Wednesday, April 24, 2013

کوئلوں کی دلالی


کوئلوں کی دلالی

عابدہ رحمانی

پرویز مشرف صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا تھا " پاکستان کی سیاست کو ئلوں کی دلالی ہے جسمیں اپنے ہاتھ اور منہ کالے  سیاہ ہو جاتے ہیں " ان کوئلوں کی دلالی سے پر ویز صا حب کس کس طرح عہدہ برآ ہوئے یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک قریبی عہد کا باب ہے -آرمی چیف اور صدر پاکستان کی حیثیت سے انکو گارڈ آف آنر دیکر رخصت کی گیا- چند روز چک شہزاد میں گزار کر  وہ  امریکہ ، کینیڈا ، انگلستان اور پھر دوبئی پہونچے  معتبر ذرائع کے مطابق وہ برج العرب کے ایک اعلے پیمانے کے سوئیٹ میں رہائش پذیر تھے - چار سال کے بعد   پھر انکو پاکستانی سیاست میں عمل دخل دینے کا خیال آیا - کس عقلمند نے انکو مشورہ دیا تھا کہ وہ دوبارہ سیاست میں داخل ہوں؟ پاکستان میں جہاں اتنے بے ڈھنگے قوانین بنتے ہیں بے تکی بے تکی باتوں کے لئے امریکہ اور یوروپ کی تقلید کی جاتی ہے- یہ ایک قانون کیوں نہیں بنایا جاتا کہ کوئی سابق صدر آئیندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیگا- اتنا طویل عھد اقتدار گزار کر اب ازسر نو سیاست اور انتخاب میں حصہ لینے سے گھٹیا بات کیا ہو سکتی ہے ؟ پرویز صاحب خود سوچیں کہ بالفرض انکو الیکشن لڑنیکی اجازت دے بھی دی جاتی تو کیا وہ جیتتے ؟ اگر جیتتے بھی تو زیادہ سے زیادہ ایک قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتتے سیاست اور اقتدار کی اس لالچ کو کیا کہئے
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی' لیکن اسکا کیا کیا جائے 
کہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی 
ایک ملک میں جب آپ بلند ترین رتبے پر وہاں کی افواج میں پہنچ چکے ہوں اسکے بعد اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک سربراہ مملکت رہ چکے ہیں تو کیا خیر و عافیت اسمیں نہیں تھی کہ بل کلنٹن ، جمی کارٹر دیگر صدور اور وزیر اعظم کی طرح ، پرویز مشرف  کوئی گلوبل چیریٹی ار گنایزیشن کھول دیتے مخلوق خدا کی خدمت کرتے- جو آپ سے ظلم اور نا انصافیاں ہوئی ہیں اسکا ازالہ کرتے - ہزاروں ذرایع ہیں اور کروڑوں افراد ہیں جنکی آپ داد رسی کرسکتے تھے - اپنی ذات سے بے نیاز عبدالستار ایدھی جب اہل پاکستان کے دلوں پر راج کر سکتا ہے - جہاں عمران خان کے بنائے ہوئے شوکت خانم میموریل ہسپتال  کی تمام دنیا میں گھن گرج ہے  جسکی تعریف عمران کے دوست دشمن اہل ثروت اور اہل عسرت یکساں کرتے ہیں - جہاں صاحب ثروت اور صاحب عسرت کا یکساں علاج ہوتا ہے -  تو جناب پرویز مشرف کیا آپ کی نگاہ میں دوبئی کے برج العرب کے سوئیٹ میں رہتے ہوئے ایسا کوئی نیک خیال نہیں آیا جو آپکے کئے ہوئے تمام گناہوں کو دھو دیتا - آپ تو جاتے ہوئے پاکستان کو خدا حافظ کہہ گئے تھے کہ" پاکستان کا خداہی حافظ 
پچلے دنوں جب بھارت کے آپنے لتے لئے تو آپکی مقبولئیت میں ایک دم سے کتنا اضافہ ہوا - تمام میڈیا اور سوشل میڈیا نے آپ پر تعریف کے ڈونگرے برسا دئے جرنل صاحب جب آپ اپنے پاؤںپر خود کلہاڑی مار رہے ہوں تو کوئی کیا کرسکتاہے - پاکستان میں خود کش دھماکوں کا طریقہ آپکے عہد حکومت میں ہی اور لال مسجد آپریشن کے بعد شروع ہوا تھا - شاید آپ خود اس طریقہ کار سے کافی متاثر ہیں جب ہی تو یہ خود کشی کرنے چل نکلے - آج میں ٹی وی پر دیکھ رہی تھی جب بے نظیر قتل کیس کی سماعت کے لئے آپ چک شہزاد میں اپنی سب جیل سے پولیس کی معیت میں  روانہ ہوئے - 
و تعز من تشاء و تزل من تشاء
اسوقت آپکو کیسا محسوس ہو رہا ہوگا کہ وہ شخص جسکی حفاظت کیلئے ہر قدم پر ایک محافظ کھڑا ہوا کرتا تھا - جسکے لئے پوری ٹریفک روک دی جاتی تھی پورا شہر بند کر دیا جاتا تھا آج وہ پولیس کی معیت میں عدالت جا رہا ہے- آپ خود ہی کہہ رہے ہیں " اڈیالہ جیل جاکر دیکھ لینگے کہ اسکے اندر کیا ہے " یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپ کی نئی مہم جوئی ہے - بے نظیر قتل کیس میں   آگر آپ آج نہیں بولے تو آپکے الفاظ کی کھوکھلی حقیقت آشکارا ہو جائیگی - جب آپ سے پوچھا گیا تھا ،" بے نظیر کے قتل کا شبہ آپ کس پر کر رہے ہیں ؟ تو آپنے فرمایا " جسکو اس قتل کا سب سے زیادہ فایدہ پہنچا ہے " تو جنرل صاحب بول دیجئے جو آپ بولنا چاہتے ہیں اگر عوام کی آنکھیں کھولنا چاہتے ہیں تو یہ راز خدا کے لئے اگل دیجئے - مسلم لیگ نون کی تو آپنے یوں بھی ایسی کی تیسی کردی تھی - جب نواز شریف واجپائی کو دوستی بس میں واہگہ بارڈر پر ہار پہنا رہا تھا آپ کارگل کی چوٹیوں پر چڑھ گئے - اور واجپائی بلبلا اٹھا - " تم نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے 
 - بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام " ہماری بلی اور ہم ہی سے میاؤں 
اور بیچارہ نواز شریف اسوقت اسکی بے بسی قابل دید تھی بس بے چارگی سے  دیکھتا ہی رہ گیا -کارگل کا معرکہ پاک فوج کے لئے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک اور بہت بڑی ہزیمت اور پسپائی تھی - لینے کے دینے پڑ چکے تھے -بجائے اسکے کہ آپکو سزا دی جاتی فوجی آپکا کورٹ مارشل کرتے --   نواز کو اٹک بھیجتے ہوئے آپکو بل کلنٹن کی تنبیہات کا اثر بھی نہ ہوا اور جب بل کلنٹن نے اپنا پاکستان دورہ منسوخ کیا تو بڑی مشکل سے اس کیلئے تیار کیا گیا کہ وہ محض چند گھنٹوں کے لئے ہی پاکستان کا دورہ کرکے اسکی لاج رکھ لے - کلنٹن اس فوجی ڈکٹیٹر کا سخت مخالف اور جارج بش تو نام تک نہیں جانتا تھا - لیکن جسطرح  جنرل ضیاءالحق کو روس کی پیش قدمی نے افغا نستان میں دھکیل دیا تھا گیارہ ستمبر 2001 کے واقعے نے پرویز مشرف اور جارج ڈبلیو بش کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک دوسرے کا ساتھی اور ہمنوا بنا دیا - ان پچھلے12 برسوں میں پاکستان پاکستانی عوام  کن کڑی آزمائشوں سے گزری ہے - کن کن معصوم بے گناہوں کو گوانٹا نومو بے بھیجا گیا ہے عافیہ صدیقی جیسی بے بس عورت کو 85 سالہ قید سے ہمکنار کیا گیا ہے --جنرل صاحب آپ پر الزامات کی  ایک طویل فہرست ہےجس سے سرخرو ہونے کیلئے آپ کچھ بہتر ذریعہ سوچئے--
 کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسوقت پیپلز پارٹی ایک جنرل کو لٹکانا چاہتی ہے خدا نہ کرے ایسا ہو-
یقینا آپکے شروع کے تین چار سال پاکستان کے لئے بہت اچھے تھے اسمیں تعلیمی میدان میں اور نشریاتی میدان میں کافی ترقی ہوئی- پاکستان کے قرضے کسی حد تک ختم ہوئے لیکن نہ کوئی نئے ڈیم بن سکے  اور توانائی کے بحران پر قابو نہ پایا جاسکا
پرویز مشرف دیگر سربراہ مملکت اور فوجی سربراہوں کی طرح بہت سے اندرونی اور بیرونی رازوں کے امین ہیں  لیکن انمیں سے چند کو وہ اپنی ذات کی دفاع کے لئے افشاء کر سکتے ہیں - جس چیف جسٹس نے آپکو کیفر کردار تک پہنچایا ہے اسکو بھی بے نقاب کریں جسکا آپ دعوی کرتےہیں یہی وقت ہے آپکو اپنے دعوؤن کو سچا کر دکھانیکا -

جنرل صاحب آپ سیاست صاحب سے تائب ہوجائیں اور کوئی دوسری مثبت سر گرمی شروع کر دین تو میں اپکی سب سے اولیں ممبر بنونگی --کیا خیال ہے 

Thursday, April 11, 2013

کچھ بیان چائے کا


 کچھ بیان چائے کا
عابدہ رحمانی
چائے چینیوں کی ایجاد ہے لیکن وہ یاسمینی قہوہ شوق سے پیتے ہیں جسکی میں بھی رسیا ہوں بلکہ سبز چائے تو میری گھٹی میں پڑی ہے کیوکہ دادی جان نے پہلی خوراک ایک چمچ سبز چائے پلائی تھی--شمالی امریکہ میں جب پہلی مرتبہ" چائے" کاا شتہار دیکھا اور آرڈر دیا تو وہ مصالحہ دار چائے نکلی وہ وہاں پرچائے   کے نام سے مقبول ہے -
Chai
 teavana

ایک بڑا اچھا سٹور بلکہ فرنچائز ہے اسمیں چائے کے ایک سے ایک ذائقے ، برانڈ اور خوشنما کیتلییاں ہیں شاید دوبیئ وغیرہ میں بھی ہوں-
Japanese tea party
جسطرح سے انجام پاتی ہے اسمیں انکی تہذیب و ثقافت کی نشاندہی ہوتی ہے کیا خوبصورتی سے کیمونو پہنے ہوئے جاپانی لڑکیاں اس رسم کو انجام دیتی ہیں-
جب ہندوستان میں پہلی مرتبہ فوجیوں کو چائے سے متعارف کرایا گیا میرے ایک نانا جی جو انگریزی فوج میں صوبیدار تھے چھٹیوں پر آتے ہوئے ایک ٹین کا بڑا ڈبہ چائے کی پتی کا لائے - نانی نے اسکو خشک ساگ سمجھ کر چولھے پر چڑھا دیا ااسوقت وہ گھر سے باہر تھے جب واپس ہوئے تو انہوں نے اس بدذائقہ ساگ کی شکائت کی اور نانا سر پیٹ کر رہگئے - اب ہمارے گاؤں میں بچہ بچہ پیالی پر پیالیا ں چڑھاتا رہتا ہے اور تھرموس بھرے ہوئے گردش میں رہتے ہیں میرے بچوں کو میرے گاؤں کی میٹھی چائے بہت پسند تھی- اور کراچی والے، انکی رگوں میں تو خون کی بجائے چائے گردش کر رہی ہے  جب ہی تو خون بے قیمت ہوگیا -پنجاب والے اچھے ہیں جہاں ابھی تک بخار میں بھی لسی پی جارہی ہے اور سندھ میں چورہ چائے کی قسمت کی چمک دمک ہے 
ایل اے میں ایک پرانی دوست کے ہاں گئی انہوں نے بڑے اہتمام سے کیتلی پیالیاں گرم
 پانی سے کنگالیں پتی ڈال کر کیتلی میں ٹی کوزی لگا کر چائے دم کی ساتھ کاڑھا ہوا دودھ، امریکہ میں اتنا اہتمام دیکھ کر چائے کا لطف آگیا - حالانکہ امریکہ نے ہماری زندگیوں سے ان تکلفات کو کافی حد تک ختم کردیا ہے جہاں فاسٹ فوڈ نے ہمیں کھانے کی میز کی تکلفات سے آزاد کردیا ہے وہاں ٹی بیگ نے ٹی سیٹ کا تصور ختم کردیا ہے بڑے بڑے مگوں نے نفیس پرچ پیالیوں سے بے نیاز کر دیا ہے - میری ایک عزیز دوست کافی میکر میں فلٹر ڈالکر چائے بناتی ہے اور میرے بھائی کے ہاں دودھ پتی کا رواج ہے
مجھے چھوٹی الائچی کی خوشبو والی بلکہ ہر معقول قسم کی چائے پسند ہے - حتی کہ ایر لائنز کی بے ذائقہ چائے بھی چل جاتی ہے -پہلے چائے کے نقصان ہی نقصان تھے اب فائدے ہی فائدے ہیں -اور ہماری کشمیری گلابی چائے کیا کہنے اسکے - ڈھاکہ کے نواب فیملی کے ہاں جو کشمیری چائے بنتی تھی وہ اسقدر میوے والی ہوتی تھی کہ پینے سے زیادہ کھانے کےلائق تھی- 
میری اپنی چائے تو آجکل زیادہ تر مائکرو ویو میں بنتی ہے پھیکی چائے، لیکن ساتھ میں گلاب جامن' برفی یا کوئی اور میٹھا ہو تو کیا کہنے 

Wednesday, April 10, 2013

اسکو کیا کہئے

اسکو کیا کہئے

عابدہ رحمانی

بد نظمی ہم پاکستانیوں کا بلکہ جنوبی ایشیائی باشندوں کا طرہ امتیاز ہے یہ بدنظمی عین ٹورنٹو ایر پورٹ پر پی آئی اے کے گیٹ سے شروع ہو جاتی ہے- پی آئی اے  پاکستان انٹرنیشنل ایر لاینز پاکستان کا قومی ایرلاین پاکستان کا نشان امتیاز جسکا نعرہ ہے 
Great people to fly with
پی آئی اے کی داستان اور ہم پاکستانیوں کی داستان کا چولی دامن کا ساتھ ہےیہ ایر لاین جو ایک زمانے میں اسقدر بام عروج پر تھی کہ بڑے بڑے لوگ اس سے سفر کرنا باعث فخر سمجھتے تھے اسکی میزبانی اور عملہ لاجواب تھا، اسکی خوراک دنیا بھر میں بہترین سمجھی جاتی تھی ،پچھلے دنوں فیسبک پر جیکولین کینیڈی کی پرانی تصاویر تھیں جب اسنے پی آئی اے سے لندن سے نیویارک تک سفر کیا تھا- - یہ جنہوں نے امارات ایر لاینز کی نشو ونما کی- اب ایمریٹس کہاں جا پہنچی ہے کہ سب سے زیادہ یعنی آٹھ عدد ایر بس 380 جو اسوقت دنیا کا سب سے عظیم الجسہ جہاز ہے وہ انہوں نے خرید لئے ہیں اور فرسٹ کلاس کے غسل خانے واقعی غسل خانے ہونگے کیونکہ ان میں شاور لگائے جاینگے-پی آئی اے کو اندرونی سازشوں اور اقرباء پروری نے الجھادیا اگرچہ یہ اب بھی ایک بہترین ایر لاین ہے- ہمارے لئے اسکی ٹورنٹو سے بہترین سہولت اسکی اسلام اباد کی براہ راست پرواز ہے جو ساڑھے 13، 14 گھنٹے میں پہنچ جاتی ہے اور سفر بغیر کہیں اترے  کافی آسان اور خوشگوار ہو جاتا ہے- آنے جانے کے اوقات بھی کافی مناسب ہیں -    پی آئی اے کے گیٹ پر جیسے ہی داخل ہوں یوں محسوس ہوتا ہے کہ مادر وطن پہنچ ہی گئے ہیں اپنے جیسے لوگ، اپنی جیسی زبانیں ، ڈھیروں سامان ، پوٹلیاں ، حالانکہ بڑا سامان تو پہلے جاچکا ہوتا ہے - بھاگتے ، دوڑتے ، روتے کرلاتے بچے -باہر ٹارمک پر کھڑا بوٰئنگ 777 پی آئی اے کے لوگو کے ساتھ ہمارا منتظر ہے -اسے دیکھ کر یوں یک گونہ خوشی ہوتی ہے- بورڈنگ کے اعلان کے ساتھ ہی ایک ہڑبونگ مچتی ہے سارے مسافر ایک ساتھ کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں ایسی ہڑبونگ اور بد نظمی کی عادت ان ممالک میں ختم ہو جاتی ہے - مجھ سے یہ منظر برداشت نہیں ہوتا - کاؤنٹر پر کھڑے عملے کے ایک اہل کار سے میں نے کہا" آپکو نشستوں کے حساب سے مسافروں کو بلانا چاہئے یہ افرا تفری آپ دیکھ رہے ہیں؟ وہ عربی یا مقامی تھا کہنےلگا،" اس سے کوئی فرق نہیں پڑیگا ہم پہلے اس طریقے کو آزما چکے ہیں لیکن اس سے کوئی فایدہ نہیں ہوا"کیسے ہوسکتا ہے یہ لوگ ان ممالک میں رہتے ہیں  اور یہاں کا قاعدہ قانون جانتے ہیں" وہ جوابا خاموش رہا لیکن مجھے خود ہی جواب ملا کہ ہم اپنی قومی ایر لاین کے ساتھ کتنے بے تکلف ہو جاتے ہیں یوں لگتا ہے ہم تمام پابندیوں سے آزاد ہو گئے ہیں- اور ان مسافروں میں  بہت سے ایسے لوگ نظر آئے جو واقعی صرف پی آئی اے سے ہی سفر کر سکتے ہیں یعنی ہمارے سیدھے سادھے پاکستانی النسل عوام -!
اسلام آباد ایر پورٹ پر وہی بےتکلفی اور بد نظمی امیگریشن کاؤنٹر پر بیرونی ممالک میں کسی کی سرخ لکیر عبور کرنیکی ہمت نہیں ہوتی - یہاں بھی مجھ سے آگے بڑھتے ہوئے ایک حضرت سے میں نے کہا " کیا آپ ٹورنٹو میں ایسا اکر سکتے ہیں " اوہ نہیں جی میں تو بس ایسا ہی ذرا آگے ہوگیا"
سب سے برا تو یہاں کا بے ہنگم ٹریفک ہے  ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش لینیں ہوتے ہوئے بھی لین کا کوئی تصور نہیں ہے اگر کوئی ٹریفک قوانین کی پابندی کرے تو اللہ ہی حافظ  وہ تو پھر منزل پر پہنچنا بھول ہی جائے- اسلام آباد میں سیٹ بیلٹ کی پابندی ہے جسکو عموما لوگ حفاظت کم ، مصیبت زیادہ سمجھتے ہیں- ایک مرتبہ لاہور جانا ہوا، میری دوست کی  گاڑی مستقل ٹن ٹن بولتی رہی کہ سیٹ بیلٹ لگالو لیکن انہوں نے بے اعتنائی برتی اور اسکی ایک نہ سنی- اور راہگیر جہاں سے جی چاہے بے دھڑک سڑک عبور کر ڈالیں - حقیقتا ایک بے خوف اور نڈراور بے صبری قوم ہیں  ہارنوں کا شور گاڑیوں کا دھواں کیا مجال ہے جو کوئی دوسرے کو آگے بڑھنے کا موقع دیدیں ؟ شمالی امریکہ میں ہارن اسوقت بجایا جاتا ہے جب کوئی دوسرا ڈرائیور غلطی کرتا ہے بسا اوقت اسکو کافی برا سمجھا جاتا ہے اور اکثر تو ہارن بجانے والے کو گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے- یہاں پر ہارن اطلاع عام کے لئے ہے-
 پھر کوڑے کرکٹ اورغلاظتوں کے ڈھیر کتنی دیر دو کاغذ سمیٹے سمیٹے پھرتی رہی کہ شاید کوئی کوڑا دان ملے، پھر سوچا کہ یہ دو کاغذ اس کوڑے کے ڈھیروں میں کتنا اضافہ کر سکتے ہیں - کاغذ تو ویسے بھی گل سڑ جاتا ہے - ہر طرف صفائی کا عملہ جھاڑو لئے ہوئے ٹوکریاں پکڑے ہوئے پھرتا ہے لیکن صفائی، وہ کہیں نظر نہیں آتی -" صفائی نصف ایمان ہے" کے بورڈ البتہ جگہ جگہ نظر آتے ہیںاور عین اسکے نیچے کوڑے کا ڈھیر-- اور پھر جا بجا عماراتی ملبہ-- دور کیوں جائیں ہمارے قریبی خلیجی ممالک نے اس کوڑے کرکٹ پر اتنی خوبصورتی سے قابو پایا ہواہے جب ہر شعبے میں ہم ترقی یافتہ ممالک کی تقلید کرتے ہیں تو اسمیں کیا امر مانع ہے اور یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہو پاتا ؟کراچی میں ایک زمانے میں فاروق ڈی کمپوسٹ کے نام سے جدید ترین طریقے سے ایک کمپنی نے کام شروع کیا ہمیں کالے بڑے والے پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کے لئے دئے تھے - کافی اچھا محسوس ہونے لگا تھا لیکن دو سال میں انکا جو حشر ہوا کہ بیچارے وہیں بھاگنے پر مجبور ہوئے جہاں سے آئے تھے--گھر کا کوڑا باہر بھینک کر ہم مطمئن کیوں ہوجاتے ہیں جبکہ یہاں روز کوڑا اٹھانے والے آتے ہیں لیکن وہ اٹھتا دکھائی نہیں دیتا - اسوقت مجھے وہ ممالک بری طرح یاد آتے ہیں جہاں ہفتے میں ایک روز کوڑے والی گاڑیاں آتی ہیں اور صفائی بھی ہفتے میں ایک مرتبہ ہوتی ہے لیکن انکی صفائی کا معیار کتنا بلند ہے- انکے ویسٹ منیجمنٹ کا پورا ایک شعبہ ہوتا ہے-
 بہترین بازاروں اور عمارتوں میں اسقدر خوشنما اور پائیدار تعمیرات ہوئی ہیں کنکریٹ اور ماربل کی ٹائیلیں لگی ہوئی ہیں لیکن جب اکھڑنا شروع ہوئیں یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار، تو کسی کو مرمت کا ہوش نہیںٹوٹی  پھوٹی اکھڑی ٹائیلیں اکھڑے فرش ٹوٹے گٹر ،بد بودار نالیاں  اسکے حسن کو کسقدر داغدارکرتےا ہیں - عوامی بیت الخلاء کا نام بھی مت لیجئے شرفاء خاصکر خواتین کے استعمال کی جگہ تو ہر گز نہیں ہے بہترین ریسٹورنٹ میں چلے جایئے اور پھر اسکےغسلخانے میں جاکر دیکھئے سارا پول کھل جائیگا اور عوام کے لئے اللہ کی زمین کشادہ ہے- الحمدللہ کہ بیرونی فرنچائز میں ان لوگوں نے پھر بھی صفائی کا قدرے معیار برقرار رکھا ہے - 
ان عوامل کو نظر انداز کردیں تو پھر بھی ترقی جاری ہے ، ترقی ہو رہی ہے نئے پل تعمیر ہورہے ہیں ،نیئ سڑکیں شاہراہیں بن رہی ہیں اور اعلی قسم کے مال، تمام مشہور  دوکانوںکے ساتھ بن رہے ہیں-ان تمام دہشت گردی کے ماحول اور واقعات کا یہ قوم جس بہادری اور دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے - دور سے یوں لگتا ہے کہ سب کچھ تباہ و برباد ہے-لیکن اس ملک کو اللہ کی ذات ہی چلا رہی ہے ورنہ سنا ہے کہ حکومت جاتے جاتے اربوں روپے نکال کر لے گئی اسکے لئے خاص طور سے بنک کھولے گئے تھے - بے شمار ڈیوٹی فری گاڑیا ں منگوائی گئی ہیں جو اونے پونے بک رہی ہیں
اب انتخابات کی گھن گرج ہے --قوم کو" فاطمہ گل میرا قصور کیا" سے فرصت ملتی ہے تو ہر طرف ایک بحثا بحثی چل رہی ہے اب یہ ترکی ڈراموں کی کیا دھن سوار ہوئی ہے ساری قوم اسمیں الجھ گئی ہے جسکویہ سوجھی ہے خوب سوجھی ہے-  کئی ایک بڑے بڑوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں ، کئی ایک کو چیلنج کر دیا گیا ہے ، اور جعلی ڈگریاں ،پرویز مشرف نے قوم کو یہ کس نئے عذاب میں مبتلا کردیا ہے - بڑے آرام سے انگوٹھا چھاپ بھی وزیر بن جایا کرتے تھے اب بیچارے ڈگریوں کے چکر میں الجھ کر رہ گئےاور نت نئی تد بیروں سے ڈگریاں حاصل کی گئی ہیں - بھئی سیاست اپنی جگہ ، ڈگری اپنی جگہ -- ہمارے علاقے کے ایک انگوٹھا چھاپ وزیر کا پرانا لطیفہ ہے  کچھ منچلوں نے لکھ دیا " جناب والا چاند تک سڑک کی منظوری دے دیں" انہوں ازراہ شفقت دستخط کرکے بقلم خود لکھ ڈالا-

 بجلی کی وہ صورتحال کہ بازاروں میں جنریٹروں کا اتنا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی- یہی 
حال رہائشی مکا نات کا ہے ، جہاں یو پی ایس ہیں تو خاموشی سے تبدیلی ہو جاتی ہے لیکن آدھے گھنٹۓ ہی میں ٹیں بول جاتے ہیں اور ابھی پوری طرح گرمیاں بھی شروع نہیں ہوئیں اسلام آباد میں فی الحال تین گھنٹے پر ایک گھنٹہ جاتی ہے لیکن ہر سیکٹر میں صورتحال مختلف ہے ابھی ابھی لاہور کی خبر سنی ہے کہ سولہ گھنٹے بجلی غائب ہے یہاں کا تھنک ٹینک کہتاہے کہ توانائی کا یہ بحران مصنوعی اور نا اہلی کا سبب ہے بجلی والے کہتے ہیں کہ پاور ہاؤس کے پاس تیل کے پیسے نہیں ہیں -  لیکن اللہ سے دعا ہے کہ سب سے پہلے اس قوم مین نطم وضبط کی صلاحئیت اور سلیقہ آیے- اور ایک مخلص، دیانتدار اور صادق حکمران آور حکومت آئے یہ تو ایک دعا ہے- حالانکہ ہم اسپر بھی راضی ہیں کہ ایک کمتر درجے کی برائی بھی برا انتخاب نہیں ہے-

--