Monday, June 13, 2016

An encounter with child beggars!


An encounter with the child beggars!

Today while walking in a nearby park, came across a bitterly crying small girl of Afghan origin. We went towards her and asked her if some thing went wrong with her. She was barely 6,7 years old a beautiful young lady holding a wiper and duster in her hand. I first talked to her in Pushtu but she told me that she is better in Urdu, therefore we conversed in Urdu. She told that her brother and sister are taken away by police to the police station and that is the reason of her crying . She pointed to a nearby police station across the road and further told us that her father has died and the mother is under debt, therefore they are working or begging to help her out. She told us that the mother is studying Quran at home and they live in Golra.(Golra is a nearby slums)
The girl was wearing nice clothes but quite a bit dusty and dirty. We decided to help her as we approached the road she pointed to the oncoming police truck," this is it, my brother and sister are inside this truck. We signalled the truck to stop. It was full with small kids like them and a whole team of police was sitting with them and on the front seat in plain clothes. One of the gentleman came down and told us that they are from  Police working with Child protection and welfare bureau, CPWB  . These kids run after cars on busy thoroughfares and any of them can come under the wheels and any bad accidents can happen. No one under 14 is  allowed on road to beg or work.( Why the over 14 then?) We take  these kids  into custody and hand them over to Child protection agency , who sends them to schools.The small ones go to Edhi centre from there they are handed over to their parents with an affidavit that they would not beg again.
A boy screamed from the truck , they do not follow it and come again. " What about you I asked?"
We asked the girl if she wishes to join them on truck because the gentleman told us that we are doing this exercises for their protection and to make them better citizens. She insisted that she wants her siblings back . On our assurance three kids came down from the truck , one boy two girls. To my utter amazement  small girl may be 3 and the boy a year older,tiny small lovely kids.The other girl may be 8 years old. The boy told us that he had Rs.500 earnings which he handed over to police . The other girl had Rs100 .They promised us not to beg and went to towards their home.
Such a weired feeling  about their mother , how she left these tiny small  kids on the streets to beg and run after cars and how  are we promoting these beggars by giving our alms, charity  and donations.How could we help these kids to be  useful  and productive citizenz of Pakistan?
Are we the counter parts to help these emotional black mailers? There are so many unanswered questions...

Abida Rahmani
 Islamabad Pakistan
Sent from my iPad

رمضان کا چاند

رمضان کا چاند تو دیکھا نہیں

از

عابدہ رحمانی


مغرب کے وقت بے خبر برآمدے میں بیٹھے رہے پھر مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد واٹس ایپ پر تاکاجا نکی کی تو جابجا چاند دیکھنے کی تصاویر ،مبارکبادیں اور خبریں ۔ وقت گزر چکا تھا پھر بھی باہر دوڑ لگائی ، گویا کہ پہلی کا چاند  اب بھی ہمارا ہی منتظر ہوگا۔۔ اب حبیب جالب تو ہیں نہیں کہ کہیں ،

" اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔بے نام سے سپنے دیکھا کر۔

ہمارے خیال کے مطابق رویت ہلال کمیٹی اپنی دکان سجاتی ، چاند دیکھنے یا نہ دیکھنے کی خبریں موصول ہوتیں  اور پھر فیصلہ ہوتا کہ کل روزہ ہوگا یا نہیں ۔۔

 لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس مرتبہ باآسانی رمضان کا چاند بہتوں کو دکھائی دیا ، مدتوں بعد اہل پاکستان نے ساتھ روزہ رکھا اور اسی طرح دنیا کے دیگر خطوں میں بھی ہوا ۔۔ پاکستان میں مولانا پوپل زئی اور مفتی منیب کا معرکہ اپنی موت آپ مرگیا۔ اب اللہ کرے کہ اسی طرح عید کے چاند کی بھی جلوہ أرائی ہو جائے۔۔ اور یک جہتی کی ایک مثال قایم ہو۔

 ہاں چاند تو دیکھا نہیں پر پہلا روزہ رکھ کر دن میں تارے نظر آرہے تھے۔۔ گرمی کی شدت اور پھر چاہنے والوں کے فون پر فون ، رمضان کی مبارکباد اور طویل گپ شپ ۔۔ واٹس ایپ کی مفت سہولت اگر وائی فائی موجود ہو اور آواز صاف ہو تو کیا کہنے ۔۔اور کال دوسری جانب سے آرہی ہو تو اس شخص کی دل شکنی کرنیکا کیا فائدہ جسنے اتنی چاہت سے رمضان مبارک کا فون کیا ہو۔۔"بس  خدا کیلئے کسی تیسرے شخص کی بات نہ کرو چاہے اسنے آپکو کتنا ہی کیوں نہ ستایا اور دل دکھایا ہو ۔۔میری جان اپنا اور میرا روزہ پرائی غیبت سے آلودہ نہ کرو ساری محنت اکارت جائیگی اور اجر وہ کمبخت مفت میں لے جائے گا" لیکن یہ تاکید  مجھے بات ختم کرنیکے  بعد ہی یاد آئی اور میں مارے مروت کے بے مقصد سب سنتی رہی اور ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔ وہ رحمان و رحیم میری مغفرت فرمادے ۔۔ استغفار کرتی رہی ۔۔بندہ بشر ہوں بھول چوک ہوسکتی ہے۔۔ زبان سوکھ کر کانٹا ہوا چاہتی تھی ۔۔ذہن میں آیا جاکر غٹا غٹ تین گلاس ٹھنڈا پانی پی لوں ۔۔ قدم اٹھایا ہی تھا کہ یاد آیا میرا روزہ ہے ۔۔ بھول چوک ہو جاتی تو اللہ کی مہربانی اور رحم ہوتا ۔۔ یہی تو اس عبادت کی خاصیت ہے بندے اور أقا کا ایسا تعلق کہ وہی  اپنے بندےکے ظاہر    و باطن سے  باخبر ہے  اسلئے اسنے  اس عبادت کو اپنے لئے مخصوص ہی کر لیا۔۔

شروع شروع کے روزوں میں اسی طرح اکثر ہوجاتا ہے ،مہینے کے اختتام پر عید کے بعد بھی ایسی عادت ہوگئی ہوتی ہے کہ کچھ کھاتے پیتے ہوئے ایک لمحہ سوچنا پڑتا ہے  کہ کیں روزہ تو نہیں ہے ۔۔ایک مرتبہ تو تقریباً پورا کھانا کھانے بعد یاد آیا کہ روزہ ہے ۔۔یہ مضمون شروع کیا ہی تھا اور آج ساتواں روزہ بھی آن پہنچا اتنی تیزی سے ، میں تو پانچواں سمجھ رہی تھی۔۔اللہ کی شان کہ ادھر گرمی بڑھی اور ادھر دھؤواں دھار بارش ہوگئی جس سے موسم خوشگوار ہوگیا ۔۔

سوچا تھا اس مرتبہ رمضان میں تلی ہوئی چیزیں نہیں کھائینگے ۔کھجور ، پھل اور شربت لیکن بھلا کیسے صبر ہو ۔۔پکوڑے ، سموسے تو جیسے لوازم ہو گئے۔۔وہ بھی وقت تھا جب بچے کہتے تھے "کھانا تو سال بھر کھاتے ہی ہیں ۔۔یہی ایک مہینہ ان چٹخاروں کا ہے ۔ اور وہ اسی کو روزے کا نام دیتے تھے اور شاید اسی بہانے روزہ بھی رکھ لیتے تھے ۔۔

پاکستان میں ابھی رمضان أیا ہی چاہتا ہے  کہ گرانی ساتھ أجاتی ہے ۔ اشیا ئے خورد و نوش کی قیمتیں أسمان پر أ جاتی ہیں۔۔ یہ أج کی بات نہیں ہے بلکہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ہر رمضان یہی رونا ہوتا ہے ۔۔لیکن ہر ایک اپنی بساط بھرخوراک  پر خرچ کرتا ہے ۔  دن کے وقت بازاروں میں عید کی خریداری کا ہجوم اور شام کو افطار سے ایک دو گھنٹے پہلے مشہور  مٹھائی اور پکوان والے اپنے تلنے کے سٹال سجا لیتے ہیں جہاں اسقدر ہجوم ہوتا ہے  ۔لمبی لمبی قطاریں ، جیسے کہ سب کچھ مفت بٹ رہاہے ۔۔ قسما قسم کے پکوڑے ، سموسے ، جلیبیاں ، چاٹ ، دہی بڑے اور نہ جانے کیا کیا  اشیاء لذت کام و دہن کیلئے ۔ ہر شخص کے ہاتھ میں اشیائےخورد  و  نوش کا ایک تھیلا  اسکی بساط کے مطابق ضرور ہوگا ۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہر ایک  اپنی خواہش  کے مطابق اچھا کھانا چاہتا ہے ایسا دنیا کے تمام مذاہب میں ہے کہ وہ اپنے خصوصی دنوں میں اہتمام کرتے ہیں اور مسلمانوں کا رمضان تو رمضان ہی ہے ۔۔پاکستان میں خربوزے اور تر بوز کے ماشاء اللہ ڈھیر لگے ہوئے ہیں اب تو أموں کی بہار بھی شروع ہوگئی ہے مہنگا کرنیکے  باوجود خوب بک رہے ہیں رمضان کے اختتام تک قیمتیں خود بخود گر جائینگی ۔ ایک مرتبہ کراچی میں ایسے ہی موسم کے رمضان میں تربوز کی قیمت دگنی تگنی ہوگئی اور أخر میں خوب بارشیں ہوئیں ۔ٹرکوں نے جو ڈھیر لگایا تو سڑے ہوئے تربوز کے تعفن میں سانس لینا مشکل ہو گیا۔

سخی اور صاحب دل  خواتین و حضرات اور اداریں رمضان راشن  اور افطاریاں دل کھول کر تقسیم کر رہے ہیں۔۔رمضان جو کہ نیکیوں کا موسم بہار کہلاتا ہے ۔جب فرض کا اجر ستر گنا  اور نفل کا فرض کے برابر ہو جاتا ہے  اسی عالم ا لغیب  پر ہمارا ایمان ہے  اور ہماری تمام تگ و دو اسی عالم الأخرت کی کامیابی کے  لئے ہے ۔۔ جسکے لئے اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ وہ سب سے بڑی کامیابی ہے  جسکی تمنا کی جاسکتی ہے ۔۔


أپ سبھوں کو جاتے ہوئے رمضان کی دلی مبارکباد ۔۔ اپنی دعاؤں میں مجھ عاجز  اور بالخصوص  متفرق و منتشر ، لہو لہو امت مسلمہ  کو ضرور یاد رکھیں۔۔

Wednesday, June 8, 2016

Ramzan ration distribution?

ASOA
Please find Link of Ramzan Ration Activity Report for kind information.

http://www.sapulse.com/new_comments.php?id=13761_0_1_0_M1

Best regards,
Rana Abdul Baqi,
Chairman,
Jinnah Iqbal South Asian Pulse Forum 

Ramzan Ration distribution by Rana Abdul Baqi sahib and his devoted team.
Abida Rahmani had the honor of participation in this exclusive ceremony.

Thursday, June 2, 2016

امریکی سیاسی دنگل






Subject: امریکی سیاسی دنگل




امریکی سیاسی دنگل 

از 

عابدہ رحمانی 


میرے شہر میں بہار کا موسم ہے باہر نکلو تو فضا میں ایک بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ہر طرف پرندوں کی چہچہا ہٹ ہے کچھ اپنے گھونسلوں کے لئے ٹھکا نے ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ہمنگ برڈ۔ بالکل منا سا پرندہ جو اردو میں پدی کہلاتا ہے جا بجا درختوں اور پھولوں سے جھول رہا


ہے اسکا منا سا گھونسلا بھی ایک شاہکار ہوتا ہے ۔


۔ جو شاخ نازک پہ آشیانہ ..بنے گا نا پائدارہوگا ۔


اس مختصر سے پرندے کے لئے اردو میں یہ محاورہ بھی مشہور ہے "کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ "۔ لیکن یہ اس حقیقت سے بے خبر اسی چھوٹے سے أشیانے میں خوش و خرم ہے ۔ یہ امریکہ کا وہ خطہ ہے جہاں کی سردیاں مختصر اور گرمیاں ہولنا ک ہوتی ہیں ۔۔

لیکن امریکہ میں اسوقت صدارتی امیدواروں کو چننے کا موسم ہے اور اس موسم نے پورے ملک ، ٹھنڈے ، گرم سب شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے پورے ملک میں بوڑھا، جوان ، بچہ سب ہی اس انتخابی مہم میں غلطاں و پیچاں ہے ۔وہ بھی جو ابھی قانوناووٹ دینے کے حقدار نہیں ہیں ۔ میڈیا کے ہر چینل سے امیدواروں کے بحث مبا حثے کا انتظام ہے ۔۔ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے تو امیداروں کی پوری ایک برات تھی جو اب چھٹتے چھٹتے ایک رہ گئی ہے 

۔۔ مشہورارب پتی تاجر اور ساہوکار ڈونلڈ ٹرمپ  اپنے تمام تر متعصب بیانات کے ساتھ سرفہرست ہے ۔۔۔ 

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اور حقیقتا ہے بھی- ہر چار سال کے بعد یہاں کے صدارتی انتخابات ہوتے ہیں ایک صدرچاہے کتنا ہی مقبول اور قابل کیوں نہ ہو ،دو مرتبہ سے زائد اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتا- سوائے فرینکلن  ڈی روزویلٹ کے جو چار مرتبہ صدارت کے عہدےپر فائز رہے اور انکا انتقال چوتھی مرتبہ کے انتخابات کے چند مہینے کے بعد ہوا۔  ۱۹۵۱ کے دوران امریکی أئین کی ۲۱ ویں ترمیم میں امریکی کانگریس نے یہ قانون منظور کر لیا  کہ اب صدارتی میعاد کا دورانیہ لگاتار دو مرتبہ جیتنے تک محدود ہوگا۔

مخالف پارٹیاں عموما دو بڑی پارٹیاں ہیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ - ریپبلکن جو عام طور پر جی او پی کہلاتی ہے اسکا کا انتخابی نشان ہاتھی ہے جبکہ ڈیموکریٹ کا گدھا ہے -ہاتھی کے مقابلے میں گدھا ایک کمزورسا جانور ہے لیکن باربرداری اور بوجھ ڈھونے کے لئے ہاتھی سے زیادہ مفید اور ہلکا پھلکا  ،  سیدھا سادا سا جانور ہے۔ ہاتھی کی نسبت اسکی ضروریات کافی قلیل ہیں-ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور --بہر حال یہ سب ہمارے دیسی محاورے اور استعارے ہیں جن سے امریکی قطعی نابلد ہیں نہ معلوم امریکیوں کو اپنے انتخابی نشان کے لئے ان ایشیائی، افریقی یا بر صغیری جانوروں کا خیال کیوں آیا؟ کیا امریکی جانوراس قابل نہیں تھے ؟--- اسپر غور کرنا پڑے گا

علاوہ ازیں ریپبلکن کا رنگ سرخ اور ڈیمو کریٹ کا نیلا ہے اسلئے جن ریاستوں میں ڈیموکریٹ اکثریت ہے انکو نیلی اور ریپبلکن اکثریت والی سرخ کہلاتی ہیں۔ووٹر  (رائے دہندگان )بھی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کے لئے پہلے سے رجسٹر شدہ ہوتے ہیں ۔


۔۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے ہیلری کلنٹن میدان میں ہیں برنی سینڈرز ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں لیکن نامزدگی کی امیدیں  دن بدن معدوم ہوتی جا رہی ہیں ۔۔۔۔ کھود کھود کر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔۔ ریپبلکن کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ ہر ایک کی ایسی کی تیسی کر تے ہوئے نامزدگی کے دروازے پر کر و فر سے کھڑا ہے۔۔ اسی طرح ہیلری کلنٹن امریکہ میں پہلی خاتون صدارتی امیدوار کا اعزاز حاصل کرکے تاریخ  رقم کر رہی ہیں ۔اب وہ اس تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح برنی کو مفاہمت پر أمادہ کردے ۔ برنی ایک یہودی نژاد  أزاد خیال  سینیٹر ہے اگر وہ منتخب ہوتا تو امریکی تاریخ میں اولیں یہودی نامزد امیدوار ہوتا۔


اوباما اپنا ّأخری برس خیر و خوبی سے گزارنے کی کوشش میں ہیں اسلئے یہ الزامات کہ وہ مسلمان ہے، امریکہ میں پیدا ہی نہیں ہوا یا اسکا اوبامہ کیئر ایک ناکام پروگرام تھا ،اسکا بال بیکا نہیں کرسکتے وہائٹ ہاؤس میں اسکے  ساڑھے سات برس پورے ہوا چاہتے ہیں ۔۔اور یہ کہ اب کب اور کیسے کوئی سیاہ فام قصر ابیض میں داخل ہوگا  ،یہ تو وقت ہی بتائے گا  اور یہ بھی کہ ہاتھی اور گدھا کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔۔


پچھلی مرتبہ  ۲۰۰۸ میں جب ڈیموکریٹک پارٹی اپنے امیدوار کو منتخب کر رہی تھی اور اس کیلئے باقاعدہ الیکشن کے طرز پر انتخاب ہو رہاتھا- اسوقت ہیلری کلنٹن کے متعلق سبکو یقین تھا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہوںگی اور امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہونگی -امریکہ جو روشن خیالی اور آزادئی را ئے  کا اتنا بڑا علمبردار ہے یہاں ابھی تک کوئی خاتون صدارتی نامزدگی تک حاصل نہیں کر سکی ۔سربراہ مملکت  بننا تو بہت دور  کی بات ہے ۔ نہ ہی صدر اور نہ ہی نائب صدر-اس معاملے میں تو ہمارے پسماندہ  تیسری دنیا کے ممالک ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں -پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش جہاں آئے دن خواتین حکمران ہوتی ہیں اب بھی آصف علی زرداری  بی بی کے بل بوتے پرہی سیاست کر رہے ہیں-اور نواز شریف مریم کو جانشین بنانے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔۔ بنگلہ دیشی حسینہ واجد ۴۵ برس کے بعد جماعت اسلامی کے معمر رہنماؤں کو پے درپے پھانسی دیکر اپنے انتقامی جذبے کی تسکین کر رہی ہے۔۔اور  وہ جو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزائیں پارہے ہیں۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔۔

  کلنٹن مونیکا سکینڈل میں مجھے ہیلری کا اپنے شوہر سے باوفائی کا انداز بہت بھایا تھا ،کچھ اپنی اپنی سی لگتی تھی ۔ اس زمانے میں، میں امریکہ میں تھی کچھ امریکن خواتین سے بات ہوئی تو انکو اسکے روئے پر سخت اعتراض تھا ٓ ایک عورت کہنے لگی 'ہیلری کا رویہ ہرگز ایک امریکن عورت کا نہیں ہے- اسکو فورا اپنے شوہر سے طلاق لینی چاہئے " لیکن ہیلری اپنےشوہر کے ساتھ کھڑی رہی - بالکل ہمارے ہاں کی خواتین کی طرح کہ صبح کا بھولا شام کو گھرآجا ئے تو اسکو ہرگز بھولا مت کہو-  کیونکہ ہم لوگ جس معاشرے اور ماحول سے ہیں وہاں پر عورت ایک وفا کا پیکر، وفا کی پتلی ہی تو ہے اور اس وجہ سے۲۰۰۸میں اس سے رابطے مٰیں تھی -بلکہ اسکے لئے رضاکارانہ کام کر رہی تھی- آئے دن میرے پاس ہیلری، بل کلنٹن اور چیلسی کے تعریفی اور شکرئے کے ای میلز آتے اور پرائمریزمیں ، ہیلری کی ٹاپ کالر اور ای میل بھیجنے والوں میں سے ایک بن گئی- کافی دلچسپ مشغلہ تھا- قصہ مختصر یہ کہ ہم نے ایڑی چوٹی کازور لگایا لیکن اوباما آیا اور چھا گیا - ہیلری نے ہار مان لی اور اوبامہ ڈیموکریٹ کا صدارتی نامزد بن گیا - لیکن امریکی سیاست اور مزاج دیکھئے دو دن پہلے وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئےہر حربہ آزمارہے تھےاور اب  ہیلری نے اعلان کیا کہ اب ہمارے سارے رضاکار اوباما کیلئے کام کرنگے اور ہم جیت کر دکھائینگے- تو پھر ہم نے وہی کام اوبامہ کیلئے کیا اور پھر اوبامہ اور مشل کے ای میلز ملنے لگے -انگلی پر خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والی بات تھی ۔۔ لیکن دلچسپ کام تھا ۔۔ اس مرتبہ میری کچھ اپنی مصروفیات تھیں اور ابھی تک نظر انداز کیا ہوا ہے۔۔

امریکہ معاشی کساد بازاری سے ایک حد تک تو نکل آیا ہے لیکن اب بھی کافی مقروض ہے ، ملازمتوں کی عدم دستیابی یعنی بیروزگاری  ایک بڑا مسئلہ ہے۔۔ ٹرمپ ہر دوسرے جملے میں یہ اعلان کرتا پھر رہاہے کہ میں امریکہ کو از سر نوایک شاندار ملک بنا دونگا۔۔شروع میں اسنے غیر قانونی تارکین وطن لاطینی یا میکسیکن افراد کے لئے سخت بیانات دئے اور یہ  کہ میکسیکو کی سرحد پر ایک دیوار بنا دی جائیگی تاکہ انکا امریکہ میں داخلہ بند ہو جائے ۔وہ بھی نت نئے جتن کرکے بہتر زندگی کی تمنا لئے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔نسبتا کم داموں پر وہ کام اور مزدوری کرتے ہیں جنکی عام امریکی زیادہ اجرات لیتے ہیں ۔لیکن بقول ٹرمپ انکے ساتھ جرائم پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد آجاتی ہے ۔ اسمیں ایک حد تک حقیقت بھی ہے ۔

سان برنارڈینو اور پیرس کے واقعے کے بعد ٹرمپ نے مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی کےسخت بیانات دئے جسکی عموماً اسکے ووٹر نے پذیرائی کی ۔۔حالانکہ ٹرمپ کے بزنس میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا کافی بڑا سرمایہ ہے۔۔  

ساتھ ہی اسنے یہ بیان بھی دئے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک سے امریکی فوجوں کو ہٹا لیگا اور اسلامی ممالک میں دخل اندازی بند کردیگا۔۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہوگا جسکے متعلق امریکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ عامہ بالکل خاموش ہے ۔۔

امریکی خارجہ پالیسیوں مین افراد یا صدور کے أنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اب تو یہ أنے والا وقت ہی بتا ئے گا کہ اس صدارتی دنگل میں کوں جیتتا ہے اور کون چاروں شانے چت ہو جاتا ہے ۔۔۔

ایک عام امریکی کی زندگی میں کیا فرق پڑ سکتا ہے ۔۔

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

منزل جاناں سے کوئی کامیاب أیا تو کیا ۔۔




  Sincerely,