاہے اسلئے کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو درکنار کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا ، البتہ پیاس سے تڑپتے ہوئے شخص کے لئے چلو بھر پانی بھی کافی ہوتا ہے ۔۔

امریکی ریاست مشی گن کے قصبے فلنٹ ' میں پانی کی آلودگی نے پورے امریکہ میں ایک ہلچل اور تشویش پھیلادی۔۔پانی اس حد تک آلودہ تھا کہ اسکا رنگ بھورا تھا اور اسمیں سیسے کی آمیزش خطرناک حد تک تھی۔۔اس سے کئی لوگ بیمار اور متاثر ہوئے۔۔اسطرح کا ألودہ پانی اور وہ بھی امریکہ میں پورے ملک میں ایک زبردست ہنگامہ مچ گیا ۔۔ اسکو نسلی ، طبقاتی رنگ بھی دیا گیا کیونکہ اس علاقے میں بیشتر أبادی سیاہ فام لوگوں کی ہے ۔۔ مشہور و معروف حق کی أواز بلند کرنیوالے ہالی ووڈ کے متنازغہ فلمسازاور ہدایت کار مائیکل مور کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے ۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے یہاں کے باشندوں کو سہارا دینے کیلئے یہاں ایک صدارتی امیدواروں کا مبا حثہ رکھا۔۔ابھی حال ہی میں ان افسران کا کڑا احتساب کیا گیا ،انکو معطل کیا گیا اور کڑی سزائیں تجویز ہوئیں وہ جو فلنٹ میں پانی کی رسد اور ترسیل کے ذمہ دار تھے اور جنکی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوسناک واقع ظہور پذیر ہوا۔۔

اس واقعے سے مجھے اپنے کراچی میں رہائش کے وہ تکلیف دن یادآگئے جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی  کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے

اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا، یا میں پمپ چلانا بھول گئی ہوں ۔۔یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوہات ہیں-

میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک میں آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین valve manتو جیسےہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنےکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہے،ہرگز ہرگز مبالغہ آرایئ نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول اللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایئ ہیں وہ میں اور میرا رب یا میرے گھر والے جانتے ہیں ۔ جب میرے ہاں رہائشی مہمان أتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہوتی تھی کہ پانی کی رسد میں فراوانی کیسے کی جائے ۔۔؟ ایسی صورتحال اکثر پیش أئی کہ اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں پونچھ پانچھ کے رکھ دیں اور پھر مہنگے داموں پانی کے حصول کے لئے دوڑتے رہے۔ افسوس کی اسوقت پانی کے ڈسپنسر اورپانی کی بوتلیں میسر نہیں تھیں۔۔

ٹنکی میں گرتےہوئے پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم ،جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لیےکئ فون کال 'واٹر بورڈ کےکئ چکر اور والو مین کے مختلف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد—ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا — اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی بھی لازم تھی  یہ سوچے بغیر کہ سال میں کتنی مرتبہ واقعی ہمیں انکی جانب سے پانی میسر تھا ،کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور ہمیں احتجاج کرکے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں تھی-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-کیونکہ اس پانی کے فراہمی پربعد میں اس  سیاسی پارٹی کی  اجارہ داری تھی  جن سے ٹکر لینا ہم جیسے بے  بسوں کے بس میں نہیں تھا۔۔

اب بھی کراچی میں وہی حال ہے شہر کاأدھا ٹریفک پانی کے ٹینکروں کا ہوتا ہے۔۔پورا ٹینکر مافیا ہے جسکی شہر میں اجارہ داری ہے۔کراچی کے وہ باشندے اور شہری جنکے ہاں پانی کی فراوانی ہے خوش قسمت ترین شہری کہلانے کے حقدار ہیں۔۔


پچھلے سال یہاں امریکہ میں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رہا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے بلکہ ایسے بحرانوں کو معمولی جانتے ہیں - لیکن جو بچے یہاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی گئی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?

24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر اور ترددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاؤٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- ہاں لیکن یہاں پر پانی بھاری اور سخت ہے جسکے لئے ایک مشین لگی ہوئی ہے ، ساتھ میں ایک جدید فلٹر لگا ہوا ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور یہاں ،جہاں دین بھی داؤ پر لگا ہوا ہے- مختلف ذرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-

پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اورجہاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے- اسی اصول کے مطابق دنیا کی بیشتر أبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں ہے۔۔

ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آۓ توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نےکہا’ زم زم" رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا— اس پانی میں معدنیاتی تاثیر انتہائی مشفی ہے موجودہ سعودی حکومت نے اس پانی کی ترسیل کا بہترین انتظام حرمین شریفین میں کیا ہے ۔ حرم شریف میں تو یہ کنوواں موجود ہے اور زم زم کے پانی کی جانچ پڑتال کی لیبارٹری ہے تاکہ پانی میں کسی قسم کی ألودگی نہ ہونے پائے لاکھوں کے حساب سے صاف ستھرے کولر حرمین میں موجود رہتے ہیں ۔۔جس سے لاکھوں زائرین روزانہ فیض یاب ہوتے ہیں ۔۔

دنیا میں اسوقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ،دریا ، کنوئیں ، ندیاں ألودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔کتنے ممالک ہیں  جہاں کی أبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی دستیاب نہیں ہے ۔ عرب اور مشرق وسطے کے ممالک نے سمندر کے پانی سے نمک ہٹاکر  استعمال کے قابل لانیکے لئے بڑے بڑے پلانٹ لگائے ہیں۔ وہاں پر پینے کے پانی اور پٹرول کی قیمت یکساں ہے ۔اس لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں میٹھے پانی کی وسیع و عریض جھیلیں پانی کا ایک بڑا خزانہ اور ذریعہ ہیں۔۔

پانی سے زندگی ہے اللہ تعالی قرأن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔۔ اسلئے زندہ اشیاءکی زندگی پانی کی مرہون منت ہیں۔۔اور مصیبت کے وقت ایک چلو بھی کافی ہو جاتا ہے۔۔


Sent from my iPad

Saturday, February 1, 2025

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10156522284081426&id=593666425&sfnsn=scwspmo

الاسراءوال معراج The night of Ascension

 

الاسراء والمعراج The night of Ascension

By
Abida Rahmani

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ 
In the Name of Allah, Most Gracious, Most Merciful
 

In the Surah al-Isra (Surah 17 - also known as Bani Isra'il), it is mentioned: 
 
سُبۡحَـٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسۡرَىٰ بِعَبۡدِهِۦ لَيۡلاً۬ مِّنَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ إِلَى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡأَقۡصَا ٱلَّذِى بَـٰرَكۡنَا حَوۡلَهُ ۥ لِنُرِيَهُ ۥ مِنۡ ءَايَـٰتِنَآ‌ۚ إِنَّهُ ۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ 

"Glory be to Him Who made His servant (Prophet Muhammad) to go on a night from the Sacred Mosque (Masjid al-Haram) to the Farthest Mosque (Masjid al-Aqsa) of which We have blessed the precincts, so that We may show to him some of Our signs; surely He is the Hearing, the Seeing." (Qur'an, 17:1)
 
 Prophet (Sal Allaahu Alaihi Wassallam) was granted the Night Journey of al-Israa’ wal Mi’raaj,on the night of Rajab 27th, he was transported by angel Gibarael on a heavenly ride Buraq from Masjid al-Haraam to Masjid al-Aqsa and then onwards he ascended to the Heavens and Allaah spoke to him as He willed, and enjoined the five daily prayers upon him.
This is definitely part of our Aqeedah (belief). It says so in the Qur’aan [al-Isra':1]
The word Isra is referred to as "walking in night" and the root word of Miraj is Arooj which means; "going to a higher place". During this blessed night, Prophet Muhammad (Peace be upon him) journeyed to sky level to meet Allah (Glorious is He), and for this particular reason in Islamic history this journey is recognized to be as "The night of Isra and Miraj".

Most accepted saying is that Miraj happened 1 year before Migrating to Madina, Similarly the most accepted saying is that this journey occurred on the night of 27th Rajab, 

This journey consist of 3 stages:

1. FROM AL HARAM TO AL AQSA MOSQUE
2. FROM AL AQSA MOSQUE TO SIDRA TUL MUNTAHA
3. FROM SIDRA TUL MUNTAHA TO QAAB O QOSAIN
and
4. RETURN


1.  FROM AL HARAM TO AL AQSA MOSQUE:

Prophet Muhammad (peace be upon Him) was taken miraculously from al Haram to Al Aqsa in Jerusalem where he led the prayers of all prophets and then ascended to heavens. It’s a long tale and most of our sisters must know about it. The incredible aspect is that all happened in a short period of time and the human mind cannot encompass its reality and grandeur. The ride which was used by Prophet (SAW) was Burraq , which might have travelled much faster than the speed of light or It may be as the time was stopped by the orders of Alah swt . It’s all part of our belief in the unseen ( Iman Bilghaib) and trust in the words of Prophet (SAW). When Prophet (SAW) told his companions that he has visited heavens, hell and paradise, met and talked to Prophets and went quite close to Allah swt.

2.  Some of this miraculous journey is described in surah Al Najam.
I am just giving a few Narrations about the last part.

The 3rd stage of the journey commenced.

3-FROM SIDRA TUL MUNTAHA TO QAAB O QOSAIN

Prophet Muhammad (peace be upon Him) informed us that when the journey beyond Sidra tul Muntaha started, Jabreel (as) stopped at a place. He asked him why he stopped. He replied "If i will go beyond this place even as the distance of an ant, my wings will burn."
Al Yawakeet wal Jawahir (3:34)
According to another saying he said "Now it’s up to you and your Lord (Allah). This is my limit and i can’t go beyond this."



(53:7): "And he (Muhammad [blessings and peace be upon him]) was on the uppermost horizon (of the realm of creation during the Ascension Night i.e., on the apex of the created cosmos)."

Then he got closer in Al Najam, Quran it is said 
(53:8,9): 

"Then He (the Lord of Honor) drew closer (to His Beloved Muhammad [blessings and peace be upon him]) and then drew even closer. Then a distance measuring only two bow-lengths was left (between Allah Unveiled and His Esteemed Beloved), or even less than that (in extreme nearness)."

At that place Allah revealed to his beloved Prophet, whatever he wanted to reveal, in Quran it is only mentioned as 
(53:10): So (on that station of nearness) He (Allah) revealed to His (Beloved) servant whatever He revealed.

And Prophet Muhammad didn't say the details of that conversation either. Only few things about that are known;
Allah Said "O Prophet! Peace be upon You and mercy and blessings of Allah"
Prophet Muhammad Replied "Peace be upon Me and on righteous people of Allah"
Meeraj Al-Naboowa (3:149)
 
"Allah appeared to me in a very beautiful form. That moment we heard angels of skies were talking on some matter. Allah said "O Muhammad". I said " Here I am, O Allah, at Your service; here I am at Your service". Allah asked "what angles are talking about?". I said "O Allah! i don't know."
So Allah placed his hand between my shoulders and i felt its coolness in my chest. And then every thing was revealed to me." (Jamia Turmadi) This dialogue is 
التحیاتwhich we recite in Quda in Salaah.
Our Salaah or Five prayers a day is the gift of Mairaj which Allah (swt) made obligatory for Muslims. Those were earlier 50 prayers a day but on Prophet (SAW)’s request to Allah were reduced to five. The reward would be given as 50 prayers.

4. RETURN

on the same night of his journey, Prophet Muhammad (peace be upon him) returned to Makkah.
As he was a known person of Truthfulness before Prophet Hood, everyone knew that his statements are always true.
Prophet Muhammad (peace be upon him) announced to his people from the roof of Kaaba about the wondrous night. He considered it his responsibility before God to convey the message, no matter the response or consequences; 

The Prophet of Allah began to describe his journey, Allah brought forward all the details in front of his eyes. and he described what he had seen “stone by stone, brick by brick”.. (Saheeh Bukhari)
..
The Sweetness of Faith To those whose faith was strong and true, the Power of Allah was obvious. Abo Jahal who found the whole story difficult to believe went to see Abu Bakr, the best friend and loyal supporter of Prophet Mohammad. He asked him if he believed Prophet Muhammad traveled overnight to Jerusalem, to heavens and back to Makkah. Without hesitation Abu Bakr replied, “If the messenger of Allah said so, then it is true”. It was because of this occasion that Abu Bakr earned the title As-Siddeeq (the foremost believer). 
 
The journey by night, from the Holy Mosque in Makkah to the furthest Mosque in Jerusalem, and the ascension through the heavens and into the presence of Almighty Allah was a miracle granted by Allah to His final slave and Prophet, Muhammad, may the mercy and blessings of Allah be upon him, and one of the greatest of honors bestowed upon any human.
On that night the Muslim Ummah was bestowed upon the leader ship on all religions and Prophet (SAW) was grant leader ship over all the prophets.
This miraculous night is a special gift for Muslim Ummah.
However there are no prescribed prayers, worship, fasting or celebrations related to that particular night   in the practice of Prophet (SAW) or the companions RA.
We as a Muslim praying five times a day are everyday grateful for this gift brought for us by Prophet (SAW) in the night of Ascension
ال اسراء والمعراج

Monday, January 27, 2025

ڈرامے اور ہم

 ڈرامے اور ہم

از

عابدہ رحمانی 

ڈرامے کی تاریخ اور جغرا فیے  سے کیا لینا دینا ۔۔ولیم شیکسپئیر اور آغا حشر کو اپنے کارنامے دکھائے ہوئے مدت بیت گئی ۔۔ لیکن انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب ڈرامہ ٹی وی سکرین ، یو ٹیوب ، نیٹ فلیکس ، بے شمار دوسرے چینل اور کمپیوٹر کی بدولت گھر گھر اور بچے بچے  تک پہنچ چکا ہے ۔۔

اگر پاکستان کا جائزہ لیں تو ایک زمانے میں کراچی ،لاہور میں سٹیج ڈراموں کا زور تھا ، ریڈیو پر بے انتہا دلچسپ ڈرامے ہفتہ وار نشر ہوتے تھے جسے انتہائی ذوق اور شوق سے سنا جاتا تھا ۔۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن کا دور آیا تو آواز کی دنیا کے وہی کردار جیتے جاگتے ہمارے سامنے ٹیلی وژن پر آگئے اور ڈرامے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔۔ 

پی ٹی وی نے انتہائی معیاری اور اعلی ڈرامے پیش کئے اور جانے انجانے میں ہم ان اداکاروں اور کر داروں سے منسلک ہو گئے ان ڈراموں کا اتنا اثر تھا کہ اس کی نشریات کے دوران لوگوں کی اکثریت اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے دم بخود ہو جاتی اور شہر کی سڑکوں پر بھی سناٹا چھا جاتا۔۔۔۔

پھر ڈش انٹینا اور کیبل ٹی وی کا دور آیا تو پاکستان میں بھی چھوٹے بڑے بے شمار چینل کھل گئے ۔۔

اب جبکہ پاکستان میں بے شمار ٹی وی چینل ہیں اور بے شمار ڈرامے بن رہے ہیں ، ٹیکنالوجی چھلانگیں مارتی ہو ئی کہاں سے کہاں پہنچ گئی تو ان ٹی وی ڈراموں کو دیکھنے کا بہترین ذریعہ یو ٹیوب ہے ۔۔ میں اپنے پسندیدہ ڈرامے یو ٹیوب پر اپنی سہولت سے دیکھتی ہوں ۔۔ نیٹ فلیکس اور دوسرے ذرائع بھی ہیں لیکن میں یو ٹیوب سے ہی مستفید ہوتی ہوں ۔۔۔

پاکستان کے علاوہ بھارتی ڈرامے بھی ایک زمانے میں کافی مقبول تھے لیکن اب ترکی ڈراموں نے میدان مار لیا ہے ، اب تو وہ بہترین اردو ڈبنگ dubbing میں آگئے ہیں جو کہ شاید وہیں ترکیہ سے ہی کر دیے جاتے ہیں ۔۔ تاریخی ڈرامے ارتغرل غازی ، کرولس عثمان ، صلاح الدین ایوبی اپنی جگہ تاریخ کے علاوہ جوش و جذبے کو جلا بخشتے ہیں جبکہ آجکل میں ایک ڈرامہ “ محبت ایک سزا “ دیکھ رہی ہوں جسمیں ماڈرن ترکی یوروپ سے کسی طرح کم نہیں ہے,جہاں شراب پینا اور کئی خباثتیں عام ہیں  ۔لباس اور پہناوے اپنی جگہ ، چھ انچ کی اونچی ایڑی کے جوتے پہن کر کٹ کٹ چلتی ہوئی عمر رسیدہ خاتون پر تو مجھے رشک آتاہے ۔۔لیکن لاجواب اداکاری اور کردار نگاری مجھے گم سم کر دیتی ہے ۔۔

کرولس عثمان اور اس ڈرامے کے ماحول میں زمین آسمان اور کئی صدیوں کا فرق ہے ۔ وہ اللہ کے دین کی سر بلندی اور اپنے لئے ایک ریاست حاصل کرنے کیلئے کوشاں ،کہاں وہ لپٹی لپٹائی خواتین اور کہاں انکا نیم عریاں لباس ، لیکن نام مسلمانوں کے اور کبھی کبھار اللہ کا ذکر بھی ہو جاتا ہے ۔۔

یہ تمام  ڈرامے ،انکے کردار و اداکار ہمیں رلاتے ہیں ، ہنساتے ہیں ، ہیجانی اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔۔ اداکار بہترین کردار ادا کرکے بہترین معاوضہ سمیٹ کر چلتے بنتے ہیں جبکہ ہماری رات کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں اور خواب میں بھی اسی میں الجھے رہتے ہیں ۔۔۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی ڈرامے کو پندرہ ،بیس اقساط کے بعد عمو ما سمیٹ لیا جاتاہے ، عموما سارے بگڑے کام سدھر جاتے ہیں ، ولن یا ولنی توبہ تائب ہوکر اپنے گناہوں کا اقرار کر لیتی ہے اور معافی تلافی ہو جاتی ہے ۔۔جس سے ہمیں بھی بے انتہا طمانیت اور سرور ملتا ہے اور سینے پر سے ایک بوجھ اتر جاتا ہے۔۔

لیکن بسا اوقات ایسا کیوں محسوس ہو تاہے کہ ہلکی پھلکی تفریح کے بہانے ہمیں  ان ڈراموں کی لت پڑ گئی ہے اور لت کا عادی نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔اور یہ اچھی چیز نہیں  ہے ۔۔

Wednesday, January 22, 2025

کن کون

کن کون ( میکسیکو) کی سیاحت

از عابدہ رحمانی

ابھی تک میکسیکو کے بارے میں اتنا ہی جانا تھا کہ لاطینی امریکہ کا یہ ملک معتدل آب و ہوا کی وجہ سے شمالی امریکہ کے سیاحوں کا مر کز ہے ۔۔ اور پھر بے چارے میکسیکن جو جان جھوکوں میں ڈال کر امریکہ ڈالر کمانے آتے ہیں اسطرح اگر امریکہ اور اب کینیڈا میں بھی جائزہ لیا جائے تو گھروں میں صفائی کرنے والیاں ، باغبانی کا تمام کام کرنے والے اور  زیادہ تر مزدور میکسیکن ہوتے ہیں ۔۔ ان میں سے کتنے ناجائز طریقوں سے داخل ہوتے ہیں اور پھر پکڑ دھکڑ اور نکالے جانے کا سامنا کرتے ہیں ۔ 
امریکہ کے جنوبی ریاستوں میں جو کہ ایک زمانے میں میکسیکو کایہ حصہ ہوا کرتی تھیں وہاں پر یہ لاطینی باشندے بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں اور وہاں کی دوسری زبان ہسپانوی ہے ۔۔سڑکوں اور گلیو ں بلکہ شہروں کے نام بھی ہسپانوی ہیں ۔ جیسے لاس اینجلس ، سان ڈیاگو ، سان فرانسسکو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ میکسیکو نافٹا NA FTAکا حصہ ہے North American free trade association اور بادل ناخواستہ شمالی امریکہ کا حصہ بھی مانا جاتا ہے ۔۔۔
جب میرے بیٹے ناصر نے وہاں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو کچھ تردد کے بعد میں راضی ہو گئی ۔۔( کیونکہ پچھلے سفروں سے کافی تھکان تھی) ۔۔ میں نے بکنگ وغیرہ کی تفصیلات اور سب کچھ اسپر چھوڑ دیا  ۔ 
ٹورنٹو سے کنکون ،فلئیر ائر لائن سے ہماری براہ راست تقریبا چار گھنٹے کی پرواز تھی ، جو کہ اچھی رہی ۔ہم نے ائر پورٹ پر ہی کھانا کھا لیا تھا اور کچھ اپنے ساتھ جہاز پر لے گئے ۔ اس پرواز پر پانی بھی برائے فروخت تھا ۔۔
ایرپورٹ پر امیگریشن سے فارغ ہوئے ۔ باہر  موسم گرم پایا ، ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل ویسٹن ریزورٹ  Westin Resortکی جانب روانہ ہوئے ۔ یہ معلوم ہوا کہ باقی شہر میں ابر Uber دستیاب ہے لیکن ائر پورٹ سے نہیں لے سکتے ۔۔ 
ریزورٹ ہو ٹل بحیرہ کیریبیئن کے کنارے واقع کافی وسیع و عریض تھا ۔ساحل سمندر سے خوب فائدہ اٹھایا گیا تھا ۔ سفید ریت پر قطار در قطار لکڑی کی دراز آرام کرسیاں اور  اوپر دلکش چھپر بنے ہوئے تھے اور پھر دیکھا کہ یہی چھپر یہاں کی خصوصیت ہے جسے انگریزی میں Land Mark یا Signature کہا جاتا ہے ۔۔ سمندر کا نیلگوں فیروزی رنگ کاپانی آسمان سے مشابہ اور اسکے کنارے سفید ریت کا ساحل سمندر اور پھر ہر جگہ ساحل پر یہی سفید ریت اور فیروزی پانی نظر آیا ۔۔ ہم نے رات کا کھانا وہیں ہوٹل کے ریسٹورانٹ میں کھایا جو کہ عمدہ قسم کی مچھلی ،جھینگے ، چاول اور سبزیاں تھیں ۔ میسیکن کھانا تھا ۔۔ صبح کا ناشتہ بھی وہیں ہوٹل کے بوفے میں کیا ، جہاں اپنے مطلب کی کافی چیزیں مل گئیں ۔۔۔
ناصر کو شدید قسم کا فلو مائل نزلہ زکام تھا اور کافی تکلیف میں تھا لیکن اللہ کا بے حد شکر ہے کہ دو دن میں بہتر ہو گیا لیکن اسکے ساتھ بھی تمام سیر و تفریح جاری رہی ۔۔ 
دس دسمبر کی صبح ناشتے کے بعد ہم نے ابر ٹیکسی لی اور مہیرا جزیرے جانے کیلئے فیری ٹر مینل پہنچ گئے ۔  ہسپانوی زبان میں جے کو ہا کے آواز سے ادا کیا جاتا ہے ۔۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے تھے ،جزیرے سے واپسی کے بعد ہمیں ٹاؤر میں جانا تھا اور اوپر سے کنکون کی سیر کرنی تھی یہ اوپر نیچے ہونے والا اور گھومنے والا ٹاؤر تھا جو فیری میں جاتے ہوئے نظر آیا ۔۔ 
فیری ٹرمینل سے  نکلے اور بازار میں سے گھومتے ہوئے ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوئے ۔۔ کنکون کا مخصوص نیلگوں فیروزی رنگ کا سمندر ، سفید ریت کا ساحل اور ایک سے ایک بڑھ کر چھپر جو ناریل ، تاڑ کے پتوں اور دوسری درختوں کے چھالو ں سے بنائے گئے ہیں ۔۔ ہم جتنے ہوٹل سے باہر کے ریسٹورانٹ میں گئے وہ بڑے بڑے ہال برابر چھپر وں میں بنائے گئے تھے ،آرائشی فانوسوں اور مکرامے سے بنی ہوئی سجاؤٹ سے آراستہ تھے ۔۔ 
ساحل سمندر پر چھتری نما چھپر تھے جسکے نیچے آرام کر سیاں تھیں ۔۔ گرمی اور حبس کافی تھا حالانکہ سمندر سے اچھی ہوا بھی آرہی تھی ۔۔ عوام الناس سمندر سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ہم کنارے سے ۔۔ 
قریب کی دوکان سے دو ناریل خرید کر اسکا پانی پیا اور پھر اسکو تڑوا کر گودہ نکلوایا ، جو کہ کافی مقدار میں تھا ۔۔ کافی ساری خواتین اور بچے وہاں کا سیپ اور موتی سے بنا ہوا آرائشی سامان بیچ رہے تھے —- 
یہاں سے ٹیکسی لے کر ہم جزیرے کے دوسرے سرے پر پہنچے ۔۔ یہ اونچائی پر تھا ۔جہاں پر مایا تہذیب کے کچھ مجسمے بنے تھے اور نیچے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ، دلچسپ جگہ تھی ۔ گھوم پھر کر واپس ہورہے تھے تو باہر ایک ٹھیلے پر آم بکتے نظر آئے ، ہم نے آم خریدے ۔۔میکسیکو کے مخصوص آم ، لڑکے نے اسکو چھیلا اور ڈنڈی میں لگا کر خوبصورتی تراش کر اوپر نمک مرچ والا مسالہ چھڑکا ، کھٹ مٹھا کافی مزے کا تھا ۔۔ میکسیکن بھی لال مرچ شوق سے کھاتے ہیں ۔۔
اُبر uber کی کافی آسانی تھی ادھر ناصر کال کر تا تھا اور وہ  چند منٹ میں پہنچ جاتی ۔۔
واپسی پر ہم ٹاؤر پر چڑھے اور کنکون شہر کا نظارہ کیا جسکا حسن اسکا نیلگوں سمندر ، سفید ریت کے ساحل ،صاف شفاف آسمان اور چھپر ہیں ۔۔۔ 
اگلے روز ہم نے پیدل چلنے کی ٹھانی قریب کے ایک چھپر نما ریسٹورانٹ میں میکسیکن برنچ brunch کیا ،کھانے میں کافی احتیاط کرنی پڑتی تھی اسلئے ہم زیادہ تر سمندری غذا مچھلی ، جھینگے ، سبزیاں ،پھل اور لوبیا وغیرہ کھاتے تھے ۔ ۔۔ میکسیکن کھانوں میں مکئی کے بنے ہوئے چپس ، اسکی پتلی روٹیوں کا بہت عمل دخل ہے اسکو وہ tortillas, tacoکہتے ہیں لیکن ادائیگی میں یہ ٹارٹیا بن جاتا ہے ،اسکی تکنیک دیکھنا چاہئے کہ یہ کیسے بنتے ہیں ؟۔ اسلئے کہ ہمارے ہاں پاکستان میں مکئی کی کافی پیداوار ہوتی ہے ،خاص طور پر پوختونخوا میں لیکن  مکئی کی اتنی پتلی روٹیاں نہیں بنتیں ہیں ۔۔۔
کنکون ساحل سمندر کی سیر کرتے مختلف مقامات سے گزرے ۔۔ اکثر جگہ فٹ پاتھ ٹوٹا پھو ٹا ملا ۔۔ 
شام کو ہال کی طرح بنے ہو ئے چھپر  کے ریسٹورانٹ میں کھانا کھانے گئے تو تیز بارش شروع ہوئی ۔۔ نیچے سفید ریت کا فرش تھا ہمارے اوپر چھپر ٹپکنے لگا تو جگہ بدلنی پڑی ۔۔
اگلی صبح سویر ے ساڑھے چھ بجے ہم سیاحوں کی بس میں مایا تہذیب کے کھنڈرات دیکھنے چیچن ایٹزا۔ Chichen Itza  کیلئے روانہ ہوئے ۔ گائیڈ کافی دلچسپ سی خاتون تھی ، باریک سی آواز میں وہ ایک ہی رو میں سپینش Spanish اور انگریزی میں بتاتی رہی ۔۔ رستے میں بس مختلف ریزورٹ resort پر رکتے ہوئے سیاحوں کو اٹھاتی رہی ۔ سڑکیں اور شاہراہیں اچھی حالت میں تھیں ۔۔ 
ہمیں بھوک لگ رہی تھی گائیڈ  سے پو چھا کہ ناشتہ کہاں کرینگے تو اسنے بتایا کہ دوگھنٹے کے بعد ایک مارکیٹ میں رکینگے ۔۔
ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے نے ہماری طرف دوسیب بڑھائے اور بتایا کہ انکے پاس کھانے کو کافی کچھ ہے ، جو ہم نے شکریے کے ساتھ قبول کر لئے ۔۔ 
بس جب مارکیٹ کے پاس رکی تو مایا تہذیب کو نمایاں کرتے ہوئے انکے طریقہ پر ملبوس لوگ نظر آئے انہوں نے خوفناک جانوروں کے شکل کے ماسک پہنے ہوئے تھے ۔ غنیمت ہے کہ خواتین نے یہ روپ نہیں دھارا تھا ۔ کیونکہ چند مجسموں میں خواتین نیم عریاں تھیں ۔۔
اندر نوادرات کی ایک بڑی دوکان  یا عجائب گھرتھا، جسمیں کافی قیمتی سیاہ گرینائیٹ پتھر سے بناہوا آرائشی اور سجاؤٹی سامان برائے فروخت تھا ۔ 
یہیں پر کافی اور بسکٹ ،بن وغیرہ برائے فروخت تھے ۔۔ جسکا ہم نے ناشتہ کیا ۔۔تقریبا ایک گھنٹہ رکنے کے بعد بس اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئی ۔۔
اگلا پڑاؤ مایا تہذیب کے کھنڈرات تھے یہ پانچویں صدی عیسوی میں یہاں پر ایک بڑی تہذیب اور آبادی تھی ، یہ علاقہ انکے عبادت گاہ، قربان گاہ اور مندر تھے۔ چیچن chichinکے معنی ہیں کنوئیں کا منہ اور اٹزا itzaپانی تلاش کرنیوالے یا پانی کے ساتھی۔۔ یہ قوم گواٹے مالا اور ہنڈوراس وغیرہ میں بھی تھی ۔ ہوسکتا ہے انکی نسلیں اب بھی باقی ہوں ۔ 
یہ علاقہ میکسیکو کے یو کا ٹان yucatan جزیرہ نما میں ہے ۔۔ یہاں تقریبا دو کلو میٹر کے علاقے میں انکے کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں ۔ ایک عمارت اہرام مصر سے مشابہ تھی لیکن قدرے چھوٹی اور اسی طرح کے دوسرے مندر تھے ۔۔یہ ساری عمارات مرمت شدہ ہیں جبکہ ایک عمارت کو اصلی حالت میں رکھا گیا تھا۔۔یہ لوگ مناظر قدرت کی اپنے طور پر عبادت کرتے تھے ۔سورج، چاند پانی اور آگ وغیرہ ۔۔ ایک خاص بات گائیڈ نے بتائی جو تالی بجانے کی تھی جسکی گونج بہت زیادہ تھی اور دیر تک تھی ۔ اسنے بتایا کہ یہ ان عمارات کا اثر ہے ۔۔
یہاں ہرطرف میکسیکو کی دستکاری کا سامان چھوٹی چھوٹی دوکانوں میں برائے فروخت تھا ۔۔ ہم نے یادگار کے طور پر چھوٹی موٹی خریداری کی ۔۔۔
یہاں سے ہم لنچ دوپہر کے کھانے کیلئے روانہ ہوئے اور وہیں پر Cenote گہرا کنوواں نما تالاب تھا اور یہ اس علاقے میں پورا ایک سلسلہ تھا جسکی وجہ سے Itza کا نام پڑا اور مشہور ہو ئے ۔۔
زیادہ تر ساتھی اور ناصر لائف جیکٹ پہن کی نیچے تالاب میں تیرنے گئے ۔۔ اس پانی میں کیلشیم کی آمیزش تھی اور صحت مند تھا اوپر سے کچھ پانی آرہا تھا ، نیچے اترنے کیلئے مناسب سیڑھیاں تھیں اور یہ چالیس فٹ گہرا تالاب تھا ۔۔ 
میں کنارے سے نظارہ کرتی رہی اور تصاویر بنائیں ۔۔
بوفے لنچ میں میکسیکن روٹیاں اور کھانے تھے ،غنیمت ہے کہ بیشتر کھانے گوشت کے بغیر تھے ،تازہ سلاد اور سبزیاں تھیں ،میٹھے میں کھیر تھی جو Rice pudding کہلاتی ہے ۔۔
واپسی میں ہم ایک قصبے میں رکے ، یہاں پر ایک چھوٹا گرجہ اور اطراف میں دکانیں تھیں ۔۔ میکسیکن چٹ پٹی چیزیں مل رہی تھیں ہم نے چورو Churo خریدا وہ مکئی کے آٹے کے آمیزے کو مشین سے موٹی سویوں کی شکل میں  نکال کرکڑاھی میں تل کر اوپر سے پسی ہوئی چینی ڈالتے ۔ کر کرا اور مزیدار تھا اسکے علاوہ مرچ مصالحہ ملی ہوئی مونگ پھلی بھی لی ۔۔
یہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا اور شام تک واپس اپنے ٹھکانے پہنچ گئے ۔۔ 
رات کے کھانے کیلئے ایک اور چھپر نما ریسٹورانٹ میں گئے جہاں عمدہ قسم کی باسBass مچھلی ثابت ، جھینگوں کا سالن ، Salsa, Guacamole اور مکئی کے چپس کے ساتھ کھایا ، میٹھے میں امرود کی کسٹرڈ  پیسٹری پہلی مرتبہ کھائی ۔ یہاں ایک طرف پانی میں لوگ جھانک رہے تھے تو معلوم ہوا کہ ریسٹورانٹ والوں کا پالتو مگر مچھ ہے جسکا کوئی نام بھی تھا اور یہ کہ کنکون کے تالابوں میں بے شمار مگر مچھ ہیں ۔۔۔۔

اگلی صبح ہم نے ہوٹل میں ہی ناشتہ کیا اور واپسی کے سفر کیلئے ائر پورٹ روانہ ہوئے ۔۔ یوں یہ دلچسپ سفر  اختتام پذیر ہوا ۔۔۔

میں نے پچھلے چند برس سے  الحمد للہ کئی یادگار سفر کئے ہیں    ۔۔حج اور عمرے کے سفر اللہ کی نعمت اور عنایت ہیں۔۔ امریکہ اور کینیڈا کی سیاحت کے ساتھ ۲۰۱۵ میں ملائشیا اور سنگاپور کا سفر کیا ۔  سب سے یادگار سفر   دسمبر ۲۰۱۸ میں فلسطین ، بیت المقدس  اور اردن کا تھا ، مصر کئی برس پہلے چھوٹے بیٹے کے ساتھ گئی تھی۔۔ 
، اسکے بعد ازبکستان ، لبنان، سری لنکا، سپین اور مراکش کے سفر بھی کافی یادگا ر تھے ۔ ۲۰۲۲ میں عاصم بیٹے کے ہمراہ Alberta  کے مشہور پارک اور وینکوور کی تفصیلی سیر کی ۔اکست ۲۰۲۳ میں روس کا سفر بھی لاجواب تھا اور اسی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہنزہ ،چترال اور کالاش کی سیر ۔۔
۲۰۲۳ کے آخر میں الاسکا اور ۲۰۲۴ کے نومبر میں کیریبین کروز یادگار رہے ۔ سب پر ہی  لکھنے کی کوشش کی ہے ورنہ تصویری سفر نامہ تو ہوتا ہی ہے ۔۔۔۔
عابدہ رحمانی ، جنوری ۹ ، ۲۰۲۵

Wednesday, January 15, 2025

Caribbean Cruise, سمندر کی تفریح

 Exploring The Caribbean shores with Norwegian cruise!


سمندر کی تفریحی سیا حت( Cruising on the sea)

از


عابدہ رحمانی


جب سے بحری جہاز رانی سے سفر کا رواج ختم ہوا ہے ، جہاز راں کمپنیوں نے نئی تجاویز نکال لی اور بحری جہازوں کو تفریحی دوروں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔۔کئی ناموں سے یہ کروز دنیا بھر میں سمندر کے مختلف خطوں کی طرف لے جاتے ہیں اور قریبی ساحلی شہروں میں اتارتے ہیں جہاں پر مزید اخراجات کر کے اس شہر کے تفریحی دلچسپ و دلفریب پروگرام منتظر ہوتے ہیں ۔ 

میں چند سہیلیوں کے ہمراہ پچھلے سال نارویجین کروز ( Norwegian cruise ) پر الاسکا گئی تھی اور آج اسی کمپنی کے ساتھ کریبئن کروز ( CaribbeanCruise ) کر کے واپس پہنچی ہوں ۔ تھکن سے چور ہوں لیکن سوچا کچھ یاد داشتیں قلمبند کردوں ۔۔

یہ جہاز سمندر کے سینے پر چلتے پھرتے ایک بہت بڑے رہائشی کمپلیکس کی صورت میں ہیں ۔۔ پچھلا جہاز بھی سترہ منزلہ تھا لیکن اسکی لمبائی چوڑائی قدرے کم تھی ۔ 

ہمارا یہ جہاز جسکا نام ( Epic) یعنی عظیم الشان تھا واقعی ایپک تھا ۔۔ ان دونوں جہازوں کا اندرونی نقشہ، طریقہ کار اور ڈیزائن ملتے جلتے تھے ۔۔  اسلئے پچھلے سفر کے تجربے کی روشنی میں کافی آسانی ہو گئی تھی کہ کونسی منزل میں کیا ہے پھربھی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جا بجا تفصیلی بورڈ لگے ہوئے ہیں ۔۔

یہ سترہ منزلہ جہاز ہر قسم کی سہولت سے آراستہ ہیں اندرونی طور پر معتدل درجہ حرارت ، کمرے یا کیبن ہوٹل کے طرز پر لیکن قدرے چھوٹے ، ان میں گرم ، ٹھنڈے درجہ حرارت کے لئے تھرمو سٹیٹ ، غسلخانے ،بیت الخلا ،الماریاں ، لاکر ، چھوٹا فرج ،فون کی سہولت موجود، صفائی کرنے والے حاضر ہوتے ہیں باہر بورڈ سیٹ کرکے روز کمرہ درست کروائیں یا نہ کروائیں۔۔ ہمارے کیبن کے ساتھ بالکنی تھی جہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی اس بے پایاں قدرت کے مظہر سمندرکا نظارہ خوب کیا۔ 

یہاں پر ہر جانب ایلیویٹرز ( Elevators) لگے ہوئے ہیں ، سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور کہیں کہیں خودکار سیڑھیاں بھی ہیں ۔۔ایلیویٹرز یا لفٹ پر بسا اوقات ایک اژدھام کی کیفیت ہو جاتی ۔بیچوں بیچ ایک خود کار وہیل چیئر ضرور آجاتی ۔ ایک بڑی تعداد معذوروں اور ضعیفوں کی تھی ۔ دو دس گیارہ سال کے معذور بچوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔۔کافی لوگ خوب لحیم شحیم تھے اور یہاں کے کھانوں سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے ۔۔

کہیں پر آرٹ کے فن پاروں کی نمائش اور فروخت تھی ، تو آگے فوٹو گرافر کھڑے یاد گار تصاویر اور پورٹریٹ بنا رہے تھے جہاں پر اکثر جوڑے اپنی تصویر بنا رہے تھے۔۔وہیں پر زیورات کی دکان میں ریفل ٹکٹ پر قرعہ اندازیاں ہو رہی تھیں اور انعامات نکل رہے تھے ۔۔میری سہیلی اور کمرے کی ساتھی کو اسی طرح قرعہ اندازی میں انعام ملا۔۔اسی طرح اور کئی دکانوں پر مختلف سیل جاری تھے ۔۔

الاسکا ہم بحر الکاہل سے گئے تھے جبکہ اب بحر اوقیانوس میں سفر کر رہے تھے ، کچھ وقت کے لئے بحیرہ کیریبین میں بھی سفر کیا ۔۔۔

ہمارے اس جہاز میں ساڑھے چار ہزار مسافر اور ایک ہزار ملازمین تھے ۔۔ہم سات مسلمان اور پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی خواتین تھیں ، ایک صومالی مسلمان جوڑے کو دو چھوٹے بچوں کے ہمراہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اسکے علاوہ خریداری کے مرکز یا شاپنگ مال میں کئی بھارتی مسلمان لڑکوں کو اچھے عہدوں پر کام کرتے دیکھ کر بہت اچھا لگا ۔۔جنرل منیجر عامر ،میرے بڑے بیٹے کا ہم نام ،اسکا تعلق سلوواکیا سے تھا۔ سارے سٹاف کا تعارف جا بجا لگے سکرینوں پر آتا رہتا تھا۔ ملازمین میں ایک بڑی تعداد فلپائنی ، دوسرے انڈین اور تیسرے انڈونیشیا کے تھے دیگر ممالک کے لوگ بھی نظر آئے لیکن کوئی پاکستانی دکھائی نہیں دیا۔۔ان سب کو ایجنسیاں براہ راست انکے ممالک سے منتخب کرتی ہیں ۔حیرت ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں کا اس طرف دھیان نہیں ہے یا آپس کی افرا تفری میں مصروف ہیں ۔۔

یہ کروز بنیادی طور پر خورد و نوش اور جوئے کے مراکز ہیں ۔۔ سمندر میں جوئے پر کوئی پابندی نہیں ہے اسلئے جہاز کی چھٹی منزل پر بہت بڑا جوا خانہ ہے جہاں پر جوئے کے شوقین مصروف ہوتے ہیں ۔ اورلینڈو ائر پورٹ پر ایک جوڑا ساتھ بیٹھا تھا ۔باتوں باتوں میں خاتون نے بتایا کہ وہ کارنیوال کروز پر جارہے ہیں اور یہ اسکے شوہر نے جوئے میں جیتا ہے ۔۔۔

یہاں پر چینی، جاپانی، اطالوی ( Italian) ، فرانسیسی اور دیگر کھانوں کے ریسٹورنٹس ہیں جو ہمارے پیکج یعنی کرائے کے معاہدے میں شامل ہوتے ہیں ۔ ایک بہت بڑا بوفے ، انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ Garden Cafe کے نام سے ہے جو ناشتے ، کھانے کیلئے ہمارا منتظر ہوتا ہے ۔۔یہاں بھانت بھانت کے کھانے ، روٹیاں ،پیزا،سلاد ، سبزی خوروں کے لئے مختلف سبزیاں ، دال ، مچھلی ، کئی قسم کے میٹھے، شربت  اور آئس کریم میسر ہوتے ہیں ۔۔ یہاں پر دنبے کا گوشت حلال ملتاہے یہ گوشت نیوزی لینڈ کی طرف سے ساری دنیا میں حلال مہیا کیا جاتاہے ۔ لیکن اس مرتبہ معلوم ہواکہ مرغی کا گوشت بھی حلال ہے ۔۔ چاروں طرف مستعد بیروں کی ایک فوج پلیٹیں اٹھانے میں مصروف ہوتی ہے صاف ستھرے کپڑے کے سفید دھاری دارنپکن کے اندر کانٹا اور چھری لپٹا ہوا ہر میز پر موجود ہوتے ہیں ۔ بیشتر لوگ کھانے کے ضیاع کو شاید برا نہیں سمجھتے ، پلیٹیں بھر بھرکر لیتے ہیں ، تھوڑا کھاتے ہیں ، زیادہ پھینکتے ہیں ۔۔ اس بچے ہوئے کھانے کو ایک مشین میں باریک پیس کر سمندر میں ڈالدیا جاتاہے ۔

شراب پانی کی طرح مل رہی ہے ۔۔ہر طرف عوام نے مختلف الکحل والے مشروبات کے جام پکڑے ہوتے تھے اور انکو بیرے بھی بنا کر دیتے تھے ۔۔ یہ بکتی ہے لیکن غالبا خشکی کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے ۔۔کچھ شوقین اس کا پیکج پہلے سے خرید لیتے ہیں  ۔۔۔۔


الاسکن کروز ( Alaskan cruise) میں موسم ٹھنڈا تھا اسلئے مغربی عوام جامے میں تھے اور صرف جام ونوش اور جوئے میں مصروف تھے ۔۔۔۔ لیکن اس مرتبہ کریبئین میں گرم موسم کی وجہ سے خلقت جامے سے تقریبا باہر تھی ۔ مردوں کے جسموں پر ٹیٹو کی عجیب و غریب خوفناک چھاپیں تھیں ، جبکہ خواتین نیم تو نہیں  تہائی عریاں تھیں اور اوپر کے عرشے پر پول اور جکوزی سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ لمبی کرسیوں پر دراز غسل آفتابی لے رہے تھے۔۔ ہاں یہ بات قابل تعریف ہے کہ جو کوئی جو کچھ کر رہا ہے کسی کو اس سے کوئی مطلب نہیں ، نہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ آوازہ کسنا۔۔ شاید یہی ترقی یافتہ ہونے کی نشانی ہو ۔۔

ہمارے جہاز کو ساحل پر چار مقامات پر رکنا تھا لیکن تین پر رکا ۔۔پورٹو پلاٹا ، ڈومینیکن ،سینٹ تھامس یو ایس ورجن آئی لینڈ ، ٹار ٹولا بر ٹش ورجن آئی لینڈ اور بہاماس ۔۔لیکن وہ موسم کی خرابی کی وجہ سے بہاماس میں نہیں رکا اور واپس اور لینڈو آگیا۔۔پورٹوپلاٹا پر ایک بس پر ہم شہر کا چکر لگایا بعد میں وہ ہمیں دوکانوں میں لے گئے ، جہاں آئس کریم کھائی اور کچھ خریداری کی ، معلوم ہوا کہ کولمبس پہلے یہیں آیا تھا۔۔۔ سخت گرمی اور حبس تھا لیکن بس ائر کنڈیشنڈ تھی ۔۔سینٹ تھامس میں ہم نے کیبل کار کی سیر کی اور شہر کا نظارہ کیا ، جبکہ ٹار ٹولا میں ایک لانچ اور بس سے سیر کی ۔ میں اس کشتی میں سامنے کے جانب تھی کہ اچانک موسم خراب ہوا، تیز بارش اور اونچی لہر سے میرے کپڑے بالکل بھیگ گئے اور مشکل سے پیچھے کی طرف آئے ۔۔ پھر ہم نے ایک کھلی بس میں اس شہر یا قصبے کادورہ کیا۔ بے انتہا سبزہ ، جا بجا ناریل اور آم کے درخت دکھائی دیے  اور ہر طرف مرغیاں پھرتی ہوئی نظر آئیں ۔۔ یہاں کے گھر اور عمارات کی طرز تعمیرپاکستان جیسی لگی ۔۔

الحمد للہ یہ  آٹھ روزہ سفر  خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔۔۔۔