Friday, November 1, 2019

ازبکستان میں چند روز

ازبکستان میں چند روز

قسط دو
تقریبا تمام سڑکیں اسی طرح کی آرائشی رنگین قمقموں سے بنے ہوئے دیدہ زیب ڈیزائن اور پھول پتوں سے  مزئین ہیں۔ دور سے ہمیں ایک ٹاور نظر آیا جو روشنیوں سے جھلملا رہاتھا ۔ نایئلہ نے بتایا کی یہ یہاں کا ایفل ٹاور ہے یعنی ٹی وی ٹاور جسے دیکھنے ہمیں کل جاناتھا۔( ایفل ٹاور غالبا دنیا کا پہلا اونچا ٹاور تھا ۔ اتنے سارے ٹاؤر دیکھنے کے بعد مجھے وہ محض لوہے کا ایک ڈھیر  سالگا تھا)
یہاں سے ہم ”شر شرہ“  ریسٹورنٹ میں کھانے کیلئے گئے ۔ وسیع و عریض ریسٹورنٹ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا  بلند موسیقی کے ساتھ بیچ میں  ڈانس جاری تھا اسمیں مختلف خواتین و حضرات اپنی اپنی میزوں سے اٹھ کر ہل جل رہے تھے ۔
ہماری تواضع سلاد ، ازبک نان اور سوپ سے کی گئی اسکے بعد ہمیں دنبے کے گوشت کے سیخ کے تکے وغیرہ  دئے گئے بھوک بہت لگی تھی اور کھانا اچھا لگا ۔ میٹھے میں آئس کریم ملی۔ اب ڈانس میں کافی زور آگیا اورمختلف ملبوسات میں ڈانس  کے مظاہرے ہوتے رہے۔
ہوٹل واپس ہوئے ، یہ میران انٹرنیشنل پنج ستارہ ہوٹل ، کھلا کمرہ عمدہ سہولیات۔ نمازیں ادا کیں اور سونے کی تیاری کی اگلی صبح دس بجے نکلنا تھا۔
فجر کے بعد قدرے آرام کیا تو سات بج چکے تھے، سوچاکہ  ڈائیننگ ہال میں ناشتے کے لئے جایا جائے ۔ ناشتے میں کافی لوازمات تھے ۔
آج ہم تاشقند کی تفصیلی سیر کے لئے جارہے تھے ۔ ہر جانب سیاحوں سے بھری ہوئی بسیں دیکھ کر اندازہ ہو رہاتھا کہ سیاحت یہاں زوروں پر ہے۔
پہلے ہم تاشقند میں زلزلے کی یادگار پر گئے۔ ۱۹۶۶ میں تاشقند میں ایک زبردست زلزلہ آیا جس سے شہر کی بیشتر عمارتیں تباہ ہوگئیں اموات اگرچہ زیادہ نہیں ہوئیں لیکن کافی لوگ زخمی ہوئے۔اس تباہی کی یادگار ایک مرد، عورت اور بچے کا مجسمہ بناکر دکھایا گیا ہے ۔ جو مضبوطی سے ازسرنواٹھ کھڑے ہوئےہیں۔ اسکے اطراف میں ایک خوبصورت باغ ہے ۔
ہست امام مسجد  ایک وسیع اسلامی کمپلیکس ہے اسمیں قرآن کریم کا وہ اولیں نادر نسخہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مرتب کیا تھا عثمان رض کا قرآن پاک کو محفوظ کرنیکا یہ لاجواب کارنامہ ہے (قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے “بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کرینگے" ) اس نادر  نسخے کو امیر تیمور بغداد سے اپنے ساتھ لایا اور یہاں محفوظ کیا ،چمڑے کی جھلی پر انتہائی صاف خط کوفی کی عبارت کے صفحات کھلے تھے اندازأ ۲فٹ چوڑے اور چار فٹ لمبے صفحات تھے۔  اس نایاب نسخے کی زیارت کیلئے سیاحوں کا ایک ہجوم تھا ۔ روسی سائنسدانوں نے اس نسخے کی حقیقت جاننے کیلئے جانچ پڑتال بھی کی تھی اور اسے سو فیصد اصلی نسخہ تسلیم کیا ۔ تصویر کی اجازت نہیں تھی ِ میں نے اطراف کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی لیکن وہاں موجود گارڈ نے مجھے منع کیا ۔ اسکے ساتھ دیگر قدیم نسخے اور کتا بیں تھیں ، مسجد میں ایک جانب امام بخاری انسٹیٹوٹ تھا جہاں دینی تعلیم حاصل کی جاتی ہے اسمیں  ایک بہت بڑی لائبریری بھی ہے جو اسوقت بند تھی۔دوسری جانب ایک کشادہ چوکور بازار تھا ، نائیلہ نے بتایا کہ یہ ایک مدرسہ تھا جو بند کر دیا گیا ہے ۔ یہاں پر مقامی مصنوعات کی کافی دکانیں تھیں ۔ ہم خریداری میں لگ گئے ، ازبک اِکت ڈیزائن مجھے بہت بھایا اور میں نے اسکی ایک جیکٹ خریدی جو دس ڈالر کی تھی یہ تمام دورے میں میرا نشان اور لیبل بن گئی ۔ اس ڈیزائن کی میں نے مزید کئیاشیاء خریدیں ۔اس پورے کمپلیکس کی تعمیر بے حد شاندار ہے ۔ ہمیں صاف ستھرے وضو خانے بھی مل گئے جنکو طہارتخانہ کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی اس اصطلاح کو رائج کرنا چاہیے۔( اس سے بیت الخلاء اور وضو خانے دونوں کا مقصد پورا ہوتا ہے اور اسلامی لحاظ سے درست بھیہے ۔ غسل خانے یا واش روم سے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا ) مساجد میں خواتین کی نماز کا اہتمام بھی ہے، یہاں ہم نے ظہر اور عصر کی قصر نماز اداکی۔۔ہست اما م کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ غنیمت ہے کہ اتنے سارے مزارات میں ہم نے حاضری دی ، فاتحہ خوانی کی  لیکن کہیں کوئی خلاف شرع حرکت اور بدعت دکھائی نہیں دی۔
”جوزف سٹالن“کا عقوبتی میموریل دیکھنے گئے اس روسی ڈکٹیٹر نے ازبک عوام پر بے انتہا تشددکیا ، قتل و غارتگری کی ایک داستان رقم کی ۔ ایک اونچی چھتری کی صورت میں بنے ہوئے اس یادگار میں ایک نامعلوم سپاہی کی علامتی قبر ہے ۔
اسکے سامنے ہی یہاں کا ٹی وی ٹاؤر تھا جہاں داخلے کے لئے سخت سیکورٹی کے پیش نظر ہمارے  پاسپورٹ اور ویزے جمع کئے گئے پھر یکے بعد دیگرے ہم داخل ہوئے اس ٹاؤر کی اندرونی آرائش اور راہداری کے اطراف کی تصاویر انتہائی اعلٰی اور بین الاقوامی پیمانے کی ہیں۔ کنارے پر دنیا کے تمام مثہور بلند ٹاؤروں کے ماڈل بمع تمام تفصیلات کے بنائے گئے ہیں۔ اسکے بعد ہم بذریعہ لفٹ ٹاور کی چھٹی منزل پر گئے جہاں سے تاشقند شہر کا نظارہ دیدہ زیب تھا ۔ ساتویں منزل پر revolving گھومنے والا ریسٹورنٹ تھا ۔ یہاں ہم نے ایک بریڈ باسکٹ کے ساتھ سبز چائے پی اور اسکے رفتہ رفتہ گھومنے سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ اچانک احساس ہوا کہ باقی ساتھی سب جاچکے ہیں تو بھاگم بھاگ کر بس میں آئے ۔وہاں سے ایک جگمگاتے ہوئے بازار میں داخل ہوئے جسکو براڈوے سٹریٹ کہتے ہیں اس کے دونوں جانب مختلف مصور بیٹھے اپنے فن پارے بیچ رہے تھے ہمارے کئی ساتھی وقت ضائع کئے بغیر اپنی پورٹریٹ بنانے بیٹھ گئے، شاندار پورٹریٹ بناکر فریم بھی کروالئے۔
 آج ایک اور ریسٹورنٹ میں  رات کا کھانا اور تقریبا اسی قسم کے ناچ کا مظاہرہ تھا ۔ اسمیں ہمارے گروپ کے چند شوقین بھی شامل ہوئے۔
اگلی صبح ہم نو، سوا نو بجے نکلے، چمگان پہاڑوں کے جانب روانگی تھی ، یہ یہاں سےتقریبا  سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھے ۔ہماری گائیڈ  اس دورے میں نرگس تھی جو اپنے دھیمے دلکش لہجے میں ازبکستان کے خوب قصے کہانیاں سناتی رہی ، اس سے معلوم ہوا کہ گھوڑے کا گوشت اور دودھ یہاں کافی لذیذ سمجھا جاتاہے ۔ خواہش تو ہوئی کہ چکھنا چاہئے ساتھ ہی اسنے بتایا کہ مختلف بیماریوں میں گدھے کا دودھ بھی پلایا جاتا ہے اور گدھے کا گوشت بھی کھا یا جاتا ہے اسنے اپنے بچپن میں گدھے کا دودھ کافی پیا تھا اور گوشت بھی کھا یا تھا ۔ اسی بناء پر اسکا شوہر اسکو اکثر کہتا ہے کہ اسی لئے اسکی عادتیں گدھے سے ملتی ہیں ۔(یہ لوگ سنی مسلمان ہیں لیکن ان جانوروں کا دودھ اور گوشت کھانا جائز سمجھتے ہیں ) ایک اور حیرت انگیز بات اسنے انار کے متعلق بتائی ، انار کی انکے ہاں بہت اہمیت ہے اور اسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔ اسنے بتایا کہ بادشاہوں کے تاج کا ڈیزائن انار کے تاج سے لیا گیا ہے ۔ہم سب اسوقت لاجواب تھے جب اسنے انار کے اندر دانوں کا حساب پوچھااور پھر بتایا کہ ہر انار میں ۳۶۵ دانے ہوتے ہیں ۔ اسکو کبھی گننا چاہئے لیکن مجھے تو انار کے مختلف سائز کے حساب سے یہ بات محض گپ لگی،کیونکہ قندھاری انار تقریبأ آدھے کلو کے لگ بھگ، ہزاروں کے حساب سے دانے ہوتے ہونگے۔۔بہت سی قدیم عمارات میں انار کا ڈیزائن بنایا گیا ہے،مختلف کڑھائیوں میں انار نمایاں ہے۔
نرگس نے امیر تیمور کے کافی قصے سنائے ، امیر کی ایک بیوی بی بی جان  چنگیزی نسل کی اسے بہت عزیز تھی وہ اپنے  فتوحات اور مہمات پر روانہ ہونے سے پہلے ایک عظیم الشان مسجد بنانے کا خواہشمند تھا ۔ بی بی جان نے اسکی خواہش پوری کرنیکی ٹھانی اور ایک مشہور معمار  کو اس مقصد کیلئے بلایا ، وہ معمار اسپر فدا ہوگیا ، مسجد ڈیزائن اور تعمیر  کرنیکے لئے یہ شرط رکھی کہ وہ  بی بی جان  کے گال کا بوسہ لے گا  اس بوسے  کا اسکے گال پر ایک سرخ نشان بن گیا ۔ مسجد تیار تھی کہ امیر تیمور اپنی مہمات سے واپس ہوا ۔ مسجد دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن بی بی جان  کے گال پر نشان دیکھ کر  اس سےدریافت کیا ، اسنے ایمانداری سے سب کچھ بتا یا  تو تیمور نے معمار کو چالیس ٹکڑے کر دیا اور بی بی کو محل سے نکلنے کا حکم دیا لیکن یہ کہ اسے صرف ایک چیز لے جانے کی اجازت ہے ۔ وہ بہت عقلمند عورت تھی اسنے تیمور کا انتخاب کیا اور یوں  اسے  حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ بہت اچھی شاعرہ بھی تھی۔ اسکے بعد تو چالیس ٹکڑے کرنا ایک لطیفہ بن گیا۔راستے کو دلچسپ اور پر لطف بنانے کیلئے ایک محترم ساتھی جنرل ایاز صاحب نے دلچسپ لطایف سنائے۔
نصف رستے میں ایک سرائے قسم کے خوبصورت مقام پر رکے ،یہاں بیت الخلاء استعمال کئے اور سبز چائے پی یہاں پر کئی سو سالہ قدیم عظیم الشان چنار کے درخت تھے ۔ ایک بڑے کھوکھلے درخت کو دیکھ کر کیلیفورنیا کے سیکویا درخت یادائے۔حالانکہ کوئی مقابلہ نہیں تھا ۔۔۔

عابدہ

Abida Rahmani
wwwabidar.blogspot.com

No comments:

Post a Comment