Sunday, May 2, 2021

کرونا کی دہشت میں زندگی


کرونا کی دہشت میں زندگی۔۔

COVID-19

میرے مولا اس وبا کو نیست و نابود کر دو نا

از

عابدہ رحمانی


۲۰۲۰جنوری کے وسط میں چین کے  صوبے ووہان  ( جسکا  نام پہلی مرتبہ سنا ) سے ایک بیماری کی خبریں آنی شروع ہوئیں  اور ساتھ میں وہاں کے گوشت کی دوکانوں کی وڈیو سوشل میڈیا  پر آنی شروع ہوئیں ۔ انمیں ہر طر ح کے حشرات  ، سانپ ، بچھو  ، چمگادڑ  ، کتے ، بلی ، بندر  اور بھانت بھانت کے جانور وں کا گوشت نظر آیا  جو چینی خرید رہے تھے ۔  عام تاثر یہ تھا کہ یہ چمگادڑ کی بیماری ہے جنہوں نے سانپوں کو کاٹ کر انمیں جراثیم منتقل کئے  اور سانپ  کا گوشت کھاکر چینیوں میں بیماری منتقل ہوئی  یہ ایک مہلک وائرس ہے اور اسکا نام کرونا ہے ۔

چینیوں کے متعلق یہ کہاوت عام ہے کہ  سوائے چارپائی کے کوئی چوپایہ یا رینگنے والا جانور انکی دسترس سے محفوظ نہیں ہے ۔۔

اس بیماری کے متاثرین  اور اسکے تدارک کی خبریں ملتی رہیں  خبریں کیا سوشل میڈیا  خصوصا واٹس ایپ پر  ویڈیو کی بھر مار سے  اندازہ ہوتا رہا  کہ چینی عوام اس  وبا سے بچنے کی  بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔   انکے حفاظتی اقدامات کچھ عجیب سے لگتے تھے ۔ لیکن ہمیں کیا چینی جانیں اور چینیوں کی وبا ، ہم تو اس سے بچے ہوئے ہیں ۔چین ہم سے بہت دور ہے ، اسلئے چَین ہی چَین ہے  اور عام تأثر یہ تھا کہ یہ وبا وہیں ختم ہو جائیگی۔۔

فروری کے اوائل میں  ٹورنٹو واپسی پر ایمیگریشن نے یہ سوال کیا کہ پچھلے 

دنوں چین کا سفر تو نہیں کیا  اور ہمارے انکار پر مزید کچھ نہیں پوچھا۔

ہماری زندگی کے معمولات جاری تھے ۔ ہر جانب چہل پہل ، گہما گہمی   اور رونقیں ، دنیا کا کاروبار زوروں پر تھا  ۔ میں نے امریکہ جانے کی اور وہاں سے سپین جانے کی بکنگ کروائی ہوئی تھی اور اپنی تیاریوں میں مصروف تھی ۔

دیگر ممالک سے اس بیماری کی اکا دکا مریضوں کی خبریں آرہی تھیں  سخت انفلوئنزا کی قسم کے اس مرض کا کوئی مدافعتی ٹیکا نہیں ہے ۔ عجیب امر یہ کہ چین کے دیگر شہروں میں یہ مرض نہیں پھیلا اور چین نے اسے ووہان میں قابو کر لیا تھا..

چین کے ساتھ جنوبی کوریا سے بھی اس بیماری کی خبریں آنے  لگیں ۔ اسکے بعد تفریحی بحری جہا زوں پر اس وبا کے پھوٹنے کی اطلاعات آئیں ۔ کینیڈا اور امریکہ کے کافی باشندے ان Cruise ships میں  اس بیماری سے متاثر ہوئے ۔ ان بیماروں کو لانے کا مسئلہ تھا  اور کینیڈئین حکومت نے اپنے باشندوں کی کروز پر جانے کی پابندی لگادی ۔ چین کے بعد اچا نک ایران سے اس بیماری کے پھیلنے کی خبریں آئیں ۔ ایران سے آئے ہوئے اکثر لوگ اس سے متاثر تھے۔ انکو قرنطینہ میں رکھا گیا یا تاکید کی گئی ۔  کہ وہ دو  ہفتے تک الگ تھلگ رہیں گے ۔

اور کسکے گھر جائے گا طوفان بلا میرے بعد۔۔۔۔۔

اٹلی ، سپین ، برطانیہ  ، امریکہ ، کینیڈا ، پاکستان ، بھارت  کئی ممالک میں اس وبا کے پھیلنے کی اطلاعات اور تشویش آنے لگی ۔

سپین کا دورہ سوالیہ نشان بنتا جارہا تھا اور ہماری منتظم  اس کو منسوخ کرنے  کے پس و پیش میں تھیں کہ امریکہ نے یوروپ کیلئے پروازوں پر پابندی لگا دی  ۔ لیکن یہ وبا  امریکہ ، کینیڈا سمیت دنیا کے دوسو مما لک میں جڑیں گاڑچکی تھی ۔ WHO عالمی صحت کے نگران ادارے نے اسے ایک عالمی وبا قرار دیا ۔

اسوقت کے اعداد و شمار دل کو دہلانے والے ہیں ۔  اٹلی ، سپین اور امریکہ میں اموات کی شر ح  چین سے کہیں آگے جاچکی ہے  جبکہ چین اس سے نجات کی خوشیا ں منا رہاہے ۔

اسوقت اس دہشت کے ماحول میں دیگر کئی نظرئے گردش میں  ہیں جنکو سازشی نظریات کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو نظرئے کو تقویت دی گئی   

بلکہ سائینسی شواہد کے ساتھ متعدد ویڈیو واٹس ایپ پر منظر عام پر آئیں کہ  اس وائرس کو تخلیق کرنیکا کارنامہ امریکہ کا ہے 

تھا  لیکن اب یہ کہا جاتا ہے  کہ یہ سب چین کا کیا کرا یا ہے اور اسکا مقصد امریکہ اور یوروپ کی معیشت کو دھچکا پہنچانا اور اپنی حیثیت منوانا تھا۔

بہر کیف حقیقت جو بھی ہو اسوقت یہ تمام ممالک  ، امریکہ کی سپر پاؤر ، نیو ورلڈ آرڈر ، تمام سائنس ٹیکنا لوجی  تمام میڈیکل سائنس  اس نادیدہ  خورد بینی  مردہ  یا زندہ جر ثومے  کے  سامنے بے بس ہو چکے ہیں ۔محض اللہ تعالٰی  کی ذات ہی اس وبا کا خاتمہ کرنے پر قادر ہے اور اس ذات سے ہم گڑ گڑا کر اس وبا سے نجات کی دعائیں کر رہے ہیں۔۔

اسوقت دنیا بھر میں تین  لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں  ،صرف امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد ۵۱ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ۔ لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں  جبکہ ایک بڑی تعداد شفا یاب  بھی ہوچکی ہے ۔ کینیڈین وزیر اعظم کی اہلیہ صوفی کی شفا یابی ایسی تھی جیسے کہ  اپنی کوئی عزیزہ شفا یاب ہوئی ہوں اس تاریک سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کی کرن نظر آئی ۔ اب برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن انتہائی نگہداشت میں چلے گئے ۔

دیگر تمام شہریوں کی مانندمیں اپنے گھر میں محصور ہوں ، الحمدللہ کہ اللہ نے ذہنی اور جسمانی  قوت بحال رکھی ہے ۔  امید پر دنیا قایم ہے ، و  یران  ، خاموش سڑکیں ، خالی بسیں اور ٹرینیں  دکھائی دیتے ہیں  ۔  تمام  اعلے پائے کے معالج اس بات پر متفق ہیں  کہ انسانوں کا میل جول محدود کر دیا جائے ۔ اسوقت یہاں کینیڈا میں یہ قانون وضع کیا گیا ہے  کہ دو افراد کے مابین کم از کم دو میٹر یا چھ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہئے اس صورت میں یہ مہلک وائرس ایک  دوسرے کو نہیں لگ سکتا ۔ گراسری سٹور میں باہر اسی طرح فاصلے پر کھڑا کر کے تین ، چار افراد کو اندر جانے دیا جاتا ہے ۔ کیش کاؤنٹر پر  شیشے یا  فائبر گلاس کی  ایک دیوار نے کیشئر کو دھانپ رکھا  ہے یا گاہکوں سے بچایا ہے  وہ  کیش کو ہاتھ نہیں لگاتے ، Stay Home, Stay safe دنیا بھر کا مقبول نعرہ بن چکا ہے تمام طبی عملہ اس لاعلاج وبا کو اسی طرح قابو کرنیکی یا ختم کرنیکی کوشش کر رہا ہے ۔ کہ انسانوں کا میل جول محدود تریں ہو جائے  ۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ انسان کو اپنے سائے سے بھی خوف آتا ہے ۔ اللہ کا بے حد شکر ہے کہ ٹیلی ویژن ، فون اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور اپنوں سے رابطے بحال ہیں۔

حکومت اور طبی اہلکاروں کے مطابق زیادہ سے زیادہ ہفتے میں ایک مرتبہ   اشیائے خورد و نوش ( گروسری)، ادویات  یا شدید ضرورت کے تحت ڈاکٹر کے ہاں جاسکتے ہیں اور یہ ہدایات صحت مند افراد کیلئے ہیں ۔  بیماروں ، حتیٰ کہ بیرون ملک آنے والوں کے لئے دو ہفتے قرنطینہ کی سخت پابندی ہے ۔

شکر ہے کہ اس قسم کے کریڈٹ کارڈ موجود ہیں جو مشین کے اوپر سے ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں ۔ آج تو باہر سے ہر قسم کے تھیلوں پر پابندی تھی ۔ اس سے پہلے پلاسٹک کے تھیلے پانچ  سینٹ کے ملتے تھے تاکہ پلاسٹک کا استعمال کم ہو لیکن اس ہنگامی صورتحال میں یہ تشویش پس منظر میں  

چلی گئی چاس ان دیکھے وائرس ( جس سے اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اسکو نیست و نابود کردے ) کے بچاؤکیلئے  اپنی حساب سے پوری تیاری کر کے روانگی ہوئی ۔ ایک دوست کے مشورے پر گھڑی ، بریسلٹ اور انگوٹھیاں بھی اتار کر رکھ دیں۔ کیونکہ ایک تجزئے کے مطابق یہ دھات پر ۷۲ گھنٹے تک رہتا ہے ۔ اب اس وائرس کی کیمیائی حیثیت جو بھی ہو زندہ ہے یا مردہ لیکن پوری دنیا اور انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جنکو اپنی سائینس ، ٹیکنالوجی اور علم و طاقت پر اسقدر غرور تھا اب اللہ کے اس نادیدہ لشکر کے سامنے بالکل بے بس ہیں ۔ امریکہ میں جانی نقصان کی شرح  پوری دنیا سے زیادہ ہے  یعنی ۵۵   ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔  

کینیڈا میں تمام تر پابندیوں  کے باوجود  ۴۰ ہزار اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں ۔ ہلاکتیں تقریبا دو ہزار تک جاچکی ہیں ۔ الحمدللہ   کہ امریکہ اور  یوروپی ممالک کے بر عکس یہاں پر صورتحال  قدرے بہتر ہے 

 اپنے مختلف قسم کے ماسک میں سے ایک ماسک پہنا تو اس میں سانس لیتے ہوئے عینک بار بار دھندلا جاتی ۔ پرس میں ایک پرانا تحفتأ ملا ہوا ہینڈ سینیٹائزر کی بوتل ہے لیکن disposable ( تلف پذیر) دستانے بھی پہن لئے تو پھر ایک نسبتا   باریک جرسی کے کپڑے سے الاسٹک لگاکر خود ایک نقاب سا بنا لیا جو قدرے آرام دہ ہے ۔ باہر سے واپسی پر دروازے کے پاس رکھی ہوئی lysol  اور  اب clorex کے نمدار پونچھنے والے کاغذ  wet wipes سے نپکین نکال کر اس سے اپنے ہاتھ ، دروازے کا ہینڈل اور جوتے کے تلوے صاف کرتی ہوں ۔ بعد میں جیکٹ وغیرہ اتار کر صابن سے ۲۰ سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ باہر سے ڈاک لانے کے بعد بھی اسکو صاف کرکے ایک طرف ڈالدیتی ہوں۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے  کہ ہر طرف کرونا ہی کرونا ہے ۔ لیکن اس کیفیت سے اپنے آپ کو نکالنا پڑتا ہے ۔  

ساری احتیاطی تدابیر اپنی جگہ لیکن میرے رب نے اپنے  بےپناہ فضل وکرم سے مجھے ، میرے بال بچوں، بھائی بہن اور تمام عزیز و اقارب کو اس بلا سے اس وبا سے محفوظ رکھا ہے ۔   میرے رب کی قدرت ہی اس بلا کا خاتمہ کریگی چاہے وہ انسانی عقل اور کوشش سے ہو یا ماحولیاتی  تبدیلی سے ہو  انشا اللہ ۔

رمضان المبارک کا پہلا دن ہے لیکن ہم  یہ رمضان اپنے گھروں میں گزارینگے ۔ مساجد سے آنلائن پروگرام ہو رہے ہیں ۔  ان ممالک میں  رمضان میں مساجد سے تعلق بہت بڑھ جاتا ہے ۔ افطار پارٹیاں  ، نماز عشاء اور تراویح کی چہل پہل میں خوامتین اور بچوں کو اپنا اسلامی ماحول میسر آتا ہے ۔ تمامخیر ادارے رمضان میں اپنی چندہ  جمع کرنیکی  لئے تقاریب منعقد کرتی ہیں لیکن اس رمضان میں  اس قسم کا کوئی  اجتماع نا ممکن ہے ۔ 

اس وبا  کو پنجے گاڑھے ایک برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ چین میں اب مکمل خاموشی اور سکون ہے اس وائرس نے جہاں اپنی شکل بدل ڈالی  ہے وہاں انسانی دماغوں نے اسکا توڑ یعنی  ویکسین دریافت کر لی ہے جو جنوری ۲۰۲۱ سے لگنی شروع ہو گئی ہے  کئی قسم کے ویکسین منظر عام پر آچکے ہیں  انمیں فائزر کا ویکسین سر فہرست ہے ۔  اسرائیل اپنے ملک کو کرونا سے پاک کرنے کا اعلان کر چکا ہے ۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جسنے اپنی آبادی کو لاکھوں کی تعداد میں ویکسین لگا دی ہے  اب سولہ سال کی عمرکے بچوں کو بھی  ویکسین لگ رہی ہے ۔ جہاں دنیا کے بیشتر ممالک  ویکسین زیادہ سے زیادہ تعداد میں لگارہے ہیں ۔ وہاں یہ وبا  بے قابو ہوکر انسانی جانوں کو تلف کرتی جارہی ہے ۔ اسوقت سب سے بڑا   ہدف بھارت ہے جہاں روزانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں ، شمشان گھاٹ مردوں سے بھرے ہوئے ہیں  اور ہر جگہ دعا ئیں  ہورہی ہیں ۔ 

اللہ تعالی کے ان خفیہ اور  نادیدہ لشکر کے سامنے  انسانی طاقت ،سائنس ، ٹیکنالوجی اور تمام قوتیں بے بس ہوچکی ہیں ۔۔

اب یہ وائرس جو بھی ہے جہاں سے آیا ہے اسنے پوری انسانیت کو بے پناہ  خوف اور دہشت میں مبتلا کیا  ہواہے ۔ کروڑوں افراد صفحہ ہستی سے رخصت ہوچکے ۔ انکے پیاروں پر جو گذر رہی ہے اللہ ہی جانتا ہے ۔  خالق کائنات رب کریم ہی انسانیت کو اس وبا سے نجات دے اور اس وبا کو نیست و نابود کردے۔ آمین ثم آمین

No comments:

Post a Comment