راشد اشرف
کراچی سے
|
Subject: Mujhay Yaad Hai sab Zara ZaraA book of my personal memoir---
This book has been down loaded on publisher's website.
www.vprint.com.pk
!For my valued readers you may order your copy going through the website!
Many regards!
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا ۔ ۔ ۔
(خود نوشت)
عابدہ رحمانی
Mujhay Yaad Hai Sab Zara Zara, Abida Rahmani
جب میں نے اپنی پچھلی اور اوّلین کتاب ’’زندگی ایک سفر‘‘ چھپوائی، میرے اعزاء و اقارب اور میرے دوست احباب کی ایک ہی خواہش اور ایک ہی اعتراض تھا کہ میں نے اپنی زندگی کی کہانی، داستانِ حیات، زندگی کی روداد اچانک اُدھوری کیوں چھوڑ دی۔ ایک کرم فرما نے تبصرہ کیا کہ یہ بالکل وہی کیفیت ہوئی کہ ’’ایک پیاسے سے لبالب پانی کا بھرا ہوا پیالہ‘‘ چھین لیا جائے۔ جس کی زندگی میں اِس قدر نشیب و فراز آئے ہوں، اُس کی داستان یقینا دلچسپ ہو سکتی ہے، اگرچہ رنگینی کوئی خاص نہیں ہے کیونکہ یہ ایک نسبتاً عام سی اور سادہ سی داستان ہے۔
اللہ نے ہر ایک کے مقدر میں اُس کے حصے کی آزمائشیں لکھی ہیں۔ میرے حصے میں بھی اللہ تعالیٰ نے کافی کڑی آزمائشیں رکھی ہیں۔ اب اُن آزمائشوں پر میں کتنا پورا اُترتی ہوں، یہ میرا رَب جانتا ہے۔ لیکن مزید آزمائشوں سے پناہ مانگتی ہوں اور اللہ کی رضا کی طلبگار ہوں۔
اپنی داستان کے لیے ماضی کو کریدنا اور پچھلی یادوں میں غوطہ زن ہونا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اس فرض سے عہدہ برآ ہو جاؤں اور اپنی زندگی کے ایک دَور کی داستان کم از کم مکمل کر دوں۔ جہاں یہ میرے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو، وہی میری آنے والی نسلیں اِس کو ایک خاندانی تاریخ سمجھتے ہوئے سنبھال کر رکھیں۔ مجھے پوری طرح آگا ہی ہے کہ میری نئی نسل اُردو لکھنے پڑھنے سے کافی حد تک نابلد ہے اور وہ شاید ہی اس سے استفادہ کر سکیں۔
اپنی داستان کے لیے ماضی کو کریدنا اور پچھلی یادوں میں غوطہ زن ہونا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اس فرض سے عہدہ برآ ہو جاؤں اور اپنی زندگی کے ایک دَور کی داستان کم از کم مکمل کر دوں۔ جہاں یہ میرے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو، وہی میری آنے والی نسلیں اِس کو ایک خاندانی تاریخ سمجھتے ہوئے سنبھال کر رکھیں۔ مجھے پوری طرح آگا ہی ہے کہ میری نئی نسل اُردو لکھنے پڑھنے سے کافی حد تک نابلد ہے اور وہ شاید ہی اس سے استفادہ کر سکیں۔
یہ سب کچھ دراصل میں اپنی طمانیت اور دِلچسپی کی خاطر بھی کر رہی ہوں۔ لکھے اور سوچے الفاظ کی بہترین صورت کتاب کی صورت ہی ہو سکتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ ایک مناسب اور خوبصورت کتاب میں ڈھل سکے۔
اپنی ذاتیات کو دوسروں کے ساتھ شریک کرنا بھی قدرے مشکل کام ہے۔ زندگی کا یہ دَور، جو اِس کتاب میں ہے، قطعاً مختلف ہے اُس شخصیت سے جو میں اَب ہوں۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ یہ داستان جو میں لکھ رہی ہوں، یہ کسی اور ہی شخصیت کی داستان ہے۔
زندگی زندوں کی طرح گزرنی چاہیے اور زندگی کا سفر جاری رہنا چاہیے۔ بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی ایک جنگجو کی زندگی ہے۔ دوسرے لمحے مجھے وہ بے پناہ نعمتیں، وہ خوشیاں، وہ راحتیں یاد آتی ہیں جن سے اللہ نے مجھے نوازا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سربسجود ہو جاتی ہوں۔
زندگی کا یہ ایک دَور کتابی صورت میں مناسب طریقے سے آ جائے تو پھر دوسرے دَور کے متعلق سوچوں گی۔ اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں میری زندگی اور اس کی کہانی شاید کسی کو اَچھی بھی لگے اور کسی کا دِل بھی موہ لے۔
پچھلے ایک سال سے میں مسلسل لکھ رہی ہوں اور زیادہ تر اُردو میں لکھ رہی ہوں۔ کمپیوٹر پر اُردو لکھنے کی سہولت نے میرے کام کو کافی آسان بنا دیا ہے۔ ایک ادبی گروپ ’’بزم قلم‘‘ سے منسلک ہوں، اُس پر میری تحریریں باقاعدگی سے آ رہی ہیں۔ مشرق اخبار میں میرے کالم ’’مہان کالم‘‘ کے عنوان سے باقاعدگی سے چھپ رہے ہیں۔ بزم قلم، ادب ڈاٹ کام اور مشرق کی وجہ سے لوگ میری تحریروں کو پڑھتے ہیں اور سراہتے ہیں۔ میں مختلف دوسرے رسائل اور اخبارات میں بھی لکھتی ہوں۔ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کے رسالے ’’نور‘‘ میں میرے مضامین اور کہانیاں تواتر سے آتی ہیں۔ ماضی میں میرے مضامین انگریزی میں کراچی کے روزنامہ ’’ڈان‘‘، روزنامہ ’’جنگ‘‘ اور ’’جسارت‘‘ میں چھپتے رہے ہیں۔
اپنے قارئین کے لیے دُعاگو ہوں، آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں شامل رکھیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
عابدہ رحمانی
دنیایہ دنیا اور وە دنیاعابدہ رحمانیآج ٹوبی کی پہلی سالگرہ ہے ، ٹوبی میرا پیارا سفید پوڈل، اسے میں جب گود میں لیتی ہوں تو ہم دونوں کو ایک دوسرے سے کتنا سکون ملتا ہے مین تمہیں سمجھا نہیں سکتی" زینی نے اپنے ٹیکسٹ کے ساتھ مجھے اسکی سالگرہ کی تصویر بھیجی -ٹیکنالوجی کا کمال کہ تصویر ایک سیکنڈ میں ادھر سے ادھر چلی جاتی ہے ٹوبی نے نیلی لمبی ٹوپی نیلی جیکٹ پہنی ہوئی ہےزینی اسکے لئے آج ہی ایک نیا دبیز نرم گرم بستر اور کھلونے بھی لے آئی تھی اسکے سامنے خوبصورت سجا ہوا کیک ہے جسکی آرائیش اسکے مزاج کے مطابق کی گئی ہے اسکے اوپر پنجے اور مصنوعی ہڈیا ں بنی ہوئی ہیں پیٹ سٹور سےزینی اسکے لئے اسکی پسند کے کھانے، جوپیزا کی شکل میں بنے ہوئے ہیں، کھلونے اور کپڑے آرڈر کر آئی تھی اسکو پارلر لیجاکر اسکی گرومنگ کروائی اسکے لئے خوبصورت کارڈ بھی خریدا گیا-اور میں افریقہ کے اس بچے کی تصویر ٹوبی کی تصویر کے مقابلے میں رکھتی ہوں۔ ننگ دھڑنگ فاقہ زدہ بچہ اسکا سوکھا جسم پتلی ٹانگیں ،پتلے پتلے بازو، پھولا سا پیٹ اور نکلا ہوا سر ساتھ میں اسی حلئے میں اسکی ماں- مٹی انکا سونا ، مٹی بچھونا ، مٹی اور روہڑے پتھر انکے کھلونے اور خوراک ---- کل اسکی ماں نے نے مٹی کھودی اسے پانی ملاکر آٹے کی طرح گوندھا اسکے گول گول پیڑھے بنائے اور چھوٹی چھوٹی روٹیاں بنائیں پھر اسنے آگ جلائی انکو آگ میں سینکا اور بچوں کی طرف ایسے اہتمام سے بڑھایا جیسے واقعی وہ پکی ہوئی روٹیاں ہوں اور بچوں نے خوب کھایا اسے اس مٹی کو کھانے کیلئے اتنی محنت کی کیا ضرورت تھی غالبا وہ یہ تسکین کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ بچوں کو پکا کر کھلا رہی تھی آج کوئی چوہا اور چھپکلی بھی نظر نہ آئی - بچوں نے اور اسنے خود مٹی کی روٹیاں کھائیں اور ساتھ والے جوہڑ کا پانی پیا - وہ زندہ ہیں چل پھر رہے ہیں باتیں کرتے ہیں ہنستے ہیں کھیلتے ہیں اور ا اسی مٹی سے بنے ہوئے انسان بھی ہیں------
(سزا ( ایک افسانچہ
عابدہ رحمانیعالیہ کی طبیعت اند ہی اندر اداس ہوتی جارہی تھی دل کو جیسے کسی نے مسوس کر رکھ دیا ہو- ایک عجیب سا جذبہ اسکے اوپر حاوی تھا - دکھ و اندوہ کی ایک عجیب کیفیت- یوں لگ رہا تھا کوئی بہت عزیز ہستی چھوٹ گئی ہے -اسے اپنے آپ پر سخت غصہ آرہا تھا-اس شخص سے نہ میرا کوئی رشتہ نہ ناتا دو چار دفعہ فون پر بات ہوئی تھی یا ای میل سے تعلق تھا ایسی کیا اپنائیت ہوگئی تھی کہ اسکی باتوں اور رویئے نے اسقدر اسکی دل شکنی کر دی تھی - اس پتھر دل کی آنکھیں بار بار بھر آرہی اس جیسا شخص جسے امتداد زمانہ اور کڑے آزمائشوں نے ایک سخت پتھر دل بنا دیا تھا اس انوکھے جذبے پر حیران و شرمسار تھی- اسے اکثر محسوس ہوتا تھا کہ وہ کتنے بھی دکھ میں ہو اسکا دل رو رہا ہوتا ہے لیکن اسکی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہ ٹپکتا لیکن یہ کیا کہ اسکی آنکھیں بار بار بھیگ رہی ہیں - وہ اپنے آنسوؤں کے واپس آنے پر خوش بھی تھی اور نادم بھی-کچھ عجیب بیکلی اور بیچینی تھی اسنے اپنے آپکو مصروف کرنیکی کوشش کی وہ جس نے لوگوں سے کم سے کم توقعات وابستہ کی تھیں اپنے خون کے رشتوں تک سے بھی-- ٓٓ- تو یہ شخص جسکو وہ صحیح سے جانتی بھی نہیں تھی اس سے ایسا کیا لگاؤ اور توقع؟ - اگر وہ ناراض ہے تو ہوا کرے وہ اسکا کیا لگتا ہےوہ ایک لکھ رہا ہے وہ اسکے جواب میں دس لکھ لے وہ اسکا کیا بگاڑ سکتا ہے زیادہ سے زیادہ تعلقات ختم ہو جائینگے تو ہونے دو- نہ وہ اس سے کبھی ملی ہے نہ ملنے کی کوئی توقع -اسے یاد آیا کہ جب وہ اتفاق سے اسکے شہر گئی تھی اور اسے فون کیا تو اسکے روئے میں کتنی سرد مہری تھی یا خوف تھا کہ کہٰیں وہ ملنے کو تو نہیں کہے گی- وہ کیوں وضاحتوں پر وضاحتیں دئے جا رہی ہے- اسکی اپنی مرضی ہے وہ جو بھی کرے جیسا بھی کرے وہ اسکے کسی بات کا جواب ہی نہ دے اور سارا تعلق ختم کردے - تعلق؟ سوچ کر اسے اچانک ہنسی آئی پاس کھڑا اظہر چونکا،" مما کیا ہوا کیا کوئی دلچسپ لطیفہ ہے مجھے بھی سنایئے"اس انٹرنیٹ کو مکڑی کا جال کہتے ہیں اور اس پر کے تعلقات بھی مکڑی کے جال جیسے ہی کمزور" "اور ناپائیدار ہیں- وہ مسکرایا لگتا ہے مما کا کسی آنلائن فرینڈ سے جھگڑا ہو گیا ہے--اس آن لائن دنیا سے جان چھڑاؤ بھی تو نہیں چھوٹتی--"اور آج وہ اسے کہہ رہا ہے " آپا جسنے آپکو دکھی کیا ہے اسکے لئے سزا تجویز کیجئے --سزا تو شاید وہ اپنے لئے تجویز کرے کہ وہ اس سراب کا حصہ کیوں بنی اور اس سراب پر یقین کیوں کیا کیا وہ اتنی احمق، نا پختہ اور نا تجربہ کار ہے اور یہ سزا کیا ہونی چاہئے ابھی اسکا تعین کرنا؟----لیکن تعین ہونے میں دیر ہی کہاں لگی - ساری اصلئیت آنا فانا سامنے آگئی - یہ کھوکھلے ، جھوٹے ، انا پرست اور دھوکہ باز ---- اور اسنے اپنا سارا تعلق ختم کرکے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ وہ اس مکڑی کے جال سے نکل آئی--
--