Saturday, September 20, 2014

صبح نو کا آغاز

صبح نو کا آغاز

عابدہ رحمانی

علی الصبح میری کھڑکی کے باہر ایک پرندے کی سریلی مدھر آواز فجر کے وقت میرے کانوں میں رس گھولتی ہے یوں لگتا ہے اسکی  یہ مدھر چہچہاہٹ ، یہ نغمگی میرے لئے فجر کی نماز کا آلارم ہے-
- وہ پرندہ کیسا ہے اسکی شکل کیسی ہے اسکا نام کیا ہے اس خطہ ارض کے بیشتر پرندوں کے ناموں سے میں ناواقف ہوں -مجھے یقین ہے کہ ا پنی آواز کی طرح وہ پرندہ بھی یقینا خوبصورت ہوگا-میں نے ایک دو مرتبہ جھانک کر اسے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے دکھائی نہ دیا پو پھٹتے ہی وہ اڑ چکا ہوتا ہے ہمارے اسلامی عقائد کے مطابق تمام چرند پرند علی الصبح اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں --سبحان اللہ !
 اسی کھڑکی سے اکثر رات کو سکنک skunk کی تیز بدبو میری نیند میں بری طرح مخل ہوتی ہے - اب موسم اتنا اچھا ہو تو جی چاہتا ہے کہ کھڑکی سے تازہ خنک ہوا آئے لیکن اسی کے ساتھ یہ بدبو اور پھریہ مدھر سریلی آواز-- اب آپ کہینگے کہ یہ سکنک کیا ہے ؟ میں یہاں اکثر جب رات کو نکلتی تھی تو ایک عجیب طرح کی بدبو سے اکثر واسطہ پڑتا تھا -ایک مرتبہ میں نے  پوچھ ہی لیا کہ یہاں کے پودوں سے رات کو بدبو کیوں آتی ہے ؟ جسپر معلوم ہوا کہ یہ سکنک کے اسپرے کی بدبو ہے - یہ جانور دیکھنے میں کافی خوبصورت ہے کالا اور سفید دھاریوں والا، لیکن قدرت نے اسے اپنے بچاؤ کیلیے ایک بدبودار مادے کی سپرے سے لیس کیا ہے --اور یہ بدبودار مادہ اگر کسی کو چھو جائے تو اسکو ٹماٹر کیچپ ملکر غسل کرنا پڑتا ہے ورنہ بدبو جاتی ہی نہیں-ہر خطے کے اپنے طور طریقے ہیں- ابھی کل ہی خبروں میں آیا کہ ریکون rakoon کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے-- معصوم سے چہرے گول گول آنکھوں والا یہ جانور ایک کوڑا خور جانور ہے آبادی کے اندر پورا خاندان ٹولیوں کی شکل میں گھومتا ہے-بعض اوقات تو گھروں کے اندر ہی کوئی کونا کدرا ڈھونڈھ کر ٹھکانہ بنا لیتا ہے -عموما یہ رات کو نکلنے والے جانور ہیں لیکن دن میں بھی اکثر نظر آئے -ایک مرتبہ میں نے بڑے چاؤ سے سبزیاں کاشت کیں جب ٹماٹر ، گوبھی ، بروکلی اور بھٹے تیار ہونے لگے تو ریکون کوخبر ملی اور انہوں نے اسکی خوب خبر لی - آدھی کھائی ہوئی سبزیاں میرا منہ چڑھا رہی تھی-- کینیڈا میں کوڑے کا تھیلا سسٹم ریکون کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہےاسلئے لوگ تھیلوں کے اوپر ایک مخصوص دوائی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تاکہ ریکون انسے چھیڑ چھاڑ نہ کر سکیں-
یہاں کے یہ چرند، پرندے اس موسم کے یعنی موسم گرما کے منتظر ہوتے ہیں مارچ کے آخر یا اپریل میں برف پگھلی، زمین سے سبزے، زیر زمین گانٹھوں سے پھوٹنے والے مختلف رنگوں کے پھولوں نے رنگ اور سر نکالنا شروع کیا --درختوں پر کونپلیں پھوٹنے لگیںتو بہار ایک انگڑائی لیکر بیدار ہوئی اور اسی طرح کینیڈا اور شمال کی جانب امریکہ کی ریاستوں کی عوام اور خلقت موٹے موٹے جیکٹوں ، اوور کوٹوں ، برف کے بوٹوں کو الماریوں کے اندر بند کرتی ہوئی ہلکے سویٹروں ، جیکٹوں، سنیڈلوں اور چپلوں سے لیس ہوگئی- اور گرمی کی شدت کی منتظر ھوئی - ٰیہاں کی عوام کو گرم موسم اور ہلکے لباس کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہلکے پھلکے لباس سے مراد پاکستان کی ڈیزاینر لان کے سوٹ ہر گز نہیں ہیں --انسانوں کی طرح یہ تمام جانور بھی تازہ دم ہوجاتے ہیں اور اپنی گرمیاںبھر پور طریقے سے گزارتے ہیں- بھاگتی دوڑتی گلہریاں اور  پھدکتے ہوئے خرگوش اس منظر میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں --
اڑنے والے بیشتر پرندے مرغابیاں اور بطخیں معتدل موسم کے ساتھ گھروں کو واپس لوٹتے ہیں -گھونسلے بناتے ہیں اور انڈوں بچوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے - انمیں کینیڈین بطخیں پیش پیش ہیں موسم کے ساتھ اڑان بھرنی والی یہ بھاری بھر کم بطخیں ایک نظم و نسق کے تحت اڑان بھرتی ہیں - ایک بطخ انکی رہنمائی کرتی ہے اور پوری ٹولی وی V کی فارمیشن بناتے ہوئے اڑتی ہیں -- جنگی جہازوں نے اپنی اڑاں کی ایک فارمیشن میں انکی نقل کی ہے -رہنمائی کرنیوالی بطخ تھک کر پیچھے کی طرف آجاتی ہے اور دوسری بطخ اسکی جگہ لے لیتی ہے- امریکہ والے سرحد پار کی ان مہمان بطخوں سے کافی نالاں ہیں کیونکہ جھیلوں تالابوں میں یہ چھوٹی بطخوں اور مر غابیوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں-- انمیں سے اکثر تو قرب و جوار میں وہیں بس گئی ہیں اب انکو سرحدوں کا پابند کون کرے نہ انکو ویزے نہ پاسپورٹ کی ضرورت؟-جبکہ معمر شہریوں کی تنظیم بھی عرف عام میں برفانوی پرندے، سنو برڈزsnow birds کہلاتے ہیں اور سخت سردیاں گزارنے جنوب کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور نسبتا گرم علاقوں کے متلاشی ہوتے ہیں -امریکہ کی معتدل ریاستیں ان مہمانوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتی ہیں - گرم موسم کی آمد کے ساتھ یہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں -
امریکی سرحد سے متصل کینیڈین علاقے نسبتا گرم علاقے ہیں -شمال کی طرف جاتے ہوئےکینیڈا ٹھنڈا اور مزید ٹھنڈا بلکہ یخ بستہ ہے اور یہ سلسلہ بحر منجمد شمالی تک چلا جاتا ہے-
15،20 جون سے یہاں گرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے سخت سردی اور برفانی موسم سے بے حال قوم کو اس موسم کا شدت سے انتظار ہوتا ہے - باقاعدہ گرمیوں کی مبارکبادیں دی جاتی ہیں -اور اس موسم کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی کوششیں ہوتی ہیں -- سیر و تفریح ، مختلف پریڈ ، بھاگنا ، دوڑنا ، سائیکلوں کی ریس ،میراتھن ریس، پیراکی ، کشتی رانی ، باربیکیو، پکنک، ساحلوں پر غسل آفتابی،کیمپنگ غرض یہ کہ اس موسم سے لطف اندوز ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی-تعلیمی اداروں کی گرمیوں کی چھٹیا ں ہو چکی ہوتی ہیں اور یوں مختلف پروگرام بنانے میں مزید آسانی ہوتی ہے - دن کا دورانیہ کافی بڑھ چکا ہوتا ہے- ہر کوئی بساط بھر گرمیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے -
گرمیوں کا یہ موسم اب جانے کی تیاری کر رہا ہے -اکثر درختوں کی چوٹی پر پتے رنگ بدلنے لگے دن کا دورانیہ گھٹنے لگا ہے --ستمبر کے پہلے ہفتے میں تمام تعلیمی ادارے کھل جاینگے--نیا تعلیمی سال شروع ہوجائے گاستمبر کے آخر تک درختوں کے پتےپیلے ، بھورے ،قرمزی سرخ خوبصورت رنگوں میں ڈھل کر گرنے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں --کیا حسین منظر ہوتا ہے گھنے درختوں میں کیا خوبصورت رنگ بکھر جاتے ہیں سبحان اللہ -- قادرمطلق کی اس صناعی کے کیا کہنے !-- لیکن ابھی گرمیاں باقی ہیں -- پرندے کی نغمگی ، سکنک کی بدبو ،گلہریوں کی اچھل کود، گرج چمک بارشیں ، نمی اور رطوبت ،زندگی کی ایک نئی صبح کا آغاز-کہ زندگی رواں دواں ہے اور اسکو رواں دواں ہی ہونا چاہئے -
یقین صرف اس ذات کا کرو
ایک نئی صبح کا آغاز کرو

Tuesday, September 9, 2014

ہم غذا پکاتے اور دھوتے وقت اس کی بیشتر غذائیت ضائع کر دیتے ہیں




 

ہم غذا پکاتے اور دھوتے وقت اس کی بیشتر غذائیت ضائع کر دیتے ہیں

از

عابدہ رحمانی


اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ غذا انسانی جسم کے لیے ایندھن کا درجہ رکھتی ہے۔ انسانی جسم کو فعال اور بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے متناسب اور متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے ہاں بیشتر گھرانوں میں خوش ذائقہ کھانوں کو اولیت حاصل ہے۔ ہر خاتون خانہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عمدہ سے عمدہ پکوان تیار کر کے گھر والوں اور دیگر احباب سے داد تحسین حاصل کرے۔ لیکن بیشتر خواتین اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ غذا اس طریقے سے پکائی جائے جس سے غذائی اجزاء کم سے کم ضائع ہوں۔غذا کے بنیادی اجزاء کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستہ لحمیات یا پروٹین، چکنائی، حیاتین اور معدنی نمکیات ہیں۔ اناج، گوشت اور دالیں پکاتے وقت نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کا ضیاع کم ہوتا ہے لیکن حیاتین اور معدنی نمکیات زیادہ تر ضائع ہو جاتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حیاتین ’ا‘ اور ’ف‘ کے علاوہ باقی تمام حیاتین پانی میں حل ہو جاتی ہیں اس کے علاوہ معدنی نمکیات میں کیلشیم، فاسفورس اور لوہا وغیرہ پانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے۔حیاتین میں سے حیاتین ’ج‘ اور تھایا میں حرارت سے ضائع ہو جاتی ہے۔
بیشتر گھرانوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دال سبزی اور گوشت وغیرہ کو خوب دھویا جاتا ہے اس طریقے کو لوگ صفائی سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کھانے کی کافی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔بہتر یہ ہے کہ گوشت اور کلیجی وغیرہ ثابت دھو کر پھر اس کے ٹکڑے کاٹے جائیں اس طرح گوشت کلیجی میں موجود حیاتین اور معدنی نمکیات کم سے کم ضائع ہوں گے۔ ورنہ اگر ٹکڑے کٹے ہوئے ہوں اور صاف کرنا ضروری ہو تو یہ طریقہ غلط ہے کہ گوشت کو پانی میں بھگو کر اسے بار بار دھویا جائے عام طور سے یہ دیکھا ہے کہ گوشت وغیرہ سے خون نچوڑ کر پکایا جاتا ہے اس سے گوشت میں موجود فولاد اور دیگر حیاتین ضائع ہو جاتے ہیں۔
زیادہ حرارت سے اور تیز آنچ پر گوشت، انڈے اور دالیں پکانے سے ان میں موجودلحمیات جل جاتی ہیں۔ اس لیے ان اشیاء کو درمیانی تپش پر پکانا چاہیے۔ تنور میں یا کوئلوں پر گوشت بھوننے سے پانی ٹپک ٹپک کر کافی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے لیکن کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اگر پکایاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔عام اصول یہ ہے کہ آنچ اگر تیز ہو تو غذائی اجزاء زیادہ ضائع ہوں گے جبکہ درمیانی آنچ پر اس کا خدشہ نہیں ہے۔ اگر کھانا پریشر ککر میں پکایا جائے تو غذائی اجزاء کم ضائع ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں عموماً لوگ انڈے کی زردی کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ سفیدی کو غیر مفید سمجھتے ہیں حالانکہ انڈے کی سفید میں خاص لحمیات ہوتے ہیں کمزور معدے والے افراد کو انڈے کی سفیدی کچھ کچی حالت میں دینا بہتر ہے اس سے یہ زود ہضم ہوجاتا ہے۔ زیادہ تلا ہوا اور سخت انڈا دیر سے ہضم ہوتا ہے۔
اس طرح دودھ کو بھی ہلکی آنچ پر ابالنا بہتر ہے۔ تیز آنچ، دودھ کے پنیری مادوں کے سوا لحمیات کو منجمد کر دیتی ہے۔ کم ابلا دودھ زود ہضم ہوتا ہے دودھ ہلکی آنچ پر چولہے پر رکھ دیا جائے جب اس پر بالائی کی سطح جم جائے تو چولہے سے اتار دیاجائے۔
اگر گھر میں فریج موجود نہ ہو تو بیکٹیریا گرم موسم میں دودھ خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں اس لیے دودھ کو ایک مرتبہ اور دن میں ہلکی آنچ پر پکا لینا چاہیے۔ کچا دودھ یا کم ابلا ہوا دودھ جلد خراب ہو جاتا ہے۔
سبزیاں اورپھل:
ان میں حیاتین اور معدنی نمکیات بکثرت ہوتے ہیں۔ پھلوں کا مسلمہ اصول تو کھانے کا یہ ہے کہ ان کو ثابت دھو کر استعمال میں لایاجائے اور عام طور سے ایسا ہی ہوتا ہے۔سبزیاں البتہ بیشتر گھرانوں میں دیکھا ہے کہ چھیلنے، کاٹنے کے بعد دھوئی جاتی ہیں اس سے ان کی بیشتر غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس لیے کافی غذائی اجزاء پانی میں شامل ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر اکثر خواتین پیاز کاٹ کر اس کے لچھے خوب دھوتی ہیں تاکہ اس کی کڑواہٹ نکال دیں حالانکہ پیاز میں کافی مقدار میں فولاد پائی جاتی ہے جو کہ پانی میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اسی طرح ساگ، آلو، مولی، گاجر، لوکی اوردیگر کئی سبزیاں چھیلنے، کاٹنے کے بعد دھوئی جاتی ہیں۔ صفائی کے پیش نظر خواتین ان سبزیوں کو خوب مل مل کر دھوتی ہیں اور پوری غذائی اجزاء کا بیشتر حصہ پانی میں بہ جاتا ہے۔ یہ اصول بنایا جائے کہ سبزیاں ثابت چھلکے سمیت دھو لی جائیں۔ مٹی وغیرہ اچھی طرح صاف کر دینی چاہیے۔ پالک اور دیگر ساگ بھی ثابت پتے پانی میں دھو کر نکالنے چاہییں اور پھر کاٹے جائیں۔چھلکے والی سبزیوں کو پتلے چھلکے اتار کر اور اگر سبزی کچی ہے تو اسے چھری سے کھرچ دینا چاہیے مثلاً توری، ٹنڈے، لوکی وغیرہ۔ چھلکا اتارنے کے بعد سبزی کاٹ کر اورفوراً استعمال میں لانا چاہیے اس لیے کہ بعض کٹی ہوئی سبزیوں کو دیر تک ہوا میں رکھنے کی وجہ سے آکسیجن ان میں موجود حیاتین کو ضائع کر دیتی ہے۔ اکثر سبزیوں کا رنگ ہوا کے کیمیائی عمل سے بدل جاتا ہے۔

اگر سبزیاں کاٹنے کے کافی دیربعد پکائی جائیں یا پکاتے وقت برتن پر ڈھکنا نہ رکھا جائے تو کافی حیاتین ضائع ہو جاتی ہیں۔ابالنے والی سبزیاں بہتر ہے کہ چھلکے سمیت ابالی جائیں۔ پانی اتنا استعمال کرنا چاہیے کہ ابالنے کے بعد زیادہ پانی پھینکنا نہ پڑے بلکہ بہتر ہے کہ پانی کی اتنی مقدار میں سبزی ابل جائے۔ 

                ہمارے ہاں عموماً سبزیاں خوب بھون کر کھائی جاتی ہیں۔ حالانکہ اس عمل سے سبزی کی بیشترغذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ سبزیاں کم درجہ حرارت اور کم سے کم وقت میں پکائی جائیں۔ساگ وغیرہ یا تیز خوشبو والی سبزی پکاتے وقت شروع میں پانچ، دس منٹ کے لیے ڈھکنا ہٹا دینا چاہیے اس سے اگزالک ایسڈ بھاپ کے ذریعے نکل جاتا ہے اگر یہ ترشہ کھانے میں موجود ہو تو کیلشیم ہضم ہونے میں مشکل ہو تی ہے۔
اکثر خواتین پالک وغیرہ ابال کر اس کا پانی پھینک دیتی ہیں جس کی وجہ سے اس کے غذائی اجزاء کا زیادہ حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس طریقے سے گریزکرنا چاہیے۔ سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزیاں مثلاً گاجر، مولی، ٹماٹر، مولی کے پتے، کھیرے، ککڑی وغیرہ صاف دھو اور کاٹ کر کچے استعمال کرنا بیحد مفید اور حیاتین و معدنی نمکیات سے بھرپور ہے۔
وزن کم کرنے والی خواتین کے لیے سلاد کی پلیٹ ایک بھرپور غذا مہیاکر سکتی ہے۔ ان اشیاء کے استعمال سے وزن میں اضافہ بھی نہیں ہوتا۔
اس لیے جن سبزیوں کو کچا کھایا جا سکتا ہے انہیں صاف دھو کر کاٹ کر کچا استعمال کیاجائے۔ دھنیا، پودینے کے صاف پتے، سلاد اور سالن پرچھڑکے جائیں تو غذائیت میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ 
دالیں، چاول وغیرہ۔
دالیں بھی ہمارے لیے غذائی اجزاء کا اہم ذخیرہ ہے ان میں لحمیات، نشاستہ اورحیاتین و معدنی نمکیات موجود ہوتے ہیں۔
دالیں بھی بیشتر خواتین کافی مل مل کر اور خوب دھوتی ہیں۔اس دھلائی میں ان کی بیشتر غذائی اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں۔ دال کو چننے کے بعد ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دھوناکافی ہے وہ بھی محض اس لیے کہ مٹی گرد وغیرہ صاف ہو جائے اس طرح اکثر خواتین دالیں بھگو دیتی ہیں اور پھر پانی پھینک کر استعمال کرتی ہیں اس طرح سے کافی اجزاء پانی میں مل کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ دالیں وغیرہ دھونے کے بعد بھگوئی جائیں اور پھر انہیں اس پانی میں پکایا جائے۔ 
چھلکے والی دالیں کھانا زیادہ مفید ہے کیونکہ چھلکے والی دالوں میں حیاتین کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ دالوں میں گلانے کی غرض سے میٹھا سوڈا ڈال دیتے ہیں اس سے دال تو گل جاتی ہے لیکن حیاتین ضائع ہو جاتی ہیں۔
دال کے علاوہ چاول کا بھی بیشتر خواتین یہی حال کر دیتی ہیں۔ چاول کو چھلکا اتارنے میں اس کی حیاتین ب مخلوط اور معدنی نمکیات کافی ضائع ہو جاتے ہیں۔
مشینوں سے صاف کیے ہوئے چاول کی نسبت گھر میں کوٹے ہوئے چاول یا جوشی جاول زیادہ غذائیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس میں پکاتے وقت کچھ بو آتی ہے لیکن غذائی اعتبار سے یہ بہتر ہوتے ہیں۔ملوں میں صفائی کے بعد چالوں میں جو غذائیت بچ جاتی ہے وہ خواتین پکانے میں ضائع کر دیتی ہیں اس لیے کہ چاولوں کو پانی میں خوب دھویا جاتا ہے جس سے تھایا مین اور نکوٹینک ایسڈ پانی میں حل ہو کرضائع ہو جاتے ہیں۔

بعض خواتین چاول بھگو کر رکھ دیتی ہیں اور پانی پھینک کر استعمال کرتی ہیں۔ اس سے بھی کافی غذائی اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں۔ چاول کو بھی محض ایک یا دو بار کھنگالنا کافی ہے چاول پکا کر اس کا پانی یا پیچ پھینکنا غلط طریقہ ہے اس طریقے سے چاول میں صرف نشاستہ باقی بچتا ہے اور بیشتر غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ چاول پکاتے وقت اندازے سے اتنا پانی ڈالا جائے کہ چاول اس میں بخوبی پک جائے اور پانی نہ پھینکنا پڑے۔ اگر ہمارے ہاں کی خواتین ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دیں تو وہ روزمرہ کی خوراک میں اپنے کنبے کے افراد کے لیے غذائی اجزاء کی بچت کر کے انہیں زیادہ سے زیادہ غذائیت مہیاکر سکتی ہیں۔ 

***



عابدہ

Abida Rahmani