Monday, December 17, 2018

چائے کا راز

نے چین سے چائے کی کاشت کا صدیوں پرانا راز کیسے چرایا؟

چائے نوشیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption1876 میں یورپ میں چائے نوشی کی محفل

(چائے کے عالمی دن کے موقعے پر لکھی جانے والی خصوصی تحریر)

لمبے تڑنگے رابرٹ فارچیون نے قلی کے آگے سر جھکا دیا۔ اس نے ایک زنگ آلود استرا نکالا اور فارچیون کے سر کا ابتدائی حصہ مونڈنے لگا۔ یا تو استرا اتنا کند تھا یا پھر قلی ہی ایسا اناڑی تھا کہ فارچیون کو لگا کہ ’جیسے وہ میرا سر مونڈ نہیں رہا بلکہ کھرچ رہا ہے۔‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو کر گالوں پر ڈھلکنے لگے۔ 

یہ ستمبر 1848 میں چینی شہر شنگھائی سے کچھ دور واقع ایک علاقے کا واقعہ ہے۔ فارچیون ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاسوس ہے جو چین کے اندر ممنوعہ علاقے میں جا کر وہاں سے چائے کی پتیاں چرانے کی مہم پر آیا ہوا ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے اسے سب سے پہلے بھیس بدلنا ہے جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ چین کے رواج کے مطابق ماتھے کے اوپری حصے سے بال منڈوا دے۔ اس کربناک عمل سے گزرنے کے بعد فارچیون کے مترجم اور رہنما نے اس کے بالوں میں ایک لمبی مینڈھی گوندھ کر اسے چینی لبادہ پہنا دیا اور اسے تنبیہ کی کہ وہ اپنا منھ بند رکھے۔ 

یہ بھی پڑھیں!

چائے، زندگی کی لہر

ڈیڑھ صدی پر پھیلی چائے کی کہانی 

سائنسدانوں نے چائے کا راز معلوم کر لیا

ایک مسئلہ اب بھی باقی تھا جسے چھپانا آسان نہیں تھا۔ فارچیون کا قد عام چینیوں کے مقابلے پر ایک فٹ سے بھی لمبا تھا۔ اس کا حل اس نے کچھ یوں نکالا کہ لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ وہ دیوارِ چین کے دوسری طرف سے آیا ہے جہاں کے لوگ طویل قامت ہوتے ہیں۔ 

رابرٹ فارچیونتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionرابرٹ فارچیون چائے کی مدد سے اپنی قسمت بنانے میں کامیاب ہو گیا

اس مہم میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ اگر فارچیون کامیاب ہو جاتا تو چائے پر چین کی ہزاروں سالہ اجارہ داری ختم ہو جاتی اور ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں چائے اگا کر ساری دنیا میں فراہم کرنا شروع کر دیتی۔ لیکن دوسری طرف اگر وہ پکڑا جاتا تو اس کی صرف ایک ہی سزا تھی۔ موت! اس کی وجہ یہ تھی کہ چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کے حکمران صدیوں سے اس راز کی حفاظت کی سرتوڑ کوششیں کرتے آئے تھے۔ 

دو ارب پیالیاں روزانہ

ایک تحقیق کے مطابق پانی کے بعد چائے دنیا کا مقبول ترین مشروب ہے اور دنیا میں روزانہ دو ارب لوگ اپنے دن کا آغاز چائے کی گرماگرم پیالی سے کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس دوران کم ہی لوگوں کے دماغ میں یہ خیال آتا ہو گا کہ یہ مشروب جو ان کے مزاج کو فرحت اور دماغ کو چستی بخشتا ہے، ان تک کیسے پہنچا۔

چائے کی یہ کہانی کسی سنسنی خیز ناول سے کم نہیں۔ یہ ایسی کہانی ہے جس میں حیرت انگیز اتفاقات بھی ہیں، پرفریب جاسوسی مہم جوئیاں بھی، سامراجی ریشہ دوانیاں بھی، خوش قسمتی کے لمحات بھی اور بدقسمتی کے واقعات بھی۔ 

ہوا میں اڑتی پتیاں

چائے کا آغاز کیسے ہوا، اس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ایک کے مطابق قدیم چینی دیومالائی بادشاہ شینونگ کو صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ اس نے تمام رعایا کو حکم دیا کہ وہ پانی ابال کر پیا کریں۔ ایک دن کسی جنگل میں بادشاہ کا پانی ابل رہا تھا کہ چند پتیاں ہوا سے اڑ کر دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو نہ صرف اسے ذائقہ پسند آیا بلکہ اسے پینے سے اس کے بدن میں چستی بھی آ گئی۔ 

چائے کا پوداتصویر کے کاپی رائٹDEA PICTURE LIBRARY
Image captionچائے کا پودا

یہ چائے کی پتیاں تھیں اور ان کے فوائد کے تجربے کے بعد بادشاہ نے عوام کو حکم دیا کہ وہ بھی اسے آزمائیں۔ یوں یہ مشروب چین کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ 

یورپ سب سے پہلے 16ویں صدی کی ابتدا میں چائے سے آشنا ہوا جب پرتگالیوں نے اس کی پتی کی تجارت شروع کر دی۔ ایک صدی کے اندر اندر چائے دنیا کے مختلف علاقوں میں پی جانے لگی۔ لیکن خاص طور پر یہ انگریزوں کو اتنی پسند آئی کہ گھر گھر پی جانے لگی۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ داری تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی (اس وقت سی پیک والا راستہ دریافت نہیں ہوا تھا!)۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نوآبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں تاکہ چین کا پتہ ہی کٹ جائے۔

اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔ 

اس مقصد کے لیے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے اس لیے اس نے اپنے رہبر کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ 

سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا۔ یعنی ’شوخ پھول۔‘ 

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے خاص طور پر ہدایات دے رکھی تھیں کہ ’بہترین چائے کے پودے اور بیج ہندوستان منتقل کرنے کے علاوہ آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اس پودے کی کاشت اور چائے کی پتی کی تیاری کے بارے میں ہر ممکن معلومات حاصل کر کے لائیں تاکہ انھیں بروئے کار لا کر ہندوستان میں چائے کی نرسریاں قائم کرنے میں ہر ممکن مل سکے۔‘

اس کام کا معاوضہ اسے پانچ سو پاؤنڈ سالانہ ادا کیا جانا تھا۔ 

فارچیون کا کام آسان نہیں تھا۔ اسے چین سے چائے کی پیداوار کے طریقے ہی نہیں سیکھنا تھے بلکہ وہاں سے اس نایاب جنس کے پودے چوری کر کے لانے تھے۔ فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر سمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے تاکہ وہاں چائے کی پیداوار بڑے پیمانے پر شروع ہو سکے۔ 

یہی نہیں، اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔ 

چائے
Image captionچین میں چائے ہزاروں سال سے پی جا رہی ہے

یہ بھی پڑھیں!

انڈیا میں پاکستانی چائے والے کی دھوم

خوبرو چائے والے کا مقدر چمک گیا

اس دوران اسے خود چائے کے پودوں کی تمام اقسام، اگنے کے موسم، کاشت، پتی کی پیداوار، سکھانے کے طریقوں وغیرہ کے بارے میں تمام علم حاصل کرنا تھا، چاہے وہ سبز چائے ہو یا کالی، سفید ہو یا سرخ چائے۔ 

فارچیون کا مقصد عام چائے کے پودے حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ عمدہ ترین چائے حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر چائے کا بین الاقوامی کاروبار عمدہ ترین چائے سے کیا جائے۔ 

آخر کشتیوں، پالکیوں، گھوڑوں اور دشوار گزار راستوں پر پیدل چل کر تین ماہ کے دشوار گزار سفر کے بعد فارچیون کوہِ وویی کی ایک وادی میں قائم چائے کے ایک بڑے کارخانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں چائے کی تیز مہک کے علاوہ دروازے پر لگے لکڑی کے ایک تختے نے فارچیون کا استقبال کیا۔ اس پر چائے کی تعریف میں ایک قدیم نظم کندہ تھی: 

اعلیٰ چائے کی پتی میں

شکنیں ہونی چاہییں

جیسے کسی تارتار کے چمڑے کے جوتے

لہریں ہوں

جیسے کسی توانا بیل کی گردن کا لٹکتا گوشت

یہ یوں کھِلتی ہو

جیسے کسی وادی میں دھند اٹھتی ہے

یہ یوں چمکتی ہو

جیسے کسی جھیل پر صبا کا جھونکا

یہ ایسی ملائم اور نم ہو

جیسے تازہ بارش کے بعد زمین 

اس سے قبل یورپ میں سمجھا جاتا تھا کہ سبز چائے اور کالی چائے کے پودے الگ الگ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر فارچیون کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دونوں اقسام کی چائے ایک ہی پودے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اصل فرق دونوں کے سکھانے اور پکانے کے طریقوں میں ہے۔ 

فارچیون یہاں چائے بننے کے ہر مرحلے کا گہرا مگر خاموش مشاہدہ کرتا رہا اور نوٹس لیتا رہا۔ اگر اسے کسی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو وہ اپنے رہبر کی وساطت سے پوچھ لیتا تھا۔ 

سنگین غلطی جو خوش قسمتی میں بدل گئی

فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام کی آنکھ بچا کر چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان سمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔ 

لیکن انھوں نے اس معاملے میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔ 

فارچیون جو پودے لے کر آیا تھا وہ چین کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے ٹھنڈے موسموں کے عادی تھے۔ آسام کی گرم موطوب ہوا انھیں راس نہیں آئی اور وہ ایک کے بعد ایک کر کے سوکھتے چلے گئے۔ 

اس سے قبل کہ یہ تمام مشقت بےسود چلی جاتی، اسی دوران ایک عجیب و غریب اتفاق ہوا۔ 

اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوش قسمتی کہیے یا چین کی بدقسمتی کہ اسی دوران اس کے سامنے آسام میں اگنے والے ایک پودے کا معاملہ سامنے آیا۔ 

اس پودے کو ایک سکاٹش سیاح رابرٹ بروس نے 1823 میں دریافت کیا تھا۔ چائے سے ملتا جلتا مقامی پودا آسام کے پہاڑی علاقوں میں جنگلی جھاڑی کی حیثیت سے اگتا تھا۔ تاہم زیادہ تر ماہرین کے مطابق اس سے بننے والا مشروب چائے سے کمتر تھا۔

فارچیون کے پودوں کی ناکامی کے بعد کمپنی نے اپنی توجہ آسام کے اس پودے پر مرکوز کر دی۔ فارچیون نے جب اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ چینی چائے کے پودے سے بےحد قریب ہے، بلکہ ان کی نسل ایک ہی ہے۔ 

آسام میں چائے کی پیداوارتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionآسام میں چائے کی پیداوار

چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا۔ 

اور یوں کارپوریٹ دنیا کی تاریخ میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی سب سے بڑی چوری ناکام ہوتے ہوتے بھی کامیاب ہو گئی۔

دیسی چائے کی کامیابی کے بعد کمپنی نے آسام کا بڑا علاقہ اس ہندوستانی پودے کی کاشت کے لیے مختص کر کے اس کی تجارت کا آغاز کر دیا اور ایک عشرے کے اندر یہاں کی پیداوار نے چین کو مقدار، معیار اور قیمت تینوں معاملات میں پیچھے چھوڑ دیا۔ 

برآمد میں کمی کے باعث چین کے چائے کے باغات خشک ہونے لگے اور وہ ملک جو چائے کے لیے مشہور تھا، ایک کونے میں سمٹ کر رہ گیا۔ 

اصل چائے کی بجائے ’سیال حلوہ‘

انگریزوں نے چائے بنانے میں ایک ’بدعت‘ متعارف کروا دی۔ چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے، انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔ 

سچ تو یہ ہے کہ آج بھی چینیوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ چائے میں کسی اور چیز کی آمیزش کی جائے۔ جہاں ہندوستانیوں نے انگریزوں کی دوسری بہت سی عادات اپنا لیں، وہیں وہ اپنے حکمرانوں کی دیکھا دیکھی چائے میں بھی یہ ملاوٹیں کرنے لگے۔

اردو کے صاحبِ طرز ادیب و دانشور مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ’غبارِ خاطر‘ میں اس بارے میں لکھتے ہیں: 

’چائے چینیوں کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی کہ انھوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انھی کے ذریعے ہوا، اس لیے یہ بدعتِ سیئہ یہاں بھی پھیل گئی، رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی بجائے دودھ میں چائے ڈال کر پینے لگے۔۔۔

’لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں، کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے

ہائے کم بخت تم نے پی ہی نہیں!‘

امریکی انقلاب میں ہندوستان کا کردار؟

چائے کی کہانی میں ہندوستان کے اہم کردار کا ایک ثبوت انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے 1985 میں امریکہ کے دورے کے دوران پیش کیا جب انھوں نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں پیدا ہونے والی چائے نے امریکیوں کی برطانیہ سے آزادی کے جذبے کو ہوا دی تھی۔

ان کا اشارہ 1773 کی طرف تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی امریکہ میں چائے فروخت کرتی تھی لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتی تھی۔ آخر تنگ آ کر ایک دن کچھ امریکیوں نے بوسٹن کے ساحل پر کھڑے بحری جہاز پر چڑھ کر کمپنی کی ملکیتی چائے کی پیٹیاں سمندر میں پھینک دیں۔ برطانوی حکومت نے اس کا جواب ’آہنی ہاتھوں‘ سے دیا جس سے امریکی نوآبادی میں وہ بےچینی پھیلی کہ بالآخر تین سال بعد امریکی آزادی پر اختتام پذیر ہوئی۔

تاہم جیسے کہ اوپر بیان کردہ کہانی سے واضح ہو گیا ہو گا، راجیو گاندھی کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ 18ویں صدی میں ہندوستانیوں نے چائے اگانا نہیں شروع کی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی چین سے براہِ راست چائے خریدتی تھی۔ 

یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے جب 2016 میں کانگریس سے طویل خطاب کیا، لیکن انھوں نے اس دوران چائے کا ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ بعض لوگوں کے مطابق چائے سے اپنے پرانے تعلق کی بنا پر اس معاملے پر ان کا حق اپنے پیش رو راجیو گاندھی سے کہیں زیادہ تھا! 


Thursday, December 6, 2018

A note from my diary!

A note from my diary:
One of my life time experience!
When thrill and excitement turned into fear and anxiety!
By:
Abida Rahmani

It was a random Trip to north of Toronto planned by my son Nasir on 21st of November.The first snow storm of this season a day earlier welcomed him on his arrival to Toronto.. 
It was snowing when we had a stopover in "on-route Rest area at Barrie"for a cup of coffee and tea. Then  we decided to go to Blue Mountain. The scenic, enchanting area of Wasaga beach and  Collingwood was covered with a thick snowy drape all around. On one side the blue clear water of Georgian bay was flowing in serenity.We drove and then walked around in snow in the park on side of Georgian bay.As we drove out on opposite direction the board of  " scenic caves"attracted us. It was almost -8 to -10 c outside and the time was almost 3:00pm. Nasir decided to rent snowshoes to have a walk outside on the tracks in the snow. The girls helped me putting and tying on those racket type shoes with this information that if we withdrew with in ten minutes,we will be fully refunded. They warned us to come back at 5:00 pm as they were closing by 5.
As we embarked in the snow it seemed a lot of fun and excitement initially with no intention of backing out in ten minutes. 
The suspension bridge and adjoining area was just breathtaking. This 420 feet bridge is above 25 meters over the valley and looked sturdy with iron railings and fence. The walk was spectacular though a bit tough. 
Nasir's phone was out of battery and he used my phone for pictures . He then informed me that the phone suddenly stopped working. I desperately got involved in fixing it but in vain. In this pursuit, got worried without a phone and the same without pictures.( what a necessity for us the holders of a smartphone!)
After the bridge we started going up and down. As I stared at my watch it was almost 4 that I freaked out . It seemed that we have arrived quite far in the wilderness. The phones weren't working and we have to get back at 5 pm. Nasir was following the map and there were signs on trees,despite all that I started going through a lot of tension and anxiety. Getting breathless and exhausted I trembled and fell down in the heap of snow. Luckily the snow was quite soft and I wasn't hurt. Unable to standup myself ,it only became possible with my son's help. He almost pulled me out. Glory to Almighty. Anyway with all my vigor restarted to walk to reach back to destination , praying to Almighty for help. No one else except us could be seen in the area around. I was scared that the office is going to be closed and they will leave at 5:00pm. 
Dreadful with this thought of leaving behind and with walk in the snow, I started feeling quite hot in this extreme cold, I opened and loosen my jacket,removed the muffler. The cold blast was a bit soothing. . ...
Nasir assuring me that we were close by he even assured me that we would be there in 10-15 minutes. Hoping for the best , he exclaimed ,"here is the office." It was a sigh of relief and gratitude to my lord. I asked him to rush there as I was quite slow and breathless.
As he reached inside he asked them to help me. I was quite close then that a boy brought a snowmobile to pick me .However I decided to complete this adventure on my own.
In excitement and relaxation of being safe and sound didn't even notice the time of the arrival. The girl taking out my shoes informed me," we wouldn't leave until you have returned. We'd take our snow mobile and searched for you all around. There are still two persons outside for whom we'd search."At that l screamed why didn't you tell us all this earlier."
Alhamdolillah all is well that ends well!

Sunday, November 11, 2018

ٹورنٹو میں موسم سرما کی آمد





ٹورنٹو میں موسم سرما کی آمد

یہ موسم سرد ہواؤں کا ، کیوں لوٹ کے پھر سے آیا ہے۔۔

از 
عابدہ رحمانی

 موسم نے کیا چولا بدلا ، یخ بستہ ہواوؤں کا راج ہوا اور اس سے بچاؤ کے لئے لوگوں نے موٹے کوٹ ، جیکٹ، دستانے ، ٹوپی گرم اور موٹے کپڑوں میں پناہ لی ۔(ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو دو ماہ پہلے مختصر ترین لباس میں ملبوس تھے)۔ تقریبا ہر جگہ ہیٹنگ یا اندرون خانہ گرمائش کا نظام شروع ہوچکا ہے ۔ درختوں کے پتوں نےجو حسین رنگ برنگے پیرہن اوڑھ لئے تھے ، سبحان اللہ انکا حسن بے حد سحر انگیز ہوتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنگلوں میں صناعی ہو گئی ہے اور قدرت کی یہ صناعی لا جواب ہوتی ہے  ۔لیکن ہر حسن کو زوال ہے اور اب ا سکے زوال کا وقت شروع ہوا یہی اس خطے میں قدرت کا قانون ہے ۔ رفتہ رفتہ زرد اور بھورے کملاتے ہوئے یہ پتے ایک تند و تیز ہوا کی لپیٹ میں آ کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔یہ ٹند منڈ درخت سخت سردی اور برفباری جھیلتے ہوئے موسم بہار کی آمد کےمنتظر ہوتے ہیں۔
ہوا کےتیز و تند جھونکوں سے یہ پت جھڑ شروع ہوا اور سر سراتے ہوئے پتے ہر جانب رواں دواں ہوئے۔ تیز ہوا اڑاتے ہوئے انہیں کونوں کدروں میں سمیٹنے لگی ۔گھروں کے آس پاس لوگ ان پتوں کو سمیٹ کر خاکی ردی کاغذ کے بڑے تھیلوں میں سمیٹ کر کوڑا اٹھانے والی گاڑیوں کے لئے رکھ دیتے ہیں ۔ اور بعد میں ان سے کھاد تیار کی جاتی ہے۔ 

درجہ حرارت جب تک دس سنٹی گریڈ یا اس سے اوپر ہے تو موسم خوشگوار ہے لیکن رفتہ رفتہ ہم منفی درجہ حرارت اور برف باری کی جانب بڑھ رہے ہیں  اندرون خانہ تو گرم رہنے کے بہترین انتظامات ہیں لیکن باہر نکلنے کے لئے درجہ حرارت دیکھ کر اوڑھ لپیٹ کر نکلنا پڑتا ہے۔ کپڑوں کی تہیں چڑھانی پڑتی ہیں اسطرح کے جیکٹ اور اوور کوٹ جو اندر جاکر ہمیں اتارنے پڑیں تو کوئی دقت نہ ہو۔ اکثر تو اندر ون اسقدر گرمائش ہوتی  ہے کہ ایک کے بعد ایک کافی ساری تہیں اتارنی پڑ جاتی ہیں اور اگر لٹکانے کی مناسب جگہ نہ ہو تو لادے لادے گھومنا پڑتا ہے۔

بیشتر کھلے تفریحی مقامات موسم سرما کیلئے بند کر دئے گئے ہیں ۔ پارکوں اور تفریح گاہوں میں ایک ویرانی سی دکھائی دیتی ہے ۔ گرمیوں کی تمام چہل پہل ماند ہونے لگی ہے ۔ سردی کی وجہ سے  راہگیر بہت کم دکھائی دیتے ہیں ایک  تو وہ ہوتے ہیں جنہیں مجبورا نکلنا پڑتا ہے یا انکے پاس ذاتی سواری نہیں ہوتی۔ بصورت دیگر وہ شائقین جو اس سردی میں چہل قدمی اور جاگنگ کرتے ہیں۔

برف پگھلانے والے مواد اور نمک کی خرید اری زوروں پر ہے اسے گزرگاہوں اور سڑکوں پر برف باری ہونے کے بعد ڈالا جائے گا ۔شدید برف باری کی صورت میں یہ بھی اکثر ناکافی اور بیکار ہو جاتا ہے۔ سردی اور سخت سردی کا یہ موسم  ٹورنٹو اور کینیڈا کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس سے نمٹنے کی تدابیر اور کوشش کی جاتی ہے۔ مقامی باشندے اسے جھیلنے کے لئے تیار  ہوتے ہیں۔ معمر حضرات کی اکثریت سخت سردی سے نجات حاصل کرکے امریکہ کے گرم ریاستوں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان میں کیلیفورنیا، فلوریڈا ، اریزونا ، ٹیکساس کے کچھ علاقے لوزیانا اور دیگر شامل ہیں ۔ کچھ مزید دور کریبئن اور میکسیکو چلے جاتے ہیں ۔ ان لوگوں نے سنو برڈ ( برفانی پرندے) ایسوسی ایشن بنا رکھی ہے ۔ گرمیوں کے آغاز پر انکی وطن واپسی ہوتی ہے۔ 

کینیڈا کی مشہور بطخیں بھی جنوب کی جانب گرم علاقوں کی جانب مائل پرواز ہوتی ہیں موسم کی خنکی کے ساتھ ساتھ وہ ٹیں تیں کرتی ہوئی جھنڈ کی جھنڈ اڑان بھرتی ہیں۔
 دنیا کے شمالی کرے میں موسم سرما اور جنوبی کرے میں موسم گرما کا آغاز ہو چکا ہے خط استوا سے دوری اور نزدیکی تغیر اور تبدیلی کا باعث بنتی ہے ۔کینیڈا مزید شمال کی جانب ہے جو شہر اور علاقے امریکہ کے ساتھ ہیں وہ یہاں کے گرم ترین علاقے ہیں ۔ جسقدر شمال کی طرف بڑھتے جائیں مزید 
ٹھنڈک کا راج ہوتا ہے۔ جہاں اگلو بنے ہوئے ہیں اور اسکیمو رہتے ہیں۔۔

اس مرتبہ کینیڈا یا ٹورنٹو میں زوردار لمبی گرمیاں گزریں۔ایسی گرمیا ں آئیں کہ بہت سے تو بلبلا اٹھے ۔مونٹریال میں کئی لوگ گرمی کی شدت سے ہلاک ہوگئے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قدر شدید سردی کو جھیلنے والی قوم میں گرمی جھیلنے کی تاب نہیں ہے۔


 گرمیوں کے یہ قصے  اس موسم کی آمد کے ساتھ  خواب و خیال ہوگئے ۔ یقین ہی نہیں آتا کہ یہاں کبھی کراچی جیسا حبس بھی تھا جبکہ ہمارے پیرہن پاکستان کے لون کے بنے ہوئے سوٹ تھے،ائر کنڈیشنر اور پنکھوں کے بغیر گزارہ مشکل تھا۔ گرمی کے موسم میں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہاں اس قدر شدید سردی بھی پڑتی ہے ۔
ا
۔یہاں کی سردی میں پاکستان کی طرح پکوان کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا وہاں پر گرم گرم گاجر کا حلوہ، گجریلا اور دیگر حلوہ جات ،ٹن ٹن کرتی ہوئی چھابڑیوں پر بھنی مونگ پھلی ، ریوڑیاں اور گجک، کوئلوں پر سنکے بھٹے ، نمک میں بھنے مکئی اور چنوں کے دانے ،بڑے کے پائے اور گرم گرم نان جبکہ نہاری تو اب عام کھانا ہوگیا ہے ۔ ہاں ہم پاکستانی اپنے طور پر اسکا اہتمام کرنیکی کوشش کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں بھنے ہوئے چلغوزوں کا راج ہوتا تھا ۔ خشک میوےسے مہمانوں کی خاطر تواضع کی جاتی تھی۔ یہ میوہ جات سردیوں کا خاسہ ہوتی تھیں۔

ان دنوں کرسمس کے لئے ا ٓرائش و زیبائش جاری ہے  کرسمس اور برفباری کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ کرسمس اگر سفید نہ ہوا تو وہ بھی کیا کرسمس ہے ۔ ٹورنٹو اور کینیڈامیں عام طور سے برف کی کوئی قلت نہیں ہوتی  لیکن بسا اوقات یوں بھی ہو جاتا ہے کہ برف کے ڈھیر کرسمس کے آنے سے پہلے ہی پگل گئےایسے میں لوگوں کی مایوسی دیدنی ہوتی ہے ۔ لوگ مایوس ہوں نہ ہوں میڈیا چلا چلا کر اعلانات کرتا ہے کہ ابکے کرسمس سفید نہ ہوئی۔

 امریکہ میں تھینکس گیوینگ کے بعد کرسمس کا اہتمام ہوگا۔جھلملاتی ہوئی رنگ برنگی بتیاں اور آرائش اس ٹھنڈک میں رونق ڈال دیتی ہیں اب کرسمس تک سانٹا کلاز ، کرسمس ٹری ، اسکی سجاؤٹ اور رینڈئیر زکا راج ہوگا  یہ تمام لوازمات یخ بستہ علاقوں سے متعلق ہیں ۔ عیسے علیہ السلام کی پیدائش سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔تمام سٹوروں میں کرسمس کی خریداری شروع ہوچکی ہے اسکا سب سے بڑا مظاہرہ بلیک فرائڈے اور اسکے بعد کی سیل پر ہوگا۔ کرسمس پریڈ ہونگے ، امریکہ میں میسی سٹور کا  تھینکس گیونگ پریڈ راک فیلر سکو ائر  کا ایک مشہور وقوعہ ہے ۔ کرسمس کے بعد نیو ائر کی رونق اور چھٹیوں کا موسم ۔ حالانکہ سردی اتنی شدید کہ سورج بھی پنا ہ مانگے ۔  سورج جو گرمی میں سوا نیزے پر تھا اب جیسے اپنی گرمی کہیں بھول آیا ہے جب چمکتا ہے تو شیشوں کے اندر سے محسوس ہوتا ہے کہ گرم ہے باہر نکلو تو گرمی نام کو نہیں ۔ایسی سردی ہے کہ سورج بھی دہائی مانگے۔ خوش آمدید اے موسم سرما خوش آمدید

Sunday, June 10, 2018

ماہ صیام کی برکات


Subject: ماہ صیام کی برکات ۔۔




Subject: ماہ صیام کی برکات ۔۔

   امریکہ اور دیگر ممالک 
میں ماہ صیام کی برکات  

از 
عابدہ رحمانی

وقت کا دھارا اسقدر تیزی سے رواں ہے ابھی ابھی تو رمضان کی آمد ہوئی تھی اور آخری عشرہ آن پہنچا ۔ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے ایک دن یا قمری تاریخ کا فرق چل رہا ہے ۔ آخری عشرہ اور طاق راتیں مختلف تاریخو ں میں چل رہی ہیں ۔ بہتر ہے کہ اس قضیہ سے بے نیازی اختیار کی جائے ۔اور اپنی عبادات سے کام رکھا جائے ۔ اللہ کی ذات با برکات ہمارے اعمال اور کوششوں کو قبول فرمائے ۔دنوں اور وقت کا حساب بھی اسی کے علم میں ہے۔ آمین ثم آمین۔

شمالی امریکہ یعنی امریکہ اور کینیڈامیں اس مرتبہ رمضان میں دو مختلف دنوں میں روزہ رکھنے کا افسوسناک تفرقہ رونما ہوا۔ فقہ کونسل کے کیلنڈر پر چلنے والے مساجد نے بدھ سولہ مئی کو روزہ رکھا جبکہ چاند دیکھنے والوں یا ہلال کمیٹی نے چاند نہ دیکھنے کی صورت میں جمعرات 17 مئی کو روزہ رکھا۔ کاش کہ ایک گروہ دوسرے کا ساتھ دے دیتا ۔ ایسا ماضی میں بھی ہو چکا ہے اور انتہائی افسوسناک صورتحال ہوجاتی ہے ۔ ایک ہی شہر میں چند عید منا رہے ہوتے ہیں اور چند روزے سے ہوتے ہیں۔
کیلنڈر کی پیروی نے  ایک طرح سے ہمیں چاند ڈھونڈھنےسے بے نیاز کر دیا ہ کیلنڈر بنانے والے فقہ کونسل میں بھی جید علماء ہیں جنکا دعوی ہے کہ فلکیاتی پیمانوں کے حساب سے اسوقت چاند کی پہلی تاریخ ہے  وہ اسکی مثال یوں دیتے ہیں کہ  زمانہ قدیم میں نمازوں کا تعین سائے کے گھٹنے بڑھنے سے ہوتا تھا لیکن گھڑی کی ایجاد نے مسلمانوں کو اس سے بے نیاز کر دیا ہے اور گھڑی سے اوقات کا تعین کیا جاتا ہے ۔ لیکن دوسرے گروہ کا اصرار ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھلی آنکھ سے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے اور چاند دیکھ کر ہی روزہ اور عید ہونا چاہئے ۔ حیرت ہے کہ اس نئے چاند کی اہمیت ان دو مواقع پر ہی ہوتی ہے ۔باقی مہینوں میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یوروپ اور دیگر ممالک میں بھی مسلمان اپنے طور پر ماہ رمضان کا آغاز کرتے ہیں - کوئی سعودی عرب کی پیروی کرتا ہے ، کوئی مصر کی، کہیں انحصار کیلنڈر پر ہے اور کہیں اسپر بضد کہ بچشم خود چاند دیکھا جائے- 

کینیڈا اور امریکہ کی یہ صورتحال مجموعی طور پر انتہائی افسوسناک ہے ۔دعا ہے کہ  کاش عید ایک ہی روز منائی جائے ۔
پندرہ مئی کو رات تقریباً ساڑھے دس بجے ہماری فریسسکو  ڈیلاس کی مسجد نے چاند نہ نظر آنے کا اعلان کیا ۔ خبریں تو آرہی تھیں کہ نارتھ کیرولائنا میں چاند نظر آیا ہے کسی نے کہا کہ کیلیفورنیا میں نظر آیا ہے لیکن غالبا مستند نہیں تھیں۔ اور یوں ہم نے سترہ مئی سے روزے شروع کئے ۔
  مقامی مسجد میں اکنا حلقہ خواتین کی جانب سے قرآن پاک کا دورہ تفسیر شعبان کے نصف سے شروع ہو چکا تھا۔ دیگر اسلامی اداروں کے ہمراہ اکنا ( اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا) ایک فعال اسلامی ادارہ ہے ۔ تقریباً پورے ملک میں خواتین کے دورہ تفسیر اور آن لائن پروگرام بھی جاری تھے اسکے علاوہ نوجوان اور بچوں کے کافی پروگرام ترتیب دئے گئے ۔ قرآن کی آگاہی ، ہمراہی ، ادراک اور شعور امت مسلمہ کے لئے سب سے بڑا اثاثہ ہے ۔۔ اب بیشتر دورہ تفسیر رقت آمیز دعاوں کے ساتھ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔۔ رب العالمین ہماری مناجات اور عبادات قبول فرمائے۔
مساجد میں تراویح کے بڑے بڑے اجتماعات ہو رہے ہیں اب آخری عشرے میں قیام الیل کا بھی انتظام ہے ۔جہاں پر اہل ایمان جوق درجوق اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آرہے ہیں ۔ ہماری مسجد نے بہترین انتظامات کئے ہیں ۔ مسجد کی سیکیورٹی اور پو لیس کا بھی عمدہ انتظام ہے ۔بہترین خوش الحان قراء کی تلاوت میں نماز کی ادائیگی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔۔ مساجد کی یہ رونق خواتین کے لئے ان ملکوں کا ہی خاصہ ہے۔پاکستان میں خال خال مساجد میں خواتین کا انتظام ہوتاہے ، ایمانداری کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی میں نے مسجد میں رمضان میں نماز تراویح ادا نہیں کئ ۔وہاں بہت سے مرد حضرات بھی مساجد سے کتراتے ہیں ۔

یہاں ہر ہفتے کو مسجد میں افطار اور عشائیے کا بہترین انتظام ہے ۔رضا کاروں کا ایک بڑا گروہ انتظامات میں مصروف ہوتا ہے۔ افطاری کیلئے ایک کھجور اور پانی کی بوتل دی جاتی ہے نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد ڈبوں میں لذیذعشائیہ دیا جاتا ہے۔ ایک جانب خواتین اور دوسری جانب مردوں کے لئے میزیں ، کرسیاں لگا دی جاتی ہیں بلا مبالغہ کم و بیش ایک ہزار تک افراد ہوتے ہیں۔۔روزہ افطار، لذت کام و دہن کے ساتھ مسلمان بھائی بہنوں کے آپس میں بھائی چارگی کا موقع میسر آتا ہے ۔ اس افطار  کے لئے مخیر حضرات و خواتین دل کھول کر فنڈ دیتے ہیں۔
 مساجد میں دل کھول کر ماحول بن جاتا ہے اور مسلمان کمیونٹی مساجد میں خوب تقریبات کا اہتمام کرتی ہے یوں مساجد ایک کمیونٹی سنٹر کا درجہ بھی رکھتے ہیں ۔اجتماعی افطار ،بہترین حفاظ کی  تراویح جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہے پورا خاندان مسجد دوڑا جاتا ہے اور مسجد سے جڑ جاتا ہے-مجھے تو مساجد میں جو لطف آتا ہے اور جو چہل پہل نظر اتی ہے اس سے تو ہم پاکستان میں  محروم ہوتے ہیں-- آجکل دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکولوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہیں- اسلئے بچوں کو مسجد سے جوڑنے کا بہترین موقع ہے۔ بچوں کو آپس میں ملنے جلنے اور کھیل کود کا موقع بھی میسر آتا ہے ۔
خواتین کے سیکشن میں چھوٹے بچوں کی بے بی سٹنگ کا بھی انتظام ہے ۔
اسلامی مخیر فلاحی ادارے زکواۃ ،صدقات اور  فطرہ کے حصول کے لئے متحرک ہیں ۔ یہ مقامی ضرورت مندوں ، پناہ گزینوں کے علاوہ دیگر کئی  ممالک میں مستحقین کی امداد کرتے ہیں۔
فنڈ ریزنگ افطار اور عشائیے کے علاوہ نجی سطح پر بھی افطار پارٹیاں ہو رہی ہیں ۔۔ یوں اہل ایمان نے رمضان اور اسکی برکات سے اپنے آپکو جوڑ رکھا ہے ۔ 
 ٹرمپ اور اسکے حواری مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور کیا لائحہ عمل اختیار کر رہے ہیں ۔ وہ اس سے بے نیاز ہیں 

اگر ہم تاریخ کو غور سے دیکھیں تو رمضان ، حرمت کا مہینہ عرب معاشرے میں اسلام کے آنے سے  قبل موجود تھا -یہ  ان چار مہینوں میں ہے جن میں جنگ و جدل منع کیا گیا تھا-اس مہینے کو اللہ تعالی نے نزول قرآن اور وحی پاک کے ذریعے برکت عطا کی ، شب قدر کو قرآن پاک کا نزول ہوا "انا انزلنٰہ فی لیلۃالقدر " اور ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارااور محمدﷺ پر پہلی وحی اتاری گئ اقراء باسم ربک الذی خلق-( العلق ۱)-پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا --اس لحاظ سے یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے- یہ وہ مبارک رات ہے جسکی فضیلت ایک ہزار مہینوں  سے بھی بہتر ہے گویا اس رات میں عبادات کا صلہ ایک ہزار مہینوں سے بھی زیادہ  ہے ۔سبحان اللہ ،اسی رات کو فرشتے اور جبرئیل امین کارخانہ دنیا کا حساب کتاب گویا پورے سال کا پورا بجٹ اور حساب کتاب تیار کرتے ہیں اور اسی جشن کو مناتے ہوئے دو ہجری میں روزے فرض ہوئے- 
جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے تمام عالم اسلام اور مسلمانوں میں اس ماہ مبارک کی اہمیت اور فضیلت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا- ہمت ہر کس بقدر او است 

اس سے پہلے اخبارات اور مجالس کے ذریعے عوام الناس کو اس مہینے کی آمد کیلئے تیار کیا جاتا تھا اب اللہ بھلا کرے ڈیجیٹل اور آنلائن ٹیکنالوجی کا سماجی رابطے کی ویب سایٹ خصوصا واٹس ایپ اور فیس بک کا ایک سے ایک دیدہ زیب کارڈ، احکامات  قرآن ، ،احادیث اور اقوال ذریں پر مبنی اقوال ایک طرف ہماری اصلاح اور درستگی کرتے ہیں، دوسری جانب ہمارے اندرونی جذبوں کو اجاگر کرتے ہیں- استقبال رمضان کو نجی محفلوں ، مساجد کی محفلوں میں بھی خصوصیت حاصل ہے- الحمدللہ آنلائن سہولتوں کی بدولت ہمارے  اس سے پہلے استقبال رمضان بھی ہوچکے ہیں--مجھے نہیں یاد کہ ہمارے بچپن میں اسطرح کے کوئی سلسلے ہوتے تھے - بس رمضان آیا چاند کا اعلان ہوا اور لوگوں نے روزے رکھنے شروع کر دئے۔

پاکستان والے خوش ہیں کہ اس مرتبہ انکا روزہ ایک ساتھ جمعرات سے شروع ہوا۔
اور خیبر پختون خواہ نے بھی ساتھ ہی روزہ رکھا ۔ مدتوں بعد ایسی یک جہتی ہورہی ہے اللہ کرے عیدالفطر بھی ساتھ ہو ۔ -ورنہ یہاں کی روایت ہے کہ  یہاں پر بقیہ پاکستان سے ہمیشہ ایک روز پہلے روزہ اور عید منائی جاتی ہے - ہم بچپن میں سنتے تھے کہ فلاں فلاں جاکر تحصیل میں ، اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق دینے کی قسم کھا کر آیا ہے کہ اسنے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا ہے جبکہ حقیقتا ابھی اسکی شادی بھی نہیں ہوئی ہے --اسکو کھیل تماشہ بنانے والے صادق اور راسخ مسلمان اب بھی کم نہ ہونگے اور یہ سلسلہ یعنی بقیہ پاکستان سےایک روز پہلے عید منانا اور روزہ رکھنا ابھی بھی جاری ہے- وہاں پر ایک عام اصطلاح یہ استعمال ہوتی ہے " اچھا بڑا چاند ہے دیکھو ایک روزہ انہوں نے کھا لیا" بقر عید عموما ایک ساتھ منائی جاتی ہے 




روزے ہر طرح رکھے جاتے ہیں ہر موسم میں رکھے جاتے ہیں اور کیوں نہ رکھے جائیں یہ دین اسلام کا دوسرا اہم ستون اور فرض ہے- 
اسلامی مہینوں کا حسن یہ ہے کہ یہ بدلتے رہتے ہیں اور مختلف موسموں میں




آتے ہیں۔ یعنی کبھی دن بڑے ،کبھی راتیں کبھی سردی کبھی گرمی۔
 
 
 استوائی خطے پر دن رات  ہمیشہ برابر رہتے ہیں اور قطبین کا حساب تو الگ ہی ہے یہاں تو اکثر چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے
اسکینڈے نیویا کے ممالک ناروے اور سویڈن میں جہاں دن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا وہاں پر قریبی مسلم ملک کے حساب سے سحر و افطار کا تعین کر دیا جاتا ہے- زمین کے جنوبی کرے میں اسوقت سردی کا موسم ہے دن قدرے چھوٹے ہیں ۔ آسٹریلیا ،جنوبی امریکہ اور جنوبی افریقہ میں  ان دنوں سردی کا موسم ہے۔ 
انکے روزے تو خوب مزے میں گزرینگے۔۔ 
شمسی کیلنڈر سے دس دن کے فرق سے رمضان اور حج کے مہینوں کا موسم بدل جاتا ہے اور ہمارے یہ دو دینی فرائض بشمول عیدین ایسے ہیں جنکا انحصار خصوصی مہینوں پر ہے- یہ جب سردیوں میں آتے ہیں تو موسم کی مناسبت سے کافی سہل ہوجاتے ہیں جبکہ گرمی کے روزے رکھنا ایک جہاد سے کم نہیں ہیں اور اللہ تبارک و تعالی سے اسکی مزید اجر و ثواب کی توقع رکھنی چاہئے-

وہ ممالک جہاں پر ان دنوں گرمیاں معراج پر ہیں  مشرق وسطے کے ممالک  کم از کم بجلی اور ایر کنڈیشننگ کی نعمت سے سرفراز اور مالامال ہیں اور دوسرے ممالک جہاں پر روزہ 18،19 گھنٹے طویل ہو سکتا ہے ہمارا روزہ ساڑھے سولہ سے سترہ گھنٹے کا ہوگا-لیکن اللہ تعالی ایسی قوت ایمانی دے دیتا ہے کہ رمضان جیسے آتا ہے اتنی ہی تیزی سے رخصت بھی ہونے لگتا ہے  ان غیر مسلم ممالک میں چاہے وہ یوروپ ہو ،شمالی یا جنوبی امریکہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہو، یہاں پر ملازمت پیشہ افراد کیلئے روزے رکھنا ایک کڑی آزمائش ہے بسا اوقات تو بیشتر لوگ جانتے بھی نہیں کہ روزہ کیا ہے اور اسکا مقصد کیا ہے؟ - پورے دفتر میں ہوسکتا ہے آپ تنہا راسخ العقیدہ مسلمان ہوں - لنچ بریک ہے ، کافی یا ٹی بریک ہے ہر طرف لوگ کھا پی رہے ہیں وہ آپکو حیرت سے دیکھتے ہیں اگر انکو سمجھانے کی کوشش کریں تو الٹا آپ پر ترس کھانے لگتے ہیں- "اوہ یہ کتنا مشکل کام ہے یہ تو ظلم کی انتہا ہے کم از کم پانی تو پینا چاہئے " اور آپ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں ۔  روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو 
وہ اللہ تعالی کو مشک سے زیادہ محبوب ہے لیکن یہاں دفتر میں منہ کی بدبو کافی بری سمجھتے ہیں
 یہ غنیمت ہے کہ ہمارے علماء نے ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کی اجازت دیدی ہے بشرط یہ کہ حلق میں نہ جائے --اسوقت  زمین کا شمالی کرہ گرمیوں کی لپیٹ میں اور جنوبی کرہ سردی کی لپیٹ میں ہے--کینیڈا میں تو خوبی کی بات یہ ہے کہ کئی گروسری سٹور رمضان کی اشیاء کی سیل لگا لیتے ہیں--مسلمان آبادی اس سے کافی خوش اور مطمئن ہوجاتی ہے-
پاکستان میں استقبال رمضان کا خاصہ ہوا کرتا تھاکہ وہ تمام پھل اور اشیاء جو رمضان میں لازم و ملزوم تھے ہمیشہ مہنگے کر دئے جاتے تھے کاروباری حلقےکو منافع بٹورنے کیلئے اس سے بہترین موقع کہاں میسر - کراچی میں ایک مرتبہ گرمیوں کے روزوں میں تربوز کے دام تگنے ہوگئے- آخر میں بارش ہوئی موسم بہتر ہوا تو ٹرک کے ٹرک اپنا سڑا ہوا مال سبزی منڈی کے باہر پھینک گئے وہ بدبو اور تعفن خدا کی پناہ--

-حکومت پاکستان نے روزہ داروں کے لئے اپنی طرف سے سحر و افطار پر لوڈ شیڈنگ نہ کرنیکا تحفہ دیا ہے دیکھئے کہ اس پر عمل کہاں تک ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا - خبروں میں تو یہ آرہاہے کہ شدید گرمی ہے اور بجلی غائب ۔ شاید ہم پھراسی پرانے دور میں چلے جائیں کہ تولئے بھگو کر سر پر رکھے جائیں-

اسلامی ممالک میں تو رمضان کا سماں ہی کچھ اور ہوتا ہے - 

سعودی عرب میں ہر رمضان اسکولوں کی چھٹیاں کر دی جاتی ہیں سعودی عرب میں رمضان کا پورا مہینہ ایک جشن کی صورت میں منایا جاتاہے - اور غالبا یہی طریقہ دیگر عرب ممالک میں ہے تراویح کے بعد سے سارے بازار کھل جاتے ہیں ہر طرف ایک چہل پہل ایک رونق ، عربی خواتین کی خریداری دیکھنے کے قابل ہوتی ہے انکی ریڑھی اوپر تک لبا لب بھری ہوئی کہتے ہیں رمضان کی خریداری پر اللہ کے ہاں حساب نہیں ہوگا اس وجہ سے وہ رمضان میں خوب خریداری کرتی ہیں- اب یہ بات محض سنی سنائی ہے یا اسکی کچھ حقیقت ہے تو عالم فاضل حضرات اس کی وضاحت فر ما دیں- اکثر دفاتر بھی رات کو کھلے ہوتے ہیں - فجر کے بعد عام طور سے لوگ سو جاتے ہیں اور پھر ظہر پر اٹھتے ہیں- پاکستان میں دفاتر کے اوقات کار کو کم کردیا جاتا ہے -  شیطان یا شیا طین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے -لیکن اسکی عملی شکل دیکھنے میں نہیں آتی  اسلئےکہ جرائم کی شرح میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ، چور چوری سے جاتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں جاتا- 
 سب سے زیادہ دکھ کی بات کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری اور گولہ باری جاری  ہے اور شدید جانی نقصان ہو چکا ہے یہی حال کشمیر ، یمن اور شام کا ہے۔ پاکستان افغانستان میں بھی خونریزی کسی نہ کسی صورت سے جاری ہے۔

اسلام سے پہلے رمضان کا مہینہ حرمت کا مہینہ تھا جسمیں جنگ و جدل روکدیا جاتا تھا - کیا تمام مسلمان کم از کم اس مہینے کی حرمت کا لحاظ کر سکتے ہیں کیا مسلمان کے ہاتھوں ایک مسلمان جان و مال کی امان پا سکتا ہے- صوم کی ڈھال تھامے ہوئے سب سے پہلے تو قتل و غارتگری بند ہونی چاہئےروزے کا دارومدار تقوٰی پر ہے تمام عبادات کا لب لباب یہ ہے شائد کہ تم تقوٰی اختیار کرو
اللہ تعالٰی ہمیں متقون میں شامل کرے -اسوقت ہمیں ان مسلمانوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے جو نامساعد حالات کا شکار ہیں چاہے وہ پاکستان ہے ، شام ، عراق یا دیگر ممالک  ایسا نہ ہو کہ یہ روزے محض سحریوں ، افطاریوں اور افطار پارٹیوں کے لوازمات تک ہی محدود رہ جائیں
و ما علینا الا البلاغ
میرے قارئین اور ناقدین کو ماہ صیام اور آخری عشرہ القدر کی بابرکت ساعات کی  دلی مبارکباد 
اللھم تقبل منا و تقبل منکم 
اللہ تعالٰی آپکو نیکیوں کی اس فصل بہار اور جشن نزول قرآن کے اس مبارک مہینے سےفوائد اور نیک اعمال حاصل کرنیوالا بنائے--اللہ تبارک و تعالٰی ہمارے روزوں اور تمام عبادات قبول فرمائے  آمین
--