Sunday, April 30, 2023

Trip to Spain and Morocco! 3- On way to Cordoba قر طبہ کی جانب مسجد قرطبہ

 Trip to Spain and Morocco!

3- On way to Cordoba

قر طبہ کی جانب مسجد قرطبہ

جامع مسجد قرطبہ یا قرطبہ کی جامع مسجد (انگریزی: 

Great Mosque of Córdoba ہسپانوی: Mezquita de Córdoba جسے ایک کیتھیڈرل یعنی بڑے گرجے میں تبدیل کر دیا گیا اور اب اسے قرطبہ کی مسجد-کیتھیڈرل (انگریزی: Mosque–Cathedral of Córdoba) ہسپانوی: Mezquita-Catedral de Córdoba)‏) بھی کہا جاتا ہے۔ 

اب غالبا اسکی حیثیت ایک تاریخی ورثے کی ہے۔۔

میری جذباتی کیفیت معراج پر تھی جب میں وہاں داخل ہوئی ، سیاحوں کا ایک ہجوم تھا انہی کے ساتھ ہمارا گروپ گائیڈ کے ہمراہ داخل ہوا ۔تاریخ کی سفاکی اور بھول بھلیاں میرے دماغ پر حاوی تھے ، ایک ستون کے سہارے کھڑے ہوکر میں نے نفل دوگانہ ادا کئے  ، اللہ تعالی ۔۔سے اسلام کی سر بلندی، استحکام و اتحاد  کی دعا کی

ہماری گائیڈ با ر بار 

reconquest 

کا ذکر کر رہی تھی کہ کسطرح ہسپانیوں نے مسلمانوں جنکو وہ مقامی زبان میں مورش کہتے ہیں زیر اور نیست و نابود کیا ۔۔۔

اندلس (عربی: الأندلس) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع مسجد قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کیے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران میں سینکڑوں عمارات مثلاً حمام، محلات، مساجد، مقابر، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھی۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں۔ عرب فاتحین کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے۔ چنانچہ سندھ سے لے کر مراکش تک کی تعمیرات میں عربوں کی یہ خصوصیت واضح طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لیکن اندلس میں انہوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی (Visigothic)، صیہونی اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ ہم یہاں پر اسی طرز تعمیر کی زندہ مثال جامع مسجد قرطبہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ اس مسجد کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور مسیحی طرز تعمیر کے پہلو بہ پہلو ایک نئے امتزاج کے ساتھ ملتا ہے۔

مسجد قر طبہ میں سیاحوُ

ں کا ایک اژ دھام تھا - داخلی دروازے کے  اندر دیواروں پر  قدیم عمارت کے شہتیر آویزاں تھے  جن پر بہترین کندہ کاری نمایاں تھی  ۔ انہی خطوط پر عمارت کی تزئین نو جاری رہتی ہے ۔

میرے جذبات کا مد وجذر معراج پر تھا ۔ اقوام کے عروج و زوال کے باب اور خاصکر امت مسلمہ کے زوال کے اسباب سے دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

مسجد  کی تعمیر اور قطار در قطار محراب فن تعمیر کا نادر نمونہ  ہیں ۔ علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ میں نماز کی ادائیگی ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ میں  قبلہ رو ہوکر ایک ستون کے ہمراہ ٹیک لگا کر کھڑی ہوئی  اور کھڑے کھڑے اشارے سے دو رکعت نوافل ادا کئے ۔ میرا رب  ہر حال سے واقف ہے ۔ 


اندلس  کی گلیوں میں 

،اللہ تعالٰی نے اس خطے کی سیر کروائی بچپن میں نسیم حجازی کے ناولوں  شاہین ، یوسف بن تاشفین ،داستان مجاہد میں  اندلس کی کہانیاں اور  داستانیں پڑھی تھیں اور اس خطے میں آنا ایک دیرینہ خواہش تھی  جو الحمد للّٰہ  پوری ہوئی ۔ تصویروں کی زبانی آپ  لوگ اس کہانی سیر وتفریح اور سیاحت میں میرے ساتھ شامل ہوں 

اگلے روز ہم اشبیلیہ Seville کی جانب روانہ ہوئےوہاں پر اندلس کے اسلامی دور کی تعمیرات میں القصر گئے جسے ہسپانوی زبان میں Alkazar ۔کہتے ہیں ۔ انتہائی نادر تعمیرات تھے۔


محل القصر میں داخل ہوں تو مسلمانوں کے فن تعمیر کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دیدہ زیب اشکال، خوبصورت محرابیں، دیواروں اور چھتوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار، کونے اور فوارے سب قابل دید ہیں۔ یہ محل القصر بنو عباد کے شاہی خاندان نے بنایا تھا۔ یہ خاندان بنو امیہ کی اندلس میں حکمرانی کے خاتمے کے بعد آیا۔ اس خاندان نے اشبیلیہ پر 1023 سے 1091 تک حکمرانی کی۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائی حکمرانوں نے یہ محل مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اپنی رہائش کےلیے استعمال کیا لیکن وہ اس معیار اور بلند فن تعمیر کی سطح تک نہ پہنچ سکے جو مسلم حکمرانوں کا خاصا تھا۔ اسپین کا موجودہ حکمران شآتا ہے تو یہیں قیام کرتااہی خاندان جب دورے پر یہاں  ہے۔































































































Great Mosque of Córdoba ہسپانوی: Mezquita de Córdoba جسے ایک کیتھیڈرل میں تبدیل کر دیا گیا اور اب اسے قرطبہ کی مسجد-کیتھیڈرل (انگریزی: Mosque–Cathedral of Córdoba) ہسپانوی: Mezquita-Catedral de Córdoba)‏) بھی کہا جاتا ہے۔ 


اندلس (عربی: الأندلس) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع مسجد قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کیے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران میں سینکڑوں عمارات مثلاً حمام، محلات، مساجد، مقابر، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھی۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں۔ عرب فاتحین کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے۔ چنانچہ سندھ سے لے کر مراکش تک کی تعمیرات میں عربوں کی یہ خصوصیت واضح طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لیکن اندلس میں انہوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی (Visigothic)، صیہونی اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ ہم یہاں پر اسی طرز تعمیر کی زندہ مثال جامع مسجد قرطبہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ اس مسجد کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور مسیحی طرز تعمیر کے پہلو بہ پہلو ایک نئے امتزاج کے ساتھ ملتا ہے۔

مسجد قر طبہ میں سیاحوُ

ں کا ایک اژ دھام تھا - داخلی دروازے کے  اندر دیواروں پر  قدیم عمارت کے شہتیر آویزاں تھے  جن پر بہترین کندہ کاری نمایاں تھی  ۔ انہی خطوط پر عمارت کی تزئین نو جاری رہتی ہے ۔

میرے جذبات کا مد وجذر معراج پر تھا ۔ اقوام کے عروج و زوال کے باب اور خاصکر امت مسلمہ کے زوال کے اسباب سے دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

مسجد  کی تعمیر اور قطار در قطار محراب فن تعمیر کا نادر نمونہ  ہیں ۔ علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ میں نماز کی ادائیگی ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ میں  قبلہ رو ہوکر ایک ستون کے ہمراہ ٹیک لگا کر کھڑی ہوئی  اور کھڑے کھڑے اشارے سے دو رکعت نوافل ادا کئے ۔ میرا رب  ہر حال سے واقف ہے ۔ 


اندلس  کی گلیوں میں 

،اللہ تعالٰی نے اس خطے کی سیر کروائی بچپن میں نسیم حجازی کے ناولوں  شاہین ، یوسف بن تاشفین ،داستان مجاہد میں  اندلس کی کہانیاں اور  داستانیں پڑھی تھیں اور اس خطے میں آنا ایک دیرینہ خواہش تھی  جو الحمد للّٰہ  پوری ہوئی ۔ تصویروں کی زبانی آپ  لوگ اس کہانی سیر وتفریح اور سیاحت میں میرے ساتھ شامل ہوں 

اگلے روز ہم اشبیلیہ Seville کی جانب روانہ ہوئےوہاں پر اندلس کے اسلامی دور کی تعمیرات میں القصر گئے جسے ہسپانوی زبان میں Alkazar ۔کہتے ہیں ۔ انتہائی نادر تعمیرات تھے۔


محل القصر میں داخل ہوں تو مسلمانوں کے فن تعمیر کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دیدہ زیب اشکال، خوبصورت محرابیں، دیواروں اور چھتوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار، کونے اور فوارے سب قابل دید ہیں۔ یہ محل القصر بنو عباد کے شاہی خاندان نے بنایا تھا۔ یہ خاندان بنو امیہ کی اندلس میں حکمرانی کے خاتمے کے بعد آیا۔ اس خاندان نے اشبیلیہ پر 1023 سے 1091 تک حکمرانی کی۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائی حکمرانوں نے یہ محل مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اپنی رہائش کےلیے استعمال کیا لیکن وہ اس معیار اور بلند فن تعمیر کی سطح تک نہ پہنچ سکے جو مسلم حکمرانوں کا خاصا تھا۔ اسپین کا موجودہ حکمران شآتا ہے تو یہیں قیام کرتااہی خاندان جب دورے پر یہاں  ہے۔

Trip to Spain and Morocco !

From Granada to Malaga and by Ryan air to Fes Madina Morroco.


As initial plan we were supposed to leave in a Ferry through Malaga to Gibraltar and then Tangier.

However this program was changed because of some restrictions on Ferry service. We all had a PCR test of Covid a day earlier. Then it was decided that we’re going by air to Fes not Tangier. It’d have been desirable to visit the birthplace of Ibn I Batuta.

It was almost 3 hours drive from Granada to Malaga airport. Stopped on the way for Lunch and washroom.

The driver was in a rush to drop us at the airport.Therefore We didn’t go around in Malaga. Arrived quite a bit early and waited for checking in.

Going in the plane through stairs was quite challenging and disorganised. I went through back stairs to reach my seat in front which was impossible!

Any way after arrival at Fes, cleared all the formalities, we were received warmly and embarked into our small coaster bus .

Neighbouring Spain, Morocco looked a humble country. As our bus stopped in front of a fabulous hotel we all were excited. How ever this was not the case, we have to walk up and down in narrow winding streets , pitch dark at some places. It seemed like we’re inside a walled city. Our guide saleem and another boy was very helpful to me. Two man pulled carts were there to pull our luggage.

We’re almost a century behind inside these old streets! Finally the light came at the end of dark tunnel and we arrived at a 17th century mansion turned into hotel “ Dar Bin Sauda”. We were greeted warmly with Moroccon hospitality of mint tea and buiscuits. 

This place looked like a historic museum not a modern hotel. We were told that western visitors die for such places! 

The climax was when my room was allotted on 2nd or 3rd floor. There were no railings and had to climb holding walls. The room was warm and comfortable. However for the bathroom I have to climb 10 more stairs. Spend the night some how,in the morning asked them to give me another room with attached bathroom because we were staying there for another night!

Next morning we started exploring Fes with two guides. Street by street in walled old city. Moroccans are good artisans and all the handicrafts were made by them. Didn’t find anything “ Made in China “.

Here are the details in pictures!