Saturday, July 8, 2017

کوئی ہے جو عبرت پکڑے

کوئ ہے جو عبرت پکڑے ؟؟؟؟
آخری مُغل ---- ظفرجی
یہ سلطانہ بیگم ہیں .... !!!!
کلکتہ کے قریب ھوورا کے ایک غریب محلّہ میں رہنے والی " شہزادی " !!!
حکومت کی طرف سے انہیں تقریباً 6 ہزار وظیفہ مل رہا ہے جس سے بمشکل گزارا چلتا ہے- یہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ رہائش پزیر ہیں ، پڑوس کے ساتھ مشترکہ کچن میں کھانا پکاتی ہیں اور گلی میں نصب ٹونٹی سے کپڑے دھوتی ہیں-
ان کے شوھر جن کا نام "بیدار بخت تھا ، 1980ء میں وفات پا چکے ہیں- بیدار بخت ، جمشید بخت کے بیٹے تھے جمشید بخت شہزادہ جواں بخت کا چشم و چراغ تھا اور جواں بخت ، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے چھوٹا شہزادہ تھا-
کون جانتا ہے کہ 1852ء میں شہزادہ جواں بخت کی شادی پر دلی میں دس روز تک جشن چلتا رہا-
جواں بخت 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد زندہ بچ جانے والا واحد شہزادہ تھا- بادشاہ رنگون میں جلا وطن ہوئے تو شہزادہ جواں بخت بھی بمعہ اہل و عیال ساتھ تھا- ملکہ زینت محل کی آخر دم تک یہ خواہش رہی کہ انگریز کسی طرح جواں بخت کو تختِ دلی واپس سونپ دے ، لیکن دودھ کا جلا انگریز ، کوئ نئ چھاچھ پینے کو تیار نہ تھا-
جواں بخت نے اپنے والد بہادر شاہ ظفر اور ماں بیگم زینت محل کو اپنے ہاتھوں سے رنگون کی خاک میں دفن کیا-
کسی نئ بغاوت کے خوف سے جواں بخت کو کبھی ھندوستان نہ آنے دیا گیا- اسے برما میں ایک بنگلہ عنایت کر دیا گیا- جواں بخت کا بیٹا جمشید بخت برما میں پیدا ہوا اور اس نے وہیں انگریزی تعلیم حاصل کی- جمشید بخت کو بھی ھندوستان آنے کی اجازت نہ مل سکی- اس نے 60 سالہ زندگی برما میں ہی گزار دی اور بے شمار راز سینے میں لئے 1921ء میں راہیء ملک عدم ہو گیا-
جمشید بخت کی وفات کے بعد اس کے تین سالہ بیٹے بیدار بخت کو ، اس کا ایک دور پار کا چچا کلکتہ لے آیا تاکہ انگریز حکومت سے اس کی پینشن کلیم کی جا سکے جو باپ کی وفات کے بعد بند ہو گئ تھی-
ھندووستان میں ان دنوں سیاست کی بے شمار ھانڈیاں کھول رہی تھیں- سیاسی تحاریک کے طلاطم میں ایک 3 سالہ مغل شہزادے کی آمد بھی انگریز کو بار محسوس ہوئ چنانچہ اس جرم کی پاداش میں چچّا کو فوراً گرفتار کر لیا گیا-
بعد میں بیدار بخت کی پینشن اس شرط پر بحال کی گئ کہ وہ کسی سیاسی جلسے میں سامنے نہیں لایا جائے گا اور کسی سے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی- چنانچہ وہ گمنامی کی زندگی گزارنے لگا- اسے پچاس روپے انگریز سے ، پچاس روپے نظام آف حیدر آباد سے اور سو روپے نظام الدین اولیاء فنڈ سے ملنے لگے- بیدار بخت جس اسکول یا کالج میں پڑھا ، ساتھ بیٹے طلباء کو بھی خبر نہ ہو سکی کہ وہی سابقہ مغل شہزادہ ہے-
تقسیم کے بعد بھی بیدار بخت کبھی سامنے نہ آیا- البتہ کلکتّہ کے لوگ کبھی کبھی لمبی اچکن کے ساتھ سلیم شاھی جوتا پہنے ، ہاتھ میں گلاب کا پھول لئے ایک شخص کو کلکتہ کی گلیوں میں چہل قدمی کرتے ضرور دیکھا کرتے تھے ، لیکن اس وقت تک ھندوستان کے عوام بھول چکے تھے کہ مغل بھی کبھی بادشاہ ہوا کرتے تھے-
1980ء میں بیدار بخت کا انتقال ہوا-
2015ء میں سلطانہ بیگم منظر عام پر آئیں- انہوں نے مختلف دستاویزات سے ثابت کیا کہ وہ بیدار بخت کی زوجہ ہیں- البتہ یہ اعتراض ضرور کیا جا سکتا ہے کہ شوھر کی وفات کے بعد انہوں نے ایک درزی سے شادی کر لی تھی- ان کا بیٹا کمال دوسری شادی سے ہے- ان کی سگی بیٹیاں ایک کیئر ٹیکر کے ساتھ کہیں اور رہ رہی ہیں- حالانکہ حالات ان کے بھی اچھے نہیں ہیں-
مختلف تنظیموں نے ان کےلئے آواز اٹھائ تو حکومت نے ان کی ایک بیٹی کو 15 ہزار کی ملازمت دلا کر تشفی فرمائ .... یہ کچھ سال پرانی رپورٹ ہے .... تازہ ترین حالات کیا ہیں ... رب سچا ہی جانتا ہے !!!!
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر شاھی طبیبوں کی ھدایت پر سونے چاندی کے اوراق اتنی کثرت سے تناول فرمایا کرتے تھے کہ بھنگی ان کے "اسٹول" کے منتظر رہتے تھے ، آج ان کی اولاد کو بیٹھنے کےلئے سٹول بھی مہیّا نہیں ...
کوئ ہے جو عبرت پکڑے ؟؟؟؟

No comments:

Post a Comment