Friday, August 31, 2012

یہ نامے میرے نام!!

وعلیکم سلام جناب بیحد ممنون ہوں اللہ تعالئ آپکو بھی خوشیاں نصیب کرے-

2012/8/31 Taiyeb Shaikh <taiyeb_shaikh@yahoo.com>
محترمہ عابدہ صاحبہ سلام مسنون
آپ کا مضون بے حد دلچسپ ہے۔ اسکو جس انداز سے آپ نے لکھا وہ قاری کو آخر تک باندھے رکھتا ہے۔ 
اللہ آپ کو خوش رکھے۔آمین
طیب
Best Regards
Taiyeb
Pune




بیحد شکریہ خالد صاحب
آپ اجکل کافی کم کم نظر آتے ہیں--
2012/8/31 M. Khalid Rahman <krahman50@yahoo.com>
Sub log jidhar wo hein udhar dekh rahay hein
Hum dekhnay waalon ki nazar dekh rahay hein

:) happy



From: Abida Rahmani <abidarahmani@yahoo.com>
To: bazmeqalam@googlegroups.com
Sent: Friday, August 31, 2012 9:56 PM
Subject: Re: FW: {14001} Guzarish

محض خواتین ہی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہیں اس بزم کے مرد حضرات کہاں کھو گئے ؟؟





Abida Rahmani
 


--- On Fri, 8/31/12, Shazia Andleeb <andleebany@gmail.com> wrote:

From: Shazia Andleeb <andleebany@gmail.com>
Subject: Re: FW: {13999} Guzarish
To: bazmeqalam@googlegroups.com
Date: Friday, August 31, 2012, 3:52 AM

لسلام و علیکم عابدہ 
میں بھی آپ سے متفق ہوںیہ واقعی ایک بہت باذوق ادبی گروپ ہے۔شاہین صاببہت قابل قدر خدمات  سر انجام د رہے ہیں۔ میں آپکی تحریریں پڑہتی رہتی ہوں بہت ہی لطف آتا ہے  اب میں بھی کوشش کر کے اپنی تحریریں بھیجوں گی۔
شکریہ شازیہ عندلیب
ناروے


2012/8/30 Abida Rahmani <abida.rahmani7@gmail.com>
  • السلا م علیکم عینی
 واقعی سبحان اللہ، میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں اس بزم قلم کی بدولت مجھے ایک بہترین ہم مزاج ادبی اور صحافتی گروپ میئسر آیا ہے اتنے پیارے دوست ، ساتھی، بھائی اور بہنیں ہیں کہ جنکی جتنی تعریف کی جائے کم ہےٓ - اس بزم کے روح رواں اعجاز شاہین صاحب جو میری غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کو خندہ ای میلز (ظاہر ہے میں انکی پیشانی نہیں دیکھ سکتی) سے برداشت کرتے ہیں اور چپ سادھے بیٹھے رہتے ہیں حد درجہ قابل ستائش ہیں - اتنے پیارے مخلص ساتھی ہیں کہ اللہ تعالی انکو جزائے خیر دے- ایک انتہائی پیاری سی چھوٹی سی بہن شولا پور انڈیا میں میری راہ تک رہی ہیں -اور پھر میرے پوختونخواہ ،کراچی اور دیگردنیا کے گرانقدرساتھی ایک انمول تحفہ ہیں  -جن کیلئے میں اللہ تبارک و تعالی کی بیحد شکر گزار ہوں-
اردو فونٹ میں تحریر کی سہولت سے میری تحریری صلاحئیتوں کو کافی جلا ملی ہے سوچ رہی ہوں کہ شاعری میں بھی کچھ قسمت آزمائی کی جائے  اپلوگوں کی حوصلہ افزائی میرے لئے بہت معنی رکھتی ہے - جزاک اللہ خیر ا کثیرا 
On Thu, Aug 30, 2012 at 8:25 AM, Ainee Niazi <ainee.niazi@gmail.com> wrote:
وعلیکم سلام
خالد صا حب ہمارا فورم بزم قلم ایک بہترین فورم ہے کہ ہم سب اپنی لکھنے کی صلاحیتوں کو نکھا رتے بھی ہیں اور دوسروں تک پہنچا تے بھی ہیں ۔عینی نیازی


On Thu, Aug 30, 2012 at 6:06 AM, Abida Rahmani <abida.rahmani7@gmail.com>wrote:
ASA Khalid sahib

I have translated this story in English .I'll forward it to you if you wish to contribute it to English papers or magazines.
Thanks a lot for your appreciation!
JazakaAllah khair!

Abida

On Wed, Aug 29, 2012 at 2:16 PM, Khalid Qureshi <krqureshi@fedex.com> wrote:
Mohtarima Abida Rehm,ani Sahiba,
Asalam O Alekum.
Aap ka mazmoon parhney ke liye open kiya toa iradah tha keh sirf ek sarsari si nazar daloon ga.
Halan Keh daftar mein bohot kaam tha phir bhi mazmoon khatam keye bagher na ruk saka.
Zehen par ek ajeeb sa asar chorra hay aap ki  is choti si kahani ne.
Allah kare aap ke qalam mein ho zoar aur ziyadah. Ameen.
I wish you could write this article with the same effect in English for non-Urdu readers to read.
It has all the details and effects of Islam without pressurizing the reader to conversion.
Best regards,
Khalid Rauf Qureshi, P. Eng.
B.Eng. (Civil), M.Eng. (Structural).IT Business Applications Advisor______________________________________________________________T  905.212.5004
M 416.938.8264
 905.212.5650 
5985 EXPLORER DRIVE MISSISSAUGA, ON, CANADA, L4W 5K6______________________________________________________________ cid:image001.gif@01C898C3.269C95E0

Wednesday, August 29, 2012

Journey of life: یہ رنگ ٹون( Ring Tone) اور موبائیل فون

Journey of life: یہ رنگ ٹون( Ring Tone) اور موبائیل فون: یہ رنگ ٹون( Ring Tone) اور موبائیل فون   عابدہ رحمانی عسکری طبی ادارے کے ماہر دنداں ساز کے موبائیل پر ملایا- مجھے انکی کل کی کارگزا...

Tuesday, August 28, 2012

یہ رنگ ٹون( Ring Tone) اور موبائیل فون


یہ رنگ ٹون( Ring Tone) اور موبائیل فون 
عابدہ رحمانی

عسکری طبی ادارے کے ماہر دنداں ساز کے موبائیل پر ملایا- مجھے انکی کل کی کارگزاری پرکافی  تکلیف کا سامنا تھا-اچانک شیخ السدیس کی آواز میں آیت الکرسی کی تلاوت شروع ہوئی پوری آیت سنی تو فون بند ہوا بعد میں انکو ٹیکسٹ کیاتو فوری جواب آیا" ماشاءاللہ بڑی اچھی تلاوت سننے کو ملی" میں نے انکے رنگ ٹون کی تعریف کی- " بہن بس اسی طرح اپنے آپکو جوڑے رکھتے ہیں"دانتوں کے مختلف علاج کے سلسلے میں اس ادارے میں اگلی مرتبہ جب ایک ماہر کی جیب سے اچانک قومی ترانہ بجنا شروع ہوا تو مجھے پہچاننے میں ہرگز تاخیر نہ ہوئی کہ یہ ضرور انکے مو بائیل کی گھنٹی ہے -- ورنہ وہ با ادب با ملاحظہ ہو جاتے -
 کسی کو فون کرو تو دفعتا ایک نعت شروع ہو جاتی ہے" میں تو پنجتن کا غلام ہوں ، میرے مولا مدینے بلالے مجھے"-جیسے مزاج ویسے ہی رنگ ٹون- ایک زمانے میں ٹیلی فون کی ایک عام فہم گھنٹی ہوا کرتی تھی ٹرن ٹرن کی آواز جسے ہر خاص و عام پہچانتا تھا- اور اب یہ آواز فون کی گھنٹی کے علاوہ کچھ بھی ہوسکتی ہے- شکر اللہ کہ لینڈ لائن کی بجتی ہوئی گھنٹی پھر بھی گھنٹی لگتی ہے اور اسکا کچھ وقار اب بھی قائم ہے لیکن یہ موبائل فون! - ایک نفیس مزاج عزیز نے اپنے داماد کو فون ملایا تو چہرے پر بیحد ناگواری کے تآثرات ابھر آئے - ذرا دیر میں داماد صاحب تشریف لائے -سسر صاحب بھرے بیٹھے تھے ،" مجھے تو یوں لگا کسی رکشے والے کو فون ملا رہا ہوں- یہ بیہودہ رنگ ٹون استغفراللہ" داماد صاحب بر خوردار قسم کے گھگھیاۓ " ابو خدا کی قسم ، یہ طلحہ نے میرا فون لیا ہوا تھا ، اسی کا کام ہے"- 
فون والے آپکو ہر وقت پیغام بھیج رہے ہوتے ہیں کہ آپکو کس قسم کا رنگ ٹوں چاہئے - فون کے اوپر بھی کافی انتخاب ہوتاہے لیکن انکے پاس لہکتے، ترکتے، دھمکتے بالی ووڈ ، ہالی ؤوڈ، بنجابی، پشتو، سرائیکی ، سندھی ، بلوچی ہر طرح کے گانے موجود ہیں، نعت ، نشید اور تلاوت ہے، پاپ بھی اور کلاسیکل بھی- نہ جانے کیوں مجھے اس طرح کے رنگ ٹون سے عجیب سی کوفت ہوتی ہے-جو حالات رنگ ٹون کے اپنے مادر وطن میں ہیں ایسے تو کہیں بھی  نہیں ہیں - ماسی کو فون ملایا 'سانو نہر والے پل تہ بلاکے "ماسی سے پوچھا یہ کیا ہے" مینو کی پتہ باجی کڑی تے منڈوں دا کم ہوئیگا، کی وجدا ہے مینو کی پتہ؟ "( مجھے کیا معلوم باجی ، میری لڑکی اور لڑکوں کا کام ہے کیا بجتا ہے ،میں کیا جانوں؟) 
پچھلے دنوں پاکستان میں موبائیل فون کے استعمال پر پابندی لگ گئی تھی کہ اس سے دہشت گردی کا خطرہ ہے-بعد میں وزیر داخلہ کا بیان آیا کہ پری پیڈ پر پابندی لگائی جاسکتی ہے جہاں ایک بڑا طبقہ اس اقدام سے غیر مطمئن نظر آیا وہاں سنجیدہ طبقے نے اسے سراہا کہ ہوسکتا ہے یہ وزیر داخلہ کے لئے انکے گزشتہ گناہؤں کا کفارہ ثابت ہو-اسکا تجزیہ کچھ یوں کیا گیا ،
وزیر داخلہ رحمان ملک پری پیڈ سم بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں -بند کرنے کا نقصان ( اپنے عزیز و اقارب سے بات کرنے میں دشواری)
فوائد-
1- 80٪ تک نوجوان نسل پر قابو
2- 90٪٪ تک اغوا براۓ تاوان پر قابو
3- 70٪ تک دہشت گردی پر قابو
4- 90٪ تک لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے پر قابو
5-  76٪ تعلیمی نقصان پر قابو
6-  50٪ قتل و غارتگری پر قابو
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں تمام برائیوں کی جڑ موبائیل فون ہے ورنہ اس سے پہلے اور اسکے بند ہونے کے بعد راوی چین ہی چین لکھتاہے--
 پاکستان میں موبائیل ،شمالی امریکہ میں سیل کہلاتا ہے یہ اگرچہ سیلولر کا مخفف ہے لیکن اسکا نام سنتے ہی ہمیں (Alcatraz) اور گوانتنامو بے کے سیل یاد آنے لگتے ہیں - الکٹراز تو ہم گھوم پھر کر آچکے ہیں البتہ دوسری جگہ خوش قسمتی یا شومئی قسمت سے ابھی تک نہیں جاسکے- موبائیل زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے گھومتا پھرتا ہوا، ہر جگہ ساتھ ساتھ- پاکستان میں موبائیل فون کی اس فراوانی یا سہولت سے میں تو بیحد متاثر ہوں اسلئے میں نے ایک چھوڑ دو سم لگوالئے تھے یہاں کے سیل تو ہماری کھال اتار دیتے ہیں-بہت ریسرچ کے بعد ایک مہینے میں تیسری کمپنی پر جاکر ٹکی ہوں- اللہ خیر کرے-
 جبکہ پاکستان میں یہ  ایک عام سہولت ہے ، ہر شخص کے پاس  موبائیل فون ہے - کم ازکم یہ ایک سہولت تو ایسی ہے کہ ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں -
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
 ماشاء اللہ ترقی یافتہ ہونے کی ایک نشانی جو پاکستان میں موجود ہے وہ بھی رحمان ملک صاحب مختلف حیلون بہانوں سے ختم کرنے کے درپے ہیں-   اب گھریلو ملازمین سے بھی رابطۓ کا یا انکو بلانے کا عام طریقہ یہ موبائیل فون ہے تابعدار قسم کے ملازم تو مس کال پر ہی فوری حاضر ہو جاتے ہیں جبکہ غچہ باز قسم کے، اپنے موبائیل کو بند رکھتے ہیں یا بہانہ تیار " جی بیٹری مر گیئ تھی" اس موبائیل کی اب خاص وعام کو اسقدر عادت ہوچکی ہے کہ اسکے بغیر جینا محال ہے -اس پرایسے چٹ پٹے لطیفے اورلاجواب ایس ایم ایس آتے ہیں! میرا چھوٹا بھائی اپنے موبائیل پر موصولہ اسقدر دلچسپ لطائف سناتا کہ طبیعت بشاش ہو جاتی - ہر کمپنی کی طرف سے تھوڑی رقم یعنی 10، 15 روپے کے خرچ پر انتہائی دلچسپ پیش کش پھر اس پر ایزی لوڈ کے وارے نیارے،ورنہ بیلنس نہ ہوتے ہوئے بھی آنیوالی کالز فری -- موبائیل کمپنیوں کے دلکش اشتہارات مجھے تو اپنی قوم کی اس تخئیلاتی فراوانی پر رشک آتا ہے- پھر فون کا مقابلہ ، آئی فون تو طبقہ امراء یا نو دولتیہ میں سٹیٹس سمبل ہوگیاہے وہ بھی ہر نیا ماڈل، ایندڈرائیڈ اور بلیک بیری بھی اسی دوڑ میں ایسے لگے ہیں جیسے بین الاقوامی بازار میں - اب جبکہ آئی فون نے اینڈرائیڈ پر نقالی کیلئے ایک بلئین ڈالر کا ہرجانہ جیت لیا تو اور سر چڑھ بیٹھا-
اس سارے قصے میں اسی موبائیل فون اور ایس ایم ایس سے  حد درجہ زیادتی تو ہمارے پڑوس بھارت میں ہوئی وہاں پر جو ہا ہا کار مچی -ہزاروں لاکھوں لوگ جنوب کے شہروں بنگلور ، چینائی، حیدرآباد سے بھاگنے پر مجبور ہوئے -ریلوےاسٹیشنوں پر ایک سیلاب کی صورت میں لوگ شمال مشرقی ریاستوں کی ظرف بھاگنے پر مجبور تھے- انٹرنیٹ ، فیس بک ،ٹوئٹر اور ہزاروں لاکھوں موبائیلوں پر ٹیکسٹ پیغامات نے ایک قیامت ڈھادی- آخر کو وہاں کی حکومت نے انٹرنیٹ اور مو بائیل فون بند کر دئے اور سارا الزام پاکستان کے سر تھوپ دیا - اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اپنے اور غیروں کے الزامات سہنے کے لئے،
 لیکن ہم بھی بھی پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں ہیں اگر ہمارا ایزی لوڈ گیا تو بھارت کی بھی خیرنہیں!!

Sunday, August 19, 2012

"ہم زندہ قوم ہیں "


"ہم زندہ قوم ہیں " 
عابدہ رحمانی 

الحمد للہ پاکستان 65 برس کا ہونے جا رہاہے - ترقی یافتہ دنیا میں اسکی حیثئیت عمر کے لحاظ سے ایک سینئیر کی ہو جائیگی یعنی معمرہو جائیگا 14 اگست 1947 کو رمضان المبارک کی 27 شب کو پاکستان معرض وجود میں آیا-امسال 14 اگست پھر 27 رمضان کو پڑ رہا ہے آللہ تبارک و تعالی اس تاریخ اور مہینے کو ہمارے لئےمتبرک بنائے--
 تقسیم ہند کے دوران خاک و خون کے دریا پاٹے گئے - عالمی تاریخ میں ایک اور انوکھی مثال قائم ہوئ، لاکھوں لوگ ہجرت کرکے ایک سر زمین سے دوسری سرزمین پر آگئے- بے بسی ، تباہی و بربادی ، ایثار و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی -اس مملکت کے ناخدا کو جلد ہی مایوس ہوکر بالآخر یہ بھی کہنا پڑا" میری دونوں جیبوں میں کھوٹے سکے ہیں"- ایک سال کے اندر وہ کمزور و ناتواں ،لیکن گھن گرج والی آواز اور اصولوں کا پکا مخلص ناخدا اس کشتی کو بیچ منجدھار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوا- اسکے بعد بڑے زیر و بم آئے- اکتوبر 1951 کو قائد کے دست راست ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپینڈی میں قتل کردیا گیا-اسی لیاقت باغ نے دوسری بھینٹ بے نظیر بھٹو کی صورت میں لی--
 کڑی آزمائیشوں اور ناگفتہ بہ حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوۓ یہ وطن اور ملت اپنی بقا کی کوششوں  میں مصروف رہا ہے اور اسوقت زیادہ شدت سے ہے  -بقول اقبال'
  یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فا تح عالم -جہاد زندگانی میں ہے یہ مردوں کی شمشیریں-
اگر ہم پاکستانی تاریخ کا ایک سرسری اجمالی جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس مملکت خداداد کو ابتداء سےہی بیرونی و اندرونی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا - دائمی حریف بھارت سے پے در پے کئی جنگیں ہوئیں 1971 کی جنگ کے نتیجے میں اپنے ایک حصے اور تقریبا نصف مملکت مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھونے پڑے- اور یہ کتنا سنگین  اور کسقدر اندوہناک المیہ تھا کہ اسکی شدت ، تباہی و بربادی، ہلاکت آفرینی اور قتل و غارت گری کا ا حاطہ کرنا نا ممکن ہے- یہاں ہرگز کفر و اسلام کا معرکہ نہیں تھا بلکہ زبانوں (بولیوں) ، تہذیب اور نظریات ، نا انصافی  اور غلط فہمیوں کے معرکے تھے- دشمنوں نے انہیں خوب خوب ہوا دی - سب سے بڑی اسلامی مملکت دو لخط ہوئی-- پاکستانی فوج کو حد درجہ حزیمت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا-
کشمیر کے تصفیئے کے لئے پاکستان کو بے انتہا قربانیاں دینی پڑیں جبکہ یہ مسئلہ ابی تک تصفیہ طلب ہے اور پاکستان کی پوزیشن بھارتی دباؤ کے پیش نظر کافی کمزور ہو چکی ہے- افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے ساتھ پاکستان افغان مسئلے میں اتنا الجھ گیا کہ الجھتا ہی چلا گیا - وقت اور حالات کے پلٹنے سے جہاد افغانستان اور مجاہدین دھشت گرد بن گئے اور وہ جو امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے اور جنکی وجہ سے روس کے ٹکڑے ٹکڑ ے ہو گئے وہ امریکہ کی نظر میں سب سے زیادہ خطرناک اور بڑے مجرم کہلائے - پھر 11 ستمبر 2001 کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقع ہوا- اسکا ملبہ جہاں افغانستان ، عراق اور دیگر مسلم دنیا پر گرا وہاں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا بند، ساتھی اور ہراول دستہ بن گیا- ان مسائیل میں الجھ کر پاکستانیوں اور پاکستان کے حالات عراق، افغانستان اور فلسطین جیسے ہو گئے--وہ جو ہم سوچتے تھے، کس کے گھر جائیگا طوفان بلا میرے بعد -اس طوفان بلا نے ہمارے اپنے گھروں ، شہروں ،گلیوں ، درسگاہوں ، مساجد، فوجیوں اور پولیس کو لپیٹ میں لے لیا - خود کش دھماکے ، فوجی رد عمل ، ڈرون حملے اور امریکی در اندازی نے جہاں ہمیں خانہ جنگی اور ایک نئی تباہی و بربادی میں ڈالدیا -وہاں حفاظتی تدابیر کی خاطر تمام حساس اداروں ، بلکہ تجارتی مراکز،ہسپتالوں، بنکوں اور دفاتر تک کو بم اور بارود کی نشاندہی والے آلات ، سکینرز اور ڈیٹیکٹرز لگانے پڑے-- جگ ہنسائی، طنز و تشنیع کے مواقع بھی اغیار کو مئیسر آئے- مدینہ منورہ میں ایک بنگالی سے بنگلہ میں گفتگو ہو رہی تھی لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ اصلا میں پاکستانی ہوں تو کہنے لگا" آپ پاکستانی لوگ بھی کیسا ہے - پہلے ہم سے مارا ماری کیا اب خود سے مارا ماری کرتا ہے"-
لاکھوں جانیں اس تباہی کی بھینٹ چڑھ گیئں - مرنے والے بھی اپنے ، مارنے والے بھی اپنے-
پھر کراچی شہر جو پاکستان کی شہ رگ کہلاتا ہے اور یقینا ہے 2 ڈھائی کروڑ آبادی والا شہر ، علم و دانش کا گہوارہ، جو منی پاکستان کہلاتاہے ، پاکستان کا غریب پرور شہر جہاں پاکستان کے ہر خطے ہر بولی والے لوگ آباد ہیں- اس شہر کو لسانئیت ، شدت پسندی اور بد امنی کی آماجگاہ بنا دیا گیا- اسکی خون آشامیاں اور خونریزیاں بے حساب ہیں  ، جہاں روزانہ دس ، بارہ بیگناہوں یا گناہگاروں کا قتل بیشتر کچھ رقم چھیننے کی کوشش، موبائیل فون  چھیننے کی کوشش میں یا گاڑی چھیننے کی کوشش میں ایک عام بات ہے جہاں کے باشندوں کو اسی بد امنی اور قتل و غارتگری کے ساتھ جینے کی عادت سی ہو گئی ہے- اسکے علاوہ ایک اور محاورہ ٹارگیٹ کلنگ کا عام ہے - جنمیں مخالفین کو نشانہ بنایا جاتا ہے--اب کون شہید ہے اور کون غازی یہ فیصلہ عالم بالا میں طے ہوگا--
بلوچستان اسوقت شدید بد امنی کی لپیٹ میں ہے روزانہ افسوسناک واقعات کی خبریں آتی ہیں جن سے دل لرزتا رہتا ہے آۓ دن خونریزی کے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں- ایک نئی خبر یہ کہ بہت سارے ہندو خاندان بھارت نکل مکانی کر رہے ہیں کیونکہ انہیں پاکستان میں اپنے اقدارکی بربادی کا خدشہ ہے-
کرپشن اور بد عنوانی کا عفرئیت تو ایسا ہے کہ اوپر سے نیچے تک سب کو لپیٹا ہوا ہے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا ایک بازار گرم ہے اپنا کام کرنے کیلئے آپ دینے پر مجبور ہیں - پچھلے دنوں اسلام آباد میں سی ڈی اے سے کچھ کام تھا میرا ایجنٹ کہنے لگا " باجی پندرہ ہزار انڈر دی ٹیبل دینے سے کام فوری ہوجائیگا" اور یہ انڈر دی ٹیبل والے ماتھے پر سجدے کا ٹیکہ اور اکثر بڑی بڑی داڑھیاں بھی رکھتے ہیں اور پہر اسی رقم سے حج اور عمرے بہی ادا کرتے ہیں - نہ معلوم وہ اسکو کوئی جائز نام کیوں نہیں دیتے؟
اس سب کے باوجود پاکستان ایک واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے یہ جہاں پاکستانیوںکیلئے باعث صد افتخار ہے- وہاں ساری دنیا کیلئے باعث تشویش ہے -
لیکن اس سب کے باوجود میری یہ قوم ایک باہمت، محنتی ،  جفا کش، زندہ دل ، بہادر ، نڈر اور دلیر قوم ہے - ساری دنیا ہاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے خوف زدہ اور تھر تھرا رہی ہے - اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر کے بارے میں محتاط رویہ اپنانے کا مشورہ دیتی ہے- لیکن پاکستانی بے پرواہ ہیں موت کو وہ ایک کھیل اور مقدر سمجھتے ہیں- اس قوم اور ملک پر ناگہانی اور قدرتی آفات بھی بھر پور انداز سے آئیں 2005 کے تباہ کن زلزلہ اور 2010 کے تباہ کن سیلاب سے ہمت اور جرآت  سے نمٹنے کے بعد زندگی ایک نئی سمت اور جہت کے ساتھ رواں دواں ہے - تمام ملک میں قرئے قرئے میں وہ بے پناہ چہل پہل اور رونق ہوتی ہے کہ چند لمحوں کے لئے تمام بد امنی، لاقانونئیت اور دہشت گردی کے قصے محض افسانہ لگتے ہیں- گرانی اور مہنگائی جھوٹ اور فریب دکھائی دیتا ہے اگر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی جائے اور دولت و دکھاوے کی ریل پیل دیکھی جائے --لوگوں کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے علاوہ معدودے چند کے-
زندہ قوموں کی طرح ہم اپنا یوم آزادی بیحد دھوم سے مناتے ہیں- میڈیا تو اسے اور شد و مد کے ساتھ مناتی ہے لیکن عوام مین جذبہ حبالوطنی بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے-ہر طرف لہراتا ہوا پاکستان کا ہلالی پرچم ، لڑکے لڑکیوں کے سبز ،سفید لباس  بلکہ لڑکیوں نے اسی مناسبت سے چوڑیاں پہن رکھی ہیں ، ہر طرف بجتے ہوئے ملی نغمے ایک زندہ اور پائیندہ قوم کو ظاہر کر رہے ہیں-اور پھر آتش بازیاں جنکی چکا چوند ایک ہلچل پیدا کرتی ہے-
بیرونی ممالک میں بھی پاکستانی بساط بھر یوم آزادی منانے کی کوشش کرتے ہیں --ٹورنٹو میں سٹی سنٹر جسکا نام ناتھن فلپس اسکوائیر ہے میں یوم آزادی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے-ایک میلے کا سا سماں ، اسمیں سفیر پاکستان اور پاکستانی کمیئونٹی حکومت کینیڈا کے اہلکارعام طور سے اونٹاریوکے پریمئیر  کو مدعو کرتی ہے - سہیل رعنا کی ٹیم انکے دائمی ملی نغموں کے ساتھ موجود ہوتی ہے - وہ نغمے جنکو سنکر ہم اپنی ماضی میں کھو جاتے ہیں-
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے- سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے-
دعا کریں کہ اللہ تعالی اس سرزمین کو ظلم و استحصال و استبداد کے پنجے سے نجات دے اور پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی اسلامی ریاست بنائے---آمین

-- 

Saturday, August 18, 2012

Journey of life: عید کا چاند ڈھونڈو وہ ہم کو لادو کہ چندا کہیں جسے"...

Journey of life: عید کا چاند ڈھونڈو وہ ہم کو لادو کہ چندا کہیں جسے"...: عید کا چاند ڈھونڈو وہ ہم کو لادو کہ چندا کہیں جسے"  عابدہ رحمانی ناسا ، امریکہ کے سائنسدانوں نے مریخ پر اپنی تحقیقاتی گاڑی کیوریئ...

عید کا چاند ڈھونڈو وہ ہم کو لادو کہ چندا کہیں جسے"


عید کا چاند

ڈھونڈو وہ ہم کو لادو کہ چندا کہیں جسے" 

عابدہ رحمانی

ناسا ، امریکہ کے سائنسدانوں نے مریخ پر اپنی تحقیقاتی گاڑی کیوریئوسیٹی کی کامیاب لینڈنگ یعنی اترنے کیلئے بے پناہ خوشی منائی-کینیڈا والوں نے بھی ساتھ دیا کیونہ وہ امریکہ کے ساتھ چولی دامن والا ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، انکے تحقیقاتی مشنوں میں ساتھ ہوتے ہیں اور احساس دلاتے رہتے ہیں ،" ہم بھی تو ہیں"- جب کہ ہم مسلمان ابھی رمضان کے اختتام پر عید کا چاند ڈھونڈھنے کی کوشش کرینگے-آختتام سے مراد ہے 29 کی شب کیونکہ 30 کو تو  چاند کو بہر حال نکلنا ہی ہوتا ہے- ہلال عید یا عید کا چاند ہماری آدھی نہیں تو کم ازکم ایک تہائی اردو شاعری کا احاطہ کئے ہوے ہے۔اس چاند کو ڈھونڈھنے  اور پانے کیلئے کیا کیا رومانی اور جذباتی  اشعار کہے گئے ہیں کہ انمیں سے ایک بھی ابھی میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے شائد گوگل کرنا پڑیگا  - پھر اس چاند اور محبوب کے حسن جمال کا موازنہ ، جذ با تئیت تو بر صغیر میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے -پھر اس پر مستزاد اردو محاورے جنمیں عید کا چاند جا بجا استعمال ہوتا ہے-چاند اور عید کے چاند کو حسن و جمال کے استعاروں میں وصال و فراق کے محاؤروں میں خوب خوب چاشنی ملاکر بیان کی گیا ہے-
رمضان کی 29 کو جتنی ڈھونڈیا اس چاند کی ہوتی ہے کہ چاند کو خود بھی  اس اہمیئت کا اندازہ نہیں ہوگا-یا شائد ہے جب ہی تو وہ جھلک نہٰیں دکھلاتا یا ہلکی سی جھلک دکھلا کر غائب ہوجاتا ہے- عرب دنیا میں نہ معلوم چاند اور عید کے چاند کے ساتھ کیا رومانئیت منسلک ہے وہ عربی میں اپنی تہی دامنی کے سبب میں نہیں جانتی لیکن یقینا وہاں کے مؤمنین بھی چاہتے ہونگے کہ 29 پر چاند ہو جائے اور وہ ایک اور روزے سے بچ جایئں -آجکل تو وہاں پر شدید ترین گرم موسم ہے -ہاں البتہ انپر ایر کنڈیشننگ کے لحاظ سے اللہ کا احسان ہے- امریکہ کے روشن خیال مسلمانوں کو کیلنڈر بنانے کا خیال آیا اور اسکے حساب سے چاند کی تاریخیں طے کیں اس حساب سے ہم کیلنڈر والوں کو پورے 30 روزے رکھنے ہیں اور ہماری زندگی سے چاند کا انتظار غائب ہوگیا -- لیکن دیگر کافی تعداد میں بھائی بندے اس پر متفق نہ ہو سکے ، انہوں نے چاند دیکھنے اور ڈھونڈنے کو ہی صحیح جانآ- اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھنا افضل ہے ، ہم اپنے مطالب کیلئے سنت کی پیروی خوب کرتے ہیں-
 پاکستان میں روئیت ہلال کمیتی بنی ہوئی ہے جنکا اہم کام عید اور رمضان کے چاند کو نکالنا ہوتا ہے، اسکے سرپرست اعلے  عموماایک انتہائی ضعیف العمر اور بزرگ مولانا کو نامزد کیا جاتا ہے جنکی بینائی بھی خاصی کمزورہو چکی ہوتی ہے-( معذرت کے ساتھ) -لمبی چوڑی تقریریں اور تکلفات ہوتے ہیں چاند کو ڈھونڈھنا ایک اہم ترین فریضہ ہوتا ہے - پوری قوم دم بخود ہوتی ہے کہ اب چاند نکلا کہ نکلا اکثر اوقات ایسا ہوا کہ چاند کی خبر رات کو با رہ بجنے کے بعد آئی اور اکثر نے اگلے روزے کی سحری بھی کرلی اور معلوم ہوا کہ عید ہوگئی-ہمارے خیبر پختونخواہ والے عید کو پشتو میں" اختر" کہتے ہیں - عیدالفطر چھوٹی عید کہلاتی ہے جبکہ عیدالاضحی بڑی عید - اور وہ کبھی بھی بقیہ پاکستان سے عید اور رمضان پر متفق نہیں ہوتے بلکہ ایک روز پہلے مناتے ہیں ، چاہے روئیت ہلال والے پشاور میں ہی چاند نکال ڈالیں- اس مرتبہ خبریں آرہی ہیں کہ انہوں نے بقیہ پاکستان کے ساتھ اختر اور رمضان کا فیصلہ کیا ہے - ایک انتہائی انوکھا کام ،اللہ خیر کرے--
عرب ممالک میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے چاند کی ڈھونڈیا ہوتی ہے- یوروپ، آسٹریلیا، کینیڈا، دیگر ممالک  اور امریکہ والےیا تو اپنے طور پر چاند کو ڈھونڈتے ہیں کچھ اپنے موروثی ممالک کی پیروی بھی کر ڈالتے ہیں کہ عید انکے ساتھ منائی جاۓ-

پاکستان میں چاند رات کو بڑے شہروں اور کراچی میں جو چہل پہل ہوتی ہے اور چاند رات کا بازاروں میں جو رت جگا ہوتا ہے وہ منچلوں اور نوجوانوں کے لئے ایک حد درجہ لطف کا باعث ہوتا ہے- لڑکیاں بالیاں ساری رات مہندی اور چوڑیوں کے چکر میں کاٹ دیتی ہیں چوڑیوں والے منہ مانگے دام لیتے ہیں -کتنے سٹال بن جاتے ہیں کالج یونیورسٹی کے لڑکے باجیوں کو چوڑیاں پہنانے کے لئے ایک سے ایک بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر با پردہ اور با حیا خواتین بھی چوڑیاں بچانے کی چکر میں ہاتھ بڑھا لیتی ہیں ارے ڈاکٹر، درزی اور چوڑی والے سے کیسا تکلف؟ کیا چناکے ہوتے ہیں جب تنگ سے تنگ چوڑیا ں پہنائی جائیں--لیکن اس طرح سے ٹوٹنے والی ساری کی ساری چوڑی والے کی ہوتی ہیں--نہ جانے یہ ریت ابھی تک قائم ہے ؟- اس سے پہلے تو خواتین دعائیں مانگتی تھیں کہ آج چاند نہ ہو اور انکو عید کی تیاری کرنے کا ایک اور روز مل جاۓ- آخری وقت کی خریداریاں ، پکوان کی تیاریاں ، کئی اقسام کی سویئاں، ہوائیاں کٹ رہیں ، مصالحے پس رہے ہیں،ساری ساری رات خواتین کی اگلے دن کی تیاریوں میں گزر جاتی ہے  -اس سے پہلے جب گھروں میں سلیقہ شعار خواتین سلائیاں کرتی تھیں تو  گوٹے لچکےٹانکنا ،تر پائیاں کرنا اور پھر تمام ملبوسات کا اہتمام کہ تینوں دنوں میں کیا کیا پہننا ہے کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے- موجودہ دور میں بوتیک اور درزیوں نے عید کے اہتمام کو لوٹ لیا ہے -رمضان کے پہلے ہی سے درزیوں کے مزاج بگڑنے شروع ہوتے ہیں اور پہر یہ لوڈ شیڈنگ کا عارضہ یا بہانہ- اب چاند رات میں بوتیک اپنی قیمتیں کم از کم دگنی کر دیتے ہیں-اسکے ساتھ پارلروں کا راج ہوتا ہے مردانہ اور زنانہ دونوں-مہندی کا کام تو تمام دنیا میں کون کی ایجاد سے کافی آسان ہوگیا ہے اس کون کے ایجاد کرنیوالے کو ایک مہندی ایوارڈ براۓ تجدیدئیت ضرور دینا چاہئے تھا- اگلے روز عید کی نماز کے لئے گھر کے مرد ہی جاتے تھے اسوقت تک خواتین کی باقی تیاریاں ہوچکتی تھیں-
 ہم لوگوں کے ہاں عید کا کیا اہتمام ہوتا تھا اکثر گھروں میں رنگ روغن تک ہو جاتا تھا - گملے تک رنگ دئے جاتے ہر چیز اجلی اور جاذب نظر ہو -پھر عیدیوں کا سلسلہ اگلے روز صبح سے ہی شروع ہوتا تھا جسنے رات کو سب سے زیادہ پریشان کیاتھا ڈھول پیٹنے والا وہ سب سے پہلے ، پھر گلی کا خاکروب جو عیدیں پر ہی نظر اتا تھا اور پہرچوکیدار، مالی، ڈاکیہ جو ساری ڈاک جمع کرکے صرف عید کے دن لاکر دیتا ایک سے ایک عید کارڈ، بھیجنے والوں کی محبت کی گواہ ہوتے- ہم نے بھی درجنوں عید کارڈ بھیج دئے ہوتے- ایک تانتا سا بندھ جاتا ملازمین، اپنے بچوں ، عزیز رشتہ داروں کا سلسلہ الگ جاری رہتا - بچے اپنی عیدی گن گن کر خوش ہوۓ جاتے تھے-
میں اس نوسٹالجیا سے نکنا چاہتی ہوں - یہ وقت خوش ہونے کا ہے- اب جن ممالک میں ہوں اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کیا کہنے ورنہ خصوصا چھٹی کا انتظام کرنا پڑتا ہے اسکولوں سے بچؤں کی اکثر چھٹی کرا دی جاتی ہے-لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسطرح نئی نسل کو اپنے دین اور روایات سے جوڑا جاۓ- اسکے لئے عید کے اہتمام پر کافی توجہ دی جاتی ہے- بہت سے بچوں کو یہ شعور دلاتے ہیں کہ ہم کرسمس نہیں بلکہ عید مناتے ہیں اسلئے بچوں کو عید کے تحائف دئے جاتے ہیں بلکہ خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو تحائف دیتۓ ہیں، گھروں کو کرسمس کی بتیوں سے سجا دیتے ہیں اندرونی خانہ بھی غباروں اور جھنڈیوںسے آرائش کر دی جاتی ہے ٹورنٹو مین کافی سارے مقامی سٹورزنے عید مبارک اور رمضان سیل لگائی ہوئی ہے اسی کوٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں- ہم بھی خوش وہ بہی خوش -مسیساگا میں یوں بہی محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے قریب پہنچ گئے ہیں- مساجد میں مستحقین کو عید کے تحائف دۓ جارہے ہیں اسکے لئے پہلے ہی سے فطرہ دینے کی اپیل کی جاتی ہے- فوڈبنک میں کافی خشک خوراک جمع ہوچکی ہے ، بچوں کے لئے کھلونے بھی جمع ہیں - ہم نے ان ممالک سے بہت سی اچھے طور طریقے بھی سیکھ لئے ہیں- عید کی نماز کے لئے  علی الصبح تیاری اور روانگی ہوتی ہے - اکثر مساجد دوبلکہ تین نمازیں ادا کرتے ہیں اسلامک سنٹر آف کینیڈا میں تین نمازیں ہونگی-  اسمیں جو چہل پہل ہوتی ہے ، سبحان اللہ
ان مساجد نے مسلمانوں کو جتنا متحرک کیا ہوا ہے کہ اللہ نظر بد سے بچاۓ -ذرا دیر قبل 29 رمضان کا قیام کر کے آرہے ہیں-ماشاءاللہ!
عید کی تیاریاں یہاں بھی پورےزور شور سے ہوتی ہیں اب تو آن لائن پاکستان کے بوتیک سے آرڈر پر کپڑے منگوائے جاسکتے ہیں ،یہاں پر ہر دوسری تیسری خاتون کا یہی بزنس ہے  اور دیگر لوازمات بھی مل رہے ہوتے ہیں- اسکے علاوہ عید میلے بھی لگ جاتے ہیں جن میں خوب رونق ہوتی ہے-
اکثر لوگوں کے ہاں چاند رات کا خوب اہتمام ہوتا ہے بڑی بڑی پارٹیاں ہو جاتی ہیں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں اسمیں مدعو ہوتی ہیں مہندیاں سج رہی ہیں ، چوڑیاں پہنی جا رہٰی ہیں، ڈھولک کی تاپ، گیت گائے جا رہے ہیں کبھی گیت لگا کر کچھ پھیرے بھی لگا لئے جاتے ہیں آخر کو خوش ہونے کا بھی حق ہے اور جائزبھی ہے- یہاں عام طور پر عید میں لوگ اوپن ہاؤس کا اعلان کرکے احباب کو مدعو کرتے ہیں - یہ سلسلہ کافی دلچسپ ہوتا ہے کافی دوست احباب سے ملاقات ہو جاتی ہے لیکن صاحب خانہ کو کافی اہتمام کرنا پڑتاہے- اسکے لئے اوقات کا تعئین کردیا جاتا ہے- مساجد کی سطح پر بھی چاند رات اور عیدملن کی پارٹیاں ہوجاتی ہیں اور یہ پارٹیاں روزے داروں کے لئے جہاں ایک انعام ہوتی ہیں وہاں ان سے روزے نہ رکھنے والے بھی لظف اندوز ہوتے ہیں- اور کیوں نہ ہوں بقول کسے' ہم کم ازکم عید تو مناتے ہیں'-

آپ سب کو عید کی دلی مبارکباد ، اللہ کرے یہ آپ کیلئے اور اپکے تمام اہل خانہ کے لئے مسرتوں اور رحمتوں کا پیامبر ہو-

Tuesday, August 7, 2012

مزاق ہی مزاق میں


 مزاق ہی مزاق میں

عابدہ رحمانی
 
آج ماہا اور بچوں کو ائر پورٹ چھوڑ کر آیا تو گھر کاٹ کھارہاتھا عجیب ایک ویرانی سی لگ رہی تھی-جاتے ہوۓ زہرہ تو بالکل چمٹ کر رہ گئی تھی ایک ھی رٹ" پا پا ہمارے ساتھ چلو نا' سیکیورٹی گیٹ پر بڑ ی مشکل سے ماہا نے الگ کیا اسکی چینخوں سے ادھر ادھر کے سارے مسافرعجیب پریشان سے ہوگئے-بڑے دونوں بچے خاموش تھے- بڑی مشکلوں سے ماں کے قابو میںآئی-جب تک نظروں سے اوجھل نہیں ہوۓ میں کھڑا تکتا رہا اور ہاتھ ہلاتا رھا- گیٹ پر پہنچ کے ماہا نے فون کیا سب سے باری باری بات ہوتی رہی زہرہ بس پاپا آجاؤکی رٹ لگا رکھی تھی- 
اماں بھی اپنی تنہائ سے عاجز اچکی ہوتی ہیں ، بڑی بے چینی سے انکی گرمیوں کی چٹھیوں کا انتظار کرتی ہیں- ہر فون میں یہی سوال کب آرہے ہو؟ اسمرتبہ مجھے چھٹیاں نہیں مل رہی تھیں اور بچوں کی ہوچکی تھیں تو یہ فیصلہ ہوا کہ انکو بھیج دیا جاۓ -میں آخر میں کھینچ تان کے ایک ہفتے کے لئے چلا جاؤنگا--یہ ملازمت کی ذمہ داریاں بھی انسان کو بے بس کر دیتی ہیں--ائرپورٹ سے سیدھے گھر واپس آیا کچھ ہلچل پیدا کرنے کے لئے بآواز بلند ٹی وی لگایا حامد میر کا ٹاک شو آرھا تھا ایک تو پاکستان کی سیاست یوں لگتا ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں- پلیٹ میں فرج میں رکھے ہوۓ ڈشز سے کھانا نکالا پورا فرج اور فریزر کھانوں سے بھر کر گئی ہے ماہا ، ایک ایک ڈبے پر مارکر سے لکھ ڈالا ہے کہ اسمیں کیا ہے میں اتنی اچھی بیوی کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے --" دیکھو گھر کا کھانا کھانا ، ورنہ پھر تیزابیئت اور پیٹ کی خرابی کا مسئلہ ہوگا اور کولیسٹرول بڑھ جائےگا "، اسے میری ایک ایک تکلیف اور ضرورت کا احساس تھا-
میں بھی صراط مستقیم پر چلنے والا شخص ہوں ' دفتر ' گھر ' بیوی اور بچے ! اسی میں خوش اور مطمئن ہوں ماہا میری اچھی دوست بھی ہے اسے اپنی ہر بات بتا کر بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں -اکثر اوقات سوچتا ہوں نمعلوم اللہ تعالیٰ کو میری کونسی نیکی بھا گئی تھی ورنہ تو------
کھانے کی پلیٹ مائیکرو ویو میں رکھی  اؤون ٹوسٹر میں روٹی گرم کی ،اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا- ابھی ماہا اور بچے فلائیٹ پر ہونگے ، دو گھنٹے کے بعد اتریں گے تو بات ہوگی-- میں دل ہی دل میں انکی حفاظت کی دعائیں مانگ رہاتھا- آج مصروفیئت کی وجہ سے مٰیں اپنی ای میل   وغیرہ نہیں دیکھ سکا دفتر سے چھٹی تھی فون پر میں نے خاص  طورسے انٹرنیٹ سروس نہیں لی زیادہ تر چھوٹے ٹیکسٹ بھیجتا ہوں ، فیس بک میں استعمال نہیں کرتا اگرچہ اکاؤنٹ ہے لیکن اتنی ای میلوں کے بعد مجھے وقت کا زیاں لگتا ہےیہ انٹر نیٹ ہماری زندگی میں ایسے داخل ہو گیا کہ ایک بنیادی ضرورت بن گیااتنے سارے گروپوں کو نمعلوم میرا پتہ کیسے مل گیا ہے کتنی ای میل  بغیر پڑھے ڈیلیٹ کر دیتا ہوں واھیات قسم کی سپام میں ڈال دیتا ہوں یہ بھلا کون ہوسکتا ہے؟” چاندنی خان کسی   لڑکی کی میل تھی بڑی دلچسپ سی، امریکہ میں رہتی ہے اور اردو سیکھنے کی خواشمند ہے ٹوٹی پوٹی رومن میں لکھا تھا نمعلوم اسکے اس میل میں کیا جادو تھا کہ میں جواب دئے بغیر نہیں رہ سکایہ اکاؤنٹ میں نے اپنے   چند  دوستوں اور عزیزوں  کو بیوقو ف بنانےکے لئے ایک جعلی نام سے بنایا تھا اسلئے بھی میں اپنے آپکو محفوظ خیال کر رہا تھا,اسی نام سے کچہ  گروپس    پر بھی اظہار خیال کرتا ، وہ کیا جانے کہ میں دراصل کون ہوں-نمعلوم کیوں مجہے اپنے آپکو خفیہ رکھنے میں بیحد لطف اتا    ہیلو ھائے کا جواب میں نے سلام سے دیا اور سلام کی اہمئت واضح کی اپنے طور پر میرا کردار ایک ناصح کا تھا  اس طرح چاندنی کے ساتھ میرا آن لائن تعلق قائم ہوا-
ماہاسےدن میں ایک دو مرتبہ بات ہوجاتی وہ اور بچے گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے پریشان تھے دوبئی کی شدید گرمی میں بھی گرمی کا احساس کم ہوتا ہے گاڑی گھربازار، مال،اسکول ، دفاتر ائر کندیشنڈ بلکہ یخ بستہ،بجلی ہمہ وقت میئسراسکے جانے کاکوئی تصور ہی نھی ںاسکے علاوہ سستی توانائی بجلی اور پٹرول، ہر خاص و عام اس سے مستفید ہےان ممالک نے اتنے کم عرصے میں ان آسائشوں اور سہولتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا ہے – ماہا مزاق کرتی” کیا کسی کو ڈھونڈھ لیا ہے اپنا غم غلط کرنے کو ؟ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ میں کیسا باوفا شوہر ہوں اوربرائیوں سے دامن بچا بچا کر رکھتا ہوں ورنہ دوبئی کو تو مشرق کا لاس ویگاس کہتے ہیں،میں اسکی بات کو ہنس کر ٹال دیتا-اسے میں اپنی ساری باتیں بتاتا دفترکےساتھیوں کے قصے،فلپینی، لبنانی،اماراتی اور انڈئین جو ساتھ کام کرتی ہیں انکی ادائیں اور دلربائ کے انداز-اکثر نے تو میرا نام مولانا رکھا تھا  کیونکے انکے  بہت سےدلفریب پروگراموں کو میں بڑی خوبصورتی سے ٹال   دیا کرتا ---  نمعلوم کیوں میں نے اسے نہیں بتایا کہ میری زندگی میں چپکے سے ایک چاندنی داخل ہوچکی ہے- ایک معصوم سی بھولی بھالی لڑکی جو بات بے بات اپنی ماما کے حوالے سے بات کرتی، جسکے دو چھوٹے بھائی تھے جنکو دیسی سخت نا پسند تھے اسکی ماما نے اسکی شادی جلد کرا دی تھی لیکن وہ طلاق پر منتج ھو گئی- اسنے مجھے بتایا کہ ایک پاکستانی سٹوڈنٹ جو اسکی ما ما کی دوست کا بیٹا تھا اس سے اسکی شادی ہوئی اور بقول اسکے وہ سخت بد تمیز اور مطالباتی تھا -ہر وقت لڑائی جھگڑا ہوتا ایک مرتبہ اسنے غصے میں ہاتھ اٹھا دیا ،جسپر اسنے پولیس کو فون کیا پولیس اسے پکڑ کر لے گئی اور ڈی پورٹ کردیا - اب وہ ایک یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور پڑھنا چاھتی ہے- میں نے اپنے آپکو کنوارہ ظاہر کیا اور اپنی رہائش قطر کی دکھائی-
اسکی معصوم سی باتوں سے میں نے اسکی ایک خیالی تصویر بنا ڈالی تھی اور خیال ہی خیال میں اسکے بارے میں سوچتا تھا اسنے ایک ادھ مرتبہ اپنی تصویر بھیجنے کا ذکر کیا اور مجھے کافی بے چینی سے انتظار بھی رہا لیکن پھر بات ائی گئی ہوگئی- میں اپنے طور پر اسکے مسئلے مسائل کا حل پیش کرتا تھا قرآن اور احادیث کے حوالے بھی ہوجاتے -اسکی ماں اسکے لیے پھر سے رشتے ڈھونڈھ رہی تھی اور وہ کافی پریشان تھی- میں نے اسے کافی مخلصانہ مشورے دیے کہ وہ ماں کے کہنے پر شادی کر لے- ٹوٹٰی پھوٹی اردو میں اسکے لکھے ہوئے میلز کئی مرتبہ پڑھتا تھا- کچھ عجیب انجانا سا جزبہ تھا کہ میں اسکی طرف کھینچتا گیا-جس روز اسکی میل نہیں آتی ایک بے چینی اور خلش مجھے گھیرے رکھتی-مجھے اپنی اس کیفئیت پر سخت غصہ بہی آتا لیکن پھر اسکی ایک شوخ چینچل سی ای میل میری ساری کدورت دور کر دیتی- ہمارا تعلق انتہائی اخلاق اور ا صول کے دائروں پر محیط تھا ہمارے مابین کبھی کوئی عامیانہ گفتگو نہیں ہوئی -شائد یہی وجہ تھی کہ میری نفیس اور پاکیزہ طبیعت کو اس سے رانطے مین لطف آتا تھا  اسکی اس ای میل نے مجھے چونکا تو دیا تھا جس میں اسنے پوچھا ' کیا میرا رابطہ رکھنا آپ سے ٹھیک ہے؟' میں نے اس خوف سے اس کا جواب ہی نہ دیا کہ کہیں واقعی رابطہ ختم نہ ہوجائے- اس کیفیئت میں دو مہینے گزرگئے میر ی چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں کہ اسکی ای میل آئی وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ انڈیا جارہی تھی اور اسکی مما اسکے صحت کے لئے کافی اندیشوں میں مبتلا تھی-- اچانک خاموشی چھا گیئ میں رو زاسکے میل کا انتظار کرتا - شکائیتی ای میل بھی بھیجیں، کاش کہ اسکا کوئی دوسرا رابطہ میرے پاس ہوتا ، فون نمبر ، فیس بک اکاؤنٹ کچھ عجیب سا ایک خلا محسوس ہو رہا تھا-- یہ بشری نفسیات بھی کیا چیز ہے اور اسکے تقاضے اسلئے تو انسان کو خطا کا پتلا کہا جاتا ہے-
پاکستان گیاتو اماں، ماہا اور بچے بری طرح منتظر تھے بچوں کی ڈھیروں فرمائیشیں ، لیکن گرمی سے بری طرح پریشان اماں کا تقاضہ کہ بھور بن ، مری یا نتھیاگلی لیکر چلے جاؤ- زہرا تو سارا وقت پیچھے پیچھے چپکی ہوئی، کہیں پاپا پھر چھوڑ کر نہ چلے جائیں- اماں کے پاس انٹرنیٹ تو تھا نہیں ، ابھی میں موبائیل ڈرائیؤ لینے کی سوچ میں ہی تھا- کہ خیال آیا کہ روشن آپا کے گھر جاکر آج اپنی میل چیک کر لیتا ہوں - میں جانتا تھا کہ روشن آپا کے پاس ڈی ایس ایل لگا ہوا ہے اور وہ خود بھی کافی کمپیوٹر کی شوقین ہیں - روشن آپا سے میری خوب نوک جھونک چلتی تھی وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑی تھٰیں لیکن ہماری خوب نبھتی تھی ایک مرتبہ ایک جعلی اکاؤنٹ بنا کر میں انہیں خوب بیوقوف بنا چکا تھا--
روشن آپا گھر پر نہیں تھیں انکی پرانی ملازمہ نے میرا استقبال کیا، ' جی بی بی ابھی تھوڑی دیر مٰیں آنے والی ہیں آپ انتظار کیجیے- آپ کو چائے بنا دوں؟ " اسے معلوم تھا کہ میں چائے کا رسیا ہوں-- میں انکی سٹڈ ی میں چلا گیا کمپیوٹر آن تھا میں جاکر بیٹھ گیا - یہ کیا چاندنی خان کا اکاؤنٹ؟ مجھے عجیب جھر جھری سی آگیئ میرے سارے ای میل میرا منہ چڑھا رہے تھے
میری کیفئت اسوقت کچھ ایسی ہورہی تھی جب آدم کو شیطان نے شجر ممنوعہ کھلا دیا تھا--------
 
 

Monday, August 6, 2012

Journey of life:  ڈالر کا بھاؤ "یہ جمال تیرےرخ زیبا کا؟عابدہ رحما...

Journey of life:  ڈالر کا بھاؤ "یہ جمال تیرےرخ زیبا کا؟

عابدہ رحما...
:   ڈالر کا بھاؤ "یہ جمال تیرےرخ زیبا کا؟ عابدہ رحمانی " باجی آج 96 کا ہے "ایک منی چینجر جس سے میں رابطے میں تھی اسکا فون آیا اور پھر ...
 ڈالر کا بھاؤ "یہ جمال تیرےرخ زیبا کا؟

عابدہ رحمانی

"باجی آج 96 کا ہے "ایک منی چینجر جس سے میں رابطے میں تھی اسکا فون آیا اور پھر دیکھتے ھی دیکھتے یہ چھلانگیںمارتا ہوا  97 اور 98 کا ہو گیا بلکہ  99تک پہنچ گیا مجھے خدشہ تھا کہ راشد اشرف کی سو کراس کرنے کی پیشن گوئی پوری ہونے جا رہی ہے-
 میں نے بھی اسے مخمصے میں ڈال رکھا رکھا تھا -" میم یہ بتا ئیں کیا آپ خرید رہی ہیں یا بیچ رہی ہیں ؟" آج اسنے مجھے باجی سے میم بنا دیا-" دیکھیئے میں اپکو مارکیٹ سے بہتر ریٹ دونگا آپ ہر جگہ معلوم کرلیںپانچ پیسے کا فرق تو ضرور ہوگا -میں آپکو بتاؤں بیچنے کے لیے بہترین وقت ہے اگر نیٹو کا رستہ کھل گیا تو ڈالر فورا نیچے آ جائے گا" اسکا یہ کہنا تھا کہ میرے کان کھڑے ہوۓ- کیا نیٹو کے لئے راستہ کھل رہا ہے -؟ " ہاں جی کوشش تو پوری ہو رہی ہے دیکھئے یہ امریکا اور پاکستان دونوں کی مجبوری اور ضرورت ہے "- وہ بے تکان بولے جا رہا تھا ممکن ہے اسوقت فارغ ہو -- میں نے  اسے گول مول جواب دیکر ٹال دیا اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اگر اسکا ریٹ اچھا ہوا تو اسی کے ساتھ معاملہ کرونگی بات ختم ہوئی-
اس سکہ رائج الوقت نے پاکستانی روپے سے جو دوڑ لگائی ہےتو روپے کو کہیں کا نہیں چھوڑا-حتی کہ سبزی والے سے پوچھو "بھئ یہ سبزی اتنی مہنگی کیوں ہے " "باجی ڈالر جو مہنگا ہوگیا ہے " اب سوچنے کی بات یہ کیا پاکستان میں سبزی امریکہ سے آتی ہے ؟"
جو باہرزرمبادلہ میں کما رہے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو یہاں بھیج رہے ہیں انکے وارے نیارے ہیں اگرچہ زیادہ تر بھیجنے والے مشرق وسطی اور سعودی عرب سے ہیں جوریال اور درہم بھیجتے ہیں اور وہی ہیں جو کہ حقیقتا کچھ بچا رہے ہیں چونکہ بغیر ٹیکس کے آمدن ہے - امریکہ ، کینیڈا اور یوروپ والے تو اپنے ٹیکسوں اور اخراجات سے نڈھال ہیں لیکن جو بھی وہ اپنے اعزاء کو بھیجتے ہیں یا آکر خرچ کرتے ہیں تو مزے ہی مزے اورفائدے ہی فائدے ہیں-
کچھ عرصہ پہلے جب میں سان فرانسسکو میں گھوم پھر رہی تھی تو چند یوروپیئن اور آسٹریلیئن سیاحوں سے بات ہوئی سب اس بات سے بیحد خوش تھے کہ آجکل انکی کرنسی  یورو اور آسٹریلیئن ڈالر امریکی ڈالر پر بھاری ہے اور تو اور کینیڈا والے بھی سرحد پار خریداری پر خریداریاں کرنے جارہے تھے ،کچھ نہیں تو گروسری سٹورز سے دودھ کے ڈبوں پر ڈبے خرید کر کینیڈا آرہے تھے آخر بارہ ہزار میل  کی لمبی سرحد کا کچھ فائدہ تو اٹھایا جاۓ-آخبار میں بھی خبر چھپی کہ جو ریڑھی( cart )دودھ سے بھری ہو سمجھ لو کہ وہ کینیڈئین ہے- دراصل امریکہ میں دودھ کینیڈا کی نسبت سستا ہے --اور چین تو اجکل چین ہی چین کی بانسری بجا رہا ہے ڈالر اسکا مقروض اور وہ آنکھیں دکھاتا رہتا ہے-
 لیکن اپنے پاکستان کی ایسی قسمت کہاں؟ یہاں پر تو ڈالر کے تیور پچھلے کچھ عرصے سے جو بگڑے ہیں کہ درست ہونے کا نام ہی نہیں لیتے- ڈالر خریدنے والا اپنی جمع پونجی کے بدلے مونگ پھلی خریدتا ہے بقول امریکیوں کے ( just peanuts  ) -ہاں البتہ بیچنے والے کی پانچوں گھی میں!
پاکستانی روپے کی ایک زمانے میں کچھ وقعت تھی بلکہ بھارت کے روپے سے بہتر تھا اور بنگلہ دیشی تو زرمبادلہ یہاں سے کما کر بھیجتے تھے-ایک روپیہ کئی ٹکہ کے برابر تھا اب پاکستانی روپیہ دونوں کرنسی سے کہیں پیچھے رہ گیا-28 مئی 1998 کو جو ایٹمی دھماکہ ہوا اسی وقت عالمی بندشوں کے خوف سے زر مبادلہ کی بیرون ملک ترسیل پر فی الفور پابندی لگائی گئی لیکن راتوں رات اربوں ڈالر بیرون ملک جاچکے تھے انمیں پابندی لگانے والے بھی شامل تھے- بیچارے عوام اسوقت ڈالر 57 سے 70 کا ہو چکا تھا اور وہ پابندیوں کی زد میں تھے- جنکے بچے بیرون ملک زیر تعلیم تھے انکے اخراجات پورے کرنا ،ایک مسئلہ تھا-
مشرف دور میں چاہے بردہ فروشی ہوئی ہو لیکن ڈالروں کی ریل پیل ہوئی اور قدرے استحکام ہوا-ہمارے خواص اور عوام جو ڈالروں کے رسیا ہیں اور کیوں نہ ہوں-سوئس بنکوں کے کھاتے بھرے ہوۓ ہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں انسان بھی کتنی سیکیورٹی چاہتا ہے جبکہ اگلے لمحے کا کوئی بھروسہ ہی نہیں - میں ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھی اور اپنے آپکو طفل تسلیاں دے رہی تھی کہ اچانک یہ مژدہ جانفزا ملا کہ ہیلری نے حنا کو سلالہ کے شہیدوں کے خون ناحق پر سوری کہہ دیا اور نیٹو کا رستہ کھل گیاہے-
اگلی صبح خبر آئی کہ ڈالر گرنا شروع ہوا منی چینجر پریشان کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں " ارے بھئ ہم تو اس تالاب میں ایک چھوٹی سی مچھلی ہیں-just a small fry" ایک رازدار نے مشورہ دیا چند روز رک جائیں واپس 90 پر آجائے گا-
ابھی یہ گرنا شروع ہوا ہی تھا کہ قاضی صاحب تو قاضی صاحب منور صاحب سبحان اللہ !لانگ مارچ کا اعلان ہوا، دھرنا دینے کا اعلان ہوا ، عمران خان بھی دکان چمکانے آگے بڑھےدیگر طالع آزما بھی شامل ہوۓ - پھر خبر آئی کہ وکٹوریہ نو لینڈ نے معافی یا سوری والی بات کا تمسخر اڑایا یاsarcastic
ہوگئی-نہمعلوم یہ ہمارے سیاستدان ہمیں چین کیوں نہیں لینے دیتے حالانکہ خود چین ہی چین ہے-- 
اور یہ کیا " جی آج 30۔ 93میں بیچ رہاہوں اور اگلے روز پھر 50۔93 اور پھر مرتے کیا نہ کرتے----------