Saturday, October 18, 2014

دل کی بیماریاں

دل کی بیماریاں از عابدہ رحمانی

آج کل کے زمانے میں جب کہ ہر طرف دل کی بیماریوں کا تذکرہ ہے اوراس کے علاج معالجے میں نت نئی تحقیقات ہو رہی ہیں آئیے۔
ہم یہ دیکھیں کہ دینی اصطلاح میں دل کن بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ حضوراکرمﷺ کا ارشا دہے۔ ’’آگاہ ہو جاؤ کہ سینے میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب یہ تندرست ہو تو تمام بدن تندرست رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی و فساد پیدا ہو جائے تو سارے جسم میں خرابی و فساد پیدا ہو جاتا ہے۔
دل کی بیماریوں سے مراد تکبر، ریا، غصہ، بغض، حسد، کینہ، منافقت یہ  بیماریاںانسانی اخلاق و کردار کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔
اَبیٰ وَ ستکَبرَ
(1 غرور و تکبر ابلیس کی سرشت ہے۔ اس نے ان کار کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ غرور کا مطلب دھوکا، تکبر کا برائی، تفاخر جتانا اور دوسروں کو حقیر جاننا۔
(2 ابلیس کے تکبر کی بنیاد یہ کہ وہ آگ سے اور آدم مٹی سے ہیں۔
(3 تکبر اور کبریائی صرف اللہ کے لیے ہے ہم کہتے ہیں اللہ اکبر۔
(4 تکبر کن باتوں پر(الف)حسب و نسب(ب) مال و دولت و اولاد کے لحاظ سے (ج) خوشحالی کے لحاظ سے (د) خوش شکلی کے لحاظ سے (ر) تقویٰ دینداری و علم یہ تمام عطیہ خداوندی ہیں اور اس ذات کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔
(5 حسب ، نسب، مرتبہ۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اِنَّ اَکرَمَکُم عنداللہِ اَتقاکُم۔
(6 مال و دولت اور اولاد کے لیے قرآن میں ارشاد ہے۔
اَلمالُ و البُنُون زینتَ الحیوٰۃ الدین و الباقیات الصالحات خیر عِندَربک ثَواباًو خیرامَلَا۔
مال اور اولاد دنیا کی رونق ہیں۔ باقی رہنے والے تو نیک اعمال ہیں۔ وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب اور امید کے لحاظ سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔
(6 دنیا کی زندگی کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے۔
وما الحیٰوۃ الدنیا اَلاَّ متاع الغرورْ
دنیا کی زندگی دھوکے کے سرمائے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
(7 غرور کے معنی دھوکے کے ہیں اور اس طرح ہم اپنی برائی جتلا کر دوسروں کو حقیر جان کر اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں۔اللہ جب چاہے تو یہ سارے عطیے ہم سے چھین سکتا ہے۔ وہی عزت دینے والا ہے، وہی ذلت دینے والا ہے، وتعزمن تشاء وتُذِلُ مَن تشاء۔
(8 شکل وصورت بھی اللہ کی عطا کردہ ہے اس نے کسی کا رنگ گورا بنایا تو کسی کا کالا، کوئی پیلا ہے تو کوئی بھورا، کسی کا ناک نقشہ کیسا ہے اور کوئی کیسا، کسی کو جسمانی معذوری دی ہے اور کوئی ذہنی معذور ہے۔ اپنے حسن پر ناز کرنا بھی غرور وتکبر کی نشانی ہے۔ حجتہ الوداع کے خطبے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کسی عربی کو عجمی پرعربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی ، گورے کو کالے پر اورکالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اگر فضیلت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر۔
(9 دینداری پر غرور۔ اب جو لوگ اپنی زندگیوں میں نیک اور عمل صالح کر رہے ہیں وہ اس بناء پر غرور کے پندار میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم تو نیک ہیں اچھے ہیں باقی لوگ بے حد خراب ہیں اور اس بناء پر دوسروں کو کم تر و حقیر جانیں یہ طریقہ بھی اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ حضوراکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ نہ تو میرا عمل مجھے جنت میں لے جائے گا اور جہنم سے بچا سکے گا اورنہ تمہارا مگر اللہ کے فضل و کرم سے۔ اس لیے اللہ کا خوف اور اس سے امید رکھنی چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا جس کے دل میں رائی برابر بھی غرور ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گ
غصہ:-
دل کی بیماریوں میں غصہ کی حیثیت کافی اہم ہے۔ روحانی لحاظ کے علاوہ طبی لحاظ سے بھی غصہ ہماری صحت اورخصوصاً صحت قلب کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں یہ اہم ہے ۔ والکاظمین الغیض۔ اور جو غصے کو پی جاتے ہیں۔
غصے کے عالم میں انسان اپنے آپے سے باہر ہو جاتا ہے اس لیے حضورﷺکی حدیث ہے کہ کسی شخص کو پچھاڑنے سے آدمی پہلوان نہیں ہوتا بہادر وہ ہے جو غصے میں اپنے نفس کو پچھاڑ دے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے نصیحت کیجیے۔
آپﷺ نے فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو ۔آپ ﷺ سے اس نے پھر پوچھا تو آپﷺ نے یہی جواب دیا۔
غصے کے عالم میں انسان کو اپنی زبان پر اختیار نہیں رہتا۔ گالی گلوچ، بدزبانی، لعن طعن حتیٰ کہ مارپیٹ کی نوبت آجاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ غصے کی حالت میں مسلمان بھائی آپس میں دست و گریباں ہیں بات بے بات اسلحہ کا استعمال ہوتا ہے اور معمولی معمولی باتوں پر قتل و غارت گری ہو رہی ہے۔ روزانہ اخبارات اس قسم کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں پھر غصے کے عالم میں انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں جس سے انسان حیوان کا روپ دھار لیتا ہے۔
البتہ خلاف شرع باتوں پر ناجائز افعال پر اور دین کی ہتک پر غصہ اور ناگواری لازم ہے۔ غصے کو اپنے تابع کرنے کے بعد ایسا کر دیا جیسا کہ شکاری کتا ہوتا ہے کہ جب مالک کہے تو وہ اپنے شکار کے پیچھے بھاگے اورحملہ کرے ورنہ خاموش بیٹھا رہے۔غصہ برداشت کرنے کی ایسی ترکیب ہونی چاہیے کہ نفس کی باگ قابو میں ہو۔ حلم و برداشت کی عادت ہواپنے _____ کی نافرمانی پر غصہ۔۔۔پھر جس کی کسی بات پر غصہ آ جائے تو یہ سوچا جائے کہ میرا اس پر کیا حق ہے اور اللہ کا مجھ پر کیا حق ہے پھر یہ کہ میں اس کا مالک نہیں، خالق نہیں، اس کورزق نہیں دیتا، اس کی زندگی اللہ کی عطا کردہ ہے۔ پھر یہ کہ میں خود اپنے مالک حقیقی کی کتنی نافرمانیاں کرتا ہوں، بیسیوں خطائیں مجھ سے سرزد ہوتی ہیں جب وہ سب برداشت کرتا ہے تو میری یہ حالت کیوں ہے کہ ذرا سی بات مزاج کے خلاف ہو تو میں اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہوں پھر جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت سلیمان بن اوس ۔۔۔بیان کرتے ہیں کہ میں رسول ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ دو آدمی باہم گالی گلوچ کرنے لگے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا گلے کی رگیں تَن گئیں تو رسولﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک کلمہ معلوم ہے اگر یہ شخص اسے کہ لے تو اس کی یہ حالت جاتی رہے۔ اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔
اس پر صحابہ نے اسے کہا کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لے تو وہ کہنے لگا"کیامجھے جنون ہو گیا ہے؟"
اس لیے جب غصہ بہت آئے تو اعوذباللہ پڑھ لینا چاہیے کیونکہ غصہ شیطانی اثر ہے۔شیطان کے شر سے جب پناہ مانگی جائے تو اثر زائل ہو جاتا ہے۔
دوسری حدیث میں رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں کھڑا ہونے کی حالت میں غصہ آئے تو بیٹھ جاؤ، اور بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ اور اس سے بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو وضو کر کے اپنا گال زمین پر رکھ دو۔ حدیث میں آیا ہے ’’اللہ کے نزدیک سب سے بہتر گھونٹ جو مسلمان پیتا ہے غصے کا گھونٹ ہے۔‘‘
رسولﷺ فرماتے ہیں کہ جس مسلمان کو اپنی بیوی، بچوں یا ایسے لوگوں پر غصہ آیا جن پر اپنا غصہ جاری رکھ سکتا ہے اور وہ اس کو ضبط کر لے یا تحمل سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اس کا قلب امن و ایمان سے لبریز فرما دے گا۔
بدگمانی:-
دلوں میں فساد ڈالنے کا ایک بڑا سبب بدگمانی بھی ہے۔ بدگمانی یہ کہ بغیر کسی ثبوت اور مضبوط بنیاد کے دوسروں کے بارے میں بدگمانی کی جائے کہ اس نے یوں کیا ہو گا تو اس کا یہ مطلب ہو گا۔ بہت سے جھگڑے فساد محض غلط فہمی اور بدگمانی کی بناء پر ہوت ہیں۔ آج کل انگریزی میں اس قسم کے شخص کو جو ہر ایک سے برا گمان رکھتا ہو اور ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھتا ہو۔ Paranoidکہا جاتا ہے اور یہ ایک نفسیاتی بیماری بھی کہلاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بچو بدگمانی سے کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ اور کرید نہ کیا کرو اور ٹوہ میں نہ رہا کرو اور باہم ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھا کرو اور کوئی شخص بھائی کی منگنی پر منگنی کا پیغام نہ بھیجے یہاں تک کہ وہ نکاح کرے یا چھوڑ دے۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں جب حضوؐر مسجد نبوی میں معتکف تھے تو وہ آپﷺ سے ملنے آئیں جب وہ واپس جانے لگیں تو رسول ﷺ بھی آپ کوچھوڑنے کے لیے اٹھے۔ اسی دوران میں انصار میں سے دو مرد گزرے انہوں نے رسولﷺ کو سلام کیا۔
نبی کریمﷺ نے ان سے کہا" یہ میری بیوی صفیہ ہیں۔"

ا

No comments:

Post a Comment