Friday, January 26, 2018

زندگی کیا ہے ؟

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا

چکبست نے اپنے اس شعر میں فلسفے اور منطق کی جو ادق باتیں نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے سموئی ہیں  ان حقائق کا سراغ سائنس دان، کیمیا دان ، ماہرِ فلکیات و ارض اور مابعد الطبیعات کے ماہر ین بہت بعد میں لگا سکے۔دُنیا بھر کے چنیدہ ماہرینِ طبیعات  ، تجربہ گاہ کے اربابِ کار ایک طویل عرصے ایک انتہائی گرانقدر تجربہ گاہ Large Hadron Collider میں ایک جہدِ مسلسل کے بعد یہ اعلان کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ وہ اُس حقیر ترین و خفیف ترین “ذرّے” کو دیکھنے اور دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے جو نہ صرف ہمارے اس کرّۂ ارض بلکہ تمام کائنات  میں زندگی کی موجودگی کی بُنیاد اور سبب ہیں جس کی اصل مادی ہے۔ کائنات کی رنگا رنگی انہی  ننھے مُنّے سے “ذرّات” کی مرہونِ منّت ہے اور انسانی تاریخ کا اہم ترین سنگِ میل بھی۔ 
سائنس کے اس حیرت انگیز انکشاف کے بعد سائنس دان اس امر پر متّفق اور پُر اُمید نظر آتے ہیں کہ کائنات کے آغاز کا عقدہ بھی بہت جلد کھُل جائے گا۔
سائنسدان پردۂ اسرار ِِ قدرت چاک کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اور ہم ان تجربات کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھتے آ رہے ہیں اور دیکھتے جائیں گے۔

(پنڈت برج نارائن چکبست)

دل ہی بُجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا، شراب ہے کیا ، سبزہ زار کیا
یہ دِل کی تازگی ہے، وہ دِل کی فسردگی
اس گلشنِ جہاں کی خزاں کیا بہار کیا
کس کے فسونِ حُسن کا دُنیا طلسم ہے
ہیں لوحِ آسماں پہ یہ نقش و نگار کیا
اپنا نفس ہوا ہے گُلو گیر وقتِ نزع
غیروں کا زندگی میں ہو پھر اعتبار کیا
دیکھا سرورِ بادۂ ہستی کا خاتمہ
اب دیکھیں رنگ لائے اجل کا خُمار کیا
اب کے تو شامِ غم کی سیاہی کُچھ اور ہے
منظُور ہے تُجھے مرے پروردگار کیا
دُنیا سے لے چلا ہے جو تُو حسرتوں کا بوجھ
کافی نہیں ہے سر پہ گناہوں کا بار کیا
جس کی قفس میں آنکھ کھُلی ہو مری طرح
اُس کے لئے چمن کی خزاں کیا بہار کیا
کیسا ہوائے حرس میں برباد ہے بشر
سمجھا ہے زندگی کو یہ مُشتِ غبار کیا
خلعت کفن کا ہم تو زمانے سے لے چُکے
اب ہے عروسِ مرگ تجھے انتظار کیا
بعدِ فنا فضول ہے نام و نشاں کی فکر
جب ہم نہیں رہے تو رہے گا مزار کیا
اعمال کا طلسم ہے نیرنگ زندگی
تقدیر کیا ہے گردشِ لیل و نہار کیا
چلتی ہے اس چمن میں ہوا انقلاب کی
شبنم کو آئے دامنِ گُل میں قرار کیا
تفسیر حالِ زار ہے بس اک نگاہِ یاس
ہو داستانِ درد کا اور اختصار کیا
دونوں کو ایک خاک سے نشو و نما ملی
لیکن ہوائے دہر سے گُل کیا ہے خار کیا
چٹکی ہوئی ہے گورِ غریباں پہ چاندنی 
ہے بیکسوں کو فکرِ چراغِ مزار کیا
کُچھ گُل نہاں ہیں پردۂ خاکِ چمن میں بھی
تازہ کرے گی ان کو ہوائے بہار کیا
راحت طلب کو درد کی لذّت نہیں نصیب
تلوں میں آبلے جو نہیں لطفِ خار کیا
خاکِ وطن میں دامنِ مادر کا چین ہے
تنگی کنار کی ہے لحد کا فشار کیا
انسان کے بغضِ جہل سے دُنیا تباہ ہے
طوفاں اُٹھا رہا ہے یہ مشتِ غبار کیا

چکبست کے دو اور اشعار:
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشتِ خاک کو غم دو جہاں کے ہیں

اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کُچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
 
بچپن ، شباب و جوانی  کیفیات ہیں اور بڑھاپا بھی ایک کیفیت کا ہی نام ہے کسی بیماری کا نام نہیں ہے۔
   غالب نے کہا تھا کہ قوی مضمحل ہو گئے اس لئے اب عناصر میں اعتدال نام کی شے باقی نہیں رہی۔

No comments:

Post a Comment