Saturday, June 6, 2015

قائد کے ذریں اصول




قائد کے ذریں اصول
اتحاد،ایمان،تنظیم
(Abida Rahmani,
Unity , faith ,discipline

فضائیہ کالونی سے باہر نکلتے ہوۓ اسلام آبادایکسپریس وے پر سامنے بنے ہوۓ ٹیلے پرقائداعظم کی نیون لائٹ سےمرصع ایک کافی بڑی تصویر پر نظر پڑتی ہے اسکے نیچے ایک جانب اردو میں اور دوسری جانب انگریزی میں اتحاد ،ایمان اور تنظیم بھی نظر آتے ہیں۔۔ابھی روشنی تھی اسلیۓ ان پر اندھیرا طاری تھآ لیکن جب  یہ روشن ہوتے ہیں تو خوب جگمگاتے ہیں؟ ہاں غور کا مقام یہ ہے  کہ کیا ہماری زندگی میں ان اصولوں کی چنداں اہمیت بھی ہے؟
اسوقت مجھے خواجہ معین آلدین کا لکھا ہوا تعلیم بالغان کا ڈرامہ شدت سے --یاد آیا جسمیں اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم کی درگت بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے-اسوقت عمومی طور پر اگر ہم اپنے ملک اور اسکے حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ قائدکے یہ ذریں اصول ہم نے بچپن سے رٹے توضرور تھے اور جا بجا ہمیں لکھے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، لیکن انکا ہم نے جانے انجانے میں جو حشر کر دیا ہے کہ اپنے آپ سے بھی شرم آتی ہے-سب سے پہلے اتحاد کو لیجئے کہ ہم من حیث ا لقوم کسقدر متحد ہیں ہم مذہبی۔لسانی، علاقائی، رنگ و نسل ، فرقہ وارانہ اور اقتصادی گروہوں میں بری طرح منقسم ہیں- تقسیم محض تقسیم کی حد تک غیر فطری فعل ہرگز نہیں ہے لیکن ہم تو دوسرے گروہ کو برداشت کرنیکو ہرگز تیارہی نہیں ہیں- پورے ملک میں قتل و غارتگری، دھوکے اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے کہیں کس بہانے اور کہیں کس بہانے سے -- روزانہ پورے ملک میں جدال و قتال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے- خود کش دھماکے ، فرقہ وارانہ کشیدگی،انتقامی کار روائیاں جنکی کوئی حد نہیں کوئی انتہا نہیں ہے- میں تو اسقدر مایوس ہوگئی ہوں یا دوسرے الفاظ میں، میرا قلم اس دہشت گردی اور قتل و غارتگری کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے-دہشت گرد اسقدر منظم اور ظالم ہیں کہ پورے ملک کو تخت و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں-جہاں جی چاہتا ہے وہاں آدھمکتے ہیں ۔ملک کے حفاظتی دستے، قانون نافذ کرنے والے ادارے  بسا اوقات بالکل بے بس اور بے دست و پاہ نظر آرہے ہیں- پھر تنظیم اور یقین محکم یا ایمان کا جو حشر ہے کہ خدا کی پناہ -اگر قوت ایمانی ہے تو سادہ لوح اور بے بس عوام میں جو ہر طرح کی صورتحال اور تشدد کے ساتھ جی رہے ہیں اور اس تمام صورتحال کو اپنا مقدر جانکر جینے کی کوشش کر رہے ہیں-
کبھی  کبھی جب کوئی مژدہ جانفزا سننے کو ملتا ہے جیسے کہ کل اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان میٹرو بس کا افتتاح ہوایہ بس اسکا راستہ ، اسکا ٹرمینل دنیا کے جدید ترین مواصلاتی نظام کے تحت بنایا گیا ہے -میں بذات خود اسمیں سفر کروں تو بہتر تبصرہ کر سکونگی --اسکے راستے کی تعمیر کے سلسلے میں مشکلات سے پنڈی اسلام آباد کے رہائشی کافی نالاں تھے اور نواز حکومت پر کافی نکتہ چینی کر تے رہے --میں تو نواز حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی بے حد مداح ہوں ۔اللہ بھلا کرے اس موٹروے کی تعمیر سے کیا مثبت تبدیلی آئی ہے- اس سے پیشتر گوادر سے لیکر خنجراب  تک اقتصادی شاہراہ کی تعمیر انشاءاللہ پاکستان کی ترقی میں ایک نیا باب رقم کریگی- چند تنگ نظر سیاستدان اس پر مؑعترض ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارا پڑوسی ملک بھارت جو چین پاک تعلقات اور پاکستان کی ترقی سے خایف رہتا ہے-- اس سے پہلے ایک ایکسپریس ٹرین کا اسلام آباد تا کراچی افتتاح ہوا باقی تمام سہولتوں کے ساتھ ٹرین پر مفت وائی فائی کی سہولت ہے جو میرے جیسوں کے لئے اشد ضروری ہے-
آجکل پاکستانی کبوتر کی بھارت میں گرفتاری پر سوشل میڈیا میں ایک غلغلہ مچا ہواہے --اس جدید ترین مواصلاتی دور میں کبوتری انحصار دلچسپ تجربہ ہے -شاید کسی دل جلے نے اپنے محبوب کو پیغام بھیجا ہو پہلے تو ہم لفافوں کے اوپر لکھتے تھے ۔۔
چلا چل لفافے کبوتر کی چال
محبت جو ہوگی تو دیگی یا دیگا جواب
اب اس بیچارے کبوتر کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا   یہ تو آنیوالا وقت ہی ؟بتائے گا -
ایسے ماحول میں جہاں آئے دن کی قتل و غارتگری کی خبریں دہلا اور لرزا دیتی ہیں اس قسم کی خبریں آب حیات کا درجہ رکھتی ہیں
ایک کمپنی ایگزیکٹ ، اسکے ٹی وی چینل بول کا بہت بول بولا ہوا - کچھ تفصیلات جانیں تو گھپلوں اور دھاندلیو ں کا کمال ہے خود بھی مالا مال ہوئے اور ہزاروں کو گھر بیٹھے بیٹھے اونچی اونچی ڈگریوں سے مالا مال کیا --یونیورسٹیوں کے وہ اعلے اعلے نام وضع کئے ہیں کہ امریکہ والوں کو بھی خوب جچ رہے ہونگے یا انہوں نے خواب و خیال میں بھی نہ سوچے ہونگے  -وہ تو بھلا ہو نیویارک ٹایمز کا کہ اس گورکھ دھندے سے پردہ اٹھایا -- اب دیکھنا یہ ہے کہ کن پردہ نشینوں کے نام سامنے آتے ہیں  یا بیچارہ شعیب اور اسکے ساتھی سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کرینگے -- زیر لب تو بہت کچھ کہا جا رہا ہے لیکن باآواز بلند سب خاموش ہیں-ارے ملک کے وہ بلند و بالا جاسوسی ادارے ؟؟  اور پھر ایک ایان علی بھی ہیں جو جیل اور عدالت میں اپنے جلوے دکھارہی ہیں-
اگر پچھلےچند دنوں کا جائیزہ لیں تو کیا کچھ نہیں ہوامستونگ بس حملے  میں 20 سے زیادہ ہلاکتیں ،کراچی کے صفورا گوٹھ میں  اسماعیلیوں کی بس پر حملہ 45  معصوم مرد ،عورتوں اور بچوں کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔۔ انکا قصور کیا اسماعیلی ہونا تھا ۔۔ بندوق کی گولیاں قصور نہیں د یکھتیں چشم زدن میں جانیں تلف کرتی ہیں جب بھی کوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے حکومتی اور انتظامی مشنری حرکت میں آہی جاتی ہے اس سے پہلے کراچی میں سبین محمود کا قتل ایک مشہور شخصیت کا قتل تھا ورنہ کراچی کی قتل گاہ کی بھینٹ آئے دن کوئی نہ کوئی چڑھتا رہتا ہے اور پولیس والوں کا قتل تو روزمرہ کا واقعہ ہے ؐیں تو ان بچاروں کو سڑک پر دیکھتی ہوں تو یہی خیال آتا ہے کہ بیچارہ شام کو گھر حفاظت سے جائے ۔ کریم آغا خان ،اسماعیلی برادری اور پاکستان کے پرامن عوام اس قتل و غارت گری پر سراپا احتجاج بن گئے ۔ چیف آف آرمی اسٹاف ، وزیر اعظم سب کراچی پہنچے پہلا الزام را پر لگایا ایم کیو ایم بھی ملوث کی گئی ( یوں بھی ایم کیو ایم کے کردہ گناہ بے حساب ہیں ) لیکن ۔اب جو گرفتاریاں ہوئی ہیں تو ہوش اڑانے کو کافی ہیں نیک ، پارسا اچھے گھروں کے اعلے تعلیم یافتہ بچے ان جرائم میں ملو ث پائے گئے کیا ملک کا دانشور طبقہ اسکی تحقیقا ت کرنیسے قاصر ہے کہ ان بچوں نے یہ انتہا پسندانہ وحشت ناک اقدامات کیو ں کئے-
انکے اہل خانہ کے لئے یہ صدمہ زندہ درگور کرنیکو کافی ہوگا--

آج اس چوکی پر اتنے اہلکار اور اتنے شدت پسند ہلاک ہوئے" - میں نے خبریں سننی ہی چھوڑ دی ہیں - میں سنوں یا نہ سنوں اس تمام صورتحال میں میری اس مملکت خدادا د میں قاید کے اقوال کی کون پرواہ کرتا ہے جہاں پوری قوم اس میں الجھی ہوئی ہو کہ بجلی آئی، بجلی گئی - میں پچھلے کئی سال سے مسلسل خوشگوار موسم بہار میں آتی ہوں اور اذیت ناک گرمیاں جھیلتی ہوں الحمدللہ کہ اس مرتبہ موسم ابھی تک خوشگوار ہے ،ذراسی گرمی ہویئ ابر آیا برسا اور ٹھنڈک ہوگئ-اللہ سے دعا ہے کہ رمضان المبارک اسی طرح گزرے-

قدرتی گیس سی این جی رفتہ رفتہ بند ہی ہوگئی  کتنون نے اپنی گاڑیوں میں اسکا خصوصی کٹ لگوایا تھا -

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی -

ہم بات کر رہے تھے قائد کے ذرٰیں اصولوں کی-تنظیم، نظم ، ڈسپلن اس لفظ کو رفتہ رفتہ ہم اپنی لغت سے خارج کرتے جارہے ہیں - بھئی یہ اصطلاح تومسلح افواج پر جچتی ہے یا ترقی یافتہ ممالک پر ، ہم تو اس سے مبراء ہیں اور جسقدر بد نظمی اور افرا تفری پھیلا سکیں آخر کو ایک آزاد قوم ہیں - پچھلے ہفتے ایک بڑے ہوٹل میں یوم تکبیر پر پروگرام  اور کھانا تھا - ملک کے جغادری رہنما اور مقرر تھے - بعد میں کھانے پر جو لوٹ مار مچی اور جو افرا تفری اور بدنظمی نظر آئی کہ خدا کی پناہ -
نظم و ضبط کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اور یہ مظاہرہ اکثر و بیشتر نظر آتا ہے - شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جیسے کہ کئی روز کے فاقہ زدگان کا اجتماع ہو- ایک جگہ مجھے بطور خاص مدعو کیا گیا - تقریب کے اختتام پر میں نماز کی ادائیگی کے لئے کھڑی ہوگئی - واپسی پر خالی چائے کے تھرموس اور پلیٹیں میرا منہ چڑا رہے تھےیہی لوگ مغربی ممالک میں قطار در قطار کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں تو پھر اپنے ملک میں یہ بے صبری اور بد نظمی کیوں؟ اور پھر جسقدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے خدا کی پناہ -
اور ہماری مرضی جس طرح رہیں سب سے پہلے گندگی اور غلاظت ، اپنے گھروں کو صاف کرکے کوڑا باہر پھینکنا یا پھیلانا ،جابجا کوڑا گندگی توڑ پھوڑ،افرا تفری ہمارا قومی شعار ہے- فقیروں اور ہیجڑوں کی فوج ظفرموج ٹولیوں میں بھیک مانگتی نظر آتی ہے معذور اور اپاہج تو ایک جانب صحتمند ، ہاتھ پاؤن سے سلامت پورے پورے خاندان کے ساتھ بھیک مانگ رہے ہیں -یہ کون ہیں کہاں سے آتے ہیں اور ان تمام فلاح معاشرہ کی تنظیموں میں کوئی انکا پرسان حال نہیں ہے
لیکن قاید کے ذریں اصولوں کو شائد ہم کبھی تو سمجھ ہی لیں گے- ابھی تو صرف 68 سال ہونیکو جارہے ہیں--
اے  میرے پیارے وطن پاک وطن پاک وطن اے میرے پیارے وطن









No comments:

Post a Comment