Sunday, February 25, 2018

تندرستی ہزار نعمت ہے۔



تندرستی ہزار نعمت ہے 
از
عابدہ رحمانی
اللہ تبارک و تعالی کی بے پناہ نعمتوں میں صحت و تندرستی ایک بیش بہا نعمت ہے ۔ بالکل درست کہا گیا ہے جان ہے تو جہان ہے ۔ اگر انسان صحت مند نہ ہو تو دنیا کی تمام رنگینیاں ، دلچسپیاں ، گونا گوں نعمتیں  ہیچ نظر آتی ہیں ۔صحت وتندرستی کے عالم میں انسان کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا قطعی  احساس نہیں ہوتا ،لیکن بیمار ی ،دکھ اور تکالیف جھیل کراور پھر خوش قسمتی سے  بیماری سے مکمل شفا یابی پا کر اسے اس انمول اور بیش بہا نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے  کہ تندرستی ہزار نعمت ہے اور جان ہے تو جہاں ہے۔
کسی بیمار شخص کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش صحت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتی۔

اسوقت جبکہ دنیا میں بھانت بھانت کی جاں لیوا بیما ریاں پھیلی ہوئی ہیں ،صحت و تندرستی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اسی صحت و تندرستی کے حصول کے لئے ہم کسقدر کوششیں کرتے ہیں ۔بہترین صحت بخش غذا کا حصول ، ورزش، آرام ، ذہنی اور دماغی سکون ، بروقت علاج معالجہ ہماری زندگی کو پر سکون اور صحت مند بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے انسانی جسم میں ایک خود مدافعتی انتظام رکھا ہے جو ہمیں بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور صحت یاب ہونے میں مدد دیتا ہے ۔ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔
ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں ہمارے جسم میں  ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘

مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارےدل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘ ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘

 دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی‘ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘

 گردوں کی پیوند کاری 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘

ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑےہوتے ہیں- یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے نه اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نه نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں-

 سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘

 ہمارا جگرجسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے‘ ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے‘

 سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے‘ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘ آپ دوسروں کو جگر عطیہ کر سکتے ہیں‘ یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں 

جب کہ ہمارے بدن میں ایسےہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ﺍﯾﮏ ﻟﻘﻤﮧ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﻌﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﻗﺪﺭﺕ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ 
ﺍﮔﺮ ﮔﺮﻡ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺗﺎﺯﮦ ﯾﺎ ﺑﺎﺳﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﺎﮎ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ،
ﮐﮍﻭا، ﺗﺮﺵ، ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻣﺮﭺ ﻣﺼﺎﻟﺢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺨﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﺍﻧﺖ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
الغرض ﺍﯾﮏ ﻟﻘﻤﮧ ﻣﻌﺪﮮ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍس قدر ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ہے۔
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺛﻘﯿﻞ ﭼﯿﺰ ﺣﻠﻖ ﺳﮯ ﺍُﺗﺮ ﮨﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﻌﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮉ ﺍﺳﮯ ﮔﻼ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ 

ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ .... 

ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﺭﺏؔ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﻧﮯﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﮐﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻨﺪﮮ......
"ﺣﻼﻝ ﻟﻘﻤﮧ ﮨﯽ ﺣﻠﻖ ﺳﮯ ﺍُﺗﺎﺭﻧﺎ"
پر سکون اور گہری  نیند ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ایک نارمل انسان کو سات ، آٹھ گھنٹے کی نیند پوری کرنی چاہئے۔میں پچھلے دنوں بے خوابی کے عارضے سے دوچار تھی ۔خواب آور دوائیوں سے طبیعت اور گری گری رہتی تھی استعمال نہ کر نیکی صورت میں بیشتر رات جاگتے ہوئے ، دعائیں کرتے ہوئے گزرتی تھی ۔ اس تکلیف کا احساس وہی کرسکتا ہے جو اس دور سے گزرا ہو ۔ اچھی نیند بھی اللہ تعالی کی بیش بہا نعمت ہے ۔ اس نیند کا اسرار بھی خوب ہے ۔ ہم دعا کرتے ہیں اللھم باسمگ اموت و احیا ۔اے اللہ تیرے نام سے میں مرتی ہوں اور زندہ ہوتی ہوں ۔
نیند اور خوابوں کی دنیا کی غفلت کو موت کہا گیا ہے ۔ جب تک سانس چلتی رہے تو نیند کی کیفیت ہوتی ہے اس کیفیت سے جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو گویا دوبارہ زندہ ہوتے ہیں ۔۔
 صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘ ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی‘ 

ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک صحت کاتخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے‘

 ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں‘ 

دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیےتیار ہیں‘

ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسوکے برابر مائع ہوتا ہے‘ یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے‘ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں‘ یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے‘ ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ‘
لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں‘

آنکھوں کاقرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے‘ 

دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے‘

 آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘

 دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے‘

قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے‘

دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے‘

آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے‘ 

شوگر‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں

 اور آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگرآپ کو شفا نہیں ملے گی‘ 

منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں‘ 

ہم اس عظیم مہربانی پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے‘ ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں‘ ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے‘ ہم سیدھا چل سکتے ہیں‘ دوڑ لگا سکتے ہیں‘ جھک سکتے ہیں اور ہمارا دل‘ دماغ‘ جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں‘ ہم آنکھوں سے دیکھ‘ کانوں سے سن‘ ہاتھوں سے چھو‘ ناک سے سونگھ اور منہ سے چکھ سکتے ہیں 

تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل‘ اس کے کرم کے قرض دار ہیں اور ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے‘

 ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔


اسی لئیے ربِ کریم قرآن میں کہتے ہیں.....

➰ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے.۔!!
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا:

الله سے معافی اور صحت کا سوال کرتے رها کرو کیونکہ ایمان کی نعمت کے بعد تندرستی سے بہتر کوئی نعمت نهیں.

الله پاک ہم سب کو ھمیشہ تندرست اور آباد رکھے

Tuesday, February 20, 2018

منتشر جذبات

"منتشر جذ بات"

نہ گھر نہ ٹھکانہ کہاں جا رہی ہوں
 اپنی دھن میں مست بھاگتی جا رہی ہوں

زندگی کی یہ منزلیں دلچسپ و حسیں
کیا لینا ہے ان سے پر ڈھونڈتی جا رہی ہوں

یہ اسرار زیست موت کی یہ پہنائیاں
تذبذب میں غرق  جاگتی جا رہی ہوں

مرے مالک ترےامتحان یہ مری قسمت
یہ دکھ ہیں میرے اپنے جھیلتی جا رہی ہوں

نہ ہے کوئی دوست نہ کوئی غمگسار اپنا 
تلخ و شیریں کو خوش خوش پھانکتی جا رہی ہوں

یہ قتل و خوں گرتے ہوئے یہ لاشے
گریہ گریہ مرادیس مگر چاہتی جا رہی ہوں

جانے والے بنا کچھ کہے چلے گئے ہیں 
تلاش میں انکی میں کیوں رلتی جا رہی ہوں

ترا کرم ، فضل ترا ہی آسرا ہے 
اسی کو میں ہر گھڑی مانگتی جا رہی ہوں

عابدہ رحمانی

Monday, February 19, 2018

اس نئی دنیا میں۔۔

 اس نئی دنیا میں 
از
عابدہ رحمانی
آج یونیورسٹی سے چھٹی تھی اگلا سمسٹر شروع ہونے میں چند روز باقی تھے۔ زہرہ کی آنکھ کھلی تو امی ابا کے کمرے سے انکے فون پر بلند آواز میں باتیں کرنے کی آواز سنائی دی ۔ابا جب فون پر بیرون ملک بات کرتے تھے تو انکی آواز اچھی خاصی بلند ہوتی ۔" بھائی جی مجھے اور رعنا کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے تو فخر اور خوشی کا مقام ہے لیکن پھر بھی میں زہرہ سے پوچھ لیتا ہوں۔طاہر اپنا ہی بچہ ہے اسکی قابلیت اور فرمانبرداری میں کیا شک ہے۔ہاں میں اس سے ایک عرصے سے ملا نہیں ۔ہاں ہاں آپ بات کروا لیجئے گا۔" اچھا تو یہ میرا ہی ذکر خیر ہے زہرہ کے کان کھڑے ہوگئےأب اسکی سمجھ میں پوری بات آگئ تھی ۔بڑے ابا ( اسکے تایا) کا امریکہ سے فون تھا اور وہ اپنے بیٹے کیلئےاسکے رشتے کی بات کر رہے تھے۔ اسے تھوڑی سی گھبراہٹ ضرور ہوئی طاہر کو اسنے کئی سال پہلے دیکھا تھا جب اسنے میٹرک کیا تھا اور وہ ہائی سکول کرکے آیا تھا اس سے دو ڈھائی برس بڑا تھا ۔اب وہ الیکٹریکل انجینئر نگ کرکے کسی اچھی فرم میں ملازم تھا ۔تایا زاد ہی سہی لیکن امریکہ کا پلا بڑا۔۔اور ایک مدت سے کوئی واسطہ  نہ تعلق ،وہ قدرے پریشان سی تھی۔۔
زہرہ کی پرورش ایک متوسط ، روشن خیال مسلمان گھرانے میں ہوئی تھی ۔آنکھ کھولی تو گھر والوں کو روزے نماز اور اسلامی اقدار کا پابند پایالیکن بہت زیادہ سختی نہیں تھی ۔والد کلاسیکل موسیقی اور غزلوں کے دلدادہ تھے ۔خود بھی شعر کہتے تھے اور ملک کے بہترین شعرا سے تعلق تھا مشاعروں کا انعقاد اور شرکت کرنا انکے معمولات میں سے تھا اور اسی طرح کلاسیکل موسیقاروں کو بھی سننا انکا شوق تھا ۔ بے شمار کیسٹ اور سی ڈیز کا مجموعہ اکٹھا کیا تھا لیکن مجال ہے کہ کوئی نماز قضا ہو پابند صوم و صلواۃ گھرانہ تھا ۔ وہ بڑی ہوئی تو باہر نکلنے پر امی کہتیں ،"زہرہ  ذرا دوپٹہ ٹھیک کردو سر پر اوڑھ لو یہ کندھے سے لٹکانے کا کیا فائدہ ؟" کپڑے وہ ایک سے ایک پہنتی لیکن پھر بھی امی کی تاکید تھی کہ کپڑے زیادہ چست اور فٹنگ والےنہ ہو ں نہ ہی کپڑا باریک ہو ۔ عزیز رشتہ داروں ،خالہ زاد، پھوپھی زاد، چچا زاد لڑکوں سے ہنسی مذاق کھیل کود جو بچپن کا معمول تھا بڑا ہونے کے بعد قدرے تکلف میں تبدیل ہو گیا۔
اسی طرح کی میانہ روی والے ماحول میں جو ایک عام پاکستانی گھرانے کا معمول تھا اسکی پرورش ہوئی ۔ جب اسنے انجنیئرنگ کالج میں داخلہ لیا تو لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کا پہلا اتفاق تھا ۔وہ پردہ دار تو تھی نہیں لیکن پھر بھی غیر لڑکوں سے بات چیت سے کتراتی اور ہچکچا تی ۔ اسنے اپنا لڑکیوں کا گروپ بنایا تھالڑ کوں میں اسی وجہ سے وہ مغرور مشہور تھی ۔ہاں ضرور تا بات چیت ہو جاتی۔
ابھی وہ انجینئر نگ کے آخری سال میں تھی کہ امریکہ والے اکبر تایا نے اپنے بیٹے طاہر کیلئے اسکا رشتہ مانگا۔
دادی کے انتقال کے بعد  وہ کبھی پاکستان نہیں آئے ۔ فون یا خط کے ذریعے سے رابطہ تھا اس زمانے میں کبھی کبھی فون پر ہی رابطہ ہوتا تھا ۔اس زمانے میں نہ انٹرنیٹ نہ ہی ای میل اور نہ ہی سوشل میڈیا اور تصویری رابطہ۔ 
امی نے مروتا اس سے پوچھ لیا بلکہ مطلع کردیا کہ اسکا رشتہ طاہر سے ہو رہاہے ۔زہرہ کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔اسنے پہلے ہی یہ معاملہ والدین پر چھوڑ رکھا تھا لیکن کاش کوئی حالیہ تصویر ہی دیکھ پاتی ۔ لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی " طاہر سے تمہارے ابا کی بات ہوئی تھی وہ اس رشتے سے بہت خوش ہے ۔ وہ لوگ ٹیلی فون پر نکاح کرنا چاہتے ہیں  تاکہ کاغذی کارروائی شروع ہو جائے پھر وہ رخصتی کے لئے آئینگے ۔اس دوران تمہاری پڑھائی بھی مکمل ہو جائیگی۔"امی نے اسے تفصیلات بتائیں۔
بڑے ابا پورے خاندان میں جدت پسند یعنی موڈرن اور لبرل مشہور تھے۔ امریکہ پڑھنے گئے تو وہیں کے ہورہے۔ پھر شادی بھی وہیں ایک امریکن عورت سے کی ۔ایلس سے بدل کر عائشہ نام رکھا تھا ۔چار بچے تھے ۔ امی بتاتی تھیں اب کافی تبدیلی آگئی ہے اور وہ سب بہت پابند مسلمان ہیں ۔ایک مرتبہ  دادی اور سب سےملانے لائے تھے تو وہ گرمی، مچھر اور ہر وقت کے مہمانوں سے کچھ پریشان  سی ہو گئ تھیں لیکن پھر بھی اچھا وقت گزرا۔
فون پر نکاح بھی خوب ہوا ۔ پہلے تمام تفصیلات طے ہوئیں کاغذات تیار ہوئے ۔ زہرہ کو تیار کیا گیا فوٹو گرافر نے وڈیو اور تصاویر بنائیں فون پر ہی ایجاب و قبول ہوا۔ تصاویر کو ادھر سے ادھر جانے میں ہفتہ دس دن لگ گئے ۔ امی نے جب اسے اطہر کی تصویر دکھائی تو وہ ایک باریش نوجوان کو دیکھ کر قدرے گھبرا سی گئی۔ اسنے سوچا بھی نہ تھا کہ گوری ماں اور آزاد خیال باپ کا بیٹا اس حلیے میں ہوگا ۔" شاید وقتی یا فیشنی داڑھی ہو"۔ ابا کے اصرار پر ایک مرتبہ طاہرسے مختصر سی بات چیت ہوئی وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں اس سے باتیں کر رہا تھا تو زہرہ نے خود ہی کہا آپ مجھ سے انگریزی میں بات کر سکتے ہیں۔ اسکا تو گویا مسئلہ حل ہو گیا ہر جملے میں الحمدللّٰہ ، انشاءاللہ ، ماشااللّہ سنکر اسے اندازہ ہوا کہ داڑھی فیشنی یا وقتی نہیں ہے۔
امریکہ روانگی کےکاغذات تیار ہونے لگے ساتھ ہی اسکے فائینلز شروع ہوئے ۔ امریکن ایمبیسی میں انٹر ویو کے بعد اس تمام کارروائی میں مذید تیزی آگئی ۔ پھر وہ دن بھی آگیا کہ اسکے پاسپورٹ پر ویزہ لگ گیا اور چھ مہینے کے اندر اسے امریکہ روانہ ہونا تھا۔
اگلے مہینے ہی رخصتی کی تاریخ طے ہوئی ۔ اسکے والد اور تایا نے ملکر ایک بڑی تقریب اور دعوت کا اہتمام کیا جسمیں تمام عزیز وِ اقارب کو مدعو کیا۔ 
امریکہ سے بڑے ابا، طاہر ،تائی اور نور (انکی بیٹی )آئے۔ انکے حلیے اور طور طریقے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی آپس میں توسب انگریزی بولتے تھے لیکن طور طریقے حد درجہ اسلامی، تائی اور نور بیشتر اوقات عبایا حجاب میں ملبوس ہوتیں گھر میں بھی وہ ابا اور دیگر عزیزوں کے سامنے سر پر دوپٹہ یا حجاب لپیٹ کر رکھتیں ۔ بڑے ابا اور طاہر اپنی نمازوں کی ادائیگی کے لئے قریبی مسجد میں جاتے یا پھر گھر میں جماعت کا اہتمام ہوتا ۔ ہم پاکستانی انسے کہیں زیادہ موڈرن اور لبرل دکھتے۔ زہرہ کے لئے وہ دیگر تحائف کے ساتھ دو خوبصورت عبایا اور مختلف سکا رف لائے ۔ شادی کے بعد سب نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنایا ۔ زہرہ اور طاہر کا بعد میں امریکہ جاکر ہنی مون کا پروگرام تھا۔
گرمیوں کے دن تھے اور شمالی علاقوں کا حسن اپنے جوبن پر تھا۔ اسنے انکی دلجوئی کے لئے پہلی مرتبہ انکا لایا ہوا عبایا حجاب پہنا تو اسے قدرے الجھن ہوئی طاہر اسے اس حلیے میں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسکی تعریفوں کے پل باندھ لئے۔ زہرہ سمجھ گئی کہ وہ اسکو باہر اسی لباس میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسنے پھر امی سے مزید عبایا خریدنے کی خواہش ظاہر کی ۔
لاس اینجلس آنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اسکے سسرال والے کافی با عمل  مسلمان ہیں ۔ بڑے ابا نے اسے بتایا،" بیٹی امریکی معاشرے کی بے راہ روی دیکھ کر ہم نے اسلام کی رسی مضبوطی سے تھامنے کا فیصلہ کیا ۔اسی میں ہماری عافیت اور نجات ہے۔"
زہرہ نے بھی باقی ذمہ داریوں کے ساتھ اسی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا فیصلہ کیا ۔۔  عبایا حجاب اسکا بیرونی لباس اور شناخت بن گیا وہ اپنی اس تبدیلی پر خوش بھی تھی اور حیران بھی۔ 
 اب ایک اور مرحلہ درپیش تھا وہ اپنی الیکٹرانک انجینئر نگ کی ڈگری کو ضائع کیسے ہونے دیتی ۔لیکن اسے امریکہ میں لائسنس کا امتحان پاس کرنا تھا اور ملازمت حاصل کرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلنے تھے ۔ طاہر اور باقی گھر والے اسکی مدد اور رہنمائی کر رہے تھے ۔یہاں آکر اسے اندازہ ہوا کہ سر ڈھکنا یہاں مسلمان عورت کی پہچان ہے لباس چاہے جو بھی پہنا ہو اور ظاہر ہے کہ لباس ساتر ہی ہوگا۔ وہ اپنے پاکستانی فیشن اور لباس کا مظاہرہ بمشکل خواتین کی  محفلوں میں کر پاتی ۔ وہ جسنے پاکستان میں بمشکل سر ڈھکا ہو گا اب پابندی سے سر پر سکارف یا حجاب پہننے لگی۔ وہ ہر دم اللہ کا شکر ادا کرتی ان تمام نعمتوں اور آسانیوں کے لئے جو اللہ تعالی نے عطا کئے تھے ۔ 
نیا ملک ،نئی زندگی ،نیا ماحول بہت کچھ سیکھنا تھا اور آگے بڑھنا تھا۔وہ اکثر گھبرا کر پریشان ہو جاتی ۔طاہر اسکی پریشانی بھانپ لیتا اور حوصلہ بڑھاتا۔نہ کوئی نوکر نہ ڈرائیو ر سارے کام خود کرنے تھے۔ڈرائیونگ لائسنس کا امتحان پاس کیا تو طاہر نے اسکے لئے ایک سیکنڈہینڈ ٹویوٹا کر ولا خریدی۔ اپنی ڈگری امریکہ میں منوانے کیلئے اسے کچھ کورس بھی ایک قریبی یونیورسٹی سے کرنے تھے۔ تین ماہ ساتھ رہنے اور سیر و تفریح کے بعد ہی وہ علیحدہ اپارٹمنٹ میں چلے گئے ایک بیڈ روم کا اپارٹمنٹ مختصر فرنیچر ویک اینڈ پر والدین کے ہاں چلے جاتے ۔زہرہ کی پکانے کی پریکٹس شروع ہوئی تو اچھا خاصہ پکانے لگی ۔ ڈالڈا کا دسترخوان اور دیگر کھانا پکانے کی کتابوں سے بھی مدد ملی ۔طاہر کو بیکنگ بہت اچھی آتی تھی اور جب وہ دعوت کرتی تو وہ کافی مدد کردیتا۔ اسے اپنی امی کے ساتھ گھر یلو کام کرنیکی عادت تھی ۔
یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے زہرہ کو کافی مراحل سے گزرنا پڑا بالآخر اسکی ڈگری ریاست کیلیفورنیا میں منظور ہوگئی لیکن چار اضافی تازہ ترین کورسز کرنیکے بعد ہی وہ پورے طور پر الیکٹرانک انجینئر کہلاتی اور پھر لائسنس ملتا۔۔اسکو کلاسوں میں چار مسلمان لڑکیاں نظر آئیں ۔ دو اپنا سر ڈھک کر آتیں زہرہ بھی سکارف پہن کر آنے لگی پتلون کے ساتھ ڈھیلی پورے آستین کی قمیص یا گرمیوں میں ہلکا اور سردیوں میں بھاری کوٹ یا جیکٹ پہنتی۔مسلمانوں کے خلاف آئے دن کچھ نہ کچھ شوشا میڈیا میں چھوڑ دیا جاتا ۔فلسطین عراق اور دیگر ممالک میں فوج کشی اور دست درازیاں جاری تھیں۔لیکن یہاں یونیورسٹی میں ماحول دوستانہ اور ہم آہنگی کا تھا۔مسلم ایسوسی ایشن کافی فعال تھی طاہر سے پوچھ کر وہ ایسوسی ایشن کی ممبر بن گئی اور انکی میٹنگز میں شرکت کرنے لگی۔ ابھی اسکے دو ہی کورس ہوئے تھے کہ اسے حمل ہوا طبیعت کی خرابی کے باعث اسنے سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ایک کورس لیا لیکن اسے بھی پورا کرنا انتہائی دشوار لگ رہا تھا۔اکثر کافی تھک کر دل برداشتہ ہوجاتی ۔ بچے کی پیدائش کے بعد یہ تعلیمی سلسلہ قدرے منقطع ہوا۔اسکی اولین ترجیح بچے کی دیکھ بھال تھی لیکن پھر یہی فیصلہ ہوا کہ ایک کورس جو باقی ہے وہ پورا کیا جائے اور لائسنس کا امتحان بھی ساتھ ہی ساتھ دیا جائے تو چھ ماہ کے بچے کو ڈے کئیر میں دے کر جانے لگی ۔خدا خدا کرکے یہ مرحلہ کسی طرح پورا ہوا۔ تو اب ملازمت کی تلاش شروع ہوئی ۔ اسے ملازمت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے جب ایک سوفٹ وئر کمپنی نے انٹرنشپ کی پیشکش کی تو فورا قبول کرلی۔۔ منیجر نے دبے الفاظ میں اسے حجاب چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن پھر وہ خود ہی کہنے لگا ،"کیا یہ مذہبی طور پر ضروری ہے ؟ اور پھر وہ لوگ جیسے اسکے رنگ بر نگے حجابوں کے عادی سے ہوگئے۔
وہ اپنا کام بہترین طریقے سے کرتی ، اپنے اخلاق اور مستعدی سے دفتر والے اسکے گرویدہ ہوگئے۔ چھ ماہ کی انٹرنشپ کے بعد جب اسے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو اسنے اسے قبول کرنے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کی۔
 اس ملک میں رہتے ہوئے اور سرد گرم سے گزرتے ہوئےبیس برس بیت گئے ۔اسکے تینوں بچے اب بڑے ہو چلے تھے بڑا بیٹا اب ہائی سکول میں آچکاتھا ۔ وہ انکی دینی تعلیم پر کافی توجہ دیتی ۔ اسنے اور طاہر نے اکنا( اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ) کی ممبر شپ بہت پہلے لی تھی اور وہ اب انکے اہم عہدے دار اور ایم جی اے تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کی دفاع میں اکثر ٹی وی اور اخبارات میں انکے انٹرویو آتے۔
گیارہ ستمبر کے افسوسناک واقعے کے بعد اسلام دشمنی میں شدت آگئی تھی ( وہ جتنا سوچتی تھی اسے یہ مسلمانوں کی کارکردگی نہیں دکھتی) ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ملبہ اسلامی دنیا پر گر پڑا تھا۔ القاعدہ اور پھر آئسیس یا داعش۔ مسلمانوں کو عام طور سے دہشت گرد جانا جاتا تھا۔ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت جو کھل کر مسلمان مخالف تھے۔لیکن وہ لوگ ڈٹے ہوئے تھے پورے خاندان کی چھٹیاں اسلامی گروپوں اور مساجد کی سرگرمیوں میں گزرتیں ۔دوسرے بیٹے نے دس پارے حفظ کر لئے تھے اور امید تھی کہ وہ ایک سال میں پورا قرآن حفظ کر لے گا بیٹی ابھی دس سال کی تھی۔ اسکے ساتھ ہی وہ دونوں وقت نکال کر اولڈ ایج ہوم میں رضاکارانہ کام کرتے ۔دونوں بچے چھٹیوں میں مختلف ہسپتالوں میں والنٹئر کرتے۔ زہرہ کا مقصد تھا  اس ملک کے کار آمد شہری بننا برائیوں سے بچنااور اچھائیوں کو اپنانا۔ اپنے نوجوان بچوں کو یہاں کے معاشرے کی بے راہ روی سے بچانے کی پوری کوششیں تھیں ۔خاصکر انکے حلقہ احباب پر اسکی کڑی نظر ہوتی ۔
پاکستان آنا جانا رہتا تھا بچوں کو بھی نانا نانی اور خالہ ماموں کے بچوں کے ساتھ لطف آتا۔ امی ابا بھی تین مرتبہ آئےاور طویل عرصہ گزار کر گئے۔
  تائی جان کا کینسر سے انتقال ہو چکا تھا بڑے ابا اب انکے ساتھ رہتے تھے اور کافی ضعیف ہو گئے تھےانہوں نے معمر لوگوں کے گروپ میں شمولیت اختیار کر رکھی تھی اور انکے پروگراموں میں کافی فعال تھے۔
زندگی کے شب و روز اس نئی دنیا میں بھی اتنی ہی تیزی سے بیت رہے تھے ۔کبھی کبھی وہ سوچتی بقول منیر نیازی کے۔
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺩﯾﺮ ﮐﺎ ، ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ
ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﺴﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ
ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺁ ﺑﺴﺎﯾﮩﯽ ﺁﻧﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ، ﮐﮩﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺟﻨﺒﯽ
ﯾﮩﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺎﺭِ ﺣﯿﺎﺕ ﮬﮯ ، ﮐﺒﮭﯽ ﻗُﺮﺏ
ﮐﺎ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩُﻭﺭ ﮐﺎ
ﻣﻠﮯ ﺍِﺱ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ، ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎ ﻭﻓﺎ
ﮐﭩﯽ ﻋُﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮬﺎﮞ ، ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻝ
ﻟﮕﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﻟﮕﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺧُﻮﺍﺏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮬﮯ ﯾﮩﺎﮞ ،
ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮬﻮﮞ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ
ﮐﺴﯽ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﮐﺎ ، ﮐﺴﯽ
ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢِ ﯾﺎﺭ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍِﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ، ﮐﺴﯽ
ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮬﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﮩﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﮯ ، ﺍﻧﮩﯽ
ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﮬُﻮﺍ
ﯾُﻮﻧﮩﯽ ﮬﻢ ﻣُﻨﯿﺮؔ ﭘﮍﮮ ﺭﮬﮯ ، ﮐﺴﯽ ﺍِﮎ
ﻣﮑﺎﮞ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﻨﺎﮦ ﺳﮯ ، ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ
 ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺩَﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ

حفاظتی فرشتے۔

حفاظتی فر شتے
عابدہ رحمانی

پاکستان سے واپسی پر مجھے جو چیز یہاں یعنی شمالی امریکہ کی بہت بھاتی ہے بلکہ پاکستان میں جسکی یاد بھی بری طرح ستاتی ہے ۔وہ یہاں کے سائڈ واک یا عرف عام میں فٹ پاتھ ہیں۔ یہ فٹپاتھ پوری آبادی کے ساتھ بنے ہوتے ہیں ۔یہاں کے پیدل چلنے والوں کے یہ سائڈ واک اشد ضروری  ہیں ۔ اس سے پیدل چلنے والے محفوظ اور منظم ہوتے ہیں ۔
ٹورنٹو میں شدید برف باری اور انتہائی یخ موسم نے ان ساٸڈُواک کو بھی چلنے کے لئے دشوار بنا دیا تھا ۔ حالانکہ برف صاف کرنے والے ادارے اس سے  زیادہ تر برف صاف  کر دیتے ہیں اور اسکے اوپر پگھلانے والا نمک کافی مقدار میں ڈال دیتے ہیں لیکن پیدل چلنے کے لئے سخت سردی میں تکلیف دہ صورتحال  ہوتی ہے ۔ پھر بھی چند شوقین اور من چلے اسپر سردی سے محفوظ رہنے والے لباس میں واکنگ اور جاگنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
وہاں کی سردی سے فرار حاصل کی ،تو اس خطے کی معتدل اور قدرے گرم آب وِ ہوا نے  باہر نکل کر ہو ا خوری اور چہل قدمی پر اکسایا یوں بھی یہ میری عادت ثانیہ ہے آور جب دیگر کام کاج سے فراغت ہے تو چہل قدمی ایک مثبت سرگرمی ہے ۔ اپنی دھن میں مست ذرا تیز چلنے کی کوشش میں تھی۔ساتھ ساتھ زیر لب ذکر اور تلاوت بھی جاری تھا کہ اچانک ایک غیر ہموار سطح سے ٹھوکر لگی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور بری طرح منہ کے بل گری۔ اس خاموش سڑک پر اپنے کام سے جانے والا ایک ٹرک ڈرائیور فوری طور پر رک کر میری مدد کیلئے نیچے اترا۔ اسنے فورا ایمرجنسی ۹۱۱ کو کال کیا اور پھر میری طرف متوجہ ہوا۔ میرے چہرے سے بری طرح سے خون بہہ رہا تھا۔ اسنے جب دیکھا کہ میں ہوش میں ہوں تو مشورہ دیا کہ میں اسی طرح پڑی رہوں جبکہ میں اپنے حواس مجتمع کرکے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی یہ دیکھنے کے لئے کہ ہڈیا ں سلامت ہیں اور اللہ کی شان کہ میں کھڑی ہوگئی ۔خون اب بھی جاری تھا اتنے میں ایمر جنسی والے آگئے وہ بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر پریشان ہوئے ۔خون صاف کیا تو زخم چھوٹا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے کئی زخم اور خراشیں تھیں لیکن اللہ تبارک وتعالی نے بڑی تکالیف اور ہڈیاں ٹوٹنے  سے بچا لیا اور یہ حفاظتی فرشتے مدد کو بھیج دئے ۔ جنہوں نے سنبھال لیا۔ قرآن پاک کی ایک آیت ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر حفاظتی فرشتے مقرر کئے ہیں اور جب تمہارا وقت پورا ہوجاتا ہے تو یہ اٹھا لئے جاتے ہیں۔

Trip to Baluchistan!

Trip to Baluchistan!

Trip to Baluchistan

We started at 6 am from Rawalpindi ,courtesy Salah  and Azra . Driving through motorway up to Talagang for a short while,then the regular two way road started. crossing many small towns and passed over the famous Chashma Barrage on river Indus .we arrived at the famous 

date orchards and selling spot "ڈھکی کھجور  dhakki dates "and enjoyed delicious , fresh juicy dates. Arrived at Dera Ismail Khan' army officers mess around 12 noon . Had a sumptuous lunch and offered zuhar.Re started at 1pm ,the road was quite rough ,dusty and presumed as under construction. On our way watched a lot many Gypsy caravans moving down with huge herd of sheep, goats and other animals. Mostly their belongings on tractor trollies. Most have now opted to modern ways of transportation . Baluchistan is blessed with lots of fruits ,( sweet n tasty ) and a variety of minerals.On our way saw lots of solar panels for irrigation and power supply. It is a vast barren land therefore a lot of development is still required .Close to Zhob we saw many grape selling shops and many vineyards on our way. A high class sweet and soft grapes are grown in this area. Arrived at Zhob lodge the army mess of Zhob Militia in Baluchistan around 5:30 pm. Then Went to an other higher spot or officers mess called paradise point. It's height is 4750 ft

. This point was buildup in 1889 under the supervision of sir  Sandaman agent of Indian viceroy for Baluchistan . This city used to be  called "Fort Sandeman ". Z A Bhutto changed it's name to Zhob to eradicate the colonial era when he visited as a prime minister to this area. From this point we could see Zhob town all around . It reminded me of the Griffith Observatory in LA .which almost had the same height and location . However that one was a pro public attraction while this one is a military installation  with many vital differences.
Sept7: After a peaceful night stay we started for Quetta. Had a stopover at Qila Safullah where we had lunch . On our way saw a lot of chromite deposits which were loaded in trucks . Chromite is a potential mineral , used in manufacturing of aircraft parts. Chromite is the only ore of 
chromium, a metal essential for making stainless steel, nichrome, chrome plating, pigments, refractories, chemicals and pharmaceuticals. These hidden treasures are part of barren Baluchistan. There we visited a museum narrating the story of Baluchistan's leaders struggle and support for Pakistan movement. The pictures showed letters of khan of Qalat, Qazi Essa and Quaid I Azam's visit to Quetta and meeting with Baluch leaders. The Hindu Bagh now names Muslim Bagh . The ruins of old railway station showed some signs.
Later on we drove to Quetta , the road conditions were far better. After arrival we had some rest and got ready in the evening for a dinner. 
Sept 8
We started in the morning On way to Chaman Sheela Bagh , Khojak tunnel . It's a marvel of engineering build in 1889 . A story about the tunnel is kind of folk lore. " A  Hindu dancer by the name of Shila would perform in front of workers ,the money collected by her was taken by then government . The exciting and awesome trolley ride inside the tunnel for four kilometers outside 4 km total 8km was some thing unbelievable a life time experience. I even couldn't visualize that scary ride with out seat-belts and any precautions, it turned out to be marvelous. 
This place is Situated about 120 km from Quetta towards Afghan border, the famous 2,290-metre high Khojak pass of Toba Kakar Mountain, which has been crossed for centuries by soldiers, merchants and conquerors, is now a pleasure to drive. It can be crossed in half an hour, thanks to the good road. The famous Khojak tunnel of about 4 km length is yet another marvel, constructed in 1889 with famous shela Bagh Station nearby, it gained fame when it was printed on 5 rupee note. At the time of its construction, it was the lengthiest rail tunnel in Asia.
To pak afghan border at Chaman  and Spin Boldac Afghanistan, watched all the movement on both sides of border. The gate of friendship has some unfriendly gestures of firings at times. The division of border is interesting from house to house. 
- pishin sprawling lawns and trees in rest house.
Sept 9th
Went to Mach and Bolan area vast wilderness. The railway track set up at British era with great and stable infrastructure .
-To آب گم railway station build in 1929 and to see the train with two engines.
-To Mach prison , prison, juvenile section, study and computer rooms , kitchen with big pans and tanoor. The gallows were scary there are 633 inmates mostly criminal .
The prime time was to go to پیر غیب ۔
With gushing streams and water fall this place is amazing. We had lunch inside the stream a novel idea.
How ever the outside area was littered around stinky with smell of slaughtered animals and human remains .
Situated in the arid and barren mountains of Bolan, this amazing natural water feature is centre to many folklores and is frequented by tourists. It is about 70 km from Quetta towards Sibbi. The water gushing from the mountain is pooled immediately and then cascades down in small waterfalls and pools. The beauty of this place is mesmerizing but the unregulated local tourists are destroying its beauty by throwing the trash and garbage.
September 10th
On way to Ziarat , Lora lai
Ziarat is not only famous for its weather and Quaid e Azam Residency, it houses the 2nd largest forest of juniper trees, some of which are 5000 years old.
September 11
To Multan through Fort Monroe winding hills and Dera Ghazi khan.
September 12
Return journey from Multan to Islam abad.





Sent from my iPad

Wednesday, February 14, 2018

سفر ہے شرط



سفر ہے شرط
از
عابدہ رحمانی
لدی پھندی لمبی مسافرت اور  پرواز کے لئے روانگی ہوئی تو ڈرائیور نے اپنے ایک عزیز کے ذریعے سامان کی ترسیل میں مدد  دلانے کا اظہار کیا۔نیکی اور پوچھ پوچھ، اسوقت اس مدد کی شدیدضرورت تھی۔ ائر پورٹ پر ایک اژدھام تھا۔ ایسے میں جبکہ ایک مستعد شخص مدد کے لئے ٹرالی لئے،سامان اور سیٹ کی سہولت بہم پہنچانے کے لئے   تیار کھڑا ہو اس وقت اس سے بڑی نعمت کیا ہوسکتی تھی جبکہ ذہن سامان اور وزن میں الجھا ہوا ہو۔
  داخلی دروازے پر ایک ماں بیٹی کا وِ داعی منظر دلگداز اور رقت انگیز تھا بیٹی اور نواسے کو بمشکل رخصت کرتے ہوئے آنسو پونچھتی ہوئی ماں نے مجھے تھام لیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں جہاز میں دوران پرواز انکی بیٹی اور نواسے کا خیال رکھونگی۔
تمام مراحل سے گزر کر اس مددگار نے مجھے خدا حافظ کہا اور میں سی آئی پی لاؤنج کے لئے روانہ ہوئی ۔
یہ لاؤنج ایک گوشہ عافیت تھا اسکا مجھے اسوقت احساس ہوا جب اسی پرواز پر جانے والی ایک دوست کا فون آیا کہ وہ میری منتظر ہیں ۔میرے پرزور اصرار پر بھی وہ اندر آنے پر تیار نہ ہوئیں۔ تو میں خود ہی باہر ہولی  ہم دونوں نے اپنی طبع شدہ کتابیں ایک دوسرے کو دیں اس وعدے پر کہ اب جہاز میں ملاقات ہوگی۔وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ کئی پروازیں جا رہی تھیں اور مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی ۔اسلام آباد کا نیا ائرپورٹ کب کام شروع کریگا؟ ہم جیسی عوام کو شدت سے انتظار ہے ۔
سیڑھیوں پر ہاتھ کا سامان لے جانا اب کافی مشکل لگتا ہے ۔اللہ بھلا کرے انکا جو مدد کو تیار ہوجاتے ہیں۔
جہاز میں سیٹ سنبھالی بیچ کی سیٹ چھوڑ ایک لڑکا بیٹھ گیا۔ جب کچھ دیر کے بعد بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ اٹلانٹا میں نیورو سرجری میں ریزیڈنسی کر رہا ہے،ذہین اور فطین بچہ تھا۔ غنیمت ہے کہ بیچ کی سیٹ خالی رہی۔ اور ہم دونوں سکون سے رہے۔ 
پی آئی اے کا یہ جہاز یوں سمجھ لیں فضا کے دوش پر اڑتا ہوا پاکستان ہے ،پاکستان کے ہر خطے کے لوگ نظر آتے ہیں۔ تفریحی سسٹم اسوقت بھی خراب تھا اسکے باوجود کانوں میں لگانے والے پلگ تقسیم ہوئے ۔ جب فضائی میزبان سے پوچھا کہ یہ کس لئے ہیں ؟ تو مسکرا کر کہا ، "دعا کیجئے شاید چل جائے"
اسوقت جب دنیا کے تقریباً ہر جہاز میں یہ سسٹم موجود ہے پی آئی اے کے جہاز میں یہ پچھلے سال سے خراب ہے۔غالبا اسکی بحالی یا مرمت کو غیر ضروری سمجھا گیا ورنہ ٹھیک ہو چکا ہوتا۔ میرے لئے یوں  باعث اطمینان ہے کہ اسی بہانے آنکھیں موند لی جاتی ہیں۔ اب تو بیشتر جہازوں میں وائی فائی کی سہولت ہے امارات ائر لائن کے جہازوں میں مفت سہولت ہے۔
پی آئی اے ایک زمانے میں دنیا کے بہترین ائر لائن میں شمار ہوتاتھا ۔ اسوقت کی کئی مشہور ائر لائنز مثلاً امارات ، ملائشین، اور دیگر کئ ایک کو  اسنے رہنمائی اور تربیت فراہم  کی ۔ آج بھی اسکے منجھے ہوئے ہواباز کسی سے کم نہیں ہیں۔ ابھی تک یہ حکومت کے زیر تصرف ہےاور قومی ایئرلائن کی حیثیت ہے ۔پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اورئنٹ ائر ویز کے بعد پی آئی اے کا قیام عمل میں آیا ۔اسکا مقولہ تھا 
Great people to fly with
عظیم افراد پی آئی اے کے مسافر

اقربا پروری عملے کی غیر ضروری زیادتی اور بد عنوانی نے اس محکمے کو گہنا دیا ہے اور کارکردگی بری طرح متاثر کی ہے ۔ ماضی میں نج کاری کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔نج کاری سے حالات شاید بہتر ہوجاتے ۔پی آئی اے والے دیگر ائیر لائن کے نفاذ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں جبکہ یہ تو ہونا ہی تھا اسی سے تو مسابقت کی دوڑ ہوتی ہے ۔ شہری ہوا بازی میں عروج و زوال کی داستانیں کافی عام ہیں امریکہ میں آ ئے روز ائر لائن دیوالیہ ہو جاتے ہیں یا ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں۔
 
امریکہ سے تو تمام پروازیں بند ہو چکی ہیں  ٹورنٹو کی یہ پرواز پی آئی اے کی اسوقت مثالی پرواز ہے اگر راستے میں کہیں رکنے کی ضرورت نہ ہو تو تیرہ چودہ گھنٹے میں اسلام آباد کا سفر انتہائی آرام دہ ہوتا ہے۔
اب ان خاتون سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا ۔ اٹھ کھڑی ہوئی یوں بھی تاکید تھی کہ ایک آدھ گھنٹے کے بعد کچھ حرکت ضروری ہے۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں لیکن وہ لڑکی مجھے نہ مل سکی ۔ قوی امید تھی کہ اب تک سنبھل چکی ہوگی لیکن کاش کہ مل جاتی ۔
جہاز منزل کی جانب رواں دواں تھا ۔ سوتے جاگتے ، کھاتے پیتے ، نمازیں ادا کرتے تھوڑا بہت چہل قدمی اور گپ شپ کرکے وقت تیزی سے گزر رہاتھا ۔
ٹورنٹو اترنے کیلئے جہاز نیچے آیا تو حد نظر تک برف کی سفید چادر بچھی ہوئی دکھائی دی۔ ۲۰ ڈگری سنٹی گریڈ سے ہم منفی ۲۰ کی جانب سات سمندر پار پہونچ چکے تھے ۔ اندرون چلنے والی گرمائش سے اس سردی اور ٹھنڈک کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا ۔ باہر کی فضاء میں تمام کوٹ جیکٹ سمیت پانچ منٹ نہیں گزارے جاتے۔اسلام آباد اور پاکستان کو ہم ہزاروں میل دور چھوڑ آئے تھے اور اس سرزمین پرپہنچ چکے تھے جسکو دوسرا وطن کہہ سکتے ہیں جہاں ہماری پہچان پاکستانی کینیڈئن کے طور پر ہے ۔ یہاں پر ہمارا وقت پاکستان سے نو گھنٹے پیچھے تھا پاکستان میں اگلی تاریخ شروع ہو چکی تھی اور رات کے تقریباً دو بجے تھے اور یہاں  پچھلی تاریخ کے شام کے پانچ بج رہے تھے ۔ جیٹ طیاروں کی برق۔رفتاری کی بدولت ہم یہاں کے ٹائم زون میں پہونچ چکے تھے ۔ جسمانی گھڑی کو اسکا عادی ہونے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔  
جہاز کو گیٹ  میسر نہیں تھا تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جہاز آکر رکا ۔ امیگریشن وغیرہ سے گزر کر سامان کی وصولی کے لئے پہنچی تو معلوم ہوا کہ ابھی تو سامان کی آمد شروع ہی نہیں ہوئی تھی۔ ادھر ادھر دیکھا تو وہ لڑ کی اپنے بچے کو بہلاتی ہوئی دکھائی دی ۔ میں لپک کے ملی اسکی خیریت دریافت کی خوش وخرم دکھائی دی سامان کی منتظر تھی ایک لوڈر لے رکھا تھا  ،اسنے کہا کہ امی آپکا پوچھ رہی تھیں جہاز میں اسکی نشست مجھ سے کافی دور تھی۔ میرا فون نمبر لیا ۔ یوں مجھے بھی اطمینان ہوا ۔
ہمارا سامان آنے میں دو گھنٹے لگ گئے جہاز کے سامان کا دروازہ سخت سردی سے جم گیا تھا اور بڑی مشکلوں سے اسکو کھولاگیا ۔  تھکان سے چور، یوں محسوس ہو رہاتھا کہ ٹانگیں شل ہو گئی ہوں لیکن انجام بخیر تو سب بخیر۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں۔
 
Sent from my iPad