Saturday, March 17, 2018

ارزل العمر

ارزل العمر
عابدہ رحمانی
میں نے پردہ کسکا کرکھڑکی سے جھانک کر دیکھا ،لنڈا نےآج گیراج سیل   لگا یاتھا ۔وہ ہر سال گرمیوں میں گیراج سیل ضرور لگاتی ہے ۔اکثر تویہ کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کی چیزیں تبدیل کر رہی ہوں جی بھر جاتا ہے انکو دیکھ دیکھ کے ۔گرمیوں میں یہاں گلی گلی گیراج سیل لگ جاتےہیں اکثرلوگ  اپنی  متروک اور غیر ضروری اشیاء سےفراغت پانا چاہتےہیں۔ کچھ نقل مکانی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ ضرور تا اور شوقیہ پہنچ جاتے ہیں بسا اوقات تو پیک کی ہوئی بالکل نئی اشیاء اونی پونی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں ۔ عام طور سے یہ گیراج سیل یا گیراج کے باہر سجا بازار ہفتے کے روز صبح  سات بجے سے دو پہر ایک بجے تک ہوتا ہے ۔ رہنمائی کرنے کے لئے لوگ ایک روز پہلے ہی سے نشاندہی کرنے والے بورڈ چوراہوں اور سڑک کے کنارے لگا لیتے ہیں جن پر پتہ اور تاریخ درج ہو تا ہے ۔ شائقین اور گاہک انتظار میں ہوتے ہیں اور علی الصبح ہی عمدہ اشیاء کے شکارمیں پہنچ جاتے ہیں۔ 
یہ تو بالکل گھر کے مقابل تھا میں نے کچھ کیش ٹٹولا گلے میں بیگ لٹکایا اور پہنچ گئی۔
لنڈا نے کافی اشیا سجا رکھی تھیں ۔ اچھے خاصے برتنوں کے سیٹ ، نادر قسم کی  سجاوٹ کی اشیاء، کانچ کی مرصع بڑی بڑی گڑیا ئیں، باورچی خانے کا سامان ، چمچے ،برتن ،کپڑے ،جوتے ،کڑھائی اور بنائی کا سامان ، چادریں،  میز پوش غرضیکہ انواع و اقسام کی اشیاء تھیں ۔ 
چند گاہک خریداری میں مصروف تھے ۔ انسے فارغ ہوئی تو لنڈا میری طرف متوجہ ہوئی۔ 
ہیلو ہائے کے بعد میں نے  یہاں کی گرمیوں کی تعریف کی جنکا ان یخ بستہ علاقوں کے لوگوں کو شدت سے انتظار ہوتا ہے۔" موسم بہت حسین ہے اسقدر خوبصورت دن ہے۔
 آج تو تم نے بہت بڑا بازار سجایا ہے ۔ انواع و اقسام کی چیزیں ہیں ۔ " میں نے اسکی سیل کی تعریف کی۔
" ہاں یہ سب مام کی چیزیں ہیں ۔ مام بہت شوقین تھیں دنیا جہاں کی چیزیں اکٹھی کی تھیں اور اپنی چیزوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔کچھ چیزیں تو ہم تینوں بھائی بہن نے آپس میں تقسیم کر لیں "
" تو کیا انتقال ہوگیا؟ "
" نہیں زندہ ہے ۔ ترانوے برس کی ہوگئی ہیں اور الزائمر کی مریضہ ہیں ۔ نہ زندوں میں نہ مردوں میں ،  مجھے دیکھتی ہیں تو مجھے اپنی ماں سمجھتی ہیں ۔ انکی باتیں سنکر میں سخت ہیجان میں آجاتی ہوں ۔وہ میرے سامنے چھوٹی سی بچی بن جاتی ہیں ۔ جب میں انکو بتاتی ہوں کہ میں آپکی بڑی بیٹی لنڈا ہوں ۔ تو انہیں کچھ یاد نہیں آتا اور ناراض ہوجاتی ہیں۔انسان کسقدر بے بس ہے۔ 
یہ سب بہت مشکل ہے ۔بے حد مشکل ہے ۔ کاش ، اے کاش کہ مام کو اب موت آجائے ۔ مام کو اب مر جانا چاہئے ۔ " لنڈا نے پتھرائی ہوئی آنکھو ں سے مجھے دیکھا ۔
 
حدیث پاک میں یہ دعا ہے
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی سے ، بزدلی اور ارزل العمر سے ( بڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے)زندگی اور موت کے فتنوں اور عذاب قبر سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں

No comments:

Post a Comment