Monday, February 8, 2016

تکبر ، تزکیہ نفس


’’تکبر‘‘

تکبر کے لغوی معنی بڑائی کے ہیں اور کبریائی صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے۔
انسان میں تکبر اور غرور آ جائے تو یہ اس کے لیے سراسر تباہی و بربادی ہے۔ اسی تکبر کے نتیجے میں شیطان راندۂ درگاہ ہوا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا صرف ابلیس نے نہ کیا۔ اَبٰی واستکبَرَ۔ اس نے ان کار کیا اور تکبر کیا۔ وَکَانَ من الکٰفرین۔ اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔
ابلیس نے یہ بڑائی کی کہ میں تو آگ سے بنا ہوں اور آدم مٹی سے بنا ہے مجھے اس پر فضیلت حاصل ہے اور یوں وہ تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوا اور اپنے رب کی سرکشی کی۔ اور یوں اس پر اللہ کی پھٹکار پڑی۔ اس لیے اگر ہم سوچیں تو تکبر ایک شیطانی صفت ہے اور اس صفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی آزمائش میں ڈالا ہے۔
بڑائی اور کبریائی تو صرف اللہ کے لیے ہے ہم کہتے ہیں اللہ اکبر ( اللہ بڑا ہے)۔ یعنی اس سے بڑا اور صاحب اختیار کوئی نہیں ہے۔ تو پھر انسان کس بات پر فخر و غرور جتاتا ہے؟
تکبر کی کئی وجوہات ہیں۔
(1 اپنے آپ کو بلند و برتر سمجھنا حسب نسب کے لحاظ سے، خوش شکلی کے لحاظ سے، اچھی اولاد کے لحاظ سے۔ حالانکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ تمام چیزیں عطیہ خداوندی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے اور دوسرے کو اس سے محروم کیا ہے تو یہ اس کی دین ہے کجا یہ کہ ہم ہر وقت اس کی شکرگزاری کریں ہم تفاخر و غرور میں مبتلا ہو جائیں۔ 
حسب نسب کے لحاظ سے جو برتری ہم جتاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے۔ 
اَنَّ اَکرَامَکُم عَنداللہ اتقاکُم۔ بیشک تم میں اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے جس میں تقویٰ ہو۔
پھر مال و دولت اور اولاد کے لیے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔
اَلمالُ و البُنُون زینتَ الحیوٰۃ الدین و الباقیات الصالحات خیر عِندَربک ثَواباًو خیرامَلَا۔
مال اور اولاد تو دنیا کی رونق ہیں اور جو اعمال باقی رہ جانے والے ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے لحاظ سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں۔
پھر یہ پوری دنیاوی زندگی جس کے گھمنڈ میں ہم مبتلا رہے ہیں اس کے لیے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَماَالحیٰوۃُ الدنیااَلاَّمَتَاعُ الغرور۔دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سرمایہ ہے۔
اس طرح تکبر کرنا سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ جن چیزوں کی بناء پر ہم تکبر کر رہے ہیں ایک تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اللہ چاہے تو یہ سب چیزیں ہم سے چھین بھی سکتا ہے اور پھر یہ اللہ کی عطا کردہ حیثیت اور مرتبہ ہے وہ چاہے تو ہمیں عزت دے وہ چاہے تو ہمیں ذلت دے۔ وَتُعِزُّمَن تَشاءُ وَتُذِلُ مَن تَشاءُ ۔
اب پچھلی آیات میں جو نشاندہی کی گئی ہے۔ تقویٰ اور اچھے اعمال کی یعنی اعمال صالحہ کی کہ اس کی بنیاد پر ہم اللہ کے ہاں سرخروہوں گے یا اللہ کے پسندیدہ بندے شمار کیے جائیں گے تو اب اس کی بناء پر ہم تکبر و تفاخر میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم تو اتنے نیک ہیں، پرہیزگار ہیں، اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور یہ دوسرے بندگان خدا تو انتہائی نافرمان ہیں۔ ہمارے ساتھ تو اللہ یقیناً اچھا معاملہ کرے گا ان کی نسبت۔ اب یہ جو ہمارا نفس پھول گیا تو یہ ہماری اس تمام جدوجہد کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جیسے کہ متعدد احادیث سے اس کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ ہم اللہ کی رحمت کے طلبگار ہوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارے اعمال کو قبول نہ کر لے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پھر اکڑنا، اترا کر چلنا بھی غرور و تفاخر کی نشاندہی ہے۔ 
سورہ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَلاَتصَعّر خَدَّکَ للنَّاسِ وَلاَتمشِ فی لارضِ مَرَحاً ْ اِنَّ اللہَ لاَیُحِبُّ کُلَّ مُختاًلِ فَخُورْ
اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیرو اور زمین پر اترا کر مت چلو بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کسی نے کہا آدمی اچھے کپڑے اور اچھے جوتے پسند کرتا ہے تو فرمایا اللہ نفاست اور ستھرائی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ 
ایک دوسری حدیث سے ہمیں اس آدمی کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ جو الٹے ہاتھ یعنی بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ رسول ﷺ نے اس سے کہا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اس نے کہا نہیں کھا سکتا اس نے یہ بات غرور و تکبر کی بناء پر کہی تھی۔ آپﷺ نے کہا کہ نہ کھا سکو اور وہ پھر اپنا دایاں ہاتھ نہ اٹھا سکا۔
ایک اور حدیث میں حضرت حارثہ بن ۔۔۔۔۔۔۔سے روایت ہے کہ میں نے رسولﷺ سے سنا ہے کہ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر دوں جس میں سرکش، بخیل اور متکبر ہیں۔ 
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ جو اپنا لباس غرور و تکبر سے زمین پر گھسیٹتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔
ہم یہ سوچیں کہ دعوت دین دیتے وقت کہیں ہم تکبر میں تو مبتلا نہیں ہوگئے۔ نفس ہمیں فریب دینے میں تو کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ہمارا نفس ہم پر غالب آ گیا وہ پھول گیا تو گویا ہم شکست کھا گئے، تکبر و غرور کے مریضوں کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے وہ لوگ ہرگز خدا کی بندگی نہیں کر سکتے جو اپنے نفس کی بندگی میں مبتلا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر و تفاخر سے محفوظ رکھے۔ آمین

***




تزکیہ نفس


عربی زبان میں تزکیہ کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا اور اس کو نشوونما دے کر پروان چڑھایا جائے۔ ایک اور اصلاح میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو غلط رجحانات، میلانات اور اعمال سے ہٹا کر نیکی اور تقویٰ کی راہ پر ڈالا جائے۔
اپنا تزکیہ نفس کس طرح کر سکتے ہیں؟
(1 اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا خرابیاں اور برائیاں ہیں اور انہیں دور کرنا۔
(2 اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کونسی اچھائیاں نہیں ہیں اور اس کے لیے کوشش کر کے اسے اپنے اندر پیدا کرنا۔
اب جو شخص اپنے نفس کا تزکیہ چاہے گا وہ ان اعمال کا جائزہ لے گا جن سے برائیاں اس سے دور ہوں اور اچھائیوں کا اس میں اضافہ ہو گا اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو اس میں بھی کامیاب نہیں ہوگا۔
انسانی نفس ان اعمال کو بے فائدہ اور لاحاصل سمجھتا ہے جس کے فوائد اس کے ذہن نشین نہ ہوں اس لیے تزکیہ نفس کا خیال اسی کے دل میں آسکتا ہے جو کہ یہ سمجھ لے کہ برائیاں میرے لیے ہلاکت خیز اوراچھائیاں فائدہ مند ہیں۔ اس لیے انسان کو پہلے تو یہ یقین ہو جائے کہ اللہ نے مجھے جن باتوں سے روکا ہے وہ اس لیے کہ وہ میرے لیے تباہ کن ہیں اور جن باتوں کا حکم دیا ہے وہ مجھے دنیوی اور اخروی سعادتوں سے ہمکنار کرنے والی ہیں۔
سورۃ الشمس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
قَد اَفلَح مَن زکّٰھَاْ وَقَدخابَ مَن دَسَّھَاْ 
یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور برباد ہوا وہ جس نے اسے دبا دیا۔
نفس کا تزکیہ کرنے اور دبا دینے کی تشریح یوں ہے کہ تزکیہ کا مطلب ہے پاک کرنا، ابھارنا اور نشوونما دینا یعنی جو اپنے نفس کو فسق و فجور سے پاک کر دے، اس کو ابھار کر تقویٰ اور بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشوونما دے وہ فلاح پائے ا۔
دَسَّھَا جس کامطب دبا دینے کے ہے وہ یہ کہ نامراد ہوا وہ شخص جو اپنے نفس میں نیکی کے جذبات کو ابھارنے کی بجائے اس کو دبا دے اور برائی کے رجحانات کو اتنا غالب کر دے کہ تقویٰ اورنیکیاں اس کے نیچے چھپ جائیں جیسے کہ مٹی کے نیچے لاش دبا دی جائے۔
ہمارے نفس میں دونوں قسم کی خواہشات دبی ہوئی ہیں۔ نیکی اور برائی۔ برے نفس کو نفسِ امارہ کہتے ہیں جبکہ نیک نفس کو نفسِ مطمئنہ اور جس نے نیک جذبات کو غالب کیا اس نے نفس کا تزکیہ کیا اور کامیاب ہوا۔
جب حضرت ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو یہ دعا مانگتے تھے۔ ’’اے رب ان لوگوں میں خود ان کی قوم سے ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔‘‘
حضرت زید بن ارقمؓ  بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ خدایا میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اس کا تزکیہ کر تو ہی بہتر ہستی ہے جو اس کا تزکیہ کر سکتی ہے تو ہی اس کا سرپرست اور مولا ہے۔
تزکیہ نفس کا اصل مطلب یہ ہے کہ انسان عملاً اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے اور اچھائیوں سے مزین کرنے کا کام شروع کر دے۔ اور اس سلسلے میں پہلا قدم یہ کہ اچھائیوں سے الفت اور برائیوں سے نفرت پیدا ہو۔ نیکی کی کروڑوں تعریفیں کرکنے سے بھی انسان کا نفس پاک نہیں ہوتا جب تک نیکی کو عملاً اختیار نہ کرے اور اس طرح وہ اجتماعی دکھ بھی دورنہیں ہوتے جن کا منبع گناہ ہے۔
-- 

No comments:

Post a Comment