Friday, November 23, 2012

ٹرکی کا نام اردو میں کیا ہے

محترم
وعلیک سلام و رحمت اللہ
آپکی وضاحت کیلئے بیحد ممنون ہوں - بھارت میں اور بھی کئی نام تبدیل ہوگئے -جیسے مدراس کا چنائی اور بنگلورو وغیرہ
ایک اشفاق احمد کا افسانہ تھا گڈریا لیکن کوئی کوئی اسے گدڑیا کہتا تھا اسی طرح یہ ڈربے اور دڑبے --میرے خیال میں پنجاب میں دڑبہ کہلاتا ہے - یہ بتائے ٹرکی کو اردو میں کیا کہتے ہیں

Mohtarama Turkey ki Urdu mein Turki kahte hain albatta Arabi mein Turki/turkiya kahte hain. khair andesh Mirza


محترمہ ٹرکی نامی ایک پرندے کا ذکر کررہی ہیں
جو امریکہ میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے
یہ کافی بڑے سائز کا ہوتا ہے
اور خاص خاص مواقع پر ٹرکی روسٹ بنایا اور کھایا جاتا ہے
مرغِ مُسلّم کی طرح

آلسلام علیکم مخلص صاحب
آپنے بالکل صحیح وضاحت کی ہے - مزے کی بات یہ ہے کہ ٹرکی ہمارے اپنے گھر میں گاؤں میں پلا تھا اور جب ذبح ہوا اور پکایا گیا تو ہمارے مہمان حیران تھے کہ یہ کس قسم کا مرغا ہے
اور ہمارے اکثر گھروں میں یہ پالا جاتا ہے پھر اسکی ایک چھوٹی قسم آگئی جسکو اکثر چینی تیتر کہتے تھے یہ بہت عجیب بات ہے
کہ اردو میں اسکا کوئی نام نہیں ہے ذرا آپ تحقیق کیجئے گا
السلام

Abida Rahmani
 
احمد صفی
2012/11/23 aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آصف جیلانی صاحب بتا رہے ہیں کہ اس کو فیل مرغ کہتے ہیں
اور یہ بھی سنا ہے کہ
اس کی شکل بھی بھدی ہوتی ہے
اور ذائقہ تو بالکل ہی بھوسے جیسا ہوتاہے
 From: Ahmad Safi <ahmadsafi@gmail.com>
Subject: Re: {16404} ٹرکی کا نام اردو میں کیا ہے ؟


قیام امریکہ کے دوران یہ پرندہ اکثر ہمارے یہاں اور ہماری بہن کے یہاں تھینکس گونگ کے دنوں میں پکایا جاتا تھا۔۔۔ حلال میٹ شاپس والے خصوصی طور پر اس کی فراہمی کا بندوبست کرتے تھے۔  اور اسے اگر دیسی مسالوں (مصالحہ جات) کے ساتھ پکایا جائے تو انتہائی لذیز پکتا ہے۔۔۔ ہمارے امریکی دوستوں کو بھی دیسی طریقے پر پکا ہؤا زیادہ پسند آتا تھا۔۔۔ 
I miss my butter ball!
احمد صفی

شکریہ احمد صفی اور مخلص صاحب
میںصبح سے اپنے گوگل اکاؤنٹ پر نہیں جاسکی ہوں- یہ فیل مرغ والا نام کافی پسند آیا لیکن عام مستعمل نہیں ہے ابھی تھوڑی دیر میں تھینکس گیونگ کی ایک ضیا فت میں جارہے ہیں احمد صاحب یقینا مصالحوں کے ساتھ کافی لذیذ گوست ہوتا ہے اور دیگرلوازمات کے ساتھ--اور پھر بلیک فرائڈے کی جو دھوم ہے امریکہ کے اپنے تہوار اور روایات بن گئے ہیں -
It is said that Butter ball is Zabiha?

Abida Rahmani

یہ نام عام مستعمل اس لیے نہیں ہے کہ
یہ پرندہ ان علاقوں میں عام پایا بھی نہیں جاتا
جہاں زیادہ تر اردو بطور زبان مستعمل ہے
اور یہ لفظ مصالحوں کی املا کچھ قابلِ تحقیق ہے
<adilhasan1@hotmail.com>
yeh turkey saudi arabia main bhi bohat shauq say khaya jata arabic main is ko kiya kahtay hain yeh mujh ko bhi yas nahi, shayad kisi saheb ko pata ho.
 عربی لوگ اسکو بہت شوق سے کھاتے ہیں وہ لوگ زیادہ تر شوربہ دار بناتے ہیں اس بزم پر کافی خواتین و حضرات بشمول مخلص صاحب
عربی ممالک میں رہتے ہیںانکو عربی
 میں اسکا نام معلوم کرنا چاہئے--اسکے علاوہ سعودی عرب میں اگوانا چھپکلیاں بڑے شوق سے باربکیو کرکے کھائی جاتی ہیں 
--فوڈ نیٹ ورک پر میں نے دیکھا ہے-- لیکن مقیت صاحب نے جو مور کا ذکر کیا ہے کیا وہاں مور کھا یا جاتا ہے اور کیا مور حلال پرندہ ہے ہوتا تو وہ بھی ٹرکی کی طرح ہے-  

اوباما آگیا دوبارہ


اوباما آگیا دوبارہ
عابدہ رحمانی

باراک حسین اوبامہ کو صدارتی انتخابات جیتے ہوۓ دو ہفتے گزر چکے ہیں - اور اس مضمون کو شروع کئے ہوۓ بھی اتنے ہی روز ہورہے ہیں اوباما کا جشن فتح دیکھ کر اگلے روز ہی شروع کر دیا لیکن کچھ عجیب سی صورتحال ہے کہ یہ مضمون پورا نہیں ہو پا رہا ہے - شائد اسکی وجہ میری گونا گوں مصروفیات ہیں؟ -- دنیا کا تناظر اتنی تیزی سے بدل رہاہے کہ اس طرح  -کے مضامین کی اکثر اہمئیت باقی نہیں رہ جاتی یہ توایک ہی نشست میں لکھنے والے مضامین ہین لیکن بہر حال- 
ایک کوشش اور سہی-

 اوبامہ کی جیت کی خوشی میں


امریکہ میں ہم ہوجمالو تو نہیں گاسکتے تھے- پاکستان میں کیاخوبصورت سروں میں ہو جمالو گایا جاتا ہےاوبامہ آگیا میدان میں ہوجمالو، کراچی میں شیدی مکرانیوں نے اوبامہ کی جیت کی خوب خوشیاں منائیں اور اپنا زبردست لاوا ناچ پیش کیا انہوں نے اوبامہ سے اپنے رنگ اور نسل کی یک جہتی دکھائی -یہ رنگ و نسل بھی کیا کرشماتی شے ہے انسان کو کہاں کہاں سے جوڑ دیتا ہے ، آخری دنوں میں آخر کار مجھے بھی جوش آہی گیا اوبامہ کو ووٹ دینے کیلئے سبھوں کو خوب خوب اکسایا اور یہ سب کیسے ممکن ہوا یہ الگ ایک کہانی ہے -اوبامہ  کے بہتے آنسو دیکھ کر دل ایسا پسیجا آخر کو وہ بھی انسان ہے اور یہ ہرگز مگر مچھ کے نہیں بلکہ اوبامہ کے اپنے آنسو تھے؟ الیکشن جیتنا اور وہ بھی امریکہ کا۔ جب کہ ہر تجزیہ نگار یہ شور مچا رہا ہے کہ یہ کانٹے کا مقابلہ ہے اوبامہ جیتے اور خوب جیتے ،اب تو یوں لگتا ہے جیسے امریکہ میںالیکشن کبھی ہوئے ہی نہ تھے یا اتنی گہما گہمی کبھی تھی ہی نہیں کھربوں، اربوں ڈالر رل ملگئے مٹ رومنی نے کیا بہترین انداز میں اپنی شکست تسلیم کی اور کیا باوقار تجزیہ کیا - بڑے ملکوں کے بڑے بڑے لوگوں کی یہ عالی ظرفی کی مثالیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ہمیں کچھ اچھا سیکھنے پر مجبور  
کرتی ہیں- ہار جیت کا فیصلہ ہوا تو نہ کوئی گلہ نہ شکوہ نہ ہی کوئی خدشہ، شک و شبہ کہ انتخابات میں یقینا دھاندلی ہوئی ہے اور ووٹونکی گنتی  میں ضرور کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے اتنے بڑے ملک میں اتنے بڑے الیکشن میں نہ کوئی گولی چلی ، نہ لاٹھی چارج ہوا ، نہ آنسو گیس بھینکی گیئ ایک پٹاخہ تک نہیں پھوٹا-اگرچہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس ملک میں اس قسم کے واقعات نہیں ہوتے --یہاں تو آنا فانا ایک سر پھرا آکر اسکولوں میں ، کالج ، یونیورسٹی میں، تھیٹرمیں، مال اور شاپنگ سنٹر میں، دس پندرہ کی جان لےکر اپنی بھی لے لیتا ہے- اور پھر سر پٹختے رہو کہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا، لیکن اتنے پرسکون اور پر امن الیکشن کا ہونا واقعی ایک مہذب ملک اور اسکے عوام کی نمائندگی کرتا ہے- اوبامہ کا اگلے چار سال کیلئے وائٹ ہاؤس میں  آنا اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹریاس کے ناجائز تعلقات کا سکینڈل ایک ساتھ ہی منظر عام پر آیا - اب نہ تو یہ القاعدہ کی کار گزاری تھی نہ ایران، عراق، یمن، پاکستان اور افغانستان کا اسمیں کوئی دخل تھا اور  نہ ہی دائیں بازو کی کوئی سازش تھی--
، جنرل صاحب نے پوری پوری ذمہ داری قبول کی ہے اور مستعفی ہوگئے ہیں لیکن تحقیقات اور میڈیا، انکو تو بارہ مصالحے کی چاٹ ہاتھ لگی ہے کیا چسکے لے لے کر خبروں پر تجزئے ہو رہے ہوتے ہیں خواتین کو ہر ہر زاوئے سے دکھایا جاتاہے اس بری طرح کنگالا گیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا- اور یہ ساری جاسوسی خود امریکی ایف بی آئی نے کی ہے اب تو ایک نہیں دو عورتوں کے قصے منظر عام پر آرہے ہیں-جنرل ڈیوڈ ُپیٹریاس کے بخئے اس بری طرح سے ادھڑ گئے ہیں کہ حیا اور شرم نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی لیکن وہ بھی پرانے فوجی ہیں بہت سے محاذوں پر چو مکھی لڑ چکے ہیں اب اس محاذ پر بظاہر تو بری طرح پٹ چکے ہیں لیکن جنگ اور عشق میں سب کچھ جائز ہے-

ابھی یہ سکینڈل گرج چمک رہا ہے کہ اسرائیل نے غازہ پر دھاوا بول دیا ہے سو سے زیادہ بے گناہوں کی جانیں جاچکی ہیں-
کتنے ہی معصوم بی گناہ بچے بوڑھے ، جوان ، عورتیں اس ظلم و        بربرئیت کا شکار ہو چکے ہیں مغربی ممالک اور خاصکر امریکہ کا یہ بگڑا ہو ناجائز پوت جب تک مسلمانوں کے خون ناحق سے کھیل نہیں لیتا اسے سکون نہیں ہوتا پرسوں لاس اینجلس میں ایک ٹیکسی ہپر سفر کرتے ہوئے عربی لہجے کے ڈرائیور سے بتایا کہ وہ فلسظینی ہے-اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی مسمانوں کے قتل عام نے اوبامہ کے دوبارہ آنے کی خوشی کو ملیا میٹ کر دیا ہے-پیشے کے لحاظ سے انجینئر یہ شخص مختلف ملازمتوں کے انتظار میں اپنے گزر بسر کے لئے ٹیکسی چلا رہا تھا وہ تو اپنے پورے اہلخانہ سمیت ایک محفوظ ملک میں ہے لیکن یہ ملک اور اسکے نو منتخب صدر اسکے مادر وطن کو کوئی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں باراک اوبامہ کو امریکہ میں رہائش پذیر 80٪        مسلمانوں نے وؤٹ دئے نہ جانے کیوں وہ اسکو اپنا ہمدرد ، ہم شکل یا ہم نسب سمجھتے تھے اور ایک کم درجے کی برائی، لیکن ا سنے  اس تمام قتل و غارتگری کا مورد الزام حماس کو ٹھیرایا - کہ اسکے علاقے سے محفوظ اسرائیل پر راکٹ داغے گئے اور یہ تمام شرارت اسی کی شروع کردہ ہے- اب تو حالات کچھ اس نہج پر آگئے کہ شام کے حالات پر مسلمان ایک عجیب مخمصے کا شکار ہوچکے ہیں -جہاں ہزاروں جانیں تلف ہو چکی ہیں اور بشارالاسد کو زیر کرنا نا ممکن نظر آرہا ہے- اوبامہ نے آنے کے فورا بعد امیر امریکیوں کے لئے ٹیکس بڑھانے کا اعلان کیا- کل یہاں پر امریکہ کا مشہور تہوار تھینکس گیونگ یوم تشکر منایا جارہاہے یہ یہان کا سب سے زیادہ سفر کرنے والا تہوار ہے کیونکہ اس میں چار روزہ چھٹی ہوتی ہے اسوقت تمام ائر پورٹ اور شاہراہیں مسافروں سے بھری ہوئی ہیں - بازاروں میں ٹرکی کی زبردست فروخت جاری ہے- اسکو پشتو میں تیتر کہا جاتا ہے لیکن اردو میں تیتر ایک چھوٹا سا پرندہ ہوتا ہے ذرا اردو داں قارئین اسکا صحیح نام بتا دیں تو بڑی نوازش ہوگی--بعد میں اس پر گفتگو ہوگی انشاءاللہ-- آپ سبکو بہی یہ یوم تشکر مبارک ہو اسلئے بھی کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ بندی ہوگئی ہے اسوقت آیل اے کے ڈاؤن ٹاؤن میں غرباء اور بے گھروں کو ٹرکی اور مختلف کھانے فراہم کئے جارہے ہیں مائیکل ڈگلس اور اسکی بیوی اس رفاعی کام میں پیش پیش ہیں-یہ بھی خوب ہے کہ مسلمان اپنے گھروں میں حلال ٹرکی پکا لیتے ہیں جیسا دیس وہی طور طریقے جبکہ اوباما نے ایک خوبصورت سفید ٹرکی کی جان بخشی کردی ہے اوباما ، میشل اور اسکی بیٹیوں نے ٹرکی کو ہاتھ پھیر کر پیار کیا - اسکو جنگل میں آزاد کر دیا جائے گا----
یار زندہ صحبت باقی  باقی آیندہ انشاءاللہ

Thursday, November 8, 2012

Maryam jameelah


 Maryam Jameelah 

-Maryam Jameelah (May 23, 1934 - October 31, 2012) 
 
Jameelah was born Margaret Marcus in New Rochelle, New York, to parents of German Jewish descent, and spent her early years in Westchester. As a child, Marcus was psychologically and socially ill at ease with her surroundings, and her mother described her as bright, exceptionally bright, but also "very nervous, sensitive, high-strung, and demanding". Even while in school she was attracted to Asian and particularly Arab culture and history, and counter to the support for Israel among people around her, she generally sympathised with the plight of Arabs and Palestinians. Another source describes her interests as moving from Holocaust photographs, to "Palestinian suffering, then a Zionist youth group and, ultimately, fundamentalist Islam."
She entered the University of Rochester after high-school, but had to withdraw before classes began because of psychiatric problemsIn Spring, 1953, she entered New York University. There she explored Reform Judaism, Orthodox Judaism, Ethical Culture and theBahá'í Faith, but found them unsatisfactory, especially in their support for Zionism. In the summer of 1953, she suffered another nervous breakdown and fell into despair and exhaustion. It was during this period that she returned to her study of Islam and read the Quran. She was also inspired by Muhammad Asad's "The Road to Makkah" which recounted his journey and eventual conversion from Judaism to Islam. At NYU she took a course on Judaism's influence on Islam which was taught by Rabbi and scholar Abraham katch, which ironically strengthened her attraction to Islam. However Marcus's health grew worse and she dropped out of the university in 1956 before graduation; from 1957-59 she was hospitalized forschizophrenia.
Returning home to White Plains in 1959, Marcus involved herself with various Islamic organizations, and began corresponding with Muslim leaders outside America, particularly Maulana Abul Ala Maududi, a leader of Jamaat-e-Islami  in Pakistan. Finally, on May 24, 1961, she converted to Islam  and adopted the name Maryam Jameelah. After accepting Maulana Maududi's invitation she emigrated to Pakistan in 1962, where she initially resided with him and his family. In 1963, she  got married  to Muhammad Yusuf Khan on Maulana's instructions, a member of the Jamaat-e-Islami, becoming his second wife. She had five children: two boys and three girls (the first of whom died in infancy). Jameelah regards these years (1962-64) to be the formative period of her life during which she matured and began her life's work as a Muslim defender of conservative Islam. She never returned to USA and lived a pure Muslimah life in Pakistan. Two of her sons now live in US and on her last night she talked to them about hurricane Sandy. On the morning of 31st October she had a severe heart attack was  taken to hospital but could not survive.
Her marriage to Muhammad yousaf khan was quite unique. Later on he quoted that he was standing with other two companions outside Maulana's house when he came out and showed his anxiety about Maryam's wedding . The two other told him that Maulana wanted him to marry the lady. He went home and talked to his wife Shafiqa. Shafiqa was quite concerned about her and she gladly accepted it. She came and proposed her as a second wife for her husband. After consulting Maulana Maudoodi she accepted this proposal and nikah was done. The family lived a happy life. Both the wives were quite coordinated with each other. Shafiqa was called Ammi by their kids while Maryam was called Aapa.  She wanted to be buried close to Maulana but in her final days she decided to be buried near Shafiqa's grave.
The other day I read in Newspaper Jasarat that Amir Jamaat Islami Pakistan Syed Munawar Hassan went for condolence to her her husband Yusaf Khan Sahib. It seems that he is alive.Her biography is  called "The Convert"  written by Deborah Baker is worth reading. Author of some 25 books and still a resident of Lahore, Maryam Jameelah wrote extremely powerful diatribes against the West & her home country America and how she had experienced in her life in there.Here is a  brief review of the book in Dec, 2011"The Convert- A Tale of Exile and Extremism" written by Deborah Baker ( wife of Amitav ghosh ) is an expertly written book that chronicles the life of Margaret (Peggy) Marcus born to a liberal Jewish couple - Herbert & Myra of New York. She was an unusual child-- a loner, socially maladjusted and initially shy but later a voluble inquisitive and annoyingly talkative girl. At school she was ceaselessly teased by bullying classmates in the 1940s and was reportedly molested. She was a college dropout and became an autodidact-- reading all the time at the fabled New York Public Library. After several trips to the Psychiatrist's couch and two mental institutions (where she was committed by her parents), she was diagnosed with schizophrenia. She read voraciously about Islam, became enamored with Pakistani Islamic Thinker and author Abul Ala Mawdudi's whose books and philosophy she adored and ended up corresponding with him. She uprooted herself in the early 1960s from America to permanently move to Lahore under the initial guardianship of Maulana Maududi, living at his house in Icchra, Lahore. She stayed  a worker of the Jamaat Islami and till her last breath,  lived in Sant Nagar in Lahore. She wrote over 25 books---- essentially very forceful diatribes against the West in general and her home country America in particular pitting Islam against the Western civilization. She has not swerved from the path of pure unadulterated disdain for the West in the past 50 years although her literary output went into decline in the 1980s. Deborah Baker has written a riveting account of her life and has travelled to Lahore staying at Najam Sethi's house, received moral support and help from Asma Jahangir and interviewed Haider Farooq Maududi and eventually interviewed Maryam Jameela herself .
 
Jameelah 's books:
Jameelah started writing her first novel, Ahmad Khalil: The Story of a Palestinian Refugee and His Family at the age of twelve; she illustrated her book with pencil sketches and color drawings. She also studied drawing in Fall 1952 at Art Students League of New York, and exhibited her work at Baha'i Center's Caravan of East and West art gallery. On her emigration to Pakistan she was told that drawing pictures was un-Islamic by Maulana Maududi, and abandoned it in favor of writing. Her writings are supplemented by a number of audio and video tapes
Jameelah was a prolific author, believing in basic , fundamental, traditional Islamic values and culture. She was deeply critical of secularism, materialism and modernization, both in Western society, as well as in Islam. She regards traditions such as veiling,polygamy, and gender segregation (purdah) to be ordained by the Quran and by the words of Prophet Muhammad, and considers movements to change these customs to be a betrayal of Islamic teachings.Jameelah's books and articles have been translated into several languages including Urdu, Persian, Turkish, Bengali and Bahasa Indonesia. Her correspondence, manuscripts, bibliographies, chronologies, speeches, questionnaires, published articles, photographs, videocassettes, and artwork are included in the Humanities and Social Sciences Library collection of the New York Public Library.
 
Articles and Books Of Maryam Jameelah
 
1. ISLAM VERSUS THE WEST
2. ISLAM AND MODERNISM
3. ISLAM IN THEORY AND PRACTICE
4. ISLAM VERSUS AHL AL KITAB PAST AND PRESENT
5. AHMAD KHALIL
6. ISLAM AND ORIENTALISM
7. WESTERN CIVILIZATION CONDEMNED BY ITSELF
8. CORRESPONDENCE BETWEEN MAULANA MAUDOODI AND MARYUM JAMEELAH
9. ISLAM AND WESTERN SOCIETY
10. A MANIFESTO OF THE ISLAMIC MOVEMENT
11. IS WESTERN CIVILIZATION UNIVERSAL
12 WHO IS MAUDOODI ?
13 WHY I EMBRACED ISLAM
14 ISLAM AND THE MUSLIM WOMAN TODAY
15 ISLAM AND SOCIAL HABITS
16 ISLAMIC CULTURE IN THEORY AND PRACTICE
17 THREE GREAT ISLAMIC MOVEMENTS IN THE ARAB WORLD OF THE RECENT PAST
18 SHAIKH HASAN AL BANNA AND IKHWAN AL MUSLIMUN
19 A GREAT ISLAMIC MOVEMENT IN TURKEY
20 TWO MUJAHIDIN OF THE RECENT PAST AND THEIR STRUGGLE FOR FREEDOM AGAINST FOREIGN RULE
21 THE GENERATION GAP ITS CAUSES AND CONSEQUENCES
22 WESTERNIZATION VERSUS MUSLIMS
23 WESTERNIZATION AND HUMAN WELFARE
24 MODERN TECHNOLOGY AND THE DEHUMANIZATION OF MAN
25 ISLAM AND MODERN MAN
 
 
Some facts from Wikipedia:
 
 
Abida Rahmani