Monday, February 8, 2016

تکبر ، تزکیہ نفس


’’تکبر‘‘

تکبر کے لغوی معنی بڑائی کے ہیں اور کبریائی صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے۔
انسان میں تکبر اور غرور آ جائے تو یہ اس کے لیے سراسر تباہی و بربادی ہے۔ اسی تکبر کے نتیجے میں شیطان راندۂ درگاہ ہوا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا صرف ابلیس نے نہ کیا۔ اَبٰی واستکبَرَ۔ اس نے ان کار کیا اور تکبر کیا۔ وَکَانَ من الکٰفرین۔ اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔
ابلیس نے یہ بڑائی کی کہ میں تو آگ سے بنا ہوں اور آدم مٹی سے بنا ہے مجھے اس پر فضیلت حاصل ہے اور یوں وہ تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوا اور اپنے رب کی سرکشی کی۔ اور یوں اس پر اللہ کی پھٹکار پڑی۔ اس لیے اگر ہم سوچیں تو تکبر ایک شیطانی صفت ہے اور اس صفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی آزمائش میں ڈالا ہے۔
بڑائی اور کبریائی تو صرف اللہ کے لیے ہے ہم کہتے ہیں اللہ اکبر ( اللہ بڑا ہے)۔ یعنی اس سے بڑا اور صاحب اختیار کوئی نہیں ہے۔ تو پھر انسان کس بات پر فخر و غرور جتاتا ہے؟
تکبر کی کئی وجوہات ہیں۔
(1 اپنے آپ کو بلند و برتر سمجھنا حسب نسب کے لحاظ سے، خوش شکلی کے لحاظ سے، اچھی اولاد کے لحاظ سے۔ حالانکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ تمام چیزیں عطیہ خداوندی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے اور دوسرے کو اس سے محروم کیا ہے تو یہ اس کی دین ہے کجا یہ کہ ہم ہر وقت اس کی شکرگزاری کریں ہم تفاخر و غرور میں مبتلا ہو جائیں۔ 
حسب نسب کے لحاظ سے جو برتری ہم جتاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے۔ 
اَنَّ اَکرَامَکُم عَنداللہ اتقاکُم۔ بیشک تم میں اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے جس میں تقویٰ ہو۔
پھر مال و دولت اور اولاد کے لیے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔
اَلمالُ و البُنُون زینتَ الحیوٰۃ الدین و الباقیات الصالحات خیر عِندَربک ثَواباًو خیرامَلَا۔
مال اور اولاد تو دنیا کی رونق ہیں اور جو اعمال باقی رہ جانے والے ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے لحاظ سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں۔
پھر یہ پوری دنیاوی زندگی جس کے گھمنڈ میں ہم مبتلا رہے ہیں اس کے لیے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَماَالحیٰوۃُ الدنیااَلاَّمَتَاعُ الغرور۔دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سرمایہ ہے۔
اس طرح تکبر کرنا سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ جن چیزوں کی بناء پر ہم تکبر کر رہے ہیں ایک تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اللہ چاہے تو یہ سب چیزیں ہم سے چھین بھی سکتا ہے اور پھر یہ اللہ کی عطا کردہ حیثیت اور مرتبہ ہے وہ چاہے تو ہمیں عزت دے وہ چاہے تو ہمیں ذلت دے۔ وَتُعِزُّمَن تَشاءُ وَتُذِلُ مَن تَشاءُ ۔
اب پچھلی آیات میں جو نشاندہی کی گئی ہے۔ تقویٰ اور اچھے اعمال کی یعنی اعمال صالحہ کی کہ اس کی بنیاد پر ہم اللہ کے ہاں سرخروہوں گے یا اللہ کے پسندیدہ بندے شمار کیے جائیں گے تو اب اس کی بناء پر ہم تکبر و تفاخر میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم تو اتنے نیک ہیں، پرہیزگار ہیں، اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور یہ دوسرے بندگان خدا تو انتہائی نافرمان ہیں۔ ہمارے ساتھ تو اللہ یقیناً اچھا معاملہ کرے گا ان کی نسبت۔ اب یہ جو ہمارا نفس پھول گیا تو یہ ہماری اس تمام جدوجہد کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جیسے کہ متعدد احادیث سے اس کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ ہم اللہ کی رحمت کے طلبگار ہوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارے اعمال کو قبول نہ کر لے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پھر اکڑنا، اترا کر چلنا بھی غرور و تفاخر کی نشاندہی ہے۔ 
سورہ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَلاَتصَعّر خَدَّکَ للنَّاسِ وَلاَتمشِ فی لارضِ مَرَحاً ْ اِنَّ اللہَ لاَیُحِبُّ کُلَّ مُختاًلِ فَخُورْ
اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیرو اور زمین پر اترا کر مت چلو بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کسی نے کہا آدمی اچھے کپڑے اور اچھے جوتے پسند کرتا ہے تو فرمایا اللہ نفاست اور ستھرائی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ 
ایک دوسری حدیث سے ہمیں اس آدمی کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ جو الٹے ہاتھ یعنی بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ رسول ﷺ نے اس سے کہا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اس نے کہا نہیں کھا سکتا اس نے یہ بات غرور و تکبر کی بناء پر کہی تھی۔ آپﷺ نے کہا کہ نہ کھا سکو اور وہ پھر اپنا دایاں ہاتھ نہ اٹھا سکا۔
ایک اور حدیث میں حضرت حارثہ بن ۔۔۔۔۔۔۔سے روایت ہے کہ میں نے رسولﷺ سے سنا ہے کہ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر دوں جس میں سرکش، بخیل اور متکبر ہیں۔ 
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ جو اپنا لباس غرور و تکبر سے زمین پر گھسیٹتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔
ہم یہ سوچیں کہ دعوت دین دیتے وقت کہیں ہم تکبر میں تو مبتلا نہیں ہوگئے۔ نفس ہمیں فریب دینے میں تو کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ہمارا نفس ہم پر غالب آ گیا وہ پھول گیا تو گویا ہم شکست کھا گئے، تکبر و غرور کے مریضوں کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے وہ لوگ ہرگز خدا کی بندگی نہیں کر سکتے جو اپنے نفس کی بندگی میں مبتلا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر و تفاخر سے محفوظ رکھے۔ آمین

***




تزکیہ نفس


عربی زبان میں تزکیہ کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا اور اس کو نشوونما دے کر پروان چڑھایا جائے۔ ایک اور اصلاح میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو غلط رجحانات، میلانات اور اعمال سے ہٹا کر نیکی اور تقویٰ کی راہ پر ڈالا جائے۔
اپنا تزکیہ نفس کس طرح کر سکتے ہیں؟
(1 اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا خرابیاں اور برائیاں ہیں اور انہیں دور کرنا۔
(2 اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کونسی اچھائیاں نہیں ہیں اور اس کے لیے کوشش کر کے اسے اپنے اندر پیدا کرنا۔
اب جو شخص اپنے نفس کا تزکیہ چاہے گا وہ ان اعمال کا جائزہ لے گا جن سے برائیاں اس سے دور ہوں اور اچھائیوں کا اس میں اضافہ ہو گا اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو اس میں بھی کامیاب نہیں ہوگا۔
انسانی نفس ان اعمال کو بے فائدہ اور لاحاصل سمجھتا ہے جس کے فوائد اس کے ذہن نشین نہ ہوں اس لیے تزکیہ نفس کا خیال اسی کے دل میں آسکتا ہے جو کہ یہ سمجھ لے کہ برائیاں میرے لیے ہلاکت خیز اوراچھائیاں فائدہ مند ہیں۔ اس لیے انسان کو پہلے تو یہ یقین ہو جائے کہ اللہ نے مجھے جن باتوں سے روکا ہے وہ اس لیے کہ وہ میرے لیے تباہ کن ہیں اور جن باتوں کا حکم دیا ہے وہ مجھے دنیوی اور اخروی سعادتوں سے ہمکنار کرنے والی ہیں۔
سورۃ الشمس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
قَد اَفلَح مَن زکّٰھَاْ وَقَدخابَ مَن دَسَّھَاْ 
یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور برباد ہوا وہ جس نے اسے دبا دیا۔
نفس کا تزکیہ کرنے اور دبا دینے کی تشریح یوں ہے کہ تزکیہ کا مطلب ہے پاک کرنا، ابھارنا اور نشوونما دینا یعنی جو اپنے نفس کو فسق و فجور سے پاک کر دے، اس کو ابھار کر تقویٰ اور بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشوونما دے وہ فلاح پائے ا۔
دَسَّھَا جس کامطب دبا دینے کے ہے وہ یہ کہ نامراد ہوا وہ شخص جو اپنے نفس میں نیکی کے جذبات کو ابھارنے کی بجائے اس کو دبا دے اور برائی کے رجحانات کو اتنا غالب کر دے کہ تقویٰ اورنیکیاں اس کے نیچے چھپ جائیں جیسے کہ مٹی کے نیچے لاش دبا دی جائے۔
ہمارے نفس میں دونوں قسم کی خواہشات دبی ہوئی ہیں۔ نیکی اور برائی۔ برے نفس کو نفسِ امارہ کہتے ہیں جبکہ نیک نفس کو نفسِ مطمئنہ اور جس نے نیک جذبات کو غالب کیا اس نے نفس کا تزکیہ کیا اور کامیاب ہوا۔
جب حضرت ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو یہ دعا مانگتے تھے۔ ’’اے رب ان لوگوں میں خود ان کی قوم سے ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔‘‘
حضرت زید بن ارقمؓ  بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ خدایا میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اس کا تزکیہ کر تو ہی بہتر ہستی ہے جو اس کا تزکیہ کر سکتی ہے تو ہی اس کا سرپرست اور مولا ہے۔
تزکیہ نفس کا اصل مطلب یہ ہے کہ انسان عملاً اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے اور اچھائیوں سے مزین کرنے کا کام شروع کر دے۔ اور اس سلسلے میں پہلا قدم یہ کہ اچھائیوں سے الفت اور برائیوں سے نفرت پیدا ہو۔ نیکی کی کروڑوں تعریفیں کرکنے سے بھی انسان کا نفس پاک نہیں ہوتا جب تک نیکی کو عملاً اختیار نہ کرے اور اس طرح وہ اجتماعی دکھ بھی دورنہیں ہوتے جن کا منبع گناہ ہے۔
-- 

Wednesday, February 3, 2016

قصہ کتابوں کی طباعت و اشاعت کا





قصہ کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا
از
عابدہ رحمانی
کہتے ہیں گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کو بھاگتا ہے -- کچھ یہی کیفیت ہماری بھی ہوئی ۔ہماری شامت آئی تواپنا جو کچھ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مجموعہ تھا اسکو چھاپنے کی ٹھانی- غنیمت ہے کہ ایک فائیل بنا ڈالی تھی-دلچسپ امر یہ ہے  کہ  میرے قریبی خاندان ، اعزاء و اقارب اگلے پچھلوں میں، بڑے چھوٹوں میں کبھی کسی کی کتاب طبع یا    شائع نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کے دماغ میں اسکا فتور أیا تھا- کتابیں پڑھنے  اور خریدنے کے شوقین بہت سارے تھےاورکتابیں ان کے پاس ڈھیروں  ڈھیرتھیں--یہی حال ہمارا اپنا بھی تھا--
میرے بڑے بیٹے کو بچپن میں لکھنے کا کافی  شوق ہوا اسنے ایک بچوں کی انگریزی کہانی کے کتاب سے متآثر ہوکر  بڑی محنت سےپوری کتاب لکھی اور اس مسودے کو اپنے ایک دوست کے ہمراہ اردو بازار لے گیا -- ایک پبلشر نے اس سے یہ کہانی 25 روپے میں خریدی -- اور بچے کو چلتا کر دیا ---- میرے اور بچوں کے مضامین مختلف اخبارات اور رسائیل میں اکثر چھپ جاتےاور ہم اسی سے خوش ہو جاتے-- ڈان انگریزی اخبار میں میرا کوئی مضمون چھپتا تو خود بہ خود ایک ادائیگی کا چیک بھی آجاتا باقی جنگ اور جسارت تو مضامین چھاپ کر ایک طرح سے احسان کرتے - یہ ایک الگ ہی موضوع ہے- جانے دیجیئے پھر کبھی سہی-- 
جب مجھے یہ سودا سمایا کہ اپنی تحاریر کو کتابی شکل دے دوں تو اپنی ایک دوست سے رابطہ کیا-انکی والدہ کی بھی کچھ اسی قسم کی ایک کتاب چھپی تھی --ان سے درخواست کی کہ مجھے ان پبلشر صاحب سے متعارف کرا دیں--اور انکے توسط سے اپنا پلندہ لے کر کر انکے ہاں پہنچی -- انکوغالبا دو ہزار روپے دئے انہوں نے بتایا کہ وہ اسکا مسودہ تیارکردینگے اور پھر آگے کام ہوگا -- انہوں نے مجھے کتاب کی کچھ ابتدائی شکل و صورت دکھائی کہ اس قسم کی کتاب تیار ہوگی -- لیکن شومئی قسمت سے کراچی کو جب ہم نے ایک طرح سے الوداع ہی کہہ دیا تو انسے رابطہ ختم ہو گیا۔ ایمیل کے ذریعے رابطہ رکھنے کی ناکام کوشش کی-پھر  اپنی انہی دوست کے صاحبزادے کا سہارا لیا تو  اللہ انکا بھلا کرے کہ انہوں نے  اپنے ایک بھتیجے کی مدد سےاسکی پی ڈی ایف فائیل بعد میں بناکر مجھے ای میل سے  بھیجی-- جسکو میں نے سنبھال کر رکھا -- اسکا پرنٹ بھی نکال دیا--اور عزیز وا اقارب کو بھی ارسال کیا۔۔
ٹورنٹو میں بھی کتاب کی چھپائی کے لئے کچھ ہاتھ پاؤں مارے لیکن وہاں لاگت کافی زیادہ تھی-اور حالات سازگار نہ تھے- 
اسلام آباد میں ایک دور کے عزیز نے اپنی ایک کتاب چھپوائی تھی اس پبلشر کا اتا پتا لیکر وہاں پہنچی۔ انسے ملاقات کی انہوں نے اسی نسخے کو مائیکرو سافٹ ورڈ میں ڈھالنا شروع کیا کام اتنا سست اور غیر تسلی بخش تھا کہ میری واپسی کا وقت آن پہنچا اور میں نسخہ لیکر واپس آئی-- اگلی مرتبہ جب پھر پاکستان أ  نا ہوا تو اس دوران تحریری بوجھ مزید بڑھ چکا تھا-- 
میرے چھوٹے بھائی کو کچھ ترس آیا  تو اسنے بتایا کہ اسکے ایک قریبی جاننے والے  ہیں انکا چھاپہ خانہ ہے وہاں سے آپ اپنی کتاب چھاپ لیں-- اسوقت میری حالت بس یہ تھی کہ اللہ دے اور بندہ لے- اسکے ہمراہ انکے ہاں پہنچی-" ہم پبلشر نہیں ہیں بس کتاب چھاپ دینگے " وہ گویا ہوئے--  تومجھے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ یہ پرنٹر اور پبلشر دو الگ الگ اجناس ہیں ورنہ میں تو ایک ہی سمجھتی تھی- میرے لئے یہی ایک نعمت غیرمترقبہ تھا کہ کتاب چھپ جائے-
کرسٹل پرنٹر کےمالک تو اپنی بیگم کے علاج کے سلسلےمیں بیرون ملک تھے انکی بیٹی اور منیجر صاحب  گرمجوشی سے ملے – کچھ چھوٹے بھائی کی وقعت اور تعلقات کا اندازہ ہوا-کتاب کا خاکہ تیار ہوا تفصیلی بات چیت ہوئی- رقم کچھ پیشگی ادا کردی اور انہوں نے تیزی سے رف پرنٹ نکال کر مجھے پکڑادئے -- میں نے اسکا جائزہ لیکر انکو واپس بھجوائے کہ کتاب تیار کر دیں-- اب انکو فون پہ فون  ملا رہی ہوں کوئی جواب نہ دارد - یا الٰہی اب کیا ہوگا ؟--بھائی کو دوڑایا معلوم ہوا دفتر تبدیل ہورہا ہے چند روز میں سیٹ ہونگے تو کام شروع ہوگا اور پھر میری واپسی کے دن قریب تر أنے لگے --میری روانگی سے تین روز پیشتر انکے کمپوزر کے ہمراہ دفتر میں بیٹھ کر کتاب کمپوز کی ، " زندگی ایک سفر"کے نام سے ، جو چھاپے خانے گئی-- میری روانگی سے ایک  دن پہلے بمشکل پچاس کتابیں چھپ کر آئیں جوابھی قدرے گیلی تھیں( بقایا دو سو تقریبا ڈیڑھ سال بعد پھر میری آمد پر چھپیں )-- بھاوج نےازراہ محبت کتاب کی تصاویر لیکر فیس بک پر ڈالدیں اور یوں میں اپنے خاندان میں اکلوتی” صاحب کتاب “کہلائی --خوب مبارکبادیں ملیں ۔بہت سے حیران بھی ہوئے۔ جو خوشی اور طمانیت مجھے ملی وہ ان اخراجات اور کلفتوں کا مداوا کر گئی-- میری یہ کتاب ۲۰۱۱ میں چھپی ۔۔کافی ساری کتابیں اپنے سامان میں ساتھ لے گئی۔۔ پاکستان میں  اور بیرون ملک اپنے اعزاء، دوست و اقارب میں تقسیم کیں ۔۔بیشتر متاثر ہوئے اور خاص طور سے وہ جنکو میری لکھنے کی صلاحیت کا علم نہیں تھا ۔۔چند  ایک نے کہا  کہ یہ تو أپ نے چوں چوں کا مربہ تشکیل دیا ہے ، کوئی چیز چھوڑی نہیں۔۔ اور حقیقت بھی یہی تھی اسکا  ایک حصہ خود نوشت ، افسانے ، سفرنامے ، دینی مضامین ، دیگر مضامین سب ہی کچھ شامل تھا  وہ تو غنیمت ہوا کہ عین وقت پر بھائی نے انگریزی مضامین شامل کرنیسے منع کردیا۔۔انسے کافی کہا کہ کتاب کی اشاعت بھی کردیں  لیکن انہوں نے بتا یا کہ وہ ناشر نہیں ہیں اور ناشر بیشتر لاہور اور کراچی میں ہیں بلکہ راولپنڈی ، اسلام أباد میں کوئی ناشر نہیں ہے ۔۔ 
اس کتاب کے پہلےباب میں اپنے بچپن کی خود نوشت لکھی تھی اسپر ایک معزز قاری کاتبصرہ تھا” میں اسمیں بری طرح کھو گیا تھا لیکن اچانک یوں محسوس ہوا کہ ایک شدیدپیاسے سے پانی کا لبالب پیالہ چھین لیا گیا ہو"اور بھی کئی لوگوں کا اصرار ہوا کہ خود نوشت مکمل کریں ۔۔
اب مکمل تو کیا ہوتی بس ایک دور کو مکمل کرنیکی ٹھانی اور یہ فیصلہ ہوا کہ ایک اور کتاب صرف ایک موضوع پر شائع کی جائے۔،اب کے فیصلہ کیا کہ پرنٹر اور پبلشر اکٹھا ڈھونڈا جائے۔۔
ایک مشہور فوجی دندانساز کےانتظار گاہ میں بیٹھی تھی ۔۔دفتر کے رکھ رکھاؤ سے اندازہ ہو  رہا  تھا کہ کرنل صاحب ایک صاحب ذوق شخصیت ہیں۔۔پاس رکھے ہوئے کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگی اور ایک کتاب پر ایک ناشر کا پتہ اور فون نمبر دیکھ کر نوٹ کیا۔۔ اس نمبر پر فون کیا،کچھ بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ  نشر و اشاعت  دونوں کرتے ہیں –پھر ان حضرت سے ملاقات ہوئی نیک اور شریف سے بندے لگے کہنے لگے ،” کتاب أپکی مرضی کے مطابق تیار ہو جائے گی لیکن اسکی فروخت أن لائن ہوگی میں اپنے ویب سائٹ پر اشتہار دونگا پھر جو منگوائے گا انکو بھیجونگا۔ میں نے معاملہ طے کرکے حامی بھر دی ۔
اسکا کچھ مواد تو موجود تھا باقی لکھنا شروع کیا وہ بھی اکثرایسے کہ کاغذ قلم لیکر محفل  میں بیٹھی ہوں اور ماضی میں غوطےلگا رہی ہوں اللہ اللہ کرے کچھ پایہ تکمیل تک پہنچا۔ ناشر صاحب اسوقت تو کافی تعاؤن برتتے رہے ایک اچھی دیدہ زیب خود نوشت ،"مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا" تیار ہوگئی ۔لاگت بھی اچھی أئی ۔ز ندگی کا ایک مکمل دور اسمیں سمٹ گیا کئی دوستوں ،ساتھیوں نے بھر پور تبصرے لکھے ۔۔کتاب چند دوست احباب نے بیرون ملک اور پاکستان میں منگوائی لیکن بازار میں کتاب نہیں أئی۔ کئی دوستوں نے شکوہ کیا کہ فلاں کتب فروش کے پاس آپکی کتاب کا پوچھنے گیا لیکن کتاب نہیں تھی ۔ناشر صاحب سے میں نے کہا تو  وہ کہنے لگے کتب فروشوں  سے میں  بحث مباحثہ نہیں کر سکتا  اور أپکو میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا ۔۔ذرا ذود رنج قسم کے تھےبس اسپر ناراض ہوگئے اور حساب کتاب بے باق کردیا ۔۔ کتاب اب بھی انکے ویب سائٹ پر موجود ہے اور اللہ جانے ناشرانہ حقوق کا کیا حساب کتاب ہے ۔ اس گورکھ دھندے کی مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اور شاید ہی آئے۔۔  اس کتاب کی کافی دھوم مچی کئی اخبارات میں تبصرے ہوئے اور مختلف دوستوں، خود نوشتوں  کے  ناقدوں نے سراہا۔ٹورنٹو کی چند لائبریریوں میں کتابیں رکوائیں اور لائبریری أف کانگریس  واشنگٹن ڈی سی بھی بھیجی۔۔
اب ڈہیروں ڈھیر کتا بوں کوٹھکانے لگانا بھی ایک مر حلہ تھا ۔ مختلف کتب فروشوں کے پاس جا جا کر کتا بیں رکوائیں ۔ ہر ایک نے سب سے پہلے پوچھا " شاعری کی کتاب تو نہیں ہے ، اگر ہے تو وہ نہیں لینگے" اسوقت شاعری، جسے ہم کوہ گراں سمجھتے ہیں کی بے وقعتی کا اندازہ ہوا۔انکا حساب کتاب اللہ ہی جانے۔بکی کہ نہیں ، میں نے ابھی تک پلٹ کر نہیں پوچھا ۔ چند ایک نے سمجھایا کہ یہ آپکا کام نہیں ہے آپکے پبلشر کا کام ہے "۔تمام جاننے والوں کو حتی الامکا ن پہنچائیں، دوست احباب کو بذریعہ ڈاک بھی گئیں ۔۔ کراچی کے ایک مشہور پرنٹر پبلشر جو کہ ہمارے پرانے پڑوسی بھی تھے اور جن سے ان پرانے ناطوں کی بناء پر کچھ اپنائیت کا احساس بھی تھا انکو دونوں کتابوں کی دس دس جلدیں بھجوائیں ۔۔ شروع میں انہوں نے ایک انوایس بنا کر بھیجی تھی لیکن بعد میں ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سرسے سینگ ۔۔ یہ اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنےأپکواسلام کا علمبردار سمجھتے ہیں ۔۔ کیا وہ سب سمجھتے ہیں کہ انسے میرے چند سو روپوں کا حساب نہیں ہوگا؟ 

کتابوں کی ترسیل کا سلسلہ ابھی بھی سلسلہ جاری ہے ۔سفری  سامان میں بھی أ ٓدھی کتابیں ہوتی ہیں  ۔ 
ایسےمیں انگریزی مضامین کا مجموعہ چھاپنے کی ٹھانی جو اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں تھیں ۔ یہ میرے زیادہ تر ان مضامین پر مشتمل ہے جو رسالہ" نور " (جو نیویارک سے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کی سرپرستی میں  چھپتا ہے) کے لئے تحریر کی تھیں ۔ شکر اللہ کا کہ اپنی کتاب خود چھاپنے کا ایک عمدہ ویب سائٹ مل گیا جو امیزون کے اشتراک سے کام کرتا ہے ۔ قدرے وقت تو لگانا پڑا لیکن ایک اچھی کتاب تیار ہوگئی  
Extremism is not our way of life” اس کتاب کا عنوان ہے۔
یہ میرے ایک مضمون کا عنوان بھی ہے اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ أرڈر پر چھپتی ہے اور بھیجی جاتی ہے یہ انتظام مجھے بہترین لگااسلئے کہ نہ کتابوں کا بوجھ ہے نہ ڈھیر ، نہ درد سر۔ میں جب آرڈر دیتی ہوں تو وہ معاوضہ لے کر بھیج دیتے ہیں۔۔
اب جو پچھلے چند سالوں میں اردو میں  لگاتارلکھتی رہی ہوں ان افسانوں اور مضامین کی کتابوں کو چھپوانے کا سودا سمایا ہے ۔کراچی کے ایک کرمفرماپرنٹرپبلشر سے رابطے میں ہوں لیکن معاملہ ابھی تک سلجھ نہیں پارہاہے ۔۔ دیکھیں عملی صورت کب نکلتی ہے ۔۔اوریہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟  دیکھا جائے تو یہ کتابیں چھپوانا بھی ایک خبط ہی ہے اور اللہ تعالٰی کسی کو کسی خبط میں مبتلا نہ کرے۔۔
اب تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ میرے عزیز رشتہ دار ،دوست احباب یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ  بس اور کتابیں نہیں ،خدا کیلئے   ہمیں اپنی کتا بوں سے بچاؤ۔۔
خدا لگتی اگر کہوں توخود اپنا  یہ حال ہے کہ کئی احباب نے اتنی محبت سے اپنی کتابیں ارسال کیں لیکن بس ایک سرسری سا جائزہ لے پائی  ہوں ۔۔تو میں کس منہ سے پوچھوں گی،" أپنے میری کتاب پڑھ ڈالی کیا ۔"