Tuesday, July 14, 2015

آ لوداع اے ماہ رمضان اور پاکستان سے عیدالفطر کی دلی مبارکباد



Subject: لوداع اے ماہ رمضان اور پاکستان سے عیدالفطر کی دلی مبارکباد

الوداع اے ماہ رمضان

اور پاکستان سے

عیدالفطر کی دلی مبارکباد


از

عابدہ رحمانی


اب جبکہ رمضان آخری عشرے کے آخری ایام  میں داخل ہوگیا ہے اعتکاف والے معتکف ہوچکے -مغفرت اور نار جہنم سے نجات کا عشرہ جاری ہے - آج رات ستایسویں شب ہے  بیشتر مساجد تراویح میں ختم القرآن کا انعقاد کر رہے ہیں - روزے دار اللہ کی رحمت اور مغفرت کے طلبگار ہیں

15 برس کے طویل وقفے کے بعد میرا رمضان اور عید الفطر پاکستان میں گزر رہا ہے --

یہاں کی رمضان اور عید کی رونقیں اور چہل پہل ویسے ہی ہیں جیسے کہ ہوا کرتی تھیں -افطاریاں ، افطار پارٹیاں ، عید کی چہل پہل ،خریداریاں، بازاروں میں رونق ،بجلی کی کمی کے باوجود تمام بازار بقعہ نور بنے ہوئے ہیں اور پھر ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی تمام ریسٹورانوں نے اپنا افطار ، ڈنر مینو مشتہر کردیا -- پھلوں کے ٹھیلوں پر اور دوکانوں پر انواع و اقسام کے پھل ،آم، لیچی ِ انواع و اقسام کے خربوزے ، تربوز، آڑو، خوبانی ِ آلوبخارے ، جامن ، فالسے ، کیلے اور دیگر بہت سارے، انکے رنگ ،ذائقہ، تازگی اور تراوٹ سبحان اللہ -- دوکانوں نے افظاریاں تلنے کے لئے ٹینٹ اور چبوترے لگائے ہیں انواع و اقسام کی اشیاء لذت کام و دہن کے لئے ۔۔ سوچتی ہوں اس ملک میں کیا کمی ہے پھر وہی لمحہ فکریہ ، وہی قباحتیں وہی سہولتیں ، سوچنے کا مقام اور پھر وہی اپنے زخموں کو کریدنا--

لیکن یہ خوشی کا موقع ہے اور ہمیں اسے ضایع نہیں کرنا چاہیئے-- تمام ٹی وی چینلوں سے رمضان پر بھانت بھانت کے پروگرام --مجھے تمام چینلوں میں وہی اپنا پرانا پی ٹی وی اچھا لگتا ہے --، زکٰوٰۃ، صدقہ ، خیرات،غریب پروری اپنی انتہا پر ہے -- کل گھر کے بچے ایس او ایس ولیج کے تقریبا 40 بچوں کے لئے تحائف لے گئے-- یہ یتیم اور بے سہارا بچے ان تحائف سے یقینا خوش ہونگے --

رمضان اور عید پاکستان کا اپنا تہوار ہے  اور اپنی چیز تو اپنی ہی ہوتی ہے -- اسلئے یہ رونق ، یہ چہل پہل چاروں جانب ہے--کسی کو یہ تفصیلات بتانے کی اور ان تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ یہ سب کیوں اور کس لیے ہو رہاہے اور یہ کہ روزہ کیا ہے اسے ہم کیسے اور کیوں رکھتے ہیں اور عید کیوں منائی جاتی ہے ؟

ہاں یہ ایک کمی ، ایک خلش مجھے کیوں کھل رہی ہے کہ وہ جو کفار کے ملک ہیں جہاں سے میں آئی ہوں وہاں پر

مساجد ہیں کہ ماشاءاللہ نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں - پورے پورے خاندان وہاں کشاں کشاں چلے آرہے ہیں - بچوں کے لئے کھیلنے کے کمرے ہیں، بے بی سٹنگ کا انتظام بخوبی موجود ہے - بوڑھے بچے جوان، ایک چہل پہل ، ایک ہما ہمی نماز ختم ہونے کے بعد یوں لگتا ہے ایک میلہ لگا ہوا ہے  بھانت بھانت کی بولیاں ، مختلف رنگ اور نسل کے مسلمان ایک رشتہ اخوت میں جڑے ہوۓ ، زیادہ تر ان ممالک کے باسی جہاں قتل و غارت گری ، فرقہ پرستی،مذہبی سیاسی یا فوجی دہشت گردی انتہائی عروج پر ہے - لیکن اس سکون اور اطمینان میں اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کے لئے ان ممالک کا انتخاب بھی کیا خوب انتخاب ہے کہ دیار مغرب کے امن و امان میں خوب دل کھول کر عبادات کریں ، پنج وقتہ فرض نماز کی ادائیگی اپنی جگہ ،رمضان کی رونقیں ، افطار ، مغرب عشاء ، تراویح اور پھر قیام الیل، خوش الحان قاریوں کی قراءت کیا روح پرور سماں آیات وعید پر قاریوں کا پھوٹ پھوٹ کر گریہ و زاری کرنا اور وتر کی دعاؤں کا سماں ، حرمین شریفین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے مجھے شافعی اور مالکی طریقے کی وتر بہت پسند ہے کیا رقت آمیز دعائیں ہوتی ہیں بس اللہ کے ہاں قبولیت کی دیر ہے۔۔

لیکن پاکستان میں خال خال ہی کوئی مسجد ہوگی جہاں خواتین کی نماز کا انتظام ہے اور پھر خواتین خود بھی جانا پسند نہیں کرتیں وہ بھی اسی فتوے پر عمل کرتی ہیں کہ عورت کے لئے افضل نماز اسکے گھر کے اندر ہے۔ --مارے باندھے کچھ لوگ تراویح کی ادائیگی کے جاتے ہیں

مفتی منیب الرحمان کو چاند دکھائی نہ دیا اور ہمارے سرحد ارے بھئی خیبر پختون خوا والوں نے روزہ رکھ لیا اب عید بھی ویسے ہی ہوگی انکی جمعے کو اور ہماری ہفتے کو ایک سرکاری ایک غیر سرکاری یہ روایت تو نہ جانے کب سے جاری ہے۔۔ اسلامی دنیا اسی طرح منقسم ہے ابھی تو رمضان شروع ہی ہوا تھا ۔اور دیکھتے دیکھتے 27 واں روزہ بھی آن پہنچا - -ا

ناصر جہاں کا سلام آخر آجکل میرے کانوں میں گونجتا ہے اب اسکا رمضان سے کیا تعلق؟

بس اتنا ہی، جو چل بسے تو یہ اپنا سلام آخر ہے

سلام آخر کو رمضان آخر کہہ سکتے ہیں--

شروع کے دو روزے خوب گرم تھے ۔پھر اللہ کو اہل اسلام آباد۔ پر رحم آگیا۔۔


رمضان کا تحفہ اہل ایمان کے لئے عید الفطر کا دن ہے جب وہ اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہوئے اپنی خوشی مناتے ہیں-  روزے دار تو روزوں سے بے حال ہو چکے ہوتے ہیں  اکثر وہ مسلمان جو روزے نہیں رکھتے عید زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں اور انکی تیاریاں بھی خوب ہوتی ہیں اب       وہ اتنے بھی گئے گزرے مسلمان نہیں ہیں کہ عید بھی جی بھر کر نہ منائیں- اتنی مسلمانی پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے-


"ارے بھئی آپ تو عید کا چاند ہوگئے نظر ہی نہیں آتے"

اردو بولنے والے از راہ گرمجوشی اپنے ملنے والوں میں یہ جملہ یا محاورہ جا بجا بولتے ہیں- جب کہ ہم مسلمان ابھی رمضان کے اختتام پر عید کا چاند ڈھونڈھنے کی کوشش کرینگے-آختتام سے مراد ہے 29 کی شب کیونکہ 30 کو تو  چاند کو بہر حال نکلنا ہی ہوتا ہے- ہلال عید یا عید کا چاند ہماری آدھی نہیں تو کم ازکم ایک تہائی اردو شاعری کا احاطہ کئے ہوے ہے۔اس چاند کو ڈھونڈھنے  اور پانے کیلئے کیا کیا رومانی اور جذباتی  اشعار کہے گئے ہیں کہ انمیں سے ایک بھی ابھی میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے شائد گوگل کرنا پڑیگا  ہاں ابھی ایک شعر جلیل نظامی کا ملا ہے

ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز

شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی۔  

- پھر اس چاند اور محبوب کے حسن جمال کا موازنہ ، جذ با تئیت تو بر صغیر میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے -پھر اس پر مستزاد اردو محاورے جنمیں عید کا چاند جا بجا استعمال ہوتا ہے-چاند اور عید کے چاند کو حسن و جمال کے استعاروں میں وصال و فراق کے محاؤروں میں خوب خوب چاشنی ملاکر بیان کی گیا ہے- ہماری ایک مغنیہ کیا لہک لہک کر یہ گیت گاتیں

انوکھا لاڈلا ، کھلن کو مانگے چاند

رمضان کی 29 کو جتنی ڈھونڈیا اس چاند کی ہوتی ہے کہ چاند کو خود بھی  اس اہمیئت کا اندازہ نہیں ہوگا-یا شائد ہے جب ہی تو وہ جھلک نہٰیں دکھلاتا یا ہلکی سی جھلک دکھلا کر غائب ہوجاتا ہے- عرب دنیا میں نہ معلوم چاند اور عید کے چاند کے ساتھ کیا رومانئیت منسلک ہے وہ عربی میں اپنی تہی دامنی کے سبب میں نہیں جانتی لیکن یقینا وہاں کے مؤمنین بھی چاہتے ہونگے کہ 29 پر چاند ہو جائے اور وہ ایک اور روزے سے بچ جایئں -آجکل تو وہاں پر شدید ترین گرم موسم ہے -ہاں البتہ انپر ایر کنڈیشننگ کے لحاظ سے اللہ کا احسان ہے- امریکہ کے روشن خیال مسلمانوں کو کیلنڈر بنانے کا خیال آیا اور اسکے حساب سے چاند کی تاریخیں طے کیں اس حساب سے ہم کیلنڈر والوں یافقہ کونسل والوں  کو زندگی سے چاند کا انتظار غائب ہوگیا -- لیکن دیگر کافی تعداد میں بھائی بندے اس پر متفق نہ ہو سکے ، انہوں نے چاند دیکھنے اور ڈھونڈنے کو ہی صحیح جانآ- اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھنا افضل ہے ، ہم اپنے مطالب کیلئے سنت کی پیروی خوب کرتے ہیں-

پاکستان میں روئیت ہلال کمیٹی بنی ہوئی ہے جنکا اہم کام عید اور رمضان کے چاند کو نکالنا ہوتا ہے، اسکے سرپرست اعلے   آجکل مفتی منیب الرحمان ہیں - -- لمبی چوڑی تقریریں اور تکلفات ہوتے ہیں چاند کو ڈھونڈھنا ایک اہم ترین فریضہ ہوتا ہے - پوری قوم دم بخود ہوتی ہے کہ اب چاند نکلا کہ نکلا اکثر اوقات ایسا ہوا کہ چاند کی خبر رات کو با رہ بجنے کے بعد آئی اور اکثر نے اگلے روزے کی سحری بھی کرلی اور معلوم ہوا کہ عید ہوگئی-ہمارے خیبر پختونخوا والے عید کو پشتو میں" اختر" کہتے ہیں - عیدالفطر چھوٹی عید کہلاتی ہے جبکہ عیدالاضحی بڑی عید - اور وہ کبھی بھی بقیہ پاکستان سے عید اور رمضان پر متفق نہیں ہوتے بلکہ ایک روز پہلے مناتےتھے-، چاہے روئیت ہلال والے پشاور میں ہی چاند نکال ڈالیں-

بھارت،بنگلہ دیش ، ملایشیا انڈونیشیا اور دیگر ممالک کے مسلمان بھی اپنےحساب سے عید کا اہتمام کرتے ہیں -

عرب ممالک میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے چاند کی ڈھونڈیا ہوتی ہے- یوروپ، آسٹریلیا، کینیڈا، دیگر ممالک  اور امریکہ والےیا تو اپنے طور پر چاند کو ڈھونڈتے ہیں کچھ اپنے موروثی ممالک کی پیروی بھی کر ڈالتے ہیں کہ عید انکے ساتھ منائی جاۓ-

شمالی امریکہ میں اگر مسلمان ایک ہی دن عید منا لیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ورنہ وضاحتوں پر وضاحتیں اور شرمندگی الگ - ایک ہی ملک ایک ہی محلے میں بسا اوقات تین مختلف دن عید منائی جاتی ہے بیچارے اوباما اور سٹیفن ہارپر بھی مخمصے میں کہ عید کی مبارکباد کس روز دی جائے- اسکول والے الگ پریشان اور انکا ایک ہی سوال " تم لوگ اپنا تہوار ایک دن ساتھ کیوں نہیں مناتے؟ ہم نے تو یہ طریقہ اپنایا ہے کہ عید کے روز روزہ رکھنا حرام ہے اور عید کے روز شیطان کا روزہ ہے اسلئے جو پہلے عید مناتا ہے اسکے ساتھ مناتے ہیں-


پاکستان میں چاند رات کو بڑے شہروں میں جو چہل پہل ہوتی ہے اور چاند رات کا بازاروں میں جو رت جگا ہوتا ہے وہ منچلوں اور نوجوانوں کے لئے ایک حد درجہ لطف اور سرگرمی  کا باعث ہوتا ہے- لڑکیاں بالیاں ساری رات مہندی اور چوڑیوں کے چکر میں کاٹ دیتی ہیں چوڑیوں والے منہ مانگے دام لیتے ہیں -کتنے سٹال بن جاتے ہیں کالج یونیورسٹی کے لڑکے باجیوں کو چوڑیاں پہنانے کے لئے ایک سے ایک بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اورکتنی با پردہ اور با حیا خواتین بھی چوڑیاں بچانے کی چکر میں ہاتھ بڑھا لیتی ہیں ارے ڈاکٹر، درزی اور چوڑی والے سے کیسا تکلف؟ کیا چناکے ہوتے ہیں جب تنگ سے تنگ چوڑیا ں پہنائی جائیں--لیکن اس طرح سے ٹوٹنے والی ساری کی ساری چوڑی والے کی ہوتی ہیں-- یہ ریت ابھی تک قائم ہے ؟- اس سے پہلے تو خواتین دعائیں مانگتی تھیں کہ آج چاند نہ ہو اور انکو عید کی تیاری کرنے کا ایک اور روز مل جاۓ- آخری وقت کی خریداریاں ، پکوان کی تیاریاں ، کئی اقسام کی سویئاں، ہوائیاں کٹ رہیں ، مصالحے پس رہے ہیں،ساری ساری رات خواتین کی اگلے دن کی تیاریوں میں گزر جاتی ہے  -اس سے پہلے جب گھروں میں سلیقہ شعار خواتین سلائیاں کرتی تھیں تو  گوٹے لچکےٹانکنا ،تر پائیاں کرنا اور پھر تمام ملبوسات کا اہتمام کہ تینوں دنوں میں کیا کیا پہننا ہے کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے- موجودہ دور میں بوتیک اور درزیوں نے عید کے اہتمام کو لوٹ لیا ہے -رمضان کے پہلے ہی سے درزیوں کے مزاج بگڑنے شروع ہوتے ہیں اور پہر یہ لوڈ شیڈنگ کا عارضہ یا بہانہ- اب چاند رات میں بوتیک اپنی قیمتیں کم از کم دگنی کر دیتے ہیں-اسکے ساتھ پارلروں کا راج ہوتا ہے مردانہ اور زنانہ دونوں-مہندی کا کام تو تمام دنیا میں کون کی ایجاد سے کافی آسان ہوگیا ہے اس کون کے ایجاد کرنیوالے کو ایک مہندی ایوارڈ براۓ تجدیدئیت ضرور دینا چاہئے تھا- اگلے روز عید کی نماز کے لئے گھر کے مرد ہی جاتے تھے اسوقت تک خواتین کی باقی تیاریاں ہوچکتی تھیں-

ہم لوگوں کے ہاں عید کا کیا اہتمام ہوتا تھا اکثر گھروں میں رنگ روغن تک ہو جاتا تھا - گملے تک رنگ دئے جاتے ہر چیز اجلی اور جاذب نظر ہو -پھر عیدیوں کا سلسلہ اگلے روز صبح سے ہی شروع ہوتا تھا جسنے رات کو سب سے زیادہ پریشان کیاتھا ڈھول پیٹنے والا وہ سب سے پہلے ، پھر گلی کا خاکروب جو عیدیں پر ہی نظر اتا تھا 'چوکیدار، مالی، ڈاکیہ جو سارے مہینے کی ڈاک جمع کرکے صرف عید کے دن لاکر دیتا ایک سے ایک عید کارڈ، بھیجنے والوں کی محبت کی گواہ ہوتے- ہم نے بھی درجنوں عید کارڈ بھیج دئے ہوتے تھے ان عید کارڈ کی خریداری بھی ایک دلچسپ اور بڑا مشن ہوتا تھا کہ ہر مرتبہ کچھ انوکھا پن ہو جو آپکی ذوق سلیم کا آئینہ دار ہو، پوری فہرست بنتی تھی کہیں کوئی عزیز، یار دوست رہ نہ جائے، ان کارڈز کو سپرد ڈاک کرنیکا مسئلہ ، ڈاکخانے والے بھی ایک حتمی تاریخ دے دیتے تھے-   ہماری زندگیوں سے بہت سے حسین لمحے خود بخود غائب ہوتے جارہے ہیں-اب انٹرنیٹ اور ای کارڈز نے اس تکلف سے بے نیاز کر دیا ہے -- پھر اللہ فیس بک اور وہاٹس ایپ  کو سلامت رکھے اسنے مزید کام آسان کردیا ہے

ایک تانتا سا بندھ جاتا ملازمین، اپنے بچوں ، عزیز رشتہ داروں کی عیدی کا سلسلہ الگ جاری رہتا - بچے اپنی عیدی گن گن کر خوش ہوۓ جاتے تھے-

میں اس نوسٹالجیا سے نکنا چاہتی ہوں یاد ماضی عذاب ہے یا رب - یہ وقت خوش ہونے کا ہے-

اب جن ممالک میں ہوں اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کیا کہنے ورنہ خصوصا چھٹی کا انتظام کرنا پڑتا ہے اسکولوں سے بچؤں کی اکثر چھٹی کرا دی جاتی ہے-لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسطرح نئی نسل کو اپنے دین اور روایات سے جوڑا جاۓ- اسکے لئے عید کے اہتمام پر کافی توجہ دی جاتی ہے- بہت سے بچوں کو یہ شعور دلاتے ہیں کہ ہم کرسمس نہیں بلکہ عید مناتے ہیں اسلئے بچوں کو عید کے تحائف دئے جاتے ہیں بلکہ خاندان کے تمام لوگ ایک دوسرے کو تحائف دیتۓ ہیں، گھروں کو کرسمس کی بتیوں سے سجا دیتے ہیں اندرونی خانہ بھی غباروں اور جھنڈیوںسے آرائش کر دی جاتی ہے ،

اکثر لوگوں کے ہاں چاند رات کا خوب اہتمام ہوتا ہے بڑی بڑی پارٹیاں ہو جاتی ہیں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں اسمیں مدعو ہوتی ہیں مہندیاں سج رہی ہیں ، چوڑیاں پہنی جا رہٰی ہیں، ڈھولک کی تاپ، گیت گائے جا رہے ہیں کبھی گیت لگا کر کچھ پھیرے بھی لگا لئے جاتے ہیں آخر کو خوش ہونے کا بھی حق ہے اور جائزبھی ہے- یہاں عام طور پر عید میں لوگ اوپن ہاؤس کا اعلان کرکے احباب کو مدعو کرتے ہیں - یہ سلسلہ کافی دلچسپ ہوتا ہے کافی دوست احباب سے ملاقات ہو جاتی ہے لیکن صاحب خانہ کو کافی اہتمام کرنا پڑتاہے- اسکے لئے اوقات کا تعئین کردیا جاتا ہے- مساجد کی سطح پر بھی چاند رات اور عیدملن کی پارٹیاں ہوجاتی ہیں اور یہ پارٹیاں روزے داروں کے لئے جہاں ایک انعام ہوتی ہیں وہاں ان سے روزے نہ رکھنے والے بھی لظف اندوز ہوتے ہیں- اور کیوں نہ ہوں بقول کسے' ہم کم ازکم عید تو مناتے ہیں'-


اللہ تبارک و تعالیٰ اپکو شب قدر کی فضیلتوں ، سعادتوں اور برکات سے فیض یاب کرے

ہماری تمام عبادات، زکواة، صدقات اور محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے ہماری خطاؤں  کو بخش دے

۔ کل عالم اسلام کے دکھ ، بد آمنی ، قتل و غارت گری اور پریشانیوں کو اپنے فضل و کرم سے دور فرمادے۔

آپ سب کو  عیدلفطر کی دلی مبارکباد ، اللہ کرے یہ آپ کیلئے اور اپکے تمام اہل خانہ کے لئے مسرتوں اور رحمتوں کا پیامبر ہو

عید مبارک

اللھم تقبل منا و تقبل منکم کل عام و انتم بخیر





عابدہ

Abida Rahmani




-- 
Sent from Gmail Mobile

Wednesday, July 8, 2015

ہلاکت خیز گرمی یا اللہ کا عذاب!



----

 ہلاکت خیز گرمی یا اللہ کا عذاب

از عابدہ رحمانی
میرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں--

گرمی تو پاکستان میں ہر سال آتی ہے لیکن یہ اس مرتبہ کیا ہوا آمد رمضان کے ساتھ کراچی اور سندھ کے جنوبی علاقوں میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں انکی تعداد اب تقریبا 1500 تک پہنچ گئی ہے -- یہ اللہ کا عذاب ہے یا ایک بہت بڑی آزمائش--
اہل پاکستان اور اہل کراچی کی قسمت میں جو دکھ لکھے ہیں یہ انمیں سے تازہ ترین دکھ ہے -- اس بد نصیب شہر کو جو عروس البلاد کہلتا ہے پاکستان کا مصروف ترین مرکزی شہر ہے پانی سے محروم ، بجلی سے محروم اور اسپر یہ قیامت خیز گرمی کہ سمندری ہوائیں بالکل بند ہو گئیں،لو کے تھپیڑے، جھلسا دینے والا سورج، بجلی غائب درجہ حرارت کا تناسب نمی کے ساتھ 49 ڈگری تک پہنچ گیا -- بہت سے  لوگوں نے روزے کی حالت میں تڑپ تڑپ کر جانیں دیں --
بروقت طبی امداد نہ پہنچ سکی ، روزہ داروں کا روزہ نہ تڑایا گیا یا انہوں نے خود نہ توڑا -- بچے اور بہت بوڑھے تو ظاہر ہے روزے کی حالت میں نہ ہونگے --(اور اللہ تعالٰ کی اس سہولت سے تو ہر مسلمان کو آگاہی ہونی چاہیئے کہ بیماری اور شدید نقاہت کی حالت میں روزہ توڑا جاسکتا ہے اور صحت یابی پر قضا کی ادائیگی ہے بوڑھے، بیمار اور کمزور اگر صا حب استظاعت ہوں تو روزہ نہ رکھ کر فدیہ ادا کریں-)- جو بھی وجہ ہو اسقدر ہلاکتوں میں کہیں نہ کہیں انتظامی اور حکومتی غفلت اور بد انتظامی موجود ہے --
بجلی و پانی کے مرکزی وزیر عابد شیر علی نے اپنی کلی برآت ظاہر کی ہے کہ یہ سب اموات  انکی غفلت کانتیجہ ہرگز  نہیں ہے -وہ کراچی الیکٹریک کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں - کہنے کو تو ہمارا ایمان ہے کہ آیا ہوا وقت ٹالا نہیں جاسکتا اورموت کا لمحہ اور وقت معین ہے - یہی وجہ باعث سکون بھی بن جاتی ہے -- عمر رض کا مشہور و معروف قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتابھی  پیاس سے مر جائے تو عمر اسکے لئے جواب دہ ہوگا -- جبکہ بحیرہ عرب کے کنارے پیاس اور گرمی سے مرنیوالوں سے ہماری صوبائی اور مرکزی حکومت کی کسی کوتاہی کا تعلق نہیں ہےاور وہ بالکل بری الذمہ ہیں  -- چند روز پہلے تحریک انصاف کی ایک رہنما سے ملاقات ہویئ " ہم نے جگہ جگہ پانی کی بوتلیں مہیا کیں " کہاں کیں کتنی کیں؟ ہنگامی صورتحال میں تدابیر بھی ہنگامی بنیاد پر ہونی چاہئیں جب شہر پر آگ برس رہی ہو اور عوام کے پاس نہ بجلی ہو نہ پانی تو انکے لئے مرجانا ہی بہتر ہے اور سونے پر سہاگا یہ کہ مر نیوالوں کے دفنانے کو بھی دو گز زمین بھی میسر نہیں ہے لیکن 15 ، 16 سو ہلاکتوں کے ساتھ یہ زمین بھی کافی بڑھ جاتی ہے -- یوں محسوس ہوتا ہے کہ گرمی نہین بلکہ کوئی مہلک  وباپھیل گئی ہو--بعد میں یہ عقلمندی اختیار کی گئی کہ اجتماعی تدافین کی گئیں--بجلی نہ ہونیکی وجہ سے مردہ خانوں میں تعفن پھیل گیا تھا --
کراچی  جو غریب پرور شہر کے طور پر مشہور ہے - جہاں پر تھکے ماندے مزدور، بھکاری  فٹ پاتھوں ، چوراہوں کے بیچ ایک چندر تان کر سو جاتے ہیں ۔۔ہاں وہاں وہ طبقہ بھی ہے جو اپنی بجلی خود بناتا ہے انکے پاس اپنے جنریٹر اور فیڈر ہیں ۔۔
اس شہر میں پانی کی قلت کرواکر ٹینکر مافیا کا راج کروا دیا گیا ہے ۔۔اسمیں میں حکمراں ادارے تک ملوث ہیں ۔۔ بلکہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔۔ 
 ٹی وی پر سندھ اسمبلی کا اجلاس دیکھ رہی تھی ایک ممبر نے استدعا کی کہ شہر کے حالات دیکھتے ہوئے ایک گھنٹے کے لئےائرکنڈیشنر بند کرتے ہیں جسپر خوب لے دے ہوئی لیکن ایر کنڈؑیشنر بند نیں ہوا-- انسان جب عیاشیوں کا عادی ہو جاتا ہے تو اسکے لئے مشکل جھیلنا ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا-- 
پچھلے دنوں بھارت میں گرمی کی وجہ سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں ، ہم چین سے تھے تو اس دکھ کا احساس نہیں ہوا لیکن جب یہ بلا اپنے سر آن پہنچی تو اسکی ہلاکت خیزیوں کا اندازہ ہوا--
گرمی پاکستان کے میدانی علاقوں میں ہمیشہ سے آتی ہے --سبی ، جیکب آباد ، ملتان، تھر وغیرہ میں درجہ حرارت 50 سنٹی گریڈ سے بھی بڑھ جاتا ہے - تمام پاکستان کے میدانی علاقے گرمی کی لپیٹ میں ہوتے ہیں --کراچی میں گرمی کی شدت رطوبت سے مذید بڑھ جاتی ہے - بارشوں کا وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے --جب کبھی بارش ہوتی ہے سال میں ایک آدھ مرتبہ، تو خوب ہوتی ہے سب جل تھل ہو جاتا ہے --اہل کراچی جہاں بارش سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں ہزاروں مہلک اور دیگر چھوٹے موٹے  حادثات بھی ہوتے ہیں اور پورا شہر اتھل پتھل ہو جاتا ہے،سڑکیں چاند کا منظر پیش کرتی ہیں  -- 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا بجلی کا غائب ہونا اسقدر مہلک ہو سکتا ہے؟ بجلی کا غائب ہونا تکلیف دہ اور اذیت ناک ضرور ہے اور فی زمانہ بجلی زندگی کے لوازمات میں سے ہے لیکن مجھے یاد ہے میرے بچپن میں ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور شدید گرمی میں رمضان کا مہینہ تھا علی الصبح لوگ اپنے باہر کے کام کرکے فارغ ہوجاتے -- جھالروں والے دستی پنکھے سب کے پاس ہوتے تھے - کسان مزدور درختوں کی چھاؤں میں بان کی چار پایئاں چٹایئاں ڈالکر لیٹ جاتے- زیادہ گرمی کی صورت میں چٹایئوں کو بگھو دیا جاتا تھا - خربوزے اور تربوز پہلے سے قاشیں کرکے پراتوں میں رکھ دیے جاتے ۔ لسی ، گڑکے ، املی ، تخم ملنگا کے شربت-جسکو جو بھی میسر تھا 
  - پانی تو زندگی کے لوازم میں سے ہے بلکہ انسانی جسم کا ستر فیصد پانی ہے تو ٹھنڈے کنوؤں سے پانی حاصل کیا جاتا تھا -مجھے یاد ہے کہ میری والدہ تولیہ بھگو کر سر پر رکھ دیتیں ایک بڑا سا کٹ کا پنکھا کھینچھنے والا بچہ دوپہروں کو خود بھی بے خبر سو جاتا--
پانی کے بغیر جینا محال ہے لیکن بجلی کے بغیر تکلیف اور بے چینی تو بہت ہے لیکن گزارا ہو سکتا ہےاور جیا جا سکتا ہے  ۔۔ آجکل فیسبک پر واپڈا کی طرف سے ایک لطیفہ گردش  کر رہا ہے " روزے جب بھی رکھے جاتے تھے جب بجلی نہیں تھی تو خاموشی سے روزہ رکھو اور زیادہ ٹر ٹر نہ کرو"

ہمارےقریبی گرم ترین خلیجی ممالک اور سعودی عرب میں جہاں دن میں درجہ حرارت 52ٓ--54 کے درمیان ہوتی ہے۔ رمضان میں تمام تعمیراتی اور مشقتی کام رات کو یا افطاری سے سحری کے وقت تک جاری رہتا ہے --ہاں انکے پاس بجلی کی کوئی قلت نہیں ہے --
کراچی کے نوحوں میں ایک اور مر ثیے کا اضافہ ہوا کہ 1500 افراد کر بلا کی کیفیت سے دو چار ہوئے اور تڑپ ٹرپ کر جانیں دیں -- 
اللہ تبارک و تعالٰی انکو بلند ترین درجات پر فائز کردے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے-


-- 
Sent from Gmail Mobile