Sunday, December 22, 2013

ہزار سال قبل مسیح کے ملک

مصر میں چند روز  ہزار سال قبل مسیح کے ملک
از عابدہ رحمانی

قاہرہ ایئرپورٹ پر جب جہاز لینڈ ہواتو میں اور میرا بیٹا عاطف کچھ گومگو کے عالم میں تھے۔ مصر کے متعلق بہت کچھ سنا تھا اور بہت کچھ پڑھا تھا لیکن پھر بھی نیا ملک اور نیا شہر۔ چند روز پہلے ہی لکژور Luxor کے مقام پر سیاحوں پر فائرنگ بھی ہو چکی تھی جس سے کئی سیاح ہلاک ہو چکے تھے۔ کئی لوگوں نے منع بھی کیا کہ محفوظ نہیں ہے۔ تو ہم نے کہا محفوظ تو پاکستان بھی نہیں ہے۔ اللہ مالک ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مصر کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات حاصل کیں اور پھر بھائی فاروق سے جو کہ چند سال پہلے وہاں ہو کر آئے تھے طیران مصر Egypt Air جس سے ہم سفر کر رہے تھے ان سے پوچھا کہ کچھ پمفلٹ یا بروشر مل جائیں گے لیکن ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
لاؤنج میں داخل ہوئے تو ہمارے ہم سفر زیادہ تر ٹرانزٹ مسافر تھے۔ مصر میں سیاحی کرنے والے اور رکنے والے بس ہم ہی تھے۔ اتنے میں ایک خندہ رو نوجوان نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا۔ میرا نام میگڈ ہے ہم آنے والے سیاحوں کی مدد کرتے ہیں ہوٹل وغیرہ کی اگر آپ کو ضرورت ہو تو بتائیے۔ ہماری کسی ہوٹل میں پہلے سے بکنگ نہیں تھی۔ رات کا وقت تھا اس لیے اس پر بھروسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کی جیب کے اوپر اس کی کمپنی کا شناختی کارڈ آویزاں تھا اور اس نے اپنی کمپنی کے چند دیگر افراد سے بھی ملایا۔ ہم نے اسے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے ایک ہوٹل دکھانے کو کہا۔" چالیس ڈالر یومیہ ہوں گے آپ لوگ دیکھ لیں اگرپسند آیا۔ شہر کے وسط میں ہے۔" کرنسی کی تبدیلی، امیگریشن اور کسٹمز کے بعد ہم نے اللہ کی ذات کے بعد میگڈ پر بھروسا کیا (اس دوران اس نے اپنے منیجر سے بھی ملایا) ایک وین میں سامان وغیرہ لاد کر اس کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ میگڈ نام سے یوں محسوس ہوا کہ شاید وہ کرسچن ہے لیکن معلوم یہ ہوا کہ مصر میں ج کو گ کہتے ہیں اس لیے ماجد کو میگڈ کہا جاتا ہے حالانکہ لکھتے ج میں ہیں۔ جمال عبدالناصر کو گمال عبدالناصر کہتے ہیں یہ ایک عام تلفظ ہے۔
کھلی شاہراہوں، فلائی اوورز اور رنگ روڈز سے گاڑی گزر رہی تھی۔ قاہرہ شہر جس کو عروس مشرق بھی کہا جاتا ہے کا منظر قابل دید تھا۔ جن مقامات سے ہم گزر رہے تھے انتہائی صاف ستھرے اور دیدہ زیب دکھائی دے رہے تھے۔یوں بھی یہ سیاحوں کا شہر اور ملک ہے۔ پوری دنیا خاص کر مغربی دنیا کے سیاح تو مصر اور اس کی قدیم تہذیب پر جان دیتے ہیں۔ سیاحت مصر کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بھی ہے۔ ایک عمومی حساب سے سالانہ دو بلین ڈالر کی آمدنی سیاحت سے ہوتی ہے۔
میگڈ سے ہم مختلف عمارات کا پوچھتے رہے۔ یہ دائیں ہاتھوں پر مملوکوں کے مقبرے اور مساجد ہیں یہ قاہرہ ٹاور ہے۔ جامعہ الازہر اور یہ حسین مسجد ہے۔ حسین مسجد میں حضرت امام حسینؓ کا روضہ مبارک ہے۔ صحیح سے معلوم نہ ہو سکا کہ اتنی دور ان کی تدفین کس طرح ہوئی کسی نے کہا کہ یہاں سر مبارک دفن ہے کسی نے کہا کہ کہ جسم مبارک مدفون ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی اس لیے کہ میں سمجھ رہی تھی کہ حضرت امام حسینؓ کا مقبرہ دمشق یا بغداد میں ہو گا۔
فائیو سٹار ہوٹلوں کی چمک دمک سے دریائے نیل جھلملا رہا تھا۔ دریائے نیل اور اس سرزمین سے وابستہ کتنی داستانیں چشم تصور سے گزریں۔ اسی نیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلاما سرکنڈوں کی ٹوکری میں بہتے ہوئے فرعون کے محل میں جا پہنچے۔ حضرت یوسفؑ ان سے بھی بہت پہلے مصر میں داخل ہوئے اور یوں بنی اسرائیل مصر میں وارد ہوئے۔ فرعونوں کا ہزاروں سال کا دور حکومت، تاریخ کے کتنے ادوار، کتنے عروج و زوال اس دریا اور اس سرزمین نے دیکھے ہیں اور سب سے بڑھ کر تو مصر کو ’’تحفہ نیل‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہوٹل پہنچے، کمرہ دیکھا تو انتہائی مناسب معلوم ہوا، کچھ ریٹ کم کرنے کی کوشش کی کیونکہ یہ بات ہم نے گرہ میں باندھ لی تھی کہ مصر میں ہر چیز میں بھاؤ تاؤ ہے لیکن پھر اسی کو غنیمت جان کر بکنگ کر لی۔ آہستہ آہستہ ہم ’پڑا‘ علماء ہوتے گئے کہ ہم ایک محفوظ ملک اور اپنوں کے درمیان ہیں۔
ہمارا ہوٹل چھبیس جولائی سٹریٹ پر تھا۔ یہاں پر سڑکوں اور شہروں کے نام مختلف تاریخوں پر ہیں۔ ایک صنعتی شہر چوبیس اکتوبر کے نام سے ہے اس تاریخ کو مصر اور اسرائیل کی مشہور جنگ ہوئی تھی۔
اگلی صبح ہم نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اہرام مصر دیکھنے ’’جیزہ‘‘ گئے جسے مصری گیزا کہتے ہیں۔
زبان کا کافی مسئلہ تھا چونکہ ہمیں عربی زبان پر عبور نہیں ہے تھوڑے بہت الفاظ کی شُد بُد ہے ہم انگریزی تو فر فر بولتے اور سیکھتے ہیں لیکن عربی بول چال سے نابلد۔ عربی جانتے ہیں تو بس اتنی کہ قرآن پاکی کی تلاوت کر لی یا نماز ادا کر لی اور دعائیں مانگ لیں۔
یہاں کی عام زبان عربی ہے انگریزی بولنے والے لوگ خال خال ملتے ہیں اور جو بولتے ہیں وہ بھی بس کام چلانے والی۔ ڈرائیور کمال سے ہماری گفتگو کچھ انگریزی، کچھ عربی اور باقی اشاروں کی زبان میں ہوتی رہی۔ بیٹے چیپربسن کا ہے تیسرا چھوٹا اہرام خوفو کے پوتے کا ہے۔ اس کا تاریخی تعین کوئی پانچ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ اس پورے علاقے میں کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں۔ مندر، کنوئیں جس میں عام کارکنوں کی لاشیں دفنائی جاتی تھیں یہ سب کچھ ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ پھر ان سب کے پیش نظر میں ابوالہوال کا مجسمہ ہے جسے یونانی Spinx کہتے ہیں۔ موجود ہے یہ عظیم الجثہ مجسمہ جس کا سر فرعون کا اور جسم شیر کا ہے کافی بلندی پر ہے۔ اس کی مرمت کا کام جاری تھا۔ نیچے ابوالہول کا مندر ہے جو کہ کافی مضبوط ستونوں اور سنگ مر مر اور گرینائٹ کے فرش کا ہے۔ کنارے پر ہاتھ منہ دھونے کے لیے اس قسم کے چھوٹے تالاب تھے جس طرح ہمارے ہاں مساجد میں وضو کی جگہ بنائی جاتی ہے۔
یہاں پر قدم قدم پر گائیڈ ملتے ہیں جو کہ بخشش حاصل کرنے کی دھن میں سیاحوں کو دم نہیں لینے دیتے۔ کچھ تو پہلے بتا دیتے ہیں کہ وہ گائیڈ ہیں جبکہ دوسرے یونہی ذرا گپ شپ کے لیے آگے بڑھیں گے، کچھ معلومات بہم پہنچا کر پھر ٹپ کا مطالبہ کریں گے۔ کچھ یہ اندازہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں TIP کا مطالبہ ہمارے ملک سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اونٹ، گھوڑے اور تانگے بھی سواری کے لیے دستیاب ہیں۔ ٹانگے کو فرعونوں کی سواری کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ’’آؤ فرعونوں کی سواری کا مزہ لو‘‘ میڈم آئیں اونٹ کی سواری کر لیں ایک تصویر ہو جائے۔ یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔
ہمارے ساتھ ایک حضرت ہو لیے کہنے لگے ’’میں اس علاقے کا چوکیدار ہوں‘‘ کچھ معلومات بہم پہنچا کر کہنے لگے کہ آپ لوگ مجھے کتنی بخشش دیں گے۔
ہم ان سے بچتے بچاتے اس علاقے کو دیکھتے رہے کافی وسیع علاقے میں پہاڑ کی اترالی تک اثرات اور کھنڈرات پھیلے ہوئے تھے۔ دسمبر کی یخ بستہ ہوا میں اونچائی پر بلا کی کاٹ تھی۔ ہواکی تیزی کے سات صحرا کی ریت ہر چیز پر چھا گئی تھی وہاں پر موجود ہر شخص اورہر چیز پر چھا گئی تھی وہاں پر موجود ہر شخص اور ہر چیز اس گرد میں اٹا ہوا لگ رہا تھا۔
یہ اہرام بھی ہزارہا سال سے ان ریتیلی طوفانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فرعونوں کے یہ مدفون جن میں ان کے جسموں کی ممیاں بنا کر تمام سازو سامان کے ساتھ رکھا گیا تھا کہ جب وہ دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے تو میں دوبارہ نہیں جب وہ دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے تو میں دوبارہ نہیں آئیں گے لیکن یہ تعمیرات ابھی بھی ہمارے لیے بیحد دلچسپی اور عبرت کا نمونہ ہیں۔
اس موقع پر انور مسعود کا ایک شعر بہت شدت سے یاد آ رہا ہے۔
ہڑپا کے آثار میں کلچر نکل آیا ہے منوں کے حساب
عبرت کی ایک اینٹ میسرنہ آ سکی
قرآن پاک میں انتہائی تفصیل سے فراعنہ مصر ، ان کی سفاکی، نافرمانی اور مظالم کو بیان کیا گیا ہے جو کہ اپنی طاقت، دولت اور اقتدار کے نشے میں اتنے دھت ہو جاتے ہیں کہ خود خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آمد، فرعون کی خدائے واحد کی تبلیغ، اس کی ہٹ دھرمی، پھر بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلنا، فرعون کااور آل فرعون کا غرق ہونا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل جو کہ ایک پسی ہوئی مغلوب، مظلوم اور مقہورقوم تھی اس کو اللہ نے دنیا کی امامت پرفائز کیا۔ پھر اس کی پے در پے نافرمانیاں۔ اللہ نے پھر امت مسلمہ کو اس عہدے پر سرفراز فرمایا۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ زمین میں چلو ، پھرو اور دیکھو جھٹلانے والوں کاانجام کیا ہوا۔
ابوالہوال کے مجسمے کے پس منظر میں اہرام کامنظر قابل دید ہے۔ مصر کا قدیم کاغذ جو کہ فرعونوں کی ہی ایجاد تھا۔ اس کے اوپر فرعونوں کی شبیہات اور اہرام سے متعلق دیگر اشیاء۔ کچھ چیزوں کے دام کم کر کے ہم نے خرید لیں۔ مصری بہت ماہر فن کاریگر ہیں اور باتیں کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں پھر کافی خوش مزاج لوگ ہیں۔ وہاں سے نیچے اترے تو دو رویہ بڑی بڑی دکانیں تھیں Papyeusپپاٹرس گیلری کابورڈ نظر آیا تو اس میں داخل ہو گئے۔ ہمارے سامنے ایک سٹال پر محمود خان نامی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اس نے ایک گلدان میں سجے ہوئے پپاٹرس کے پودے اور پھول سے ہمیں روشناس کیا اس پھول کی شکل سورج کی کرنوں سے مشابہ تھی جبکہ پھول کی لمبی ڈنڈی ہری تکونی شکل کی تھی پھول سفیدی مائل تھا۔ جس طرح ہمارے ہاں للی Lily کا پھول ہوتا ہے۔ اس ڈنڈی کیتکونی شکل اہرام کی تکون سے مشابہ تھی جبکہ سورج فرعونوں کا دیوتا تھا۔ اسی سکونی ڈڈی کی پتلی پتلی پتیاں کاٹ کر لوہے کے دو وزنی شکنجوں میں ایک کے اوپر بچھا کر اس طرح دبایا جاتا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر ایک کاغذ کی شکل اختیار رتے پھر اس کو دھوپ میں خشک کیاجاتا اس عل میں ایک دو دن لگ جاتے۔ آج کل یہ کام کیلے کے پتے سے بھی لیا جاتا ہے۔ اصل پپاٹرس مہنگا ہے جبکہ کیلے والا قدر سستا اورکمزور ہے۔
فرعونوں کارسم الخط بھی کسی آرٹ سے کم نہیں۔ مختلف قسم کے جانوروں کی تصاویر آڑی ترچھی لکیریں۔ موجود علوم کا بھی کمال دیکھیے کہ اس رسم الخط کو پڑھ بھی لیا گیا ہے اور اس کے معانی و مطالب نکالے گئے ہیں۔
اپنے وقت میں فرعون کافی ترقی یافتہ تھے بلند اور مضبوط عمارات بنانے کے علاوہ دیگر فونون میں بھی بے حد ماہر تھے۔ دنیاوی لحاظ سے بیحد ترقی پانے کے بعد وہ موت کو مسخر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اہرام میں اس قدر زروجواہر ممی کے ساتھ رکھے جاتے تھے کہ بیشتر اہرام میں نقب لگا کر چور اسے اڑا لے جاتے۔
ان اہرام کی تعمیر میں انسانی قوت کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے اس لیے کہ کچھ پتر کئی ٹن وزنی ہیں اور ان کو اتنی بلندی تک پہنچانا کافی مشکل کام لگتا ہے۔
اس گیلری میں پپاٹرس کی بڑی بڑی شیٹوں پر بہت خوبصورت اور نفیس کام بنا ہوا تھا۔ اس میں پینٹ کیا ہوا اصل پپاٹرس مہنگا ہے جبکہ ٹاپے والا کیلے کا پپاٹرس کافی سستا ہے۔
جگہ جگہ لڑکے بالے پپاٹرس پپاٹرس کی صدائیں بلند کر رہے تھے اس پر فراعنہ مصر کی اور ان کے دیوی دیوتاؤں کی بھانت بھانت کی تصاویر تھیں ان کو دیکھتے دیکھتے ان کے بارے میں معلومات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ یہ نفریتی ہے یہ نفرایتی، یہ کلوپطرہ ہے اس کے علاوہ طوطعن، خامون، رامیس اور دیگر۔
ہاتھ سے پینٹ کی ہوئی اصلی پپاٹرس کی تصاویر مہنگی ہیں جبکہ کیلے اور ٹاپے والی کافی سستی ہیں۔ فرعون کی غرق ہوئے اور ان ادوار کو بیتے ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں لیکن اول تو ان کے یہ اثار و تعمیرات اور دوائم سیاحوں کا ذوق و شوق ان کو ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ارد گرد کے علاقے میں صحرا نوردی کی تو کچھ شناسائی پیدا ہوئی۔
رات کوآٹھ بجے اس عمارت کی چھت سے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو Light & Sound Show دیکھاجا سکتا ہے۔ اس کے ٹکٹ فی کس بیس مصری پاؤنڈ تھے۔ مووی اور ویڈیو کیمرے کے الگ الگ سے ادائیگی تھی۔ ٹکٹ لے کر ہم پھر اوپر بڑے اہرام کے پاس آئے۔ یہی اہرام سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے اسے دیکھنے کا یعنی اندر سے دیکھنے کے ٹکٹ لے کر اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دسمبر کی یخ بستہ صحرائی ہوا کی زبردست کاٹ تھی۔ دروازے سے داخل ہو کر ترچھائی میں اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھنی شروع کیں۔ کچھ سیڑھیاں سیدھی چڑھنے کے بعد باقی کمر جھکا کر چڑھنی پڑتی ہے یہ سب کوئی تین سو پچاس سیڑھیاں ہیں۔ اگر کسی کا قد لمبا ہو اور گھٹنوں میں تکلیف ہو تو بس اللہ حافظ۔ ایک جذبے اور لگنے سے چڑھائی شروع کی نہ معلوم کس ہوشربا منظر کا سامنا ہو گا۔ اہرام کی مخروطی ساخت کے پیش نظر اوپر کا حصہ تنگ ہوتا جاتا ہے۔
کچھ مغربی سیاح مختلف کتابیں اٹھائے ہوئے ایک ایک پتھرکا جائزہ لے رہے ہیں یہ لوگ حقیقتاً اس قدیم تہذیب کے دیوانے ہیں اور اس کے متعلق مستقل جستجو اور تحقیق کرس رہے ہیں۔ بلکہ علم کاایک شعبہ Egyptiology کے نام سے قائم ہے۔
چڑھنے کی جدوجہد میں پسینے سے شرابور ہو گئی۔ خدا خدا کر کے منزل مقصود پر پہنچے تو ایک چوکور خالی کمرہ اوراس میں گرینائیٹ کا بنا ہوا ایک خالی Sacrophagus ساکروفگیس قبر کی مانند ہوتا ہے۔ یہ بھی پہلے پتھر یا گرینائٹ اور بعد میں تو سونے کے بھی بننے لگے۔ اس کے اندر پھر تابوت ہوتا۔ تابوت میں پھر لکڑی کا یا دھات کا ممی ہی کے جسامت اور سر کی کاٹ وغیرہ کا ایک اور تابوت ہوتا اس کے اوپر مرنے والے کی شکل بنا دی جاتی تھی۔ اور زیورات وغیرہ رکھ دیے جاتے تھے۔ اس میں ممی رکھ دی جاتی تھیں۔ اپنے طورپر ان کے ہاں آخرت اور تدفین کا یہ تصور تھا۔ اتنی محنت اور شدید مشقت کے بعد یہ خالی کمرہ اور یہ تابوت جی چاہ رہا تھا کہ جس نے اسے کھولا ہے اس کو اسی میں بند کیا جائے یا اسپر سر پر مارا جائے لیکن اگر نہ دیکھتے تو شاید افسوس ہوتا۔ عاطف جا کر اس کے اندر لیٹ گیا کہ میری تصویر لے لیں اس کی دیکھا دیکھی دوسرے سیاح بھی باری باری جا کر اس کے اندر لیٹ کر تصویریں کھنچوانے لگے۔ اور یوں ایک دلچسپی پیدا ہو گئی۔ واپسی کا مرحلہ اتنا مشکل نہ تھا راستے میں ایک افریقن امریکن آدھے راستے سے واپس جاتی ہوئی نظر آئیں کہنے لگی ’’میں تو مر جاؤں گی میرا دم گھٹ جائے گا مجھے اس طرح بند جگہوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘

جب میں نے اس کو بتایا کہ اوپر کوئی خاص چیز نہیں ہے تو وہ  بےحد خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ میں نے صحیح کیا۔

Saturday, December 14, 2013

انتظارِ

 انتظارِ صبح نو
از
عابده رحمانى


مرینہ بلک بلک کر اور ہچکیاں لے کر روتی رہی۔ لگتا تھا کہ وہ چپ ہی نہ ہو پائے گی ان دو ڈھائی سالوں کی دکھ ، تکلیف ، بے بسی او ربے چارگی کی داستان آنسوؤں کی صورت میں رواں تھی۔
ساتھ میں لیٹا ہوا مرد بت بنا لیٹا رہا۔ بالکل بے حس و حرکت جیسے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یا پھر وہ اپنی بیتاؤں سے تھک کر چورا اور نڈھال ہو گیا تھا۔ وہ بس ہچکیاں لے لے کر روتی رہی وہ نہ تو کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ ہی کچھ بتا رہا تھا یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ دو سالوں کی مسافت اس نے پیدل طے کی ہو ان دو سالوں میں کیا کچھ نہ ہوا؟ ملک کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا تباہی و بربادی کی ایک طویل داستان تھی۔ ہزاروں فوجی دشمنوں کی قید میں تھے۔ کتنی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم و بے آسرا ہو چکے تھے ۔وہ اپنا بھرا پرا گھر وہیں چھوڑ آئے تھے اور رشتہ داروں کے رحم و کرم پر تھے۔ مرینہ اور اس کے بچوں نے یہ وقت کیسے گزارا ؟اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جان سکتا تا ان لوگوں نے اپنے گھر پر رکھ لیا تھا یہی بڑی مہربانی تھی۔
 وہ جب اپنا گھر بند کرکے وہاں سے روانہ ہوئے تو اس خیال سے کہ کچھ عرصے میں حالات بہتر ہو جائینگے اور واپس آ جائیں گے لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جواد نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ حالات بہتر ہوتے ہی وہ اسے اور بچوں کو واپس بلائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ فوجی آپریشن کے بعد بظاہر لگ رہا تھا کہ حالات قابو میں آ گئے ہیں لیکن وہ صرف ڈھاکے کی حد تک تھے۔ باقی ملک میں بغاوت ، دہشت گردی اور تباہی و بربادی تھی۔ بھائی ، بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا مرنے والے اور مارنے والے دونوں مسلمان تھے لیکن لڑائی بنگالی ، بہاری اور پنجابی کی تھی۔ زبان ، رنگ و نسل پر ہم مسلمان جتنے منقسم ہیں شاید دنیا کا دوسرا کوئی مذہب نہ ہو دشمن اس تمام حالات کا بے حد فائدہ اٹھا رہا تھا وہ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی ٹھانی تھی اس وقت منصف بنے ہوئے تھے۔
مجیب تو ڈھیلا ڈھالا کنفیڈریشن چاہتا تھا لیکن یحییٰ خان ، بھٹو اور انداراگاندھی نے اسے پورا ملک دے دیا ، ہزاروں لاکھوں بے گناہ ان کی کارستانیوں کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ کتنے خاندان بٹ چکے تھے بہت سے دوراندیش تو جب حالات کی نزاکت بھانپ کر مغربی پاکساتن آ چکے تھے اور اس دوران انہوں نے یہیں پر رہائش اختیار کر لی تھی لیکن کچھ ایسے ناعاقبت اندیش اور خوش فہم بھی تھے جو حالات بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ مرینہ کا شوہر ان میں سے ایک تھا۔ بیوی بچوں کو کراچی میں چھوڑ کر وہ واپس ڈھاکا چلا گیا تھا۔ اس کی کمپنی کے پاس فوج کے ٹھیکے تھے اور وہ لوگ فوجیوں کے لیے بیرک بنا رہے تھے تو کہیں رن وے بنا رہے ہیں اور کہیں دیگر کام کر رہے تھے۔ کمپنی تو بے حد خوش تھی کہ اسے دھڑا دھڑٹھیکے مل رہے ہیں۔
 آتے وقت مرینہ اپنے ساتھ زیورات لے آئی تھی۔ بینک میں تھوڑی سی رقم تھی اور پھر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ابا کے بہت سمجھانے پر ایک 600 گز کا پلاٹ خرید لیا تھا۔ ورنہ تو بالکل تہی دامنی کا احساس ہوتا۔ پھر بھی بے حد مجبوری اور کسم پرسی کا عالم تھا ۔اس کے والدہ نے تو صاف ان کار کر دیا تھا اور اپنی بے حد مجبوری ظاہر کر دی تھی ۔ انہوں نے مرینہ سے صاف کہ دیا کہ بہتر یہ ہے کہ کہ تم کوئی اپنا ٹھکانا کر لو اور واقعی وہ بہترین حل تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا گھر کراء ے پر لے لیا جاتا لیکن ابا اس پر تیار نہیں تھے اب بھی اس کے سسر بھی اس زعم میں تھے کہ تھوڑے دنوں کی بات ہے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ گھر وغیرہ لینا فضول ہے آپس میں گزارا کر لیا جائے اور یوں وہ جیٹھ کے گھر رہنے پر مجبور ہو گئیں تھی۔ وہ بچے جو شہزادوں کی طرح رہتے تھے عجب کملا گئے تھے جیٹھانی کافی بیمار رہتی تھی اس لیے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری اس پر تھی۔ برتن مانجھ مانجھ کر اس کی انگلیوں سے خون رسنے لگا تھا اس نے یہ کام کبھی کیے نہیں تھے اور اس سے بچاؤ کے انتظامات کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔
نند جو کبھی اس کی بچپن کی سہیلی تھی ،کبھی ملنے آتی تو طنز اور طعنوں سے اس کی تکالیف میں مزید اضافہ کر دیتی۔نا معلوم اس کی طبیعت میں اتنی تلخی کیوں تھی ؟ وہ بہت سخت طبیعت کی تھی ، اپنے میاں کے ساتھ بھی ہر وقت اس کی معرکہ آرائی رہتی اور یہاں آتی تو بس زہر ہی ا گلتی ، ابا ہی واحد فرد تھے جو اس کے ساتھ اور اس کے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے وہ ان کے کمرے میں جاتی اس کا بستر جھاڑتی ، میلے کپڑے دھونے کے لیے یا دھوبی کو دینے کے لیے اٹھا لاتی۔ ان کے بستر پر ڈنڈوں کے ساتھ ایک مچھر دانی لگی ہوتی تھی کراچی میں کھڑکیاں کھلی ہوں تو سوائے دھول مٹی کے کچھ اندر نہیں آتا۔ مغرب کی جانب کھلی ہوئی کھڑکیوں سے اگرچہ ہوا اچھی آتی ہے لیکن وہ دھول مٹی سے اٹی ہوتی ہے ، مچھر دانی مٹی سے اٹی ہوئی تھی اس نے سوچا کہ اسے دھو لیا جائے اب جب کھولنے لگی تو ہر گرہ کے اندر کٹھملوں کی بھرمار تھی۔ پھر جو اس نے گدا اٹھایا تو پلنگ کی چولیں کٹھملوں سے کالی ہو رہی تھیں۔ یہی حال اس کے اپنے کمرے میں پلنگوں کا تھا۔ ساری رات کٹھمل کاٹتے وہ اور بچے کھجلاتے رہتے ہو سمجھی کہ شاید مچھر کاٹتے ہیں۔ سارے بازو ٹانگیں کھجلی اور کاٹنے سے داغدار ہو گئے۔ رات کو جب اس نے لائٹ جلائی اور تکیہ اٹھایا تو وہ کھٹملوں سے بھرا تھا جو اس کا اور بچوں کا خون چوس کر خوب صحت مند لگ رہے تھے۔ اب اس کا کیا علاج ہے ؟ ایک بہت ہی بدبودار دوائی بازار سے پوچھ کر خوید کر لائی۔ دکاندار نے بتایا کہ گدے کے نیچے اور پلنگ کی چولوں پر خوب اسپرے کرکے دروازہ بند کر دیں ، کٹھمل مر جائیں گے لیکن کچھ دنوں کے بعد پھر کرنا پڑے گا۔ بھابھی سانس کی مریضہ تھیں کسی قسم کی خوشبو یا بدبو برداشت نہیں کر پاتی تھیں۔
ایک روز وہ لوگ کسی کے ساتھ پکنک پر چلے گئے اور شام سے پہلے واپسی متوقع نہیں تھی۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور بستروں پر اسپرے کر دیا۔ اس قدر کھٹمل تھے کہ نیچے فرش سیاہ ہو گیا۔ اس کی بدقسمتی کہ وہ لوگ جلدی واپس آ گئے۔ اس کے کمرے کے دروازے بند تھے لیکن بدبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی اور بھابھی کو زبردست سانس کا دورہ پڑا۔ اس پر مجرمانہ احساس اتنا طاری رہا کہ وہ ان سے کچھ ہمدردی بھی نہ کر سکی اور کرتی بھی کیسے؟ ان سب کی کاٹ کھانے والی نظروں کی اس میں کہاں تاب تھی۔
ابا کے پلنگ پر کٹھملوں کا راج دیکھ کر اس نے کہا ’’اب آپ کے پلنگ پر دوائی ڈالنی چاہیے یہ تو آپ کو بری طرح کاٹتے ہونگے"
 نہ معلوم وہ واقعی ان کو نہیں کاٹتے تھے یا وہ بہت یہ صابر و شاکر تھے کہنے لگے ’’نہیں بھئی ہمیں کچھ نہیں کہتے اپنا ایک طرف رہتے ہیں‘‘ لیکن اس نے ان کمرے میں اس وقت دوائی ڈالی جب بھائی جان ، بھابھی کو لے کر آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے راولپنڈی اور مری نتھیا گلی گئے تھے۔ ابا کے لیے بازار سے کپڑے لے آئی، کڑتے اور پاجامے سیئے ۔ وہ سفید کرتا اور پاجامہ ہی پہنتے تھے۔ کچھ کرتوں پر ہلکی سی کڑھائی کر دی گلے اور آستین پر ۔ابا اس پر آشوب دور میں اس کے واحد ہمدرد اور بہی خواہ اور محبت کرنے والے تھے۔ ان سے اس کا تعلق بھی پرانا تھا انہوں نے ہی اسے پسند کرکے جواد سے رشتہ کیا تھا۔
ایک مرتبہ جب جواد کا رویہ کچھ تلخ اور Ignoring ہو گیا تھا تو ابا نے انہیں سختی سے ڈانٹا تھا اور اپنے رویے کا جائزہ لینے کے لیے کہا تھا۔ شام کے وقت اب برآمدے میں آ کر بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے ان کے پڑھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ منو کو پڑھانا انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ وہ ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں سنتی اور ان سے Discuss کرتی تھی۔ خبریں سننا اور اس پر تبصرہ کرنا پرانا شوق تھا۔ اپنا ریڈیو اور ٹی وی جو خبریں ہمیں دیتا تھا اس کے لحاظ سے سب اچھا تھا۔ حالانکہ حالات بہت دگرگومں تھے۔ وہ بی بی سی سن کر بہت پریشان ہو جاتی اور اس بناء پر انہوں نے بی بی سی سننے سے منع کر دیا۔ رات کو تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے ابا کی آہ وزاری کرنے سے اس کی آنکھ اکثر کھل جاتی کیا پھوٹ پھوٹ کر گڑگڑا کر وہ اپنے رب سے دعائیں کرتے تھے اور یہ ان کا روز کا معمول تھا۔
اسے کوئی کام ہو ، ضرورت ہو ، وہ ابا سے کہتی تھی وہی لے کر اسے با زار جاتے ، خریداری کرواتے ، جان پہچان والوں سے ملوانے لے جاتے تھے۔ جواد عید گزارنے کراچی آئے تو ان کا خیال تھا کہ مرینہ اور چھوٹے ہاشم کو لے جائیں گے۔ بڑے دونوں وہیں رہیں گے اور ابا وغیرہ خیال رکھیں گے۔ وہ بھی کتنے بڑے تھے ایک سات سال ایک پانچ سال کا تھا اب اور مرینہ نے اس تجویز کو بالکل رد کر دیا۔ ’’اتنے چھوٹے بچوں کا خیال کون رکھ سکتا ہے؟ اور بھابھی تو اس قدر بیمار رہتی ہیں ۔ ان سے تو اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داری نہیں سنبھالی جاتی۔"
 وہ آئے تھے جانے ہی کے ارادہ سے تھے۔ بتا رہے تھے کہ اتنے اہم پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ خلیل صاحب نے کہا ہے کہ ایک ہفتے میں واپس آ جائیں۔ دیگر بہت سے دوست احباب جن کی فیملیز مغربی پاکستان میں تھیں رک گئے۔ حالات بگڑنے کی خبریں آ رہی تھیں۔ خبروں میں آیا کہ جیسور کی طرف انڈیا نے بڑا حملہ کیا ہے اور کافی علاقہ قبضے میں لے لیا ہے ۔جس ملک کے اپنے ہی عوام بغاوت پر آمادہ ہو جائیں بلکہ اس قدر وسیع پیمانے پر اس کو بچانا مشکل نظر آ رہا تھا ۔مکتی باہنی (آزادی کی فوج) بنگالی نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت تھی اس میں بہت سے فوجی بھی شامل ہو گئے تھے۔سب سے بڑھ کر فوج کا بنگالی حصہ ،طالب علم تنظیمیں ، مزدور اور ہر پیشہ کے لوگ تھے جو اب پاکستان سے آزاد ملک بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے۔ ہندوستان تو ان کا سرپرست اور کرتا دھرتا تھا ہی دیگر پاکستان دشمن ممالک بھی ان کے حامی اور Supporter تھے۔ پھر ان لوگوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی بہت ہدردی پا لی تھی۔ مغربی پاکستان کی فوج کا حال وہاں ایسا ہی تھا جیسے کہ وہ غیر ملک میں ہوں۔ زبان ، کلچر ، سرزمین سب تو غیر ہی تھی۔ ایک چیز مذہب یا دین جو کہ ان میں مشترک تھا وہ اس وقت بہت بڑے غلاف کے اندر بند ہو چکا تھا۔ اس وقت لسانیت ، علاقائیت او رفسطائیت کا راج تھا۔
تقسیم ہند کے واقعات تو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوئے تھے لیکن آپ بنگالی ، بہاری اور پنجابی کے درمیان تھے تمام اردو بولنے والے بہاری کہلاتے تھے اور مغربی پاکستان کے تمام رہائشی پنجابی کہلاتے تھے۔ صرف نو سال پہلے جب وہ یہاں پہلی مرتبہ شادی کے بعد آئی تھی تو اسے یہ سرزمین اور یہاں کے باسی بہت بھائے۔ ہرا بھرا سرسبز ملک اور سیدھے سادھے لوگ ، دکھاوا اور بناؤٹ سے بے نیاز ، دکھاوا اور بناؤٹ تو مغربی پاکستانیوں میں تھا جو پنجابی کہلاتے تھے یا اردو بولنے والوں میں جو بہاری کہلاتے تھے۔ 
ہو گئی تھی جواد کہتے تھے ’’بنگال کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہو جاتا ہے میں بھی جب تک یہ نکالیں گے نہیں یہاں سے جانے والا نہیں ہوں‘‘ جواد کی باقی فیملی پاکستان کراچی اور راولپنڈی آ کر آباد ہو گئے تھے لیکن وہ آنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر ہر طرح کا آرام ، ہر چیز کی فراوانی ، بہترین ملازمت بلکہ پھر تو کمپنی کے ڈائریکٹر ہو گئے تھے۔ عمدہ مکان ، سہولیات ، نوکر چاکر ، دو کاریں ، ڈرائیور وہ سب کچھ تھا جس کی ایک آدمی تمنا کر سکتا ہے۔
وہ کہتی تھی کہ یہ بھی ہمارا ملک ہے اور پھر ہم یہاں خوش ہیں۔ اللہ نے ان کو اولادوں سے نوازا۔تین بیٹے ، ایک بیٹی عطا کی۔ بیٹی کا پیدائش کے وقت ہی انتقال ہوا۔ یہ دونوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس مٹی میں ان کا ایک جگر گوشہ بھی دفن تھا۔
وہ جب یہاں آئی تھی تو اس نے پہلے کبھی ساڑھی نہیں پہنی تھی۔ جواد نے اسے کئی ساڑھیاں لا کر دیں اسے ساڑھی بہت پسند تھی ، بس پھر تو ساڑھی ہی اس کا لباس بن گیا۔ رات کو پیٹی کوٹ اور بلاؤز میں سو جاتی دن میں ساڑھی لپیٹ لیتی۔ کاٹن کی ابرق اور کلف لگی ساڑھیاں خوب چمک دیتیں۔ کانجی ورم ، کتھان بنارسی ، پیور سلک ، شفون ، جارجٹ غرضیکہ اس کے پاس ساڑھیوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ لمبا قد ، دبلا پتلا سراپا ساڑھی اس پر خوب جچتی۔
جب بیگم باز نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئیں۔ "ارے تم تو پوری بنگالن بن گئی ہو"
 یہ اس کے ابا کے ایک عزیز دوست کی بیگم تھیں۔ بریگیڈیئر باز ملٹری Intelligence میں تھے بلکہ مشرقی پاکستان اگرتلہ سازش کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ کچھ یہاں کے پانی کا کمال تھا کہ اس کے بال خوب گھنے اور لمبے ہو گئے تھے اس کا وہ جوڑا لپیٹ لیتی تھی۔ وہ جب چھوٹی تھی تو اس کی امی کو اس کے بال لمبے کرنے کا بہت شوق تھا وہ اسے ایک تیل لگاتی تھیں جس کا نام زلف بنگال تھا۔
اور حقیقاً زلف بنگال ، اسم بامسمیٰ تھا یہاں پر بال کاٹنے کا فیشن ہی نہیں تھا ہر عورت کے لمبے گھنے سیاہ بال ہوتے اور اس کے جوڑے بنے ہوتے تھے کٹے ہوئے بال یہاں بہت بڑا فیشن جانا جاتا تھا۔ بنگالی خواتین مغربی پاکستان کی بال کٹی ہوئی خواتین کو بہت موڈ Mod سمجھتی تھیں ، ہر جگہ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے یہاں کی ثقافت پرہندوانہ رنگ غالب تھا ماتھے پر بندیا ، ساڑھی ، چھوئے بلاؤز کمر تک ، پیٹ دکھائی دینا کوئی عجب نہ سمجھا جاتا۔ شروع میں تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ بہت سی دیندار خواتین کے بھی پیٹ کھلے ہوتے ہیں اور بازو چھوٹے ہوتے ہیں۔ نماز کے وقت ساڑھی کو کھول کر لپیٹ دیا جاتا ، غریب عورتیں اور نوکرانیاں نو بلاؤز پہنتی ہی نہیں تھیں اس کے خانساماں کی بیوی خدیجہ جب کچن میں بغیر بلاؤز کے ساڑھی لپیٹ کر آتی تو اسے بہت خفت اور شرم محسوس ہوتی۔ خدیجہ کو اس نے اپنے بلاؤز دیے کہ پہن کر آئے۔ کچن میں آتے وقت خدیجہ الٹا سیدھا بلاؤز پہن کر آتی تھی وہ لوگ پیٹی کوٹ بھی نہیں پہنتی تھیں بس ساڑھے کو گرہ لگا کر باندھ لیتیں۔ خدیجہ کو ایک روز تیز بخار تھا تو وہ اسے دیکھنے کوارٹر گئی وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور بلاؤز پہننے لگی۔ ’’بیگم صاحب بہت گرمی ہے‘‘ اس نے بنگلہ میں کہا ۔
یہاں کی زندگی میں ایک غنائیت تھی ، ناچنا گانا ، یہاں کے بنگالی کلچر کا ایک حصہ تھا ۔ جواد کا خاندان پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان آ کر آباد ہوا تھا ان کے والد یعنی ابنا ریلوے میں تھے۔ وہ لوگ تو پھر مغربی پاکستان آ گئے۔ لیکن جواد یہیں تھے۔ سید پور سے میٹرک کرنے کے بعد ڈھاکہ آگئے ۔ یہیں پر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور ملازمت شروع کی۔ مرینہ نے زیادہ تر نوکروں کے ساتھ بول کر اچھی خاصی بنگالی سیکھ لی تھی۔
مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال کے مسلمان لیڈروں کا تقسیم ہند میں بہت اہم رول تھا۔ مولوی فضل حق، مولوی تمیز الدین خان ، نواب خواجہ ناظم الدین (جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے) خواجہ شہاب الدین اور گورنر جنرل (جو وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر فائز رہے۔ مسلم لیگ کے صف اول کے رہنماؤں میں تھے۔
ان کی کوششوں سے مشرقی بنگال ہندوؤں کے تسلط سے آزاد ہوا اور خودمختار پاکستان کا دوسرا حصہ بنا۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ مساویانہ سلوک ہرگز نہیں ہو رہا ہے۔ وسائل اور اقتدار کی تقسیم انتہائی غیرمنصفانہ ہے۔ جب قائداعظم آئے اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہ دیا کہ اردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہو گی تو اس کو بنگالیوں نے ہرگز تسلیم نہ کیا کیونکہ پورا مشرقی پاکستان بنگالی بولتا تھا جب کہ اردو پاکستان کے کسی حصے کی زبان نہیں تھی صرف اردو دان طبقے کی زبان تھی۔
اس کے والد اکثر افسوس کرتے تھے کہ کاش قائداعظم اور ان کے ساتھی عربی کو قومی زبان بنا دیتے تو سب اس پر متحد ہو جاتے۔
اس اعلان کے فوراً بعد بنگالی طلباء نے بہت بڑا جلوس نکالا اور کہا کہ اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنایا جائے۔ اس جلوس میں شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور وہاں کے مجسٹریٹ کے آرڈر سے گولی چلی اور کئی طلباء مارے گئے۔ یہی وہ دن تھا جب نفرت اور عداوت کا پہلا بیج متحد ہ پاکستان کے خلاف بویا گیا۔ جہاں پر یہ واقعہ ہوا تھا وہاں شہید مینار بنایا گیا۔ ہر سال اس روز کو بڑھ چڑھ کر منایا جاتا تھا بلکہ لوگ ننگے پاؤں جلوس کی شکل میں جاتے اس کو وہ پربھات پھیری یا پیری ، کہتے تھے۔ خوب خوب تقریریں ہوتیں تھیں۔ نفرت او عداوت کو ہوا اور جلا ملتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ احساس عام ہوتا گیا کہ ایک اور خطے اور زبان کے بولنے والے لوگ یہاں کے سیاہ و سپید پر حاکم ہیں اور خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہی رویہ اردو بولنے والوں یعنی بہاریوں کے ساتھ بھی شروع ہوا۔ اس طرح کی باتیں کھلے عام ہونے لگیں کہ انہوں نے ہمارے ملک کو لوٹا ہے اور ان کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارے ملک سے حاصل شدہ ہے یہاں کے وسائل کا ہے۔ اسلام آباد نیا نیا بن رہا تھا اس کی چمکیلی سڑکوں کا بڑا تذکرہ رہتا تھا پھر اس بات کو بہت اچھالا گیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ پٹ سن (Jute) مشرقی پاکستان کا Cash Corp تھا ۔ کپاس کی طرح اور ملک کا ایک بڑا زرمبادلہ اس سے حاصل ہوتا تھا۔
سیاستدانوں نے ان نفرتوں کو خوب ہوا دی۔ متحدہ پاکستان کے حامی بھی تھے لیکن اکثریت زہر اگلنے لگی۔
1968ء کے آخر میں جب ایوب خان کی حکومت Decade of Development دس سالہ ترقی کا جشن منا رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میںآئے دن ہنگامے زور پکڑ گئے۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے اور آئے دن کرفیو لگ جاتا۔ ایوب خان کی حکومت نے کچھ کوششیں کی تھیں۔ بنگالیوں کو قریب کرنے کی لیکن کچھ فائدہ نظر نہیں آتا تھا۔ مثلاً مشرقی پاکستان کو پوربو پاکستان اور مغربی پاکستان کو پچھم پاکستان کہا جانے لگا۔ ملک کے ان دونوں حصوں کے درمیان بھارت کا دو ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ اگر تلہ اور اس تین سال کے عرصے میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی۔
شیخ مجیب الرحمن کے اگر تلہ سازش کیس میں گرفتاری پر خوب مظاہرے ہوئے۔ مقامی باشندوں نے اسے کیس کو جھوٹا قرار دیا نعرے لگتے تھے ’’میتا کیس‘‘ یعنی جھوٹا کیس ، اگر وہ کیس سچ بھی تھا تو بھی اس میں صرف صوبے کا نام بنگلہ دیش رکھا گیا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ نہیں تھا۔ عوام کے مطالبے کو مانتے ہوئے ایوب خان کو شیخ مجیب کو رہا کو رہا کرنا پڑا اور آب وہ عوامی لیگ کے ایک بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کا طوطی بولنے لگا۔ وہ جو کبھی ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا اب ایوب خان کی مخالفت میں ڈٹ گیا۔ اب حکومت کے خلاف خوب خوب مظاہرے ہوئے۔ حسب معمولی مہنگائی ، کرپشن اور دیگر الزامات عائد ہوئے۔ آخرکار عوام کے دباؤ میں آ کر 1969 میں ایوب خان مستعفی ہوئے اور اقتدار کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا۔ بلکہ مارشل لاء لگ گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار میں آنے کے بعد مغربی پاکستان کا ون یونٹ ختم کیا اور چار صوبے بحال ہوئے کیونکہ یہ ایک شدید مطالبہ تھا کہ ون یونٹ ختم کیا جائے۔ مشرقی پاکستان کی حیثیت پانچویں صوبہ کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مغربی پاکستان میں پی پی پی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ انتہائی مقبول عوامی پارٹیوں کی صورت میں ابھریں۔ یحییٰ خان نے 1970ء میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا۔
ان کا پرانا خانساماں اسماعیل جس کو اب جواد نے اپنا سائٹ سپروائزر بنا لیا تھا ملنے آیا تو سلام کرنے کے بعد فرش پر بیٹھ گیا اور زار وقطار رونے لگا۔ ’’بیگم صاحب اجمل (بنگالی میں ازمل) کے ساتھ اب بڑا آدمی ہو گیا ہے۔ شیخ مجیب (مزیب) کے ساتھ رہتا ہے اپن کو تو اب پہچانتا ہی نہیں ہے۔ بیگم صاحب ہم نے اس کو ماں باپ بن کر پالا۔ خود خراب پہنا اچھا اس کو دیا۔ خود بھوکا رہا اس کا پیٹ بھرا کتنی محنت سے اس کو پڑھایا آپ تو سب جانتا ہے)‘‘ وہ اسے سوائے تسلی دینے کے کیا کہتی۔ یہ حقیقت تھی کہ جواد کے پرانے سوٹ جو کبھی تنگ اور کبھی ڈھیلے ہو جاتے تھے ، جوتے ، کپڑے تمام اسماعیل لے جاتا تھا۔ وہ کہتا تھا ، ’’بیگم صاحب ازمل یونیورسٹی جاتا ہے اس کا اور صاب کا ناپ ایک ہے‘‘ اجمل نے مغربی پاکستان کے خلاف ایک زہر اگلنے والی کتاب بھی لکھی تھی جو کہ کافی مقبول ہو گئی تھی اس کی شادی بھی شیخ مجیب کے گھر سے ہوئی تھی اور اسماعیل ایک عام تماشائی تھا۔ 
الیکشن ہوئے اور شفاف ہوئے مغربی پاکستان سے پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ جیت گئی۔ عوامی لیگ کی نشستیں پیپلزپارٹی سے زیادہ تھیں۔ ملک کے آئین کی رو سے شیخ مجیب کو حکومت دے دینی چاہیے تھی اور ملک کا وزیراعظم مان لینا چاہیے تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ اس پر تیار نہیں تھے ان کی منطق بھی نرالی تھی کہ اگرچہ مجیب کی اکثریت ہے لیکن مشرقی پاکستان میں بھٹو کی اور مغربی پاکستان میں مجیب کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے اس کو وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک عجیب سیاسی گورکھ دھندہ شروع ہو گیا تھا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شیخ مجیب اور اس کی پارٹی کو ملک کا سیاہ وسپید دینے کی شدید مخالفت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے" ادھر تم ادھر ہم "کا نعرہ لگایا۔ جو حقیقًا ایک ملک نہیں بلکہ دو ملکوں کی بات تھی۔ 
مرینہ کو یہ سب کچھ بہت برا لگ رہا تھا لیکن معاملہ بگاڑ کی طرف جا رہا تھا انہیں دنوں وہ اپنے چوتھے بچے سے حمل میں تھی اور طبیعت بھی مضمل رہتی تھی۔ بچی کی پیدائش کے وقت لیڈی ڈاکٹر (جو ایک فلپینی نسل کی امریکن ڈاکٹر تھی اور اس کا تیسرا بیٹا بھی اس کے ہاتھوں پیدا ہوا تھا) گانے گا رہی تھی اور اپنے مددگار عملے سے کہ رہی تھی۔ She is a very easy Patient اس کی ڈلیوری بہت آسان ہوتی ہے۔ سب کچھ نارمل جا رہا تھا اسے محسوس ہوا کہ بچے کی پیدائش کا لمحہ آ گیا ہے لیکن اسے یوں لگا جیسے اس کی جان نکل رہی ہے اور وہ چیخیں مارنے لگی۔ حالانکہ وہ ہمیشہ بہت صبر اور برداشت والی تھی۔ اسے اندازہ ہوا کہ بچے کی پوزیشن الٹی ہے ، باقی جسم تو پیدا ہو گیا لیکن سر ، اس کے بچوں کے سر ہمیشہ بڑے تھے۔ ڈاکٹر تیزی سے مختلف کوششیں کرتی رہی بچی پیدا ہوئی لیکن دم گھٹ گیا تھا رونے کی آواز نہ آئی تو وہ سمجھ گئی کہ کیا ہوا ہے اس کی اپنی حالت بھی بہت خراب تھی بالکل سٹریک ہوگئی تھی جواد بہت سمجھاتے اپنا اور بچوں کا واسطہ دیے لیکن اسے لگتا جیسے کہ وہ اندر سے بالکل خالی ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کس بات کی سزا دی تھی شاید یہ کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے نماز باقاعدگی سے نہیں پڑھ رہی تھی۔ اللہ کی ذات ، تقدیر ، اس کے حکم اور فیصلوں پر اس کا ایمان مزید مستحکم ہو گیا۔
بھٹو اپنے تمام قریبی عملے اور ساتھیوں سمیت خلیل صاحب کے ہاں ٹھہرا تھا۔ شیخ مجیب سے مذاکرات چل رہے تھے لیکن کوئی مثبت حل نہیں نکل رہا تھا۔ جواد بھی اکثر ملنے چلے جاتے تھے۔ خلیل صاحب ان کی کمپنی کے چیئرمین تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے وہاں کافی آسائشیں میسر تھیں۔ کچھ ہم پیالہ و ہم نوالہ والی کیفیت تھی۔ 
جواد کہتے تھے کہ مصطفیٰ کھر اور حفیظ پیرزادہ تو بھٹو کے آگے بالکل ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں پھر وہاں پر حسنہ بیگم اور بلو بیگم بھی تھیں۔
اب وہ سوچتی ہے کہ بھٹو اور یحییٰ خان کا ٹولہ ہی اس ملک کی علیحدگی اور تقسیم کا اصل ذمہ دار ہے۔ انارکی و انتشار کی اس کیفیت کا علیحدگی پسند عناصر خوب خوب فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بھارت ان کی زبردست پشت پناہی کر رہا تھا بلکہ اس سارے قصے کو خوب ہوا دے رہا تھا۔
اس ساری صورتحال میں عوامی لیگ نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ Non Cooperation, Non Alliance کہ نہ کوئی دفتر یا کام جائے گا اور نہ ہی کوئی دفتری کام ہو گا۔
پچھلے دو چار سالوں میں بنگلہ لسانی تحریک نے کافی جڑ پکڑ لی تھی ، اردو کے تمام سائن بورڈ کی جگہ بنگالی سائن بورڈ آ گئے تھے بلکہ انگریزی کے بھی خال خال دکھائی دیتے تھے۔یہی سوچ کر اسے بنگلہ زبان پڑھنے لکھنے کا فیصلہ کیا اور پڑوس کی مسز وہاب کے پاس بنگلہ سیکھنے جاتی تھی۔ وہ اس سے اردو سیکھتی تھیں کیونکہ ان کے شوہر اردو دان تھے۔ اس کے گھر کے ملازموں کے تیور بھی بدلنے لگے۔ صفائی والی حلیمہ کی ماں کہنے لگی۔ ’’بیگم صاحب آپ سب لوگ چلا جائے گا اس دیش سے، یہ سب ہمارا ہو جائے گا۔‘‘ اور واقعی ایسا ہوا۔ اس کے سارے ملنے والے جان پہچان والے آئے دن خاموشی سے کراچی اور لاہور جانے لگے۔
ہندوستان سے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ چل رہے تھے۔ کشمیری رہنماؤں یا دہشتگرد کہا جائے مقبول بٹ وغیرہ ایک بھارتی طیارہ گنگا ، اغواء کرکے لاہور لائے اور انہوں نے اسے ایئرپورٹ پر بم سے اڑا دیا۔ بھٹو ان کو شاباش دینے ایئرپورٹ پہنچا اور خوب تعریف کی۔ بھارت نے اس حرکت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے حدود پر سے پاکستان کی پروازیں معطل کر دیں۔ بھارت کے اوپر سے کراچی اور لاہور سے ڈھاکہ کی تقریباً اڑھائی گھنٹے کی پرواز تھی جب کہ اب کولمبو (سری لنکا) کے ذریعے پروازیں جا رہی تھیں تقریباً ساڑھے چھ گھنٹے کا وقت لگتا تھا کولمبو میں جہاز اتر جاتا تھا ری فیولنگ ہوتی تھی۔
مارچ کا مہینا تھا۔ انہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ چلے جاتے ہیں۔ کام کاج تو یونہی بند تھا۔ پورے خطے پر ایک جمود کی کیفیت طاری تھی ، یہی سوچ کر روانہ ہوئے تھے کہ حالات بہتر ہوتے ہی واپس آ جائیں گے لیکن اللہ جانتا تھا کہ دوبارہ آنا اس کے اور بچوں کی قسمت میں نہیں تھا۔ گھر کی چند لائٹیں تک جلی ہوئی چھوڑ آئے تھے۔ 21 مارچ 1971ء کو یہ لوگ کراچی پہنچے۔ دوستوں کی دو اور فیملیاں بھی ہمراہ تھیں۔ مسز کیانی پان کا ایک بڑا ٹوکرا لے آئی تھیں۔ پان ان دنوں کمیاب اور مہنگے تھے۔
23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان تھا۔ مشرقی پاکستان میں اس روز کھل کر بنگلہ دیش کے جھنڈے لہرائے گئے اور خودمختار بنگلہ دیش کے ترانے گائے گئے۔
25 مارچ کو جنرل ٹکا خان نے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کیا۔ مجیب الرحمان اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
اس دن بھٹو، ان کے ساتھی اور دیگر مغربی پاکستانی سیاستدان واپس آئے تو بھٹو نے کہا ''Thanks God Pakistan has been Saved'' لیکن پاکستان کے اسی دن دو ٹکڑے ہو چکے تھے۔
فوج نے زبردستی دفتر کھلوائے ، کاروبار ، کام شروع کروایا اور آرمی آپریشن شروع ہوا۔ عدم تشدد کا سلسلہ خونریزی میں تبدیل ہوا۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے لگا۔ تقسیم ہند کے قتل اور خونریزی ، ہندو مسلم اور سکھ فسادات کو لوگ بھول گئے۔ اب قتل و غارتگری تھی بنگالی ، بہاری اور پنجابی کی، کتنے جاننے والوں کو مار دیا گیا۔
ان کے پڑوس میں باسط صاحب کا فی بڑا خاندان میمن سنگھ میں رہتا تھا وہ لوگ ایک شادی کے سلسلے میں وہاں گئے تھے ان کا ایک بیٹا پاکستان آرمی میں میجر تھا۔ اندرون ملک تو پورے پورے خاندان ہلاک کر دیے گئے۔ اور یہی ان کے خاندان کے ساتھ ہوا۔ بیٹا جب آیا تو اسٹین گن لے کر نکلا اور راستے میں جو بھی بنگالی ملا اس کوشوٹ کرتا گیا۔ بڑی مشکل سے قابو میں آیا۔ مکتی باہنی والے پاکستان کے فوجیوں کو پکڑ کر نسیں کاٹ کر درخت پر لٹکا دیتے اور مرنے کے لیے تڑپتا چھوڑ دیتے تھے۔ یہی انجام اشمس اور البدر کے کارکنان کا کرتے تھے۔ یہ بنگالی طلباء تھے جو متحدہ پاکستان کے حامی تھی زیادہ تر اسلامی جمعیت طلباء کے کارکن تھے یا جماعت اسلامی سے تعلق تھا۔ فوج بھی باغیوں کو مارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی بلکہ خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات کی بازگشت بھی سنائی دیتی۔ جو دونوں طرف سے ہو رہی تھی۔ بظاہر ڈھاکہ اور چاٹگام کنٹرول میں لگ رہے تھے۔ جواد ان کو بلانے کا وعدہ کرکے چلا گیا اور جب دوبارہ آ کر گیا تو یہ کہ کر گیا کہ میری جیب میں ٹکٹ ہے جب بھی گڑ بڑ ہوئی اگلی فلائیٹ لے کر آ جاؤں گا‘ وہ جانتی تھی کہ ایسا ہرگز نہ ہو سکے گا اور وہی ہوا ۔اس کے جانے کے تین دن بعد ہی بھارت نے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جنرل نیازی پاکستانی فوج کے کمانڈر تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں دونوں حصوں کے درمیان کمرشل پروازیں قطعاً معطل ہو گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مغربی پاکستان کے فوجی وہاں تھے ان کے لیے وہ سرزمین ایک دیارغیر سے کم نہیں تھی۔ (رائل بنگال ٹائیگرز)فوج کا بنگالی حصہ بغاوت کرکے الگ ہو چکا تھا۔ وہ گوریلا جنگ یعنی مکتی باہنی کے کمانڈر بن چکے تھے اور اب بھارت کے شانہ بشانہ پاکستانی فوج سے لڑ رہے تھے۔
ان کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ جواد جاتے وقت ایک پستول خرید کر لے گئے تھے کہ اگر ضرورت پڑی تو استعمال کروں گا لیکن اس تمام صورت حال میں ان کی لاہور سے تعلق رکھنے والی دو رشتہ دار لڑکیاں جو وہاں اس کالرشپ یا انٹرونگ اس کالر شپ (Interwing ) پر پڑھ رہی تھیں واپس ڈھاکہ چلی گئی تھیں اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس تھیں (یہ ایک الگ داستان ہے) کیونکہ یہ ان کے لوکل گارڈین تھے اور وہاں ان کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ ان حالات میں جب کہ مرد اپنے خاندانوں کے پاس مغربی پاکستان آ چکے تھے ان لڑکیوں کا واپس جانا انتہائی حیرت انگیز تھا۔
اپنا ریڈیو اور ٹی وی تو پاکستانیوں کے دفاع اور بے جگری سے لڑنے کی کہانیاں سنا رہا تھا جب کہ بی بی سی کی خبریں بالکل الٹ ہوتیں اور یہی وہ وقت تھا کہ ابا نے اسے بی بی سی سننے سے منع کر دیا۔ ارے جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 1965 ء میں بھی بی بی سی نے کہا تھا کہ ہندوستان نے لاہور کر قبضہ کر لیا ہے۔ مت سنا کرو ایسی خبریں سوائے پریشانی کے کچھ نہیں ، لکین وہ چپکے چپکے سنتی تھی ، پھر خبر آئی کہ چھاتہ بردار ڈھاکہ اور اس کے مضافات میں اتر رہے ہیں۔
ایک دن پہلے ہی جنرل نیازی نے کہا ’’ہمارا دفاع مضبوط ہے بھارتی ٹینک میرے سینے پر گزر کر ڈھاکے میں داخل ہو گا‘‘ اور اگلے ہی دن پلٹن میدان میں وہ بھارتی جنرل ارورہ سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ 
اس سے چند روز پہلے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہو رہی تھیں۔ بھٹو کو نمائندہ پاکستان کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا، اس وقت بھی کنفیڈریشن کا معاملہ پیش کیا گیا۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا۔ بھٹو نے بڑی جذباتی تقریر کی (تقریریں کرنا اس کو خوب آتا تھا) اور پولینڈ کی پیش کردہ بڑی معقول تجویز کو اس نے پھاڑ کر پھینک دیا۔
پاکستانی ٹی وی اور ریڈیو اب بھی سب اچھاہے کی رٹ لگائے ہوئے تھا جب مرینہ نے بی بی سی سے ہتھیار ڈالنے کی خبر سنی تو بے تحاشہ اس کے منہ سے شدت غم سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ابا اور باقی سب لوگ گھبرا کر نکل آئے۔ جواد کی کوئی خبر جانے کے بعد نہیں آتی تھی اور اب ایک بہت ہی موہوم سی امید تھی کہ وہ بخیریت ہوں گے۔
ملک کا دوسرا حصہ بخوبی الگ ہو کر ایک اور آزاد ملک بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ بھارت ان کا نجات دہندہ تھا۔ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا اس کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ مواصلات کے تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ ایسے وقت میں انٹرنیشنل ریڈکراس اور جنیوا کنونشن کے تحت پاکستانی فوجیوں اور ویلین کی بخفاظت واپسی کا فارمولہ طے پایا۔ ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں اور سویلین کو بھارت لے جا کر کیمپوں میں محصور کرنا تھا۔ پاکستانی فوج کو ایک زبردست شکست ، ہزیمت اور پسپائی ہو چکی تھی۔ مجیب الرحمن کو آزادکرکے شان و شوکت سے بنگلہ دیش کا پہلا وزیراعظم بنایا گیا جب کہ بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے صدر بنے۔
یہ وقت ایک انتہائی بے یقینی ، غم ، افسوس اور بددلی کا تھا، ملک کا تو جو حشر ہونا تھا ہو چکا لیکن اسے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ کیا جواد واپس آ جائینگے ۔ اس کا شوہر اور اس کے بچوں کا باپ واپس آ جائے گا اور اس کا گھر پھر سے بس جائے گا ، بس ایک موہوم سی امید اور دعائیں تھیں۔ فوجی اور سویلین ہزاروں کی تعداد میں بھارت لے جائے گئے ارو یہ POW یعنی Prisnors of War یا جنگی قیدی کہلائے۔اڑھائی ماہ کے بعد جواد کی خیریت کی اطلاع انٹرنیشنل ریڈکراس کے ذریعے سے آئی کہ وہ محفوظ اور بخیر ہیں اور ایک دوست کے ساتھ محمد پور میں رہتے ہیں۔
یہ خبر ایک مژدہ جانفزا تھی ، اندھیری تاریک رات میں روشنی کی ایک کرن تھی کہ اس کے جواد صحیح سلامت ہیں۔ ریڈکراس کے ذریعے پیغام آنے جانے میں ایک سے دو مہینے لگ جاتے تھے اور پیغام بھی زیادہ سے زیادہ پچاس لفظ پر محیط تھا۔ پھر جب کچھ بنگلہ دیش کا ڈاک کا نظام بہتر ہوا تو جواد نے اپنے بھائی کو لندن ان کے نام خط بھیجا جو کہ اسکے بھاء ینوید نے کراچی ارسال کیا۔ اس خط میں پتے میں اس نے اپنے نام کے ساتھ ، خوندوکار ، لکھا تھا جو کہ ایک بنگالی ذات ، اور یہ محض ایک احتیاطی تدبیر تھی۔ جوابی پتا اپنے دوست شیرازی کا دیا تھا جو کہ پرانے ڈھاکہ میں رہتے تھے۔ ڈھاکہ فال کے بعد جب کہ ہر طرف قتل و غارتگری ہو رہی تھی شیرازی ان کو اپنے گھر لے گئے اورکئی روز تک اپنے ہاں رکھا بلکہ پناہ دی۔ شیرازی کے آباواجداد تو شیراز (ایران) سے آئے تھے پھر ڈھاکہ میں بنگالیوں بلکہ ڈھاکہ کے پرانے باشندے جنکو ڈھکیہ کہتے تھے ان میں انہوں نے شادی بیاہ کی ۔ ان کے ہاں بنگلہ اور اردو دونوں بولی جاتی تھیں اور وہاں کے لوگوں میں کافی عزت تھی۔
جواد نے اپنی ٹویوٹا کرولا 17 ہزار میں بیچ دی تھی۔ اس سے اپنا بھی گزر بسر کر رہے تھے اور اپنے دوست احباب کی بھی مدد کر رہے تھے اس لوٹ مار کے عالم میں یہ گاڑی بیچنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
            ا ب ان کے خطوط اسی طریقے سے آنے لگے۔ اس میں تقریباً تین سے چار ہفتے لگ جاتے تھے لیکن یہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔
اسی دوران ابا کے گھر پنڈی میں خالی ہو گیا تھا اور وہ مکان کی مرمت وغیرہ کی نیت سے پنڈی جانے کی تیاری کرنے لگے۔ جواد اپنے خطوط میں اپنی بے بسی مجبوریوں اور کسم پرسی کی داستان سناتے۔ اس سرزمین پہ جو کہ ان کی اپنی تھی جہاں سے انہیں عشق تھا وہ آج ایک قیدی اور بے یارومددگار کی زندگی گزار رہے تھے۔ جہاں قدم قدم پر خطرہ اور خوف تھا اور جو اب ایک ظلم کی بستی تھی پھر معلوم ہوا کہ کچھ لوگ دلالوں اور اسمگلروں کے ذریعے بھارت پہنچ گےء اور پھر بھارت سے نیپال اور بنکاک کے ذریعے پاکستان آئے، ظاہر ہے جواد بھی نکلنے کی کوشش میں تھے لیکن کب ؟ وہ جب خط بھیجتی تو بچوں سے بھی چند جملے ضرور لکھواتی وہ اپنے معلوم جذبات کا اظہار کرتے۔
ابا پنڈی جانے لگے تو اسے معلوم تھاکہ حالات اس کے لیے اور صبر آزما ہو جائیں گے۔ اس کو اس کی بھی گھبراہٹ تھی کہ وہ اکیلے کیسے رہیں گے بھابھی کہنے لگیں ’’وہ تو ہمیشہ جاتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔" ان کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے کہ رہی ہوں کہ خواہ مخواہ کی محبت جتا رہی ہو۔
جون کا مہینا تھا۔ ابا کو گئے ہوئے 3 ہفتے ہو چکے تھے۔ وہ مکان میں رنگ و روغن اور دیگر کام کروا رہے تھے۔ ایک شام اچانک ٹیلی گرام آیا کہ ان کی طبیعت کافی خراب ہے فوراً آ جاؤ ، یہ نقوی صاحب کی طرف سے تھا۔ سب لوگ بے حد پریشان ہوئے۔ نند صاحبہ کے ہاں دعوت تھی وہ بھی فارغ ہو کر آئیں۔ ابا کے جانے سے پہلے ان کی اور ابا کی خوب جھڑپ ہوئی تھی۔ ابا نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ اب میں پنڈی سے نہیں آؤں گا ۔ بھائی جان اگلی فلائیٹ سے روانہ ہوئے لیکن ابا جان کو جان لیوا اسٹروک ہوا تھا پہنچنے سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور جا چکے تھے بہت عظیم سانحہ تھا اس کو ایسا لگا کہ اس کا بزرگ ، اس کا سرپرست اس کا غمگسار چلا گیا ۔ وہ تو ان کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہی تھی ۔ اس کی نند تو شدت غم سے دیوانی سی ہو گئی شاید پچھتاوا بھی ہو۔ابا کو وہیں دفنایا گیا ، اماں اور شاہد (ان کا چھوٹا بیٹا) بھی وہیں دفن تھے۔
پہلے تو سوچا گیا کہ جواد کو بے خبر رکھا جائے لیکن پھر اطلاع کر دی گئی اس کسمپرسی کے عالم میں ان پر بھی قیامت گزر گئی۔ شیرازی کا چھوٹا بھائی منو بڑی باقاعدگی سے آتا تھا وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس کو وہاں سے کوئی خبر ملتی تو دینے چلا آتا۔ اور وہ اپنا دکھ درد بھی بانٹ دیتے۔ ابا کے جانے اور انتقال کے بعد حالات اور بھی صبرآزما ہو گئے تھے۔ وہ تو اللہ کا شکر تھا کہ جواد کی کمپنی کا کراچی آفس اسے کچھ رقم دے دیتا وہ اسے کچھ کیش دے گئے تھے ورنہ پھر بالکل ہی خالی ہاتھ ہوتی جس سے بچوں کی فیس وغیرہ کی ادائیگی ہو رہی تھی۔ جیٹھ کے دو لڑکوں سے وہ کافی خالف سی رہتی تھی۔ وہ ہر وقت بچوں کو چھت پر لے جا کر کھیلنا چاہتے تھے۔ ابا کے انتقال کے ڈیڑھ ماہ کے بعد اچانک بھابھی کی طبیعت بگڑ گئی ان کو بقائی ہسپتال لے جایا گیا انہیں دمے کا بہت شدید دورہ پڑا تھا۔ رات کو اس کی آنکھ کھلی تو اصغر کے رونے کی آواز آ رہی تھی کہنے لگا ’’اماں جی بھی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں‘‘ یکے بعد دیگرے دو غموں نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دکھ درد اور پریشانیاں بھول گئی۔
پھر ایک دن اچانک بیگ صاحب آ گئے وہ ان کو دیکھ کر ششدر رہ گئی کیونکہ وہ بھی ڈھاکے میں محصور تھے۔وہ ہندوستان ، نیپال اور بنکاک کے راستے پہنچے تھے ، بجائے اس کے کہ وہ اس کا دکھ درد بانٹتے وہ اس کی تکلیف اور پریشانیوں میں اضافہ کر گئے ان کی ایک بات بار بار اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ’’مجھے تو نہیں لگتا کہ جواد وہاں سے نکلنے کی کوئی کوشش کر رہے ہیں ارے ان کی تو خوب عیش ہے۔‘‘ ان کا اشارہ ان کی دو عزیز لڑکیوں کی طرف تھا جو وہاں تھیں۔
اس نے صرف اتنا کہا ’’میں نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ رکھا ہے اور اللہ بہتر کرے گا"
 جواد کے جتنے خطوط آئے تھے اس میں سوائے دعاؤں ، وظیفوں، اوراد اور پریشانی کے کچھ نہ ہوتا ، وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ ان ناگفتہ بہ حالات میں کتنا عیش کر سکتے ہیں ؟ پھر رفتہ رفتہ مختلف جاننے والوں کے بارے میں خبریں آ نے لگیں۔ فلانا آ گیا ہے ، جواد کے ایک اور قریبی دوست آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ نکلنے کی کوششوں میں ہیں اکیلے ہوتے تو کبھی کے آ چکے ہوتے دراصل ان لڑکیوں کی وجہ سے ان پر بھاری ذمہ داری آ گئی ہے اور ان کو بحفاظت نکالنا چاہتے ہیں۔‘‘
اچانک ایک روز ہ مژدہ جانفرا آیا کہ جواد ہندوستان میں بہار پہنچ گئے ہیں اور ڈاکٹر حمیدی کے ہاں ہیں۔ دلالوں اور اسمگلروں کے ذریعہ لانچوں سے ان کو دریا پار انڈیا پہنچا دیا جاتا۔ انڈیا پہنچ کر وہ آزاد اور محفوظ ہو جاتے تھے۔ قدرت کی کیا ستم ظریفی تھی یا خوشی تھی کہ برداشت سے باہر تھی لیکن جب تک یہاں پہنچ نہ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس قدر خوف اور خدشات تھے ان کو رقم کی اشد ضرورت تھی تاکہ آنے کے لیے ٹکٹ خرید سکیں۔ چھوٹے بھائی نے لندن سے فوراً رقم ٹرانسفر کی، انڈیا سے بارڈر کراس کرکے نیپال پہنچے کٹھمنڈو سے بنکاک اور پھر کراچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک روئے جا رہی تھی۔ دور کہیں مرغوں کی بانگیں آنے لگیں ، لگ رہا تھا اندھیری رات کٹ جانے کو ہے لیکن اس کی ہچکیاں بند ہی نہیں ہو رہی تھیں ، آنسو تھے کہ بہے جا رہے تھے لگ رہا تھا ۔ضبط اور برداشت کا بند آج بری طرح ٹوٹ چکا ہے ، آنسو بھی کتنی بڑی نعمت ہیں اور رحمت ہے رب کی ، انسانی دل و دماغ کو ہلکا اور آسودہ کر دیتے ہیں وگرنہ انسان غموں سے اندر ہی اندر گھٹ جائے۔ یہ آنسو بہنا اس وقت اور آسان ہو جاتے ہیں جب کوئی ڈھارس ملتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ شروع ہو گئی۔ ابھی کراچی کی حبس ناک گرمی شروع نہیں ہوتی تھی۔
پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی ، جواد کے بے حس جسم میں پہلی مرتبہ حرکت ہوئی اس نے اس کی طرف کروٹ لی ، اپنے قریب کیا ہلکے سے پیار کرکے بس اتنا کہا ’’دیکھو اب میں آ گیا ہوں‘‘ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اسے لگا جیسے کہ اس کے سارے دکھ درد ختم ہو گئے ہیں ایک نئی صبح طلوع ہونے کو تھی ، مسجدوں سے فجر کی اذانیں بلند ہونے لگیں۔
حی علی الفلاح ۔۔۔ حی علی الفلاح ۔۔۔ حی علی الصلوٰۃ ۔۔۔ حی علی الصلوٰۃ ۔۔۔اللہ اکبر
۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ الصلوٰۃ خیر من النوم۔
نوم جو کہ آنکھوں سے غائب تھی ، دونوں اٹھے (یعنی نیند) فجر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مجبور و بے بس بندہ ہر گھڑی ہر لمحے اللہ کے رحم و کرم اور فضل کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر بے پناہ فضل کیا تھا۔
***



 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Wednesday, December 11, 2013

The Ultimate Blessing!

The Ultimate Blessing!
The Ultimate Blessing! The biggest blessing for the people of jannah –
 Seeing Allah (SWT)

By

Abida Rahmani

The Greatest Delight: Ridwaan Allah and Looking At His Face

  
In fact every human being has a concept of a creator as said in Quran that Allah (swt) testified every soul that I am your Rabb (lord) and the humans said yes and we testify.
 وَإِذۡ أَخَذَ
 رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمۡ ذُرِّيَّتَہُمۡ وَأَشۡہَدَهُمۡ عَلَىٰٓ أَنفُسِہِمۡ أَلَسۡتُ بِرَبِّكُم‌ۖ قَالُواْ بَلَىٰ‌ۛ شَهِدۡنَآ‌ۛ أَن تَقُولُواْ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ إِنَّا ڪُنَّا عَنۡ هَـٰذَا غَـٰفِلِينَ
And (remember) when your Lord brought forth from the Children of Adam, from their loins, their seed (or from Adam's loin his offspring) and made them testify as to themselves (saying): "Am I not your Lord?" They said: "Yes! We testify," and that you can not say on the day of judgment that you were unaware.(Al- Araf 172)

As a Muslim we have submitted to Allah (SWT) and follow his orders. Some times if we do wrong we are so scared of his wrath and punishment, while if we do good then expect his blessings and rewards in this world and the hereafter.
We have never seen Allah in this world but love him or fear him. This is called Imaan bilghaib
(To believe in the unseen) and this is the ultimate base of our belief(Imaan).As Allah has described in Quran that I am closer to you than your larynges or your spinal chord, I witness your thoughts and deeds that are shown or apparent and those that are hidden in your chests and minds.
For us it is impossible to see Allah (SWT) in this worldly life, although we beg him, we pray him for his mercy and blessings all the times, if we are devout Muslims. We have a great bondage with Allah (SWT) and great confidence in him for this world and the here after. We seek refuge from him from evil and seek his guidance spread on our lives. With all this great connections we are unable to visualise how Allah is, how he looks like? We have no concept of his looks and appearance but we have the greatest desire and longing to see and meet Allah( SWT) after our death or after our eternal life.
ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلَـٰقُواْ رَبِّہِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ (٤٦
(They are those) who are certain that they are going to meet their Lord, and that unto Him they are going to return. (46 Al- Baqara)
 So the greatest reward for a believer is to see Allah (SWT) after our death or on the day of judgment. For this every Muslim is eagerly waiting.

The pleasures of this world are tangible and present, whilst the delights of Paradise are as-yet unseen promises. People are readily influenced by what they can see and know instantly; it is hard enough for them to forgo something that is in front of them for the sake of something else that is in the future, so how much harder it is if the promise will not be attained until after death! So Allah (swt) drew a comparison between the pleasures of this world and the joys of Paradise, and explained that the delights of Paradise are far superior to this world's pleasures. The Qur'an speaks at length denouncing this world of instant, fleeting pleasures and stating that the rewards with Allah as far better and ever lasting, to encourage man to strive hard for success in the next world:

"Some faces that Day will be Nadhirah [shining, radiant], Looking at their Rabb." [75:22-23]

Ibn al-Itheer said, "Seeing Allah is the ultimate joy in the Hereafter, the most precious gift of Allah. May Allah (swt) help us reach that goal?" [Jaami' al-Usool, 10/557]


Abu Sa'eed al-Khudri reported that the Prophet (saw) said that "Allah will say to the people of Paradise, "O People of Paradise! They will say, "We are at Your Worship, our Rabb, and all goodness is in Your hand." He will say, "Are you content?" They will say, "Why should we not be content, O Rabb, when you have given us what you have not given to anyone else of Your Creation?" He will say, "Shall I not give you better than that?" They will say, "O Rabb, what could be better than that?" He will say, "I grant you My pleasure and I will never be displeased with you after that." [al-Bukhaari and Muslim, Mishkaat al-Masaabeeh]


Muslim and at-Tirmidhi reported from Suhayb ar-Rumi that the Messenger of Allah (saw) said: "When the people of Paradise enter Paradise, Allah will say: "Do you want anything more?" They will say, "Have You not made our faces white [i.e. honoured us]? Have You not admitted us to Paradise and saved us from the Fire?" Then the veil will be lifted, and they will never have been given anything more dear to them than looking at their Rabb, may He be Blessed and Exalted."


One report adds, "Then the Prophet (saw) recited the aayah, "For those who have done good is the best [reward i.e. Paradise] and even more [i.e. the honour of glancing at the Countenance of Allah]..." [10:26]


Thus seeing the Face of Allah (swt) was interpreted as part of the "more" [mazeed] which Allah has promised to al-Muhsinoon [those who have done good]:


"There they will have all that they desire - and We have more [for them, i.e. a glance at the All-Mighty, All-Majestic." [50:35]


This is a joy and honour that will be denied to the Kuffaar and Mushrikeen:


"Nay, surely they [evildoers] will be veiled from seeing their Rabb that day." [83:15]


Imaam Maalik ibn Anas, the Imaam of al-Madinah, used this aayah as proof that "Looking at their Rabb" [75:23] literally meant they would see the face of Allah, as some had interpreted it as meaning the people would be waiting for their reward. Maalik said, "They have lied.... The people will look at Allah on the Day of Resurrection with their own eyes. If the believers are not going to see their Rabb on the Day of Resurrection, why did Allah (swt) say that the kuffaar would be veiled from Seeing Him?" [See Sharh as-Sunnah, Mishkaat al-Masaabeeh, 3/100 no. 5662]


at-Tahhaawi, the great Hanafi Imaam, said in his "al-'Aqeedah at-Tahhaawiyyah", "This seeing [Allah] is true, something that will happen to the people of Paradise; it is not necessary to attempt to define it or describe how it will happen. It is mentioned in the Book of Our Rabb [75:23]. The way it will happen is according to the will and knowledge of Allah and we have to believe in it as it was narrated from the Messenger of Allah in the saheeh hadith. We should not interpret it according to our own inclinations and opinions, for no one is sound in his deen except the one who submits fully to Allah and His Messenger. What is ambiguous should be referred to one who has knowledge (i.e. a scholar)" [Sharh at-Tahhaawiyyah, 203]
      
"And strain not your eyes in longing for the things We have given them for enjoyment to various groups of them [mushrikeen and kuffaar] the splendour of this life that We may test them thereby. But the provision [good reward in the Hereafter] of your Rabb is better and more lasting" [20:131]
There are many reasons why the delights of Paradise are superior to the pleasures of this dunyaa; Amongst them:
 (i) The Pleasures of this Dunyaa are fleeting.
 "Say: Short is the enjoyment of this world. The Hereafter is [far] better for him who fears Allah.." [4:77]
 The Prophet (saw) illustrated the inferiority of this dunyaa by comparing it to what Allah has prepared in Paradise, "By Allah, this world in comparison with the Hereafter is nothing more than as if one of you put his finger" - and he gestured with his forefinger - "in the sea; let him see how much water he would retrieve" [Saheeh Muslim, 4/2193, no. 2858]. A finger dipped in the ocean would not even pick up one drop; this is how little this world is worth when compared with the Aakhirah.
 Because these pleasures are so insignificant, Allah (swt) has rebuked those who prefer the pleasures of this world to the joys of the Aakhirah:
 "O you who believe! What is the matter with you, that when you are asked to go forth in the Cause of Allah [Jihaad] you cling heavily to this earth? Do you prefer the life of this world to the Hereafter? But little is the comfort of this life, as compared with the Hereafter" [9:38]
 We have already quoted numerous texts that indicate the inexhaustible abundance of the blessings and joys of the Aakhirah.
For this reason, when the people of Paradise have been saved from the Fire, they will be detained of a bridge between Paradise and Hell, where they will be purified by settling any wrongs that may be outstanding, so that they may enter Paradise, pure of heart and soul, free from any resentment, envy or other negative emotions of this world. al-Bukhaari and Muslim report that when the people of Paradise enter Paradise, "There will be no hatred of resentment among them, their hearts will be as one, and they will glorify Allah, morning and evening" [al-Bukhaari from Abu Hurayrah, in Kitaab bid' al-Khalq, Baab maa jaa'a fi Sifaat al-Jannah, Fath al-Baari, 6/318]
 (iv) The Pleasures of This World are Transient Whilst the Joys of the Hereafter are lasting and eternal.
 This is why Allah (swt) calls the pleasures of this world "temporary conveniences" because they are enjoyed for a short while, then come to an end, but the joys of al-Aakhirah have no end:
 "What is with you, must vanish, and what is with Allah will endure.." [16:96.
(v) Seeking to Enjoy the Pleasures of this World and Neglecting the Hereafter Will be Followed By Regret and Sorrow When One Enters the Fire of Hell.

كُلُّ نَفۡسٍ۬ ذَآٮِٕقَة
ٱلۡمَوۡتِ‌ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ أُجُورَڪُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ‌ۖ فَمَن زُحۡزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدۡخِلَ ٱلۡجَنَّةَ . فَقَدۡ فَازَ‌ۗ وَمَا ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلۡغُرُورِ (١٨٥
 "Everyone shall taste death. And only on the Day of Resurrection will you be paid your wages in full. And whoever is removed away from the Fire and admitted to Paradise, he indeed is successful. The life of this world is only the enjoyment of deception [a deceiving thing]" [3:185
 كُلُّ مَنۡ عَلَيۡہَا فَانٍ۬ (٢٦) وَيَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَـٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ
Whatsoever is on it (the earth) will perish. (26) And the Face of your Lord full of Majesty and Honour will remain forever. (27 Al-Rahman)

So the long lasting and eternal pleasures for a Momin is to attain the blessings of Allah (SWT) in the here after and the ultimate blessing is to see and meet Allah (SWT) in person. We all should pray and wait for this Ultimate Blessings!

Wednesday, December 4, 2013

پاکستانی ڈاکٹر امریکہ اور کینیڈا میں

پاکستانی ڈاکٹر امریکہ اور کینیڈا میں !
ایک سرسری سا جائزہ

-- از عابدہ رحمانی




پاکستان میں عموما ڈاکٹری کی تعلیم یعنی ایم بی بی ایس مکمل کرنیکے بعد پاکستانی ڈاکٹر خصوصا لڑکے امریکہ روانگی کیلئے پر تولنا شروع کرتے ہیں - ، لڑ کیوں کے والدین کو یہ فکر  لاحق ہوتی ہے کہ اب جلد از جلد انکو پیا دوارے وداع کیا جائے- اکثر لڑکیا ں بس ڈاکٹری کی ڈگری نام ہی کیلئے لے لیتی ہیں دوسرے لفظوں میں ضائع کر دیتی ہیں - جب سے پاکستانی میڈیکل کالجوں میں لڑکے لڑکیوں کا کوٹہ سسٹم ختم ہو گیا ہے - پیشہ ورانہ کالجوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے بڑھ جاتی ہے- آجکل تو بہت سے میڈیکل کالجز کا نصاب طلباء کو امریکی طریقہ امتحان کے لئے پہلے سے ہی تیار کرنا شروع کر دیتا ہے- 40 برس پہلے امریکہ کے لئےطبی لائسنس کا  یہ امتحان ECFMG کہلاتا تھا پھر یہ FMG اور بعد میں USMLE کہلایا- آجکل مجھے علم نہیں ہے لیکن دس پندرہ برس پہلے پاکستان میں اس امتحان پر چند بد عنوانیوں کے بعد پابندی لگ گئی تھی اور پاکستانی ڈاکٹر بنکاک تھائی لینڈ یہ امتحان دینے جاتے تھے- یہ بھی ایک اچھا خاصہ کاروبار بن چکا تھا - ٹریول ایجنسیاں اس سلسلے میں خوب متحرک تھیں -پرواز سے لیکر ہوٹلوں میں رہایش تک کے انتظامات کر دئے جاتے تھے - جوڈاکٹر حضرات امریکہ کا امتحان پاس نہ کر پاتے وہ پھر برطانیہ عازم ہوتے -خوب سے خوب تر مستقبل کی تلاش ہر ایک کا جائز حق ہے -
امریکہ میں جو ڈاکٹردیگر ویزوں پر آئے انمیں سے چند ایک کوشش کے باوجود لائسنس کا امتحان پاس نہ کر پاتے اور پھر مخلتف قسم کی ملازمتیں گزر اوقات کے لئے کرتے ہیں - اسی سے متعلق میری مختصر کہانی "ڈالر کا جادو" ہے-جسمیں ایک ڈاکٹر جسکو والد کے ذریعے گرین کارڈ ملا وہ لایسنس کا امتحان پاس نہ کر پائے اور کیب ڈرائیور بن گئے-
امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر کافی بڑی تعداد میں ہیں انمیں ہر شعبے کے اسپیشلسٹ specialists ہیں اور کچھ جی پی GP ہیں- کافی تعداد میں خواتین ڈاکٹر بھی اس میدان میں آگے ہیں- یہ ڈاکٹر یہاں کے خوشحال ترین، مراعات یافتہ طبقے  سے تعلق رکھتے ہیں-انکو  یہاںزندگی کی بہترین سہولیات میسر ہیں- وسیع پر تعیش مکانات ،انتہائی مہنگی گاڑیاں،بہترین ضروریات زندگی ،بیرون ملک دورے ،ہر ایک نے اپنے شوق کو پورا کیا ہے ایک ڈاکٹر صاحب کا گھوڑوں کا اصطبل ہے انکے گھوڑے ڈربی میں بھی دوڑتے ہیں- اسکے لئے انکے پاس پورا عملہ ہے ایسے بھی ہیں جنکے پاس اپنے ذاتی ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر ہیں-بہتوں نے مختلف کاروباروں میں اپنا سرمایہ لگا یا ہوا ہے-انمیں سے بہت سوں کی وجہ سے پاکستان میں موجود انکے باقی اہل خانہ بھی آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں-
ان ڈاکٹروں کو ابتدائی طور پر کافی مشکل اور کڑے اوقات کی تربیت حاصل کرنی پڑی لیکن محنت کا خوب میٹھا پھل پایا - پاکستانی ڈاکٹر امریکی معاشیات میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں وہیں انکے علاج معالجے پر ہر ایک نازاں ہے-انکی ایک تنظیم اپنا APPNA Association of Pakistani Physicians of North America)کے نام سے ہے اپنا کے رجسٹرڈ ممبر 17000 پاکستانی ڈاکٹر ہیں - ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اپنا کے ممبر نہیں بنے  انکے اپنے چھوٹے گروپ یا کمیٹیاں ہیں - جنکے جلسے سیمینار وغیرہ امریکہ کے مختلف شہروں میں منعقد کئے جاتے ہیں جنمیں کئی تفریحی ، ثقافتی اور ادبی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں پاکستانی ملبوسات اور سامان آرائش  کی فروخت بھی ہوتی ہے، مل بیٹھنے کے مواقع میسر آتے ہیں -
انمیں سے اکثر نے پاکستان میں اپنے خیراتی ادارے، ٹرسٹ یا NGOs بھی بنا رکھے ہیں - اسلام آباد میں شاندار شفاء انٹرنیشنل ہسپتال اور میڈیکل کالج بنیادی طور ہر انہی ڈاکٹروں کا پاکستانی عوام کے لئے تحفہ ہے-
پاکستانی ڈاکٹر کینیڈا میں----
کینیڈا میں پاکستانی ڈاکٹر کڑی آزمائش میں ہیں - حکومت کینیڈا ڈاکٹر کی کٹیگری  category ( شعبے میں )عموما ویزہ جاری ہی نہیں کرتی ،اسلئے کینیڈا آنے کے خواہشمند پاکستانی ڈاکٹر اپنے آپکو کسی اور پیشے سے منسلک بتاتے ہیں- یہاں آنے کے بعد پختہ عمر ڈاکٹروں کو مزید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے - بیشتر ایسے ہیں جنہوں نےلائسنس کا امتحان پاس کرنیکے لئے کافی جتن کئے لیکن ناکام ہوئے اگر کسی طرح طبی شعبے سے منسلک ہوئے تو سبحان اللہ - میں کئی ایسے پاکستانی ڈاکٹروں مرد و خواتین سے واقف ہوں کہ انہوں نے الٹرا ساؤنڈ یا ریڈیالوجی کی ٹریننگ لی  یا پھر لیبارٹری ٹیکنشن بن گئے اگر خوش قسمتی سے امتحان پاس کر گئے تو پھر انکے بھی وارے نیارے ہیں --ایک ڈاکٹر صاحب کلینک میں اسقبالیہ کے ریسپشنسٹ بن گئے -وہ اس پر ہھی خوش ہیں ورنہ سیکیورٹی گارڈ، ٹیکسی ڈرائیور اور اسی طرح کی دیگر ملازمتیں کرتے ہیں - آخر لایا ہوا جمع جتھہ کب تک کام آسکتا ہےاور ایک ایسے ملک میں جہاں روپیہ پانی کی طرح خرچ ہوتا ہے؟ایک جاننے والے نے امتحانات پاس کر لئے لیکن ملازمت نہ مل سکی- انکو مشورہ ملا کہ جنوبی افریقہ میں جاکر دو سال ملازمت کرلیں بعد میں انکو کینیڈا میں ملازمت مل جائیگی - وہ دو تین برس کے بعد آکر قسمت ازمائی کرتے رہے، ناکام ہوکر واپس جنوبی افریقہ چلے گئے-ایک اور جاننے والے جو پاکستان میں آنکھوں کے علاج کے ماہر اور فوجی افسر تھے اب اسی پر مطمئن ہیں کہ انکو ایک چشمے کی دکان پر ملازمت مل گئی ہے-اس نوع کے کئی ایک قصے ہیں-
لیکن کینیڈا میں ایسے پاکستانی نژاد مرد و خواتین ڈاکٹر موجود ہیں جنہوں نے یہیں پر تعلیم حاصل کی اور ان میں بہترین سپیشلسٹ ماہرسرجن اور گائنا کالوجسٹ ہیں--وہ یہاں مسلمان کمیونٹی کی خصوصا کافی مدد کرتے ہیںاور ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہیں- اگر کینیڈا کے امتحان کا بھی امریکہ کی طرح ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا تو پاکستانی ڈاکٹر یقینا اسے پاس کرتے ہوئے یہاں آتے - لیکن کینیڈا نے اس سلسلے کو کڑا اور مشکل رکھا ہے -اس صورتحال سے پاکستانی ڈاکٹر کافی پریشان و نالاں ہیں--اسکے باوجود کئی پاکستانی ڈاکٹروں کو کلینک اور ہسپتالوں میں دیکھ کر مسرت ہوتی ہے--



Abida Rahmani



Monday, November 18, 2013

اشد اشرف اور کتابوں کا اتوار بازار

عابدہ رحمانی صاحبہ نے اس حقیر پر تقصیر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا حکم تھا کہ اسے یہاں آویزاں کیا جائے سو تعمیل کررہا ہوں۔ 
عابدہ صاحبہ نے ستائش کی ہے، ان کا شکریہ ورنہ  میں کیا میری بساط کیا۔   
ساتھ ہی ایک اطلاع دیتا چلوں۔ عابدہ صاحبہ کی خودنوشت "مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا " (سرورق منسلک ہے ) کی راولپنڈٰی کے ناشر الفتح پبلیکیشنز سے اشاعت کی اطلاع کچھ عرصہ قبل دی تھی ۔۔مذکورہ کتاب 
راشد
راشد اشرف اور کتابوں کا اتوار بازار "

( راشد سے معذرت کے ساتھ )
عابدہ رحمانی
لگ بھگ ڈھائی  تین سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میری میل، برقی ڈاک  میں پاکستان اورمختلف جگہوں سے اردو میں کافی ڈاک آنی شروع ہوئی - کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ ای- میل کا پتا کیسے کیسے نشر ہو جاتا ہے - میرے اکاونٹ پر اتنے گروپ کی ڈاک آتی ہے کہ مجھے جن کو روکنا ہوتا ہے انکو سپام میں ڈال دیتی ہوں  ظاہر ہے کچھ وقت کا تعین بھی کرنا پڑتا ہے یہاں کی تمام کی تمام  کلاسوں میں اسی پر زور ہوتا ہے کہ اوقات کی بہترین اور صحیح تقسیم کریں اور کیسے کریں ؟- روز قیامت بھی ہم سے وقت کے صحیح اور غلط استعمال کے حوالے سے سوال ہوگا -جو پہلے پانچ سوال ہونگے اسمیں وقت صرف کرنیکا سوال کافی اہم ہوگا  اور ہم کیا اللہ میاں سے یہ کہینگے کہ انسان کے بنائے ہوئے اس مکڑ ی کے جال میں ایسا الجھ گئے کہ نکلنے کی کوئی صورت ہی نہیں تھی - یا اللہ تو ہی رحم کرنیوالا اور معاف فرمانے والا ہے -
الله تعالٰی ہمیں سرخرو فرمائے آمین - ابھی تک میرا جن گروپس  سے تعلق تھا وہ سب انگریزی میں تھے اور جن ممالک میں ، میں ہوں یہاں کی زبان انگریزی ہے بلکہ رفتہ رفتہ بیشتر دنیا کی یہی زبان بنتی جارہی ہے - وہ جو اسکو اغیار کی زبان سمجھتے تھے اب اسی میں ہی تبلیغ کر رہے ہیں- ہمارے یہ گروپ زیادہ تر مذہبی اور سیاسی تھے - اب یہ اردو کی افتاد آن پڑی ، لطف تو کافی آیا لیکن الجھن یہ تھی کہ آخر یہ پردہ کمپیوٹر پر اچانک اردو کہاں سے آگئی؟
ان ای میلوں میں ایک لاہورکے فرحان ولایت بٹ، دوبئی سے ایک اعجاز شاہین اور  کراچی کے راشد اشرف تھے -فرحان  کے اردو میں نوشتے کافی جاذب نظر ہوتے لاہور کی ثقافتی،سماجی اور ادبی پروگراموں کی جھلکیاں،سر گر میاں اور تصویریں اسمیں الحمرا اور آرٹس کونسل وغیرہ میں ہونے والےتقاریب کی جھلکیاں ہوتیں اور کچھ تبصرے بھی، اکثر وہ اچھی کہانیاں لکھتے --راشد اشرف کے"کتابوں کے اتوار بازار کا حال دیکھتی تھی، جس سے مجھے یہ گمان ہوا کہ شاید اس شخص کی اتوار بازار میں کتابوں کی دکان ہے اور یہا ں اسکی تشہیر کرنا چاہتا ہے ایک مرتبہ فراغت میں اسے پڑھا تو جانا کہ یہ کوئی کتابوں کا شوقین اور خریدار ہے -سوچا اچھا ہے کوئی بوڑھا  ریٹائرڈ شخص ہوگا- اچھا مشغلہ ہے کتابیں اس عمر میں خصوصاًبہترین ساتھی ہیں-جب باقی تمام ساتھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں'بسا اوقات اپنا سایہ بھی ، اور اگر آنکھیں ساتھ دے رہی ہیں تو کیا کہنے !

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفا جات
 -
تقریبا ڈیڑھ سال  پہلے میرا یا ہو  کا اکاونٹ ہیک ہوگیا ( اب بھلا اسکی اردو کیا کرینگے کہ یاہو کی برقی ڈاک کا اغوا ہوگیا ) اتنے تردد میں اپنے آپکو ڈالنے کی کیا ضرورت ہے یہاں موجود ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ ہیک ہونا کسے کہتے ہیں ؟خیر جناب اس سے میرے تمام رابطوں کو انتہائی غلط اور بیہودہ قسم کے پیغامات جانے لگے، بلکہ اسمیں انہوں نے وائرس ڈالدیا تھا اور جو کھولتا اسکا کمپیوٹر بیماری میں مبتلا اور آلودہ ہو جاتاتھا  - جو مجھے جانتے تھے وہ جان گۓ کہ یہ میں ہرگز نہیں ہوں اور مجھے فورا مطلع کر دیا -میں نے اپنا اکاونٹ محفوظ کر لیا لیکن کافی سارے گروپس سے رابطہ منقطع ہوا اسی بھیڑ میں فرحان ولایت بٹ بھی غائب ہوگے ،انہیں ڈھونڈھنے کی کوشش بھی نہ کی ،اور میل میں قدرے خاموشی چھا گئی-چونکہ بزم  قلم میرے رابطے کی فہرست میں نہ تھا تو بچ گیابلکہ شائد ابھی شروع ہی نہیں ہوا تھا - انکا بھی ایک یاہو گروپ تھا جس پر اعجاز شاہین صاحب کی پوسٹنگز آتی تھیں - ابھی چند روز پہلے میرا رازنامچہ یا روز نامچہ یعنی ڈاک یاھو سے پھر اغوا ہوا - اس مرتبہ اغوا کنند گان نے شرافت کا مظاہرہ کیا اور مجھے منیلا لے جاکر ڈکیتی کا شکار بناکر میرے تمام رابطوں سے میری مدد کی اپیل کی - اس پیغام کی پیش بندی یوں ہوئی کہ یہ محض یا ہو والوں کو گیا - جی میل ، ہاٹ میل اور دیگر نے پیغام واپس لوٹا دیا- اگلا سارا دن مختلف دوستوں ، عزیز و اقارب کے آنے والے فون کالوں اور ای میل کا جواب دینے میں گزرا - اچھا خاصا وقت واپس آنیوالے ای میلز کی صفائی میں گذرااور پھر نیا پاس ورڈ سوچنا -- اب دیکھئے اگلا حملہ کب ہوتا ہے


 تو جناب تین سال پہلے،  کچھ دلچسپ تحریریں میں نے ایک اردو کا فولڈر بنا کر اسمیں ڈالی تھیں  انہیں دیکھا تو  اس میں راشد کی کافی تحاریر تھیں پڑھیں اچھی لگیں میں نے چند پر تبصرہ کیا اور یوں راشد اور بزم سے باقاعدہ رابطہ ہوا -پھر نہ معلوم کس طرح یہ رابطہ قدرے مزید بڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ماشااللہ ایک گھبرو جوان ہیں،البتہ روح  ضروربوڑھی ہوسکتی ہے -لیکن اردو پر فدا ہیں اور اب تو ہندی حروف سے بھی گریزاں ہیں -جانکاری والے واقعے کے بعد ،فارسی کا استعمال بہت خوبصورتی سے کرتے ہیں -اردو زبان کی خوش قسمتی کہ ایسا جانثار بندہ مل گیا ہے - جہاں اکثریت اردو سے جان چھڑارہی ہے اور اردو بولنا ،پڑھنا اور لکھنا احساس کمتری کی نشانی سمجھا جاتا ہے -وہاں راشد کی اردو سے اس درجہ وفاداری قابل  قدر ہے -اب تو راشد کی اردو ادب اور ادیبوں کے لئے خدمات اور پذیرائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے-
نت نئی تکنیکی انٹر نیٹ کی ایجادات متعارف ہوتی جارہی ہیں اور راشد اسپر کھٹا کھٹ اردو ادب محفوظ کرتے جا رہے ہیں - فیس بک ، گوگل پلس ، ویب سائٹ ، سکرائب ، پی ڈی ایف ہماری ویب ،بقول انگریزی میں 

you name it
راشد اپنی تحاریر کے ساتھ وہاں حاضر ہیں - ابن صفی کے نمبر ایک شیدائی ہیں وہ جو ابن صفی کو بڑے ادیبوں کی صف میں نہیں مانتے انکو بھی ہر ممکن قائل کرتے رہتے ہیں اب تو ابن صفی کے متعلق دو کتابیں تصنیف کر چکے ہیں مجھے اسوقت ایک کا نام یاد ہے " کہتی ہے تجھ کو خلق خداغائبانہ کیا"
بچوں کا ادب، شکاریات ، ہندوستان پاکستان کے معروف اور غیر معروف لکھنے والوں کی خود نوشت سوانحعمریوں کے  ذخیرے کے مالک ہیں- شاعری ، ناول ، افسانے ہر مشہور ادبی رسالہ و رسالہ جات پر راشد کی نظر ہے - اب میرا اور انکا ساتھ ادب ڈاٹ کام پر ہے-جہان انکی تحاریر تواتر سے آتی ہیں-  چند روز پہلے کہنے لگے ،" آجکل آپنے خوب گروپ بندیا ں کی ہوئی ہیں"--" اوۓ نہ چھیڑ ملنگا نوں" میں نے تڑپ کر جواب دیا- فورا ہی کہنے لگے "مذاق کر رہا ہوں-   ان گروپوں میں راشد معدودے چند لوگوں سے ہیں جن سے میری چند مرتبہ فون پر بات ہوئی ہے اور اس گفتگو میں وہ خوب بولے اور میں سنتی رہی -- سب سے بڑی خوبی کی بات یہ ہے کہ( کراچی کی زبان میں) وہ کسی پھڈے میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور سب سے بنا کر رکھتے ہیں چاہے وہ سیکولر ہوں ، غیر سیکولر ہوں ، مذہبی ہوں ، جذباتی ہوں، لڑاکو ہوں یا صلح پسند ہوں اسلئے سب راشد کی عزت کرتے ہیں اور ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے - یوں تو راشد کی وجوہات شہرت بے شمار ہیں لیکن اب بھی سب سے بڑی پہچان انکی اتوار بازار کے حوالے سے ہے راولپنڈی کے ایک پبلشر سے میں بات کر رہی تھی تو راشد کا ذکر آیا کہنے لگے" اچھا وہ اتور بازار والے راشد صاحب، جی انکو تو اتوار بازر کے حالے سے سب پہچانتے ہیں "