Wednesday, August 26, 2015

جنرل حمید گل مرحوم سے ایک دلچسپ اور مختصر ملاقات ۔۔



جنرل حمید گل مرحوم سے ایک دلچسپ اور مختصر ملاقات ۔۔

عابدہ رحمانی

جنرل حمید گل کو مرحوم لکھتے ہوئے اپنے آپکو یقین دلانا پڑتا ہے لیکن یہ جہان فانی ہے یہاں ہر انسان جانے کیلئے ہی آیا ہے اور کسکے مقدر میں کتنا وقت ،کتنی کامیابی اور ناکامی لکھ دی گئی ہے یہ اللہ کی ذات ہی جانتی ہے ۔۔ 
۱۵ اگست کی شب ایک آلو داعی دعو ت سے لوٹی ۔۔  اگلی صبح اپنا فون چیک کیا تو ایک دو پیغامات پر نظر پڑی کچھ ادھوری سی بات تھی جلد ہی معلوم ہوا کہ جنرل حمید گل دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں بے حد افسوس ہوا انسے ملاقات کی یاد تازہ تازہ تھی انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ( ہم اللہ کی جانب سے آئے ہیں اور اسی کے پاس پلٹ کر جائینگے)۔۔ اسکے بعد   پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع احمد خان زادہ کے ڈیرے میں جان لیوا  دھماکہ ہوا ۔۔کرنل صاحب سمیت ۲۱ افراد لقمہ اجل بن گئے یا شہید ہوگئے۔۔کرنل صاحب نے صبح صبح اپنی فیس بک صفحے پر حمید گل صاحب کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا تھا ۔اور اپنی کامیابیوں کو انکے مرہون منت کیا تھا اور انکو اپنا اتالیق قرار دیا تھا دونوں کا تعلق فوج کی آرمرڈ کور سے تھا۔کیا جانتے تھے کہ ناگہانی اجل انکو جلد ہی ملانے والی ہے۔۔
۲۸ مئی کو یوم تکبیر کے سلسلے میں اسلام آباد ہوٹل میں نعیم اکرم قریشی صاحب کے توسط سے مدعو تھی ۔۔ پروگرام میں پہنچنے میں قدرے تاخیر ہوگئی۔۔ہال کھچا کچ بھرا ہوا تھا ۔پیچھے کی سیٹوں پر براجمان ہوئی ۔۔ تقاریر جاری تھیں صدیق ال فاروق کی تقریر حکومت کی ہمنوائی اور تعریفوں پر تھی ۔۔کئی باتیں درست  بھی تھیں۔۔ اسکے بعد جنرل حمید گل کی تقریر تھی ۔۔ ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے حمید گل صاحب سے دیرینہ شناسائی تھی لیکن بالمشافہ سامنے کھڑے ہوکر سننے کا پہلا اتفاق تھا ۔۔انکی شخصیت آئی ایس آئی کے معروف ڈائریکٹر جنرل اور جہاد افغانستان میں انکے اہم اور فعال کردار کی بناء پر جانی پہچانی اور بے حد مقبول تھی۔۔ اب بہت سے شعبوں کو یہ اعتراض ہے کہ موجودہ حربی گروہوں یا دہشت گردوں کے وہ خالق تھےجو کہ پہلے مجاہدین کہلاتے تھے اور جہاد افغانستان میں انکا سب سے اہم کردار تھا ۔۔یہ ایک الگ بحث ہے اسمیں بے نظیر سے لے کر پرویز مشرف تک کا گھناؤنا کردار ہےکہ انہوں نے کیسے ان ثمرات کو ضائع کیا بلکہ پاکستان کو ایک منجدھار میں لاکر کھڑا کردیا۔۔
جنرل صاحب بے نظیر کے دور کا بتا رہے تھے کہ ایٹم بم تیار ہو چکا تھا اور انہوں نے بے نظیر کو دھماکہ کرنیکا مشورہ دیا لیکن وہ ہچکچا رہی تھیں ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ کام بھٹو دور میں شروع ہواتھا ، ضیاءالحق کے دور میں یہ کام پوری طرح جاری رہا پاکستان کی حکومتوں کے سیاسی اختلافات کا اسپر کوئی اثر نہ پڑا۔۔بالآخر نواز شریف حکومت نے یہ کامیاب دھماکہ کیا اور یوں سہرا انکے سر رہا۔۔ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔۔اس دوران مغرب کا وقت ہوگیا تھا ۔۔نعیم صاحب نے آہستہ سے آکر کچھ کہا جسپر جنرل صاحب نے کہا ،" نماز تو ہم پڑھتے ہی رہتے ہیں ۔۔"
اتنے میں نعیم اکرم قریشی صاحب نے اعلان کیا،"میں نے ابھی عابدہ رحمانی صاحبہ کو دیکھا ہے میں انکا ممنون ہوں کہ وہ تشریف لائیں اگر پہلے دیکھتا تو میں انکو سٹیج پر بلاتا۔" ابھی یہ اعلان ختم ہوا ہی تھا کہ جنرل صاحب اسٹیج سے نیچے اترے لوگ ان سے لپک لپک کر ملنے لگے ۔۔نعیم صاحب میری جانب آئے اور کہا میڈم جنرل صاحب آپسے ملنا چاہتے ہیں ۔۔ میں اسوقت شش در رہ گئی ۔۔ جنرل صاحب سے دعا سلام ہوئی تو میں نے پشتو میں بات شروع کی اسپر انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ پشتو سمجھتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے ۔۔انہوں نے بتایا کہ انکی والدہ سوات سے تھیں لیکن والد بہاولپور پنجاب سے تھے۔۔ پھر وہ مجھسے مخاطب ہوئے کہ میں اپکا بڑا فین ہوں آپکی تحاریر میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں ۔۔میں حیران شش در ، من آنم کہ من دانم ۔۔ کہنے لگے آپ جن گروپس پر پوسٹ کرتی ہیں وہ میں دیکھتا ہوں ۔۔مجھ جیسی من موجی مصنفہ کیلئے یہ بہت بڑا اعزاز تھا اسوقت مجھے خیال ہی نہ آیا کہ جنرل صاحب کے ساتھ اپنی تصویر بنا لوں ۔
مغرب کی نماز کا وقت تھا اور میراذہن نماز کی ادائیگی کے جانب تھا۔۔میں نے انسے کہا جنرل صاحب اسطرح کی تقاریب جب شمالی امریکہ کے مسلمان کرتے ہیں تو نماز کا وقفہ اور اعلان ضرور کرتے ہیں ۔۔نماز کی ادائیگی کے بعد سیشن شروع ہوتا ہے ۔۔اور یہاں خواتین کی نماز پڑھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے--انہوں نے مجھے ذرا حیرت سے دیکھا کہنے لگے ،"نہیں نہیں  آپ نیچے بیسمنٹ میں جائیے وہاں پر انتظام ہے ۔۔ میں انسے اجازت لیکر گئی نماز کی ادائیگی کے بعد آئی تو کھانے پر ایک طرح سے حملہ ہو چکا تھا ۔۔ جنرل صاحب شاید جاچکے تھے۔۔ کون جانتا تھا کہ یہ میری انسے پہلی اور آخری ملاقات ہوگی۔۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔۔
  


Sent from my iPad

Friday, August 21, 2015

Pakistan independence day celebrations!

Pakistan after many years is a kind of treat for me.What a fervor,Patriotism, emotions and excitement all around. All the main buildings illuminated with colorful lights .Pakistan green and white flag with crescent and star flowing everywhere, on buildings, houses, cars, bikes , hawkers carts and sold all around in various sizes. Some has draped it around their cars. Masks,wigs, glittering flags, waist bands, hair bands and a lot more stuff in flag colors is for sale and people wearing it.
There are fireworks done by enthusiasts.
The day will bring more celebrations.
The live nations celebrate their independence days with this Zeal and fervor!
Long live Pakistan
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

(احمد ندیم قاسمی )

Sent from my iPad

--

Monday, August 17, 2015

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی۔۔



---
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے 

ہجرتوں کی دھوپ میں تائید ایزدی کے اشارے 
حصولِ پاکستان کی جدوجہد کا مختصر سا احوال
)والد محترم مرحوم میجر محمد قاسم کی یاد داشتیں جس کوعابدہ رحمانی نے مرتب کیا اور شائع کروایا 
  ۔(

از --

عابدہ رحمانی

اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیحد کرم اور بے پناہ احسان ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 67 برس پورے ہورہے ہیں۔ اگرچہ اس دوران ہم بہت بڑے سانحے سے دوچار ہوئے ہمارا ایک بازو ہم سے کٹ گیا۔ بے پناہ ذلت اور ہزیمت اٹھائی لیکن آج ہم پھر اس بچے کھچے ملک کی تعمیر میں مصروف ہو گئے ہیں۔ یہ ملک ہم مسلمانوں کے لیے ایک عطیۂ خداوندی ہے۔ دشمنانِ ملت جب اس کے خلاف سازشوں کا جال بچھاتے ہیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اس لیے کہ ان سازشوں میں اپنے پہلے ہوتے ہیں اور دوسرے بعد میں آتے ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب انگریز فوجی افسر ہم سے کہتے تھے’’ تم لوگ پاکستان بنانے کا شوق پورا کر لو لیکن ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ  یہ چھ مہینے سے زیادہ نہیں چلے گا‘‘ انہوں نے ہر چال چلی لیکن مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور جذبہ مسلمانی کی برکت سے یہ ملک اللہ کی مہربانی سے قائم و دائم ہے۔

قیام پاکستان کے وقت میری تعیناتی جھانسی (بھارت) کے مقام پر تھی۔ جھانسی اس وقت متعصب ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا گڑھ تھا اور ان کا مقصد اور مقولہ تھا ’’مسلمانوں کی تباہی اور بربادی‘‘۔ یکم اگست 1947ء کو میں نے جھانسی میں حاضری دی۔ کمانڈنگ آفیسر کرنل باورڈیگ سے انٹرویو ہوا۔ یہ افسر انتہائی باخبر تھا۔ وار آفس (جنگ کے دفتر) لندن میں بریفنگ کے لیے جاتا۔ دہلی اورشملہ سے کثرت سے رابطہ تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے اہل خانہ کو لانے اور اچھی رہائش دلانے کا وعدہ کیا کیونکہ اس کے خیال میں فروری 1948ء تک وہیں مقیم رہوں گا۔ یہ میرے لیے ایک لمحہ فکریہ تھا لیکن جب اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ہندو لیڈروں گاندھی، نہرو، پٹیل، سکھ لیڈر (تارا سنگھ، بلدیو سنگھ وغیرہ) اور انگریز حکومت اور ان کے نمائندہ وائسرائے اور انڈین یونین کے پہلے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کی مشترکہ پالیسی تھی کہ پاکستان کو چھ ماہ کے اندر اندر شیر خوارگی ہی میں ختم کیا جائے اور اس کے لیے تمام حربے استعمال ہوئے۔ 
افواج ہند کی تقسیم نہایت ہی مجبوری کی حالت میں عمل میں لائی گئی جو کہ قائداعظم کی مومنانہ فراست اور فولادی عزم کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ 
ہندوستان بھر میں خاص کر مشرقی پنجاب میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ ہزاروں جوان لڑکیاں اورعورتیں اغواء ہوئیں اور تقریباً ایک کروڑ لوگ بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور ان پر بھی راستوں میں قاتلانہ حملے ہوتے رہے۔ آگ اور خون کے دریا پار کر کے لوگ اس وطن پاکستان میں پہنچے۔ 
میں میس کے سنگل آفیسرز کی ہٹس میں رہائش پذیر تھا اس لیے بہت سے افسروں (انگریز اور ہندوؤں) سے جان پہچان کا موقعملا۔ اپنے دفتری انتظام میں کام، قواعد و ضوابط کے مطالعے پر بھرپور توجہ دی اور اپنے سابقہ تجربے سے پورا فائدہ اٹھایا جو کہ دوسری عالمی جنگ میں 1939-1945ء کے دوران 16 ماہ کی فیلڈ سروس (شمالی افریقہ) کے علاوہ دو تین یونٹوں کی انسٹرکٹرشپ میں حاصل ہوا تھا۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں گیارہ سو بستروں کے سی ایم ایچ ہسپتال کی ایڈمنسٹریشن اور ملٹری جیل خانہ جات اور حوالاتی بیرکوں میں گوروں کی کمان بھی میں کر چکا تھا۔

14 اگست 1947ء کا دن آیا تو آفیسرز میس میں پارٹی دی گئی، سجاوٹ کے لیے پاکستان کی جھنڈیاں کوشش کے باوجود نہ مل سکیں ہم نے اصولی طور پر ہندو افسروں سے منوا لیا تھا کہ اب ہم ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہمارا ملک پاکستان ہے۔ مسلمان سٹاف بکھرا ہوا اور حد درجہ غیر منظم تھا۔ آپس میں رابطہ نہ تھا اور اکثریت حالات سے بے خبر تھی۔ مشرقی پنجاب والے اپنے گھروں، اہل خانہ اور رشتہ داروں کے متعلق فکرمند تھے۔ سٹاف کی فلاح و بہبود کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کہیں سے رہنمائی حاصل تھی۔ 

میں نے پہلے ان پر توجہ دی، انہیں منظم کیا سب کو یکجا کر کے حالات کی نزاکت سے باخبر کیا۔ ملی جذبہ بیدار کیا، محنت، ایثار اور قربانی پر آمادہ کیا۔ رفتہ رفتہ بفضلِ ربِ کریم اچھی ٹیم بنتی چلی گئی۔ اس کے علاوہ حقوق کے حصول (ہمیں یہاں سے سروس ریکارڈزاور سٹیشنری وغیرہ لے کر پاکستان جانا تھا) کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ قدم قدم پر سٹاف کی رہنمائی کی اور کامیابی حاصل ہوتی ہوگئی۔

سٹاف میں کلرک وغیرہ پنجابی، پٹھان اور بنگالی مسلمان تھے۔ سب مل کر بہترین جذبے کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ ہم لوگ اگرچہ فوجی تھے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے ہر وقت جان کا خطرہ لاحق تھا۔ عام مسلمان تو انتہائی خوف اور خطرے کی حالت میں تھے۔ کسی سے شکایت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ حکومت ہمارے مخالف تھی کانگریسی حکومتی پارٹی ہندو مہاسبھا وغیرہ سب ہی دشمن تھے۔ انہیں دنوں معمول تھا کہ بھوپال اور گوالیار کے درمیان چلتی ٹرینوں سے مسلمانوں کو پھینک دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلایا جاتا تھا۔ افواہیں زوروں پر تھیں۔ ریڈیو، اخبارات وغیرہ پر ہندوؤں اور سکھوں کا غلبہ تھا۔ انگریز بھی ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے۔ ہمارے پاس نہ اپنی کرنسی تھی اور نہ ہی سرمایہ ان حالات میں عام آدمی کا مورال کیا ہو گی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

میں مختلف سیکشنوں میں کام کرتا رہا اور گاہے بگاہے اپنے کمانڈر کو اس کی پروگریس بتاتارہا۔ سروس ریکارڈ حاصل کرنے کا کام کافی مشکل تھا۔ شروع میں چند دستاویزات ملیں اس کے بعد ہندوؤں اور سکھوں نے تعاون نہ کیا۔ خاص کر شمالی ہند کے ہندوؤں کا رویہ متعصبانہ رہا۔ اب ہم نے جنوبی ہند کے کلیریکل سٹاف کی مدد لی جو کہ غیر متعصب تھے وہ ہماری دستاویزات دینے پر آمادہ تھے اور یہ کام رات کی خاموشی میں ہوتا رہا جبکہ وہ لوگ ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ دستاو یزات کے فائلوں پر نام دیکھ کر ان کو الگ کر دیتے تھے، مسلمان افسروں کی فائلیں کے ساتھ غلطی سے ہم چند عیسائی اور سکھوں کی فائلیں بھی لے آئے جسے بعد میں کمانڈر کو واپس کر دیا اور وہ بہت مشکور ہوئے۔
سٹیشنری کا حصول نسبتاً آسان رہا اور رفتہ رفتہ ہمیں اپنے حصے کی سٹیشنری اور فارم ملتے گئے۔ میں نے متعلقہ ہندو افسر پر واضح کیا کہ انگریز اپنے حصے کی سٹیشنری لے کر بمبئی ارسال کر رہے ہیں اور جب ہم اپنا حصہ لیتے ہیں تو تم لوگوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ اس نے کہا "خان صاحب آپ بھی اپنا حصہ لے لیں آپ کو کون منع کر سکتا ہے"

ہم نے اپنے حصے کی سٹیشنری فارم وغیرہ اور 17 ہزار سٹینسل پیپرز حاصل کیے اور اسے میگزین کے کمرے میں خاموشی سے رکھتے رہے تاکہ تخریب کاروں کی نگاہوں سے دور رہیں۔ رات کو کلرک محمد خان اسی کمرے میں سوتا اور فجر کے وقت چلا جاتا۔

سٹیشنری کے ساتھ ہم نے دس عدد ٹائپ رائٹرز اور دو ڈپلیکیٹرز بھی لے لیے تھے مگر چند روز بعد جبکہ روانگی میں تاخیر ہوئی تو انڈین جی ایچ کیو سے اطلاع آئی کہ دونوں مملکتوں کا فیصلہ ہے کہ سٹیشنری میں ٹائپ رائرز اور ڈپلیکیٹرز شامل نہیں ہیں آپ لوگ یہ دونوں چیزیں نہیں لے جائیں گے۔ اس دوران مجھے جاٹ ہندو کپتان سے معلوم ہوا کہ یہ کام کپتان لالہ لاجیت رائے (تلوار، راولپنڈی) کی شرارت سے ہوا جو کہ آر ایس ایس کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے۔ سٹینسل پیپرز پاکستان میں اس وقت بالکل نایاب تھے اس لیے اسی کو غنیمت جانا۔

ان حالات میں سٹاف کی سکیورٹی، ریکارڈز آف سروس اور سٹیشنری کی مناسب حفاظت کے ساتھ ساتھ ذاتی حفاظت پر بھی توجہ دی گئی۔ ہم حالات پر نظر رکھتے تھے۔ کوشش یہ تھی کہ ماحول ٹھیک رہے۔ لالٹین میں رات کے وقت دو سنتریوں کا ایک وقت میں بندوبست تھا۔ ان کے پاس سیٹیاں اور عام سونے کے لباس ہوتے تھے۔ انہیں ہدایت تھی کہ راؤنڈ کرنے والے افسروں اور وی سی او کو نہ پکارا جائے تاکہ انہیں شبہ نہ ہو کہ ہم ہوشیار ہیں اگر پوچھیں تو بتانا کہ رفع حاجت کے لیے اٹھا ہوں۔ پاکستان روانگی کے لیے رولنگ سٹاک (سپیشل ٹرین) کا انتظام ہو گیا۔ حرکت کرنے کا حکمنامہ مل گیا۔ 12 دسمبر 1947ء کو روانگی تھی۔

بھاری سامان مال کے ڈبوں میں لادا، آدمیوں کو ترتیب کے ساتھ بٹھا دیا کہ جہاں تک ہو سکے ایک پارٹی یونٹ کے آدمی ایک جگہ ہوں تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول میں آسانی ہو۔ سٹیشن پر موجود مہاجرین کو بھی مختلف ڈبوں میں بانٹ دیا۔ ہماری کوشش کے باوجود ریلوے والوں نے مال کے ڈبے آگے کی بجائے پیچھے لگا دیے۔ آگے لگانے میں ہمارے دو ہمارے دو مقاصد تھے کہ مال کے ڈبے کٹنے نہ پائیں گے اور پٹڑی سے اترنے کی حالت میں (جس میں کافی امکان تھا) انسانی جانوں کی بچت ہو گی۔ مگر انہوں نے تعاون نہ کیا اب مجبوراً میں نے یہ انتظام کیا کہ صوبیدار امیر علی خان کی ڈیوٹی لگائی کہ آپ آخری ڈبہ میں ہوں گے۔ ٹرین کی روانگی کے وقت پلیٹ فارم پر آگے ہوں گے اور تسلی کریں گے کہ ڈبے کٹ تو نہیں گئے۔ اگر کٹ گئے تو فوراً سیٹی بجائیں۔ آپ کے آدمی ڈبہ میں زنجیر کھینچ کر گاڑی رکوا دیں گے۔ چنانچہ آگے جب جالندھر میں ڈبے کٹ گئے تو اسی طریقے سے ہمیں معلوم ہوا ورنہ اگلے سٹیشن یا سٹاپ پر معلوم ہوتا تو تمام سامان، دستاویزات اور سٹیشنری سے ہاتھ دھونے پڑتے۔

اللہ اللہ کر کے وہ وقت آ پہنچا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ 12 دسمبر 1947ء کو شام کے وقت ملٹری سپیشل ٹرین میں جھانسی سے 6 آفیسراور تقریباً 400 سپاہی سوار ہوئے تھے۔ ان کے افراد خانہ اور سویلین ان کے علاوہ تھے۔ آگرہ سے تقریباً 11 آفیسر اور 800 مزید سپاہی سوار ہوئے تھے۔ ہماری ٹرین آخری ملٹری سپیشل تھی اس سے پہلے جو ملٹری سپیشل جھانسی سے روانہ ہوئی اس کے فوجی پوری طرح مسلح تھے، ٹینک تھے، کمانڈ مکمل تھی، وائرلیس، ٹیلیفون تھے۔ ہماری ٹرین مقابلتاً دشمن کے لیے تر نوالہ تھی اس لیے میں نے پوری حالت افسروں، جونیئر کمیشنڈ افسروں اور نان کمیشنڈ افسروں پر واضح کر دی کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ جب تک ہم پاکستان خیریت سے نہ پہنچ جائیں کوئی غفلت اور لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ڈسپلن کا اعلیٰ مظاہرہ کرنا ہے۔ راشن پانی کے استعمال میں ہر ممکن بچت کریں، ایثار و قربانی وقت کا تقاضا ہے، دیکھ بھال لازمی ہے۔رب کریم نے اپنا فضل و کرم فرمایا کہ ہماری ٹرین کے کسی آدمی یا پارٹی کی تلاشی وغیرہ نہیں ہوئی جو جتنا سامان ساتھ لا سکتا تھا ٹرین میں لوڈ کر دیا۔ رات کے 12 بجے ہماری ٹرین روانہ ہوئی۔ 13 دسمبر کی صبح 8:30 بجے آگرہ پہنچ گئے۔

ٹرین رکنے کا وقت ایک گھنٹا تھا مگر ہندو، سکھ، آر ٹی او اور ایس ایس او کی مداخلت اورگڑبڑ کی وجہ سے تقریباً چار گھنٹے ٹرین رکی رہی۔ ہماری مسلسل شکایت اور احتجاج کے بعد انہوں نے ٹرین کی روانگی کی اجازت دی۔ اب انہوں نے اپنی من مانی کے بعد ٹرین سے اپنا گارڈ ہٹایا ہمارے گارڈ نے چارج لیا۔
مہاجرین ٹرین پرٹوٹ پڑے، منصوبے کے مطابق ہمارے آدمی ڈبوں میں کھڑے رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جگہ مل جائے لیکن دکھاوے کے طور پر شور مچاتے رے کہ مت آنے دو مگر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر انہیں ڈبوں میں سوار ہونے میں مدد دیتے اس کے بعد ٹرین روانہ ہوئی۔

رات امرتسر سٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی تو ایک ہندو جاسوس گاڑی کا جائزہ لینے کے لیے بڑھا کہ اتنے میں سنتری نے چھلانگ لگا کر ہالٹ پکارا اور سنگین کا نوک اس کے گلے سے لگایا ساتھ ہی جے سی او انچارج پستول لیے پہنچ گیا میں بھی پہنچا میں نے جے سی او کو تلاشی لینے کے لیے کہا۔ اس سے ہتھیار وغیرہ تو برآمد نہ ہوا اس سے پوچھا کہ ’’کون ہو تم؟‘‘ جواب ملا۔ شرنارتھی، میں نے کہا کہ شرنارتھی یا شرارتی’’ وہ معافیاں مانگنے لگا آگے کی جانب پلیٹ فارم پر تقریباً 100 گز دوردس آدمی بیٹھے آگ سینک رہے تھے۔ ظاہراً وہ اس واقعہ سے لاتعلق رہے مگر انہوں نے اپنے سرپرستوں کو یہ ضرور بتایا ہو گا کہ یہ لوگ الرٹ ہیں۔ آگے بیاس آیا کنارے پر ایک پہاڑی ہے جو کہ خطرناک جگہ تھی بلکہ کسی حد تک مقتل بتایا جاتا تھا وہاں سے بھی بفضل رب کریم خیریت سے گزرے۔ علی الصبح اذان سے قبل اٹاری پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔ ٹرین کا چارج لینے کے لیے پاکستانی انجن ڈرائیور اور گارڈ وغیرہ آئے۔ اللہ کا بیحد شکر ادا کیا سٹاف نے پاکستانی جھنڈے کے مشابہ جھنڈا بنایا تھا اس پر 02 ای پاک کپڑے سے بنایا تھا وہ جھنڈا ہمارے کوپے کے باہر لگایا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹرین واہگہ پہنچ گئی۔

مادر وطن کی سرزمین پر پہنچ کر اور اتنی بڑی ذمہ داری بخوبی نبھانے کے بعد کیا جذبات تھے بیان سے باہر ہیں۔ سب سے پہلے تو نفل شکرانہ ادا کیا۔ پھر  روح پرایسی سرمستی اور سرشاری کی کیفیت چھا گئی کہ میں بالکل غافل ہوگیا۔ چندھیاتی ہوئی تیز دھوپ میں آنکھ کھلی تو ٹرانزٹ کیمپ کے سائیڈنگ پر تھا۔
اسی طرح یہ کارواں منزل آگے بڑھتا رہا۔ محنت، ایمانداری، عزم مصمم اور مسلسل جدوجہد سے یہ گلستان پُر بہار ہو گیا۔
یہ داستان رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل کو بھی معلوم ہو کہ ابتداء میں ہم نے کس کس طرح اس چمن کی آبیاری کی۔ میں اب بھی اپنی نئی نسل سے مایوس نہیں ہوں۔


نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے 
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیزہے ساقی 

***



عابدہ

Abida Rahmani


-- 



-- 

-- 

Friday, August 14, 2015

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہین



Subject: اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہین 

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں  
 
 از

عابدہ رحمانی

ہر جانب سبز ہلالی پرچم  لہرا رہے ہیں ۔۔چھتوں پر،چھوٹی بڑی گاڑیوں پر سائیکلوں ،موٹر سائیکلوں پر مختلف اشیاء بیچنے والوں کے ٹھیلوں پر ،ہر طرف پر چم بیچنے والوں کے غول کے غول جابجا سٹال سجے ہیں پر چم کے رنگ کے سفید اور سبز وگ ،چہروں پر سجانے والے ماسک ، بالوں کے رکن کلہ بینڈ جلتی بجھتی جھنڈیاں  اور کیوں نہ ہو 14 اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے اور ہر آزاد قوم کی طرح پاکستانی بھی اپنا یوم آزادی خوب کر و فر سے مناتے ہیں ۔اسلام آباد میں ہر جانب جشن آزادی کا سماں ہے ۔۔اور صرف اسلام آباد ہی کیوں تمام پاکستان میں یہی جوش و جذبہ ہے ۔۔عمارات پر رات کو  انتہائی دیدہ زیب جھل لاتا چرا غاں ان روشنیوں سے  گھر بازار سب سجے ہوئے۔ جابجا منچلے اور شائقین پٹاخے چھوڑ رہے ہیں ۔آتش بازیاں ہو رہی ہیں ۔۔ایک رونق ہے ایک ہما ہمی ہے لگتا ہے امن کا دور لوٹ رہا ہے ۔۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اللہ نظر بد سے بچائے۔۔
برسوں کے بعد میں یہ یوم آزادی مادر وطن پاکستان میں منا رہی ہوں ۔۔ اور حد درجہ لطف آرہا ہے۔۔

الحمد للہ پاکستان آج 68 برس کا ہوا چاہتا ہے- ترقی یافتہ دنیاکے لحاظ سے اسکی حیثئیت عمر کے لحاظ سے ایک معمر کی ہے جبکہ پاکستانی لحاظ سے ساٹھا پاٹھا بڑہاپے کی سرحد میں داخل ہے- 14 اگست 1947 کو رمضان المبارک کی 27 شب کو پاکستان معرض وجود میں آیا جسے عام طور سے شب قدر مانا جاتا ہے -
تقسیم ہند کے دوران والی نسل بھی اب بڑھاپے میں ہے وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے-- آج کو کل بننے میں چند گھنٹے ہی صرف ہوتے ہیں-

تقسیم ہند کے دوران خاک و خون کے کتنے دریا پاٹے گئے - عالمی تاریخ میں ایک اور انوکھی مثال قائم ہوئ، لاکھوں لوگ ہجرت کرکے ایک سر زمین سے دوسری سرزمین پر آگئے- بے بسی ، تباہی و بربادی ، ایثار و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی، پھر اس لٹے پٹے مملکت کی تعمیر نو کا آغاز ہوا اینٹ پر اینٹ جمائی گئی  -اس مملکت کے ناخدا کو جلد ہی مایوس ہوکر بالآخر یہ بھی کہنا پڑا" میری دونوں جیبوں میں کھوٹے سکے ہیں"- ایک سال کے اندر وہ کمزور و ناتواں ،لیکن گھن گرج والی آواز اور اصولوں کا پکا مخلص ناخدا اس کشتی کو بیچ منجدھار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوا- اسکے بعد بڑے زیر و بم آئے- اکتوبر 1951 کو قائد کے دست راست ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپینڈی میں قتل کردیا گیا-اسی لیاقت باغ نے دوسری بھینٹ بے نظیر بھٹو کی صورت میں لی--

کڑی آزمائیشوں اور ناگفتہ بہ حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوۓ یہ وطن اور ملت اپنی بقا کی کوششوں میں مصروف رہا ہے اور اسوقت زیادہ شدت سے ہے -بقول اقبال'
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فا تح عالم -جہاد زندگانی میں ہے یہ مردوں کی شمشیریں- 


اگر ہم پاکستانی تاریخ کا ایک سرسری اجمالی جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس مملکت خداداد کو ابتداء سےہی بیرونی و اندرونی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا - دائمی حریف بھارت سے پے در پے کئی جنگیں ہوئیں 1971 کی جنگ کے نتیجے میں اپنے ایک حصے اور تقریبا نصف مملکت مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھونے پڑے- اور یہ کتنا سنگین اور کسقدر اندوہناک المیہ تھا کہ اسکی شدت ، تباہی و بربادی، ہلاکت آفرینی اور قتل و غارت گری کا ا حاطہ کرنا نا ممکن ہے- یہاں ہرگز کفر و اسلام کا معرکہ نہیں تھا بلکہ زبانوں (بولیوں) ، تہذیب اور نظریات ، نا انصافی اور غلط فہمیوں کے معرکے تھے- دشمنوں نے انہیں خوب خوب ہوا دی - سب سے بڑی اسلامی مملکت دو لخط ہوئی-- پاکستانی فوج کو حد درجہ ہزیمت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا-

کشمیر کے تصفیئے کے لئے پاکستان کو بے انتہا قربانیاں دینی پڑیں جبکہ یہ مسئلہ ابی تک تصفیہ طلب ہے اور پاکستان کی پوزیشن بھارتی دباؤ کے پیش نظر کافی کمزور ہو چکی ہے- افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے ساتھ پاکستان افغان مسئلے میں اتنا الجھ گیا کہ الجھتا ہی چلا گیا - وقت اور حالات کے پلٹنے سے جہاد افغانستان اور مجاہدین دہشت گرد بن گئے اور وہ جو امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے اور جنکی وجہ سے روس کے ٹکڑے ٹکڑ ے ہو گئے وہ امریکہ کی نظر میں سب سے زیادہ خطرناک اور بڑے مجرم کہلائے - پھر 11 ستمبر 2001 کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقع ہوا- اسکا ملبہ جہاں افغانستان ، عراق اور دیگر مسلم دنیا پر گرا وہاں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا بند، ساتھی اور ہراول دستہ بن گیا- ان مسائل میں الجھ کر پاکستانیوں اور پاکستان کے حالات عراق، افغانستان اور فلسطین جیسے ہو گئے--وہ جو ہم سوچتے تھے، کس کے گھر جائیگا طوفان بلا میرے بعد -اس طوفان بلا نے ہمارے اپنے گھروں ، شہروں ،گلیوں ، درسگاہوں ، مساجد، فوجیوں اور پولیس کو لپیٹ میں لے لیا - خود کش دھماکے ، فوجی رد عمل ، ڈرون حملے اور امریکی در اندازی نے جہاں ہمیں خانہ جنگی اور ایک نئی تباہی و بربادی میں ڈالدیا -وہاں حفاظتی تدابیر کی خاطر تمام حساس اداروں ، بلکہ تجارتی مراکز،ہسپتالوں، بنکوں اور دفاتر تک کو بم اور بارود کی نشاندہی والے آلات ، سکینرز اور ڈیٹیکٹرز لگانے پڑے-- جگ ہنسائی، طنز و تشنیع کے مواقع بھی اغیار کو مئیسر آئے-

پاکستان کی معیشت ،تجارت اور سیا حت بری طرح متاثر ہوئی۔۔اور بیرون ملک اسکی ساکھ ایک انتہائی خطرناک ملک کے طور پر جانی گئی۔۔

 مدینہ منورہ میں ایک بنگالی سے بنگلہ میں گفتگو ہو رہی تھی لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ اصلاًُ میں پاکستانی ہوں تو کہنے لگا" آپ پاکستانی لوگ بھی کیسا ہے - پہلے ہم سے مارا ماری کیا اب خود سے مارا ماری کرتا ہے"-(جبکہ وہ بھی ۴۴سال گزرنے کے بعد مارا ماری سے باز نہیں آئے - -

لاکھوں جانیں اس تباہی کی بھینٹ چڑھ گیئں - مرنے والے بھی اپنے ، مارنے والے بھی اپنے-

الحمد للّٰہ اللہ کے فضل وکرم سے فوج اور حکومت کی سخت کاروائیوں اور بے انتہا قربانیوں سے ایک حد تک امن وامان بحال ہو رہا ہے ۔۔
کراچی شہر جو پاکستان کی شہ رگ کہلاتا ہے اور یقینا ہے 2 ڈھائی کروڑ آبادی والا شہر ، علم و دانش کا گہوارہ، جو منی پاکستان کہلاتاہے ، پاکستان کا غریب پرور شہر جہاں پاکستان کے ہر خطے ہر بولی والے لوگ آباد ہیں- اس شہر کو لسانیت ، شدت پسندی اور بد امنی کی آماجگاہ بنا دیا گیا- اسکی خون آشامیاں اور خونریزیاں بے حساب ہیں ، جہاں روزانہ دس ، بارہ بیگناہوں یا گناہگاروں کا قتل بیشتر کچھ رقم چھیننے کی کوشش، موبائیل فون چھیننے کی کوشش میں یا گاڑی چھیننے کی کوشش میں ایک عام بات تھی جہاں کے باشندوں کو اسی بد امنی اور قتل و غارتگری کے ساتھ جینے کی عادت سی ہو گئی تھی ۔اسکے علاوہ ایک اور محاورہ ٹارگیٹ کلنگ کا ،جنمیں مخالفین کو نشانہ بنایا جاتا ۔ اب اس پر قابو پالیا گیا ہے ایک مدت کے بعد لوگوں نے سکھ چین کا سانس لیا۔۔۔

 
بلوچستان کے حالات میں بھی سدھار آرہا ہے۔۔ جو شدید بد امنی کی لپیٹ میں تھا روزانہ افسوسناک واقعات کی خبروں سے سے دل لرزتا رہتا ۔آۓ دن خونریزی کے بڑے بڑے واقعات ہوتے ۔ خیبر پختون خواہ تو میدان کارزار تھا ہی- ضرب عضب آپریشن کے نتائج دور رس نظر آ رہے ہیں ۔۔جس عفریت نے پاکستان کو پچھلے ۱۴ برس سے جھکڑا ہوا تھا ۔اس سے نجات نظر آرہی ہے۔۔آج جرنل راحیل شریف نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنیوالے اور منصوبہ بندی کرنیوالے سات دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔۔ 

 
کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف بھی مؤثر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔۔پاک فوج نے اپنے جرنیل اور متعدد افسران کو اس جرم میں سخت سزا سنائی ہے اور انکی تمام مراعات ختم کر دی ہیں ۔۔ ورنہ  اس عفریت نے تو اوپر سے نیچے تک سب کو لپیٹا ہوا ہے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا ایک بازار گرم ہے اپنا جائز کام کرنے کیلئے آپ دینے پر مجبور ہیں - پچھلے دنوں اسلام آباد میں سی ڈی اے سے کچھ کام تھا میرا ایجنٹ کہنے لگا " باجی پندرہ ہزار انڈر دی ٹیبل دینے سے کام فوری ہوجائیگا" اور یہ انڈر دی ٹیبل والے ماتھے پر سجدے کا ٹیکہ اور اکثر بڑی بڑی داڑھیاں بھی رکھتے ہیں اور پہر اسی رقم سے حج اور عمرے بہی ادا کرتے ہیں - نہ معلوم وہ اسکو کوئی جائز نام کیوں نہیں دیتے؟
اس سب کے باوجود پاکستان ایک واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے یہ جہاں پاکستانیوںکیلئے باعث صد افتخار ہے- وہاں ساری دنیا کیلئے باعث تشویش بھی ہے - 



لیکن اس سب کے باوجود میری یہ قوم ایک باہمت، محنتی ، جفا کش، زندہ دل ، بہادر ، نڈر اور دلیر قوم ہے - ساری دنیا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے خوف زدہ اور تھر تھرا رہی ہے - اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر کے بارے میں محتاط رویہ اپنانے کا مشورہ دیتی ہے- لیکن پاکستانی بے پرواہ ہیں موت کو وہ ایک کھیل اور مقدر سمجھتے ہیں- اس قوم اور ملک پر ناگہانی اور قدرتی آفات بھی بھر پور انداز سے آئیں 2005 کے تباہ کن زلزلہ اور 2010 کے تباہ کن سیلاب سے ہمت اور جرآت سے نمٹنے کے بعد زندگی ایک نئی سمت اور جہت کے ساتھ رواں دواں ہے - تمام ملک میں قرئے قرئے میں وہ بے پناہ چہل پہل اور رونق ہوتی ہے کہ چند لمحوں کے لئے تمام بد امنی، لاقانونیت اور دہشت گردی کے قصے محض افسانہ لگتے ہیں- گرانی اور مہنگائی جھوٹ اور فریب دکھائی دیتا ہے اگر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی جائے اور دولت و دکھاوے کی ریل پیل دیکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ کسقدر صاحب حیثیت ہیں--لوگوں کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے علاوہ معدودے چند کے-

زندہ قوموں کی طرح ہم اپنا یوم آزادی بیحد دھوم دھام سے مناتے ہیں- میڈیا تو اسے اور شد و مد کے ساتھ مناتا ہے ( اب یہ میڈیا مذکر ہے یا مؤنث) لیکن عوام مین جذبہ حبالوطنی بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے-ہر طرف لہراتا ہوا پاکستان کا ہلالی پرچم ، لڑکے لڑکیوں کے سبز ،سفید لباس بلکہ لڑکیوں نے اسی مناسبت سے چوڑیاں پہن رکھی ہیں ، ہر طرف بجتے ہوئے ملی نغمے ایک زندہ اور پایندہ قوم کو ظاہر کر رہے ہیں-اور پھر آتش بازیاں جنکی چکا چوند اسمانپر ایک ہلچل پیدا کرتی ہے-

بیرونی ممالک میں بھی پاکستانی بساط بھر یوم آزادی منانے کی کوشش کرتے ہیں --ٹورنٹو میں سٹی سنٹر جسکا نام ناتھن فلپس اسکوائیر ہے میں یوم آزادی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے-ایک میلے کا سا سماں ، اسمیں سفیر پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی حکومت کینیڈا کے اہلکارعام طور سے اونٹاریوکے پریمئیر کو مدعو کرتی ہے - سہیل رعنا کی ٹیم انکے دائمی ملی نغموں کے ساتھ موجود ہوتی ہے - وہ نغمے جنکو سنکر ہم اپنی ماضی میں کھو جاتے ہیں-

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے- سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے-

دعا کریں کہ اللہ تعالی اس سرزمین کو ظلم و استحصال و استبداد کے پنجے سے نجات دے اور پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی اسلامی  مملکت اور ریاست بنائے، اغیار اور دشمنوں کی چیدہ دستیوں سے محفوظ رکھے ---آمین



عابدہ

Abida Rahmani