Monday, April 25, 2016

چلو بھر پانی۔۔


چلو بھر پانی----- عابدہ رحمانی
چلو بھر پانی؛ میں ڈوب جاؤ یا ڈوب مرو،اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے اور زبان زد عام ہے ۔عام طور سے یہ غیرت دلانے اور شرمندہ کرنیکے لئے کہا جاتاہے اسلئے کہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو درکنار کوئی گیلا بھی نہیں ہوسکتا ، البتہ پیاس سے تڑپتے ہوئے شخص کے لئے چلو بھر پانی بھی کافی ہوتا ہے ۔۔
امریکی ریاست مشی گن کے قصبے فلنٹ ' میں پانی کی آلودگی نے پورے امریکہ میں ایک ہلچل اور تشویش پھیلادی۔۔پانی اس حد تک آلودہ تھا کہ اسکا رنگ بھورا تھا اور اسمیں سیسے کی آمیزش خطرناک حد تک تھی۔۔اس سے کئی لوگ بیمار اور متاثر ہوئے۔۔اسطرح کا ألودہ پانی اور وہ بھی امریکہ میں پورے ملک میں ایک زبردست ہنگامہ مچ گیا ۔۔ اسکو نسلی ، طبقاتی رنگ بھی دیا گیا کیونکہ اس علاقے میں بیشتر أبادی سیاہ فام لوگوں کی ہے ۔۔ مشہور و معروف حق کی أواز بلند کرنیوالے ہالی ووڈ کے متنازغہ فلمسازاور ہدایت کار مائیکل مور کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے ۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے یہاں کے باشندوں کو سہارا دینے کیلئے یہاں ایک صدارتی امیدواروں کا مبا حثہ رکھا۔۔ابھی حال ہی میں ان افسران کا کڑا احتساب کیا گیا ،انکو معطل کیا گیا اور کڑی سزائیں تجویز ہوئیں وہ جو فلنٹ میں پانی کی رسد اور ترسیل کے ذمہ دار تھے اور جنکی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ افسوسناک واقع ظہور پذیر ہوا۔۔
 اس واقعے سے مجھے اپنے کراچی میں رہائش کے وہ تکلیف دن یادآگئے جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی   کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے
 اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا، یا میں پمپ چلانا بھول گئی ہوں ۔۔یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوہات ہیں- 
 میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک میں آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین valve manتو جیسےہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنےکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہے،ہرگز ہرگز مبالغہ آرایئ نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول اللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایئ ہیں وہ میں اور میرا رب یا میرے گھر والے جانتے ہیں ۔ جب میرے ہاں رہائشی مہمان أتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہوتی تھی کہ پانی کی رسد میں فراوانی کیسے کی جائے ۔۔؟ ایسی صورتحال اکثر پیش أئی کہ اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں پونچھ پانچھ کے رکھ دیں اور پھر مہنگے داموں پانی کے حصول کے لئے دوڑتے رہے۔ افسوس کی اسوقت پانی کے ڈسپنسر اورپانی کی بوتلیں میسر نہیں تھیں۔۔
ٹنکی میں گرتےہوئے پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم ،جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لیےکئ فون کال 'واٹر بورڈ کےکئ چکر اور والو مین کے مختلف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد—ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا — اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی بھی لازم تھی  یہ سوچے بغیر کہ سال میں کتنی مرتبہ واقعی ہمیں انکی جانب سے پانی میسر تھا ،کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور ہمیں احتجاج کرکے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں تھی-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-کیونکہ اس پانی کے فراہمی پربعد میں اس  سیاسی پارٹی کی  اجارہ داری تھی  جن سے ٹکر لینا ہم جیسے بے  بسوں کے بس میں نہیں تھا۔۔
اب بھی کراچی میں وہی حال ہے شہر کاأدھا ٹریفک پانی کے ٹینکروں کا ہوتا ہے۔۔پورا ٹینکر مافیا ہے جسکی شہر میں اجارہ داری ہے۔کراچی کے وہ باشندے اور شہری جنکے ہاں پانی کی فراوانی ہے خوش قسمت ترین شہری کہلانے کے حقدار ہیں۔۔

پچھلے سال یہاں امریکہ میں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رہا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے بلکہ ایسے بحرانوں کو معمولی جانتے ہیں - لیکن جو بچے یہاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی گئی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?
24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر اور ترددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاؤٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- ہاں لیکن یہاں پر پانی بھاری اور سخت ہے جسکے لئے ایک مشین لگی ہوئی ہے ، ساتھ میں ایک جدید فلٹر لگا ہوا ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور یہاں ،جہاں دین بھی داؤ پر لگا ہوا ہے- مختلف ذرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-
پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اورجہاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقاء کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے- اسی اصول کے مطابق دنیا کی بیشتر أبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں ہے۔۔
ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آۓ توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نےکہا’ زم زم" رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا— اس پانی میں معدنیاتی تاثیر انتہائی مشفی ہے موجودہ سعودی حکومت نے اس پانی کی ترسیل کا بہترین انتظام حرمین شریفین میں کیا ہے ۔ حرم شریف میں تو یہ کنوواں موجود ہے اور زم زم کے پانی کی جانچ پڑتال کی لیبارٹری ہے تاکہ پانی میں کسی قسم کی ألودگی نہ ہونے پائے لاکھوں کے حساب سے صاف ستھرے کولر حرمین میں موجود رہتے ہیں ۔۔جس سے لاکھوں زائرین روزانہ فیض یاب ہوتے ہیں ۔۔
دنیا میں اسوقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ،دریا ، کنوئیں ، ندیاں ألودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔کتنے ممالک ہیں  جہاں کی أبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی دستیاب نہیں ہے ۔ عرب اور مشرق وسطے کے ممالک نے سمندر کے پانی سے نمک ہٹاکر  استعمال کے قابل لانیکے لئے بڑے بڑے پلانٹ لگائے ہیں۔ وہاں پر پینے کے پانی اور پٹرول کی قیمت یکساں ہے ۔اس لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں میٹھے پانی کی وسیع و عریض جھیلیں پانی کا ایک بڑا خزانہ اور ذریعہ ہیں۔۔
پانی سے زندگی ہے اللہ تعالی قرأن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔۔ اسلئے زندہ اشیاءکی زندگی پانی کی مرہون منت ہیں۔۔اور مصیبت کے وقت ایک چلو بھی کافی ہو جاتا ہے۔۔


-- 

2 comments:

  1. dear abida bahen ,
    tasleem
    mazey ki baat yeh keh ' aj subah achanak humari ' paani ki tunki khaali' hogaee, chand mintoan mein jaesey 'aafat' much gaee ,sub baaltiyaan , bottles , bher leen , abhi paani aanaa shuru hua toe sukoon sey baithker e, mails check karna shuru kia [auc sey abb kabhi kabhi hi 'daak' aati hae ]toe aapka mazmoon dekha , hum ney yklakht soacha ' yahaan ki khaber , aap ko kaesey ho gaee ? shuker hae 'lucknow mein karachi waalaa haal naheen hae , india mein bhi kaee jugaah paani ka masalaa hae , karachi mein , humari phuphi key ghar ' humarey aik chacha ki family , kisi daawat sey wapas aaee , ' baghair haath dhoey , ' driver ney khana naheen khaayaa tha , so uskey 2no haath saaf they , wahi car chala raha tha , gharoan mein ' washing machine lagi hae [ magersirf diehney ko ]mager kaprhey ' direct 'bambey ' key neechey dhultey haen , keh 'paani kumm kharch ho ,lucknow mein abbu key ghar mein' aik bumbey' mein her waqt paani aataa tha ,jo ground floor per tha , waesey daily 11 bajey sey kuch ghuntey ' sarkaari paani ' bund reta tha , so, loge 'waheen sey paani lejaatey they , oman - muscat mein bijli key bill ki tarhaa paani ka bhi bill aataa tha , isi liey 'paani ko ehtiyaat sey kharch karney ki aadaat ho gaee , abb usa mein jub null sey moati dhaar nikalti aore paani zaayaa hota dekhtey haen toe ajeeb lagta hae , wahaan paani , khana aore plastic ,electricty, lakrhi , bahot zaayaa jaata hae , phir pata naheen 'earth day ' ka kya mutlab hae ?
    kh
    farzana ejaz
    lucknow

    ReplyDelete
  2. بہت پیاری فرزانہ بہن ۔۔ السلام علیکم۔
    آپکی اتنی بھرپور میل دیکھ کر طبیعت ہشاش ہوگئی ۔۔ بھارت اور پاکستان کے مسائل میں زیا دہ فرق نہیں ہے ۔فرق ہے تو بس دوریوں کا ۔۔ کراچی میں پانی کا بحران مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔۔ ٹینکر مافیا کی سیاسی سرپرستی میں اجارہ داری ہے ۔۔ کل کچھ انکے ساتھ سختی برتی گئی تو سڑکوں پر ٹینکر کھڑے کرکے شہر کی ناکہ بندی کردی۔۔
    آپنے نلکے کو بمبا لکھا ہے بہت اچھا لگتا پہلے یہاں بھی لوگ بولتے تھے لیکن اب سب نلکا کہتے ہیں ۔۔ میرے سسر مرحوم لکھنؤکے تھے وہ ہمیشہ بمبا کہتے تھے۔۔
    آپ سو فیصد درست ہیں ، خلیجی ریاستوں میں پانی ایک جنس گراں ہے لیکن دستیاب ہے۔۔
    شاد رہیں ۔۔
    عابدہ رحمانی

    ReplyDelete