Monday, May 31, 2021

Tuesday, May 18, 2021

A drive through birthday party

#A drive through “Birthday Party “
During Covid restrictions!
In the parking lot witnessed some banging , rattling and joyful noise. An SUV was decorated with colorful balloons and buntings for a 65th birthday. There were about ten cars in this procession.Other cars had some decorations and greeting plaques too!( wish I had saved it on my phone). 
Since the Ontario government has restricted even outside gatherings to five persons only. It seemed a great idea to have a drive through birthday party. 
Later on saw this party traveling around on the streets!

Thanks giving and Black Friday!

 Thanks giving and Black Friday

By 

Abida Rahmani


Thanksgiving and Black Friday are purely American traditions. Thanksgiving is celebrated on 4th Thursday of November . A traditional feast of Roasted Turkey, Mash potatoes , Gravy , cornbread , cranberry sauce and Pumpkin pie is served to Family and friends, get togethers are common and the feast is enjoyed. Its a 4days long weekend in USA and many travel to their loved ones and other entertainment destinations. Whole of the Americans look forward to thanksgiving holidays!

I do not want to narrate the history behind thanksgiving.The most significant event after Thanksgiving dinner is Black Friday's sales. These sales start after midnight with huge sale items, e.g: electronics , furniture , appliances, gadgets and for most of the merchandise in stores. Now these sales start online earlier than the real sale  and later on Cyber Monday sales are almost for a week  . However the diehard shoppers enjoy door crashing at the middle of night during cold November night. 

Now this black Friday tradition has taken the whole world by storm. Canadians celebrate thanksgiving over the second weekend of October (wish they were unified in this holiday).However they aren’t lagging behind in observing Black Friday for the last few years. Thanks to Media, multi media and social net works, this tradition is followed enthusiastically  in Pakistan too. All the major stores and malls in the country are offering huge Black Friday Sales. Now many people have  objection and  realized that since Friday is a Holy day for Muslims then why it should be black . Most relates the color black with mourning and bad omen. Someone said then why the Holy Kaaba is black if the black is so bad.Moreover  so many of the stores are now  calling it  a blessed Friday, some of them a bright Friday, white Friday and so on. The tradition remains the same that the sales must go on.

In the West this is the start of Christmas shopping and in Pakistan it's a kind of getting good deals. A great marketing strategy and commercial success.The bottom line is what America does the whole world follows it blindly.

Monday, May 17, 2021

Ruhtas Fort and Ghauri mausoleum

 Went to Ruhtas Fort  and Sultan Ghori’s mausoleum yesterday, what a great historic heritage !

Rohtas Fort was commissioned by Sher Shah Suri in 1541. It was s Garrison fort, with an area of 174 acres. The fort walls which is 40 to 60 feet high and about 40 feet in width, is 4 kilometre in length. It's a world heritage site.



Al Quds

 There are three parts of Jerusalem. Muslim, Christian and Jew . These are before Israel’s occupation . Al Aqsa complex is Muslim. Jordanian kingdom mostly take care of Al Aqsa. Even the golden Dome of the Rock is made of the one ton gold donated by the king.

We went to Bethlehem the birth place of Issa AS and where he was crucified ( according to their belief).

Then to Hibron Al Khalil . The tombs of Abraheem, Ishaaq AS and their wives. The Tombs of Yaqub and Yousaf AS were closed by Israelis.

These are my personal observations on my trip.

If interested I can post the pictures.

Al Quds has been destroyed several times over the course of history.

It was a mound of rubble when Omar RA Occupied Jerusalem . He built a small masjid there and then the Main Masjid was built by Khalifa Abdul Malik bin Marwan , Salahuddin Ayubbi and later on by Ottomans.

This is a Palestinian woman Maryam,she got befriended with me. Her father was a guard at masjid Aqsa. Her father,her husband and one son got killed by Israelis. Now she has seven more boys. Two of her sons are in jail and seven in orphanages. She works and helps there , in Masjid and cleans some houses. She took me to her home near Masjid,a tiny old place of the same stony structure.

Our guide Abeer took us to her parents house,it was almost the same,a tiny one may be 5,6 hundred square feet. She told that Israelis have offered them millions for this tiny place and they are resisting this offer. So many untold stories of oppression and occupation.

They believe that it’s the remnants of Temple or Masjid of Suleman As and many other beliefs ,that the huge stones in the wall are installed by Jins. They believe that Ibrahim AS offered his son Ishaq ‘s

Sacrifice there.

Our guide Abeer narrating details of this part of Baitul Muqaddas, Mehrab of Zakaria AS and the real name of Salahuddin Ayyubi. Interestingly his real name was Yusaf.

Sunday, May 2, 2021

کرونا کی دہشت میں زندگی


کرونا کی دہشت میں زندگی۔۔

COVID-19

میرے مولا اس وبا کو نیست و نابود کر دو نا

از

عابدہ رحمانی


۲۰۲۰جنوری کے وسط میں چین کے  صوبے ووہان  ( جسکا  نام پہلی مرتبہ سنا ) سے ایک بیماری کی خبریں آنی شروع ہوئیں  اور ساتھ میں وہاں کے گوشت کی دوکانوں کی وڈیو سوشل میڈیا  پر آنی شروع ہوئیں ۔ انمیں ہر طر ح کے حشرات  ، سانپ ، بچھو  ، چمگادڑ  ، کتے ، بلی ، بندر  اور بھانت بھانت کے جانور وں کا گوشت نظر آیا  جو چینی خرید رہے تھے ۔  عام تاثر یہ تھا کہ یہ چمگادڑ کی بیماری ہے جنہوں نے سانپوں کو کاٹ کر انمیں جراثیم منتقل کئے  اور سانپ  کا گوشت کھاکر چینیوں میں بیماری منتقل ہوئی  یہ ایک مہلک وائرس ہے اور اسکا نام کرونا ہے ۔

چینیوں کے متعلق یہ کہاوت عام ہے کہ  سوائے چارپائی کے کوئی چوپایہ یا رینگنے والا جانور انکی دسترس سے محفوظ نہیں ہے ۔۔

اس بیماری کے متاثرین  اور اسکے تدارک کی خبریں ملتی رہیں  خبریں کیا سوشل میڈیا  خصوصا واٹس ایپ پر  ویڈیو کی بھر مار سے  اندازہ ہوتا رہا  کہ چینی عوام اس  وبا سے بچنے کی  بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔   انکے حفاظتی اقدامات کچھ عجیب سے لگتے تھے ۔ لیکن ہمیں کیا چینی جانیں اور چینیوں کی وبا ، ہم تو اس سے بچے ہوئے ہیں ۔چین ہم سے بہت دور ہے ، اسلئے چَین ہی چَین ہے  اور عام تأثر یہ تھا کہ یہ وبا وہیں ختم ہو جائیگی۔۔

فروری کے اوائل میں  ٹورنٹو واپسی پر ایمیگریشن نے یہ سوال کیا کہ پچھلے 

دنوں چین کا سفر تو نہیں کیا  اور ہمارے انکار پر مزید کچھ نہیں پوچھا۔

ہماری زندگی کے معمولات جاری تھے ۔ ہر جانب چہل پہل ، گہما گہمی   اور رونقیں ، دنیا کا کاروبار زوروں پر تھا  ۔ میں نے امریکہ جانے کی اور وہاں سے سپین جانے کی بکنگ کروائی ہوئی تھی اور اپنی تیاریوں میں مصروف تھی ۔

دیگر ممالک سے اس بیماری کی اکا دکا مریضوں کی خبریں آرہی تھیں  سخت انفلوئنزا کی قسم کے اس مرض کا کوئی مدافعتی ٹیکا نہیں ہے ۔ عجیب امر یہ کہ چین کے دیگر شہروں میں یہ مرض نہیں پھیلا اور چین نے اسے ووہان میں قابو کر لیا تھا..

چین کے ساتھ جنوبی کوریا سے بھی اس بیماری کی خبریں آنے  لگیں ۔ اسکے بعد تفریحی بحری جہا زوں پر اس وبا کے پھوٹنے کی اطلاعات آئیں ۔ کینیڈا اور امریکہ کے کافی باشندے ان Cruise ships میں  اس بیماری سے متاثر ہوئے ۔ ان بیماروں کو لانے کا مسئلہ تھا  اور کینیڈئین حکومت نے اپنے باشندوں کی کروز پر جانے کی پابندی لگادی ۔ چین کے بعد اچا نک ایران سے اس بیماری کے پھیلنے کی خبریں آئیں ۔ ایران سے آئے ہوئے اکثر لوگ اس سے متاثر تھے۔ انکو قرنطینہ میں رکھا گیا یا تاکید کی گئی ۔  کہ وہ دو  ہفتے تک الگ تھلگ رہیں گے ۔

اور کسکے گھر جائے گا طوفان بلا میرے بعد۔۔۔۔۔

اٹلی ، سپین ، برطانیہ  ، امریکہ ، کینیڈا ، پاکستان ، بھارت  کئی ممالک میں اس وبا کے پھیلنے کی اطلاعات اور تشویش آنے لگی ۔

سپین کا دورہ سوالیہ نشان بنتا جارہا تھا اور ہماری منتظم  اس کو منسوخ کرنے  کے پس و پیش میں تھیں کہ امریکہ نے یوروپ کیلئے پروازوں پر پابندی لگا دی  ۔ لیکن یہ وبا  امریکہ ، کینیڈا سمیت دنیا کے دوسو مما لک میں جڑیں گاڑچکی تھی ۔ WHO عالمی صحت کے نگران ادارے نے اسے ایک عالمی وبا قرار دیا ۔

اسوقت کے اعداد و شمار دل کو دہلانے والے ہیں ۔  اٹلی ، سپین اور امریکہ میں اموات کی شر ح  چین سے کہیں آگے جاچکی ہے  جبکہ چین اس سے نجات کی خوشیا ں منا رہاہے ۔

اسوقت اس دہشت کے ماحول میں دیگر کئی نظرئے گردش میں  ہیں جنکو سازشی نظریات کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو نظرئے کو تقویت دی گئی   

بلکہ سائینسی شواہد کے ساتھ متعدد ویڈیو واٹس ایپ پر منظر عام پر آئیں کہ  اس وائرس کو تخلیق کرنیکا کارنامہ امریکہ کا ہے 

تھا  لیکن اب یہ کہا جاتا ہے  کہ یہ سب چین کا کیا کرا یا ہے اور اسکا مقصد امریکہ اور یوروپ کی معیشت کو دھچکا پہنچانا اور اپنی حیثیت منوانا تھا۔

بہر کیف حقیقت جو بھی ہو اسوقت یہ تمام ممالک  ، امریکہ کی سپر پاؤر ، نیو ورلڈ آرڈر ، تمام سائنس ٹیکنا لوجی  تمام میڈیکل سائنس  اس نادیدہ  خورد بینی  مردہ  یا زندہ جر ثومے  کے  سامنے بے بس ہو چکے ہیں ۔محض اللہ تعالٰی  کی ذات ہی اس وبا کا خاتمہ کرنے پر قادر ہے اور اس ذات سے ہم گڑ گڑا کر اس وبا سے نجات کی دعائیں کر رہے ہیں۔۔

اسوقت دنیا بھر میں تین  لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں  ،صرف امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد ۵۱ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ۔ لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں  جبکہ ایک بڑی تعداد شفا یاب  بھی ہوچکی ہے ۔ کینیڈین وزیر اعظم کی اہلیہ صوفی کی شفا یابی ایسی تھی جیسے کہ  اپنی کوئی عزیزہ شفا یاب ہوئی ہوں اس تاریک سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کی کرن نظر آئی ۔ اب برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن انتہائی نگہداشت میں چلے گئے ۔

دیگر تمام شہریوں کی مانندمیں اپنے گھر میں محصور ہوں ، الحمدللہ کہ اللہ نے ذہنی اور جسمانی  قوت بحال رکھی ہے ۔  امید پر دنیا قایم ہے ، و  یران  ، خاموش سڑکیں ، خالی بسیں اور ٹرینیں  دکھائی دیتے ہیں  ۔  تمام  اعلے پائے کے معالج اس بات پر متفق ہیں  کہ انسانوں کا میل جول محدود کر دیا جائے ۔ اسوقت یہاں کینیڈا میں یہ قانون وضع کیا گیا ہے  کہ دو افراد کے مابین کم از کم دو میٹر یا چھ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہئے اس صورت میں یہ مہلک وائرس ایک  دوسرے کو نہیں لگ سکتا ۔ گراسری سٹور میں باہر اسی طرح فاصلے پر کھڑا کر کے تین ، چار افراد کو اندر جانے دیا جاتا ہے ۔ کیش کاؤنٹر پر  شیشے یا  فائبر گلاس کی  ایک دیوار نے کیشئر کو دھانپ رکھا  ہے یا گاہکوں سے بچایا ہے  وہ  کیش کو ہاتھ نہیں لگاتے ، Stay Home, Stay safe دنیا بھر کا مقبول نعرہ بن چکا ہے تمام طبی عملہ اس لاعلاج وبا کو اسی طرح قابو کرنیکی یا ختم کرنیکی کوشش کر رہا ہے ۔ کہ انسانوں کا میل جول محدود تریں ہو جائے  ۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ انسان کو اپنے سائے سے بھی خوف آتا ہے ۔ اللہ کا بے حد شکر ہے کہ ٹیلی ویژن ، فون اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور اپنوں سے رابطے بحال ہیں۔

حکومت اور طبی اہلکاروں کے مطابق زیادہ سے زیادہ ہفتے میں ایک مرتبہ   اشیائے خورد و نوش ( گروسری)، ادویات  یا شدید ضرورت کے تحت ڈاکٹر کے ہاں جاسکتے ہیں اور یہ ہدایات صحت مند افراد کیلئے ہیں ۔  بیماروں ، حتیٰ کہ بیرون ملک آنے والوں کے لئے دو ہفتے قرنطینہ کی سخت پابندی ہے ۔

شکر ہے کہ اس قسم کے کریڈٹ کارڈ موجود ہیں جو مشین کے اوپر سے ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں ۔ آج تو باہر سے ہر قسم کے تھیلوں پر پابندی تھی ۔ اس سے پہلے پلاسٹک کے تھیلے پانچ  سینٹ کے ملتے تھے تاکہ پلاسٹک کا استعمال کم ہو لیکن اس ہنگامی صورتحال میں یہ تشویش پس منظر میں  

چلی گئی چاس ان دیکھے وائرس ( جس سے اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اسکو نیست و نابود کردے ) کے بچاؤکیلئے  اپنی حساب سے پوری تیاری کر کے روانگی ہوئی ۔ ایک دوست کے مشورے پر گھڑی ، بریسلٹ اور انگوٹھیاں بھی اتار کر رکھ دیں۔ کیونکہ ایک تجزئے کے مطابق یہ دھات پر ۷۲ گھنٹے تک رہتا ہے ۔ اب اس وائرس کی کیمیائی حیثیت جو بھی ہو زندہ ہے یا مردہ لیکن پوری دنیا اور انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جنکو اپنی سائینس ، ٹیکنالوجی اور علم و طاقت پر اسقدر غرور تھا اب اللہ کے اس نادیدہ لشکر کے سامنے بالکل بے بس ہیں ۔ امریکہ میں جانی نقصان کی شرح  پوری دنیا سے زیادہ ہے  یعنی ۵۵   ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔  

کینیڈا میں تمام تر پابندیوں  کے باوجود  ۴۰ ہزار اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں ۔ ہلاکتیں تقریبا دو ہزار تک جاچکی ہیں ۔ الحمدللہ   کہ امریکہ اور  یوروپی ممالک کے بر عکس یہاں پر صورتحال  قدرے بہتر ہے 

 اپنے مختلف قسم کے ماسک میں سے ایک ماسک پہنا تو اس میں سانس لیتے ہوئے عینک بار بار دھندلا جاتی ۔ پرس میں ایک پرانا تحفتأ ملا ہوا ہینڈ سینیٹائزر کی بوتل ہے لیکن disposable ( تلف پذیر) دستانے بھی پہن لئے تو پھر ایک نسبتا   باریک جرسی کے کپڑے سے الاسٹک لگاکر خود ایک نقاب سا بنا لیا جو قدرے آرام دہ ہے ۔ باہر سے واپسی پر دروازے کے پاس رکھی ہوئی lysol  اور  اب clorex کے نمدار پونچھنے والے کاغذ  wet wipes سے نپکین نکال کر اس سے اپنے ہاتھ ، دروازے کا ہینڈل اور جوتے کے تلوے صاف کرتی ہوں ۔ بعد میں جیکٹ وغیرہ اتار کر صابن سے ۲۰ سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ باہر سے ڈاک لانے کے بعد بھی اسکو صاف کرکے ایک طرف ڈالدیتی ہوں۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے  کہ ہر طرف کرونا ہی کرونا ہے ۔ لیکن اس کیفیت سے اپنے آپ کو نکالنا پڑتا ہے ۔  

ساری احتیاطی تدابیر اپنی جگہ لیکن میرے رب نے اپنے  بےپناہ فضل وکرم سے مجھے ، میرے بال بچوں، بھائی بہن اور تمام عزیز و اقارب کو اس بلا سے اس وبا سے محفوظ رکھا ہے ۔   میرے رب کی قدرت ہی اس بلا کا خاتمہ کریگی چاہے وہ انسانی عقل اور کوشش سے ہو یا ماحولیاتی  تبدیلی سے ہو  انشا اللہ ۔

رمضان المبارک کا پہلا دن ہے لیکن ہم  یہ رمضان اپنے گھروں میں گزارینگے ۔ مساجد سے آنلائن پروگرام ہو رہے ہیں ۔  ان ممالک میں  رمضان میں مساجد سے تعلق بہت بڑھ جاتا ہے ۔ افطار پارٹیاں  ، نماز عشاء اور تراویح کی چہل پہل میں خوامتین اور بچوں کو اپنا اسلامی ماحول میسر آتا ہے ۔ تمامخیر ادارے رمضان میں اپنی چندہ  جمع کرنیکی  لئے تقاریب منعقد کرتی ہیں لیکن اس رمضان میں  اس قسم کا کوئی  اجتماع نا ممکن ہے ۔ 

اس وبا  کو پنجے گاڑھے ایک برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ چین میں اب مکمل خاموشی اور سکون ہے اس وائرس نے جہاں اپنی شکل بدل ڈالی  ہے وہاں انسانی دماغوں نے اسکا توڑ یعنی  ویکسین دریافت کر لی ہے جو جنوری ۲۰۲۱ سے لگنی شروع ہو گئی ہے  کئی قسم کے ویکسین منظر عام پر آچکے ہیں  انمیں فائزر کا ویکسین سر فہرست ہے ۔  اسرائیل اپنے ملک کو کرونا سے پاک کرنے کا اعلان کر چکا ہے ۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جسنے اپنی آبادی کو لاکھوں کی تعداد میں ویکسین لگا دی ہے  اب سولہ سال کی عمرکے بچوں کو بھی  ویکسین لگ رہی ہے ۔ جہاں دنیا کے بیشتر ممالک  ویکسین زیادہ سے زیادہ تعداد میں لگارہے ہیں ۔ وہاں یہ وبا  بے قابو ہوکر انسانی جانوں کو تلف کرتی جارہی ہے ۔ اسوقت سب سے بڑا   ہدف بھارت ہے جہاں روزانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں ، شمشان گھاٹ مردوں سے بھرے ہوئے ہیں  اور ہر جگہ دعا ئیں  ہورہی ہیں ۔ 

اللہ تعالی کے ان خفیہ اور  نادیدہ لشکر کے سامنے  انسانی طاقت ،سائنس ، ٹیکنالوجی اور تمام قوتیں بے بس ہوچکی ہیں ۔۔

اب یہ وائرس جو بھی ہے جہاں سے آیا ہے اسنے پوری انسانیت کو بے پناہ  خوف اور دہشت میں مبتلا کیا  ہواہے ۔ کروڑوں افراد صفحہ ہستی سے رخصت ہوچکے ۔ انکے پیاروں پر جو گذر رہی ہے اللہ ہی جانتا ہے ۔  خالق کائنات رب کریم ہی انسانیت کو اس وبا سے نجات دے اور اس وبا کو نیست و نابود کردے۔ آمین ثم آمین