Saturday, January 17, 2015
The aftermath of attack on Charlie Hebdo
Thursday, January 15, 2015
معاشرے کا آيك رستا ہوا ناسور۔۔
چنبیلی
ایک کہانی
عابدہ رحمانی
سرخ بتی پر گاڑی رکی تو بنی سنوری انتہائی شوخ میک اپ کئے ہوئے زرق برق لباس
میں ملبوس ایک خاتون پرس سنبھالتی ہوئی تیزی سے گاڑی کی طرف لپکتی جھپکتی ہوئی
آئی -اسکی چال ڈھال سے مجھے پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی ایک ادا سے اسنے
کہا -" باجی اللہ کے نام پر کچھ دیدو"
اچھی بھلی ہو محنت مزدوری کر سکتی ہو یہ مانگنے کا کیا شوق ہے " میں نے اسے
سمجھانے کی کوشش کی - باجی کام کون دیتا ہے ؟ ناچتے گاتے تھے اس پر بھی پابندی
لگ گئی-وہ مجھ سے مایوس ہو کر اگلی گاڑی کی طرف لپکی اتنے میں بتی سبز ہو چکی
تھی - آج کل یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہر طرف نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ؟
میری ساتھی بھی میری طرح متفکر تھی-" واقعی انکی تعداد میں انتہائی حیرت انگیز
اضافہ ہے اور تمام معاشرے اور باآثر و مقتدر افراد نے انکی طرف سے بلکل بے
اعتنائی اختیار کر رکھی ہے - اور یہ تمام دینی اور مذہبی جماعتیں ان کا نام
بھی نہیں لیتیں - پھر یہ سارے این جی اوز جو ہر معاملے میں ٹانگ اڑائے پھرتے
ہیں کیا انہیں یہ معاشرے کا دھتکارا ہوا طبقہ نظر نہیں آتا - اور یہ اصلاح
معاشرہ کے علم بردار ؟ میں نےگویا ایک تقریر کر ڈالی ۔
بچپن سے یہی سنتے اور دیکھتے آئے تھے ہیجڑا،زنخا، کھسرایا مخنث آیا، بچے کی پیدایش
ہو ، شادی بیاہ یا خوشی کا کوئی اور موقع انکو بھنک لگ جائے اور تالیاں پیٹتے
ہوئے ، مبارکبادییاں دیتے ہوئے آن حاضر ہوتے ناچتے گاتے ، خوب شور مچاتے ، دعائیں ، صلواتیں انکا اپنا ہی ایک انداز تھا اور اپنا حصہ سمیٹ کر جاتے
- لیکن اتنی بڑی تعداد میں کیا یہ سب واقعی اسی صنف سے تعلق رکھتے ہیں؟ پھر یہ کپڑے ،
بناؤ سنگھار میرے ذہن میں ہزاروں سوالات کھلبلا رہے تھے-
اگلے روز پھر اسی چوک پر میں نے اسی اپنی گاڑی کی جانب آتے دیکھا ، اشارے سے
اسے اپنی طرف بلایا اور ڈرایئور سے کہا کہ وہ ایک طرف کو گاڑی روک دے -
وہ بڑی ادا سے مٹکتی ہوئی آئی - " جی باجی جی " تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے
پوچھا " جی باجی جی ہمارے ناموں کا کیا ہے ویسے مجھے چنبیلی کہتے ہیں - " میں
نے پچاس کا نوٹ اسکے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا - جنبیلی میں تم سے بیٹھ کر کچھ
باتیں کرنا چاہتی ہوں - مجھے ٹائم دو" اوئے باجی میرا انٹروو ،پسیے کتنے ملینگے ؟
پانچ سو اور یہ صرف ایک بات چیت ہے - انٹرویو نہیں ہے" ایک ہی بات ہے باجی
جی اپنا نمبر دے دو اماں سے پوچھ کر بتاؤنگی اور پیسے ایک ہزار سے کم نہیں
لونگی - ٹی وی والوں سے تو ہم دس دس ہزار لیتے ہیں " اسنے اپنے پرس سے موبائیل
نکالا ، مجھ سے بہتر فون تھا اسکے پاس ،ہم نےایک دوسرے کے نمبر لے لئے - "ہائے
باجی میں واری جاواں صدقے جاؤں" اسنے ایک ادا سے میری بلائیں لیں
دو چار دن کی خاموشی کے بعد اسکا فون آیا - " باجی کل بارہ بجے اسی چوک پر
آپکا انتظار کرونگی" کل تو چنبیلی بارہ بجے میں کافی مصروف ہوں - پانچ کے بعد
کا ٹائم دے دو "
اچھا ٹھیک ہے باجی جی آپ میرے دل کو بھا گئی ہو ورنہ چنبیلی کا دل کسی پر نہیں
ریجھتا" بہت شکریہ" ٹھیک پانچ بجے میں وہاں پہنچی تو وہ منتظر تھی آج وہ کچھ
زیادہ ہی بنی ٹھنی تھی
اسے لیکر میں اپنے پسندیدہ کافی، جوس ہاؤس لے گئی - کیا کھاؤگی اور پیوگی ؟
باجی جوس یا لسی پلادو گرمی بہت ہے " میں نے آم کی لسی اور چند کھانے کی چیزوں
کا آرڈر دیا-"باجی سموسے قیمے والے منگانا آلو والے تو کھاتے رہتے ہیں " اس سے
تیز خوشبو کی لپٹیں آرہی تھیں - مردانہ چہرے پر میک اپ کی انتہاتھی -مین اسے لیکر ایک کونے میں بیٹھی یہ خیال رکھتے ہوئے کہ اسکی پیٹھ دروازے کی طرف ہو-" یہ کافی آرام دہ ریسٹورنٹ ہے آج گرمی بہت زیادہ ہے اسکا اے سی اچھا ہے ، ذرا سکون سے بیٹھیںگے ، میں نے بات کا آغاز کیا یہ بتاؤ چنبیلی تم رہتی کہاں ہو ؟
باجی وہ گولڑے کے پیچھے کی طرف جو سڑک جاتی ہے ادھر اپنا محلہ ہے - پھر اسنے
مجھے بتایا کہ تقریبا 20 کوارٹر ہیں جنمیں انکی برادری کی رہایش ہے - ایک
کوارٹر میں تقریبا دس افراد رہتے ہیں- باجی ہمارا کیا ہے جن سے پیدا ہوئے تھے
انہوں نے جان چھڑائی گلا تو نہیں گھونٹا اماں کی جولی میں ڈالدیا - اماں بتاتی
ہیں میں ایک ماہ کی تھی جب میرا باپ دے گیا - بہت بڑا زمیندار ہے چار بیٹیوں پر
میں پیدا ہوئی " ہوئی کہ ہوا؟" باجی اسکو تو بیٹے کا ارمان تھا - بڑی خوشیاں
منائیں کہ بیٹا ہوا ہے پھر ڈاکٹر نے بتایا کہ آپریشن کرنا ہوگا کچھ گڑ بڑ ہے -
آپریشن بھی ہوا لیکن میں پورا لڑکا نہ بن سکی -کسی نے اماں کو خبر کردی اور
اماں کی جولی میں مجھے ڈالدیا گیا کچھ خرچے کے پیسے بھی دئے -جب شناختی کارڈ میں
باپ کا خانہ بھر رہی تھی تو اماں نے نام پتہ بتایا - اماں کے پاس سارے کاغذ
ہیں -بتاتے بتاتے اسکے آنسو بہنا شروع ہوئے جو اسکے میک اپ زدہ چہرے پر ندیاں
بہانے لگے - ماحول سوگوار ہوگیا- میں نے ٹشو پیپر کا ڈبہ بڑہایا- باجی میں اسکے پوتے کی مبارکی کے لئے گئی تھی - میرے سگے بھائی کا بیٹا، کیا ٹھاٹ بھاٹ تھے اماں نے قسم لی تھی
کہ کچھ اور نہیں بولنا - میں اپنی اس سنگدل ماں کو دیکھنا چاہ رہی تھی -نوکر
بولا کہ وہ تو بہت سال پہلے مر چکی ہے- اور جائداد میں تمہارا حصہ ؟ وہ تو
اماں کو پیسے دیتے وقت اسٹامپ پیپر پر دستخط کروالئے تھے--ہم سب ایسے ہی ہیں
باجی ظاہر ہے کسی نے ہمیں جنا ہے کوئی ہمارا مائی باپ ہے ہم کوئی زمین سے تھوڑے ہی اگے ہیں لیکن انہوں نے ہمیں اولاد نہیں سمجھا کیا ایسے ماپ باپ بھی ہوتے ہیں کتنوں کی اولادیں ذہنی ،
دماغی ، جسمانی معذور ہوتی ہیں کیا وہ ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں؟ "اور یہ اتنے اپاہج فقیر ؟ باجی یہاں ہاں بہت گڑبڑ ہے ، گڑبڑ گٹالا ہے یہ دنیا-
تم مرد کیوں نہیں بننا چاہتی تھیں چنبیلی تم صحتمند ہو ، لمبی چوڑی ہو ہاتھ پاؤں سے ٹھیک ہو - مرد بن کر تم دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتی تھی کوئی اچھا پیشہ سیکھ لیتی ، کوئی ہنر ، کوئی کاریگری--؟
--
*
*
*
*
*عابد**ہ*
*
*
*Abida Rahmani*
*
*
Wednesday, January 7, 2015
Journey of life: نبی کریم ﷺ کی صحبت میں ایک دن
نبی کریم ﷺ کی صحبت میں ایک دن
-آپﷺ کا معمول تھا- آج کی رات آپ عائشہ ر ضی اللہ عنہا کے حجرے میں تھے
-باقی ازواج مطھرات کے حجرے بھی متصل تھے مدینے کا اسمان ستاروں سے جھلملا رھا تھا ہلکی سردی تھی آپﷺ نے دیا جلایا عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بیدار ھوئیں -باہر جا کر چولہا جلایا غسل اور وضو کے لۓ پانی گرم کیا
رسول اللہﷺ بآواز بلند سحر خیزی اور تھجد کی دعائیں پڑھتے رھے عائشہ بھی ساتھ دہراتی رھیں دیگر ازوواج بھی جاگ چکی تھیں اور وضو کی تیاری کر رھی تھیں تہجد کے آٹھ نوافل لمبی قرآت سے ادا کرنے کے بعد آپ ﷺ نے صلاۃ الوتر ادا کی اگلا روز جمعرات کا تھا اور آپ نفلی روزہ رکہتے تہے ازوواج میں بھی زیادہ تر
ساتہ دیتی تھیں سحری کے لۓ کھجوریں، دودھ ، اور رات کی بچی ھوئ روٹی تھی- اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ساتہ آپ ﷺ نے پانچ کھجور لۓ دودھ کا پیالہ -
لےکر اس میں روٹی ڈال کر کھائ - یہ کھجوریں ابو دحدح کی باغ کی تھیں -انکے باغ کی کھجوریں پورے مدینہ میں مشھور تھیں-
جیسے ھی تیار ھوتیں وہ سب سے پہلے آپ ﷺ کو پہنچاتے-سحری کرنے کے بعد
شروع کی- آپﷺ نے سنتیں ادا کیں-اتنے میں بلال رض نے فجر کی اذان شروع کی-
مدہنے کےافق پر تا رہکی سے روشنی کی لکیر بلند ہو رھی تہی اور فجر کا وقت ہوا چاھتا تھا- اپﷺ نے وضو تازہ کیا اور حجرے سے متصل مسجد نبوی میںداخل ہوۓ -صحابہ کرام رض مسجد میں جمع ھو رھے تھے- پچھلے دو دنوں کی بارش سے چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی اور فرش پر کہیں کہیں کیچڑ تھا - ابوبکر رض نے اقا مت ادا کی 'صفیں درست ھوئیں ازوواج مطھرات اور دیگر صحابیات پچھلی صفوں میں کھڑی ھویئں-آپﷺ نے پہلی رکعت میں الاعلی اور دوسری میں الاخلاص تلاوت کی -نماز فجر سے فارغ ہوۓ تو صحابہ کرام آ پﷺ کے گرد حلقہ کر کے بیٹھ گۓ -ابو ھریرہ اور عبداللہ بن عمر تو آ پ کی ھر بات کو ذہن نشین کر رہے تھے تا کہ فورا کا تب سے لکھوالیں آ پ ﷺ نے فرمایا " لا یو من احد کم حتی یکو ن ھواہ تبعا لما حبت بہ' تم میں کوئ اسوقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اسکی خواہشات میری لائ ہوئ ھدائت کے مطا بق نہ ھو جائین –
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤۡذَنَ لَكُمۡ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيۡرَ نَـٰظِرِينَ إِنَٮٰهُ وَلَـٰكِنۡ إِذَا دُعِيتُمۡ فَٱدۡخُلُواْ فَإِذَا طَعِمۡتُمۡ فَٱنتَشِرُواْ وَلَا مُسۡتَـٔۡنِسِينَ لِحَدِيثٍۚ إِنَّ ذَٲلِكُمۡ ڪَانَ يُؤۡذِى ٱلنَّبِىَّ فَيَسۡتَحۡىِۦ مِنڪُمۡۖ وَٱللَّهُ لَا يَسۡتَحۡىِۦ مِنَ ٱلۡحَقِّۚ وَإِذَا سَأَلۡتُمُوهُنَّ مَتَـٰعً۬ا فَسۡـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍ۬ۚ ذَٲلِڪُمۡ أَطۡهَرُ لِقُلُوبِكُمۡ وَقُلُوبِهِنَّۚ وَمَا كَانَ لَڪُمۡ أَن تُؤۡذُواْ رَسُولَ ٱللَّهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓاْ أَزۡوَٲجَهُ ۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦۤ أَبَدًاۚ إِنَّ ذَٲلِكُمۡ ڪَانَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمًا (٥٣) إِن تُبۡدُواْ شَيۡـًٔا أَوۡ تُخۡفُوهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيمً۬ا (٥٤) لَّا جُنَاحَ عَلَيۡہِنَّ فِىٓ ءَابَآٮِٕہِنَّ وَلَآ أَبۡنَآٮِٕهِنَّ وَلَآ إِخۡوَٲنِہِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ إِخۡوَٲنِہِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ أَخَوَٲتِهِنَّ وَلَا نِسَآٮِٕهِنَّ وَلَا مَا مَلَڪَتۡ أَيۡمَـٰنُہُنَّۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ شَهِيدًا (٥٥) إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰٓٮِٕڪَتَهُ ۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّۚ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيۡهِ وَسَلِّمُواْ تَسۡلِيمًا (٥٦) إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ لَعَنَہُمُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابً۬ا مُّهِينً۬ا (٥٧) وَٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ بِغَيۡرِ مَا ٱڪۡتَسَبُواْ فَقَدِ ٱحۡتَمَلُواْ بُهۡتَـٰنً۬ا وَإِثۡمً۬ا مُّبِينً۬ا (٥٨)
Monday, January 5, 2015
ابر کرم اور برکھا برسات
---
ابر کرم اور برکھا برسات
عابدہ رحمانی
موسلا دھار بارش ہو رہی ہے' بارش مجھے ہمیشہ سے بہت پسند ہے یوں لگتا ہے بارش کی رم جھم سے میری روح جھنجھنا اٹھتی ہے کچھ عجیب سا سکون اور سرشاری ، ایک پاکستانی گانا یاد آرہا ہے --رم جھم رم جھم پڑے پھوار-- یا پھر
احمد رشدی کا ایک مشہور گانا " اے ابر کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں -گھر آیا ہے ایک مہماں حسین- ڈر ہے کہ چلا نہ جائے کہیں--
بر صغیر میں بارش کے ساتھ اسقدر رومانیت جڑی ہوئی ہے کہ گانے اور شاعری برکھا برسات سے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوۓ ہیں - ساون کے بھیگے بھیگے موسم کی اپنی روایات, ثقافت اور خوبصورتی ہے- گرمیوں سے بلبلائے ہوؤن کو اس برسات کا شدت سے انتظار ہوتا ہے- پہلے تو درختوں پر جھولے ڈال دئے جاتے تھے - ساون کے گیت گائے جاتے ، برسات کے ساتھ پکوڑےاور گلگلے تلنا ، گرما گرم بگھاری کھچڑی، تلی ہوئی پوریاں گرم گرم حلوہ-- اب جبکہ کھانے پر اسقدر قدغن ہے ایسی لوازمات کا سوچنا بھی گناہ ہے---
لیکن اس بارش کو ہم پھوار کو تو ہرگز نہیں کہینگے-- یہ تو ایک گرجتی چمکتی دھواں دھار بارش ہے -- ٹیلی وژن پر شدید گرج چمک اور طوفانی بارش کی تنبیہ آرہی ہے-ذرا دیر پہلے یہ افسوسناک خبر آئی" واٹر لو میں دو یونیورسٹی کی طالبات بجلی گرنے سے جان بحق ہوگئیںاسقدر حفاظتی اقدامات ہونے کے باوجود،قدرتی حادثات اور دیگر حادثات انسان کے قابو سے باہر ہوتے ہیں -ورنہ یہاں کی دھواں دھار بارش میں کاروبار زندگی پوری طرح جاری رہتا ہے -پانی کی نکا سی کا ایسا بہترین انتظام ہوتا ہے کہ ایسی طوفانی بارش کے اگلے دن جب دھوپ نکل آئے تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ بارش ہوئی بھی تھی -- ہر گھڑی ہر لمحے موسمی پیشن گوئیاں ایسی کہ موسم سے ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہوجاتا ہے - اللہ تعالٰی نے اس خطے کو میٹھے پانی کی بڑی بڑی جھیلوں سے نوازا ہے --جو جھیل سے زیادہ سمندر کا نقشہ پیش کرتی ہیں--
چند ماہ پہلے شمالی کیلیفورنیا میں تھی ہر روز کھلی ہوئی دھوپ دیکھ دیکھ کر عجیب یکسا نیت سی ہونی لگی تھی ایک روز ذرا بدلی آئی توکیا لطف آرہاتھا --یہاں بارش سردیوں کے دوران ہوتی ہے-- گرمیاں اسی کھلی ہوئی دھوپ میں گزر جاتی ہیں اور پھر سردیوں میں دھواں دھار بارش برستی ہے -پچھلے سال وہاں خشک سالی رہی نومسلم عالم دین شیخ حمزہ یوسف نے برکلے کے کھلے میدان میں نماز استسقاء ادا کی اور اللہ کی شان کہ اگلے روز ہی خوب بارش ہوئی-- لیکن پھر بھی بارش کی کمی پوری نہ ہوسکی اور گرمیوں میں پانی کی راشن بندی کی گئی --
اب چند روز پہلے فینکس اریزونا میں اسقدر بارش ہوئی کہ پورے شہر میں سیلابی کیفیت ہوگئی اسکول کالج یونیورسٹی تک بند ہوگئے سارا شہر جل تھل اور مفلوج ہوگیا یہاں پر پورے سال میں آٹھ 8 انچ بارش ہوتی ہے اور ایک روز میں چھ 6 انچ کی بارش نے شہر میں ایک ہنگامی کیفیت پیدا کی- نشیبی علاقوں کے گھروں میں پانی گھس گیا- امریکہ جیسے ملک میں ایسی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے- کیوؐ ں نہیں آئے دن طوفان ,Tornado بگولے،بارشیں اور برسات کم سے کم نقصان پر بھی کافی نقصان ہوجاتا ہے -- اللہ کی شان نرالی--
یہاں کی بارشوں میں،میں پاکستانی برسات کو بھلا کیسے بھلا سکتی ہوں جہاں گرمی سے بلبلائے ہوئے ھاتھ اٹھا ااٹھا کر بارش کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو پہلے سوندھی مٹی کی خوشبو آتی ہے لیکن پھر سب کچھ جل تھل ہوجاتا ہے - سیلابی تباہ کاریاں ،انسانی جانوں ، مویشیوں ، فصلوں ،مکانات کا بے تحاشا نقصان --
ایک جانب سیاسی دھرنے عمران خان اور قادری کی یہ حماقت یا ہٹ دھرمی کیا رنگ لائیگی، اللہ کے بندوں جاؤ اور سیلاب زدگان کی مدد کر کے اپنے آپکو سرخ رو کرو لیکن ہر ایک اپنی دکان چمکانے مین لگا ہوا ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے- ان سیلابوں کا الزام کبھی ہندوستان اور کبھی افغانستان سے چھوڑے ہوئے پانی پر لگتا ہے - یہ ابر کرم جب زیادہ برستا ہے تو تباہی و بربادی کا پیام لے کر آتا ہے -
مجھے اپنا گاؤں کا بچپن یاد آرہاہےجب ہم بچے توے کی کالک چہرے پر ملکر بارش کے لئے اپنی زبان میں لمبے لمبے گیت گاتے ہوئے محلے کے گھروں پر جاتے جسکا مطلب کچھ یوں ہوتا ،" اے اللہ ہم تجھ سے زاری کرتے ہیں اور خیر مانگتے ہیں - اےرب بارش کو برسا دے ، جو فصلوں کو لہلہا دے - دہقانوں کو خوش کردے " اور مختلف چیزیں اکٹھی کرکے ہنڈ کلیا پکاتے -سب سے بدمزاج خاتون یا مرد پر پانی کے ڈول ڈالتے انکی بک جھک، چیخ پکار سے سبکو یقین تھا کہ اب بارش ضرور ہوگی اور واقعی بارش ہو جاتی تھی--کیا کھیل اور کیا خوشیاں تھیں--
کالے میگا پانی دے پانی دے گڑ دھانی دے -پانی برسے کھیت ما
یہ پوربی گیت بھی اسی قسم کاہے --
کراچی میں ایک مرتبہ سخت گرمی اور حبس سے نڈھال تھے کہ ابر کرم چھایا اور بوندا باندی شروع ہوئی ہم لوگ ڈیوٹی فری شاپ خریداری کے لئے گئے --موسلا دھار برستی ہوئی بارش شیشوں سے نظر آرہی تھی - ابھی ہم خریداری میں مصروف تھے کہ نچلی منزل میں پانی بھرنا شروع ہوا بجلی غائب -باہر نکلنے کی کوشش کی تو کمر تک کا پانی سیلابی ریلے کی صورت میں تھا -- سینڈل ہاتھ میں تھامے گاڑی تک پہنچے کی کوشش کی لیکن گاڑی پانی میں تقریبا ڈوب چکی تھی-- موسلا دھار برستی ہوئی بارش میں گٹروں کے مرغولوں سے بچتے ہوئے بمشکل تمام ایک بس تک پہنچے ، جسنے حسن اسکوایر پر اتار دیا --وہاںتک پہنچتے ہوئے یوں لگا جیسے پورا شہر سیلابی اور افرا تفری کی کیفیت میں ہے ایک کہرام مچا ہوا تھا -اسکولوں کالجوں کے بچے بچیاں ، دفتروں کے ملازمین پریشاں سر بگرداں --
اسی سیلابے ریلے سے گزرتے ہوئے ایک پرانی کار چلتی ہوئی نظر آئی اور ازراہ مرحمت ان صاحب نے ہمیں گاڑی میں بٹھا کر گھر تک پہنچا دیا - اس بارش کے نتیجے میں بجلی غائب ،
ٹیلیفون بند، اور گاڑیاں پانی میں بند لیکن اللہ کا یہ کرم کیا کم تھا کہ ہم سب محفوظ تھے --
پھر مجھے ڈھاکے کی برسات یاد آرہی ہے جہاں مارچ سے ستمبر تک بارش ہی بارش --سارے نشیبی علاقوں میں پانی ہی پانی دریا چڑھ جاتے اور ہر طرف سیلاب ہی سیلاب--لیکن ہم اس برسات سے خوب لطف اٹھاتے --لمبی ڈرائیو پر گول گپے چاٹ کھانے چلے جاتے --جسے وہاں پانی پوری دہی پوری کہتے تھے-
گرمیوں کی بارش میں بھیگنے اور نہانے کا اپنا ہی لطف تھا—
لیکن ان ملکوں نہ تو بارش میں کوئی رومانیت ہے نہ حسن جانا جاتا ہے – کسی سے بات کرو تو روہانسے سے انداز میں کہا جاتا ہے " آج تو بارش کا دن ہے " کھلی ہوئی دھوپ کے دیوانے " کیا خوبصورت دن ہے "what a beautiful day today
ابھی زور کی بجلی کڑکی --اور بارش میںمزید شدت آگئی ہے --
اے ابر کرم ذرا تھم کے برس ذرا تھم کے برس-----------
Friday, January 2, 2015
نیا سال مبارک
نیا سال 2015 مبارک
از
عابدہ رحمانی
دعا ہے کہ یہ نیا سال آپ اور ہم سب کیلئے امن ، سکون ،صحت تندرستی ، خوشحالی اور خوشیوں کا باعث اور ضامن ہو-- اللہ تبارک وتعالٰی آپ سبکو خوشیاں اور آسانیا ں عطا فرمائےاور خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے والا بنائے--
کچھ حلقے یقینا معترض ہونگے کہ یہ تو ہما را سال ہرگز نہیں ہے اور ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا یا یہ ہماری بلا سے کہ یہ سال آئے یا نہ آئے -- جناب فرق تو پڑتا ہے ہم 2014 سے 2015 میں داخل ہوجایئنگے اور اگر ہم اور کسی قابل نہیں ہیں توآپ سبکو نیک خواہشات کے ساتھ مبارکباد تو دے ہی سکتے ہیں زندگی میں خوشیان یوں بھی اتنی مختصر ہیں --اور ہمارا شمار تو انمیں ہے جو نۓ جوتوں اور کپڑوں تک کی مبارکباد دیتے ہیں ورنہ پہننے والا ناراض ہو جاتا ہے کہ ہمیں مبارک ہی نہیں کہا-- اور یہ مبارکباد کیاہے در حقیقت دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اسمیںخیر و برکت ڈالدے اور یہ خیر و برکت کہ دعائیں تو ہمارا زندگی کا اثاثہ ہیں--
اگر یہ ہمارا سال نہیں تو پھر ہمارا کونسا سال ہے -- ؟ ہجری" ہاں یقینا کیوں نہیں -- ذرا یہ فرمایئے آج کونسے ہجری مہینے کی کونسی تاریخ ہے اور کونساسال ہے ؟"ربیع الاول -البتہ تاریخ یاد نہیں ارہی چار یا پانچ شاید اور سال 1434 نہیں 1435 شایدَ" اور شمسی کیلنڈر ؟ واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے دسمبر 2014 کی 31 تاریخ ہے ٓاور کل نیا سال شروع ہونیوالا ہے
--- لیکن مبارک نہیں کہینگے بھئی ہم نیا سال مناتے ہی نہیں --- منانے سے آپکی کیا مراد ہے چلیئے جانے دیجئے اسطرح سے تو ہم بھی نہیں مناتے --
ہم میں سے 90 فیصد مسلمان اسلامی کیلنڈر اور اسکی تاریخوں سے نابلد ہوتے ہیں اور جب ہم ایک ملک اورایک محلے میں رمضان ، عیدین مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں تو پھر ہمیں یہ اعتراضات زیب نہٰیں دیتے -- سوائے سعودی عرب کے کوئی اسلامی ملک نہیں جسکا روزمرہ کا حساب کتاب اسلامی تاریخوں اور کیلنڈر پر چلتا ہو-باقی دنیا میں اسلامی تاریخوں کی یہ گڈمڈ بہت پریشان اور افسردہ کرتی ہے کاش کہ ہم بھی اسلامی یا ہجری کیلنڈر پر متفق ہوں ،جوکہ چند سوچنے والے دماغوں نے بنا لیا ہے اور اسکا قمری حساب کتاب بالکل درست ہے -اسطرح ہم جگ ہنسائی سے بھی بچ جائینگے اور خود بھی مطمئن ہونگے-اسلامی مہینوں کی متفرق تاریخیں ہمیں ایک مخمصے میں ڈالدیتی ہیں --؟ آسان علاج یہ ہے کہ چشم پوشی اختیار کرو اور پھر اس سے بڑی دکھ کی بات کہ ہم تو نئے اسلامی سال پر بھی مبارکباد دیتے ہیں لیکن بہتوں کو یہ بھی بالکل نہیں بھاتآٓ--"یہ بھی کوئی بات ہے ہمارا نیا سال تو غم اور دکھ سے شروع ہوتا ہےاور آپکومبارکباددینے کی سوجھی ہے "-
اور پھر ہمارے برصغیری معاشرے میں ایک اور سال بھی منایا جاتا ہے جسے فصلی یا موسمی سال کہتے ہیں--جیٹھ ، ہاڑ، ساون بھادوں ہر سال کی طرح اسکے بھی پورے بارہ مہینے ہیں( راز کی بات یہ کہ ابھی مجھے اردو میں پورے فصلی مہینوں کے نام یاد نہیں آرہے ) - دیہاتی ، زمیندار، کاشتکار لوگ انہی مہینوں پر چلتے ہیں اور انہی مہینوں کا حساب رکھتے ہیں انکے سارے تہوار، فصل کی کٹائی ،بوائی ، بارشوں کا ہونا یا نہ ہونا انہی مہینوں اور تاریخوں میں ہوتا ہے -- یہ مہینے بھی شمسی کیلنڈر کی طرح ہیں کیونکہ یہ مقررہ موسم کے حساب سے آتے ہیں--
اب جبکہ ہمارا ساراروزمرہ کا جدول ، حساب کتاب اسی شمسی یا عیسوی کیلنڈر کے حساب سے چلتا ہے تو اس کی آمد پر خوش ہوں یا اداس ہوں وہ تو آئے گا ہی -- بھلا وقت کے دھارے کو کوئی روک سکا ہے؟
2015 کی بس آمد آمد ہے --مغربی دنیا تو لمبی چھٹیاں مناتی ہے عام طور سے ان چھٹیوں کو "میری کرسمس اور ہیپی نیو ائر" کہا جاتا ہے - ہم اور بہت سے انہیں" ہیپی ہالیڈیز happy holidays" کہتے ہیں -مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہمارے پاکستانی اسکول میں" بڑادن " کی چھٹیاں ہوا کرتی تھیں -- بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بڑادن کرسمس ہوا کرتا ہے - بعد میں یہ قائد اعظم کی یوم ولادت میں بدل گیا - اور بعد میں میرےلیئے اسدن کی اہمیئت اور بڑھ گئی ---
امریکن تھینکس گیونگ ک بعد کرسمس اور نیو ائر کی سجاؤٹ شروع ہو جاتی ہے --جھلملاتے ہوئے ایک سےایک بڑھ کر کرسمس ٹریز گھروں میں ، بازاروں ، مالوں۔ سڑکوں اور چوراہوں پر ایک سماں پیدا کر دیتے ہیں اور ہر طرف جھلملاہٹ ، قمقمے سارا ملک ، سارا خطہ ایک جشن کا سماں پیدا کر دیتا ہے --کرسمس تک تو سانٹا کلاز کا راج ہوتا ہے سرخ پھندنے والی ٹوپی بڑی سفید داڑھی، موٹی توند، سرخ و سفید کپڑوں میں ملبوس، مال میںسانٹا کے ساتھ اپنے بچوں کی تصویر کھنچوانے والوں کی ایک لائن لگی ہوتی ہے-- اب تو کرسمس کی رات کو بہت سارے چینل سانٹا کی قطب شمالی سےرینڈیئرکی رتھ میں روانگی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کرتے ہیں --تحائف سے لدے پھندے سانٹا کی آمد کا سب بچے انتظار کرتے ہیں -- سانٹا عام طور سے یہ تحایف کرسمس ٹری کے نیچے رکھ جاتا ہے -- معمول کے مطابق سانٹا چمنی سے اترتا ہے لیکن اگر چمنی نہ ہو تو سانٹا تو سانٹا ہی ہے پھر بھی آجاتا ہے -- بچے تو بچے بڑوں کو بھی یہ تجاہل عارفانہ یا یہ خوبصورت جھوٹ اور کہانی بے حد مر غوب ہے --یہاں کی اسی فیصد عوام اس سے نابلد ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کا دن ہے --اور یہ دن اور کرسمس بھی قدامت پسند یونانی اور آئر لینڈ کے لوگ مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں- ایک مرتبہ سی این این پر کرسمس کے بارے میں پروگرام تھا اسمیں اکثریت نے یہی کہا کہ یہ کرسمس ٹری سجانے ، رینڈیئر کے رتھ پر سانٹا کے آنے اور تحفے تحایف کا موقع ہے --اب تو ہمارے اکثر مسلمان بھی اس سجاؤٹ میں شریک ہوگئے ہیں --
کرسمس گزرا تو نئے سال کا انتظار شروع ہوا -- سجاؤٹیں توپورے طور پر جاری ہیں امریکہ میں نئے سال کی اپنی دھوم ہے باقی ممالک میں اپنی --نیویارک کے ٹایم اسکوائر میں ایک بڑ امصنوعی سر خ سیب یا بال نئے سال کی آمد کے ساتھ ٹھیک 12 بجے گرایا جاتا ہے ایک خلقت سخت سردی میں اسکا انتظار کرتی ہے اسکے ساتھ بے انتہا غل غپاڑہ ، ناچنا گانا، آتش بازیاں جو کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہوتی ہیں -- پارٹیاں شباب پر ہوتی ہیںجانے دیجئے اسکی تفصیلات میں جانا شریفوں کا کام نہیں
کراچی اور پاکستان میں یہ سب غیر سرکاری طور پر منایا جاتا تھا --رات کے ٹھیک 12بجے آٹومیٹک اسلحے کی جو تڑ تڑ فائرنگ شروع ہوتی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ لوگ کسقدر مسلح ہیں جبکہ ہمارے پاس چاقو چھری سے زیادہ کچھ نہ ہوتا-- یہاں پر بھی نجی پارٹیوں کا زور ہے --سی ویو پر نوجوان دیوانہ وار پہنچ جاتے اور خوب ہنگامہ کرتے --دوسری طرف دینی پارٹیوں کے نوجوان انکو روکنے کی کوشش کرتے -- جانے یہ سب اب بھی ہوتا ہوگا--
نیئے سال کی ریزیلوشن یعنی قرارداد کا بڑا چرچا ہوتا ہے -- اب آپ اپنے ریزولوشن کا سوچیئے
ہمارا تو یہ ہے کہ سب کا بھلا تو ہمارا بھی بھلا ---
چلیئے عربی میں بھی دعا دیتے ہیں "کل عام و انتم بخیر" ---- آپکا نیا سال خوش آئیند ہو--
--
Sent from Gmail Mobile