Tuesday, July 31, 2012

پاکستان کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد

ہو
!خدا کرے کہ میرے ارض پاک پر اترے --وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ


پاکستان کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد

عابدہ رحمانی

اسلام آباد میں اجکل کڑاکے دار گرمیاں ہیں اگرچہ یہ شدت لاہور ، ملتان ، پنجاب کے جنوبی علاقوں ، سبی ، جیکب آباد اندرون سندھ اورتھرکے علاقوں سےقدرے کم ہے-

لیکن اس موسم میں بھی اسلام آباد میں سڑکوں کے دورویہ لگے ہوئے املتاس کے درخت اور اسپر جھومر اور ہاروں کی صورت میں لٹکتے ہوئے پیلے رنگ کے پھول کیا حسین سماں پیدا کرتے ہیںکہ قدرت کی صناعی پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے-اسکے علاوہ گلابی، قرمزی، اودے رنگ کے پھولوں کے دوسرے درخت اس شہر کے حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں-یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پر سبز درختوںاور قدرتی سبزے کے خطوں کو شہر کے بیچوں بیچ جابجا چھوڑا گیا ہےٓجیسا کہ دوسرے ترقی یافتہ شہروں کا طریقہ ہے- ایک پورے سیکٹر ایف 9 کوجسکا نام" فاطمہ جناح پارک" ہے کافی دیدہ زیب پارک بنایا گیا ہے- جسمیں کافی دلچسپیاں ہیں چہل قدمی اور جاگینگ کرنے والوں کے لئے رستے اور گزر گاہیں ہیں مختلف ممالک کی طرز تعمیر کے چبوتروں کو بنایا گیا ہے اور باغبانیکے نمونوں میں جاپانی طرز کے باغات اوردیگر پیڑ پودے کافی مقدار میں ہیں، گھاس کے چمن اور پودوں کے لئے خود کار آبی نظام فوارے ہیں-ایوان قائد کے نام سے ایک پبلک لائبریری ،ایک کافی بڑا میکڈونلڈ ریستوران ہے- ساتھ ہی hot shot میں کافی دلچسپیاں ہیں -جسمیں تیراکی کا تالاب ، باؤلینگ ایلی اور خریداری کا مرکز ہے- یہاں کی زمین کافی زرخیزہے موسم بھار میں ہر طرف پھول ھی پھول نظر آتے ہیں -خالی جگہوں پہ بھنگ اتنی مقدار میں خود رو اگا ہو ہے - کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بدی میں ذہین اذہان نے اسکا فائدہ کیوں نھیں اٹھایا- امریکہ اور کینیڈا میں لوگ چوری چھپے گملوں میں گھروں کے اندر بھنگ اگاتے ہیں اور جھاں پولیس کو خبر ملتی ہے تو انکی پکڑ دھکڑ ہوتی ہےٓ-انکوpot growersکہا جاتا ہے ریاست کیلیفورنیا اور میکسیکو میں انسے نشہ آور ادویات بنائی جاتی ہیں اور ریاستی حکومت اسکے طبی فوائد کے مد نظر اسکو قانونی حیثئیت دینے کا سوچ رہی ہے-اسلام آباد میںچاروں موسم بھر پور انداز میں آتے ہیں - سب سے خوبصورت موسم بہار ہوتا ہے-

مرگلہ کی پہاڑیاںاسلام آباد کے سامنے ایک فصیل کی طرح ہیں ان پہاڑیوں کو اوپر سے گزرتی ہوئی پیچ در پیچ سڑک کے ذریعے ہزارہ ڈویژن سے ملایا گیا ہے - اسکے اوپر پرفضاء مقامات'ریسٹوراں اور پارک بنائے گئے ہیں دامن کوہ، پیر سہاوہ ، مرغزار اور شکر پڑیاں پارک میں پاکستان کے دورے پر آنے والےر سربراہان مملکت کے ہاتھوں کے لگائے ہوئے پودے اب تن آور درخت بن چکے ہیں-مرگلہ پہاڑیوں اور اس سے انے والی تازہ اور خنک ہواکے پیش نظر ان پہاڑیوں کی یہاں کافی اہمئیت ہے - مار گلہ روڈ اور مارگلہ کے رخ پر تعمیر شدہ مکانات بہتر اور مہنگے جانے جاتے ہیں-

شاہ فیصل مسجد اسلام اباد کا ایک لینڈ مارک ہے فیصل ایونیو پر جاتے ہوئے اس مسجد کے خوبصورت بلند و بالا مینار اس شھر کو اپنے سائے میں لئے کھڑے ہیں--سایہ خدائے ذوالجلال ! اب پاکستان منومنٹ Pakistan Monument بلندی پر تعمیر شدہ ایک اور حسین اضافہ ہے اسکی بناؤٹ کنول کے پھو ل اور اسکی پنکڑیوں جیسی ہے - اس ساری دہشت گردی ، خانہ جنگی اور بد امنی میں پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد بھی تعمیر و ترقی کی راہ پر رواں دواں ہےحالانکہ جگہ جگہ رکاؤٹیں کھڑی ہیں بیشتر جگہوں میں داخل ہوتے ہوئے مختلف اسکینرز اور حفاظتی تدابیر کا سامنا کرنا پڑتاہے - نئے شاہراہوں کی اوپر تلے تعمیر،بلیو ایریا یہاں کے ڈاؤن ٹاؤن یعنی شہر کے مرکز کی طرف جاتاہے- کشادہ شاہراہیں شاہراہ کشمیر، آغا شاہی ایونیو،جناح ایونیو،مارگلہ روڈ ، بلیو ایریا روڈ یہاں کی انتہائی دیدہ زیب شاہراہیں ہیں بلیو ایریا پر بلند و بالا جدید عمارات،بنکوں اور دیگر اداروں کے صدر دفاتر، خریداری کے جدید مراکز اس چھوٹے شہر کے روز افزوں اضافے کا باعث ہیں--بلیو ایریا سے آگے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ، ایوان صدر و وزیر اعظم ،ایوان قومی اسمبلی اورسپریم کورٹ کی عمارات ہیں جو اب صرف خواص کے لئے مخصوص ہیں- بلیو ایریا سے ایک الگ راستہ ڈپلومیٹک انکلیو( اردو داں حضرات کو ہو سکتا ہے یہ انگریزی نام ناگوار ہوں لیکن یہ نام اسی طرح رکھے گئے ہیں) کو جاتاہے جہاں پر تمام غیر ملکی سفارت خانےہیں- انکے لئے مختلف دہشت گردی کے واقعات کے بعد احتیاطی تدابیر سخت کر دی گئی ہیں - امریکی سفارت خانے کے لئے انکے چیک پوائنٹ سے ایک بس کی شٹل سروس چلتی ہے اور تمام حفاظتی اقدامات کی زمہ داری انکی اپنی ہے-

اسلام آباد ایک کافی جدید شہر ہے جدید اس لحاظ سے کہ 1960میں اسوقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسکی جغرافیائی اور عسکری محل وقوع کے نقطہ کے پیش نظر دارالحکومت کو کراچی سے راوالپنڈی سے متصل علاقے میں جس کا نام اسلام آبا د تجویز ہوا تھا منتقل کرنے کا اعلان کیا -اسلام اباد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نیا دارالحکومت قرار پایا-یہ تمام علاقہ اسوقت چھوٹے چھوٹے گاؤں اور زرعی آبادی پر مشتمل تھا جسکے مالکان پنڈی اور قرب و جوار میں رہنے والے جو یہاں کے راجے کہلاتے تھے انسے خوب مہنگے داموں زمین خریدی گئی یا انکو متبادل زمینیں دی گئیں- اس بڑے قدم پر ایوب خان کو کافی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں محمد تغلق دوئم کا خطاب دیا گیا جنہوں نے پایہ تخت دہلی سے دیو گری منتقل کیا تھا اور اسکا نام تغلق آباد رکھا- محمد تغلق کو اس میں کافی نقصان اٹھا نا پڑا جبکہ ایوب خان کا یہ قدم ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے -اسلام آباد کے لئے دنیا کے بہترین ٹاؤن پلینرز کا انتخاب ہوا

1 Konstantinos Apostolos Doxiadisایک مشہور یونانی آرکیٹیکٹ فرم

کو اس شہر کی منصوبہ بندی کرنی کی ذمہ داری سونپی گئی اس شہر کو مختلف زون، خطوں اور سیکٹروں میں تقسیم کیاگیا یہ شہر راوالپنڈی /اسلام آباد کا جڑواں شہر کہلاتا ہے- جب شروع میں اسلام آباد کی تعمیر شروع ہوئی تو سب سے پہلے بہترین سڑکیں بنائی گئیں - ایک عام تاثر یہ تھا کہ راولپنڈی سے جیسے ہی اسلام آباد میں داخل ہو گاڑی کے ٹائیروں کی آواز بدل جاتی ہے اور رفتار میں روانی آجاتی ہے -ہمارے بنگالی بھائی جو اسوقت ہمارے ہم وطن تھے انہوںنے ایک کہانی گھڑی اور کہا کہ جب اسلام آباد کی سڑکوں کو چھو کر سونگھا تو اس سے پٹسن کی خوشبو آرہی تھی- پٹ سن اس وقت پاکستان کیلئے زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ تھا اور مشرقی پاکستان میں کثرت سے پیدا ہوتا تھا-اسوقت کا اسلام آباد آبپارہ جو کہ زیرو پوائنٹ کہلاتا ہے اور سیکٹر جی سکس جو کہ سیکریٹریٹ کہلاتا تھاتک محیط تھا بعد میں جی نو سیکٹر میں کراچی سے لائے گئے کلرک اسٹاف کے لئے کوارٹر اور فلیٹ بنائے گئےاور یہ علاقہ کراچی کمپنی کہلاتا ہے- اس زمانے میں یہاں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں جسپر سواری کرنے میں لندن کا لطف آتا تھا--1951 میں یہان کی آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی جب کہ اب ایک سے ڈیڑھ کروڑ ہے-

یہاں پر اب پاک فضائیہ، پولیس اور بحریہ کے صدر دفاتر ہیں انکے اپنے تعلیمی ادارے اعلے پائے کے اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں اور ہسپتال ہیں- بری فوج نے بوجوہ اپنے صدردفاتر راولپنڈی میں رکھے ہیں-

یہاں پر دیگربلند پایہ کالج اوریونیورسٹیاں، قائد اعظم یونیورسٹی ، میڈیکل یونیورسٹی انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائینس یونیورسٹی ، اسلامک یونیورسٹی ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر بیشمار ادارے ہیں -یہاں کے رہایشی عموما تعلیم یافتہ ہیں جنکا تعلق مختلف شعبوں سے ہے - یہاں پر پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے بولنے والے آباد ہیں جبکہ اردو عام بول چال کی زبان ہے-نئیئ نسل میں انگریزی کا پلہ بھاری ہےطبقہ امراء، اعلے سول اور فوجی ملازمین زیادہ تر انگریزی ملی اردو میں گفتگو کرتے ہیں-الحمدللہ اسلامی تشخص بھی بیشتر جگہوں پر کافی نمایاں ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگ نظر آتے ہیں-آبپارہ کی لال مسجد کا اندوہناک اور افسوسناک واقعہ اب بہی ذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے- اس سال اور پچھلے سال دو فضائی حادثات بہی بیحد افسوسناک ہیں-

اسلام آباد مشہور سطح مرتفع پوٹوہارمیں واقع ہے اور یہان کی عام بولی پوٹو ہاری کہلاتی ہے جو پنجابی اور پہاڑی زبان کا مجموعہ ہے یہ سطح مرتفع وادئ سندھ کی قدیم تہیب اور گندھارا تہزیب کا گہوارہ تھا لاہور سے آتے ہوئے جھلم کے بعد سے اس سطح کی چڑہائی شروع ہو جاتی ہے-قرب و جوار میں آثار قدیمہ کے کافی شواہد ہیں- چند بڑی جھیلوں اور تالابوں سے پانی کی فراہمی اور رسد جاری ہے- اسمیں راول جھیل، سملی ڈیم اور خانپورڈیم قابل ذ کر ہیں-

موٹر وے کی تعمیر سے امد و رفت میں تیزی کے سبب اسلام آباد لاہور، پشاور،قرب و جوار کے دوسرے شہروں سے کافی قریب ہوگیا ہے -ملکہ کوہسار مری یہاں سے2-1/2 گھنٹے کا فاصلہ ہے اسی طرح مری سے آگے بھوربن، گلیات اور ایبٹ آباد جاسکتے ہیں-

اسلام آباد کا ایک باغ چنبیلی اور گلاب کا باغ ہے اسکے ساتھ لوک ورثہ اور قریب میں کنونشن سنٹر ہیں سید پور گاؤن کو ایک ماڈل ویلیج کے طور پرمحفوظ کی گیا ہے اسمیں ایک پرانا ہندو مندر ہے اور دیس پردیس کے نام سے ایک علاقائی ثقافت کی ترجمانی کرنے والا ریستوراں ہے - یہاں پر کافی جدید ، مشہورمختلف ممالک کے ذائقوں والے ریستوراں ہیں - یہاں کے ایف 6،7،8 اور ای 7 سیکٹر خصوصا غیر ملکی ملازمین کی رھایش گاہیں ہیں وہ جو سفارت خانوں اور دیکر اداروں میں کام کرتے ہیں - کتابوں کے بہت بڑے بڑے اسٹور ہیں-سائن پلیکس کے کافی بڑے تھیٹر ہیں جہاںاب بھارتی فلمیں بھی خوب چلتی ہیں-- ایک کافی عمدہ نیا ہوائی اڈہ فتح جنگ کے قریب زیر تعمیر ہے-

یہ شہر جو پہلے اپنی خاموش زندگی کے لئے بدنام تھا اب پوری طرح جاگ چکا ہے---



اللہ تبارک و تعالیٰ پاکستان اور اس کے شہروں کو سلامت اور شاد و آباد رکھے --آمین





1-ٹاؤن پلینر کا نام ---وکی پیڈیا

Saturday, July 28, 2012

ٹورنٹو کینیڈا میں رمضان المبارک

.ٹورنٹو کینیڈا میں رمضان المبارک



عابدہ رحمانی

جب ہم نے اپنا رخت سفر باندھا تو لب پر یہ صدا تھی " خوش رہو اہل چمن (وطن ) ہم تو سفر کرتے ہیں---پیاروں نے کہا' گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے بھاگ رہی ہیں بلکہ بہتر اردو میں راہ فرار اختیا ر کر رہی ہیں؟"لوڈ شیڈنگ سے متعلق ایک شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے

---بجلی غائب رہے تو مر مر کے-زندگی یا حیات کٹتی ہے

دن گزرتا ہے سخت گرمی میں ، گھپ اندھیرے میں رات کٹتی ہے-



" نہیں بھئی ہم انمیں سے نہیں ہیں اور اب تو موسلا دھار بارشوں سے موسم اتنا پیارا ہوگیا ہے کیا کہنے! اور پھر یہ آموں کی لذ ت ، چونسہ ، انور راٹھول، لنگڑے، لیچی ا ور آڑو ، خوبانی ، آلو بخارے کی بہار -جب کھانے کی چیزوں کا ذکر ہوتا ہےتو مجھے پُاکستانی پھل سب سے زیادہ یاد آتے ہیں اور اب تو ہمارے پاس بہترین سٹرابیری اور چیری بھی ہوتی ہے بس بلیو بیری اور رس بیری کی کمی ہے--ہاں یہ ضرور ہے کہ رمضان المبارک کی آمد اور برکت کی خوشی میںہمارے اسلامی مملکت میں قیمتوں میں دگنا،تگنا ا ضافہ ہو چکا تھا-- بہر کیف دانے دانے پر مہر ہے اور جہاں سے آب و دانہ اٹھ جائے تو کیا کیا جائے؟ - مختلف عوامل اور ضروریات ہوتی ہیں جسکے لئے سفر کو وسیلہ ظفر بھی کہا جاتا ہے-یوں اب تک اتنے سفر ہوچکے ہیں کہ ماہر سفر ہونے کی چھوٹی موٹی سند تو ضرور مل سکتی ہے-- مختلف پڑاؤں سے گزرتے ہوۓ بالآخر رمضان کی آمد کے ساتھ ٹورنٹو میں ہماری بھی آمد ہوئی -



ٹورنٹو میں اثناء ISNA، اکنا ICNAاور انکے دوسرے ہمخیال لوگ اور جماعتیں روزے پر کلی متفق تھے ، جب کہ ہلال کمیٹی والوں کو کیلیفورنیا سے چاند کا انتظار تھا کیونکہ پورے امریکہ ، کینیڈا میں صرف کیلیفورنیا میں مطلع صاف تھا- اور غالبا انکے لحاظ سے چاند دکھائی نہ دیا-

ہم اثناء کی انتہائی وسیع،شاندار اور خوبصورت باقاعدہ گنبد و مینار والی مسجد جو" اسلامک سنٹر آف کینیڈا" کہلاتی ہےاور مسی ساگا میں واقع ہے میں آدائیگی عشاء و تراویح کے لئے گیے اور الحمد للہ ابھی تک باقاعدہ وہیں ادائیگی ہوتی تھی لیکن آج اپنے پرانے الفلاح اسلامک سنٹراوکول میں افطار' کھانا' عشاء اور تراویح ادا کی- ایک توقف کے بعد اپنی پرانی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، کیا گرمجوشی، چاہتیں اور محبتیں ، سبحان اللہ! انمیں ہر رنگ و نسل کی خواتین ہیںلیکن ایک ہی رشتے نے ہمیں جوڑ رکھا ہے- ان مساجد میںبہترین حفاظ قاریوں کی تلاوت جو کانوں میں رس گھولتی اور دلوں میں ایمان کو تازہ کرتی ہے- وہ جو دوران تلاوت آیات وعید پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں، جھاں روزانہ بلا مبالغہ ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے وسیع و عریض مصلے اور جمنیزئم تک نمازیوں سے پر ہو جاتے ہیں اس ہجوم میں تیز چلتا ہوا ائر کنڈیشنراور پنکھے بھی نا کافی محسوس ہوتے ہیں (اسلئے کہ کہ آجکل کینیڈا مین موسم گرما ہے جسمیں قدرے حبس و گرمی ہے اور 32 سنٹی گریڈ میں بھی یخ بستہ ماحول کے عادی بلبلا اٹھتے ہیں اور پھر یہ سب ماحولیاتی تبدیلی اور اوزون کی تہ میں سوراخ کا کمال ہے ، ورنہ 35،30 سال پہلے یہاں کی عوام پنکھوں اور اے سی سے نابلد تھی)-ماشاءاللہ کیا روح پرور منظر ہوتا ہے اس خطہ زمین میںمسلمانوں کے اجتماعات کا سبحان اللہ !

مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفان مغرب نے--

ان مسلمانوں میں ان کی اکثرئیت ہے جو اپنے ممالک میں ازاد خیال اور ماڈرن مشہور تھے اور مساجد سے دور بھاگتے تھے-یہاں کی بیباکی اور بے راہ روی دیکھ کر ان مساجد میں ہی انکو سکون ملتا ہے-میرا ایک عمومی تجزیہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ یہاں کی قوم کو مشرف بہ اسلام کردے تو یہ اسلام کا سنہرا ترین دور ہوگا کیونکہ اسقدر قانون کے، وقت کے ، وعدے کے پابند ہیں ، ہاں اپنی ذات کے لحاظ سے ہرالہامی قاعدہ قانون سے ازاد ہیں-

پارکنگ لاٹ میں ہزارہا کارٰیں اور جب مسجد کی پارکنگ پر ہو جائے تو پھر پڑوسیوں سے مستعار لیا جاتاہے ماشاء اللہ ان ایمان والوں میں اکثرئیت انکی ہے جو اگلی صبح کاموں پر جاتے ہیں - پوری 20 تراویح کی ادائیگی ہوتے ہوتےاور گھر پہنچتے پھنچتے رات کا ایک بج جاتا ہے اور ساڑھے 3 بجے سحری کا وقت ہو چکتا ہے - اکثرئیت 8 رکعت کے بعد جاچکتی ہے-لیکن بعد میں بھی کافی رکے ہوتے ہیں -باہر لابی میں کیئ دکانیں سجی ہوئی -خواتین کے پردے کے لحاظ سے ،عبایا، قسم قسم کے حجاب،دیگر لوازمات، ٹوپیاں،دینی کتب، قرآن پاک ، سی ڈیز،کھجوریں، شہد، طغرے اور اسلامی تھزیب و اقدار سے ہم آہنگ دیگر سجاؤٹ کی آشیاءبرائے فروخت ہیں -مختلف لوگ اپنے کاروباروں کے پرچے تقسیم کر رہے ہیں وہ نوجواں نسل جو یہاں پل بڑھ کر جوان ہوئی اور جنکے ماں باپ نے مغرب کی بے راھ روی دیکھ کر مساجد میں پناہ کو غنیمت جانا- انکے اپس میں ملنے کے مواقع بھی مئیسر ہیں- ایک اسلامی ماحول اور ثقافت جس سے بیشتر ہمارے جیسے مسلمان ممالک سے آنے والے بھی ناآشنا ہوتے ہیں - کیونکہ ہمارے ہاں تو بیشتر مساجد میں خواتیں کا داخلہ ہی ممنوع ہوتا ہے- پچھلے سال لاہور میں بیڈن روڈ پر مسجد شہداء میں جب نمازٰیں قضاء ہورہی تھیں تو بھائی کے ہمراہ گیئ اسکا خیال تھا کہ یھاں خواتین کے لئے کمرہ ہے وضو خانے کی طرف جاتے ہوۓ ایک محترم راستہ روک کر کھڑے ہوۓ " بی بی یہ مردوں کا وضو خانہ ہے"" اور خواتین کا؟' وہ اوپر کمرہ ہے " اوپر کمرے مین گئ تو یوں لگا جیسے مدتوں سے اس کمرے میں کوئی داخل ہی نہیں ہوا ایک دو دروازوں کو دیکھا تو تالے پڑے تھے - تئیمم کرکے قصر ادا کئے-اب تو الحمدللہ موٹر وے پر مصلے اور خواتین کے وضو خانوں کا رواج ہو گیا ہے-- ان ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کے لئے بہترین بیت الخلاء اور وضو خانوں کا اہتمام ہوتا ہے-

افطار کے لئے جمعہ، ہفتہ ، اتوار کمیونٹی افطار کا اہتمام ہے جسمیں ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے- کھجور اور پانی کے افطار اور نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کھانے کا سلسلہ ہوتا ہے جو عام طور پر لنچ باکس کی صورت میں ہوتا ہے-ان سات روزوں مین ہم نے ایک افطار گھر پر کیا ہے ورنہ کسی نہ کسی تنظیم کی طرف سے اہتمام ہوتا ہے-مرسی مشن مدینہ کینیڈا جو نو مسلموں کو کافی تقوئیتاور امداد فراہم کر رہی ہے انکے جانب سے ایک پر تکلف پوٹ لک افطار کا اہتمام تھا--نو مسلموں اور جوانوں کی گرمجوشی قابل دیدنی تھی--یٰہاں کی عمومی زبان انگریزی ہے اس لئے جو عالم یہاں کے لہجے میں انگریزی بولتا ہے اور یہیں کا پلا بڑھا یا پڑھا لکھا ہو تو نوجوانون اور دیگر زبان بولنے والوں میں کافی مقبول ہے--اردو کا تعلق صرف اردو دانوں تک رہ جاتاہے- اس بڑھتے ہوئے مزہبی جوش و خروش سے حکومت کینیڈا ہر گز غافل نہیں ہے اور ہر مسجد میں مانیٹرنگ کے آلات لگائے گئے ہیں بلکہ مختلف سراغ رسان، جاسوس بھی چھوڑ رکھے ہیں---



-ٹورنٹو اور اسکے گرد و نواح میں لگ بھگ دو سو مساجد ہیں ، ایک اندازے کے مطابق جنوبی اونٹاریو میں لگ بھگ چھ لاکھ مسلمان ہیں جنمیں سے اکثرئت ٹورنٹو اور گرد و نواح میں آباد ہیں-یہاں کی چند دیگر بڑی مساجد جنمیں میں جا چکی ہوں الفلاح اسلامک سنٹر اوک ویل' ھملٹن اسلامک سنٹر، اناتولیہ اسلامک سنٹر، فاؤنڈیشن مسجد آف کینیڈا سکار بورو جو نگٹ مسجد کے نام سے معروف ہے ، الھدئ اسلامک سنٹر، جامعہ اسلامیہ، دعوہ سنٹر ، جامعی سنٹر، نیو مارکیٹ کی مسجد،ہالٹن اسلامک سنٹر، مسجد رحمت اللعالمین، نور الحرم مسجد ، مسجد الفاروق، ابوبکر مسجد ، ملٹن اسلامک سنٹراور بے شماردیگرچھوٹے بڑے مصلے ہیں جو مختلف عمارتوں میں قائم ہیں-سب سے بڑی خوبی ان تمام مساجد کی یہ ہے کہ خواتین کے لئے برابر کے مواقع میئسر ہیںاور وہ برابر کی تعداد میں آتی ہیں اس وجہ سے بر صغیر کی وہ تمام خواتین جو مساجد اور انکے اداب سے نابلد ہوتی ہیں وہ ان مساجد میں جاکر دین سے کافی قریب آ جاتی ہیںاور دیں کو صحیح طور پر سمجھنے لگتی ہیں -علاوہ ازیں پورے خاندان کے لئے باہمی میل جول کا ایک بہتریں موقع میسر آتا ہے- چھوٹے بچوں کو بھاگ دوڑ کے ایک وسیع جگہ جب کہ نوجوانوں کو آپس میں گپشپ کے لئے ایک عمدہ پلیٹ فارم مل جاتا ہے-یہاں پر اکثر رشتے بہی جڑجاتے ہیں- ان تمام مساجد اور اداروں کی رشتے طے کرنے کی سہولیات بہی ہیں اور مختلف مواقع پر باہمی مختصر ملاقات کے مواقع فاہم کئے جاتے ہیں -

رمضان میں ہی کافی فلاحی ادارے اپنے چندے کی مانگ کی مہم چلاتی ہیں انکو فنڈ ریزنگ ڈنرزFund raising dinners کہا جاتا ہے انمیں ٹکٹ کے علاوہ شرکاء کو انفاق فی سبیل اللہ پر اکسایا جاتا ہے اکثر لوگ کافی بڑی رقوم ہدیہ کر دیتے ہیں اسکے کافی ماہر قسم کے مقرر ہیں ایک مقبول ماہر برادر احمد شہاب ہیں جو عربی نژاد ہیں اور قرآن ، احادیث اور سیرہ کے لحاظ سے انگریزی میں کافی بااثر تقریر کرتے ہیں - شرکاء بہت کچھ ہدہیہ کرنے پر امادہ ہوجاتے ہیں ہزاروں ڈالر کے عطیات کا اعلان ہوتا ہے- اس ضمن میں اکنا ریلیف کینیڈا اور اسلامک ریلیف کا دعوت نامہ آچکا ہے- اسکے علاوہ مساجد اپنی چندے کی مہم عموما ختم قرآن والی رات کو کرتی ہیں -- یہ طریقہ مجھے سب سے اچھا لگا کہ آڈیٹر ان تمام امدنیوں کی آڈٹ کرتے ہیں اور اکثر بد عنوانیا ں بھی سامنے آتی ہیں- بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے --اسوقت ہم ماہ رمضان کی برکات سے مستفید ہورہے ہیں اور ہونا چاہتے ہیں--

کل عام و انتم بخیر، آپ سب کو ایک مرتبہ پھر ٹورنٹو سے ماہ رمضان مبارک!



Thursday, July 26, 2012

حسین وادئ کاغان میں چند روز

حسین وادئ کاغان میں چند روز
عابدہ رحمانی



آجکل پاکستان کے میدانی علاقوں میں چلچلاتی گرمیوں کا زور ہے دارالخلافہ اسلام اباد میں بھی درجہ حرارت 40-45 سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے ابھی ہاڑ کا مہینہ ہے اور ساؤن کے آنے اور برسنے میں ایک ماہ باقی ہے اسکے علاوہ سیاسی ، عدلی، اور ابلاغ عامہ کی سطح پر بدعنوانی ،بد دیانتی اور رشوت خوری ورشوت دہانی کی اتنی کہانیاں اور داستانیں ہیں' جس سے احساس ہوتا ہے کہ ہر ایک کے دام لگے ہوئے ہیں کون کتنے میں بکا اور کس کی کتنی قیمت لگی، شائد اسکو وہ بے حیائی سے قدر و قیمت کا نام دے دیں- لگتا ہے ملک ریاض دام لگانے اور دام چکانے کا فن خوب جانتے ہیں اس لحاظ سے ہم انہیں چھوٹا موٹا امریکہ کہہ سکتے ہیں اگرچہ شائد وہ امریکہ سے زیادہ چالاک ہوں- بحریہ ٹاؤن یا سفاری ولاز میں جو عزیز و اقارب رہتے ہیں وہ اپنے آپکو اس لحاظ سے خوش قسمت گردانتے ہیں کہ انکے ہاں لوڈ شیڈنگ ، واٹر شیڈنگ نام کی کوئی چیز نہیں امن و امان اور تحفظ بھی انتیہائی اعلےٰ!( ملک صاحب کیا یہ دو جملے لکھنے پر میں کسی عنائیت کی مستحق ہوسکتی ہوں؟) استغفراللہ ،ہم دینے والوں میں سے ہیں لینے والوں میں نہیں ،اب جبکہ اوباما کیمپ کی طرف سے ای میل پر ای میل آرہی ہیں کہ بھیئ کچھ تو دو پانچ یا تین بھی کافی ہیں دیکھو مٹ رومنی آگے نکلتا جارہاھے - در اصل پچھلی مرتبہ نمعلوم کس جھونک میں آکر ہیلری کو 20 اور اوبامہ کو دس سکہ رائج الوقت دئے تھے بس انکے بھی منہ کو لگ گیئ ہے کہ اب جان ہی نہیں چھوڑتے--حالانکہ وہاں کے ملک ریاض جیسے لوگ ایسے مواقع پر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں اورلاکھوں کروڑوں دیتے ہیں- اس چندے کو کوئی ہرگز برا نہیں گردانتا بلکہ ٹیکس میں چھو ٹ بھی مل جاتی ہے--اس سارے ہنگامے سے افضل یہ کارنامہ ہوا کہ یوسف رضا گیلانی کو اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر بیک جنبش قلم مجبور کر دیا گیا--اور اب نئے وزیر اعظم مخدوم شھاب الدین ہونگےدیکھتے ہیں کہ انکے آنے سے کیا بہتری آتی ہے؟اب انکے ایفیڈرین کے کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے تو زرداری نے راجہ اشرف کو نامزد کر دیا جو سنا ہے کہ استادوں کے استاد ہیںاور اللہ معاف ہی کرے- پاکستان کی ہر لمحہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کی ساتھ مسابقت رکھنا مشکل کام ہے!



اس ساری گرما گرمی سے فرار کی تلاش تھی اور اللہ بیحد بھلا کرے اپنی صوبائی وزیر کزن بہن کا جنہوں نے شوگران میں چند روز گزارنے کی دعوت تھی- نیکی اور پوچھھ پوچھھ ہم نے انکی دعوت سر آنکھوں پر قبول کی--اسلام آباد سے ایبٹ آباد پہنچے تو عثمانیہ میں دوپہر کا کھانا کھایا انکا بار بی کیو سے مرصع کابلی پلاؤ کا پلیٹر بہت ہی آعلے اور خوش ذائیقہ تھا - بالاکوٹ پہنچے تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوئیں- یہ شہر8اکتوبر 2005 کے زلزلے میں بری طرح تباہ ہوا تھاھزاروں لوگ لقمہ اجل ہوئے آنا فانا ایک ہنستا کھیلتا شہر زمین بوس ہوگیا-اللہ تعالیٰ اپنے کاموں کے اسرار و رموز سے واقف ہے-- اب یہ از سر نوایک ہنستا بستا آباد شہر ہے، بعد میں جھیل سیف الملوک جاتے ہوئے ہمارے جیپ کے ڈرائیور نے بتایا کہ وہ بالا کوٹ کا رہایشی ہے اسکا ایک بیٹا اسکول منہدم ہونے کی وجہ سے شہید ہوا دوسرا بچ گیا تھا-اسے کافی شکائات تھین کہ حکومت نے انسے کئے ہوئے وعدے ابھی تک پورے نہیں کئے-بقول اسکے اگر مشرف ہوتا تو ہمارے ساتھ انصاف ہوتا- بالاکوٹ میں سید آحمد شہید بریلوی اور اسماعیل شہید کی قبریں ہیں انہوں نے سکھوں کے خلاف جہا د میں حصہ لیا تھا اور بالا کوٹ میں شہادت پائی- بالا کوٹ میں دریائے کنہار زور شور سے بہہ رھاہے یہ دریا وادئ کاغان کی شہ رگ کہلاتا ہے یہ جھیل لولوسر کے مقام پر گلیشئر سے نکلتا ہے اور پوری وادی کو سیراب کرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریاۓ جھلم میں ضم ہو جاتا ہے- پچھلی مرتبہ ہم یہاں پی ٹی ڈی سی (Pakistan Tourism development corporation) کے ریسٹ ھاؤس میں تھے ساتھھ ہی ایک فلمی یونٹ شوٹنگ کے لئے آیا تھا -زبردست چہل پہل تھی-

یہ حسین جنت نظیر وادئ کاغان صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں واقع ہے یہ علاقہ قدرتی حسن وخوبصورتی سے مالا مال ہےبالاکوٹ کے بعد خنک ہواؤں اور سرسراتے ہوۓ پیڑوں نے ہمارا استقبال کیا -ائر کنڈیشنر بند کرکے گاڑی کے شیشے کھول دۓ ،راستے کے ایک جانب دریاۓ کنہار زور شور سےسنگلاخ چٹانوںسے ٹکراتےہوۓ بہہ رہاہے- اس دریا کو ایک زمانے میں لکڑی کے بھاری تنوں کی باربرداری کے لیۓ بھی استعمال کیا جاتا تھا- پچھلی مرتبہ اس راستےستمبر کے آوائل میں گزر ہوا تھا بالاکوٹ کے بعد ہمارا سفر جیپ پر تھا یھاں کے مقامی باشندے گوجر کہلاتے ہیں یہ باشندےخانہ بدوش ہوتے ہیں اور موسم کے لحاظ سے مختلف علاقوں میں حرکت کرتے ہیں اکتوبر کے بعد سے ناران کےعلاقے میں عموما برف باری شروع ہو جاتی ہے اسی وجہ سے ہمیں راستےبھر انکے قافلے ملتے رھے ، یہ اپنے مال اسباب ، مال مویشی ، بار برداری کے جانور سمیت پہاڑوں سے نیچے اترتے ہیں-میدانی علاقوں میں خیمے گاڑ کر اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں ہمارے بچپن میں ہمارے علاقوں مین یہ لوگ بڑی تعداد میں آجاتے، ہمیں ان سے ڈرایا جاتا تھا کہ اپنے گھیر دار فراکوں میں چھپا کر لے جائینگی-ایک مخصوص قسم کی بدبو ہمیں انکی آمد سے مطلع کرتی- خواتین زیادہ تر گھروں میں جاکر فال نکالتیں یا بقول انکے قیمتی پتھر، سلاجیت اور چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرتیں ، مرد زیادہ تر کھیتی باڑی میں لوگوں کی مدد کرتے بعد میں جب میں نے دنیا کے خانہ بدوشوں کے بارے میں جانا تو حیرت انگیز طور پران سب میں ایک مماثلت نظر ائی- میدانوں میں سردیوں کے اختتام کے ساتھ انکا پہاڑوں میں واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے-

ُپیچ در پیچ پہاڑی راستوں پر چڑھتے ہوئے حسن و خوبصورتی کے ساتھ خوف بھی ہم آھنگ ہوتا ہے-اب یہ راستے قدرے کشادہ ہوچکے ہیں -کہیں کہیں پر چٹانیں لڑھکنے سے اور پہاڑ کاٹے جانے سے تعمیراتی کام جاری تھا اس سے فضا کافی گرد آلود تھی- شوگراں کی سطح سمندر سے بلندی 7800 فٹ ہے ہمارا قیام محکمہ جنگلات کی آرام گاہ یا ریسٹ ھاؤس میں تھا 2003 میں سرحد کے وزیر اعلۓ اکرم درانی نے اسکا افتتاح کیاتھااسکے ساتھ ایک وسیع و عریض خوبصورت لان ہے اور سامنے برف پوش چوٹیوں کا حسین نظارہ، شمال کی جانب برف پوش چوٹی کا نام موسئ کا مصلہ ہے- خنکی محسوس ہوئی تو ایک سویٹر اور شال لے لیا ارد گرددیگر کافی خوبصورت اور اعلے پائے کے ہوٹل دکھائی دئے، سپروس ہوٹل میں جاکر کافی پی اتفاق سے ایک عزیز اسکے مالکان میںسے ہیں- گھوڑے والے اپنے مزٰئن گھوڑوں پر سواریان کرا رھے ہیں تو جیپیں ایک اور بالائی حصے سری پاۓ کی جانب جانے کے لئے تیار تھیں -

اسقدر دلفریبی اور عافئیت پر اللہ کا بیحد شکر ادا کیا کہ امن و امان کی صورتحال اس خطے میں ابھی تک بہترین ہے-لوگ خوش مزاج ، مہمان نواز اور مہزب ہیں ،یہاں کی عام زبان ہندکو ہے جو پنجابی سے ملتی جلتی ہے-اخروٹ کے درخت یہاں کافی تعداد میں نظر آئے انمیں ابھی ہرے اخروٹ تھے جو غالبا گرمی ختم ہونے کے ساتھ تیار ہو جاتے ہیں- جا بجا شہد کے چھتوں کے ڈبے تھے ،شہد کی مکھی کی افزائش اور اسکا حصول یہاں کی ایک بڑی صنعت اور زریعہ معاش ہے- ہمارے پیچھے جگہ جگہ شہد بیچنے والے لگے بڑی مشکل سے جان چھڑاتے ہوئے 500 روپے کی دو ڈبے خریدے جبکہ وہ 500 کا ایک ڈبہ دے رہاتھا-واپسی کے وقت وہی دو بوتل 200 میں مل رہے تھے-بازاروں میں مقامی صنعت کاری کی کشمیری شالیں، اخروٹ کی لکڑی کی اشیاء اور دیگر کافی مصنوعات برائے فروخت تھیں-

سیف الملوک جھیل یہاں کی ایک بیحد حسین جھیل،برف پوش پہاڑوں کے درمیاں ایک زمردیں پیالے کی طرح ہے -یہ جھیل قدرتی حسن و جمال کا شاہکار ہے اسکے متعلق ایک مشہور رومانی داستان شہزادہ سیف الملوک او کوہ قاف کی پریوں کی شہزادی بدر جمال کے متعلق ہے کہیں کہیں بدیع جمال استعمال ہواہے-یہ ایک لمبی کہانی ہے مختصرا یہ کہ اس جھیل میں پریاں نھاتی تھیں اور شہزادہ اس پری پر عاشق ہوگیا ، شہزادے کی بیہودگی دیکھئے کہ نہاتی ہوئی پری کے کپڑے چھپا ڈالے تاکہ وہ اڑ نہ سکے - مقامی لوک داستانوں میں یہ کہانی گا گاکر سنائی جاتی ہے - ملکہ برطانیہ الزبتھ اور انکے شوہر جب 1959 میں پاکستان کے دورے پر آئے تو اسوقت کے صدر ایوب خان بطور خاص انکو ہیلی کوپٹر میں جھیل سیف الملوک لے گئے - انکے لئے بطور خاص ایک کیبن بنایا گیا تھا-

ہمارا گروپ ناران تک اپنی گاڑیوں میں گیا ، راستے میں کھنیاں کے مقام پر اسی عزیز کے دوسرے ہوٹل میں کچھ دیر رکےیہ ہوٹل چینی پگوڈا طرز پر تعمیر ہوا ہےاور انتہائی دیدہ زیب ہے- بلکہ پگوڈا طرز کی تعمیر جا بجا نظر آئی مجھے یہ گمان ہوا کہ شائد زلزلے میں چینی امداد کا نتیجہ ہے لیکن پھر معلوم ہوا کہ یہ یہاں کا مقبول طرز تعمیر ہے اس ہوٹل میں اور دیگر مقامات پر بیحد خوبصورت گلاب اور موسم بھار کے پھول کھلے ہوۓ تھے -انتہائی خوبصورت مقام، کنہارپتھروں سے سر مارتا، ٹکراتا ہوا زور شور سے بہہ رہاہے- پانی کے اس زور شور کو دیکھ بار بار یہی خیال آرہاتھا کہ کاش پانی کی اس قوت کو قابو میں کردیا جاتا اور اس پر بہترین ڈیم تعمیر کردئے جاتے یا کر دئے جائیں تو بجلی کی کمیابی کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہ رہے- خود ان علاقوں میں کیئ کیئ روز بجلی غائب ہوتی ہے - شوگراں میں بجلی 24گھنٹے بند تھی ،جبکہ کھنیاں میں 3 روز سے بجلی غائب اور سارا دارومدار جنریٹرز پر تھا- کہیں کہیں راستے میں چھوٹے ٹربائن نظر آۓ-جن ممالک میں اس طرح کا پانی و دریا میسر ہیں انھوں نے ان سے بھرپور فائدہ اٹھا یا ہے -امریکہ نے 1935 میں کلوراڈو دریا پر ہؤؤرHoover ڈیم بنایا تو ریاست نواڈا اور اریزونا کی بجلی اور پانی کی ضروریات کو ازحد پورا کیا گیا-اسی کے نتیجے میں لاس ویگاس شہر آباد ہواوہ شھر جو روشنیوں کی چکا چوند کا شہر ہےاور جھاں کبھی رات نہیں چھاتی--

راستے میں کاغان اور جرید کے قصبے ملےکاغان میں پچھلی مرتبہ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے مقام پر گیے اس طرح کی ایک ہیچری سوات میں مدائن میں واقع ہے-ٹراؤٹ مچھلی برفانی پانی کی مچھلی ہے اور بہتے ہؤۓ برفانی پانی میں زندہ رہتی ہے-جرید میں شال ،کمبل ،اون بننے اور لکڑی کی مصنوعات کے چھوٹے کارخانے ہیںٓ- ناران تک کے راستے میں جا بجا بڑے بڑے گلیشئرز ملتے رہے ،برف کے ان تودوں کو کاٹ کر گزرگاہ بنائی گئی ہے انکے اندر سے رستا ہوا پانی دریا میں شامل ہورہا تھا-یہاں کے راستے مئی کے وسط میں کھولے گئے ہیں اور یہان کی چھل پہل ستمبر کے آخر تک ختم ہوجائیگی- ٹھنٹدے علاقوں کے باسیوں کو گرمی کا کس شدت سے انتظار ہوتا ہے کوئی ان سے پوچھے؟ ناران کا قصبہ اب ایک شہر کا روپ دھار چکا ہے کافی بڑا بازار، بے شمار ہوٹل اور حد درجہ چہل پہل! یہیں سے جیپیں کرائے پر لیکر ہم سیف الملوک کی جانب روانہ ہوۓ-سیف الملوک تک کا راستہ کشادہ تو کر دیا گیا ہے لیکن بیحد خراب ،سڑک کہنا تو زیادتی ہو جائےگی ہزاروں جیپیں آ اور جا رہی تھیں ایک مقام پر بل ڈوذر مٹی ڈال رہاتھا اللہ معاف کرے لگتا تھا پل صراط سے گزر رہے ہیں ڈرایئورنے بتایا کہ یہ راستہ 20 مئی کو کھلاہے، پچھلا راستہ اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اسکو چوڑا نہیں کیا جاسکتا تھا اسلئے یہ راستہ بنایا گیا بعد ازاں معلوم ہوا کہ جیپ والوںکی ملی بھگت ہے کہ سڑک اسی طرح کی کچی اور دشوار گزار ہو تاکہ انکی اجارہ داری قائم رہے-

جھیل سیفا لملوک سطح سمندر سے 10550 فٹ کی بلندی پر واقع ہے یہاں پر راستے میں مزید گلیشئیر ملے جو کافی تیزی سی پگھل رہے ہیں اسوجہ سے جابجا پانی کی کیفئیت قدرے سیلابی تھی- دس ہزار فٹ سے بلندی پر درخت ختم ہو جاتے ہیں اور محض گھاس یا چھوٹے پودے اگ سکتے ہیں-

چونکہ میں اپنی پچھلی یہاں کی آمد کو یاد کر رہی تھی جب اس جھیل کو دیکھھ کر مجھے یہ سب کچھھ ماورائے دنیا لگا تھا اور بالکل سحر زدہ ہو گئی تھی اسوقت لوگوں کی آمد ورفت بھی کم تھی اب ماشاءاللہ ہزاروں لوگ تھے- اب جھیل کے قریب کافی بڑا بازار اور ہوٹل ریستوراں بنے ہوۓ ہیں ، مجھے تو یہ تجارتی پن بالکل نھیں بھایا-جھیل کو دیکھا تو ایسے لگا کہ پریاں روٹھھ چکی ہیں اورشہزادہ کہیں خواب غفلت میں مدہوش ہے- اسکے باوجود برفانی چوٹیوں اور گلیشئیرز کے درمیان یہ ایک زمردیں پیالے کی طرح ہے اوپر ایک گلیشئیر کی ڈھلوان پر پھسلنے کے لئے ٹیوب کی شیٹیں کرائے پر مل رہی تھیں جس پر سب خوب لطف اندوز ہوۓ- مجھے کینیڈا کی ٹیوبنگ یاد آئی تو انکو اس کے بارے میں سمجھایا اس حسین اور ٹھنڈے موسم میں چند روز گزار کر آئے تو اسلام اباد کی شدید ترین گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے ہمارا استقبال کیا- کل یہاں درجہ حرارت 47 سنٹی گریڈ تھا--ہم ہیں اور ہمارا وطن ہے پیارو! اللہ سلامت رکھے آمین

An encounter with the child beggars!

An encounter with the child beggars!




Today while walking in a nearby park, came across a bitterly crying small girl of Afghan origin. We went towards her and asked her if some thing went wrong with her. She was barely 6,7 years old a beautiful young lady holding a wiper and duster in her hand. I first talked to her in Pushtu but she told me that she is better in Urdu, therefore we conversed in Urdu. She told that her brother and sister are taken away by police to the police station and that is the reason of her crying . She pointed to a nearby police station across the road and further told us that her father has died and the mother is under debt, therefore they are working or begging to help her out. She told us that the mother is studying Quran at home and they live in Golra.(Golra is a nearby slums)

The girl was wearing nice clothes but quite a bit dusty and dirty. We decided to help her as we approached the road she pointed to the oncoming police truck," this is it, my brother and sister are inside this truck. We signalled the truck to stop. It was full with small kids like them and a whole team of police was sitting with them and on the front seat in plain clothes. One of the gentleman came down and told us that they are from Police working with Child protection and welfare bureau, CPWB . These kids run after cars on busy thoroughfares and any of them can come under the wheels and any bad accidents can happen. No one under 14 is allowed on road to beg or work.( Why the over 14 then?) We take these kids into custody and hand them over to Child protection agency , who send them to schools.The small one go to Edhi centre from there they are handed over to their parents with an affidavit that they would not beg again.

A boy screamed from the truck , they do not follow it and come again. " What about you I asked?"

We asked the girl if she wishes to join them on truck because the gentleman told us that we are doing this exercises for their protection and make them better citizen. She insisted that she wants her siblings back . On our assurance three kids came down from the truck , one boy two girls. To my utter amazement small girl may be 3 and the boy a year older,tiny small lovely kids.The other girl may be 8 years old. The boy told us that he had Rs.500 earning which he handed over to police . The other girl had Rs100 .They promised us not to beg and went to towards their home.

Such a weired feeling about their mother , how she left these tiny small kids on the streets to beg and run after cars and how are we promoting these beggars by giving our alms, charity and donations.How could we help these kids to be useful and productive citizenz of Pakistan?

Are we the counter parts to help these emotional black mailers? There are so many unanswered questions...



Abida Rahmani

Islamabad Pakistan