Sunday, April 26, 2015

The importance of family ties!

The importance of family/relatives in today's world - By : Abida Rahmani

imageThe family, which is the basic unit of civilization, is now disintegrating. Islam’s family system brings the rights of the husband, wife, children, and relatives into a fine equilibrium. It nourishes unselfish behavior, generosity, and love in the framework of a well-organized family system. The peace and security offered by a stable family unit is greatly valued, and it is seen as essential for the spiritual and emotional growth of its members. A harmonious social order is created by the existence of extended families and by treasuring children.

Human being is socially bonded to many relations. First of all there are blood relations, from whom you are born or who are born from you. One of the most important bondage or relation is that of a husband and wife or spouses. Then it goes on with kinship to different levels and categories.

A family bondage is very important for the wellbeing or nurturing of a person and it’s a great trial or impossible to survive without those family ties. These family ties are adorable but trying too at certain times. One badly needs a family or relatives support in hard, trying and sensitive times. Their consolation and moral support helps a lot in building up the self-esteem and handle the grief and pain.

In Islam respect of elders and to be kind and loving with Youngers is a great part of religion. Respect for others shows great amounts of self-esteem to them. It is interesting to see how a child-orientated and religious orientated culture operates. Sacrificing own whims and desires for the benefit of family is a great part of Islamic society.

Individuals comprising any society are tied together by related group bonds. The strongest of all societal bonds is that of the family. And while it can be justifiably argued that the basic family unit is the foundation of any given human society, this holds particularly true for Muslims. As a matter of fact, the great status that Islam affords to the family system is the most important factor that so often attracts many new converts to Islam, particularly women. Family values play an integral role in the formation of Muslim society.

So, what are the particular values or traits of Islamic family life that so many are finding so appealing? 

One can see that family values in Islam are one of its major attractions. These values stem from God and His guidance, through the Quran and the example and teaching of His Messenger, Muhammad, may the mercy and blessings of God upon him, who indicates the family unit as being one of the mainstays of religion and Islamic way of life. The importance of forming a family is underscored by a saying of the holy Prophet himself, who said:
“When a man marries, he has fulfilled half of his religion, so let him fear God regarding the remaining half. (al-Baihaqi)

The Family is a part of the Islamic social order. The society that Islam wants to establish is a clean pure society. It establishes an ideological society, with a high level of moral awareness, strong commitment, attitude and fulfillment of an amazing human behavior. Its discipline is not an imposed discipline, but one that flows out of every individual's commitment to the values and ideals of Islam. In this society a high degree of social responsibility prevails. The entire system operates in a way that strengthens and fortifies the family and not otherwise.
Thus we can truly claim that family relations are the back bone of Muslim society, which protect it from many evils.

A strong family is a great asset to value.


Saturday, April 25, 2015

ادھار

ادھار
حقیقت پر مبنی کہانی

عابدہ رحمانی


میں لاہور میں تھی کہ اسکا ٹیکسٹ (ایس ایم ایس )آیا ۔۔ "میری بیوی کی زچگی ہونیوالی ہے میں اسے فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال میں داخل کرنے آیا ہوں ۔۔ میرا ہاتھ بہت تنگ ہے بلکہ تہی دست ہوں ۔ آپ میری مدد کریں میں چند روز میں آپکو لازمی واپس لوٹا دونگا۔۔
مجھے اس بات سے کافی اچنبھا سا ہوا وہ میرا  پراپرٹی ڈیلر تھا ۔اسکے ذریعے میں نے دو سودے کروائے تھے اسنے اپنی کمیشن لی اور بات ختم ہوگئی۔۔میرا اس سے عرصہ دراز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستان آمد پر ایک اور ایجنٹ سے اسکا نمبر مانگا اور یوں میرا دوبارہ رابطہ ہوا وہ بھی ایک زمین کی قیمت کی تحقیق کے سلسلے میں ۔
میں نے اپنے بھائی کو اس قصے کا بتایا تو وہ اسے ایک جعل سازی سمجھے ۔۔ شمالی آ مریکہ میں اس قسم کے قصے انٹر نیٹ اور فون پر آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔۔ پھر بھی میں نے اسے جواب دیا کہ میں لاہور میں ہوں اور تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہوں ۔۔ چند روز بعد از راہ ہمدردی میں نے اسے ٹیکسٹ کیا " تمہاری بیوی کی طبیعت اب کیسی ہے؟
میرا بچہ پیدا ہوا تھا لیکن فوت ہو گیا اور میں بیوی کو لیکر ملتان اپنے والدین کے پاس آگیا ہوں ۔۔"
مجھے کافی افسوس ہوا اور اس سے دریافت کیا کہ اسکے اور کتنے بچے ہیں؟
جی میرے دو اور بچے ہیں ۔
میں نے ان بچوں کے لئے دعائیں لکھیں۔۔
چند روز بعد اسکا فون ایا ،کیا آپ واپس آگئی ہیں ؟
میرا جواب سنکر وہ مجھے مختلف سودے دکھانے کی بات کرنے لگا ۔وہ بات چیت میں کافی نارمل لگ رہا تھا ۔میں نے بھی اسکا دکھ بڑھانے کی کوئی  بات نہ کی۔۔
دوپہر کو میں لیٹی تھی کہ اسکا فون آیا ۔۔ میں بہت پریشانی میں ہوں خدا کیلئے مجھے پانچ ہزار عنایت کریں میں نے ایک مکان کرائے پر لگایا ہے پرسوں لازمی مجھے کمیشن مل جائیگا اور میں آپکے مطالبے سے پہلے ہی ادائیگی کر دونگا ۔۔
مجھے اسکی یہ بات بہت عجیب لگی ۔۔" تمہارا اور میرا کاروباری تعلق ہے اور اس طرح کی باتیں اسمیں ہرگز زیب نہیں دیتیں ۔۔تم اپنے کسی دوست یا ساتھی سے کیوں نہیں مانگتے؟
جی ان سے بھی مانگتا ہوں ابھی کوئی دینے پر تیار نہیں ہے ۔۔
اسکی یہ صاف گوئی مجھے بری طرح کھٹکی۔۔"جی میں بہت مجبور ہوں اگر اسوقت آپ میری مدد کریں تو میں ہمیشہ یا د رکھو ں گا اللہ آپکو اسکا اجر دے گا۔۔ نہ جانے کیوں میں اسکی باتوں سے پسیج سی گئی۔۔ اچھا اب تو میں لیٹی ہوئی ہوں تم پانچ بجے آنا۔
ٹھیک پانچ بجے فون کی گھنٹی بجی وہ باہر دروازے پر موجود تھا ۔۔ ایسا کرو میں تمہیں چیک دے دیتی ہوں میں نے اسے فون پر ہی کہا۔۔ جی آب تو بنک بند ہو چکے ہیں اگر کیش دے دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔۔ میں نے بٹوے کی تلاشی لی تو پانچ ہزار نکل آئے۔۔میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ پیسے واپس نہیں ملنے اور اگر نہیں ملتے تو زکوُٰةکی نیت سے دے دو۔۔
رقم لے کر میں گیٹ پر گئی تو اس سمارٹ ،خوش لباس نوجوان کی جگہ ایک نحیف و نزار شخص میلے کچیلے حلیے میں کھڑا تھا ۔۔زرد آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ،پاؤں میں ایک پرانی سی سینڈل ۔۔ اسے دیکھ کر مجھے عجیب دھچکا سا لگا۔۔
اسنے مجھے ایک للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔۔" یہ تمہارا کیا حلیہ بنا ہے کیا تم نشہ کرنے لگے ہو" ؟نہیں جی میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور پھر کاروبار ماندہ ہوگیا۔ وہ کچھ عجیب سے انداز سے کہنے لگا۔۔اور تمہاری فیملی؟
باپ تو فوت ہو گیا ہے ، ما ں جی ٹین میں رہتی ہے" اور بیوی بچے ؟ اپنی ماں کے گھر ہیں جی لے کے آؤنگا -وہ بالکل بھول چکا تھا کہ چند روز پہلے  اسنےمجھے۔کیا د استان سنائی تھی۔۔
 جلدی جلدی وہ مجھے ایک مکان کے بارے میں بتانے لگا اور پھر یہ یقین دہانی کہ وہ میری رقم پرسوں ضرورلوٹا دے گا۔۔میں نے اسے اتنا کہا کہ اگر تم نے یہ رقم مقررہ وقت میں ادا نہیں کی تو آئندہ مجھے اپنی شکل نہیں دکھانا اور نہ ہی کوئی رابطہ رکھنا۔۔
اسکے جانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ مجھے آصف سے جسنے اسکا نمبر دیا تھا پوچھنا چاہئیے ۔۔کہ حقیقت کیا ہے ؟ اسنے میرے خدشات پر مہر تصدیق ثبت کی اور یہ یقین دہانی کہ آپ اس رقم کو بھول جائیں ۔۔ ساتھ ہی اسنے بتایا کہ وہ اسی طرح جھوٹ گھڑ کے لوگوں سے رقم لیتا  رہتا ہے۔ اور پچھلے ایک سال سے اس لت میں مبتلا ہو چکا ہے ۔ کیا اسکا کوئی دوست ،عزیز یا ہمدرد نہیں جو اسکا علاج کرے ۔جو اسکو ذلالت کے اس دلدل سے نکالے ۔؟۔
ایک ہفتہ گزرنے کے بعد میں نے اسے محض آزمانے کے لیئے ٹیکسٹ کیا"تم نے ابھی تک میری رقم واپس نہیں کی؟ 
دو ہفتے گزر چکے ہیں اور وہ خاموش ہے ۔۔
میری قوم کا ایک اور نوجوان اس طرح تباہ ہو رہا ہے ۔۔ افسوس صد افسوس

Saturday, April 4, 2015

لوٹ کے بدھو گھر کو آئے

لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
از

عابدہ رحمانی



بینظیر بھٹو 

ائر پورٹ پر اترتےہی خنک ہوا نے استقبال کیا ۔۔ ائر پورٹ وہی پرانے ڈھب کا۔ لدھے پھندے سیڑھیوں سے نیچے اترے۔۔بس میں بیٹھ کر ٹرمینل آئے ۔۔ کچھا کچھ بھرے ہوئے بوئنگ 777 سے مسافر وں کا انخلاء شروع ہوا ۔۔ایمیگرشن پر مسافر قطار بنا کر کھڑے ہوئے تو منظم ہونے کا احساس ہوا ایک جانب معمر شہریوں اور بچوں والی خواتین کا کاؤنٹر بھی موجود تھا۔ 

میرے استقبال کو آنے والے میرے  عزیز بھائی نے سہولت کے پیش نظر سامان کی وصولی کا اہتمام کیا تھا ۔

میں اس خصوصی سہولت سے گھبرا سی گئی کہ کوئی اور میرا سامان وصول کر کے مجھے پہنچائے ۔کیا کریں کہ ہم ان خصوصی چونچلوں کے عادی ہی نہیں ۔۔سامان لیکر 
باہر نکلے تو مسلح فوجی اور بکتربند گاڑیاں جا بجا مستعد نظر آئیں جنہیں دیکھ کر طبیعت عجیب  پریشان اور افسردہ سی ہو گئی۔  
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  احتیاطی تدابیر نے ملک کو  جنگی حالت میں مبتلا کیا ہوا ہے 

موسم قدرے گیلا اور ٹھنڈا،خشک موسم کے بعد کافی بارشیں ہو چکی ہیں ۔۔ مٹی دھول ،بے ہنگم ٹریفک، ہر جگہ بے پناہ رش ہر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے۔ یہ میرا مادر وطن ہے ۔ میرا موبائل فون کام نہیں کررہا ۔سم بند کر دیا گیا ہے اسے چالو کرنے کیلئے مجھے دفتر جانا ہے کیونکہ پیغام یہی آرہا ہے ۔۔ایک نئی  اصطلاح مجھے پہلی مرتبہ  سنائی دے رہی ہے کہ وہاں  میرا" بائیو میٹرک "چیک کیا جائے گا--
میں اسکا درست ادراک نہیں کر پا رہی ہوں۔۔ دفتر کی کھڑکی پر میرے انگوٹھوں کی لکیروں کو بذریعہ مشین دیکھا جاتا ہے ۔۔ ۔۔ اور پھر مجھے بتایا جاتا ہے کہ میرے انگوٹھوں کے نشان میرے شناختی کارڈ کی نشان سے نہیں ملتے اس کی تشخیص کے لئے مجھے نادرا کے دفتر جانا ہوگا۔۔
پاکستان دہشت گردی کے تناظر میں احتیاطی تدابیر میں  کافی ترقی یافتہ ہوتا جارہاہے

دفتر کے باہر خواتین کی  ایک کھڑ کی ہے میں اسپر جاکر کھڑی ہوں مجھے یہاں سے ٹوکن حاصل کرنا ہے ۔ کھڑکی پر بیٹھی خاتون دوسرے کاموں میں مصروف ہے دروازے پر سے کئی دوسرے لوگ اندر جا جا کر اس سے اپنا کام کروارہے ہیں وہ میری طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی۔۔ میری بے صبری
بڑھی تو گھر فون ملایا مجھے بتایا گیا کہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوگا۔۔ اپکے اس مسئلے کے حل کیلئے ملاقات  کاانتظام کروایا جائے گا۔۔

اگلے روز میرے لئے نادرا کے دفتر میں ملاقات کا انتظام کر دیا گیا ۔ مینیجر پڑھا لکھا آدمی ہے۔مراد یہ کہ شستہ زبان اور شائستگی سے اسکے ادبی اور با ادبی ہونیکا اظہار ہو رہا ہے۔

یہ نیا شناختی کارڈ سمارٹ کارڈ کہلائے گا اسپر ایک چپ بھی نصب ہوگی کمپیوٹر پر میرے اگلے پچھلے کوائف سامنے آگئے اور اسطرح مجھے اپنے دونوں کارڈوں کو یکجا کرنا پڑا۔۔

اس مسئلے سے فراغت پاتے ہی پشاور روانگی ہو ئی جسے دنیا کا خطرناک ترین شہر قرار دیا جاتا ہے  

وہاں پر زندگی پوری طرح رواں دواں ،چہل پہل ، رونق ,گہما گہمی کہیں بھی کسی دہشت گردی کا پرتو نظر نہیں آتا لیکن سڑک سے گزرتے ہوئے اچانک آرمی پبلک اسکول دکھائی    دیا جسے حال ہی میں بد ترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔ دیواروں پر چاروں جانب خاردار ،تیز دھار تار لپٹے ہوئے ہیں اس سانحے نے تو پوری قوم کو دہلا دیا اور قوم دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہوئی۔۔ پھر جا بجا شہداء کے نام کی سڑکیں ۔ بینرز اور چوک ۔صفوت غیور چوک سے گزرتے ہوئے دیگر خونریزی کے مقامات بھی مختلف ناموں سے نظر آئے ۔ آرمی پبلک اسکول کی خوںریز داستانیں ہر ایک کی زبان پر تھیں کہ کیسے اسکول کے اندر کینٹین میں اسلحہ رکھا گیا اور مخبری کی گئی ۔ جب تک معاونت اور آلہ کاری نہ ہو اس طرح کا خونریز معرکہ باآسانی طے نہیں پاتا۔ لواحقین اور طلباء کی دلجوئی مختلف طریقوں سے جاری تھی ۔۔ شہدا اور زخمیوں کے والدین کو عمرے کیلئے لے جایا گیا   انکے ساتھ وہ زخمی بھی تھے جو صحتیاب ہو چکے تھے۔۔ شدید زخمیوں کو علاج کیلئے سرکاری اور فلاحی اداروں کے اخراجات پر بیرون ملک بہتر علاج کیلئے بھیجا گیا ہے۔ میرے ایک قریبی عزیز کا بیٹا جسکو اللہ نے محفوظ رکھا تھا چین کی دعوت پر اسکول کے ایک گروپ کے ہمراہ اپنے والد کے ساتھ چین اور ہانگ کانگ کی سیر کو گیا تھا

۔پشاور میں منعقدہ شادیوں میں  رونق اپنے عروج پرتھی ۔میرے میزبانوں نے خاطر داری میں کوئی کسر نہ چھوڑی چرسی کے تکے ،بوٹی ،کڑھائی ،باربی کیو مچھلی، دم پخت ، دیگی اور نہ جانے کیا کیا۔۔

اور پھراپنے ایک نادیدہ بزرگ و شفیق، برقی قلمی دوست اور انکی اہلیہ سے ملاقات اس دورے کا ما حاصل تھی۔۔۔

۔

 اسوقت وطن عزیز میں یوم جمہوریہ پاکستان کی کامیاب پریڈ کی گھن گرج جاری ہے۔۔      ۲۳ مارچ کی اس پریڈ کی زور شور سے  تیاریاں دیکھنے کا موقع ملا پہلے اسکی فل ڈریس ریہرسل دیکھنےکی سعادت ملی جو اس پوری پریڈ پر مشتمل تھی ۔۔ جوش و جذبوں اور امنگوں پر مشتمل یہ پریڈ پاکستان کی مسلح افواج کی شاندار کارکردگی اور ترقی کی آئینہ دار تھی۔پاکستان ائر فورس کی شاندار کارکردگی ، کرتب اور مہارت لاجواب تھی ۔۔سب سے لاجواب تو ڈرون طیارے تھے جنمیں پاکستان خود کفیل ہو گیا ہے ۔۔ مسلسل دہشت گردی کی وجہ سے یہ پریڈ عرصہ سات سال کے بعد ہو ئی ہے ۔۔ اسکے لئے حد درجہ حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔۔ بعد اآذاں 23مارچ کو دوبارہ اصلی پریڈ کو اصلی وزیراعظم ، صدر پاکستان اور دیگر عمائدین کے ہمراہ دیکھنے کا موقع ملا۔۔۔مسلح افواج میں خواتین کے دستے کی شمولیت پاکستانی خواتین کی نمائندہ ہے اس سے پہلے طبی شعبے میں خواتین شامل تھیں اب خواتین کا ملٹری کور ہے اور ائر فورس میں بطور پائلٹ کام کر رہی ہیں ۔۔ یہ خواتین حجاب پہنے ہوئے مناسب باپردہ وردی میں ملبوس تھیں  ۔۔

پاکستان اور پاکستانی اپنی مسلح افواج اور حربی صلاحیتو ں کے عموماً معترف ہوتے ہیں اور اپنی مسلح افواج پرناز کرتے ہیں ۔۔

اس پریڈ کے کامیاب انعقاد سے عوام میں حد درجہ اعتماد بحال ہوا ہے ۔۔

اس تمام شدت پسندی کے باوجود ترقیاتی منصوبے اور کام زور و شور سے جاری ہیں ۔راولپنڈی اسلام اباد میں میٹرو بس سروس کی بالائی گزگاہ تیار ہو رہی ہے اسکے لئے شہر کو کھود کر رکھ دیا گیا ہے ابھی کافی کام ہونآ باقی ہے۔ موسم بہار کاحسن اس دھول مٹی کے ساتھ شباب پر ہے جابجا پھولوں کے رنگ بکھرے پڑے ہیں ۔۔ایک سے ایک بڑھ کردکانیں ،خوشنما مال ،دیدہ زیب ملبوسات اور زیورات اعلی قسم کی طعام گاہیں (ریسٹورنٹ ) ان سب کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی پسماندگی کا احساس نہیں ہوتا۔۔ لیکن ہر اسٹاف پر پیشہ ور فقیروں ، ہیجڑوں ،اپاہجوںاور بچوں کو مانگتے ہوئے دیکھ کر ایک اور دنیا دکھائی دیتی ہے۔۔

لاہور کیلئے ڈائیو بس کی بس اور اسکی سروس انتہائی بہترین تھی۔۔ یہ پریمیم بس تھی کٹتی ملتی وائی فائی کی سہولت سے آحساس ہو رہا تھا کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں دنیا کے بڑے بڑے ہوائی جہازوں میں اگر یہ سہولت ہے تو پاکستان کی بس میں بھی ہے۔۔ برابر کی سیٹ پر براجماں خاتون مجھے آگاہ کرتی۔ ابھی آرہی ہے ابھی بند ہے۔۔۔ !

لاہور کی شاندار سڑکوں نے ماسوائے چند علاقوں کے دل موہ لیا ۔۔کشادہ چار چار لین کی یکطرفہ انتہائی عمدہ بنی ہوئی سڑک اسکے ساتھ عمدہ ٹائلوں کی فٹ پاتھ سائیکل کی لین ، بین الاقوامی معیار کی  جسکے بیچوں بیچ سر سبز و شاداب گل و گلزار چوڑی  پٹی انتہائی دلکش اور دیدہ زیب تھی۔۔، شریف برادراں ملک کی انفرا سٹرکچر کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں ۔۔ لاہور میں اسوقت بہترین موسم ہے خوشنما پھولوں سے کیا ریا ں بھری ہوئی ہیں ۔لاہور میں بہت ہی پیار بھرے نئے تعلقات استوار ہوئے ۔اور خوب خاطریں ہوئیں ایک  عزیز کی شادی میں وقت کی پابندی ،کھانے میں ایک ڈِش یعنی چاول ،ایک سالن،روٹی ایک میٹھا خوب لگا اور سب سے زبردست یہ کہ ٹھیک دس بجے ہال کی بتیاں بجھنے لگیں اور رخصتی ہو گئی کراچی میں تو یہ حال تھا کہ برات رات کو بارہ ایک بجے روانہ ہوتی تھی ۔۔نہ جانے وہاں بھی کچھ سدھار  آیا ہے ؟۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری ہے۔۔ پاکستان تحریک انصاف نے عزیز آباد میں جناح گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں ۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔۔ ہماری تو بس یہی دعا ہے کہ اس ملک اور اسکے خلاف کام کرنیوالے راندہ درگاہ ہو جائیں اور ملک اور عوام چین اور سکھ کا سانس لیں ۔اور چین کی بانسری بجائیں۔