Monday, February 24, 2025

I stand for Hijab


I stand for Hijab! Why Hijab Necessary in Islam for women?


By Abida Rahmani •


 Feb 1st, 


On February 1st the world Hijab day is celebrated in recognition of millions of Muslim women who choose to wear the hijab and live a life of modesty. Islam uplifted the status of women and granted them their just rights 1400 years ago. Islam expects women to maintain their modesty. Modesty is required even for me Allah swt first mention Hijab or lowering their gaze first for men before women.


 

The Qur’an mentions in Surah Noor:


“Say to the believing men that they should lower their gaze and guard their modesty: that will make for greater purity for them: and Allah is well acquainted with all that they do.”

[Al-Qur’an 24:30]


The moment a man looks at a woman and if any brazen or unashamed thought comes to his mind, he should lower his gaze.


Hijab for women.:


The next verse of Surah Noor, says:


“ And say to the believing women that they should lower their gaze and guard their modesty; that they should not display their beauty and ornaments except what (must ordinarily) appear thereof; that they should draw veils over their bosoms and not display their beauty except to their husbands, their fathers, their husbands’ fathers, their sons…”

[Al-Qur’an 24:31]


following verses of Surah Al-Ahzab:


“O Prophet! Tell thy wives and daughters, and the believing women that they should cast their outer garments over their persons (when abroad); that is most convenient, that they should be known (as such) and not teased. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.”

[Al-Qur’an 33:59]


The Qur’an says that Hijab has been prescribed for the women so that they are recognized as modest women and this will also prevent them from being teased.


The status of women in Islam is often the target of attacks in the secular media. The ‘hijab’ or the Islamic dress is cited by many as an example of the ‘subjugation’ of women under Islamic law.  There are many benefits or advantages of hijab in Islam.

criteria for Hijab.


According to Qur’an and Sunnah there are basically few criteria for observing


hijab:


1. Extent:

The first criterion is the extent of the body that should be covered. This is different for men and women. The extent of covering obligatory on the male is to cover the body at least from the navel to the knees. For women, the extent of covering obligatory is to cover the complete body except the face and the hands up to the wrist and the feet. If they wish to, they can cover even these parts of the body. Some scholars of Islam insist that the face and the hands are part of the obligatory extent of ‘hijab’. All the remaining five criteria are the same for men and women.


2. The clothes worn should be loose and should not reveal the figure.


3. The clothes worn should not be transparent such that one can see through them.


4. The clothes worn should not be so glamorous as to attract the opposite sex.

Muslim women have different type of hijabs or coverings in different cultures and societies. The main purpose is to remain modest and chaste. In western countries and here in America a convenient style of covering is adopted . It is not too loose or falling apart and one can carry out day to day work conveniently wearing this hijab.

It is a a symbol for Muslim woman. What ever dress she is wearing  and covering her head , it is easily recognizable of her being a Muslim.


Hijab includes conduct and behaviour among other things.


Complete ‘hijab’, besides the criteria of clothing, also includes the moral conduct, behavior, attitude and intention of the individual. A person only fulfilling the criteria of ‘hijab’ of the clothes is observing ‘hijab’ in a limited sense. ‘Hijab’ of the clothes should be accompanied by ‘hijab’ of the eyes, ‘hijab’ of the heart, ‘hijab’ of thought and ‘hijab’ of intention. It also includes the way a person walks, the way a person talks, the way he behaves, etc.


To celebrate hijab day  the idea is  to foster religious tolerance and understanding by inviting women, both non-hijabi Muslims and non-Muslims, to experience hijab for one day.. By opening up new pathways to understanding, to counteract some of the controversies surrounding why Muslim women choose to wear the hijab.


So many Muslim women left wearing Hijab in USA , Canada, Europe and many countries because of the hatred, backlash and fear to Muslims after the incident of 9/11 and a lot of Islamophobic remarks.


It is a good revival of bonds and giving strength the ideology especially in youth to practice this order of Allah and Quran.

Tuesday, February 18, 2025

چلو بھر پانی

 چلو بھر پانی----- عابدہ رحمانی

چلو بھر پانی؛ میں ڈوب جاؤ یا ڈوب مرو،اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے اور زبان زد عام ہے ۔عام طور سے یہ غیرت دلانے اور شرمندہ کرنیکے لئے کہا جاتاہے اسلئے کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو درکنار کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا ، البتہ پیاس سے تڑپتے ہوئے شخص کے لئے چلو بھر پانی بھی کافی ہوتا ہے ۔۔

امریکی ریاست مشی گن کے قصبے فلنٹ ' میں پانی کی آلودگی نے پورے امریکہ میں ایک ہلچل اور تشویش پھیلادی۔۔پانی اس حد تک آلودہ تھا کہ اسکا رنگ بھورا تھا اور اسمیں سیسے کی آمیزش خطرناک حد تک تھی۔۔اس سے کئی لوگ بیمار اور متاثر ہوئے۔۔اسطرح کا ألودہ پانی اور وہ بھی امریکہ میں پورے ملک میں ایک زبردست ہنگامہ مچ گیا ۔۔ اسکو نسلی ، طبقاتی رنگ بھی دیا گیا کیونکہ اس علاقے میں بیشتر أبادی سیاہ فام لوگوں کی ہے ۔۔ مشہور و معروف حق کی أواز بلند کرنیوالے ہالی ووڈ کے متنازغہ فلمسازاور ہدایت کار مائیکل مور کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے ۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے یہاں کے باشندوں کو سہارا دینے کیلئے یہاں ایک صدارتی امیدواروں کا مبا حثہ رکھا۔۔ابھی حال ہی میں ان افسران کا کڑا احتساب کیا گیا ،انکو معطل کیا گیا اور کڑی سزائیں تجویز ہوئیں وہ جو فلنٹ میں پانی کی رسد اور ترسیل کے ذمہ دار تھے اور جنکی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوسناک واقع ظہور پذیر ہوا۔۔

اس واقعے سے مجھے اپنے کراچی میں رہائش کے وہ تکلیف دن یادآگئے جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی  کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے

اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا، یا میں پمپ چلانا بھول گئی ہوں ۔۔یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوہات ہیں-

میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک میں آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین valve manتو جیسےہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنےکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہے،ہرگز ہرگز مبالغہ آرایئ نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول اللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایئ ہیں وہ میں اور میرا رب یا میرے گھر والے جانتے ہیں ۔ جب میرے ہاں رہائشی مہمان أتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہوتی تھی کہ پانی کی رسد میں فراوانی کیسے کی جائے ۔۔؟ ایسی صورتحال اکثر پیش أئی کہ اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں پونچھ پانچھ کے رکھ دیں اور پھر مہنگے داموں پانی کے حصول کے لئے دوڑتے رہے۔ افسوس کی اسوقت پانی کے ڈسپنسر اورپانی کی بوتلیں میسر نہیں تھیں۔۔

ٹنکی میں گرتےہوئے پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم ،جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لیےکئ فون کال 'واٹر بورڈ کےکئ چکر اور والو مین کے مختلف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد—ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا — اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی بھی لازم تھی  یہ سوچے بغیر کہ سال میں کتنی مرتبہ واقعی ہمیں انکی جانب سے پانی میسر تھا ،کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور ہمیں احتجاج کرکے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں تھی-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-کیونکہ اس پانی کے فراہمی پربعد میں اس  سیاسی پارٹی کی  اجارہ داری تھی  جن سے ٹکر لینا ہم جیسے بے  بسوں کے بس میں نہیں تھا۔۔

اب بھی کراچی میں وہی حال ہے شہر کاأدھا ٹریفک پانی کے ٹینکروں کا ہوتا ہے۔۔پورا ٹینکر مافیا ہے جسکی شہر میں اجارہ داری ہے۔کراچی کے وہ باشندے اور شہری جنکے ہاں پانی کی فراوانی ہے خوش قسمت ترین شہری کہلانے کے حقدار ہیں۔۔


پچھلے سال یہاں امریکہ میں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رہا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے بلکہ ایسے بحرانوں کو معمولی جانتے ہیں - لیکن جو بچے یہاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی گئی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?

24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر اور ترددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاؤٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- ہاں لیکن یہاں پر پانی بھاری اور سخت ہے جسکے لئے ایک مشین لگی ہوئی ہے ، ساتھ میں ایک جدید فلٹر لگا ہوا ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور یہاں ،جہاں دین بھی داؤ پر لگا ہوا ہے- مختلف ذرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-

پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اورجہاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے- اسی اصول کے مطابق دنیا کی بیشتر أبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں ہے۔۔

ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آۓ توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نےکہا’ زم زم" رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا— اس پانی میں معدنیاتی تاثیر انتہائی مشفی ہے موجودہ سعودی حکومت نے اس پانی کی ترسیل کا بہترین انتظام حرمین شریفین میں کیا ہے ۔ حرم شریف میں تو یہ کنوواں موجود ہے اور زم زم کے پانی کی جانچ پڑتال کی لیبارٹری ہے تاکہ پانی میں کسی قسم کی ألودگی نہ ہونے پائے لاکھوں کے حساب سے صاف ستھرے کولر حرمین میں موجود رہتے ہیں ۔۔جس سے لاکھوں زائرین روزانہ فیض یاب ہوتے ہیں ۔۔

دنیا میں اسوقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ،دریا ، کنوئیں ، ندیاں ألودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔کتنے ممالک ہیں  جہاں کی أبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی دستیاب نہیں ہے ۔ عرب اور مشرق وسطے کے ممالک نے سمندر کے پانی سے نمک ہٹاکر  استعمال کے قابل لانیکے لئے بڑے بڑے پلانٹ لگائے ہیں۔ وہاں پر پینے کے پانی اور پٹرول کی قیمت یکساں ہے ۔اس لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں میٹھے پانی کی وسیع و عریض جھیلیں پانی کا ایک بڑا خزانہ اور ذریعہ ہیں۔۔

پانی سے زندگی ہے اللہ تعالی قرأن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔۔ اسلئے زندہ اشیاءکی زندگی پانی کی مرہون منت ہیں۔۔اور مصیبت کے وقت ایک چلو بھی کافی ہو جاتا ہے۔۔


Sent from my iPadچلو بھر پانی----- عابدہ رحمانی

چلو بھر پانی؛ میں ڈوب جاؤ یا ڈوب مرو،اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے اور زبان زد عام ہے ۔عام طور سے یہ غیرت دلانے اور شرمندہ کرنیکے لئے کہا جاتاہے اسلئے کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو درکنار کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا ، البتہ پیاس سے تڑپتے ہوئے شخص کے لئے چلو بھر پانی بھی کافی ہوتا ہے ۔۔

امریکی ریاست مشی گن کے قصبے فلنٹ ' میں پانی کی آلودگی نے پورے امریکہ میں ایک ہلچل اور تشویش پھیلادی۔۔پانی اس حد تک آلودہ تھا کہ اسکا رنگ بھورا تھا اور اسمیں سیسے کی آمیزش خطرناک حد تک تھی۔۔اس سے کئی لوگ بیمار اور متاثر ہوئے۔۔اسطرح کا ألودہ پانی اور وہ بھی امریکہ میں پورے ملک میں ایک زبردست ہنگامہ مچ گیا ۔۔ اسکو نسلی ، طبقاتی رنگ بھی دیا گیا کیونکہ اس علاقے میں بیشتر أبادی سیاہ فام لوگوں کی ہے ۔۔ مشہور و معروف حق کی أواز بلند کرنیوالے ہالی ووڈ کے متنازغہ فلمسازاور ہدایت کار مائیکل مور کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے ۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے یہاں کے باشندوں کو سہارا دینے کیلئے یہاں ایک صدارتی امیدواروں کا مبا حثہ رکھا۔۔ابھی حال ہی میں ان افسران کا کڑا احتساب کیا گیا ،انکو معطل کیا گیا اور کڑی سزائیں تجویز ہوئیں وہ جو فلنٹ میں پانی کی رسد اور ترسیل کے ذمہ دار تھے اور جنکی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوسناک واقع ظہور پذیر ہوا۔۔

اس واقعے سے مجھے اپنے کراچی میں رہائش کے وہ تکلیف دن یادآگئے جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی  کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے

اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا، یا میں پمپ چلانا بھول گئی ہوں ۔۔یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوہات ہیں-

میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک میں آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین valve manتو جیسےہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنےکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہے،ہرگز ہرگز مبالغہ آرایئ نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول اللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایئ ہیں وہ میں اور میرا رب یا میرے گھر والے جانتے ہیں ۔ جب میرے ہاں رہائشی مہمان أتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہوتی تھی کہ پانی کی رسد میں فراوانی کیسے کی جائے ۔۔؟ ایسی صورتحال اکثر پیش أئی کہ اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں پونچھ پانچھ کے رکھ دیں اور پھر مہنگے داموں پانی کے حصول کے لئے دوڑتے رہے۔ افسوس کی اسوقت پانی کے ڈسپنسر اورپانی کی بوتلیں میسر نہیں تھیں۔۔

ٹنکی میں گرتےہوئے پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم ،جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لیےکئ فون کال 'واٹر بورڈ کےکئ چکر اور والو مین کے مختلف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد—ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا — اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی بھی لازم تھی  یہ سوچے بغیر کہ سال میں کتنی مرتبہ واقعی ہمیں انکی جانب سے پانی میسر تھا ،کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور ہمیں احتجاج کرکے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں تھی-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-کیونکہ اس پانی کے فراہمی پربعد میں اس  سیاسی پارٹی کی  اجارہ داری تھی  جن سے ٹکر لینا ہم جیسے بے  بسوں کے بس میں نہیں تھا۔۔

اب بھی کراچی میں وہی حال ہے شہر کاأدھا ٹریفک پانی کے ٹینکروں کا ہوتا ہے۔۔پورا ٹینکر مافیا ہے جسکی شہر میں اجارہ داری ہے۔کراچی کے وہ باشندے اور شہری جنکے ہاں پانی کی فراوانی ہے خوش قسمت ترین شہری کہلانے کے حقدار ہیں۔۔


پچھلے سال یہاں امریکہ میں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رہا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے بلکہ ایسے بحرانوں کو معمولی جانتے ہیں - لیکن جو بچے یہاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی گئی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?

24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر اور ترددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاؤٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- ہاں لیکن یہاں پر پانی بھاری اور سخت ہے جسکے لئے ایک مشین لگی ہوئی ہے ، ساتھ میں ایک جدید فلٹر لگا ہوا ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور یہاں ،جہاں دین بھی داؤ پر لگا ہوا ہے- مختلف ذرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-

پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اورجہاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے- اسی اصول کے مطابق دنیا کی بیشتر أبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں ہے۔۔

ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آۓ توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نےکہا’ زم زم" رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا— اس پانی میں معدنیاتی تاثیر انتہائی مشفی ہے موجودہ سعودی حکومت نے اس پانی کی ترسیل کا بہترین انتظام حرمین شریفین میں کیا ہے ۔ حرم شریف میں تو یہ کنوواں موجود ہے اور زم زم کے پانی کی جانچ پڑتال کی لیبارٹری ہے تاکہ پانی میں کسی قسم کی ألودگی نہ ہونے پائے لاکھوں کے حساب سے صاف ستھرے کولر حرمین میں موجود رہتے ہیں ۔۔جس سے لاکھوں زائرین روزانہ فیض یاب ہوتے ہیں ۔۔

دنیا میں اسوقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ،دریا ، کنوئیں ، ندیاں ألودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔کتنے ممالک ہیں  جہاں کی أبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی دستیاب نہیں ہے ۔ عرب اور مشرق وسطے کے ممالک نے سمندر کے پانی سے نمک ہٹاکر  استعمال کے قابل لانیکے لئے بڑے بڑے پلانٹ لگائے ہیں۔ وہاں پر پینے کے پانی اور پٹرول کی قیمت یکساں ہے ۔اس لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں میٹھے پانی کی وسیع و عریض جھیلیں پانی کا ایک بڑا خزانہ اور ذریعہ ہیں۔۔

پانی سے زندگی ہے اللہ تعالی قرأن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔۔ اسلئے زندہ اشیاءکی زندگی پانی کی مرہون منت ہیں۔۔اور مصیبت کے وقت ایک چلو بھی کافی ہو جاتا ہے۔۔


Sent from my iPad

Saturday, February 1, 2025

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10156522284081426&id=593666425&sfnsn=scwspmo

الاسراءوال معراج The night of Ascension

 

الاسراء والمعراج The night of Ascension

By
Abida Rahmani

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ 
In the Name of Allah, Most Gracious, Most Merciful
 

In the Surah al-Isra (Surah 17 - also known as Bani Isra'il), it is mentioned: 
 
سُبۡحَـٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسۡرَىٰ بِعَبۡدِهِۦ لَيۡلاً۬ مِّنَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ إِلَى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡأَقۡصَا ٱلَّذِى بَـٰرَكۡنَا حَوۡلَهُ ۥ لِنُرِيَهُ ۥ مِنۡ ءَايَـٰتِنَآ‌ۚ إِنَّهُ ۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ 

"Glory be to Him Who made His servant (Prophet Muhammad) to go on a night from the Sacred Mosque (Masjid al-Haram) to the Farthest Mosque (Masjid al-Aqsa) of which We have blessed the precincts, so that We may show to him some of Our signs; surely He is the Hearing, the Seeing." (Qur'an, 17:1)
 
 Prophet (Sal Allaahu Alaihi Wassallam) was granted the Night Journey of al-Israa’ wal Mi’raaj,on the night of Rajab 27th, he was transported by angel Gibarael on a heavenly ride Buraq from Masjid al-Haraam to Masjid al-Aqsa and then onwards he ascended to the Heavens and Allaah spoke to him as He willed, and enjoined the five daily prayers upon him.
This is definitely part of our Aqeedah (belief). It says so in the Qur’aan [al-Isra':1]
The word Isra is referred to as "walking in night" and the root word of Miraj is Arooj which means; "going to a higher place". During this blessed night, Prophet Muhammad (Peace be upon him) journeyed to sky level to meet Allah (Glorious is He), and for this particular reason in Islamic history this journey is recognized to be as "The night of Isra and Miraj".

Most accepted saying is that Miraj happened 1 year before Migrating to Madina, Similarly the most accepted saying is that this journey occurred on the night of 27th Rajab, 

This journey consist of 3 stages:

1. FROM AL HARAM TO AL AQSA MOSQUE
2. FROM AL AQSA MOSQUE TO SIDRA TUL MUNTAHA
3. FROM SIDRA TUL MUNTAHA TO QAAB O QOSAIN
and
4. RETURN


1.  FROM AL HARAM TO AL AQSA MOSQUE:

Prophet Muhammad (peace be upon Him) was taken miraculously from al Haram to Al Aqsa in Jerusalem where he led the prayers of all prophets and then ascended to heavens. It’s a long tale and most of our sisters must know about it. The incredible aspect is that all happened in a short period of time and the human mind cannot encompass its reality and grandeur. The ride which was used by Prophet (SAW) was Burraq , which might have travelled much faster than the speed of light or It may be as the time was stopped by the orders of Alah swt . It’s all part of our belief in the unseen ( Iman Bilghaib) and trust in the words of Prophet (SAW). When Prophet (SAW) told his companions that he has visited heavens, hell and paradise, met and talked to Prophets and went quite close to Allah swt.

2.  Some of this miraculous journey is described in surah Al Najam.
I am just giving a few Narrations about the last part.

The 3rd stage of the journey commenced.

3-FROM SIDRA TUL MUNTAHA TO QAAB O QOSAIN

Prophet Muhammad (peace be upon Him) informed us that when the journey beyond Sidra tul Muntaha started, Jabreel (as) stopped at a place. He asked him why he stopped. He replied "If i will go beyond this place even as the distance of an ant, my wings will burn."
Al Yawakeet wal Jawahir (3:34)
According to another saying he said "Now it’s up to you and your Lord (Allah). This is my limit and i can’t go beyond this."



(53:7): "And he (Muhammad [blessings and peace be upon him]) was on the uppermost horizon (of the realm of creation during the Ascension Night i.e., on the apex of the created cosmos)."

Then he got closer in Al Najam, Quran it is said 
(53:8,9): 

"Then He (the Lord of Honor) drew closer (to His Beloved Muhammad [blessings and peace be upon him]) and then drew even closer. Then a distance measuring only two bow-lengths was left (between Allah Unveiled and His Esteemed Beloved), or even less than that (in extreme nearness)."

At that place Allah revealed to his beloved Prophet, whatever he wanted to reveal, in Quran it is only mentioned as 
(53:10): So (on that station of nearness) He (Allah) revealed to His (Beloved) servant whatever He revealed.

And Prophet Muhammad didn't say the details of that conversation either. Only few things about that are known;
Allah Said "O Prophet! Peace be upon You and mercy and blessings of Allah"
Prophet Muhammad Replied "Peace be upon Me and on righteous people of Allah"
Meeraj Al-Naboowa (3:149)
 
"Allah appeared to me in a very beautiful form. That moment we heard angels of skies were talking on some matter. Allah said "O Muhammad". I said " Here I am, O Allah, at Your service; here I am at Your service". Allah asked "what angles are talking about?". I said "O Allah! i don't know."
So Allah placed his hand between my shoulders and i felt its coolness in my chest. And then every thing was revealed to me." (Jamia Turmadi) This dialogue is 
التحیاتwhich we recite in Quda in Salaah.
Our Salaah or Five prayers a day is the gift of Mairaj which Allah (swt) made obligatory for Muslims. Those were earlier 50 prayers a day but on Prophet (SAW)’s request to Allah were reduced to five. The reward would be given as 50 prayers.

4. RETURN

on the same night of his journey, Prophet Muhammad (peace be upon him) returned to Makkah.
As he was a known person of Truthfulness before Prophet Hood, everyone knew that his statements are always true.
Prophet Muhammad (peace be upon him) announced to his people from the roof of Kaaba about the wondrous night. He considered it his responsibility before God to convey the message, no matter the response or consequences; 

The Prophet of Allah began to describe his journey, Allah brought forward all the details in front of his eyes. and he described what he had seen “stone by stone, brick by brick”.. (Saheeh Bukhari)
..
The Sweetness of Faith To those whose faith was strong and true, the Power of Allah was obvious. Abo Jahal who found the whole story difficult to believe went to see Abu Bakr, the best friend and loyal supporter of Prophet Mohammad. He asked him if he believed Prophet Muhammad traveled overnight to Jerusalem, to heavens and back to Makkah. Without hesitation Abu Bakr replied, “If the messenger of Allah said so, then it is true”. It was because of this occasion that Abu Bakr earned the title As-Siddeeq (the foremost believer). 
 
The journey by night, from the Holy Mosque in Makkah to the furthest Mosque in Jerusalem, and the ascension through the heavens and into the presence of Almighty Allah was a miracle granted by Allah to His final slave and Prophet, Muhammad, may the mercy and blessings of Allah be upon him, and one of the greatest of honors bestowed upon any human.
On that night the Muslim Ummah was bestowed upon the leader ship on all religions and Prophet (SAW) was grant leader ship over all the prophets.
This miraculous night is a special gift for Muslim Ummah.
However there are no prescribed prayers, worship, fasting or celebrations related to that particular night   in the practice of Prophet (SAW) or the companions RA.
We as a Muslim praying five times a day are everyday grateful for this gift brought for us by Prophet (SAW) in the night of Ascension
ال اسراء والمعراج