Wednesday, June 28, 2017

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مولانا مودودی خادمِ اسلام یا انتہا پسند؟​

وسعت اللہ خان

انیس سو اناسی میں جب کنگ فیصل فاؤنڈیشن نے سائنس، مذہب، فلسفے اور خدمات کے شعبوں میں اسلامی دنیا کے نوبیل پرائز کنگ فیصل ایوارڈ کا اجرا کیا تو خدمتِ اسلام کے شعبے میں پہلا فیصل ایوارڈ ( چوبیس قیراط دو سو گرام کا طلائی تمغہ مع دو لاکھ ڈالر ) مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو دیا گیا۔اگر آپ کنگ فیصل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کھولیں تو آج بھی مولانا مودودی کا تعارف کچھ یوں ہے ۔

’وہ معروف مذہبی سکالر اور مبلغِ اسلام تھے۔ان کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے موثر اسلامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی اور نظریات کو دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔وہ ایک وسیع العلم شخصیت تھے جن کی تحریروں نے عالمِ اسلام میں اسلامی اقدار اور روحِ اسلام کو اجاگر کیا۔ انھیں کنگ فیصل ایوارڈ اسلامی صحافت کے فروغ اور برصغیر میں اسلامی نظریات کے احیا کے اعتراف میں عطا کیا گیا۔‘

مولانا مودودی کے بعد خدمت ِ اسلام کے شعبے میں کنگ فیصل ایوارڈ شاہ خالد اور پھر شاہ فہد بن عبدالعزیز کو بھی دیا گیا اور یہی ایوارڈ مولانا مودودی کو ملنے کے گیارہ برس بعد (1990) ان کے شاگرد پروفیسر خورشید احمد کو بھی عطا ہوا۔

اور پھر دو دسمبر 2015 کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا، سئید محمد قطب، قطر کے عالم یوسف القرادوی اور مولانا مودودی کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

تمام سعودی سکولوں، لائبریریوں اور ریسورس سینٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ دو ہفتے کے اندر ان مصنفین کی کتابیں وزراتِ تعلیم میں جمع کرا دیں ورنہ تادیبی کاروائی ہوگی۔ نیز خبردار کیا گیا کہ آئندہ کوئی سکول، لائبریری اور ریسورس سینٹر سوائے وزارتِ تعلیم کسی اور سے کتابوں کا عطیہ یا تحائف قبول نہ کرے۔

گو ان تصنیفات کو ممنوع قرار دینے کی سرکاری وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ وزارتِ تعلیم کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ سعودی عرب میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ابھارنے والے لٹریچر کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔

مولانا مودودی کی جن 20 کتابوں اور کتابچوں کو ممنوع قرار دیا گیا ان میں پردہ، اسلام اور جاہلیت، تفسیر سورہِ نور، شہادتِ حق، اسلامی دستور کی تدوین، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، مبادیِ اسلام، معاشیاتِ اسلام، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اور قرآن فہمی کے بنیادی اصول نامی کتابیں بھی شامل ہے۔
جولائی 2010 میں بنگلہ دیش میں مولانا ابو اعلیٰ مودودی کی تمام کتابیں ملکی مساجد کی لائبریریوں سے ہٹا دی گئیں​

سعودی عرب سے پہلے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت نے جولائی 2010 میں مولانا مودودی کی تفسیر القران سمیت تمام تصنیفات کو بلیک لسٹ قرار دے کر ملک کی 27 ہزار مکتب لائبریریوں سے اٹھانے کا حکم دیا۔ ان لائبریریوں کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے۔

چلیے بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے بارے میں تو طے ہے کہ اس نے ہمیشہ جماعتِ اسلامی اور اس کے بانی کو نظریاتی دشمن سمجھا اور ان سے اسی طرح نپٹا بھی۔ لیکن سعودی عرب تو ایسا نہ تھا۔

جس زمانے میں جمال ناصر کی عرب قوم پرستی ہر جانب چھا رہی تھی اس دور میں سعودی اسٹیبشلمنٹ اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتی تھی۔ جب افغانستان میں روسی فوج اتری تو سعودی عرب، پاکستانی اسٹیبشلمنٹ اور جماعتِ اسلامی یک جان دو قالب تھے۔

مگر یہ دن بھی آ گیا کہ سعودی عرب نے گذشتہ برس ( مارچ 2014 ) اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اب اخوانی مصنفین کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی تصانیف بھی سعودی مملکت کے لیے نظریاتی خطرہ ٹھہریں۔ لیکن حسن البنا، سئید قطب اور یوسف القرداوی کے برعکس مولانا کو تو اعلیٰ ترین علمی ایوارڈ عطا ہوا تھا۔ تو پھر یہ کیا ہوا؟

دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جس غیر معمولی اسلامی سکالر کو غیر معمولی خدمتِ اسلام پر 36 برس پہلے کنگ فیصل ایوارڈ ملا ۔اسی سکالر کی وہی تحریریں ممنوع ہونے کے بعد کنگ فیصل ایوارڈ بھی واپس لیا جاتا ہے کہ نہیں۔

یا تو وہ کور چشم فیصلہ تھا یا پھر تازہ فیصلہ غلط ہے۔ مگر وہ بادشاہ ہی کیا جس کا کوئی فیصلہ کبھی غلط ہو ۔اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کی اگاڑی سے بھی بچو اور پچھاڑی سے بھی۔

اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات ہے

میں آسمان پر تھا ، ستارہ زمین پر

Friday, June 16, 2017

منشیات کا کاروبار

Fwd as received
دنیا میں سب سے بڑا کاروبار تیل کا ھے اور جو لوگ تیل کو کنٹرول کرتے ہیں وہ دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
دنیا میں دوسرا سب سے بڑا کاروبار اسلحے کا ھے۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کی کل آمدن کا پچاس فیصد اسلحے کی فروخت سے حاصل ھوتا ھے اس لیے یہ بات اس کے مفاد میں ھے کہ دنیا میں مسلسل جنگیں جاری رہیں-
لیکن بہت کم لوگ جانتے ہونگے کہ دنیا میں تیسرا سب سے بڑا کاروبار ڈرگز (Drugs) کا ھے۔ لوگ اسکے متعلق بہت زیادہ اسلئے نہیں جانتے کہ یہ غیر قانونی طور پر ھوتا ھے اور اسکی ڈاکومینٹیشن نہیں کی جاتی-
امریکن سی آئی اے (CIA) دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ھے جسکے آپریشنز دنیا بھر میں جاری رھتے ہیں جن پر بے پناہ اخراجات آتے ہیں۔ یہ اخرجات اس بجٹ سے کئی گنا زیادہ ھوتے ہیں جو اس کے لیئے منظور کیا جاتا ھے۔
"یاد رکھئے کہ امریکی سی آئی اے (CIA) اپنے ٪90 اخراجات ڈرگز کے کاروبار سے پوری کرتی ھے ۔"
دنیا میں دو خطے ایسے ہیں جہاں سب سے زیادہ ڈرگز پیدا ھوتی ہیں۔ ایک چین کے قریب میانمار اور تھائی لینڈ وغیرہ کا علاقہ ھے جس کو گولڈن ٹرائی اینگل کہا جاتا ھے اور کسی دور میں دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا خطہ تھا۔
دوسرا خطہ جس کو آجکل گولڈن کریسنٹ کہا جاتا ھے وہ افغانستان کا علاقہ ھے جہاں دنیا کی تقریباً ٪90 سے زیادہ افیون اور ھیروئین پیدا کی جاتی ھے۔ ان میں سے اکثر ان علاقوں میں پیدا کی جاتی ھے جہاں امریکنز کا کنٹرول ھے اور امریکن آرمی کے لوگ کھلے عام یہ کہتے ھوئے پائے جاتے ھیں کہ ہم افیون کی کاشت کو محفوظ بنانے آئے ہیں ۔
طالبان نے جب افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو ملا عمر نے جولائی سنہ 2000ء میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی لگا دی تھی اور دنیا بھر میں پہلی بار افیون یا ہیروئن کی شدید قلت پیدا ھو گئی تھی ۔
امریکن حملے کے بعد افغانستان میں افیون کی کاشت میں ریکارڈ اضافہ ھوا اور کہا جاتا ھے کہ اس عرصے میں سی آئی اے (CIA) نے اتنے کمائے کہ جب امریکہ میں بینک دیوالیہ ھونے لگے تھے تو سی آئی اے نے ڈرگز کے ذریعے کمائے گئے پیسوں سے ان بینکوں کو سہارا دیا۔
بہت کم لوگوں کو پتہ ھوگا کہ نیٹو کے کنٹینرز میں ٹنوں کے حساب سے ایسیٹک این ھائڈرائیڈ نامی کیمیکل افغآنستان جاتا ھے اور آج تک کسی نے یہ سوال کرنے کی جراءت نہیں کی کہ آخر اس کیمیکل کو افغانستان میں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔ ایسیٹک این ھائیڈرائڈ وہ کیمیکل ھے جو افیوں کو ہیروئین بناتا ھے۔
کہا جاتا ھے کہ سی آئی اے (CIA) نے کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے اپنا فرنٹ مین بنا رکھا ھے۔ حامد کرزئی کے بھائی ولی کرزئی ان میں سے ایک ہے جنکے بارے میں اندازہ ھے کہ اگر غیر قانونی دولت کی کوئی رینکنگ ھو تو شائد وہ دنیا کے امیر ترین شخص ہو۔
امریکہ کے افغانستان پر حملے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہیروئین کے اس کاروبار کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنا تھا جس پر سی آئی اے (CIA) چلتی ھے۔
حیران کن بات یہ ھے کہ اس ہیروئین کی سب سے زیادہ کھپت یورپ اور امریکہ میں ھی ھوتی ھے۔ چونکہ سی آئی اے (CIA) کو کنٹرول کرنے والے امریکن عیسائی نہیں بلکہ وہ یہودی ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ھے اسلئے انکو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس ہیروئین سے مرنے والے کون ہیں، عیسائی یا مسلمان۔

Thursday, June 15, 2017

ادبی لطیفے

*ادبی لطیفے*

‏ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﮯ ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺗﮭﮯ۔ﮐﺌﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﯽ ﻏﯿﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
ﮐﯿﺎ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ،ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮨﻮﺍ۔ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮔﺮﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮﯼ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ۔ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺳﻨﮕﺴﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔

‏ﮐﺴﯽ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﻮ ﻣﺸﻖ ﺷﺎﻋﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﯿﺮ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﮐﻼﻡ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﮐﺜﺮ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﺁﺩﺍﺏِ ﻣﺤﻔﻞ ﮐﻮ ﻣﻠﺤﻮﻅ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﻮﺭﮮ ﺟﻮﺵ ﻭ ﺧﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﺼﺮﻋﮯ ﭘﺮ ﺩﺍﺩﻭ ﺗﺤﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﯿﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﮔﻮﭘﯽ ﻧﺎﺗﮫ ﺍﻣﻦ ﻧﮯ ﭨﻮﮐﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﻗﺒﻠﮧ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﺍﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔

ﭘﻨﺠﺎﺏ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﮯ ﺭﺟﺴﭩﺮﺍﺭ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺳﻨﮕﮭﺎ ﮐﮯ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﺣﺼﮧ “ ﺳﻨﮕﮭﺎ ” ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﺎﺭﮨﻮﺍﮞ ﻟﮍﮐﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺷﻮﮐﺖ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﮐﮭﻮﮞ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﻮﮐﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﮐﮩﺎ : ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﻨﮕﮭﺎ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺠﯿﮯ۔

ﺍﯾﮏ ﻧﺎﺷﺮ ﻧﮯ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﮔﺎﮨﮏ ﺳﮯ ﺷﻮﮐﺖ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ : ﺁﭖ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﻧﺎﻭﻝ ﺧﺮﯾﺪ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﯾﮩﯽ ﺫﺍﺕ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺷﻮﮐﺖ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮐﮩﺎ :
ﺟﻨﺎﺏ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﺷﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﮨﯿﮟ،ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ۔

ﮐﺮﻧﻞ ﻣﺠﯿﺪ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﻄﺮﺱ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﭼﮭﭙﻮﺍﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﯿﮟ۔
ﭘﻄﺮﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﭼﮭﭙﻮﺍﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﻼﻡ ﻣﺠﯿﺪ ﺭﮐﮭﯿﮟ۔

‏ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﺎﺯ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﺨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﺗﺮﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻣﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﻧﮕﺎ ﮔﺰﺭﺍ۔ ﻣﺠﺎﺯ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ،ﺗﺎﻧﮕﮧ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺠﺎﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ : ﺍﻣﺎﮞ ، ﺻﺪﺭ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ؟ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ”: ﮨﺎﮞ ، ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ “
” ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﺎﺅ “!----- ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺠﺎﺯ ﻟﮍﮬﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﮯ۔

‏ﻣﺠﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﺎﻓﯽ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﺎ ﻟﮩﺠﮧ ﺑﺪﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
” ﻣﺠﺎﺯ ! ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺒﺎﺏ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ؟ “
” ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﺁﻧﺎ ﺟﻮ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ “
ﻣﺠﺎﺯ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔

‏ﻣﺠﺎﺯ ﺗﻨﮩﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﺎﺅﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ ،ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﮯ۔ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﺎ ﺁﺭﮈﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻦ ﺳُﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮔﻨﮕﻨﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ :
ﺍﺣﻤﻘﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻏﺎﻟﺐ - ﺍﯾﮏ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ، ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺠﺎﺯ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ :
” ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﻮﺑﺖ ﮨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺣﻀﺮﺕ ! ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ “

‏ﮐﺴﯽ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﺎﺯ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺰﻝ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺤﻔﻞ ﭘﻮﺭﮮ ﺭﻧﮓ ﭘﺮ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﻌﯿﻦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻼﻡ ﺳﻦ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﯿﺮ ﺧﻮﺍﺭ ﺑﭽﮧ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﻣﺠﺎﺯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺰﻝ ﮐﺎ ﺷﻌﺮ ﺍﺩﮬﻮﺭﺍ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺑﮭﺌﯽ !
ﻧﻘﺶ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺷﻮﺧﯽِ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺎ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ﮐﺴﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﺠﺎﺯ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
ﮐﯿﻮﮞ ﺻﺎﺣﺐ ! ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭِﻧﺪﺍﻧﮧ ﺑﮯ ﺍﻋﺘﺪﺍﻟﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ؟
ﻣﺠﺎﺯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺟﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﻮﮞ؟ ﻣﺠﺎﺯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
” ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﻣﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﻣﻨﺪ ﮨﯿﮟ۔

ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻝ ﭘﮍﮬﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﺮﺍﻕ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺣﺴﯿﻦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻏﺰﻝ ﮔﻮ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﺪ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺮﺟﺴﺘﮧ ﺑﻮﻟﮯ : ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺍﻕ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺏ ﮔﺌﯽ،ﺟﻮ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔

‏ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ۱۹۴۴ ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺟﻮﺵ ﻣﻠﯿﺢ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﮯ۔ﺍﺩﺑﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﺋﺲ ﭘﺮ ﺟﻮﺵ ﻋﻼﻭﮦ ﻓﺮﺍﻕ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ۔ﺟﻮﺵ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﻮﯾﻞ ﻧﻈﻢ ﺣﺮﻑِ ﺁﺧﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ ﭘﮍﮬﺎ۔ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﻠﯿﻖِ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﮐﭽﮫ ﺷﻌﺮ ﮨﯿﮟ۔ﺟﻮﺵ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮐﭽﮫ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻓﺮﺍﻕ ﻧﮯ ﺳﺎﻣﻌﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ﺳﻨﯿﮯ ﺣﻀﺮﺍﺕ، ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮﺵ ﮐﻮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔

‏ﻓﺮﺍﻕ ﮔﻮﺭﮐﮭﭙﻮﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
ﺑﺤﯿﺜﯿﺖ ﺷﺎﻋﺮ ﺁﭖ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺵ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ؟
ﻓﺮﺍﻕ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﻭﺣﺸﺖ ﻧﺎﮎ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﭩﮑﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ : ﺟﻮﺵ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻮﮨﺮ ﺭﺍﻡ ﭘﻮﺭ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺳﯿﺘﺎ ﭘﻮﺭ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺷﻮﮔﺮ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺾ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺑﻮﻟﮯ :
ﺑﮭﺌﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ؟ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ؟
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﯿﺘﺎ ﭘﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺋﮯ ؟
ﺗﻮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺑﻮﻟﮯ :
ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﻡ ﭘﻮﺭ ﮐﺎ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ۔ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺳﯿﺘﺎ ﭘﻮﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﮨﻮﺍ۔

‏ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻮﮨﺮ، ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺫﻭﺍﻟﻔﻘﺎﺭ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﮞ ﮔﻮﮨﺮ، ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮐﺖ ﻋﻠﯽ ﺗﯿﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﮯ۔
ﺷﻮﮐﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﻨﺠﮭﻠﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ۵۲۔۵۴ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻃﺎﻟﻮﯼ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ۔
ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻧﻮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺷﻮﮐﺖ ﻋﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮔﻮﮨﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﻮﮨﺮ،ﺁﭖ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﺨﻠﺺ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺑﻮﻟﮯ : ﺷﻮﮨﺮ۔

ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﭽﭙﻦ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﺬﻟﮧ ﺳﻨﺞ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﺥ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ﻣﺎﺳﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺗﻢ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﻮ؟
ﺍﻗﺒﺎﻝ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﺟﯽ ﮨﺎﮞ، ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ آتا ہے

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺟﺐ ﻣﺎﮦِ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮔﺰﺭ ﭼﮑﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ : ﻣﺮﺯﺍ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺭﻭﺯﮮ ﺭﮐﮭﮯ؟ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﭘﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﺷﺪ ، ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ۔

‏ﺟﺐ ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﺎﻟﮯ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻣﯿﺎﮞ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁ ﮐﺮ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺒﺎﺭﮐﺒﺎﺩ ﺩﯼ۔ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﮐﻮﻥ کمبخت ﻗﯿﺪ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﮔﻮﺭﮮ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﮐﺎﻟﮯ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔

‏ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺩﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﯾﺎ ﺩﻋﻮﺕ ﺳﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻓﯿﺾ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻓﯿﺾ ﺳﮩﺎﺭﻧﭙﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﻨﮓ ﻭ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺁﮔﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﺪﮬﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ :
ﻣﺮﺯﺍ ﺻﺎﺣﺐ ! ﺩﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺪﮬﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻧﮩﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ، ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺁ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﮭﯿﻨﭗ ﮐﺮ ﭼﭗ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ۔

ﺟﺮﺍﺕ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺗﮭﮯ۔ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻓﮑﺮِ ﺳﺨﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺁ ﮔﺌﮯ۔ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﺲ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ؟
ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﺼﺮﻉ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺷﻌﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔
ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ : ﮐﭽﮫ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽپتا
ﭼﻠﮯ۔
ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻧﮩﯿﮟ۔ﺗﻢ ﮔﺮﮦ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﻣﺼﺮﻉ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﻮ ﮔﮯ۔ﺁﺧﺮ ﺑﮍﮮ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ۔ﻣﺼﺮﻉ ﺗﮭﺎ :
ﺍﺱ ﺯﻟﻒ ﭘﮧ ﭘﮭﺒﺘﯽ ﺷﺐِ ﺩﯾﺠﻮﺭ ﮐﯽ ﺳﻮﺟﮭﯽ
ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮔﺮﮦ ﻟﮕﺎﺋﯽ :
ﺍﻧﺪﮬﮯ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺳﻮﺟﮭﯽ

Wednesday, June 14, 2017

تین حقائق

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا‘ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“
وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“ وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“ وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا ”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“۔
وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے‘ وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘
وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘
وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“
وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا ”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“
فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘
جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“
وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ”اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘
سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی‘ وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا‘میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘
اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے‘ ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے‘ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے‘ ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ‘ مجھے یقین ہے ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہو جائیں گے۔