Wednesday, October 30, 2013

Dhundo ge agar mulkon Abida parveen

http://www.youtube.com/v/_f52whLqLU4?version=3&autohide=1&feature=share&autohide=1&attribution_tag=bdvCdeMcyLfYa6ZhdSMHiw&showinfo=1&autoplay=1

Tuesday, October 29, 2013

Eid ul Adha Mubarak !

مبارکمبارک


عابدہ رحمانی

وقت بدلا حلات بدلے ملک بدلے تو عید کے طور طریقے بھی بدل گئے ایک شہر کے ایک گھر میں ایک زمانے میں عید کی ساری ٹینشن ساری پریشانی ایک ہی خاتون کو ہوا کرتی تھی چاہے وہ عیدالفطرہو یا عیدالالضحی کا موقع ، بس یہی فکر کہ کہیں پر کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوکسی قسم کی کمی نہ رہ جائے ہفتوں پہلے تیاریاں شروع ہو جاتیں ، سب کیلئے کپڑے نئے تیار ، سوتی کپڑوں میں کلف لگی ہوئی  ہو، استری کئے ہوئے ، آزاربند ڈلے ہوئے، جوتے ، چپل نئے ہوں تو بہتر، گھر میں کوئی لڑکی تو تھی نہیں اسلئے لڑکیوں والے تکلفات تو نہیں تھے لیکن لڑکوں کے اپنے مطالبے اور شوق-- گھر صاف ستھرا چھم چھم کرتا ہوا عید پر پکوان کی تیاریاں، میٹھا بھی ، نمکین بھی ہو ، دو تین اقسام کی سوئیاں، مٹھائیاں، دہی بڑے ،کباب، چٹنیاں-- بقر عید پر یہ مصروفئیت اور تیاری قربانی کے جانور کےآنے سے اور بڑھ جاتی -قربانی کا جانور منڈی سے لانا اگرچہ مردوں اور لڑکوں کا کام تھا-جانور لانے کا بھی کیا مرحلہ ہوتا تھآ- گھر کے بچے قربانی کے جانور کی خاطر مدارات میں لگ جاتے - گلی محلے، اڑوس پڑوس سے بکروں کے ممیانے اور گائیوں کے ڈکرانے کی آوازیں آرہی ہوتیں سڑکوں کے نکڑ پر چارہ، گھاس اور چنے بیچنے والے بیٹھ جاتے--  -- مصالحے کون کونسے ڈالے جائیںگے  ابھی شان مصالحوں کا چرچا نہیں تھا 
جمعہ بازاروں کے چکر اتوار بازار عید بچت بازار گھر کے کسی فرد کا کسی ملازم ،ملازمہ کا جوڑا نہ رہ جائے ، درزیوں کے چکر اور پھر سب کو عید کے لئے تیار کرنا اور بقر عید پر گوشت کا  بانٹنا ،سمیٹنا ، پکانا عزیز و اقارب کی   خاطر تواضع شام کو سیخیں لگانا ، تکے ، بہاری کباب اور نہ جانے کیا کیا؟   ایپرن پہننے کے باوجود خاتون کے کپڑے گوشت کی خوشبو یا بد بو میں بس گئے ہوتے تھےٓ
 بقر عید میں  نماز کے فورا بعد قصائی کی ڈھونڈھیا، جیسے تیسے جانور ذبح ہوا تو  " بس آپکی کلیجی نکال کر قریشی صاحب کا بکرا گرا کر آتا ہوں - پھر آکر آپکی تکا بوٹی ، چانپیں ،سری پاۓ سب بنوادونگا  " اور جسکو سب سے زیادہ قربانیوں کا شوق تھا اسکی تو پھر جیسے  بات ہی نہ ٹالی جاتی قصائیوں تک سے دوستی ہوگئی ، پھر تو قصائی ایک آدھ روز پہلے خود ہی آجاتا جانور کو پانی پلاکر نہلا دینا میں اتنے بجے تک آجاونگا-سب حیران یہ قصائی کو کیا گیدڑ سنگھی سونگھائی ہے ایسا رام کر لیا ہے- اس مبارک صبح وہ اس گھر کا خاص   الخاص مہمان ہوتا تھا دو یا تین ہوتے تھے- مشہور تھا کہ بقر عید میں ہر کوئی چاقو ، چھری سنبھال کر قصائی بن جاتا ہے-تازہ تازہ کلیجی نکال کر اسکے پارچے کاٹ کر تل دئے جاتے-یہ انکے ہاں کی مخصوص ڈش تھی- احباب بھی فرمائش کرتے-  حصے بخرے کرنا، مانگنے والوں کی ایک لائن لگ جاتی، ملازم پہلے سے تلقین کردیتے ہمارا حصہ تو فریزر میں ڈالدیں وہ سوچتی چلو اسطرح شائد ثواب میں مزید اضافہ ہو- کھالوں کے لئے پہلے سے تعئین ہوچکا ہوتا تھا کس کو دینی ہے ورنہ  شہر میں کھالوں کی چھینا جھپٹی بقر عید پر ایک معمول تھا،بہت پہلے ایک جماعت کی اجارہ داری تھی - اسکے اوپر دوسری تنظیم جو غالب آئی تو شہر اور ووٹوں کے ساتھ ساتھ کھالوں پر ایسا قبضہ جمایا کہ لوگوں کو جانور کے ساتھ اپنی کھالوں کے لالے پڑ گئے--
 اور اگر کارپوریشن والوں نے غفلت برتی تو ڈھیروں پڑی ہوئی اوجھڑیاں اور دیگر آلائیشیں جو تعفن پھیلاتیں کہ خدا کی پناہ-- سانس لینا دوبھر ہوجاتا--

 ایک مرتبہ اسکی بقر عید امریکہ میں گزری -توبہ توبہ یہ بھی کوئی عید ہے ٹھٹھروں ٹوں ایک گھر میں عید باقی تمام شہر جانتا بھی نہیں کہ آج عید ہے -خاتون خانہ اپنی جاب پر تھیں ایک کوشر کلیجی منگوا کر پکائی اور عید کا قدرے اہتمام ہوا لیکن اسنے کان پکڑے کہ ائیند ہ اس ملک میں عید کبھی نہیں منانی- اسکا بڑا بول شائد اللہ کو بھی پسند نہ آیا حالا ت نے ایسا پلٹا کھایا کہ اسکی قیام گاہ یہی ممالک بن گئے اور عید منانے کی" ہمت ہر کس بقدر او است، کے مصداق کوئی تو اسے واقعتا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے ایک قابل ذکر دن بنانا چاہتا ہے -وہ جو دین سے منسلک ہیں وہ کوشش میں ہیں کہ اس دن کو خوب دل کھول کر منائیں اور ہر طرح سے اہتمام کریں ، گھروں کو سجائین ، قمقمے لگائین ، بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایسی محفلوں میں لے جائیں تاکہ انکو اس روز کی اہمئیت کا احساس ہوٓ اور کچھ ہو نہ ہو اسلامک سنٹرز جاکر نماز عید کی آدایئگی  ان ممالک کا خاصہ ہے اور یہ پہلو پاکستان میں اسکی زندگی سے غائب تھا- کیا لطف آتا ہے ہر رنگ اور ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ملکر-جتنا بڑا اجتماع اتنا ہی تنوع- اکثر مساجد میں نماز کے بعد اہتمام خورد و نوش بھی ہوتا ہے ورنہ بعد میں عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں ہر چیز ایک منظم انداز سے  - اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کافی پروگرام بن جاتے ہیں وگرنہ اکثر اسکولوں اور کاموں سے چھٹی لینا دشوار ہوتا ہے -جو بھی کرلیں اس ماحول کو بنانے کےلئے خوب تگ و دو کرنی پڑتی ہے  اب تو بڑے شہروں میں کچھ معلومات مقامی لوگوں کو حاصل ہو گیئ ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی تہوار ہے ورنہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟--
اس مرتبہ  بقر عید بدھ کے روز یعنی 15 اکتوبر کو ہوگی اور مصدقہ اطلاع ہے کہ ہلال کمیٹی والے سولہ اکتوبر اور جمعرات کو کر رہے ہیں- اسی کو دیکھ لیجئے مسلمانوں کی تفرقہ بازی ، جو کہ حد درجہ افسوسناک ہے لیکن جسکا کوئی حل نظر نہیں آتا---عید پر  اوپن ھاؤس یہیں کا خاصہ ہیں وقت طے کرکے احباب کو مطلع کر دیا جاتا ہے کہ میرے ہاں دوپہر 12 بجے سے شام 5 بجے تک اوپن ہاؤس ہے- صاحبان خانہ مختلف پکوان تیار کرکے رکھ دیتے ہیں اور مہمانوں کا سلسلہ وقت مقررہ تک چلتا ہے تحفے تحائف کا خوب تبادلہ ہوتا ہے بچوں کے خوب مزے ہو جاتے ہیں-- نیئ تہزیب سے بہت سی نئی اور اچھی باتیں سیکھ لیگیئ ہیں--اس مرتبہ اوکول کینیڈا میں اکنا کی طرف سے عید کے روز پروگرام تھا -" ایک کھلونا اپنے بچے کیلئے اور ایک پڑوسی بچے کے لئے لے جائیں " اور یہ پروگرام وہاں سٹی ٹی وی سے براہ راست دکھایا گیا- مسلمان گروہ بہت سارے تفریحی پارکوں کو بک کر دیتے ہیں  اسطرح مسلم کمیونٹی کو آپس میں ملنے کے اور سیر و تفریح کے مواقع مل جاتے ہیں-
 رہیںقربانیاں اور اسکا اہتمام، دنیا رفتہ رفتہ جدت پسند ہوتی جارہی ہے اب تو حج میں بھی ٹوکن سسٹم ہوگیا ورنہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا کتنا مشکل کام ہوتا تھا - یہ شعبہ تو زندگی سے  جیسےخارج ہوگیا اللہ سلامت رکھے اپنے پیاروں کو انکے توسط سے قربانیاں یا تو مادر وطن میں ہورہی ہیں یا پھر آن لائن خیراتی ادارون کے ساتھ وہ خوش کہ انکو وافر مقدار میں گوشت میسر آگیا ورنہ پاکستان میں گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اور یہاں کی قربانیوں کا کیا کہنا  کسی کسی فارم میں اجازت ہے کہ آکر اپنے جانور پر چھری پھیر دو لیکن وہ بھی ہزار تکلفات کے ساتھ  البقرقی میں ایک فارم تھا مالک غالبا اردن کا عیسائی تھآ - وہاں جانور خرید کر قربانی کرو  تو  وہ اسوقت تازہ کلیجی نکال کر دے دیتا تھا  ایک صاحب کے متعلق سنا تھا کہ وہ اپنے باتھ ٹب میں لاکر بکرا ذبح کرتے تھے  خوش قسمت تھے جو بچ گئے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا آجکل پاکستان میں اچھے عھدے پر فائز ہیں- ورنہ قربانی کا گوشت عموما تیسرے روز ملتاہے وہ بھی انکی مرضی سے جیسے کاٹ کردیں پچھلی بقر عید پر ران رکھنے کو کہا تو ثابت سری مل گئ  یوں دنبے ،بکرے اور گائے  سب کی  قربانیاں موجود ہیں- بلکہ فینکس میں ایک خاتون نے بتایا کہ انکا دو ایکڑ کا گھر ہے  ایک ایکڑ پر مویشی پالے ہیں اپنے گھر کے پلے بکرے  ہمیشہ ذبح کرتے ہیں واہ یہ لطف تو گاؤ ں ہی میں آسکتا ہے- - پاکستان میں جو ہوشربا گرانی ہے اب بکرے کا گوشت    6 یا 7سو روپے کلو تک ملتا ہے گائے کا 4 یا 5 سو روپے کلو، کافی مہنگا ہے اب وہاں بھی مرغی سب سے سستی ہے اسلئے بقر عید پر غریبوں کو اب واقعی خوشی ہوتی ہے اور فریج فریزر تو اب ہر ایک کے ہاں ہے-
اور وہ جن خاتون کا تذ کرہ تھا انکے تو اب عیش ہی عیش ہیں نہ گوشت کا جھنجھٹ نہ ہانڈی نہ چولھا وقت بھی کیا کروٹ بدلتا ہے ----- بس اسکا شکر ادا کرنے کی دیر ہے--

آپ سبھوں کو بمع اہل خانہ عید ا لاضحیٰ کی دلی مبارکباد اللہ ہماری قربانی اور تمام عبادت کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے اور ہم سب پر اپنا فضل وکرم فرمائے

Tusqit tusqit hukmul Askar! Down with military regime".

Tusqit tusqit hukmul Askar!
Down with military regime".
Down with military coup!
Military coup no no.
Massacre here massacre there, massacre every where!
By

Abida Rahmani
These were the slogans that we chanted  on our way to Ottawa from MISSISSAUGA in our coach to protest  at parliament hill in solidarity with Suppressed Egyptian people. 
We were with a big group of Egyptian Canadians going there to show our solidarity to the suppressed brutally massacred Egyptian people. The sign of fours fingers raised is now a sign of resilience ,V for victory of Dunia and victory of Aakhira .the sign  for rabaa aldaulia, where the Egyptian military massacred thousands of unarmed protesters , including men, women and children.
The song of Inqilab Inqilab was played  on our way ,is sung by a singer who is now a shaheed, killed by Sisi forces.
There were horrific tales by those men, women , boys and girls who were present there,watchedAnd experienced Rabba massacre by their own eyes.

ہزار سال قبل مسیح کے ملک مصر میں چند روز

 ۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤیہ سفرنامہ نومبر 1998 کے مصر کے ایک انتہائی خوب صورت اور دلچسپ سفر کی ایک دن کی روداد ہے -جو میری کتاب زندگی ایک سفر کا ایک باب ہے-مصر پچھلے تین سالوں سے انقلاب در انقلاب کی کیفیت سے دوچار ہے -پچھلی تفصیلات میں زیادہ نہیں جاؤنگی -بہت خونریزی ہوچکی ہے یوں لگتا ہے اس ملک کو جمہوریت راس نہیں آئی اور فرعونیت دوبارہ لوٹ آئی ہے --
                                            ہزار سال قبل مسیح کے ملک مصر میں چند روز
از عابدہ رحمانی



قاہرہ ایئرپورٹ پر جب جہاز لینڈ ہواتو میں اور میرا بیٹا عاطف کچھ گومگو کے عالم میں تھے۔ مصر کے متعلق بہت کچھ سنا تھا اور بہت کچھ پڑھا تھا لیکن پھر بھی نیا ملک اور نیا شہر۔ چند روز پہلے ہی لکژور Luxor کے مقام پر سیاحوں پر فائرنگ بھی ہو چکی تھی جس سے کئی سیاح ہلاک ہو چکے تھے۔ کئی لوگوں نے منع بھی کیا کہ محفوظ نہیں ہے۔ تو ہم نے کہا محفوظ تو پاکستان بھی نہیں ہے۔ اللہ مالک ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مصر کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات حاصل کیں اور پھر بھائی فاروق سے جو کہ چند سال پہلے وہاں ہو کر آئے تھےمزید تفصیلات اکٹھی کیں- طیران مصرEgypt Air جس سے ہم سفر کر رہے تھے ان سے پوچھا کہ کچھ پمفلٹ یا بروشر مل جائیں گے لیکن ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ کراچی سے قاہرہ کی پرواز تھی - مصر میں دس دن گزار کر ہمیں عمرے کی ادائیگی کے لئے جا نا تھا اور پھر واپس قاہرہ سے مجھے امریکہ اور بیٹے کو واپس کراچی جا نا تھا - اسے امریکہ کا ویزہ نہ مل سکا تو کافی دل برداشتہ تھا - لیکن مصر  اور عمرے کی اپنی کشش تھی--
 قاہرہ پہنچے اور لاؤنج میں داخل ہوئے تو ہمارے ہم سفر زیادہ تر ٹرانزٹ مسافر تھے۔امیگریشن والے عاطف سے نہ جانے کیا کیا پوچھتے رہے ، مجھے ایک طرف بٹھا دیا تھا -آخر مجھ سے برداشت نہیں ہوا -" بھئی ہم سیاح ہیں - کیوں پریشان کرتے ہو؟" وہ غور سے جائزہ لیتے ہوئے بولا -" میڈم بہت سارے تخریب کار پاکستان سے ہی تربیت پا کر آتے ہیں "ٓ- مصر میں سیاحی کرنے والے اور رکنے والے بس ہم ہی تھے۔ اتنے میں ایک خندہ رو نوجوان نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا۔ میرا نام میگڈ ہے ہم آنے والے سیاحوں کی مدد کرتے ہیں ہوٹل وغیرہ کی اگر آپ کو ضرورت ہو تو بتائیے۔ ہماری کسی ہوٹل میں پہلے سے بکنگ نہیں تھی۔ رات کا وقت تھا اس لیے اس پر بھروسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کی جیب کے اوپر اس کی کمپنی کا شناختی کارڈ آویزاں تھا اور اس نے اپنی کمپنی کے چند دیگر افراد سے بھی ملایا۔ ہم نے اسے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے ایک ہوٹل دکھانے کو کہا۔" چالیس ڈالر یومیہ ہوں گے آپ لوگ دیکھ لیں اگرپسند آیا۔ شہر کے وسط میں ہے۔" کرنسی کی تبدیلی، امیگریشن اور کسٹمز کے بعد ہم نے اللہ کی ذات کے بعد میگڈ پر بھروسا کیا (اس دوران اس نے اپنے منیجر سے بھی ملایا) ایک وین میں سامان وغیرہ لاد کر اس کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ میگڈ نام سے یوں محسوس ہوا کہ شاید وہ کرسچن ہے لیکن معلوم یہ ہوا کہ مصر میں ج کو گ کہتے ہیں اس لیے ماجد کو میگڈ کہا جاتا ہے حالانکہ لکھتے ج میں ہیں۔ جمال عبدالناصر کو گمال عبدالناصر کہتے ہیں اور جدہ کو گدہ، یہ ایک عام تلفظ ہے۔
کھلی شاہراہوں، فلائی اوورز اور رنگ روڈز سے گاڑی گزر رہی تھی۔ قاہرہ شہر جس کو عروس مشرق بھی کہا جاتا ہے کا منظر قابل دید تھا۔ جن مقامات سے ہم گزر رہے تھے انتہائی صاف ستھرے اور دیدہ زیب دکھائی دے رہے تھے۔یوں بھی یہ سیاحوں کا شہر اور ملک ہے۔ پوری دنیا خاص کر مغربی دنیا کے سیاح تو مصر اور اس کی قدیم تہذیب پر جان دیتے ہیں۔ سیاحت مصر کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بھی ہے۔ ایک عمومی حساب سے سالانہ دو بلین ڈالر کی آمدنی سیاحت سے ہوتی ہے۔
میگڈ سے ہم مختلف عمارات کا پوچھتے رہے۔ یہ دائیں ہاتھوں پر مملوکوں کے مقبرے اور مساجد ہیں یہ قاہرہ ٹاور ہے۔ جامعہ الازہر اور یہ حسین مسجد ہے۔ حسین مسجد میں حضرت امام حسینؓ کا روضہ مبارک ہے۔ صحیح سے معلوم نہ ہو سکا کہ اتنی دور ان کی تدفین کس طرح ہوئی کسی نے کہا کہ یہاں سر مبارک دفن ہے کسی نے کہا کہ کہ جسم مبارک مدفون ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی اس لیے کہ میں سمجھ رہی تھی کہ حضرت امام حسینؓ کا مقبرہ  کوفے،دمشق یا بغداد میں ہو گا۔
فائیو سٹار ہوٹلوں کی چمک دمک سے دریائے نیل جھلملا رہا تھا۔ دریائے نیل اور اس سرزمین سے وابستہ کتنی داستانیں چشم تصور سے گزریں۔ اسی نیل میں حضرت موسیٰ علیہ 
السلام سرکنڈوں کی ٹوکری میں بہتے ہوئے فرعون کے محل میں جا پہنچے۔ اللہ تعالی نے انکی پرورش کا کیا خوب بندوبست کیا-- حضرت یوسفؑ ان سے بھی بہت پہلے مصر میں داخل ہوئے اور یوں انکے ساتھ بنی اسرائیل مصر میں وارد ہوئے۔ فرعونوں کا ہزاروں سال کا دور حکومت، تاریخ کے کتنے ادوار، کتنے عروج و زوال اس دریا اور اس سرزمین نے دیکھے ہیں اور سب سے بڑھ کر تو مصر کو ’’تحفہ نیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلئے کہ مصر کی تمام زرخیزی اور زراعت دریاے نیل کی مرہون منت ہیں- 

ہوٹل پہنچے، کمرہ دیکھا تو انتہائی مناسب معلوم ہوا، کچھ ریٹ کم کرنے کی کوشش کی کیونکہ یہ بات ہم نے گرہ میں باندھ لی تھی کہ مصر میں ہر چیز میں بھاؤ تاؤ ہے لیکن پھر اسی کو غنیمت جان کر بکنگ کر لی۔ آہستہ آہستہ ہم پر اعتماد ہوتے گئے کہ ہم ایک محفوظ ملک اور اپنوں کے درمیان ہیں۔

ہمارا ہوٹل چھبیس جولائی سٹریٹ پر تھا۔ یہاں پر سڑکوں اور شہروں کے نام مختلف تاریخوں پر ہیں۔ ایک صنعتی شہر چوبیس اکتوبر کے نام سے ہے اس تاریخ کو مصر اور اسرائیل کی مشہور جنگ ہوئی تھی۔ 
اگلی صبح ہم نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اہرام مصر دیکھنے ’’جیزہ‘‘ گئے جسے مصری گیزا کہتے ہیں۔
زبان کا کافی مسئلہ تھا چونکہ ہمیں عربی زبان پر عبور نہیں ہے تھوڑے بہت الفاظ کی شُد بُد ہے ہم انگریزی تو فر فر بولتے اور سیکھتے ہیں لیکن عربی بول چال سے نابلد۔ عربی جانتے ہیں تو بس اتنی کہ قرآن پاکی کی تلاوت کر لی یا نماز ادا کر لی اور دعائیں مانگ لیں۔
یہاں کی عام زبان عربی ہے انگریزی بولنے والے لوگ خال خال ملتے ہیں اور جو بولتے ہیں وہ بھی بس کام چلانے والی۔ ڈرائیور کمال سے ہماری گفتگو کچھ انگریزی، کچھ عربی اور باقی اشاروں کی زبان میں ہوتی رہی۔  بڑے اونچے اہرام کے ساتھ چھوٹے دو اور ہیں -بڑا اہرام خوفو کا ، دوسرا بیٹے چیپرسن کا ہے تیسرا چھوٹا اہرام خوفو کے پوتے کا ہے۔ اس کا تاریخی تعین کوئی پانچ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ اس پورے علاقے میں کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں۔ مندر، کنوئیں جن میں عام کارکنوں کی لاشیں دفنائی جاتی تھیں یہ سب کچھ ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ پھر ان سب کے پیش منظر میں ابوالہوال کا مجسمہ جسے یونانی اور انگریز  Spinx کہتے ہیں۔ موجود ہے یہ عظیم الجثہ مجسمہ جس کا سر فرعون کا اور جسم شیر کا ہے کافی بلندی پر ہے۔ اس کی مرمت کا کام جاری تھا۔ نیچے ابوالہول کا مندر ہے جو کہ کافی مضبوط ستونوں،سنگ مر مر اور گرینائٹ کے فرش کا ہے۔ کنارے پر ہاتھ منہ دھونے کے لیے اس قسم کے چھوٹے تالاب تھے جس طرح ہمارے ہاں مساجد میں وضو کی جگہ بنائی جاتی ہے۔

یہاں پر قدم قدم پر گائیڈ ملتے ہیں جو کہ بخشش حاصل کرنے کی دھن میں سیاحوں کو دم نہیں لینے دیتے۔ کچھ تو پہلے بتا دیتے ہیں کہ وہ گائیڈ ہیں جبکہ دوسرے یونہی ذرا گپ شپ کے لیے آگے بڑھیں گے، کچھ معلومات بہم پہنچا کر پھر ٹپ کا مطالبہ کریں گے۔اس سے یہ اندازہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں TIP کا مطالبہ ہمارے ملک سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اونٹ، گھوڑے اور تانگے بھی سواری کے لیے دستیاب ہیں۔ ٹانگے کو فرعونوں کی سواری کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ’’آؤ فرعونوں کی سواری کا مزہ لو‘‘ میڈم آئیں اونٹ کی سواری کر لیں ایک تصویر ہو جائے۔ یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔

ہمارے ساتھ ایک حضرت ہو لیے کہنے لگے ’’میں اس علاقے کا چوکیدار ہوں‘‘ کچھ معلومات بہم پہنچا کر کہنے لگے کہ آپ لوگ مجھے کتنی بخشش دیں گے۔
ہم ان سے بچتے بچاتے اس علاقے کو دیکھتے رہے کافی وسیع علاقے میں پہاڑ کی اترائی تک اثرات اور کھنڈرات پھیلے ہوئے تھے۔ دسمبر کی یخ بستہ ہوا میں اونچائی پر بلا کی کاٹ تھی۔ ہواکی تیزی کے ساتھ صحرا کی ریت  وہاں پر موجود ہر شخص اورہر چیز پر چھا گئی تھی اور ہر شخص اور ہر چیز اس گرد میں اٹا ہوا لگ رہا تھا۔
یہ اہرام بھی ہزارہا سال سے ان ریتیلی طوفانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فرعونوں کے یہ مدفون جن میں ان کے جسموں کی ممیاں بنا کر تمام سازو سامان  مال و اسباب کے ساتھ رکھی گئی تھیں کہ جب وہ دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے تو  انکو کسی چیز کی قلت درپیش نہ ہو- انکے پالتو جانوروں کتوں اور بلیوں کو ممیایا گیا -چوروں نے ان اہرام کو خوب لوٹا -- عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان اہرام کی تعمیر میں ان لاشوں کی حفاظت اور حیات بعدالموت کے لئے کسقدر تیا ریا ں کی گئیں -ان اہرام کا ایک ایک پتھر کئی ٹن وزنی ہے اور تقریبا ایک ہی سائز ہے انکوجس مہارت سے ایک کے اوپر ایک جمایا گیا ہے -آیا اس زمانے میں ایسی مشینیں تھیں اور کیا انسان اتنے طاقتور تھے -فی زمانہ ہم اس معمے میں الجھ جاتے ہیں- داستان گو کہتے ہیں کہ یہ جنات اور دیو کا کام ہے -  یہ تعمیرات ابھی بھی ہمارے لیے بیحد دلچسپی اور عبرت کا نمونہ ہیں۔
اس موقع پر انور مسعود کا ایک شعر بہت شدت سے یاد آ رہا ہے۔

ہڑپا کے آثار میں کلچر نکل آیا ہے منوں کے حساب
عبرت 
کی ایک اینٹ میسرنہ آ سکی

قرآن پاک میں انتہائی تفصیل سے فراعنہ مصر ، ان کی سفاکی، نافرمانی اور مظالم کو بیان کیا گیا ہے جو کہ اپنی طاقت، دولت اور اقتدار کے نشے میں اتنے دھت ہو جاتے ہیں کہ خود خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آمد، فرعون کو خدائے واحد کی تبلیغ، اس کی ہٹ دھرمی، پھر بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلنا، فرعون کااور آل فرعون کا غرق ہونا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل جو کہ ایک پسی ہوئی مغلوب، مظلوم اور مقہورقوم تھی اس کو اللہ نے دنیا کی امامت پرفائز کیا۔ پھر اس کی پے در پے نافرمانیاں۔ اللہ نے پھر امت مسلمہ کو اس عہدے پر سرفراز فرمایا۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ زمین میں چلو ، پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کاانجام کیا ہوا۔
ابوالہوال کے مجسمے کے پس منظر میں اہرام کامنظر قابل دید ہے۔ جابجا چھوٹی چھوٹی دکانوں میں پپائرس پہ بنی ہوئی تصویریں بک رہی  تھیں  پپائرس مصر کا قدیم کاغذ جو کہ فرعونوں کی ہی ایجاد تھا۔ اس کے اوپر فرعونوں کی شبیہات اور اہرام سے متعلق دیگر اشیاء۔  یہ طوطن  خامن ہے ، یہ نفریتی ، یہ رامسیس اور یہ نفراتیتی  ، ہم رفتہ رفتہ فرعونوں سے شناسا ہو رہے تھے  اورکچھ چیزوں کے دام کم کر کے ہم نے خرید لیں۔ مصری بہت ماہر فن کاریگر ہیں اور باتیں کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں پھر کافی خوش مزاج لوگ ہیں۔ وہاں سے نیچے اترے تو دو رویہ بڑی بڑی دکانیں تھیںPapyerusپپائرس گیلری کابورڈ نظر آیا تو اس میں داخل ہو گئے۔ ہمارے سامنے ایک سٹال پر محمود خان نامی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اس نے ایک گلدان میں سجے ہوئے پپائرس کے پودے اور پھول سے ہمیں روشناس کیا اس پھول کی شکل سورج کی کرنوں سے مشابہ تھی جبکہ پھول کی لمبی ڈنڈی ہری تکونی شکل کی تھی پھول سفیدی مائل تھا۔ جس طرح ہمارے ہاں للی Lily کا پھول ہوتا ہے۔ اس ڈنڈی کی تکونی شکل اہرام کی تکون سے مشابہ تھی جبکہ سورج فرعونوں کا دیوتا تھا۔ اسی تکونی ڈنڈی کی پتلی پتلی پرتیں کاٹ کر لوہے کے دو وزنی شکنجوں میں ایک کے اوپر بچھا کر اس طرح دبایا جاتا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر ایک کاغذ کی شکل اختیار رتے پھر اس کو دھوپ میں خشک کیاجاتا اس عمل میں ایک دو دن لگ جاتے۔ آج کل یہ کام کیلے کے پتے سے بھی لیا جاتا ہے۔ اصل پپائرس مہنگا ہے جبکہ کیلے والا قدر سستا اورکمزور ہے۔

فرعونوں کارسم الخط بھی کسی آرٹ سے کم نہیں۔ مختلف قسم کے جانوروں کی تصاویر آڑی ترچھی لکیریں۔ موجود ہ علوم کا بھی کمال دیکھیے کہ اس رسم الخط کو پڑھ بھی لیا گیا ہے اور اس کے معانی و مطالب نکالے گئے ہیں۔
اپنے وقت میں فرعون کافی ترقی یافتہ تھے بلند اور مضبوط عمارات بنانے کے علاوہ دیگرفنون میں بھی بے حد ماہر تھے۔ دنیاوی لحاظ سے بیحد ترقی پانے کے بعد وہ موت کو مسخر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اہرام میں اس قدر زروجواہر ممی کے ساتھ رکھے جاتے تھے کہ بیشتر اہرام میں نقب لگا کر چور اسے اڑا لے جاتے۔
ان اہرام کی تعمیر میں انسانی قوت کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے اس لیے کہ کچھ پتر کئی ٹن وزنی ہیں اور ان کو اتنی بلندی تک پہنچانا کافی مشکل کام لگتا ہے۔
اس گیلری میں پپائرس کی بڑی بڑی شیٹوں پر بہت خوبصورت اور نفیس کام بنا ہوا تھا۔ اس میں پینٹ کیا ہوا اصل پپائرس مہنگا ہے جبکہ ٹاپے والا کیلے کا پپائرس کافی سستا ہے۔
جگہ جگہ لڑکے بالے پپائرس پپائرس کی صدائیں بلند کر رہے تھے اس پر فراعنہ مصر کی اور ان کے دیوی دیوتاؤں کی بھانت بھانت کی تصاویر تھیں ان کو دیکھتے دیکھتے ان کے بارے میں معلومات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ یہ نفریتی ہے یہ نفرایتتی، یہ کلوپطرہ ہے اس کے علاوہ طوطعن، خامون، رامیس اور دیگر۔
ہاتھ سے پینٹ کی ہوئی اصلی پپائرس کی تصاویر مہنگی ہیں جبکہ کیلے اور ٹاپے والی کافی سستی ہیں۔ فرعون کو غرق ہوئے اور ان ادوار کو بیتے ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں لیکن اول تو ان کے یہ اثار و تعمیرات اور دوئم سیاحوں کا ذوق و شوق ان کو ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ارد گرد کے علاقے میں صحرا نوردی کی تو کچھ شناسائی پیدا ہوئی۔

رات کوآٹھ بجے اس عمارت کی چھت سے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو 
Light & Sound Show دیکھاجا سکتا ہے۔ اس کے ٹکٹ فی کس 
بیس مصری پاؤنڈ تھے۔ مووی اور ویڈیو کیمرےکی الگ الگ سے ادائیگی تھی۔ ٹکٹ لے کر ہم پھر اوپر بڑے اہرام کے پاس آئے۔ یہی اہرام سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے اسے دیکھنے کا یعنی اندر سے دیکھنے کے ٹکٹ لے کر اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دسمبر کی یخ بستہ صحرائی ہوا کی زبردست کاٹ تھی۔ دروازے سے داخل ہو کر ترچھائی میں اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھنی شروع کیں۔ کچھ سیڑھیاں سیدھی چڑھنے کے بعد باقی کمر جھکا کر چڑھنی پڑتی ہے یہ سب کوئی تین سو پچاس سیڑھیاں ہیں۔ اگر کسی کا قد لمبا ہو اور گھٹنوں میں تکلیف ہو تو بس اللہ حافظ۔ ایک جذبے اور لگن  سے چڑھائی شروع کی کہ نہ معلوم کس ہوشربا منظر کا سامنا ہو گا۔ اہرام کی مخروطی ساخت کے پیش نظر اوپر کا حصہ تنگ ہوتا جاتا ہے۔
کچھ مغربی سیاح مختلف کتابیں اٹھائے ہوئے ایک ایک پتھرکا جائزہ لے رہے ہیں یہ لوگ حقیقتاً اس قدیم تہذیب کے دیوانے ہیں اور اس کے متعلق مستقل جستجو اور تحقیق کررہے ہیں۔ بلکہ علم کاایک شعبہ
 Egyptology کے نام سے قائم ہے۔
چڑھنے کی جدوجہد میں پسینے سے شرابور ہو گئی۔ خدا خدا کر کے منزل مقصود پر پہنچے تو ایک چوکور خالی کمرہ اوراس میں گرینائیٹ کا بنا ہوا ایک خالی Sarcophagus سارکوفگیس قبر کی مانند ہوتا ہے۔ یہ بھی پہلے پتھر یا گرینائٹ اور بعد میں تو سونے کے بھی بننے لگے۔ اس کے اندر پھر تابوت ہوتا۔ تابوت میں پھر لکڑی کا یا دھات کا ممی ہی کے جسامت اور سر کی کاٹ وغیرہ کا ایک اور تابوت ہوتا اس کے اوپر مرنے والے کی شکل بنا دی جاتی تھی۔ اور زیورات وغیرہ رکھ دیے جاتے تھے۔ اس میں ممی رکھ دی جاتی تھیں۔ اپنے طورپر ان کے ہاں آخرت اور تدفین کا یہ تصور تھا۔ اتنی محنت اور شدید مشقت کے بعد یہ خالی کمرہ اور یہ تابوت جی چاہ رہا تھا کہ جس نے اسے کھولا ہے اس کو اسی میں بند کیا جائے یا اسکےسر پر مارا جائے لیکن اگر نہ دیکھتے تو شاید افسوس ہوتا۔ عاطف جا کر اس کے اندر لیٹ گیا کہ میری تصویر لے لیں اس کی دیکھا دیکھی دوسرے سیاح بھی باری باری جا کر اس کے اندر لیٹ کر تصویریں کھنچوانے لگے۔ اور یوں ایک دلچسپی پیدا ہو گئی۔ واپسی کا مرحلہ اتنا مشکل نہ تھا راستے میں ایک افریقن امریکن آدھے راستے سے واپس جاتی ہوئی نظر آئیں کہنے لگی ’’میں تو مر جاؤں گی میرا دم گھٹ جائے گا مجھے اس طرح بند جگہوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘
جب میں نے اس کو بتایا کہ اوپر کوئی خاص چیز نہیں ہے تو وہ  بےحد خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ میں نے صحیح کیا۔


-- 



عابدہ

Abida Rahmani




--
Sent from Gmail Mobile

Halloween Fun or Scare Trick or treating, Should be done or not,


 
 Halloween Fun or Scare
Trick or treating, Should be done or not,
For Muslims in N. America
by: Abida Rahmani

The month of October arrives and the whole country is taken by the storm of Halloween festival. Halloween generally is considered a festival for fall harvesting since its Pagan days. We can see pumpkins in all shapes and sizes all around in the stores for sale, in the pumpkin patches, around the houses carved to place a candle in making them jack o lantern or a smiley , or just kept at the entrance with hay stock , corn , scare crow and more but that is not all. ) There are many traditions in different cultures about the harvesting seasons all around the world.
 America has adopted new trends for fun and activity and the whole world just follow them blindly. They just celebrate it for fun, activity, happiness and do not care what the myth and superstitions are behind this tradition. What is the fun in showing death, horror, ghosts and witches, grave yards, Jack-o-lantern, spider webs, bats and so on? You can imagine about all the scary things to be shown and displayed in Halloween. One can see a lot of Halloween décor around. Then there are plenty of candies, chocolate, colorful costumes, some of them so scary and people throwing big Halloween parties. Some of the people decorate the whole house in Halloween theme. Every year new scary skeletons, ghosts and dreadful images are invented to attract the consumers and kids. In fact it is a great marketing strategy to keep the consumers involved in spending and buying. With all the down turn in economy and recession one do not see any change for these celebrations.

On the night of October 31st the fun of trick and treat starts right after sunset. Kids and teens look forward of collecting a lot of candies and chocolate. They are dressed up in different costumes, cartoon characters, imaginary super heroes, some of them quite dreadful and innovative. For this occasion mainly, the people buy a lot of candies and distribute them to the visiting kids and teens roaming around in costumes. Generally as I see in my neighbor hood, this is a supervised move with parents and elders. Normally this act of collecting candies starts after sunset and last up to 9: pm.

We Muslims living in here in this society are an absolute part of it. Our kids have the same temptations as rest of the kids. They wish to hang around with their friends, collect candies, wear costumes and have fun. The Muslims who arrived here 20, 30 years earlier were quite a bit relaxed and they would let their kids to have fun of trick n treating with their friends. Now a day Our Muslims scholars here in North America have done a deep study of this tradition and they go to the roots and causes of this festival. In their opinion this is not just a fall harvesting festival, ripe up pumpkins, corn, and hay stock. There are a lot of un Islamic traditions in this festival. Some of them even give it a status of shirk. (Making someone parallel to Allah swt)Islam denies those traditions of superstitions, believing in ghosts and witches. Mostly the Muslim kids are discouraged by their parents not to take part in this festival, not to wear costumes and avoid doing trick and treating.
To avoid this unpleasant situation, the Masajids contribute a lot to the idea. They do some interesting programs for kids, trying to bring them closer to deen and distribute candies among them. Some of the kids gladly accept this situation but others get frustrated that why they are not allowed to have that fun, which rest of the kids are doing.
It is just my opinion that in such a situation, the parents can take kids in their supervision for trick and treating , just to make them a bit happy and feel them a part of the society.
Even some churches are against the culture of Halloween and many states call it Fall Festival as in Arizona. There are no Halloween Parties in schools there. A Christian friend told me that they dress up kids in prince, princess, fairies and such costumes but avoid dressing them up  in horror or ghostly attire.
W
hen we think about the other countries of the world where  death , destruction and hunger is so much in abundance. Dozens of people are killed innocently every day all over the countries by so much violence politically, internally and internationally. We look at Iraq, Afghanistan, Palestine, Kashmir, Pakistan, Somalia, Syria and now Egypt for the death toll and wonder if showing death, skulls, horror and skeletons could be a fun?
But it could be fun for the rich and safer societies and countries where death and violence is safe guarded and a lot of protections are taken to save human lives. There it could be a fun for a change.
We should discuss with our kids about the miseries and hardships faced by the children and masses in those countries. They should be encouraged to pay that money spent on candies, costume and Halloween decor to charitable funds for those countries. This would enhance their spirit of Muslim brotherhood and they would feel satisfied and take pleasure in contributing for noble tasks.

Thursday, October 24, 2013


 جزاک اللہ 

از
عابدہ رحمانی 


کافی قیمتی چیزوں کو اونے پونے داموں بیج کر میں کافی دل گرفتہ ہو رہی تھی۔ خریدنے والا ہمیشہ سستا خرید کر خوش ہوتا ہے جب کہ فروخت کرنے والا مہنگا بیچ کر خوش ہوتا ہے۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ زیادہ تر سامان مسلمان خرید رہے تھے۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے اور سعودی عرب سے آئے ہوئے امیگرنٹ خاندان تو جیسے میرے گھر پر ہلہ بول دیا تھا۔ تھوڑے ہی داموں میں بہت ساری چیزیں اکٹھی کر لیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے پاس ابھی تک اس کے لیے دوسری آفر نہیں تھی لیکن پھر بھی اتنی تھوڑی قیمت ؟مجھے بہت پچھتاوا ہو رہا تھا کچھ بہت سامان ابھی لے جانے کے لیے باقی تھا میں نے اس خیال سے کہ شاید وہ کچھ احساس کرے اسے فون پر بتایا کہ ’’دیکھو میں نے یہ چیزیں کافی مہنگی لی تھیں اگر تم کچھ دام بڑھا دو تو۔۔۔‘‘
اس پر وہ شخص کہنے لگا"معاملہ تو طے ہو چکا ہے ، ڈیل ہو چکی ہے ، جزاک اللہ سسٹر۔"
 اس ’’جزاک اللہ‘‘ کے لفظ نے میرے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ، بعض اوقات الفاظ ہم محض رسماً کہ دیتے ہیں اس پر غور بھی نہیں کرتے لیکن اگر غور کریں تو ۔۔۔ اللہ سے بڑھ کر بہترین جزا دینے والا تو کوئی بھی نہیں ہو سکتا اور اس سے ہی بہترین جزا کی توقع رکھنی چاہیے۔ یہ دنیا اور اس کے فائدے اور نقصانات تو چند روزہ ہیں۔ اصل فائدہ تو وہ فوزِعظیم ہے اور فلاح عظیم جو ہمیں آخرت میں میسر ہو اور بحیثیت مسلمان ہماری ساری تگ و دو اس کے لیے ہونی چاہیے۔ اچھے مسلمانوں نے ہر ہر جملے میں اپنے آپ کو اللہ سے جوڑ رکھا ہے۔
سبحان اللہ ، الحمداللہ ، ماشاء اللہ ، بارک اللہ اور پھر یہ جزاک اللہ۔ ’’جزاک اللہ‘‘ نہ معلوم مسلمان معاشرے میں کب سے استعمال ہو رہا ہے لیکن میں نے زیادہ تر اس کو پچھلے چند سالوں میں سنا ہے او راس وقت سے خود بھی کہتی ہوں۔
بچپن میں جو ہماری مادری زبان تھی اس کے دعائیہ کلمات بھی کچھ اس طرح کے تھے۔ ’’اللہ تمہارا بھلا کرے یا خدا تمہارے ساتھ اچھا ہو‘‘ اور ’’مہربانی‘‘ جو شکریہ ادا کرنے کے لیے بولا جاتا تھا۔ جب کچھ اور بڑے ہوئے تو بات بات پر ’’شکریہ اور بہت بہت شکریہ‘‘ پھر انگریزی کا استعمال زیادہ ہوا تو ہر جملے پر تھینک یو Thank you ، thank you very muchاور Thanks کہ دینا۔
ہماری ایک منہ بولی امی تھیں ان کا شکریہ ادا کرنا تو لڑائی مول لینے کے مترادف تھا، زبان پر چڑھا ہوا تھا جہاں کہا اور وہ برا مان جاتی تھیں۔ ’’اپنا نہیں سمجھتی ہو اس لیے بات بات پر شکریہ او رتھینک یو کہتی ہو ارے بھئی کبھی کوئی اپنوں کو اس طرح کہتا ہے یہ تو غیروں کو کہا جاتا ہے۔‘‘
اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ تو آپ سے ایک اظہار محبت اور عقیدت ہے اور آپ کی محبت  اور شفقت کا اظہار تشکر ہے۔رب کائنات کی ہر لحظہ ، ہر لمحہ مہربانیوں پر ہر لحظہ ، ہر لمحہ شکر ادا کرنے کا بھی حکم ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جا بجا تاکید کی ہے۔
اور میرا شکر ادا کرو ، میرے شکر گزار بندے بنو ، اگر تم شکر ادا کرو گے تو تمہیں بڑھا چڑھا کر دوں گا۔ اگر میری نعمتوں کا انکار کروں گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے
جزاک اللہ  خیر
شکریہ کی جگہ ، ’’جزاک اللہ‘‘ کا استعمال شروع ہوا تو ایک مشہور عالمہ نے مزید رہنمائی کی کہ کہو ’’جزاک اللہ خیر‘‘ یعنی اللہ تمہیں بہترین جزا دے اور یوں ’’جزاک اللہ خیر‘‘ کہنا شروع کیا۔ یہ دعائیہ کلمہ ہمیں کتنے دنیاوی اجروں سے بے نیاز کر دیتا ہے جبکہ اپنے تمام کاموں کے اجر کی توقع اللہ تعالیٰ سے رکھنے لگتے ہیں۔ پیغمبروں کا شیوہ تھا کہ ہمارا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے- 
پھر اسکے ساتھ مذید جدت یا اضافہ ہوا جزاک اللہ خیر کا جواب کیا ہونا چاہئے --و ایاکم (تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو) شروع میں'میں کہہ دیتی تھی وعلیکم جزاک اللہ اب
 thank you تھینک یو کے جواب میں ہم کہتے ہیں موسٹ ویلکم' نیور ماینڈ ، نو پرابلم اور جو پرانی انگریزی تھی اسمیں جوابا کہتے تھے - do not mention please

 ایک بہت پیاری بہن نے بہت پیاری بات کی ’’جو بھی اچھا عمل کریں ، جس کے ساتھ جو بھی بھلائی، نیکی کریں ، تحفہ تخائف دیں اس شخص سے واپسی کی توقع ہرگز نہ رکھیں ۔ دل میں نیت کر لیں کہ یااللہ یہ میں صرف تیری رضا کے لیے کر رہی ہوں اور تجھ سے بہترین اجر کی طلبگار ہوں یہ آپ کو تمام توقعات سے بے نیاز کر دے گا۔‘‘
اور میں نے کافی کوشش کی کہ اس بے حد پیاری نصیحت کو پلے سے باندھ کر اس پر عمل کروں۔ یہ  جا بیجا توقعات تو ہمیں مارے ڈالتے ہیں۔ میری نانی کہتی تھیں "جو اچھا کرے اس کا بھی بھلا اور جو نہ کرے اس کا بھی بھلا۔"
اردو کا مشہور محاورہ ہے "نیکی کر دیا میں ڈال" مقصد یہی ہے کہ کسی کے ساتھ نیکی کرو تو بھلائی کی توقع اور امید نہ رکھو۔ لیکن ہمارے دین نے ہمیں کتنی امید افزا اور کتنی پیاری خوش خبریاں دی ہیں کہ ان نیکیوں اور بھلائیوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے کھاتے میں داخل کر لو اور اسی سے بڑھ چڑھ کر فضل و کرم کی امید اور درخواست کرتے رہو۔ ورنہ تو سارا وقت اسی حساب کتاب میں گزر جاتا ہے دیکھو میں نے کیا کیا تھا اور وہ کیا کر رہا ہے کر رہی ہے- دیکھو میں نے تو اسے یہ اسقدر گراں تحفہ دیا تھا اور اسنے مجھے یہ بیکارچیزدی ہے- ان تعلقات اور توقعات میں ہمارا کسقدر قیمتی وقت اور صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں- یہ توقعات تعلقات میں خوب خوب بگاڑ بھی ڈالتے ہیں- وہ بیمار تھی تو میں مزاج پرسی کو گئی تھی اب دیکھو اسنے مجھے پلٹ کر پوچھا ہی نہیں اسطرح ہر معاملے میں ہمارے توقعات یا لین دین کا سلسلہ چلتا رہتا ہے- میری وہ دوست اکثر شادی بیاہ میں تحفہ دیتی تھیں تو اسپر اپنا نام ظاہر نہیں کرتی تھیں - اب اتنا بھی بے نیاز کوئی  کہاں ہوگا-   
 
زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اور مختلف منازل طے کرتے ہوئے مختلف النوع لوگوں سے سابقہ پڑا - کچھ تو اسقدر بے لوث ، مخلص اور نیک نیت اور چند حد درجہ مطلبی ، خود غرض اور خود پسند - کتنے ایسے کہ انسے ملکر یک گونہ سکون اور اطمینان میسر آتا ہے اورچند ایسے جنکو دوسروں کو بلاوجہ دکھ اور تکلیف میں مبتلا کر کے سکون ملتا ہے - یہ پر خار لوگ خود بھی جلتے بھنتے ہیں اور دوسروں کو بھی جلانے پر یقین رکھتے ہیں -لیکن وہ جنکو خوف خدا ہے اور جنمیں انسانیت ہے - جزاک اللہ خیر جنہوں نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا اور جزاک اللہ  انکے لئے بھی ،جنہوں نے مجھے دکھ دینے میں کوئی تامل نہیں برتا--
کینیڈا، امریکہ آئی تو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے دوبارہ انہیں بہنوں کا دامن تھاما جن کی معیت اور صحبت میں زندگی کے کئی سال گزارے تھے۔وہ لپٹی لپٹائی اللہ کی راہ میں مجاہد خواتین جو اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے ہر جگہ، ہر مقام پر سرگرم عمل ہیں۔ (اللہ تعالیٰ بھی اپنے دین کے قیام اور نفاذ کے لیے کیا کیا حکمت عملی رکھتا ہے ، ان میں سے تو بیشتر تو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔)
یہ دین اس سرزمین میں ماشاء اللہ خوب پھل پھول رہا ہے اگرچہ بہت بندشیں ہو گئی ہیں، کڑی نگرانی ہے لیکن کام جاری ہے۔ کچھ بھی کر لو جو بھی حاصل کر لو سکون اور اطمینان قلب اللہ کی یاد میں اور اچھی صحبت یعنی صحبت صالحہ میں میسر ہوتا ہے اور یہ کام کتنی صورتوں میں جاری و ساری ہے۔
 - ماشاءاللہ ایک سے بڑھ کر ایک عالم دین اور فقہا ء- کہاں کہاں سے کیسے کیسے اس دین کو پہنچانے کیلئے سر گرم عمل ہیں  اور پھر یہ آن لائن تعلقات اور کلاسوں نے  اس قدر خواتین کو دین سے جوڑا ہوا ہے اور ان سب نے اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑا ہوا ہے۔ یہ کلاسز ویب نار، ہاٹ کانفرنس ،پال ٹالک، سکائپ,فیس بک اور اتنے ذرائع سے آتی ہیں - یوں لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اس سہولت کا خوب خوب فائدہ اٹھا یا ہے-- اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے-
’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور تفرقے میں مت پڑو اور اللہ کی اس نعمت اور احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے‘‘ (آل عمران)
یہ ساری بہنیں اور بھائی جو اللہ کے دین کے قیام اور بقاء کے لیے کھڑے ہیں میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں اور یہ دعا دینا چاہتی ہوں۔
جزاک اللہ خیر ، جزاک اللہ خیرا کثیرا---