Thursday, November 7, 2019

ازبکستان میں چند روز

ازبکستان میں چند روز

قسط نمبر چھ

یہاں سٹیشن پر ”بخارو“ لکھا ہوا تھا ،موسم قدرے گرم تھا ، 
بس اور گائیڈ ہماری منتظر تھی۔بخارا ازبکستان کا بڑا شہر ہے
پورے ملک کی آبادی تقریبا ۳۳ ملیئن ہے یعنی ساڑھے تین کروڑ سے بھی کم ،پاکستان میں کراچی کی آبادی ۲ کروڑ سے زیادہ ہے
بخارا کی آبادی تقریبأ ڈھائی لاکھ تھی ، بخارا اور سمرقند میں تاجک بھی کافی آبادہیں انمیں کیا فرق ہے ؟ غالبا ویسے ہی جیسے پنجابی اور پٹھان یا زبان کا فرق ہوگا۔ بخارا تاریخ میں ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔ اس کا طرز تعمیراور آثار قدیمہ ایرانی تاریخ کا اہم باب ہے ۔آتش پرست یا پارسی حکمران جیسے نوشیروان ، افراسیاب بخارا اور سمر قند کے حکمران تھے۔ بخارا کا قدیم مرکز یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کئی مساجد اور مدرسے قائم ہیں

تاریخ اسلام میں بخارا پہلی مرتبہ 850ء میں سامانیوں  کا دار الحکومت قرار پایا۔ سامانیوں کے دور عروج میں یہ شہر اسلامی دنیا میں علم و ادب کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مسلم تاریخ کے معروف عالم امام بخاریؒ اسی شہر میں پیدا ہوئے جنهیں پانچ لاکھ 500000 احادیث زبانی مع سند کے یاد تھیں۔ ان کی کتاب صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
۱۲۲۰ میں چنگیز خان نے بخارا کو بری طرح تباہ کیا ، جس کے بعد یہ چغتائی سلطنت ، تیموری سلطنت اورخان بخارا  کی حکومت میں شامل ہوا۔ یہاں کی دوسری مشہور شخصیت مشہور کیمیا دان بو علی سینا  ہیں۔
بخارا کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے ہوٹل ”ٹوران پلازا“پہنچے عمدہ ہوٹل لگا  ۔ کمرے کی چابی وغیرہ ملنے میں کچھ وقت لگا ۔تازہ دم ہو کر نیچے آئے اور ”لب حوض“ عمارت میں پہنچے  یہ شاندار عمارت اسم بامسمٰی تھی اسلئے کہ ایک حوض کے کنارے پر درختوں کے بیچ میں تعمیر کی گئی تھی ۔ توت یا شہتوت کے بڑے بڑے درخت نظر آئے ، معلوم ہوا کہ توت صوفیاء کا پسندیدہ درخت ہے اسکے پتوں اور چھال سے یہاں کاغذ تیار کیا جاتا تھا ۔ یہ ایک بالکل نئی بات معلوم ہوئی ۔ پاکستان میں اسکے پتے ریشم کے کیڑوں کا کھا نا ہے اور پھل ہمارا۔
ایک اور بات یہ معلوم ہوئی کہ ازبک باشندوں کو سفید  رنگ کی کار بہت پسند ہے اور یہ دوسرے رنگ کے کار سے مہنگی ملتی ہے ۔
یہاں سے ہوتے ہوئے ہم ایک قدیم مسجد میں گئے Magoki  Attori mosque اس منفرد مسجد کی تعمیر ایک پارسی معبد کے اوپر کی گئی ہے  اس تمام مرکزی علاقے میں اسلامی طرز تعمیر کے منفرد گنبد ، مینار اور محراب دکھائی دے رہے تھے ۔ یہاں آتے ہوئے رستے میں گائیڈ نے قدیم بخارا قلعے کی دیواریں اور فصیل دکھائی۔
اب ہمارا رخ ”چار مینار“ مدرسے کی جانب تھا، چار مینار تک پہنچنے کیلئے ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے پہنچے  یہ گلیاں اور اسکے کنارے بنے ہوئے مکانات ،پاکستان کے گاؤں  اور قصبو ں سے بہت مشابہ تھے۔، مکانات اونچی مضبوط چار دیواری چوڑے دروازے یا گیٹ اور ویسے ہی اینٹ گارے کی تعمیر  ۔۔ گلیاں ناہموار اورتنگ سی ۔
 خلیفہ نیاز کل“  نے اسے تعمیر کروایا تھا ۔ گائیڈ نے بتایا کہ خلیفہ ہندوستان کے دورے پر گیا تھا ۔ حیدر آباد دکن کے چار مینار سے وہ اسقدر متأثر ہوا کہ واپس آکر یہ مدرسہ تعمیر کیا ۔ ان تمام عظیم الشان مدرسوں کو دیکھ کر اس خطے کے علم وفضل کا اندازہ ہو رہا تھا۔یہ بھی اپنے زمانے میں ایک مشہور مدرسہ تھا ۔ ان مدرسوں کی حیثیت وہی تھی جو آجکل اعلٰی پیمانے کے سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی ہے ۔چار مینار ، فن تعمیر کی اس شاہکار عمارت کے اندر فارسی میں تعمیر کا سال ۱۲۲۲ ہجری مطابق ۱۸۰۷ عیسوی درج تھا ۔ اسکے مطابق یہ کوئی سوا دو سو سال قدیم تھی ۔۔۔
یہاں سے بس کی طرف واپس جارہے تھے کہ ایک ٹھیلے پر ایک ساتھی کیلا خریدتی دکھائی دی ، اچھے کیلے تھے ایک میں نے بھی خریدا ۔ وہاں خواجہ صاحب بھی پہنچے ،میں نے بیچنے والی خاتون کو ۵۰ ہزار کا نوٹ دیا تو وہ کہنے لگی کہ پانچ چیزیں خرید لو تمہارے پیسے پورے ہو جائینگے ۔ ہر چیز دس ہزار سوم( ایک ڈالر ) کی تھی ۔ تل کی پٹی اور بادام کے نقل کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ خریدے ۔ مڑ کر دیکھا سب جاچکے تھے ، خواجہ صاحب سے رستے کا پوچھا کہنے لگے وہ جو گاڑی جارہی ہے اس طرف چلی جائیں ۔ وہاں پہنچی تو راستے دونوں جانب تھے میں بائیں ہاتھ پر مڑی ایک آدمی دکھائی دیا تو اسے میں نے اشاروں میں اپنی بس کا بتا یا ۔ وہ ایک طرف لے جانے لگا تو مجھے یہ رستہ نامانوس لگا ۔میں پھر واپس آئی اور سیدھے ہاتھ پر مڑی یہاں بھی ایک شخص ملا اور الحمدللہ مجھے بس تک بحفاظت پہنچا دیا ۔ اس شخص کیلئے میرے دل سے اب بھی دعائیں نکلتی ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا تھا ۔
بس میں بیٹھ کر اوسان بحال ہوئے، اب ہم بخارا کے ریگستان سکوائر پہنچے  یہ وہی قدیم  اور شاندار طرز تعمیر پر بنا ہوا ہے ،ان برجوں اور  دروازوں سے اندر داخل ہوئے چاروں جانب مقامی مصنوعات کی دکانیں ہیں ، بیچ میں میزیں لگی ہوئی ہیں اور کھانا پیش کیا جارہاہے  جبکہ ایک جانب موسیقار بیٹھے ہیں اور ثقافتی ناچ گانا ہورہا ہے ۔مختلف ملبوسات میں لڑکے لڑکیاں اپنے فن کے کمالات دکھاتے رہے ۔درمیان میں ملبوسات کی ماڈلنگ بھی ہوتی رہی۔ کھانے کا دور شروع ہوا ، خوشی ہوئی کہ گوشت کے علاوہ سبزیاں اور سلاد بھی ہے ۔ موسم قدرے خنک لیکن بہت خوشگوار تھا ۔ کھانا کھاکر تھوڑی خریداری بھی کی اور واپس چلدئے۔ ایک دوکاندار دوسری کو آپو گل“پکار رہی تھی تو بہت اپنی اپنی سی لگی۔

اگلی صبح دس بجے ہوٹل سے باہر  ایک پک اپ پر بخارا کے نان برائے فروخت تھے ایک کلو کا ایک نان ، میں نے ایک ہی پر اکتفا کیا جب کہ اکثر ساتھیوں نے دو دو  خریدے خیال آیا کہ چکھنا چاہئے ہمارے عام سے نان کا ذائقہ تھا پھر میں نے اسکی تقسیم میں کوئی تاخیر نہیں کی جبکہ اکثر ساتھی اپنے ساتھ لائے اور دلچسپ تجربات سے دو چار  ہوئے۔۔ ہمارے پاس تقریبا چار گھنٹے تھے اسلئے  کہ ڈھائی بجے تاشقند کے لئے  ہماری روانگی تھی ،تو حالت یہ تھی کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ۔۔اس دوران بھاگ دوڑ کر جو دیکھا جاسکے ۔
بخارا کے انگور بہت اچھے لگے ، انار  کا جوس ایک جگہ رک کر پیا ، نکالنے والی مشین وہی تھی جس سے پاکستان میں مالٹے کا جوس نکالتے ہیں ۔چھلکے کے ساتھ انار کو دبایا گیا، چھلکے کی تھوڑی کڑواہٹ تھی لیکن برا نہیں تھا۔
یہاں کے موجودہ ناموں میں روسی انداز میں ووف کا استعمال ہے جیسے پچھلا صدر اسلام کریموف موجودہ صدر شوکت مرزائیوف جو اپنے عوام میں اصلاحاتی اور ترقیاتی کاموں کے لئے بہت مقبول ہے اسی طرح خواتین میں ووا جیسے گلنارا کریمووا۔
حضرت بہاءالدین نقشبندی کے مزار پر حاضری دی ۔۰ پیدائش : ۳۰ نومبر ۱۳۲۷ وفات ۲۱ فروری ۱۳۹۰) یہ صوفی نقشبندیہ سلسلہ کے بانی تھے  ( میرے اپنے  دادا بھی نقشبندی بزرگ تھے ) یہ سلسلہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقبول اور بڑا سلسلہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں اسلام کی ترویج اور غلبے میں انکا بڑا حصہ ہے ۔انکے مزار کے احاطے میں ایک قبرستان تھا ۔جسمیں انکے مرید اور عزیز و اقارب دفن تھے ۔ 
انکے مزار کے پاس ایک کتبہ تھا جس پر انکا مشہور قول درج تھا ۔
”دل بہ یار و دست بہ کار“
یعنی دل کو اللہ تعالٰی کے ساتھ جوڑو لیکن ہاتھوں کو کام کے ساتھ۔۔
”خوش بیگی“کے آنگن میں بیٹھے ایک شاندار عمارت تھی فرش ، دیواریں سب بہترین اینٹوں سے بنے ہوئے ایک جانب یہاں کی مصنوعات کا بازار تھا ۔ اشیاء اچھی تھیں لیکن قیمت کافی زیادہ تھی ۔ سامنے بلندی پر ایک سٹیج تھا جہاں مختلف کاسٹیوؤم پہن کر ساتھیوں نے تصاویر اتاریں ۔ یہاں ایک پاکستانی جوڑے سے ملاقات ہوئی جو ٹورنٹو سے آئے تھے اور بعد میں وہ خاتون ایک ساتھی کی شناسا نکل آئیں۔۔ میری بات چیت ایک چیک خاتون سے ہوئی جو قزاقستان، تاجکستان اور ترکمانستان سے ہوتی ہوئی آئی تھی اسنے بتایا کہ تمام ستانوں میں کافی کچھ مشترک ہوتے ہوئے بھی فرق ہے ۔ اسکے مطابق ازبکستان باقی تمام سے غر یب ہے ۔ اسکا پیمانہ میں نے نہیں دریافت کیا ۔
کالیان مسجد  اور میرِ  عرب مدرسہ ، الغ بیگ اور عبدالعزیز خان مدرسہ  سے ہوتے ہوئے ایک یہودی عبادت گاہ سائنوگاگ گئے یہاں پر یہودی اور مسلمان میں بھائی چارہ ہے یہودی یہاں اپنی عبادات میں  مصروف تھے ، میرے لئے کسی یہودی عبادت گاہ میں جانے کا یہ دوسرا موقع تھا۔ ایک اندرون شہر بازار میں پہنچے   اسکی بناؤٹ بھی انکے قدیم شاندار ماضی کی آئینہ دار ہے ۔یہاں کچھ اشیاءکا جلدی جلدی جائزہ لیا ، گروپ سے کسی بھی صورت الگ نہیں  ہونے کا خطرہ اب میرے پیش نظر تھا اسلئے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔۔

بخارا اسٹیشن پہنچے  ڈھائی بجے والی ”افراسیاب“ پر سوار ہوئے ،اس منفرد شہر بخارا کو الوداع کہا ۔ غنیمت ہے کہ ہم سب ایک ہی ڈبے میں تھے ۔ سیٹیں کافی آرام دہ تھیں ۔۔

No comments:

Post a Comment