Monday, June 16, 2014

اعتراف


اعتراف 

اعتراف--
از عابدہ رحمانی
اس نے آنکھیں کھول کر اپنے اطراف میں دیکھا ، اس وقت اس کی تکلیف کافی کم تھی اور وہ پوری طرح ہوش میں تھی، دیوار پر لگے ہوئے مانیٹرز اس کے دل اور نبض کی رفتار بتا رہے تھے۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں مختلف شکنجوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جیسے کسی بڑے جرم کی پاداش میں اسے پا بجولاں کرکے ڈالا گیا ہے۔ ڈرپ میں ڈالی ہوئی دوائیاں اس کی رگوں میں سرایت کر رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ اور پاؤںمن من بھر کے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک آہ بھری انسان کتنا بے بس ہے۔ کتنا بے بس۔
یہ شہر کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے ہسپتال کا انتہائی نگہداشت کا وارڈ تھا۔ زندگی کی دوسری نمائشی چیزوں کی طرح یہاں پر داخل ہونا بھی ایک اسٹیٹس سمبل تھا۔ نمعلوم کیوں اب اسے یہ سب کچھ بڑا ہیچ معلوم ہورہا تھا۔ انجام کار تو اسی مٹی میں مل جانا ہے۔ پھر یہ سارے دکھاوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ڈاکٹروں نے اس کی حالت کے پیش نظر اس وقت ملاقاتیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ سارے عزیز ، رشتہ دار، دوست احباب ایک کے بعد ایک آنے والوں کی لائن لگی رہتی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ان میں کتنے لوگ ہیں جو حقیقتاً اس کی اس حالت پر افسردہ اور پریشان ہیں۔ کتنوں کو اسے اس طرح دیکھ کر اطمینان ہو رہا ہو گا۔ وہ لوگ آتے اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھتے ، آنسو بہاتے تو اس کے کرب میں اور اضافہ ہوتا۔
وارڈ میں زندگی اور موت ہم آہنگ تھی۔ مریضوں کے کراہنے اور ان کے عزیز رشتہ داروں کی سسکیاں لینے کی آوازیں وقفے وقفے سے آ رہی تھیں۔ لیڈی ڈاکٹرنیاں رنگ برنگے لباس پہن کر اوپر سفید کوٹ پہنے ہوئے آئیں تو ماحول میں ذرا دیر کو رنگ آ جاتا۔ ورنہ ہر طرف سفید رنگ غالب تھا۔ نرسیں اور ڈاکٹر اس ماحول کے عادی تھے اور شاید احساس سے عاری ، کبھی کبھی ان کی ہلکی سی کھٹکتی ہنسی یا سرگوشیوں کی آوازیں آتیں تو اسے زندگی کا احساس ہوتا۔اس نے آنکھیں موند لیں۔ نرسوں کی ڈیوٹی بدل رہی تھی اور اپنی ساتھی نرس کو سمجھا رہی تھی کہ اسے کیا کیا دینا ہے۔
"’’Chronic کرانک پیشنٹ ہے بالکل Hopeless ہوپ لیس کیس ہے بس ڈاکٹر اپنی کوشش کر رہے ہیں ‘‘ نرس نے ڈیوٹی پر آئی ہوئی نئی نرس کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
 ان کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں تھا اس قسم کے کسیز سے ان کا روز کا واسطہ تھا ۔اسے عجیب سی بے قراری محسوس کی دم نکلتے وقت کیسا محسوس ہو گا پھر اسے محسوس کیا جیسے کہ منوں مٹی کے نیچے اسے دبایا جا رہا ہے۔ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی ، نرس اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ سب آلات کو چیک کیا، ڈرپ کی رفتار دیکھی، اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی ’’کیا طبیعت زیادہ خراب لگ رہی ہے؟‘‘
’’سسٹر میرے گھر والوں کو بلا دیں میری طبیعت بہت گھبرا رہی ہے‘‘
’’اچھا دیکھیں میں ڈاکٹر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
اس پر پھر غنودگی چھا گئی۔کیسی بے چینی تھی ، کیسی بے کسی ، لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے ہوئے۔ موت ایک نہ ایک دن آنی ہے لیکن اس سے ہم آغوش ہونا کتنا مشکل ہے۔ کتنا تکلیف دہ، وہ کوئی زیادہ مذہبی نہیں تھی لیکن اس وقت جب کہ اسے یقین ہو چکا تھا کہ فرار کی کوئی صورت نہیں اسے جو کچھ یاد تھا اسے زیرلب دہرا رہی تھی۔ اب تو وہ اپنی صحت یابی کی دعائیں مانگتے مانگتے بھی تھک چکی تھی۔
اور  بس موت کا جان لیوا انتظار تھا۔
وہ کس قدر شوقین تھی ، زندہ دل اور محفلیں سجانے کی شوقین ، اپنے ٹھنڈے یخ ہاتھ پر گرم گرم لمس محسوس کرکے اسے آنکھیں کھولیں یہ اس کا شوہر تھا۔ الجھے بال ، سستا ہوا چہرہ ، سوجی آنکھیں وہ کس قدر پریشان اور سراسیمہ تھا۔
اس نے مسکرانے کی ناتمام کوشش کی ۔وہ بالکل خاموش تھا ۔کیا کہتا اب کہنے اور سننے کو کیا باقی تھا۔ وہ 35 برس کی ساتھی تھی لیکن جتنی توجہ اور محبت وہ اسے پچھلے کچھ عرصے سے دے رہا تھا پہلے دیتا تو شاید وہ اتنی جلدی موت سے شکست نہ کھاتی۔ اس نے تو اسے جیتے جی تاج محل میں دفن کر دیا تھا۔ اسے دنیا کا ہر آرام ،ہر آسائش حاصل تھی۔ عالی شان مکان ، اعلیٰ سے اعلیٰ ضروریات زندگی ، نوکر چاکر اس قدر عیش و آرام جس کا کوئی شاید ہی تصور کر سکے اور شاید اسی لیے وہ اس کی کمی کو اتنی شدت سے محسوس کرتی۔ اسے کتنی خواہش تھی کہ وہ اسے وقت دے، اسے گھمائے ، دنیا دکھائے ، اسے دنیا دیکھنے کا کتنا شوق تھا۔ لیکن اسے تو بس ایک ہی دھن تھی کمانے کی ، زیادہ سے زیادہ کمانے کی ، دن رات وہ اسی دھن میں رہتا۔ پھر اس کے فارن ٹرپ ہوتے تو زیادہ تر  اکیلے  وہ جانے کو اصرار کرتی تو وہ سمجھا تا۔ ’’بھئی تم ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے بور ہو جاؤ گی میری وہاں کافی مصروفیات ہیں گھومنے پھرنے کا وقت کہاں ہے۔‘‘
یہ بات جب کئی مرتبہ دہرائی جا چکی تو اس نے اپنے آپ سے عزم کر لیا اب میں ان کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی اور پھر وہ دونوں اپنی اپنی ذات کے حصار میں بند ہو گئے۔ دونوں زیادہ تر اکیلے ہی گھومتے پھرتے۔ سوائے قریبی رشتہ داروں کے جہاں ایک ساتھ جانا لازمی تھا۔
شوہر اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا شوقین تھا۔ ہر وقت نئے نئے منصوبے بنتے۔ جن میں کچھ تو پایۂ تکمیل تک پہنچتے اور کچھ ادھورے رہ جاتے لیکن وہ اپنی دنیا میں مگن تھا۔ جب  کوئی شنوائی نہ ہوئی تواس نے اپنے بچوں کے ساتھ الگ دنیا بسا لی۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ان سے دوستوں جیسے تعلقات ہو گئے۔ وہ ان سے اپنا سارا دکھ سکھ کہتی ، گلے شکوے سناتی۔" دیکھو آج تمہارے ابو نے پھر اتنی دیر کر دی ۔" پھر تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ بچے امی کو سمجھانے لگے۔
 وقت کتنی تیزی سے گزر رہا تھا۔دو بچوں کی شادیاں ہو گئیں ، گھر میں بہوئیں آ گئیں تو گھر کی رونق میں مزید اضافہ ہو گیا ، وہ بڑی مختلف قسم کی ساس ثابت ہوئیں۔ بہت ہمدرد ، نرم دل اور شفیق ، بہوؤں پر نہ تو کوئی اعتراض تھا نہ ان کے معاملات میں مداخلت ، وہ آتیں پاس بیٹھتیں ، باتیں کرتی تو ساس بہوؤں میں خوب گپ شپ چلتی۔
کئی روز سے اسے پیٹ میں ہلکا ہلکا درد تھا پھر بخار رہنے لگا ، ڈاکٹر کو دکھایا اس نے دوائیاں دیں ، کچھ افاقہ نہ ہوا تو مزید ٹیسٹ کروا ڈالے اور پھر اس جان لیوا بیماری کا انکشاف ہوا ۔ گھر والوں نے اپنے طور پر اس سے یہ بات چھپا ڈالی تھی۔ لیکن اسے سب کچھ معلوم تھا۔ وہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہی تھی۔ جیسے کہ کچھ نہیں جانتی ، لمحہ لمحہ موت کے منہ میں جاتے ہوئے اسے نے اپنی خوش مزاجی میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے کہ اسے کچھ پرواہ ہی نہیں۔ گھر والے بھی اسے ہنستا بولتا دیکھتے تو ان کے چہروں پر ذرا رونق آ جاتی۔
اسے اپنے شوہر سے بھی اب کوئی گلہ نہیں تھا اسے یوں لگتا تھا کہ وہ اسی دن کے لیے تو اتنا کما رہا تھا کیونکہ اس بیماری میں جس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے (لاعلاج بیماری) میں روپیہ بھی پانی کی طرح بہ رہا تھا۔ ڈاکٹروں ، لیبارٹریوں اور ہسپتال کے لمبے لمبے بل ، پھر ایک دن اس کے شوہر نے اسے علاج کے لیے بیرون ملک لے جانے کا پروگرام بنا دیا۔ تو وہ بلک بلک کر روئی۔ اسے کتنا ارمان تھا وہاں پر سیر و تفریح کا لیکن وہ کبھی نہیں گئی اور اب اسے مرتے دم وہ وہاں لے جا رہا تھا۔ وہ نہیں جانا چاہتی تھی ۔ نہیں میں اپنے بچوں کے پاس مرنا چاہتی ہوں لیکن سب کے اصرار پر جانا پڑا۔
وہاں پر صبح سے شام تک ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکر اور پھر ڈاکٹروں کا مایوس کن جواب کہ کوئی امید نہیں ہے۔وہ گھر واپس پہنچی تو بے حد کمزور اور نڈھال ہو گئی تھی یوں لگتا تھا کہ اس دوران اس کی زندگی کے لمحات اور مختصر ہو گئے ہوں۔
ٹپ ٹپ اس کے چہرے پر گرم گرم قطرے گرے تو اس نے آنکھیں کھولنے کی ناتمام کوشش کی۔ ’’کون ہے۔‘‘ ایک نیم غنودگی کی حالت میں اس نے پوچھا۔
’’
نرگس نرگس خدا کے لیے آنکھیں کھولو میں ہوں جاوید۔‘‘
’’
جاوید ، جاوید ، جاوید ‘‘ وہ اس کا نام دہرانے لگی جیسے کہ رٹ رہی ہو پھر اس نے پوری توانائیوں سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔
’’
نرگس !دیکھو آج میں تمہارے سامنے اعتراف کر رہا ہوں کہ تم ہی میری زندگی کی پہلی اور آخری عورت ہو، تمہیں میں نے ہمیشہ چاہا ہے اور ہمیشہ چاہتا رہوں گا ، ہو سکتا ہے تمہیں مجھ سے کچھ شکایتیں رہی ہوں ، مجھے معاف کر دو ‘‘وہ سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔
اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا ۔ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر ہاتھ کی گرفت آپ ہی آپ ڈھیلی پڑ گئی۔ لگتا تھا کہ اسے اسی اعتراف کا انتظار تھا۔

No comments:

Post a Comment