Tuesday, May 29, 2012

وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-

وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا- عابدہ رحمانی




28 مئی 1998 کا دن پاکستانی قوم کی زندگی میں بہت اھمئیت کا حامل ہے کیونکہ آج پاکستان نے ایک طویل جد و جھد اور قربانیوں کے بعد اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا سے منوالیا -اس دھماکے کے بعد جھاں پاکستا نیوں کا سر فخر سے بلند ہوا وہاں انکو مزید بندشوں اور قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت بن سکا ہے اس سے پہلے عراق نے کوشش کی تھی لیکن اسکا ایٹمی ری ایکٹر اسرائیل نے فضا ئی حملہ کرکے منٹوں میں تباہ کردیا- اس دہماکےاور ایٹمی طاقت بننے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے دائمی حریف بھارت کی جارحئیت میں کچھ کمی آگئی ہےاور اب وہ ہم سے دوستی کا خواہاں ہے -کیونکہ اگر مد مقابل برابر کا ہو تو ہوش ٹھکانے رھتے ہیں-حالانکہ باقی دراندازیان اور چالیں جاری ہیں-

ایران اس صف میں شامل ہونے کی کوشش میں ہے دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے-آیٹمی طاقت ہونا جہاں ایک ملک اور قوم کی طاقت اور مضبوطی کی علامت ہے وہاں اس کرہ ارض، ہماری دنیا اور انسانیئت کی تباھی و بربادی کے لئے ایک مہلک ترین ہتھیارہے- شائد کرہ ارض پر قیامت اسی ایٹمی تباہ کاری کے نتیجے میں آئے اور پورے کرہ ارض کو نیست و نابود کر کے رکھ دے- انسان نے اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کر رکھاہے -اب ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ اسرافیل صور لئے ہوئے تیار کھڑا ہے اور نمعلوم کب نفخالاولیٰ کا وقت آجائے-اور اسکے بعد ہی محشر بپا ہو-

چند برس پہلے امریکی ریاست نیو میکسیکومیں البقرقی کے مقام پر کرک لینڈ ایرفورس بیس میں ایٹمی عجائب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا-یھاں ان ایٹم بموں کے ماڈل دیکھے جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے-ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے متعلق ایک فلم بھی دیکھی " وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا"

پولینڈ کی مادام کیوری وہ پھلی سائنسدان تھی جنہوں نے ریڈئم کو سرطان کے علاج کے لئے استعمال کیا -انکے بعد انکی بیٹی بھی اس شعبے میں آیئں اس پر مزید تحقیق ہوتی رہی- دوسری جنگ عظیم کے دوران یورینئم کی افزودگی پر کام ہوتا رہا -یورو پیئن اور جرمن سائنسدان ہٹلر اور مسولینی سے عاجز آکر امریکہ روانہ ہوگئے، ان میں مشہور سائنسدان البرٹ آئین سٹائن شامل تھے یوں 1938 اور 39 میں امریکہ سائنسدانوں کا مرکز بن گیا-البرٹ آئن سٹائن پھلے تو حکومت امریکہ کے لئے ایٹمی تحقیق کرنے سے انکار کیا- اسکے نتیجے میں امریکی صدر روزویلٹ نے انہیں قید کیا، بعد ازاں وہ راضی ہوئے اور یون تحقیقی کام شروع ہوا- انکے ساتھ کولمبیا یونیورسٹی کے نوبل یافتہ کیمیا دان اور مشہور سائنسدان شامل تھے - ان پناہ گزیں سائنسدانوں کے اشتراک سے میں ہٹن پروجیکٹ کا آغاز ہوا-

-

16 جولائی 1945 کو امریکہ نے لاس الاموس ، نیو میکسیکو میں پہلا ایٹمی دھماکہ ٹرینیٹی کے نام سے کیاجب تجرباتی طور پر پھلی دفع ایٹم بم کا دہماکہ ہواتو بے انتہا خوشیاں منائی گئیں-اسطرح دنیا ایک نئے ایٹمی عھد سے روشناس ہوئی اور امریکہ کو دنیا میں بالادستی حاصل ہوئی-

اس دہماکے کے بعد امریکہ نے اپنے پھلے دو ایٹم بم بنائے ان کے نام little boy ,Fat man

تھے- اگرچہ امریکہ ایٹمی قوت بن چکا تھا اور دنیا کو اسکی مہلک تباہ کاریوں کا اندازہ بھی تھا لیکن پھر بھی کوئی قوم ذہنی طور یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نھیں تھی کہ اسکے اوپر اسے آزمایا جائے گا-

دوسری جنگ عظیم آخری مراحل میں تھی کہ امریکہ اسپر بضد ہو گیا کہ وہ پرل ہاربرکے حملے کا بدلہ لے کر جاپان کو مزا چکانا چاہتا ہے-اسوقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپان پر ایٹم بم بنانے کی دستاویز پر دستخط کر دئے دو بی -29 بمبار جنکے نام اینولائے گے اور بوک اسکار تھے ایٹم بموں کو لے کر جاپان کی طرف روانہ ہوئےاسوقت امریکہ کے سپہ سالارجنرل آئزن ہاور تھے-

16 اگست 1945 کی بد قسمت صبح تھی امریکہ میں صبح کی چھل پہل تھی سان ڈیئاگومیں ایک مرین ڈویژن جاپان پر قبضے کی تیاری کر رہاتھا- اینولائے گے کے پہونچنے سے کچھ دیر قبل تین بمبار طیاروں نے ہیروشیما پر ہلکی بمباری کیان جہازوں کے جانے کے بعد آل کلئر کا سائرن بج رہا تھا اینولا گے صبح آٹھ بج کر گیارہ منٹ پر اپنے مقررہ ہدف پر پہونچا، ھواباز نے فیٹ مین کو گرانے کا لیور دبایا- فیٹ مین کو ہیروشیما کی زمین تک پھنچنے میں 43 سیکنڈ لگے، 15 سیکنڈ میں جھاز وہاں سے بحفاظت نکل گیا-بم کے پھٹنے میں دس سیکنڈ لگے-ان دس سیکنڈ میں اتنی بڑی تباہی ہوئی کہ دو لاکھ پچاس ہزار افراد کی آبادی کا یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا، ہیرو شیما کا 67 فیصد حصہ بالکل تباہ ہوگیا-دوسرا بم لٹل بوائے جسے بوک سکار لے کر ناگاساکی گیا تھا اس نے نسبتا کم تباہی مچائی اسکم درجے کی تباھی میں 39 ہزار افراد ہلاک اور 25 ہزار زخمی ہوئے-اس ایٹمی بمباری کے اثرات اتنے شدید تھے کہ چار ہزارمیٹر کے نصف قطرتک لوگوں کے کپڑے جلنے شروع ہوگئے اور ایک ہزار میٹر کے نصف قطر کے لوگوں کے جسم جل کر خاکستر ہوگئے، شھر میں تمام مکانات یا تو جل گئے ا مٹی کا ڈھیربن گئے، دہماکےکی شدت سے لوگ بیس فٹ دور جا گرے-

بمباری کے مرکز سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر موجود لوگ ایک گھنٹے کے اندر ہلاک ہوگئے، تجوریوں میں بند نوٹ اور کاغزات خاکستر ہو گئے- سکول کے بچوں کے ناشتہ دانوں میں کھانا سیاہ اور انکی پانی کی بوتلیں پگھل گئیں-دریاۓ توبسو کے کنارے ہزاروں لوگ پانی پیتے ہوۓ ہلاک ہوۓ - حد درجہ بلند درجہ حرارت سے بچ جانے والوں کو سردی نے آگھیرا اور سخت سردی سے ٹھٹھر گئے -شۃر کے شمال مغرب میں کالی بارش ہوئی اس بارش سے تمام آبی جانور ہلاک ہوۓ تابکاری کے اثرات سے پتھروں پر انسانی تصویریں ابھر آئیں --تابکاری کے اثرات 66 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بہی نسل در نسل چل رہے ہیں--

اس تباہی کے بعد جاپان نے اپنی شکست کا اعتراف کیا 2 ستمبر 1945 کو ٹوکیو کی بندرگاہ پر کھڑے جنگی جہاز میسوری کے عرشے جنرل میک آرتھر نے جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو سے شکست نامے پر دستخط کروالئے-آج ہیرو شیما پھر ایک ہنستا بستا شہرہے-یہ ابھی تک اعلانیہ ایٹم بم کا پہلا اور آخری حملہ ہے، اگرچہ عراق اور افغانستان میں کلسٹر اور فاسفورس بموں کا استعمال ہوا اور اب اگر امریکہ چاہے تو ڈرون یا میزائیل کے زریعے اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتی ہے-

بھارت اور پاکستان نے بھی اپنےمیزائیل اس مقصد کے لئے تئار رکھے ہیں وہ اپنے ترشولوں اور ہم اپنے حتفوں کے فاصلے ناپتے ہیں-

لیکن نیوکلیائی ھتیاروں کی اس دوڑ میں کیا بنی نوع انسانی کی تباہی بربادی اور ہلاکت کے علاوہ کوئی اور راز بھی پوشیدہ ہے-؟

Thursday, May 17, 2012

اس شہر کراچی میں چند روز


عابدہ رحمانی

کراچی میں جب سے اپنا ٹھکانہ کھویا ہے کچھ عجب گو مگو کا عالم رہتا ہے کس کے ہاں جائیں کہاں ٹھریں،وقت اور حالات کے ساتھ اپنے شہر بھی پراۓ لگتے ہیں-اگرچہ اس شہر عزیز میں زندگی کے کئی برس کی یادیں وابستہ ہیں انتھائی تلخ اور انتھائی شیریں ! حالانکہ اتنے عزیز و اقارب اور دوست احباب ہیں لیکن کچھ ہچکچاہٹ سی ہوتی ہے-وقت اور حالات بہی متقاضی ہوتے ہیں-اس مرتبہ جب جانا ہوا اور جانا بہی ضروری ٹہیرا تو کئی محبت بھرے پیغام شد و مد کی ساتھ آئے ،میرے پاس آکر رکیں، غریب خانہ حاضر ہے ! لیکن سہولت اور حفاظت کے پیش نظر پی این ایس شفاء کےضیافت خانےکی میزبانی زیادہ بھائی اورایک اور عزیز کے توسط سے کار اور ڈرایئورکا انتظام ہوا بہترین انتظام اور سھولت--

اگلی ہی شام کو ہمارے دیرینہ رفیق اور کرم فرما نے اپنے دولت خانے پرعشائیے کا اہتمام کیا محبتوں اور رفاقتوں کی تجدید، سارے خاندان نے اپنی چاہتوں سے سمیٹ رکھا-

اگلے روز اپنے کام سمیٹنے میں مصروف رہے' کچھ وقت ملیر کینٹ کےشھر خموشاں میں گزارا---یہ دنیا ،ر اسکی بے ثباتی اور اللہ تبارک و تعالئ کی کڑی آزمائشیں،اور ایک عاجز ناتواں بندی لیکن اسی اللہ نے اسے حوصلہ اور حالات سے نبرد آزما ہونے کی ہمت دے رکھی ہے، اسکی نعمتوں کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ،مذید آزمائشوں سے پناہ کی درخواست ہے ----اور سفر جاری ہے--- زندگی کیا ہے عناصر میں طہور ترتیب ، موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشان ہونا--





شام کو Port Grand''کا رخ کیا وھاں کے منیجر فیصل بیگ صاحب نے شرف میزبانی بخشا ،اس پروجیکٹ کی تعمیرو ترقی کی تفصیلات سے آگاہ کیا انتہائی اعلےٰ پروجیکٹ ، بین الاقوامی معیار کی سطح کی تعمیر ، طبیعت خوش ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ تعمیر و ترقی کا کام ہو رہا ہے ، چاہے پرایئویٹ سیکٹر میں ہی ہو- یہ ایک متروک ڈاک dock تھا جسکو ازسر نو تعمیر کیا گیا ہے اسکی تعمیر و ترقی میں عارفین گروپ اور دیگر ملوث ہیں- پھلے تو بازار اور کھیل کود کی جگہیں ہیں اور پھر ریستورنٹ کا سلسلہ ہے، بھت دلچسپ نام ہیں،چینی، جاپانی، اٹا لیئن، بار بی کیو۔ ماہی گیر ، سماوار ہم سماوار پر جاکر بیٹھے ، وہیں پر فیصل نے کھانے کا انتظام کیا - اس چائے خانے کا مینو دیکھ کر بہت اچھا لگا ، چائے کے تمام مشہور ذائقوں کے نام تھے ( اب فلیورکی اردو کیا ہونی چاہیے؟)میں نے ایرانی چائےمنگوائی-وہاں بیٹھ کرمحسوس ہو رھا تھا جیسے بحری جہاز کے عرشے پر ہیں اور سمندر کا نظارہ کر رہے ہیں- نسیم بحری سے لطف اندوز ہوتے رہے، بیحد پرسکون اور دلکش ماحول تھا-کافی خاندان ان پرسکون لمحات سے بہرہ ور ہورہے تھے-میرا بھائی شیشے سے شغل کرتا رہا--

اس مرتبہ عرصہ 4 سال کے بعد کراچی جانا ہوا -شہر کو عموما بہت بہتر حالات میں پایا -ہر جانب چڑھتے اترتے فلائی اورز ،بند نالے اور خوب ہریالی نظروں کو بیحد بھائی



کوئی نیا پودہ متعارف ہوا ہے جو تیزی سے بڑھتا ہے اور خوب ہرا ہوتا ہے(بعد میں معلوم ہوا کہ یہ Picus ہے- یہ پودہ امریکہ میں بھت مقبول ہے ) -کراچی شہر کی بہتری کا کام مئیر کراچی نعمتاللہ خان صاحب کے زمانے میں شروع ہوا تھا-لیکن غنیمت ہے کہ اس کام کو مصطفیٰ کمال صاحب نے خوب بڑھایا ، ایک عزیز سے میں نے کراچی کی خوبصورتی کی لیے جب تعریفی کلمات کہے تو گویا ہوۓ ،'کتنے لوگوں کی لہو سے یھ سب سینچا گیا ہے؟ " ،" لہو تو بہ رہا ہےاور اسکا کوئی حساب دینے والا نہیں ہے ،کم از کم کچھ بہتر کام تو ہوا " میں کسی کی اچھے کام کی تعریف کنے بنا نہیں رہ سکتی " لیاقت آباد کیطرف سے گزر ہوا پوری پوری دیواریں ایم کیو ایم کے جھنڈوں اور نعروں سے رنگین تھیں صاف الفاظ میں درج تھا ' الطاف حسین کا قلعہ" اب سیاسی لحاظ سے کسی کو انکار کیسے ہوسکتا ہے؟

بھاگتا دوڑتا شہر ، زندگی اور چہل پہل سے بہر پور -- کراچی جو پاکستان کی شہ رگ ہے ، جو منی پاکستان ہے---

میرے پاس وقت کی قلت تھی ، موسم اچانک ظالم ہوگیا ، سخت گرمی اور بے انتہا حبس مجھے کینیڈا یاد آرھا تھا جھاں 15 جون سے سرکاری طور پر گرمی شروع ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گرمی کی مبارکباد دیتے ہیں کارڈ بھی دیئے جاتے ہیں اور جب میں انکو بتاتی ہوں کہ مجھے گرمیاں بلکل نہٰیں پسند " تو انہیں مین کوئی عجوبہ لگتی ہوں -- جب مجھے امریکا کا امیگرانٹ ویزہ لگا تو مانتریال میں میرے ساتھ اک سکھ جوڑا تھا -اتفاق سے ہم دونوں کو بعد میں فینیکس جانا تھا--بلونت کہنے لگی،' انڑ شکر کیتا اے گرم شھر دے وچ جاؤنگے، 25 ورشان توں برفاں چک چک کے ٹوٹ گیے نیں،اتے تے ہر کار دے پیچھے ایک وڈا پول نے"( اب ہم نے شکر کیا ہے کہ گرم شہر میں جارہے ہین ،25 برسوں سے برف اٹھا ٹھا کر ٹوٹ گئے ہیں- وہان تو ہر گھر کے پیچھے ایک بڑا پول ہے) جبکہ فینیکس والے وہاں کی گرمی سے عاجز--انسان بھی بڑا ہی ناشکرا ہے کسی حال میں خوش نہیں ہوتا ----- ارے بھیئ پاپ کہانیوں کے اس دور میں' میں چھوٹی سی بات کو کیوں طول دے رہی ہوںٓٓٓ----

سہراب گوٹھ کی طرف جانا ہوا تو یوں لگا کراچی شہر کی حدود ختم ہو گئی ہیں اور دشمن کے علاقے میں داخل ہوگئے ہیں --گندگی ِ غلاظت کے ڈھیر ، درخت کا نام و نشان نہیں--ہر طرف اے این پی کے جھنڈے لگے ہوۓ تھے--بر سر پیکار گروہوں نے علاقے کا ستیا ناس کر رکھا تھا--انھی دنوں میں لیاری آپریشن جاری تھا --باہر سے فون پر فون آرہے تھے نکلو کراچی سے ----

ایک عزیز کے ہاں دو تین روز قیام کیا ،کڑی پتے کا درخت انکی بالائی کھڑکی تک آرھا تھا خوشبو دار پھول کھلے ہوئے، اسپر خوب کوئیلیں کوکتیں -اسکا پودا وہ مجھ سے لے گۓ تھے اور اب یہ ایک تناور درخت بن چکاتھا-- اتنا بڑا کڑی پتے کادرخت اور اسکے پھول زندگی میں پھلی مرتبہ دیکھے- شمالی-امریکا میں میری دوستوں نے چھوٹے ،بڑے گملوں میں اسے اندرون خانہ رکھا ہوتا ہے--

الحمدللہ پیار و محبت کا یہ سفر بھت بھاگ دوڑ میں بعافیت پورا ہوا, بعد میں بہت سے فون اور ای میل آئے ، بتایا کیوں نہیں ، فون کیوں نہیں کیا--- یار زندہ صحبت باقی--پاکستان کے قرئے قرئے چپے چپے کی طر ح اللہ تعالیٰ کراچی کو امن و سکون کا شہر اور گھوارہ بنادے ،جہاں ماؤں کی گودیں ، بیویوں کا سھاگ اور معصوم بچے بحفاظت اور سلامت رہیں ---

***

جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے

اسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا

Saturday, May 5, 2012

ایک ھنگامے پہ موقوف ہے---




عابدہ رحمانی





ایک ھنگامے پہ موقوف ہے---








سات سمندر پار کا سفر کر کے مادر وطن پہنچی تو 12 گھنٹے پورے 12 گھنٹے میری زندگی سے حزف ہو چکے تھے دن رات میں بدلی اور رات دن میں' عرف عام میں اسکو جیٹ لیگ کہتے ہیں یعنی جیٹ طیاروں کی برق رفتاری سے جو ہمارے اوقات بدل جاتے ہیں نمعلوم اردو میں اسکا کوئی متبادل ہے؟ جیٹ طیاروں کی برقرفتاری کی بدولت جب ہم مغرب سے مشرق کی سمت اتے ہیں تو وقت کا زیاں' جبکہ مشرق سے مغرب کی سمت ہمیں فائدہ ہوتا ہے لیکن جسم کی گھڑی جسکو ہم باڈی کلاک کہتے ہیں اسکو تعین کرنے میں اور اہنی رفتار متوازن کرنے میں وقت لگ جاتا ہے نمعلوم پاکستان آکر میری یہ گھڑ ی کچھ سست کیوں پڑ جاتی ہےرات کو سوئی تو لگتا ہے دوپہر کا قیلولہ کیا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے اور جب وہاں رات شروع ہوتی ہے تو نیند آنے لگتی ہےکم ازکم ایک ہفتہ ان اوقات کار کے عادی ہونے مین لگتاہےعلاوہ ازیں خاموش اور ساؤنڈ پروف ماحول کا عادی ہونے کے بعد جھان زیادہ سے زیادہ شور اپنے ٹی وی کا یا رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی ایمرجنسی گاڑیوں کے سائرن کا ہوتا ھےیہاں لگتا ہے کہ ہر طرف ایک شور بپا ہے-جس بالائی کمرے میں مقیم ہوں اسکے باہر کی طرف ایک گلی گزرتی ہےجھاں رات بھر آمد و رفت رہتی ہے لوگوں کی باتیں، موٹر سائیکلوں کا شور اور رات کے سناٹے کو درہم برہم کرتے ہوۓ من چلوں کے قہقہےاور چینخیں ،ذرا سا خاموشی چھائ تومساجدسے آذان فجر بلند ہوئی آداب سحر گاھی کے تقاضےاس سے قبل ہی پوری کرنے کی کوشش ہوتی ہےساتھ ہی ساتھ بیشمار پرندوں کی چھچھاہٹ سامنے لگے ہوۓ لوکاٹ کے درخت پر ہلہ بول دیا جاتاہے بلبل، قمری،ٖفاختائیں،چڑیایں ،کوے ،توتے جھنڈ کے جھنڈ آنا شروؑع ہوئیں- خوبصورت سریلی صدائیں ایک نئی صبح کے آغاز کی نوید لے کر آتی ہیں - کراچی میں علیالصبح کوکتی ہوئی کوئلوں کی صدائیں سب پرندوں پر حاوی ہوتیں جب وہ میرے شریفے ، چیکو ،جامن اور انجیر کے پھل ٹونک بجا کردیکھتیں- ماحولیات کے ایک ماہر نے ایک مرتبہ کہا 'کراچی کی کویل دیوانی ہوگئی ہے 'کوئل برسات میں کوکتی ہے جبکہ کراچی میں سارا سال کوکتی رہتی ہے غالبا نمی اور رطوبت کی وجہ سے انہیں برسات کا لمس ملتا ہے-

اب جبکہ نیند نہیں آرہی ہے تو بہتر یہ ہے کہ اٹھکر فطرت سے رشتہ جوڑا جاے اور قریبی پارک مین چہل قدمی کی جاۓ کافی اچھا بڑا پارک ہے-روشیں چہل قدمی یا جاگنگ کے لئے بنی ہوئی ہیں-اسلام اباد میں موسم بھار بھر پور انداز میں آتا ہے ہر طرف خوبصورت ، خوشنما پھول بھار دکھا رہے ہیںشائقین نے سڑک تک کیاریاں بنا رکھی ہیں -پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے اسی وجہ سے جب میں ترقی یافتہ ممالک میں جاتی ہوں تو انکے پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں سے جھاں مستفیدہوتی ہوں، وہاں مجھے سخت رشک و رقابت بھی ہوتی ہے -چھل قدمی میں صحت کی صحت اور چشم ما روشن و دلے ما شاد والی کیفیئت ہوتی ہے کیونکہ پھول پودے ہمیشہ سے اپنی کمزوری ہیں صبح آٹھ بجےسے گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں مالی ،ماسی ڈرائیور،کوڑا اٹھانے والےکی آمد شروع ہوئی ان سب سلسلوں سے ہم کافی بے نیاز ہو چکے ہیں اگر ہفتے دو ہفتے میں کوئی میڈ یا مالی آتا ہے تو اسکے اوقات پھلے سے طے شدہ ہوتے ہیں باقی شوفر وہ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں اگر کسی کو بتاؤ کہ پاکستان میں ہمیں یہ سہولیات ہیں تو انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں -اسکے بعد آوازوں اور صداؤں کا ایک سلسلہ بندھ جاتاہے اور جھاں تک کوڑا اٹھانے کا سلسلہ ہے ، میرے مختلف ٹھکانوں میں یہ طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے مثلا ایک جگہ ایک ہفتے باورچی خانہ کے کوڑے کے سااتھ باغ کے کچرے کا ڈمپسٹر جائے گا اگلے ہفتے ری سائیکل کا، ایک جگہ ہفتے میں دو روز کوڑا جاتا ہے -کوڑا اٹھانے والے ٹرک کا ڈرائیور بیٹھے بیٹھے اپنے ہائیڈ رالک گئیر سے اس کوڑا دان کو اٹھاکر الٹ دیتا ہے اور یہ جا وہ جا-ٹورنٹو والے کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہیں انکے ہاں باورچی خانے کے کچرے کے لئے ایک الگ کوڑا دان ہوتا ہے جسمیں ایک مخصوص پلاسٹک کی تھیلی لگتی ہے یہ پلاسٹک جلد تحلیل ہوتا ہے اور ماحول کا دوست ہے-اس میں اگر ایک کاغز بھی پایا گیا تو اسپر چٹ لگا کر چھوڑ دیا جائےگا-اس سے وہ کھاد بناتے ہیں -

ہمارے یہاں ری ساءیکل کا انتظام کیا بہترین ہے بچے کوڑے سے ایک ایک کاغز چن کر الگ کرتے ہیں ،انکو کوڑا چننے والے بچوں کا ناام دیا گیا ہے کیونکہ یہی انکا ذریعہ معاش ہے- کوڑا اٹھانے والوں نے بہی مختلف تھیلے رکھے ہوتے ہیں- اور اس میں مختلف اشیاء کو علئحدہ رکھا جاتاہے-اسے بیچ کر انکی کمائی ہوتی ہے -- "ردیاں اخباراں ،ٹین ڈبے لینے والے کی صدائیں میں بچپن سے سنتی آئی ہوںوہ بھی ریسائکل یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک بہتریں ذریعہ ہے -بیچنے والے کو رقم الگ مل جاتی ہے-کراچی میں جب اپنا گھر سمیٹا تو بلا مبالغہ ہزاروں کی ردی بیچی جسمیں آڈیو کیسٹ ،ویڈیو کیسٹ اور بیشمار کتابیںو رسائل شامل تھے-،پریشر کوکر بنوالو ، منجی پیڑی ٹھکوالو،پھلے ایک اور صدا آتی تھی پانڈے قلعئی کروالو جو اب خارج از وقت ہو چکی' سبزی والے آئیس کریم والے جو اب چاکلیٹ بھی بیچتے ہیںانکے ٹھیلوں کی موسیقی رات گۓ تک بچوں کو کشاں کشاں کھینچتی ہے- بھانت بھانت کی آوازیں اور صدائیں ایک چھل پھل ایک رواں دوں زندگی کی علامت -انہی آوازوں میں مجہے وہ بچی بری طرح یاد آتی ہے جو چونی مٹھی میں دبانے ہوئی اسوقت گیٹ پر لپک کر جاتی جب دور سے یہ صدا آتی' چنا جور گرم بابو میں لایا مزیدار چنا جور گرم' اسے اسکا گانا بھی بیحد پسند تھا اور اسکا گرم گرم چنا جور -پھر اسکا اور چنا جور والے کا رشتہ اتنا گہرا ہوا کہ اگر کسی روز اسے وہ نہ ملی- تو وہ گیٹ پر کھڑا گھنٹیاں بجاتا رہتا اور اپنے گانے کو اور اونچا اور لمبا کر دیتا 'بیبی آگیا تیرا چنا جور گرم والا " جب بڑے ہوکر اسنے 'کابلی والا' دیکھی تو اسے اپنا چنا جور گرم والا بہت یاد آیا جب امی ابا کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی،کہ اسکو پیچھے کیوں لگادیا ہے -- --