Monday, June 30, 2014

اهلًا و سهلا مرحباً ماه رمضان



-----



--

ماه رمضان مبارك. 






اہلا و سہلا مرحبااے ماہ صیام 

عابدہ رحمانی


ماہ صیام کی آمد آمد ہے بس چند روز کی بات ہے کہ یہ با برکت مہینہ شروع ہوا جاتا ہے-اہل ایمان کے لئے یہ مبارک مہینہ اور اسکی ساعتیں اللہ تبارک و تعالٰی کی جانب سے ایک بیش بہا تحفہ ہیں اللہ تعالٰی ہمیں اس سے پورے طور پرمستفید ہونیکی توفیق عطا کرے-آمین



نزول قرآن کی سالگرہ

اگر ہم تاریخ کو غور سے دیکھیں تو رمضان ، کا مہینہ عرب معاشرے کے کیلنڈرمیں پہلے سے موجود تھا --اس مہینے کو اللہ نے نزول قرآن اور وحی پاک کے ذریعے برکت عطا کی جسمیں شب قدر کو قرآن پاک کا نزول ہوا "انا انزلنٰہ فی لیلۃالقدر " اور ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارااور محمدﷺ پر پہلی وحی اتاری گئ اقراء باسم ربک الذی خلق--پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا --اس لحاظ سے یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے- یہ وہ مبارک رات ہے جسکی فضیلت ایک ہزار ایک مہینوں سے بھی بہتر ہے اسی رات کو فرشتے اور جبرئیل امین کارخانہ دنیا کا حساب کتاب گویا پورا بجٹ اور حساب کتاب تیار کرتے ہیں اور اسی جشن کو مناتے ہوئے دو ہجری میں روزے فرض ہوئے-


شمالی امریکہ میں ہم کیلنڈر کی پیروی کرتے ہوئے بروز ہفتہ 28 جون سے انشاءاللہ امسال رمضان المبارک کا آغاز کر رہے ہیں-،کیلنڈر کی پیروی نے ہمیں چاند ڈھونڈھنےسے بے نیاز کر دیا ہے-- یوروپ اور دیگر ممالک میں بھی مسلمان اپنے طور پر ماہ رمضان کا آغاز کرتے ہیں - کوئی سعودی عرب کی پیروی کرتا ہے ، کوئی مصر کی، کہیں انحصار کیلنڈر پر ہے اور کہیں اسپر بضد کہ بچشم خود چاند دیکھا جائے-

پاکستان میں رویئت ہلال کمیٹی 29 شعبان کو بعد مغرب، ہلال رمضان ڈھونڈھنے کی کوشش کریگی یہ ایک بڑا مر حلہ ہوتا ہے چاند ہوا کہ نہیں ہوا گر چاند نہ نظر آیا تو اگلے روز سے تو روزہ بہر صورت  ہوگا ہی -جبکہ خیبر پختون خواہ میں یقینا ایک روز پہلے سے پہلا روزہ ہوگا، اسمیں طالبان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے -یہ یہاں کی ایک روایت ہے - یہاں پر بقیہ پاکستان سے ہمیشہ ایک روز پہلے روزہ اور عید منائی جاتی ہے - ہم بچپن میں سنتے تھے کہ فلاں فلاں جاکر تحصیل میں ، اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق دینے کی قسم کھا کر آیا ہے کہ اسنے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا ہے جبکہ حقیقتا ابھی اسکی شادی بھی نہیں ہوئی ہے --اسکو کھیل تماشہ بنانے والے صادق اور راسخ مسلمان اب بھی کم نہ ہونگے اور یہ سلسلہ یعنی بقیہ پاکستان سےایک روز پہلے عید منانا اور روزہ رکھنا ابھی بھی جاری ہے- وہاں پر ایک عام اصطلاح یہ استعمال ہوتی ہے " اچھا بڑا چاند ہے دیکھو ایک روزہ انہوں نے کھا لیا" بقر عید عموما ایک ساتھ منائی جاتی ہے




جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے تمام عالم اسلام اور مسلمانوں میں اس ماہ مبارک کی اہمیئت اور فضیلت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا- ہمت ہر کس بقدر او است


اس سے پہلے اخبارات اور مجالس کے ذریعے عوام الناس کو اس مہینے کی آمد کیلئے تیار کیا جاتا تھا اب اللہ بھلا کرے ڈیجیٹل اور آنلائن ٹیکنالوجی کا سماجی رابطے کی ویب سایٹ خصوصا فیس بک کا ایک سے ایک دیدہ زیب کارڈ، احکامات ، قرآن ، ،احادیث اور اقوال ذریں پر مبنی احکامات ایک طرف ہماری اصلاح اور درستگی کرتے ہیں، دوسری جانب ہمارے اندرونی جذبوں کو اجاگر کرتے ہیں- استقبال رمضان کو نجی محفلوں ، مساجد کی محفلوں میں بھی خصوصئیت حاصل ہے- الحمدللہ آنلائن سہولتوں کی بدولت ہمارے آنلاین دورہ قرآن کے کئی پروگرام شروع ہو چکے ہیں اس سے پہلے استقبال رمضان بھی ہوچکے ہیں--مجھے نہیں یاد کہ ہمارے بچپن میں اسطرح کے کوئی سلسلے ہوتے تھے - بس رمضان آیا چاند کا اعلان ہوا اور لوگوں نے روزے رکھنے شروع کر دئے - مجھے وہ وقت یاد ہے کہ جب ہم گاؤں میں ہوتے تھے تو سخت گرمی میں میری والدہ تولیہ بھگو بھگو کر سر پر رکھتی جاتی تھیں اور پھر ہمارے گاؤں کے سب سے ٹھنڈے کنویں سے میں اپنی ملازمہ کے ہمراہ پانی لینے جاتی تھی اسوقت ہمارے گاؤن میں بجلی نہیں تھی اور جب چھت سے بندھے ہوے موٹے کٹ کا پنکھا جھلانے والا بچہ ڈوری کھینچتے ہوئے خود ہی بے خبر سو جایا کرتا تھا -کیا دن تھے خربوزے اور تربوز ٹھنڈا کرنیکے لئے کاٹ کر رکھ دئے جاتے تھے --

روزے ہر طرح رکھے جاتے ہیں ہر موسم میں رکھے جاتے ہیں اور کیوں نہ رکھے جائیں یہ دین اسلام کا دوسرا اہم ستون اور فرض ہے-- آپ سب روزوں کی فرضیت، اداب، ممنوعات اور احکامات سے واقف ہیں - اسلئے میں اس موضوع پر یاد دہانی کرانا اسوقت ضروری نہیں سمجھتی ، میں محض رمضان کے متعلق ادھر ادھر کی بات کرونگیٓ- اسلامی مہینوں کا حسن یہ ہے کہ یہ بدلتے رہتے ہیں - شمسی کیلنڈر سے دس دن کے فرق سے رمضان اور حج کے مہینوں کا موسم بدل جاتا ہے اور ہمارے یہ دو دینی فرائض بشمول عیدین ایسے ہیں جنکا انحصار خصوصی مہینوں پر ہے- یہ جب سردیوں میں آتے ہیں تو موسم کی مناسبت سے کافی سہل ہوجاتے ہیں جبکہ گرمی کے روزے رکھنا ایک جہاد سے کم نہیں ہیں اور اللہ تبارک و تعالی سے اسکی مزید اجر و ثواب کی توقع رکھنی چاہئے-

وہ ممالک جہاں پر ان دنوں گرمیاں معراج پر ہیں کم از کم بجلی اور ایر کنڈیشننگ کی نعمت سے سرفراز اور مالامال ہیں اور دوسرے ممالک جہاں پر روزہ 18،19 گھنٹے طویل ہو سکتا ہے ہمارا روزہ ساڑھے سولہ سے سترہ گھنٹے کا ہوگا-لیکن اللہ تعالی ایسی قوت ایمانی دے دیتا ہے کہ رمضان جیسے آتا ہے اتنی ہی تیزی سے رخصت بھی ہونے لگتا ہے اسکینڈے نیویا کے ممالک ناروے اور سویڈن میں جہاں دن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا وہاں پر قریبی مسلم ملک کے حساب سے سحر و افطار کا تعین کر دیا جاتا ہے- ان غیر مسلم ممالک میں چاہے وہ یوروپ ہو ،شمالی یا جنوبی امریکہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، یہاں پر ملازمت پیشہ افراد کیلئے روزے رکھنا ایک کڑی آزمائش ہے بسا اوقات تو بیشتر لوگ جانتے بھی نہیں کہ روزہ کیا ہے اور اسکا مقصد کیا ہے؟ - پورے دفتر میں ہوسکتا ہے آپ تنہا راسخ العقیدہ مسلمان ہوں - لنچ بریک ہے ، کافی یا ٹی بریک ہے ہر طرف لوگ کھا پی رہے ہیں وہ آپکو حیرت سے دیکھتے ہیں اگر انکو سمجھانے کی کوشش کریں تو الٹا آپ پر ترس کھانے لگتے ہیں- "اوہ یہ کتنا مشکل کام ہے یہ تو ظلم کی انتہا ہے کم از کم پانی تو پینا چاہئے " اور آپ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں پھر منہ سے جو روزہ دار کی بو آتی ہے جو اللہ کو مشک سے زیادہ محبوب ہے - یہ تو غنیمت ہے کہ ہمارے علماء نے ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کی اجازت دیدی ہے بشرط یہ کہ حلق میں نہ جائے -- ہاں پھر مساجد میں دل کھول کر ماحول بن جاتا ہے اور مسلمان کمیونٹی مساجد میں خوب تقریبات کا اہتمام کرتی ہے اجتماعی افطار ،بہترین حفاظ کی  تراویح جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہے پورا خاندان مسجد دوڑا جاتا ہے اور مسجد سے جڑ جاتا ہے-مجھے تو مساجد میں جو لطف آتا ہے اور جو چہل پہل نظر اتی ہے اس سے تو ہم پاکستان میں بھی محروم ہوتے ہیں-- آجکل دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکولوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہیں- زمین کا شمالی کرہ گرمیوں کی لپیٹ میں اور جنوبی کرہ سردی کی لپیٹ میں ہے انکے روزے تو خوب مزے میں گزرینگے --کینیڈا میں تو خوبی کی بات یہ ہے کہ کئی گروسری سٹور رمضان کی اشیاء کی سیل لگا لیتے ہیں--مسلمان آبادی اس سے کافی خوش اور مطمئن ہوجاتی ہے-

پاکستان میں استقبال رمضان کا خاصہ ہوا کرتا تھاکہ وہ تمام پھل اور اشیاء جو رمضان میں لازم و ملزوم تھے ہمیشہ مہنگے کر دئے جاتے تھے کاروباری حلقےکو منافع بٹورنے کیلئے اس سے بہترین موقع کہاں میسر - کراچی میں ایک مرتبہ گرمیوں کے روزوں میں تربوز کے دام تگنے ہوگئے- آخر میں بارش ہوئی موسم بہتر ہوا تو ٹرک کے ٹرک اپنا سڑا ہوا مال سبزی منڈی کے باہر پھینک گئے وہ بدبو اور تعفن خدا کی پناہ--


-حکومت پاکستان نے روزہ داروں کے لئے اپنی طرف سے سحر و افطار پر لوڈ شیڈنگ نہ کرنیکا تحفہ دیا ہے دیکھئے کہ اس پر عمل کہاں تک ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا -ورنہ شاید ہم پھراسی پرانے دور میں چلے جائیں کہ تولئے بھگو کر سر پر رکھے جائیں-




اسلامی ممالک میں تو رمضان کا سماں ہی کچھ اور ہوتا ہے -


سعودی عرب میں ہر رمضان اسکولوں کی چھٹیاں کر دی جاتی ہیں سعودی عرب میں رمضان کا پورا مہینہ ایک جشن کی صورت میں منایا جاتاہے - اور غالبا یہی طریقہ دیگر عرب ممالک میں ہے تراویح کے بعد سے سارے بازار کھل جاتے ہیں ہر طرف ایک چہل پہل ایک رونق ، عربی خواتین کی خریداری دیکھنے کے قابل ہوتی ہے انکی ریڑھی اوپر تک لبا لب بھری ہوئی کہتے ہیں رمضان کی خریداری پر اللہ کے ہاں حساب نہیں ہوگا اس وجہ سے وہ رمضان میں خوب خریداری کرتی ہیں- اب یہ بات محض سنی سنائی ہے یا اسکی کچھ حقیقت ہے تو عالم فاضل حضرات اس کی وضاحت فر ما دیں- اکثر دفاتر بھی رات کو کھلے ہوتے ہیں - فجر کے بعد عام طور سے لوگ سو جاتے ہیں اور پھر ظہر پر اٹھتے ہیں- پاکستان میں دفاتر کے اوقات کار کو کم کردیا جاتا ہے - حالانکہ شیطان یا شیا طین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے -لیکن اسکی عملی شکل دیکھنے میں نہیں آتی کہ جرائم کی شرح میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ٓکیونکہ چور چوری سے جاتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں جاتا-

سب سے بڑی دکھ اور صدمے کی  بات پاکستانی فوج کا شمال وزیرستان میں ضرب غضب کا جنگی آپریشن ہے جو اس گرمی اور رمضان کی آمد کے ساتھ  لاکھوں لوگوں کی بے گھری اور نا گفتہ بہ حالات کا پیش خیمہ ہے ---اسوقت مسلمان ممالک آپس میں بری طرح بر سر پیکار ہیں عراق اور شام   تنظیم دولت اسلامی عراق و شام (داعش)کی پیش قدمی اور کامیابی ایک نئے انقلاب ، جنگ اور خانہ جنگی کی آئینہ دار ہے -اب تو یہود و ہنود کو بھول چکے ہیں مسلمانوں میں جو فقہ دارانہ کشیدگی اور قتل و غارتگری جاری ہے کہ الامان و حفیظ ،شام کے حالات پہلے ہی حد درجہ دگر گوں ہیں -


- کیا تمام مسلمان کم از کم اس مہینے کی حرمت کا لحاظ کر سکتے ہیں کیا مسلمان کے ہاتھوں ایک مسلمان جان و مال کی امان پا سکتا ہے- صوم کی ڈھال تھامے ہوئے سب سے پہلے تو قتل و غارتگری بند ہونی چاہئےروزے کا دارومدار تقوٰی پر ہے تمام عبادات کا لب لباب یہ ہے شائد کہ تم تقوٰی اختیار کرو

اللہ تعالٰی ہمیں متقون میں شامل کرے -اسوقت ہمیں ان مظلوم مسلمانوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے جو نامساعد حالات کا شکار ہیں چاہے وہ پاکستان ہے ، شام ، عراق یا دیگر ممالک  ایسا نہ ہو کہ یہ روزے محض سحریوں ، افطاریوں اور افطار پارٹیوں کے لوازمات تک ہی محدود رہ جائیں

و ما علینا الا البلاغ

میرے قارئین اور ناقدین کو ماہ صیام کی بابرکت ساعات کی پیشگی دلی مبارکباد

اللھم تقبل منا و تقبل منکم

اللہ تعالٰی آپکو نیکیوں کی اس فصل بہار اور جشن نزول قرآن کے اس مبارک مہینے سےفوائد اور نیک اعمال حاصل کرنیوالا بنائے--اللہ تبارک و تعالٰی ہمارے روزوں اور تمام عبادات قبول فرمائے  آمین




عابدہ

Abida Rahmani





-- 
Sent from Gmail Mobile



-- 
Sent from Gmail Mobile

Aitiraaf a short story!


Sunday, June 29, 2014

أمت واحده






امت واحدہ

قرآنی آیات کی روشنی میں

(والد مرحوم کے خیالات کو مرتب کیا )

 عابده رحماني

         قرآن پاک میں سورہ انبیاء آیت 92 اور المومنون آیت 52 میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یہ امت ،امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری ہی عبادت کرو۔ سورہ صف آیت چار میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ بیشک   اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر جہاد کرتے ہیں جیسے کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوارہو۔

آل عمران آیات نمبر 103 ۔اللہ کی رسی (یعنی قرآن اورا تباع رسولﷺ) کو مضبوطی سے تھامو اورتفرقے میں نہ پڑو (علاقائی تقسیم، جغرافیائی اور انتظامی) آیت نمبر 105 اورنہ ہو جاؤ ان لوگوں کی طرح جو دین میں تفرقہ ڈالتے ہیں اورایسے لوگوں کے لیے عذابِ عظیم ہے۔

سورہ بقرہ آیت 208 اے ایمان والو دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ (قرآن کریم کی مکمل پیروی کرو اور اسوۂ رسولﷺ کی مکمل اتباع) شیطان کے خواہشات کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

سورہ انفال آیت 46، پس اطاعت کرو اللہ کی اور رسولﷺ کی (بحیثیت فرد اور امت) پس تنازعے میں مت پڑو (مختلف قوموں میں تقسیم نہ ہوں) ورنہ تم بکھر جاؤ گے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، تمہاری رعب داب بحیثیت قوم(امت) ختم ہو جائے گی اور صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (صبر سے مراد استقامت اور ڈٹ جانا ہے)۔ سورہ انفال 60تا 66 دشمنان امت کے مقابلے میں پوری امت ایک امام، ایک مرکز، ایک جھنڈے تلے پوری قوت سے تیاری کرے۔
پلے ہوئے گھوڑوں (زمانے کے لحاظ سے جدید ترین اسلحہ) اور اس بارے میں جو بھی مال و قوت خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں تو اس کا پورا کا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا۔

مندرجہ بالا قرآنی آیات کی رو سے تمام مسلمان ایک امت اور ملت ہیں۔ حدیث مبارکہﷺ ہے تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتو پورا جسم تکلیف سے متاثر ہو گا یہ مثال ہمارے عام مشاہدے کے لئےبیحد سہل ہے۔ اب ایک جسم کو اگر 55 حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ جسم مردہ ہو جائے گا۔ جب جسم کی روح نکل جائے گی تو پچپن ٹکڑوں میں منقسم یہ جسم بالکل بے کار اور مٹی میں دفنانے کے قابل رہ جائے گا۔

میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں ملت اسلامیہ کے پچپن ٹکڑوں میں منقسم اس بے جان لاشے کو دیکھتا ہوں۔یہ امت جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی امامت کے رتبے پر سرفراز کیا، جس کے لیے سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا۔ تم ہی وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا (پیدا کیا گیا) تم نیکی کا حکم دیتے ہوء، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ 

سورہ الصف میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ وہی ذات ہے جسنے رسولﷺ کو بھیجا ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے چاہے مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

جب تک مسلمان جسم واحد کی طرح آپس میں جڑے رہے۔ تمام دنیا پر ان کا رعب ودبدبہ رہا اور جب وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے تو وہ مغلوب ہو گئے۔ ذلت کے گڑھے میں گر گئے، پستی و خواری ان کا مقدر بن گئی اور باطل نظاموں کے کاسہ لیس ہوگئے۔

اس ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکلنے کا واحد ذریعہ اور راستہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ہے اور یہی ان کامیابیوں کو حاصل کرنے کی کنجی یا ماسٹر کی Master Key ہے سورہ نساء آیت 69 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ کی اور رسولﷺ کی اس کی ہمراہی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گی اور یہ کتنے بہترین رفیق ہیں۔ دنیا کی فانی زندگی میں اپنا معاشرتی مقام اونچا کرنے کی جدوجہد میں ہماری پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ کیا آخرت کی دائمی زندگی کے اس اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونے کی ہم نے کوشش کی ہے کہ وہاں پر ہمارا ساتھ وی آئی پیز VIPs کے ساتھ ہو۔ اس اعلیٰ ترین درجے پر پہنچنے کے لیے میدان کھلا ہے، داخلہ عام ہے بس تقویٰ ایمان صالح، تزکیہ نفس، اتباع رسولﷺ کی ضرورت ہے۔ لمحہ بہ لمحہ قدم بہ قدم۔ آل عمران 31 ، القلم 4 ، توبہ128 آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، پس میری اتباع کرو اللہ تمہیں محبوب رکھے گا اورتمہارے گناہوں کو بخش دے گا اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اتباع رسولﷺ اللہ کی محبوبیت حاصل کرنے کا بہترین گر ہے اور محبوب سبحانی سے بڑھ کر کیا درجہ؟ دنیا کی امامت پر دوبارہ سرفراز ہونے کے لیے۔

اب یہ امت مسلمہ واحدہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے کر اس کو حاصل کرے۔ لوگ تو ایک گاؤں کی سرداری اور عمارت کو حاصل کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کرتے ہیں مگر ہم لوگوں نے اپنے اس اعزاز کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اور انتہائی کم تر امارات پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے بلکہ اس کے لیے آپس ہی میں ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ حزب شیطان کے چیلے اورمغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئے ہیں۔
علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

صرف ایمان کے زبانی اقرار سے کام نہیں بنے گا جب تک کہ ہمارا قلب اس کی تصدیق نہ کرے اور عمل صالح اس کا ثبوت فراہم نہ کرے۔ آل عمران آیت 19 بیشک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ اللہ کے اس دین پر خلوص، باہمی مشاورت، ذہانت،حکمت، محبت، رواداری اور تنظیم کے ساتھ ٹھوس اور موثر منصوبہ کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

محمدﷺ نے پانچوں وقت کی نماز باجماعت، جمعہ، عیدین، حج، اور نظام زکوٰۃ کو عملاً قائم کرکے دکھایا۔ زکوٰۃ ایک ہی اتھارٹی بیت المال کے ذریعے وصولی و تقسیم کے عملی احکام ہیں۔ کوئی جتھہ چھوٹا یا بڑا بغیر امیر کے شتر بے مہار نہیں چھوڑا۔ حساب اور احتساب اسی وقت اور ہر وقت مفت (بغیر بے شمار کمیشن، رشوت، سفارش اور تنخواہ دار مشیروں کے)۔ حضوؐر کی پوری زندگی اور صحابہ کرام کی عملی پیروی ہم پر فرض ہے ایمان و عمل صالح، تقویٰ اور تزکیہ نفس کے ساتھ۔

پاکستان ان ٹکڑوں میں منقسم جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس لیے تو ہر جگہ مار پٹائی اور ذلت و رسوائی ہو رہی ہے۔ انگریز تو خیر پرانا آقا رہا ہے اور اب یہ آقا امریکہ کی صورت میں ہے۔ یہود و ہنود بلکہ روس (منکراللہ) کے ہاتھوں تمام دنیا میں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے۔ صد افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو ایسے حالات میں حزب شیطان کو جگری دوست بناتے ہیں، ان کی پیروی کرتے ہیں، ان کے تمام افعال قبیحہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کا دیا ہوا عقل، طاقت اور مال ان کی پیروی میں برباد کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کے پاس اللہ کی دی ہوئی کتاب قرآن مجید اورحضوؐر کی سنت رہنمائی کے لیے موجود ہے اگر اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنے گناہوں پر تائب ہوں اورصدق دل سے حضوؐر کی اتباع کریں۔ حضوؐر کی زندگی کے ہر پہلو پر پوری توجہ دیں اور اس کی اتباع کرنے کی کوشش کریں تو یہ تمام کامیابیوں کی کنجی ہے۔

اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک طالب علم امتحان کے ایک پرچے میں 80فیصد نمبر حاصل کرلے دوسرے میں 20 فیصد اورتیسرے میں 25 فیصد تو ظاہرہے کہ مجموعی طور پر وہ ناکام ہوگا اور صرف اپنے پسند کے مضامین میں پاس ہونے سے وہ پاس نہیں کہلائے گا اگر پاس مارکس 30 فیصد ہوں اورہرپرچے میں 33یا 35 حاصل ہوں تو جب وہ پاس ہوگا اور اعلیٰ نمبروں کی کامیابی کا کیا کہنا۔ اس لیے ہر مسلمان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے کا پورا دین میں داخل ہو اور دین کے ہر شعبے پر عمل پیرا ہو۔

حضوؐر مومنین پر رؤف و رحیم ہیں حضوؐر کے خلق عظیم اور رحمتہ اللعالمین ہونے کی پیروی کر کے ہم ایک انتہائی اعلیٰ اور باکردار مسلمان ہو سکتے ہیں۔ جرمن پھر متحد ہو گئے، یورپ کے ممالک جو کہ ہمیشہ برسرپیکار رہتے ہیں۔ اب مختلف انتظامی معاملات میں متحد ہو رہے ہیں۔عالم اسلام میں چھوٹی بڑی کئی تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان میں سے بیشتر غیر مؤثر ہیں۔ او آئی سی، عرب لیگ اورگلف کونسل وغیرہ۔ سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کی طرز پر اسلامی اقوام متحدہ قائم کی جائے اس لیے کہ موجودہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے لحاظ سے ایک بالکل ہی نام نہاد ادارہ ہے بلکہ دشمنان اسلام کا گڑھ ہے۔ اس لیے تمام عالم اسلام ایک اپنا اقوام متحدہ تشکیل دے جس میں عالم اسلام کو قریب لانے کی کوششیں ہوں ان کے مسائل کے حل کے لیے ان کے اتفاق و اتحاد کے لیے پلیٹ فارم بنایا جائے۔

کیا یہ خواب جو کہ میں اکثر دیکھتا ہوں قیامت سے پہلے حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے کہ تمام عالم اسلام متحد ہو کر ایک حکومت بن جائے، ایک مرکز، ایک امام یا خلیفہ، ایک ہی جھنڈا، ایک ہائی کمان، ایک عظیم الشان قوت؟ جس کے خیال سے ہی دشمنان اسلام کو تھرتھری آجائے۔ کیوں نہیں اللہ کی ذات سے میں مایوس نہیں ہوں۔ البتہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ 

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا





عابدہ

Abida Rahmani

Monday, June 16, 2014

اعتراف


اعتراف 

اعتراف--
از عابدہ رحمانی
اس نے آنکھیں کھول کر اپنے اطراف میں دیکھا ، اس وقت اس کی تکلیف کافی کم تھی اور وہ پوری طرح ہوش میں تھی، دیوار پر لگے ہوئے مانیٹرز اس کے دل اور نبض کی رفتار بتا رہے تھے۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں مختلف شکنجوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جیسے کسی بڑے جرم کی پاداش میں اسے پا بجولاں کرکے ڈالا گیا ہے۔ ڈرپ میں ڈالی ہوئی دوائیاں اس کی رگوں میں سرایت کر رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ اور پاؤںمن من بھر کے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک آہ بھری انسان کتنا بے بس ہے۔ کتنا بے بس۔
یہ شہر کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے ہسپتال کا انتہائی نگہداشت کا وارڈ تھا۔ زندگی کی دوسری نمائشی چیزوں کی طرح یہاں پر داخل ہونا بھی ایک اسٹیٹس سمبل تھا۔ نمعلوم کیوں اب اسے یہ سب کچھ بڑا ہیچ معلوم ہورہا تھا۔ انجام کار تو اسی مٹی میں مل جانا ہے۔ پھر یہ سارے دکھاوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ڈاکٹروں نے اس کی حالت کے پیش نظر اس وقت ملاقاتیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ سارے عزیز ، رشتہ دار، دوست احباب ایک کے بعد ایک آنے والوں کی لائن لگی رہتی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ان میں کتنے لوگ ہیں جو حقیقتاً اس کی اس حالت پر افسردہ اور پریشان ہیں۔ کتنوں کو اسے اس طرح دیکھ کر اطمینان ہو رہا ہو گا۔ وہ لوگ آتے اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھتے ، آنسو بہاتے تو اس کے کرب میں اور اضافہ ہوتا۔
وارڈ میں زندگی اور موت ہم آہنگ تھی۔ مریضوں کے کراہنے اور ان کے عزیز رشتہ داروں کی سسکیاں لینے کی آوازیں وقفے وقفے سے آ رہی تھیں۔ لیڈی ڈاکٹرنیاں رنگ برنگے لباس پہن کر اوپر سفید کوٹ پہنے ہوئے آئیں تو ماحول میں ذرا دیر کو رنگ آ جاتا۔ ورنہ ہر طرف سفید رنگ غالب تھا۔ نرسیں اور ڈاکٹر اس ماحول کے عادی تھے اور شاید احساس سے عاری ، کبھی کبھی ان کی ہلکی سی کھٹکتی ہنسی یا سرگوشیوں کی آوازیں آتیں تو اسے زندگی کا احساس ہوتا۔اس نے آنکھیں موند لیں۔ نرسوں کی ڈیوٹی بدل رہی تھی اور اپنی ساتھی نرس کو سمجھا رہی تھی کہ اسے کیا کیا دینا ہے۔
"’’Chronic کرانک پیشنٹ ہے بالکل Hopeless ہوپ لیس کیس ہے بس ڈاکٹر اپنی کوشش کر رہے ہیں ‘‘ نرس نے ڈیوٹی پر آئی ہوئی نئی نرس کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
 ان کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں تھا اس قسم کے کسیز سے ان کا روز کا واسطہ تھا ۔اسے عجیب سی بے قراری محسوس کی دم نکلتے وقت کیسا محسوس ہو گا پھر اسے محسوس کیا جیسے کہ منوں مٹی کے نیچے اسے دبایا جا رہا ہے۔ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی ، نرس اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ سب آلات کو چیک کیا، ڈرپ کی رفتار دیکھی، اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی ’’کیا طبیعت زیادہ خراب لگ رہی ہے؟‘‘
’’سسٹر میرے گھر والوں کو بلا دیں میری طبیعت بہت گھبرا رہی ہے‘‘
’’اچھا دیکھیں میں ڈاکٹر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
اس پر پھر غنودگی چھا گئی۔کیسی بے چینی تھی ، کیسی بے کسی ، لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے ہوئے۔ موت ایک نہ ایک دن آنی ہے لیکن اس سے ہم آغوش ہونا کتنا مشکل ہے۔ کتنا تکلیف دہ، وہ کوئی زیادہ مذہبی نہیں تھی لیکن اس وقت جب کہ اسے یقین ہو چکا تھا کہ فرار کی کوئی صورت نہیں اسے جو کچھ یاد تھا اسے زیرلب دہرا رہی تھی۔ اب تو وہ اپنی صحت یابی کی دعائیں مانگتے مانگتے بھی تھک چکی تھی۔
اور  بس موت کا جان لیوا انتظار تھا۔
وہ کس قدر شوقین تھی ، زندہ دل اور محفلیں سجانے کی شوقین ، اپنے ٹھنڈے یخ ہاتھ پر گرم گرم لمس محسوس کرکے اسے آنکھیں کھولیں یہ اس کا شوہر تھا۔ الجھے بال ، سستا ہوا چہرہ ، سوجی آنکھیں وہ کس قدر پریشان اور سراسیمہ تھا۔
اس نے مسکرانے کی ناتمام کوشش کی ۔وہ بالکل خاموش تھا ۔کیا کہتا اب کہنے اور سننے کو کیا باقی تھا۔ وہ 35 برس کی ساتھی تھی لیکن جتنی توجہ اور محبت وہ اسے پچھلے کچھ عرصے سے دے رہا تھا پہلے دیتا تو شاید وہ اتنی جلدی موت سے شکست نہ کھاتی۔ اس نے تو اسے جیتے جی تاج محل میں دفن کر دیا تھا۔ اسے دنیا کا ہر آرام ،ہر آسائش حاصل تھی۔ عالی شان مکان ، اعلیٰ سے اعلیٰ ضروریات زندگی ، نوکر چاکر اس قدر عیش و آرام جس کا کوئی شاید ہی تصور کر سکے اور شاید اسی لیے وہ اس کی کمی کو اتنی شدت سے محسوس کرتی۔ اسے کتنی خواہش تھی کہ وہ اسے وقت دے، اسے گھمائے ، دنیا دکھائے ، اسے دنیا دیکھنے کا کتنا شوق تھا۔ لیکن اسے تو بس ایک ہی دھن تھی کمانے کی ، زیادہ سے زیادہ کمانے کی ، دن رات وہ اسی دھن میں رہتا۔ پھر اس کے فارن ٹرپ ہوتے تو زیادہ تر  اکیلے  وہ جانے کو اصرار کرتی تو وہ سمجھا تا۔ ’’بھئی تم ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے بور ہو جاؤ گی میری وہاں کافی مصروفیات ہیں گھومنے پھرنے کا وقت کہاں ہے۔‘‘
یہ بات جب کئی مرتبہ دہرائی جا چکی تو اس نے اپنے آپ سے عزم کر لیا اب میں ان کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی اور پھر وہ دونوں اپنی اپنی ذات کے حصار میں بند ہو گئے۔ دونوں زیادہ تر اکیلے ہی گھومتے پھرتے۔ سوائے قریبی رشتہ داروں کے جہاں ایک ساتھ جانا لازمی تھا۔
شوہر اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا شوقین تھا۔ ہر وقت نئے نئے منصوبے بنتے۔ جن میں کچھ تو پایۂ تکمیل تک پہنچتے اور کچھ ادھورے رہ جاتے لیکن وہ اپنی دنیا میں مگن تھا۔ جب  کوئی شنوائی نہ ہوئی تواس نے اپنے بچوں کے ساتھ الگ دنیا بسا لی۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ان سے دوستوں جیسے تعلقات ہو گئے۔ وہ ان سے اپنا سارا دکھ سکھ کہتی ، گلے شکوے سناتی۔" دیکھو آج تمہارے ابو نے پھر اتنی دیر کر دی ۔" پھر تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ بچے امی کو سمجھانے لگے۔
 وقت کتنی تیزی سے گزر رہا تھا۔دو بچوں کی شادیاں ہو گئیں ، گھر میں بہوئیں آ گئیں تو گھر کی رونق میں مزید اضافہ ہو گیا ، وہ بڑی مختلف قسم کی ساس ثابت ہوئیں۔ بہت ہمدرد ، نرم دل اور شفیق ، بہوؤں پر نہ تو کوئی اعتراض تھا نہ ان کے معاملات میں مداخلت ، وہ آتیں پاس بیٹھتیں ، باتیں کرتی تو ساس بہوؤں میں خوب گپ شپ چلتی۔
کئی روز سے اسے پیٹ میں ہلکا ہلکا درد تھا پھر بخار رہنے لگا ، ڈاکٹر کو دکھایا اس نے دوائیاں دیں ، کچھ افاقہ نہ ہوا تو مزید ٹیسٹ کروا ڈالے اور پھر اس جان لیوا بیماری کا انکشاف ہوا ۔ گھر والوں نے اپنے طور پر اس سے یہ بات چھپا ڈالی تھی۔ لیکن اسے سب کچھ معلوم تھا۔ وہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہی تھی۔ جیسے کہ کچھ نہیں جانتی ، لمحہ لمحہ موت کے منہ میں جاتے ہوئے اسے نے اپنی خوش مزاجی میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے کہ اسے کچھ پرواہ ہی نہیں۔ گھر والے بھی اسے ہنستا بولتا دیکھتے تو ان کے چہروں پر ذرا رونق آ جاتی۔
اسے اپنے شوہر سے بھی اب کوئی گلہ نہیں تھا اسے یوں لگتا تھا کہ وہ اسی دن کے لیے تو اتنا کما رہا تھا کیونکہ اس بیماری میں جس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے (لاعلاج بیماری) میں روپیہ بھی پانی کی طرح بہ رہا تھا۔ ڈاکٹروں ، لیبارٹریوں اور ہسپتال کے لمبے لمبے بل ، پھر ایک دن اس کے شوہر نے اسے علاج کے لیے بیرون ملک لے جانے کا پروگرام بنا دیا۔ تو وہ بلک بلک کر روئی۔ اسے کتنا ارمان تھا وہاں پر سیر و تفریح کا لیکن وہ کبھی نہیں گئی اور اب اسے مرتے دم وہ وہاں لے جا رہا تھا۔ وہ نہیں جانا چاہتی تھی ۔ نہیں میں اپنے بچوں کے پاس مرنا چاہتی ہوں لیکن سب کے اصرار پر جانا پڑا۔
وہاں پر صبح سے شام تک ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکر اور پھر ڈاکٹروں کا مایوس کن جواب کہ کوئی امید نہیں ہے۔وہ گھر واپس پہنچی تو بے حد کمزور اور نڈھال ہو گئی تھی یوں لگتا تھا کہ اس دوران اس کی زندگی کے لمحات اور مختصر ہو گئے ہوں۔
ٹپ ٹپ اس کے چہرے پر گرم گرم قطرے گرے تو اس نے آنکھیں کھولنے کی ناتمام کوشش کی۔ ’’کون ہے۔‘‘ ایک نیم غنودگی کی حالت میں اس نے پوچھا۔
’’
نرگس نرگس خدا کے لیے آنکھیں کھولو میں ہوں جاوید۔‘‘
’’
جاوید ، جاوید ، جاوید ‘‘ وہ اس کا نام دہرانے لگی جیسے کہ رٹ رہی ہو پھر اس نے پوری توانائیوں سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔
’’
نرگس !دیکھو آج میں تمہارے سامنے اعتراف کر رہا ہوں کہ تم ہی میری زندگی کی پہلی اور آخری عورت ہو، تمہیں میں نے ہمیشہ چاہا ہے اور ہمیشہ چاہتا رہوں گا ، ہو سکتا ہے تمہیں مجھ سے کچھ شکایتیں رہی ہوں ، مجھے معاف کر دو ‘‘وہ سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔
اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا ۔ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر ہاتھ کی گرفت آپ ہی آپ ڈھیلی پڑ گئی۔ لگتا تھا کہ اسے اسی اعتراف کا انتظار تھا۔

Thursday, June 12, 2014

کیا وہ خواب تھا

کیا وہ خواب تھا  

ایک ماں کا حقیقت پر مبنی خواب جسکے جگر گوشہ کو عین عالم شباب میں  ظالموں قاتلوں  نے چھین لیا ------- 

عابدہ رحمانی

روتی بلکتی تڑپتی ماں نے اسے دور سے ہی پہچان لیا تھا --وہ بھی جیسے منتظر تھا لپک کر دوڑکر اسکے پاس آیا دونوں ایک دوسرے سے وارفتگی سے لپٹے ماں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے مل پائیگی وہ تو اسے ان اتاہ تاریکیوں میں  کھو چکی تھی ، ظالموں، قاتلوں نے اسکے جگر کے ٹکڑے کو بے دردی سے  چھین لیا تھا-اسپر ایک بے یقینی کی سی کیفیت طاری  تھی کاش یہ لمحات امر ہوجائیں اور پھر جدائی مقدر نہ ہو------  وہ اسے دیکھنے اس سے ملنے کے لئے کسقدر تڑپ رہی تھی یہ وہی جانتی تھی-شروع میں تو دونوں جیسے گنگ تھے وہ وارفتگی میں اسے لپٹائے اور چومے جارہی تھی گیارہ برس کی عمر میں باپ کا سایہ آنا فانا جب اسکے سر سے اٹھ گیا تھا تو وہ دونوں ایک جان دو قالب بن گئے  کتنا بڑا ہوا لیکن سوتا ماں ہی کے ساتھ تھا دونوں کو ایک دوسرے کے بغیر نیند ہی نہ آتی تھی- بیچ میں تکیہ ڈالدیتا تھا امی یہ آپکا اور یہ میرا سائڈ -- بھائی اور عزیز رشتہ دار چھیڑتے " یار اب بڑے ہوگئے ہو- امی کابستر کب چھوڑوگے" اور پھر وہ اچانک ایسا بڑا ہوا ایک شاندار وجیہ شخصیت کا مالک اور اسدن تو ماں سکتے میں آگئی جب اسنے اپنی ایک ہم جماعت سے شادی کا اظہار کیا اور اپنی بات منواکر ہی چھوڑی ابھی محض منگنی ہوئی تھی اور شادی کی تیاریاں شروع تھیں--
 --باقی تینوں بھائی بڑے تھے اور وہ سب کا چھوٹا، راج دلارا ، سب کا پیارا، سب کی آنکھ کا تاراتمام عزیز و اقارب بھی اس پر جان چھڑکتے تھے - اسکے دل میں کسی کے لئے نہ کینہ تھا نہ بغض ،عادتیں ایسی دل موہ لینے والی گھر کے ملازموں کا چھوٹوں بڑوں سب کا دوست، سب کا ساتھی سانجھی ---

امی میرا پیزارکھ دیں میں ابھی واپس آکر کھاؤنگا اسنے گھر سے جاتے ہوئے یہ آخری جملہ کہا تھا اور پھروہ واپس آیا تو کس کیفیت میں -------------------------------------
 اس ماں کی دنیا بری طرح لٹ گئی تاریک ہو گئی ، درہم برہم، تخت و تاراج ہوگئی --- ماں نہ زندوں میں نہ مردوں میں بس اللہ ہی جتنا بوجھ ڈالتا ہے اسے جھیلنے کا  حوصلہ اور سہارا بھی دے دیتا ہے --  ماں کا ایک ہی جملہ تھا
کوئی مجھے بتاؤمین نے کسی کا کیا بگاڑا تھا -میں تو بھلائی کرنے چلی تھی-
میں کسکے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں --تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
حیات بعدالموت کا فلسفہ اسکے ذہن میں بچپن سے گہرا تھا --اکثر کہتا مرنے سے انسان ختم تھوڑے ہی ہو جاتا ہے ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں منتقل ہو جاتا ہے-- زندگی تو جاری رہتی ہے - یہ تو ایک نہ ختم ہونیوالا  تسلسل ہے - شاید بچپن میں اپنے والد کی اچانک موت نے اسکا یہ ادراک گہرا کر دیا تھا--
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا
----------------------------------------------------
 ماں کے ذہن پرایک دھند سی  طاری تھی اور پریشانی بھی  کہ یہ ملاقات کہیں ختم نہ ہو جائے اسکے پاس سوالات کا ایک انبار تھا لیکن لگتا تھا الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ہیں --
-یہ ایک بہت بڑا پر ہجوم ہال تھا ایک جم غفیر لگا ہوا تھا ایک خلقت آجا رہی تھی جیسے کہ یہ ایک اسقبالیہ ہو یا ایک انتظار گاہ-- اسنے بتایا امی یہ سب لوگ ابھی ابھی آئے ہیں جیسے وہ انتظار میں بیٹھے تھے کہ انکو اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ کیا جائے گا -
تم ٹھیک تو ہو نا کوئی دکھ۔ پریشانی کوئی تکلیف -- آخر اسنے پوچھ ہی لیا 
 امی یہاں نہ کوئی دکھ ہے ، نہ کوئی غم میں بہت خوش ہوں بہت آرام ہے میں جو چاہتا ہوں مجھے مل جاتاہے - بس آپ بہت یاد آتی ہیں -- اسنے ماں کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا--
اور جب تم گئے تھے تو کیا ہوا تھا میرے بچے --" امی دو سفید لباس پہنے ہوئے نورانی صورت آدمی آئے انہوں نے کچھ سوال جواب کئے میں نے جواب دیا لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ -اسکے بعد مجھے آرام سے یہاں پہنچا دیا گیا-اور امی میں وہاں رہتا ہوں اسنے بلندی پر ایک خوبصورت عمارت کی طرف اشارہ کیا - نانا اور میں ساتھ رہتے ہیں --
بیٹا نانا کیسے ہیں ؟ امی وہ تو یہاں آکر بالکل جوان ہوگئے ہیں -
ماں کو پورا ادراک تھا کہ یہ عالم جاودانی  ہے --
یہاں تو تم پیغمبروں کو بھی دیکھتے ہوگے-- اورکیا یہاں تم لوگ نماز پڑھتے ہو--؟ اسنے اسکا جواب نہ دیا - اتنے میں ایک عورت بڑے سے برتن میں بڑی بڑی پامفرٹ کی طرح تلی ہوئی مچھلیا ں لائیں اسنے ایک مچھلی ماں کو تھمائی--
اسنے لپک کر مچھلی ماں سے لیکر عورت کو واپس کردی ،" امی یہاں تھوڑی دیر کیلئے آئی ہیں اور یہاں کا کھانا نہیں کھا سکتیں--- نہیں نہیں میں یہاں اچکی ہوں -- میں آچکی ہوں ؐیں یہاں سے نہیں جاؤنگی  بالکل نہیں جاؤنگی---
اچانک اسکی آنکھ کھلی ماں کا چہرہ آنسوؤن سے تر تھا لیکن کیا وہ خواب تھا---

 غم سے نڈھال , دکھ سے چور ماں کو کچھ کچھ سکون آچلا تھا کہ اسکا جگر گوشہ سکون اور اطمینان سے ہے --