Thursday, December 17, 2015

دہشت گرد

دہشت گرد

از
عابدہ رحمانی

کئی روز ناساز رہنے کے بعدآج اس کی طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی تھی ۔ جسم میں جیسے قدرےطاقت آگئی ہو ورنہ تو جوڑ جوڑ میں دکھن تھی۔اسکابہت جی چاہا کہ باہر نکل کر چہل قدمی کی جائے ۔۔یوں بھی یہ اسکی ایک عادت ثانیہ ،ایک معمول تھا۔کام کاج تو کوئی خاص تھا ہی نہیں ، ۔۔اسے وہ وقت بری طرح یاد آتا تھا جب فرصت کے چند لمحات کو ترس جاتی تھی اور اب اسکا جی چاہتا ہے کاش کوئی مصروفیت ہوتی۔اسنے جوگرز پہنے ، ہلکی جیکٹ پہنی،فون جیب میں ڈالا،سر پر ہیٹ پہنا اور روانہ ہوئی ۔۔چلتے چلتے وہ تمام وقت تلاوت کرتی رہتی یا پھر اپنے فون سے ائر پلگ لگا کر تلاوت سنتی ۔۔اللہ سے تعلق جوڑ کر اسے یک گونہ سکون اور اطمینان ہوتا۔۔
دور سے رابرٹ اپنے دو خونخوار قسم کے کتوں سمیت نظر أیا اسنے گرم جوشی سے ہاتھ ہلایا اور قریب أکر اسکی خیریت دریافت کی ۔۔اسنے اپنی بیماری کی کچھ تفصیلات بتائیں۔۔ پہلے پہل جب وہ ملتا تو وہ اسکو ہیلو کہتا اور یہ ہائے کہہ دیتی۔۔یہاں پر ذرا غیر ملکی نظر أنیوالوں کو ہیلو کہا جاتا ہے ورنہ تو ہائے ،ہائے اور بائے بائے چلتا ہے ۔۔ایک روز تو وہ سپینش زبان میں شروع ہوا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسے لاطینی سمجھتا ہے۔۔ لیکن جب ایک روز وہ شلوار قمیض پہنے نکلی تو اسنے قریب أکر کہا " نمسٹے" وہ مسکرائی پھر ایک روز جب اسنے کہا " ہیپی ڈیوالی " تو اس سے برداشت نہیں ہوا اور اسنے سارا پول کھول دیا ۔۔ اب تو وہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ وہ پاکستانی ہے اور مسلمان ہے۔۔ وہ اس سے اکثر پاکستان یا مسلمانوں کے بارے میں ذکر کرتااور وہاں کے حالات پر گفتگو کرتا ۔۔أئے دن خبروں مین ایک سے ایک اندوہناک قصےأ ٓرہے ہوتےاور وہ اسے یقین دلانے کی کوشش کرتی کہ ہم تو انتہائی مہذب اور امن پسند ہیں۔امن وامان ، چین اور سکون کے متلاشی ہیں  ۔۔ حقیقت بھی یہی تھی اسی امن، سکون اور چین کی خاطر تو سات سمندرپار اس انجانے ملک میں آبسےتھے۔۔ملک تو خیر ایسا تھا کہ ہر کوئی بسنے کے خواب دیکھتا۔۔لیکن وہ تو کتنے انقلابات سے گزر کر یہاں تک پہنچی تھی۔۔ 
 گھر کے چند افراد کے علاوہ اس شہر میں اسکا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ رکھنا بھی نہیں چاہتی تھی دوچار جاننے والوں سے فون اور ای میل کے ذریعے دعا سلام ہو جاتی تھی۔ اسی چہل قدمی کے بہانے کچھ حرکت ہوجاتی۔ورزش کی ورزش ،تازہ ہوا اور موسم خوشگوار ہو تو یہ چہل قدمی کافی پر لطف ہوجاتی ۔۔دو چار لوگوں سے ہیلو ہائے بھی ہو جاتی کچھ لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ورنہ یہاں کی بے کیف ،تنہااور گوشہ نشین زندگی سے وہ اکثر بیزار آجاتی ۔۔

زیادہ طبیعت اکتائی تو فون ملا لئے اپنے دور افتادہ بھائی بہنوں عزیزوں، دوستوں  سے باتیں کرلیں ۔ورنہ کمپیوٹر پر ہی اسکی دنیاأّباد تھی۔ یہ ایجاد اور اسکی سہولتیں اسکے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سےکم نہیں تھی۔۔
ملک بھی تو کیسے چھوٹا تھا ۔عادل کے اس دنیا سے جانے کے بعد وہ ریزہ ریزہ، ہو چکی تھی ساراشیرازہ منتشر ہوکر کرچی کرچی ہوچکا تھا۔ وہ اللہ سے ہر وقت یہی دعا کرتی کہ وہ اسے اپنے بچے سے جلد ملا دے ۔۔ اسے یقین تھا کہ اسکا بچہ شہید ہے جسنے اپنے نا شکرےمہمان پر اپنی جان وار دی تھی اسکا مال اور اسکی جان بچائی۔۔اسکے شہر میں تو یہ قتل و غار گری اور لوٹ مار روز کا معمول تھا پولیس گچھ تفتیش کرتی اورپھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو جاتا۔۔  ۔۔پھر وہ دعا کرتی یا اللہ مجھے بھی شہادت کی موت عطا کردے تاکہ میں بھی اپنے بچے کے پاس اسکی جنتوں میں چلی جاؤں ۔۔جوانی میں بیوگی کا اتنا بڑا صدمہ  اور دکھ جھیلے اور پھر یہ دکھ اور صدمہ، اللہ تعالی سےوہ ہمہ وقت اب مذید أزمائشوں سے پناہ مانگتی۔۔لیکن یہ اللہ ہی کی ذات تھی جسنے اسکو حالات  سے نبرد أزما ہونے کی ہمت اور حوصلہ دے رکھا تھا  ۔زندگی کے دھارے میں بہتے بہتےاور حالات سے لڑتے لڑتےوہ جیسےپھر سے جی اٹھی۔بڑھاپا بھی أ ٓن پہنچا تھا۔ اپنے سارے معاملات اللہ کے سپرد کردئے ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالی کی شکر گزاری تھی۔۔

اسکےبچےپہلے باقاعدگی سےمختلف مواقع اور اجتماعات میں  مسجد جاتے تو اپنے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے۔یہاں کی مساجد ایک طرح سے کمیونٹی سنٹر ہوتے ہیں۔نماز ، عبادت ،تقاریر ملنا ملانا ،گپ شپ اور پھر مختلف تقریبات ،لذت کام و دہن کے مواقع ،عیدین اور دیگر مواقع پر مختلف بازار بھی لگ جاتے اور اپنی دیسی اشیاء خوب بکتیں ۔۔اگر یہ نہ ہو تو اپنے جیسے لوگوں کو دیکھنےاور ملنے کو آدمی بری طرح ترس جائے ۔۔مختلف رنگ و نسل کے مسلمان، اپس کی یگانگت، محبت اور الفت اسکو بہت تسکین دیتی اپنے دین اوراپنے لوگوں سے جڑ کر روحانی تقویت مل جاتی ۔مساجد کے یہ مواقع تو اسکو اپنے ملک میں بھی میسر نہین تھےبچوں کو بھی نیک اور پاکیزہ ماحول میسر تھا۔۔ 
یہاں رفتہ رفتہ جو مسلمان مخالف جذبات نے سر اٹھایا،حالات بدلنے شروع ہوئے تو کمزور قسم کے مسلمانوں نے مساجد سے دوری اختیار کرنی شروع کی وہی اسکے بچوں نے کیا ۔۔انکو اپنی ملازمتوں ،اپنے بال بچوں اور اپنی رہائش کی فکر تھی ۔۔کبھی کبھی تو اسے محسوس ہوتا کہ ایک خوفزدگی کا ماحول ہے۔جابجا حجاب پہننے والی خواتین کو پریشان کیا گیا۔نیویارک میں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار دی گئی  ۔مساجد پر حملے ہونے لگے کہیں پر سؤر کا سر پھینک دیتے ایک أدھ جگہ أگ لگانے کی کوشش کی گئی توڑ پھوڑ ہوئی، سب سے بڑھ کر میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہروقت بحث مباحثے ۔۔ کہا جاتا تھا کہ مساجد جانیوالوں  پر نظر رکھی جارہی ہے انکا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور ابلاغ عامہ مسلمانوں کے متعلق ہر وقت زہر اگلتے 
اس بات کاا سے بہت دکھ اور صدمہ تھا۔۔۔
داعش کی بہیمانہ کارروائیوں کی خبریں دہلانے والی تھیں مشرق وسطے تو مدتوں سے خونریزی کا میدان کارزار بنا ہواتھا۔۔ عالمی طاقتوں نے امن عالم کے نام پر اسے اپنا أکھاڑہ بنا رکھا تھا لاکھوں مسلمان ، مخالف مسلمانوں کے ہاتھوں،جنگوں اور بمباریوں سےہلاک ہوئےعراق اور شام کی قتل و غارتگری اور ہلاکت خیزی نے افغانستان، کشمیر ، پاکستان ، برما ، فلپائن اور وہاں کی خونریزیوں کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا ۔ ۔۔ القاعدہ کے بعد   داعش  یا  ملت اسلامیہ کا ہوا اور فتنہ  پوری دنیا کو دہلائے جا رہاتھا ۔۔ پیرس میں ۱۵۰ بےگناہوں کا خون بہایا گیا پوری دنیا لرز اٹھی اور داعش کی سر کوبی کیلئے متحد ہوگئی۔۔فرانس ، امریکہ ، روس اور بر طانیہ کی فضائی افواج کی بمباری سے بے شمار بے گناہ مارے جارہے تھے  ۔۔
پیرس کی ہلاکتوں کے بعد رابرٹ کافی اکھڑا اکھڑا ساتھا،"ہم ان لوگوں کو پناہ دیتےہیں اور پھر یہ ہمارے ہی ملکوں میں ہم لوگوں کو مارتےہیں اب پیرس کی ہلاکتوں کا کیا جواز ہے۔۔دہشت ہے دہشت، ان دہشت گردوں کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا انکو ختم کرنا ہوگا"
میں بے حد افسردہ ہوں۔کاش کہ ایسا نہ ہوا ہوتامجرموں سے سختی سے نپٹنا چاہئے "وہ بس اتنا ہی بولی ۔ وہ تھک جاتی تو ایک بنچ پر بیٹھ جاتی وہ ادھر ادھر ٹہل ٹہل کر باتیں کرتا رہتا۔۔ دونوں ہی اسوقت غصے اور افسوس میں تھے۔۔ 
حفاظتی اداروں نے تھینکس گیونگ پر حملوں سےمتنبہ کیا تھاشکرہےکہ  خیریت رہی ۔بلیک فرائڈے کی وہی رونقیں ، خریداریاں اور بھیڑبھاڑ۔۔
ہر جگہ کرسمس کی بتیوں کی چکا چوند تھی اسکے محلے کے تقریباً سارے ہی مکان کرسمس لائٹوں سے سج گئے۔ایک انکا گھر ان معدودے چند گھروں میں تھا جسپر بتیاں نہیں تھیں ۔اسنے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ لال پتوں والے دو گملے ہی لاکر باہر دروازے پر رکھ دے اسمیں أ ٓخر کیا برائی ہے ۔۔وہ یوں بھی زیادہ سخت مزاج نہیں تھی۔۔

کولوروڈو اسپرنگ میں خاندانی منصوبہ بندی کے دفتر پر فائرنگ ہوئی ۔۔ تین لوگ ہلاک ہوئے ۔۔ چھ گھنٹے مقابلے کے بعد حملہ أؤر پکڑا کیا اسنے اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اسکا مسلمانوں اور داعش وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں نکلا ۔۔امریکہ میں جو چاہےمن پسند گن،  بندوق ، پستول خرید سکتا ہے ۔۔ اسلئے اسلحہ کے شائقین کی عیاشی ہے لیکن ساتھ ہی یہاں ہر ایک کے پاس بندوقیں أئے روز کی قتل و غارتگری کا سبب ہیں۔۔
رابرٹ سے اسکے بارے میں باتیں ہوئیں "بندوق ،گنز پر پابندی ہونی چاہئےاگر یہ کھلا اسلحہ نہ ہو تو آئے دن کی یہ فائرنگ اور قتل وغارتگری قابو میں آجائیگی۔امریکہ میں آئے دن اسکولوں ،کالجوں یونیورسٹیوں اور مختلف جگہوں پرفائرنگ ہوجاتی اور کئی ہلاکتیں ہو جاتیں۔"۔رابرٹ مسکرا کر کہنے لگا ،" مجھے تو گنز بہت پسند ہیں اور میں اس تجویز کی  سختی سے مخالفت کرونگا۔ ہمیں اپنی حفاظت کیلئے گنز کی ضرورت ہے" وہ اسے حیرت  اور افسوس سے دیکھنے لگی۔۔
وہ گھوم پھر کر واپس أئی تو ٹی وی پر سی این این  لگایا ۔ سان برنارڈینو میں ذہنی معذورین کے سنٹر پر فائرنگ سے 14 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو چکےتھے۔۔تین حملہ آور فائرنگ کرکے فرار ہوچکے تھے ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ہر چینل پر یہی خبر شد ومد کے ساتھ تھی ۔وہ بھونچکا رہ گئی یا اللہ خیر۔کسی مسلمان کی حرکت نہ ہو" اسنے اپنی دوست کی خیریت پوچھنے کے لئےفون کیا جو وہاں قریب ہی رہتی تھی۔۔وہ بھی ٹی وی سے جڑی پریشان بیٹھی تھی۔۔ دو سال پہلے وہ اسکےپاس گئی تھی اور دونوں جب ٹرین میٹرولنک پر لاس اینجلس جاتیں تو سان برنارڈینو کا اسٹیشن فورا ہی أٓجاتا۔۔شام کے ہوتے ہوتے دو قاتلوں کے نام منظر عام پر أئے ۔۔یہ پاکستانی نسل کا شادی شدہ جوڑاتھا۔۔مبینہ قاتل سید فاروق اسی ادارے میں کام کرتا تھا۔۔خبروں کے مطابق وہ وہاں ہونیوالی کرسمس پارٹی میں موجودتھا، اسکی ایک ساتھی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی گھرأ ٓیااپنی بیوی تاشفین ملک کو لیا، چھ ماہ کی بیٹی کو ماں کے پاس چھوڑا یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں ۔جنگجؤں والے کپڑے پہنے اتنے سارے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کر کے بھاگ أئے چار گھنٹے کے بعد پولیس نے انکو بے دردی سے قتل کردیا۔۔چشم دید گواہوں کے مطابق دونوں کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے تھے۔ عورت تاشفین ملک باپردہ عورت تھی لیکن اسوقت وہ مختصر لباس میں تھی۔ میڈیا، پولیس اور ایف بی أئی مجرموں کو کیفر کردار کو پہنچانے پر مطمئن تھی ۔شروع میں تو کہا گیا کہ کسی گروہ سے تعلق نہیں  ہے لیکن بعد میں ریڈیکالئزیشن کی گردان ان کا سب سے بڑا جرم ٹہری ۔۔اسلام پر عمل پیرا ہونا دہشت گردی پر اکساتا ہے ۔۔وہ بری طرح لرز گئی تمام مسلمان ہی دہشت زدہ رہ گئے۔ میڈیا پر تو ایک طوفان ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا ۔۔ مسلمان اور پاکستانی اس جوڑے کے کردہ یا نا کردہ گناہ پر شرمسار اور نادم تھے۔۔یقین کرنیکو تو جی نہیں چاہ رہاتھالیکن شواہدیہی تھے کہ وہ دونوں قاتل تھے۔انکا ماضی حال کنگالا جارہاتھا ۔۔فاروق نے اپنی پسند کی پردہدار لڑکی سے ایک أ ٓن لائن ویب سائٹ کے ذریعے رشتہ کیا ۔۔نکاح مسجد الحرام مکہ معظمہ میں ہواتھا۔ایک اچھے مسلمان کے لئے تو یہ سب باعث سعادت تھا۔۔لیکن کیا وہ دونوں واقعی قاتل اور مجرم تھے؟۔متضاد خبروں نے اسکا ذہن بے حد پریشان کردیا۔ہر وقت کی خبریں اور تبصرے ذہنی اذیت اور کوفت کا باعث تھے اسپر سیاسی لیڈروں کے زہر آلود پیغامات۔۔
ان حالات کی وجہ سے وہ بہت دلبرداشتہ اور غمزدہ تھی۔۔ 
آج موسم ابرآلود تھا شام کو بارش کی پیشن گوئی تھی اسنےسوچا کچھ چہل قدمی کر أؤں شاید رابرٹ ملے ۔اسے یہ سوچ کر کچھ گھبراہٹ سی ہوئی " اللہ جانے وہ کیسا محسوس کررہا ہوگا ؟ ایک مرتبہ تو اسنے اتنا بھی کہا کہ یہ سارے مذہب ہی فساد کی جڑ ہیں "لیکن پھر وہ اسلام میں کافی دلچسپی بھی لینے لگا تھاشاید اسلام قبول کرلے وہ اکثر سوچتی ۔انکی بس یہی چلتے پھرتے ملاقات اور گپ شپ ہوتی وہ اپنے کتوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتاتھا۔اپنے کتوں کو لپٹاتا ، ہاتھ پھیرتا رہتا اسے اسکے کتوں سے بڑی گھبراہٹ ہوتی  اور وہ ہمیشہ یقین دہانی کرتا کہ یہ بہت ہی تمیزدار اور سدھے ہوئے کتے ہیں ۔۔ یہ تو میرے بہت پیارے بچے ہیں رابرٹ لاڈ سے کہنے لگتا ۔بیوی سے طلاق ہوچکی تھی ایک بیٹا تھا وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ انکے متعلق اسنے مختصراً بتایا۔
 اسی ادھیڑ بن میں وہ باہر نکلی فون پر تلاوت لگا کر ایرپلگ لگالئے۔۔ایک عجیب سا مہیب سناٹا چھایا ہوا ۔با دلوں کا رنگ گہرا ہو رہاتھا ،ہوا بالکل بند تھی یوں لگتا تھا طوفان کی أمد أمد ہے ۔ ایسے موسم میں یہاں یوں بھی لوگ دبک جاتے ہیں دور دور تک کوئی نہیں نظر أرہاتھا۔
اچانک دور سے رابرٹ اپنے ٹرک میں جاتا ہوا دکھائی دیا اسکے پاس ایک ہیوی ڈیوٹی پک اپ تھا جسے یہاں ٹرک کہتے ہیں ۔اسنے اسے ہاتھ ہلایا لیکن وہ جیسے نظر انداز کرکے گزر کیا۔۔" چلو کوئی بات نہیں جلدی میں ہوگا" اسنے جیسے اپنے آپکو تسلی دی۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کہ گھوم پھر کر چکر لگا رہا ہے اب وہ پارک کے قریب پہنچ چکی تھی ۔وہاں بھی ہو کا عالم تھا شاید موسم کا اثر تھا۔۔
اتنے میں رابرٹ نےاسکے قریب آکر گاڑی آہستہ کی ،کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔۔وہ اسکی جانب جیسے ہی متوجہ ہوئی "او یو بلڈی ٹیررسٹ "اس نے جواب دینے کے لئے منہ کھولاہی تھا ۔۔تڑ تڑ تڑ تڑ گولیوں کی بوچھاڑ، وہ چکرا کر گر پڑی۔۔خون کے فوارے جاری تھے اسکی شہادت کی دعا قبول ہوچکی تھی ۔۔ اسکا فون دور گر پڑا ۔۔اور تم انہیں مردہ مت کہو  ۔ جو اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہیں اور اللہ کے ہاں رزق پا رہے ہیں البقرہ کی آیات کی تلاوت جاری تھی۔۔۔۔۔





-- 

Tuesday, December 15, 2015

سقوط مشرقی پاکستان

سقوط مشرقی پاکستان کو 44 برس گزر گئے ۔۔آئے دن جماعت اسلامی اور جمیعت کے وہ طلباء جنہوں نے پاکستانی فوج کی نگرانی میں البدر اور الشمس بنا کر افواج پاکستان کا ساتھ دیا تھااب ضعیف اور مضمحل ہیں ۔۔حسینہ اور اسکی پارٹی کے انتقامی جذبے کی تسکین انکو سزائے موت دے کر ہو رہی ہے ۔۔انمیں سے کئی کو جو باعزت زندگیاں بسر کر رہے تھے پھانسی کی سزا دی گئی۔۔ افسوس کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان نے انہیں قطعی نظر انداز کر دیا ۔۔۔


 انتظارِ صبح نو
از
عابده رحمانى


مرینہ بلک بلک کر اور ہچکیاں لے کر روتی رہی۔ لگتا تھا کہ وہ چپ ہی نہ ہو پائے گی ان دو ڈھائی سالوں کی دکھ ، تکلیف ، بے بسی او ربے چارگی کی داستان آنسوؤں کی صورت میں رواں تھی۔
ساتھ میں لیٹا ہوا مرد بت بنا لیٹا رہا۔ بالکل بے حس و حرکت جیسے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یا پھر وہ اپنی بیتاؤں سے تھک کر چورا اور نڈھال ہو گیا تھا۔ وہ بس ہچکیاں لے لے کر روتی رہی وہ نہ تو کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ ہی کچھ بتا رہا تھا یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ دو سالوں کی مسافت اس نے پیدل طے کی ہو ان دو سالوں میں کیا کچھ نہ ہوا؟ ملک کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا تباہی و بربادی کی ایک طویل داستان تھی۔ ہزاروں فوجی دشمنوں کی قید میں تھے۔ کتنی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم و بے آسرا ہو چکے تھے ۔وہ اپنا بھرا پرا گھر وہیں چھوڑ آئے تھے اور رشتہ داروں کے رحم و کرم پر تھے۔ مرینہ اور اس کے بچوں نے یہ وقت کیسے گزارا ؟اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جان سکتا تا ان لوگوں نے اپنے گھر پر رکھ لیا تھا یہی بڑی مہربانی تھی۔
 وہ جب اپنا گھر بند کرکے وہاں سے روانہ ہوئے تو اس خیال سے کہ کچھ عرصے میں حالات بہتر ہو جائینگے اور واپس آ جائیں گے لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جواد نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ حالات بہتر ہوتے ہی وہ اسے اور بچوں کو واپس بلائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ فوجی آپریشن کے بعد بظاہر لگ رہا تھا کہ    حالات قابو میں آ گئے ہیں لیکن وہ صرف ڈھاکے کی حد تک تھے۔ باقی ملک میں بغاوت ، دہشت گردی اور تباہی و بربادی تھی۔ بھائی ، بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا مرنے والے اور مارنے والے دونوں مسلمان تھے لیکن لڑائی بنگالی ، بہاری اور پنجابی کی تھی۔ زبان ، رنگ و نسل پر ہم مسلمان جتنے منقسم ہیں شاید دنیا کا دوسرا کوئی مذہب نہ ہو دشمن اس تمام حالات کا بے حد فائدہ اٹھا رہا تھا وہ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی ٹھانی تھی اس وقت منصف بنے ہوئے تھے۔
مجیب تو ڈھیلا ڈھالا کنفیڈریشن چاہتا تھا لیکن یحییٰ خان ، بھٹو اور انداراگاندھی نے اسے پورا ملک دے دیا ، ہزاروں لاکھوں بے گناہ ان کی کارستانیوں کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ کتنے خاندان بٹ چکے تھے بہت سے دوراندیش تو جب حالات کی نزاکت بھانپ کر مغربی پاکساتن آ چکے تھے اور اس دوران انہوں نے یہیں پر رہائش اختیار کر لی تھی لیکن کچھ ایسے ناعاقبت اندیش اور خوش فہم بھی تھے جو حالات بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ مرینہ کا شوہر ان میں سے ایک تھا۔ بیوی بچوں کو کراچی میں چھوڑ کر وہ واپس ڈھاکا چلا گیا تھا۔ اس کی کمپنی کے پاس فوج کے ٹھیکے تھے اور وہ لوگ فوجیوں کے لیے بیرک بنا رہے تھے تو کہیں رن وے بنا رہے ہیں اور کہیں دیگر کام کر رہے تھے۔ کمپنی تو بے حد خوش تھی کہ اسے دھڑا دھڑٹھیکے مل رہے ہیں۔
 آتے وقت مرینہ اپنے ساتھ زیورات لے آئی تھی۔ بینک میں تھوڑی سی رقم تھی اور پھر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ابا کے بہت سمجھانے پر ایک 600 گز کا پلاٹ خرید لیا تھا۔ ورنہ تو بالکل تہی دامنی کا احساس ہوتا۔ پھر بھی بے حد مجبوری اور کسم پرسی کا عالم تھا ۔اس کے والدہ نے تو صاف ان کار کر دیا تھا اور اپنی بے حد مجبوری ظاہر کر دی تھی ۔ انہوں نے مرینہ سے صاف کہ دیا کہ بہتر یہ ہے کہ کہ تم کوئی اپنا ٹھکانا کر لو اور واقعی وہ بہترین حل تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا گھر کراء ے پر لے لیا جاتا لیکن ابا اس پر تیار نہیں تھے اب بھی اس کے سسر بھی اس زعم میں تھے کہ تھوڑے دنوں کی بات ہے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ گھر وغیرہ لینا فضول ہے آپس میں گزارا کر لیا جائے اور یوں وہ جیٹھ کے گھر رہنے پر مجبور ہو گئیں تھی۔ وہ بچے جو شہزادوں کی طرح رہتے تھے عجب کملا گئے تھے جیٹھانی کافی بیمار رہتی تھی اس لیے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری اس پر تھی۔ برتن مانجھ مانجھ کر اس کی انگلیوں سے خون رسنے لگا تھا اس نے یہ کام کبھی کیے نہیں تھے اور اس سے بچاؤ کے انتظامات کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔
نند جو کبھی اس کی بچپن کی سہیلی تھی ،کبھی ملنے آتی تو طنز اور طعنوں سے اس کی تکالیف میں مزید اضافہ کر دیتی۔نا معلوم اس کی طبیعت میں اتنی تلخی کیوں تھی ؟ وہ بہت سخت طبیعت کی تھی ، اپنے میاں کے ساتھ بھی ہر وقت اس کی معرکہ آرائی رہتی اور یہاں آتی تو بس زہر ہی ا گلتی ، ابا ہی واحد فرد تھے جو اس کے ساتھ اور اس کے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے وہ ان کے کمرے میں جاتی اس کا بستر جھاڑتی ، میلے کپڑے دھونے کے لیے یا دھوبی کو دینے کے لیے اٹھا لاتی۔ ان کے بستر پر ڈنڈوں کے ساتھ ایک مچھر دانی لگی ہوتی تھی کراچی میں کھڑکیاں کھلی ہوں تو سوائے دھول مٹی کے کچھ اندر نہیں آتا۔ مغرب کی جانب کھلی ہوئی کھڑکیوں سے اگرچہ ہوا اچھی آتی ہے لیکن وہ دھول مٹی سے اٹی ہوتی ہے ، مچھر دانی مٹی سے اٹی ہوئی تھی اس نے سوچا کہ اسے دھو لیا جائے اب جب کھولنے لگی تو ہر گرہ کے اندر کٹھملوں کی بھرمار تھی۔ پھر جو اس نے گدا اٹھایا تو پلنگ کی چولیں کٹھملوں سے کالی ہو رہی تھیں۔ یہی حال اس کے اپنے کمرے میں پلنگوں کا تھا۔ ساری رات کٹھمل کاٹتے وہ اور بچے کھجلاتے رہتے ہو سمجھی کہ شاید مچھر کاٹتے ہیں۔ سارے بازو ٹانگیں کھجلی اور کاٹنے سے داغدار ہو گئے۔ رات کو جب اس نے لائٹ جلائی اور تکیہ اٹھایا تو وہ کھٹملوں سے بھرا تھا جو اس کا اور بچوں کا خون چوس کر خوب صحت مند لگ رہے تھے۔ اب اس کا کیا علاج ہے ؟ ایک بہت ہی بدبودار دوائی بازار سے پوچھ کر خوید کر لائی۔ دکاندار نے بتایا کہ گدے کے نیچے اور پلنگ کی چولوں پر خوب اسپرے کرکے دروازہ بند کر دیں ، کٹھمل مر جائیں گے لیکن کچھ دنوں کے بعد پھر کرنا پڑے گا۔ بھابھی سانس کی مریضہ تھیں کسی قسم کی خوشبو یا بدبو برداشت نہیں کر پاتی تھیں۔
ایک روز وہ لوگ کسی کے ساتھ پکنک پر چلے گئے اور شام سے پہلے واپسی متوقع نہیں تھی۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور بستروں پر اسپرے کر دیا۔ اس قدر کھٹمل تھے کہ نیچے فرش سیاہ ہو گیا۔ اس کی بدقسمتی کہ وہ لوگ جلدی واپس آ گئے۔ اس کے کمرے کے دروازے بند تھے لیکن بدبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی اور بھابھی کو زبردست سانس کا دورہ پڑا۔ اس پر مجرمانہ احساس اتنا طاری رہا کہ وہ ان سے کچھ ہمدردی بھی نہ کر سکی اور کرتی بھی کیسے؟ ان سب کی کاٹ کھانے والی نظروں کی اس میں کہاں تاب تھی۔
ابا کے پلنگ پر کٹھملوں کا راج دیکھ کر اس نے کہا ’’اب آپ کے پلنگ پر دوائی ڈالنی چاہیے یہ تو آپ کو بری طرح کاٹتے ہونگے"
 نہ معلوم وہ واقعی ان کو نہیں کاٹتے تھے یا وہ بہت یہ صابر و شاکر تھے کہنے لگے ’’نہیں بھئی ہمیں کچھ نہیں کہتے اپنا ایک طرف رہتے ہیں‘‘ لیکن اس نے ان کمرے میں اس وقت دوائی ڈالی جب بھائی جان ، بھابھی کو لے کر آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے راولپنڈی اور مری نتھیا گلی گئے تھے۔ ابا کے لیے بازار سے کپڑے لے آئی، کڑتے اور پاجامے سیئے ۔ وہ سفید کرتا اور پاجامہ ہی پہنتے تھے۔ کچھ کرتوں پر ہلکی سی کڑھائی کر دی گلے اور آستین پر ۔ابا اس پر آشوب دور میں اس کے واحد ہمدرد اور بہی خواہ اور محبت کرنے والے تھے۔ ان سے اس کا تعلق بھی پرانا تھا انہوں نے ہی اسے پسند کرکے جواد سے رشتہ کیا تھا۔
ایک مرتبہ جب جواد کا رویہ کچھ تلخ اور Ignoring ہو گیا تھا تو ابا نے انہیں سختی سے ڈانٹا تھا اور اپنے رویے کا جائزہ لینے کے لیے کہا تھا۔ شام کے وقت اب برآمدے میں آ کر بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے ان کے پڑھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ منو کو پڑھانا انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ وہ ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں سنتی اور ان سے Discuss کرتی تھی۔ خبریں سننا اور اس پر تبصرہ کرنا پرانا شوق تھا۔ اپنا ریڈیو اور ٹی وی جو خبریں ہمیں دیتا تھا اس کے لحاظ سے سب اچھا تھا۔ حالانکہ حالات بہت دگرگومں تھے۔ وہ بی بی سی سن کر بہت پریشان ہو جاتی اور اس بناء پر انہوں نے بی بی سی سننے سے منع کر دیا۔ رات کو تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے ابا کی آہ وزاری کرنے سے اس کی آنکھ اکثر کھل جاتی کیا پھوٹ پھوٹ کر گڑگڑا کر وہ اپنے رب سے دعائیں کرتے تھے اور یہ ان کا روز کا معمول تھا۔
اسے کوئی کام ہو ، ضرورت ہو ، وہ ابا سے کہتی تھی وہی لے کر اسے با زار جاتے ، خریداری کرواتے ، جان پہچان والوں سے ملوانے لے جاتے تھے۔ جواد عید گزارنے کراچی آئے تو ان کا خیال تھا کہ مرینہ اور چھوٹے ہاشم کو لے جائیں گے۔ بڑے دونوں وہیں رہیں گے اور ابا وغیرہ خیال رکھیں گے۔ وہ بھی کتنے بڑے تھے ایک سات سال ایک پانچ سال کا تھا اب اور مرینہ نے اس تجویز کو بالکل رد کر دیا۔ ’’اتنے چھوٹے بچوں کا خیال کون رکھ سکتا ہے؟ اور بھابھی تو اس قدر بیمار رہتی ہیں ۔ ان سے تو اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داری نہیں سنبھالی جاتی۔"
 وہ آئے تھے جانے ہی کے ارادہ سے تھے۔ بتا رہے تھے کہ اتنے اہم پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ خلیل صاحب نے کہا ہے کہ ایک ہفتے میں واپس آ جائیں۔ دیگر بہت سے دوست احباب جن کی فیملیز مغربی پاکستان میں تھیں رک گئے۔ حالات بگڑنے کی خبریں آ رہی تھیں۔ خبروں میں آیا کہ جیسور کی طرف انڈیا نے بڑا حملہ کیا ہے اور کافی علاقہ قبضے میں لے لیا ہے ۔جس ملک کے اپنے ہی عوام بغاوت پر آمادہ ہو جائیں بلکہ اس قدر وسیع پیمانے پر اس کو بچانا مشکل نظر آ رہا تھا ۔مکتی باہنی (آزادی کی فوج) بنگالی نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت تھی اس میں بہت سے فوجی بھی شامل ہو گئے تھے۔سب سے بڑھ کر فوج کا بنگالی حصہ ،طالب علم تنظیمیں ، مزدور اور ہر پیشہ کے لوگ تھے جو اب پاکستان سے آزاد ملک بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے۔ ہندوستان تو ان کا سرپرست اور کرتا دھرتا تھا ہی دیگر پاکستان دشمن ممالک بھی ان کے حامی اور Supporter تھے۔ پھر ان لوگوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی بہت ہدردی پا لی تھی۔ مغربی پاکستان کی فوج کا حال وہاں ایسا ہی تھا جیسے کہ وہ غیر ملک میں ہوں۔ زبان ، کلچر ، سرزمین سب تو غیر ہی تھی۔ ایک چیز مذہب یا دین جو کہ ان میں مشترک تھا وہ اس وقت بہت بڑے غلاف کے اندر بند ہو چکا تھا۔ اس وقت لسانیت ، علاقائیت او رفسطائیت کا راج تھا۔
تقسیم ہند کے واقعات تو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوئے تھے لیکن آپ بنگالی ، بہاری اور پنجابی کے درمیان تھے تمام اردو بولنے والے بہاری کہلاتے تھے اور مغربی پاکستان کے تمام رہائشی پنجابی کہلاتے تھے۔ صرف نو سال پہلے جب وہ یہاں پہلی مرتبہ شادی کے بعد آئی تھی تو اسے یہ سرزمین اور یہاں کے باسی بہت بھائے۔ ہرا بھرا سرسبز ملک اور سیدھے سادھے لوگ ، دکھاوا اور بناؤٹ سے بے نیاز ، دکھاوا اور بناؤٹ تو مغربی پاکستانیوں میں تھا جو پنجابی کہلاتے تھے یا اردو بولنے والوں میں جو بہاری کہلاتے تھے۔ 
ہو گئی تھی جواد کہتے تھے ’’بنگال کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہو جاتا ہے میں بھی جب تک یہ نکالیں گے نہیں یہاں سے جانے والا نہیں ہوں‘‘ جواد کی باقی فیملی پاکستان کراچی اور راولپنڈی آ کر آباد ہو گئے تھے لیکن وہ آنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر ہر طرح کا آرام ، ہر چیز کی فراوانی ، بہترین ملازمت بلکہ پھر تو کمپنی کے ڈائریکٹر ہو گئے تھے۔ عمدہ مکان ، سہولیات ، نوکر چاکر ، دو کاریں ، ڈرائیور وہ سب کچھ تھا جس کی ایک آدمی تمنا کر سکتا ہے۔
وہ کہتی تھی کہ یہ بھی ہمارا ملک ہے اور پھر ہم یہاں خوش ہیں۔ اللہ نے ان کو اولادوں سے نوازا۔تین بیٹے ، ایک بیٹی عطا کی۔ بیٹی کا پیدائش کے وقت ہی انتقال ہوا۔ یہ دونوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس مٹی میں ان کا ایک جگر گوشہ بھی دفن تھا۔
وہ جب یہاں آئی تھی تو اس نے پہلے کبھی ساڑھی نہیں پہنی تھی۔ جواد نے اسے کئی ساڑھیاں لا کر دیں اسے ساڑھی بہت پسند تھی ، بس پھر تو ساڑھی ہی اس کا لباس بن گیا۔ رات کو پیٹی کوٹ اور بلاؤز میں سو جاتی دن میں ساڑھی لپیٹ لیتی۔ کاٹن کی ابرق اور کلف لگی ساڑھیاں خوب چمک دیتیں۔ کانجی ورم ، کتھان بنارسی ، پیور سلک ، شفون ، جارجٹ غرضیکہ اس کے پاس ساڑھیوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ لمبا قد ، دبلا پتلا سراپا ساڑھی اس پر خوب جچتی۔
جب بیگم باز نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئیں۔ "ارے تم تو پوری بنگالن بن گئی ہو"
 یہ اس کے ابا کے ایک عزیز دوست کی بیگم تھیں۔ بریگیڈیئر باز ملٹری Intelligence میں تھے بلکہ مشرقی پاکستان اگرتلہ سازش کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ کچھ یہاں کے پانی کا کمال تھا کہ اس کے بال خوب گھنے اور لمبے ہو گئے تھے اس کا وہ جوڑا لپیٹ لیتی تھی۔ وہ جب چھوٹی تھی تو اس کی امی کو اس کے بال لمبے کرنے کا بہت شوق تھا وہ اسے ایک تیل لگاتی تھیں جس کا نام زلف بنگال تھا۔
اور حقیقاً زلف بنگال ، اسم بامسمیٰ تھا یہاں پر بال کاٹنے کا فیشن ہی نہیں تھا ہر عورت کے لمبے گھنے سیاہ بال ہوتے اور اس کے جوڑے بنے ہوتے تھے کٹے ہوئے بال یہاں بہت بڑا فیشن جانا جاتا تھا۔ بنگالی خواتین مغربی پاکستان کی بال کٹی ہوئی خواتین کو بہت موڈ Mod سمجھتی تھیں ، ہر جگہ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے یہاں کی ثقافت پرہندوانہ رنگ غالب تھا ماتھے پر بندیا ، ساڑھی ، چھوئے بلاؤز کمر تک ، پیٹ دکھائی دینا کوئی عجب نہ سمجھا جاتا۔ شروع میں تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ بہت سی دیندار خواتین کے بھی پیٹ کھلے ہوتے ہیں اور بازو چھوٹے ہوتے ہیں۔ نماز کے وقت ساڑھی کو کھول کر لپیٹ دیا جاتا ، غریب عورتیں اور نوکرانیاں نو بلاؤز پہنتی ہی نہیں تھیں اس کے خانساماں کی بیوی خدیجہ جب کچن میں بغیر بلاؤز کے ساڑھی لپیٹ کر آتی تو اسے بہت خفت اور شرم محسوس ہوتی۔ خدیجہ کو اس نے اپنے بلاؤز دیے کہ پہن کر آئے۔ کچن میں آتے وقت خدیجہ الٹا سیدھا بلاؤز پہن کر آتی تھی وہ لوگ پیٹی کوٹ بھی نہیں پہنتی تھیں بس ساڑھے کو گرہ لگا کر باندھ لیتیں۔ خدیجہ کو ایک روز تیز بخار تھا تو وہ اسے دیکھنے کوارٹر گئی وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور بلاؤز پہننے لگی۔ ’’بیگم صاحب بہت گرمی ہے‘‘ اس نے بنگلہ میں کہا ۔
یہاں کی زندگی میں ایک غنائیت تھی ، ناچنا گانا ، یہاں کے بنگالی کلچر کا ایک حصہ تھا ۔ جواد کا خاندان پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان آ کر آباد ہوا تھا ان کے والد یعنی ابنا ریلوے میں تھے۔ وہ لوگ تو پھر مغربی پاکستان آ گئے۔ لیکن جواد یہیں تھے۔ سید پور سے میٹرک کرنے کے بعد ڈھاکہ آگئے ۔ یہیں پر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور ملازمت شروع کی۔ مرینہ نے زیادہ تر نوکروں کے ساتھ بول کر اچھی خاصی بنگالی سیکھ لی تھی۔
مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال کے مسلمان لیڈروں کا تقسیم ہند میں بہت اہم رول تھا۔ مولوی فضل حق، مولوی تمیز الدین خان ، نواب خواجہ ناظم الدین (جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے) خواجہ شہاب الدین اور گورنر جنرل (جو وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر فائز رہے۔ مسلم لیگ کے صف اول کے رہنماؤں میں تھے۔
ان کی کوششوں سے مشرقی بنگال ہندوؤں کے تسلط سے آزاد ہوا اور خودمختار پاکستان کا دوسرا حصہ بنا۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ مساویانہ سلوک ہرگز نہیں ہو رہا ہے۔ وسائل اور اقتدار کی تقسیم انتہائی غیرمنصفانہ ہے۔ جب قائداعظم آئے اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہ دیا کہ اردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہو گی تو اس کو بنگالیوں نے ہرگز تسلیم نہ کیا کیونکہ پورا مشرقی پاکستان بنگالی بولتا تھا جب کہ اردو پاکستان کے کسی حصے کی زبان نہیں تھی صرف اردو دان طبقے کی زبان تھی۔
اس کے والد اکثر افسوس کرتے تھے کہ کاش قائداعظم اور ان کے ساتھی عربی کو قومی زبان بنا دیتے تو سب اس پر متحد ہو جاتے۔
اس اعلان کے فوراً بعد بنگالی طلباء نے بہت بڑا جلوس نکالا اور کہا کہ اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنایا جائے۔ اس جلوس میں شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور وہاں کے مجسٹریٹ کے آرڈر سے گولی چلی اور کئی طلباء مارے گئے۔ یہی وہ دن تھا جب نفرت اور عداوت کا پہلا بیج متحد ہ پاکستان کے خلاف بویا گیا۔ جہاں پر یہ واقعہ ہوا تھا وہاں شہید مینار بنایا گیا۔ ہر سال اس روز کو بڑھ چڑھ کر منایا جاتا تھا بلکہ لوگ ننگے پاؤں جلوس کی شکل میں جاتے اس کو وہ پربھات پھیری یا پیری ، کہتے تھے۔ خوب خوب تقریریں ہوتیں تھیں۔ نفرت او عداوت کو ہوا اور جلا ملتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ احساس عام ہوتا گیا کہ ایک اور خطے اور زبان کے بولنے والے لوگ یہاں کے سیاہ و سپید پر حاکم ہیں اور خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہی رویہ اردو بولنے والوں یعنی بہاریوں کے ساتھ بھی شروع ہوا۔ اس طرح کی باتیں کھلے عام ہونے لگیں کہ انہوں نے ہمارے ملک کو لوٹا ہے اور ان کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارے ملک سے حاصل شدہ ہے یہاں کے وسائل کا ہے۔ اسلام آباد نیا نیا بن رہا تھا اس کی چمکیلی سڑکوں کا بڑا تذکرہ رہتا تھا پھر اس بات کو بہت اچھالا گیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ پٹ سن (Jute) مشرقی پاکستان کا Cash Corp تھا ۔ کپاس کی طرح اور ملک کا ایک بڑا زرمبادلہ اس سے حاصل ہوتا تھا۔
سیاستدانوں نے ان نفرتوں کو خوب ہوا دی۔ متحدہ پاکستان کے حامی بھی تھے لیکن اکثریت زہر اگلنے لگی۔
1968ء کے آخر میں جب ایوب خان کی حکومت Decade of Development دس سالہ ترقی کا جشن منا رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میںآئے دن ہنگامے زور پکڑ گئے۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے اور آئے دن کرفیو لگ جاتا۔ ایوب خان کی حکومت نے کچھ کوششیں کی تھیں۔ بنگالیوں کو قریب کرنے کی لیکن کچھ فائدہ نظر نہیں آتا تھا۔ مثلاً مشرقی پاکستان کو پوربو پاکستان اور مغربی پاکستان کو پچھم پاکستان کہا جانے لگا۔ ملک کے ان دونوں حصوں کے درمیان بھارت کا دو ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ اگر تلہ اور اس تین سال کے عرصے میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی۔
شیخ مجیب الرحمن کے اگر تلہ سازش کیس میں گرفتاری پر خوب مظاہرے ہوئے۔ مقامی باشندوں نے اسے کیس کو جھوٹا قرار دیا نعرے لگتے تھے ’’میتا کیس‘‘ یعنی جھوٹا کیس ، اگر وہ کیس سچ بھی تھا تو بھی اس میں صرف صوبے کا نام بنگلہ دیش رکھا گیا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ نہیں تھا۔ عوام کے مطالبے کو مانتے ہوئے ایوب خان کو شیخ مجیب کو رہا کو رہا کرنا پڑا اور آب وہ عوامی لیگ کے ایک بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کا طوطی بولنے لگا۔ وہ جو کبھی ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا اب ایوب خان کی مخالفت میں ڈٹ گیا۔ اب حکومت کے خلاف خوب خوب مظاہرے ہوئے۔ حسب معمولی مہنگائی ، کرپشن اور دیگر الزامات عائد ہوئے۔ آخرکار عوام کے دباؤ میں آ کر 1969 میں ایوب خان مستعفی ہوئے اور اقتدار کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا۔ بلکہ مارشل لاء لگ گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار میں آنے کے بعد مغربی پاکستان کا ون یونٹ ختم کیا اور چار صوبے بحال ہوئے کیونکہ یہ ایک شدید مطالبہ تھا کہ ون یونٹ ختم کیا جائے۔ مشرقی پاکستان کی حیثیت پانچویں صوبہ کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مغربی پاکستان میں پی پی پی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ انتہائی مقبول عوامی پارٹیوں کی صورت میں ابھریں۔ یحییٰ خان نے 1970ء میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا۔
ان کا پرانا خانساماں اسماعیل جس کو اب جواد نے اپنا سائٹ سپروائزر بنا لیا تھا ملنے آیا تو سلام کرنے کے بعد فرش پر بیٹھ گیا اور زار وقطار رونے لگا۔ ’’بیگم صاحب اجمل (بنگالی میں ازمل) کے ساتھ اب بڑا آدمی ہو گیا ہے۔ شیخ مجیب (مزیب) کے ساتھ رہتا ہے اپن کو تو اب پہچانتا ہی نہیں ہے۔ بیگم صاحب ہم نے اس کو ماں باپ بن کر پالا۔ خود خراب پہنا اچھا اس کو دیا۔ خود بھوکا رہا اس کا پیٹ بھرا کتنی محنت سے اس کو پڑھایا آپ تو سب جانتا ہے)‘‘ وہ اسے سوائے تسلی دینے کے کیا کہتی۔ یہ حقیقت تھی کہ جواد کے پرانے سوٹ جو کبھی تنگ اور کبھی ڈھیلے ہو جاتے تھے ، جوتے ، کپڑے تمام اسماعیل لے جاتا تھا۔ وہ کہتا تھا ، ’’بیگم صاحب ازمل یونیورسٹی جاتا ہے اس کا اور صاب کا ناپ ایک ہے‘‘ اجمل نے مغربی پاکستان کے خلاف ایک زہر اگلنے والی کتاب بھی لکھی تھی جو کہ کافی مقبول ہو گئی تھی اس کی شادی بھی شیخ مجیب کے گھر سے ہوئی تھی اور اسماعیل ایک عام تماشائی تھا۔ 
الیکشن ہوئے اور شفاف ہوئے مغربی پاکستان سے پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ جیت گئی۔ عوامی لیگ کی نشستیں پیپلزپارٹی سے زیادہ تھیں۔ ملک کے آئین کی رو سے شیخ مجیب کو حکومت دے دینی چاہیے تھی اور ملک کا وزیراعظم مان لینا چاہیے تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ اس پر تیار نہیں تھے ان کی منطق بھی نرالی تھی کہ اگرچہ مجیب کی اکثریت ہے لیکن مشرقی پاکستان میں بھٹو کی اور مغربی پاکستان میں مجیب کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے اس کو وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک عجیب سیاسی گورکھ دھندہ شروع ہو گیا تھا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شیخ مجیب اور اس کی پارٹی کو ملک کا سیاہ وسپید دینے کی شدید مخالفت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے" ادھر تم ادھر ہم "کا نعرہ لگایا۔ جو حقیقًا ایک ملک نہیں بلکہ دو ملکوں کی بات تھی۔ 
مرینہ کو یہ سب کچھ بہت برا لگ رہا تھا لیکن معاملہ بگاڑ کی طرف جا رہا تھا انہیں دنوں وہ اپنے چوتھے بچے سے حمل میں تھی اور طبیعت بھی مضمل رہتی تھی۔ بچی کی پیدائش کے وقت لیڈی ڈاکٹر (جو ایک فلپینی نسل کی امریکن ڈاکٹر تھی اور اس کا تیسرا بیٹا بھی اس کے ہاتھوں پیدا ہوا تھا) گانے گا رہی تھی اور اپنے مددگار عملے سے کہ رہی تھی۔ She is a very easy Patient اس کی ڈلیوری بہت آسان ہوتی ہے۔ سب کچھ نارمل جا رہا تھا اسے محسوس ہوا کہ بچے کی پیدائش کا لمحہ آ گیا ہے لیکن اسے یوں لگا جیسے اس کی جان نکل رہی ہے اور وہ چیخیں مارنے لگی۔ حالانکہ وہ ہمیشہ بہت صبر اور برداشت والی تھی۔ اسے اندازہ ہوا کہ بچے کی پوزیشن الٹی ہے ، باقی جسم تو پیدا ہو گیا لیکن سر ، اس کے بچوں کے سر ہمیشہ بڑے تھے۔ ڈاکٹر تیزی سے مختلف کوششیں کرتی رہی بچی پیدا ہوئی لیکن دم گھٹ گیا تھا رونے کی آواز نہ آئی تو وہ سمجھ گئی کہ کیا ہوا ہے اس کی اپنی حالت بھی بہت خراب تھی بالکل سٹریک ہوگئی تھی جواد بہت سمجھاتے اپنا اور بچوں کا واسطہ دیے لیکن اسے لگتا جیسے کہ وہ اندر سے بالکل خالی ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کس بات کی سزا دی تھی شاید یہ کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے نماز باقاعدگی سے نہیں پڑھ رہی تھی۔ اللہ کی ذات ، تقدیر ، اس کے حکم اور فیصلوں پر اس کا ایمان مزید مستحکم ہو گیا۔
بھٹو اپنے تمام قریبی عملے اور ساتھیوں سمیت خلیل صاحب کے ہاں ٹھہرا تھا۔ شیخ مجیب سے مذاکرات چل رہے تھے لیکن کوئی مثبت حل نہیں نکل رہا تھا۔ جواد بھی اکثر ملنے چلے جاتے تھے۔ خلیل صاحب ان کی کمپنی کے چیئرمین تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے وہاں کافی آسائشیں میسر تھیں۔ کچھ ہم پیالہ و ہم نوالہ والی کیفیت تھی۔ 
جواد کہتے تھے کہ مصطفیٰ کھر اور حفیظ پیرزادہ تو بھٹو کے آگے بالکل ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں پھر وہاں پر حسنہ بیگم اور بلو بیگم بھی تھیں۔
اب وہ سوچتی ہے کہ بھٹو اور یحییٰ خان کا ٹولہ ہی اس ملک کی علیحدگی اور تقسیم کا اصل ذمہ دار ہے۔ انارکی و انتشار کی اس کیفیت کا علیحدگی پسند عناصر خوب خوب فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بھارت ان کی زبردست پشت پناہی کر رہا تھا بلکہ اس سارے قصے کو خوب ہوا دے رہا تھا۔
اس ساری صورتحال میں عوامی لیگ نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ Non Cooperation, Non Alliance کہ نہ کوئی دفتر یا کام جائے گا اور نہ ہی کوئی دفتری کام ہو گا۔
پچھلے دو چار سالوں میں بنگلہ لسانی تحریک نے کافی جڑ پکڑ لی تھی ، اردو کے تمام سائن بورڈ کی جگہ بنگالی سائن بورڈ آ گئے تھے بلکہ انگریزی کے بھی خال خال دکھائی دیتے تھے۔یہی سوچ کر اسے بنگلہ زبان پڑھنے لکھنے کا فیصلہ کیا اور پڑوس کی مسز وہاب کے پاس بنگلہ سیکھنے جاتی تھی۔ وہ اس سے اردو سیکھتی تھیں کیونکہ ان کے شوہر اردو دان تھے۔ اس کے گھر کے ملازموں کے تیور بھی بدلنے لگے۔ صفائی والی حلیمہ کی ماں کہنے لگی۔ ’’بیگم صاحب آپ سب لوگ چلا جائے گا اس دیش سے، یہ سب ہمارا ہو جائے گا۔‘‘ اور واقعی ایسا ہوا۔ اس کے سارے ملنے والے جان پہچان والے آئے دن خاموشی سے کراچی اور لاہور جانے لگے۔
ہندوستان سے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ چل رہے تھے۔ کشمیری رہنماؤں یا دہشتگرد کہا جائے مقبول بٹ وغیرہ ایک بھارتی طیارہ گنگا ، اغواء کرکے لاہور لائے اور انہوں نے اسے ایئرپورٹ پر بم سے اڑا دیا۔ بھٹو ان کو شاباش دینے ایئرپورٹ پہنچا اور خوب تعریف کی۔ بھارت نے اس حرکت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے حدود پر سے پاکستان کی پروازیں معطل کر دیں۔ بھارت کے اوپر سے کراچی اور لاہور سے ڈھاکہ کی تقریباً اڑھائی گھنٹے کی پرواز تھی جب کہ اب کولمبو (سری لنکا) کے ذریعے پروازیں جا رہی تھیں تقریباً ساڑھے چھ گھنٹے کا وقت لگتا تھا کولمبو میں جہاز اتر جاتا تھا ری فیولنگ ہوتی تھی۔
مارچ کا مہینا تھا۔ انہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ چلے جاتے ہیں۔ کام کاج تو یونہی بند تھا۔ پورے خطے پر ایک جمود کی کیفیت طاری تھی ، یہی سوچ کر روانہ ہوئے تھے کہ حالات بہتر ہوتے ہی واپس آ جائیں گے لیکن اللہ جانتا تھا کہ دوبارہ آنا اس کے اور بچوں کی قسمت میں نہیں تھا۔ گھر کی چند لائٹیں تک جلی ہوئی چھوڑ آئے تھے۔ 21 مارچ 1971ء کو یہ لوگ کراچی پہنچے۔ دوستوں کی دو اور فیملیاں بھی ہمراہ تھیں۔ مسز کیانی پان کا ایک بڑا ٹوکرا لے آئی تھیں۔ پان ان دنوں کمیاب اور مہنگے تھے۔
23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان تھا۔ مشرقی پاکستان میں اس روز کھل کر بنگلہ دیش کے جھنڈے لہرائے گئے اور خودمختار بنگلہ دیش کے ترانے گائے گئے۔
25 مارچ کو جنرل ٹکا خان نے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کیا۔ مجیب الرحمان اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
اس دن بھٹو، ان کے ساتھی اور دیگر مغربی پاکستانی سیاستدان واپس آئے تو بھٹو نے کہا ''Thanks God Pakistan has been Saved'' لیکن پاکستان کے اسی دن دو ٹکڑے ہو چکے تھے۔
فوج نے زبردستی دفتر کھلوائے ، کاروبار ، کام شروع کروایا اور آرمی آپریشن شروع ہوا۔ عدم تشدد کا سلسلہ خونریزی میں تبدیل ہوا۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے لگا۔ تقسیم ہند کے قتل اور خونریزی ، ہندو مسلم اور سکھ فسادات کو لوگ بھول گئے۔ اب قتل و غارتگری تھی بنگالی ، بہاری اور پنجابی کی، کتنے جاننے والوں کو مار دیا گیا۔
ان کے پڑوس میں باسط صاحب کا فی بڑا خاندان میمن سنگھ میں رہتا تھا وہ لوگ ایک شادی کے سلسلے میں وہاں گئے تھے ان کا ایک بیٹا پاکستان آرمی میں میجر تھا۔ اندرون ملک تو پورے پورے خاندان ہلاک کر دیے گئے۔ اور یہی ان کے خاندان کے ساتھ ہوا۔ بیٹا جب آیا تو اسٹین گن لے کر نکلا اور راستے میں جو بھی بنگالی ملا اس کوشوٹ کرتا گیا۔ بڑی مشکل سے قابو میں آیا۔ مکتی باہنی والے پاکستان کے فوجیوں کو پکڑ کر نسیں کاٹ کر درخت پر لٹکا دیتے اور مرنے کے لیے تڑپتا چھوڑ دیتے تھے۔ یہی انجام اشمس اور البدر کے کارکنان کا کرتے تھے۔ یہ بنگالی طلباء تھے جو متحدہ پاکستان کے حامی تھی زیادہ تر اسلامی جمعیت طلباء کے کارکن تھے یا جماعت اسلامی سے تعلق تھا۔ فوج بھی باغیوں کو مارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی بلکہ خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات کی بازگشت بھی سنائی دیتی۔ جو دونوں طرف سے ہو رہی تھی۔ بظاہر ڈھاکہ اور چاٹگام کنٹرول میں لگ رہے تھے۔ جواد ان کو بلانے کا وعدہ کرکے چلا گیا اور جب دوبارہ آ کر گیا تو یہ کہ کر گیا کہ میری جیب میں ٹکٹ ہے جب بھی گڑ بڑ ہوئی اگلی فلائیٹ لے کر آ جاؤں گا‘ وہ جانتی تھی کہ ایسا ہرگز نہ ہو سکے گا اور وہی ہوا ۔اس کے جانے کے تین دن بعد ہی بھارت نے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جنرل نیازی پاکستانی فوج کے کمانڈر تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں دونوں حصوں کے درمیان کمرشل پروازیں قطعاً معطل ہو گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مغربی پاکستان کے فوجی وہاں تھے ان کے لیے وہ سرزمین ایک دیارغیر سے کم نہیں تھی۔ (رائل بنگال ٹائیگرز)فوج کا بنگالی حصہ بغاوت کرکے الگ ہو چکا تھا۔ وہ گوریلا جنگ یعنی مکتی باہنی کے کمانڈر بن چکے تھے اور اب بھارت کے شانہ بشانہ پاکستانی فوج سے لڑ رہے تھے۔
ان کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ جواد جاتے وقت ایک پستول خرید کر لے گئے تھے کہ اگر ضرورت پڑی تو استعمال کروں گا لیکن اس تمام صورت حال میں ان کی لاہور سے تعلق رکھنے والی دو رشتہ دار لڑکیاں جو وہاں اس کالرشپ یا انٹرونگ اس کالر شپ (Interwing ) پر پڑھ رہی تھیں واپس ڈھاکہ چلی گئی تھیں اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس تھیں (یہ ایک الگ داستان ہے) کیونکہ یہ ان کے لوکل گارڈین تھے اور وہاں ان کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ ان حالات میں جب کہ مرد اپنے خاندانوں کے پاس مغربی پاکستان آ چکے تھے ان لڑکیوں کا واپس جانا انتہائی حیرت انگیز تھا۔
اپنا ریڈیو اور ٹی وی تو پاکستانیوں کے دفاع اور بے جگری سے لڑنے کی کہانیاں سنا رہا تھا جب کہ بی بی سی کی خبریں بالکل الٹ ہوتیں اور یہی وہ وقت تھا کہ ابا نے اسے بی بی سی سننے سے منع کر دیا۔ ارے جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 1965 ء میں بھی بی بی سی نے کہا تھا کہ ہندوستان نے لاہور کر قبضہ کر لیا ہے۔ مت سنا کرو ایسی خبریں سوائے پریشانی کے کچھ نہیں ، لکین وہ چپکے چپکے سنتی تھی ، پھر خبر آئی کہ چھاتہ بردار ڈھاکہ اور اس کے مضافات میں اتر رہے ہیں۔
ایک دن پہلے ہی جنرل نیازی نے کہا ’’ہمارا دفاع مضبوط ہے بھارتی ٹینک میرے سینے پر گزر کر ڈھاکے میں داخل ہو گا‘‘ اور اگلے ہی دن پلٹن میدان میں وہ بھارتی جنرل ارورہ سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ 
اس سے چند روز پہلے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہو رہی تھیں۔ بھٹو کو نمائندہ پاکستان کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا، اس وقت بھی کنفیڈریشن کا معاملہ پیش کیا گیا۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا۔ بھٹو نے بڑی جذباتی تقریر کی (تقریریں کرنا اس کو خوب آتا تھا) اور پولینڈ کی پیش کردہ بڑی معقول تجویز کو اس نے پھاڑ کر پھینک دیا۔
پاکستانی ٹی وی اور ریڈیو اب بھی سب اچھاہے کی رٹ لگائے ہوئے تھا جب مرینہ نے بی بی سی سے ہتھیار ڈالنے کی خبر سنی تو بے تحاشہ اس کے منہ سے شدت غم سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ابا اور باقی سب لوگ گھبرا کر نکل آئے۔ جواد کی کوئی خبر جانے کے بعد نہیں آتی تھی اور اب ایک بہت ہی موہوم سی امید تھی کہ وہ بخیریت ہوں گے۔
ملک کا دوسرا حصہ بخوبی الگ ہو کر ایک اور آزاد ملک بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ بھارت ان کا نجات دہندہ تھا۔ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا اس کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ مواصلات کے تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ ایسے وقت میں انٹرنیشنل ریڈکراس اور جنیوا کنونشن کے تحت پاکستانی فوجیوں اور ویلین کی بخفاظت واپسی کا فارمولہ طے پایا۔ ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں اور سویلین کو بھارت لے جا کر کیمپوں میں محصور کرنا تھا۔ پاکستانی فوج کو ایک زبردست شکست ، ہزیمت اور پسپائی ہو چکی تھی۔ مجیب الرحمن کو آزادکرکے شان و شوکت سے بنگلہ دیش کا پہلا وزیراعظم بنایا گیا جب کہ بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے صدر بنے۔
یہ وقت ایک انتہائی بے یقینی ، غم ، افسوس اور بددلی کا تھا، ملک کا تو جو حشر ہونا تھا ہو چکا لیکن اسے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ کیا جواد واپس آ جائینگے ۔ اس کا شوہر اور اس کے بچوں کا باپ واپس آ جائے گا اور اس کا گھر پھر سے بس جائے گا ، بس ایک موہوم سی امید اور دعائیں تھیں۔ فوجی اور سویلین ہزاروں کی تعداد میں بھارت لے جائے گئے ارو یہ POW یعنی Prisnors of War یا جنگی قیدی کہلائے۔اڑھائی ماہ کے بعد جواد کی خیریت کی اطلاع انٹرنیشنل ریڈکراس کے ذریعے سے آئی کہ وہ محفوظ اور بخیر ہیں اور ایک دوست کے ساتھ محمد پور میں رہتے ہیں۔
یہ خبر ایک مژدہ جانفزا تھی ، اندھیری تاریک رات میں روشنی کی ایک کرن تھی کہ اس کے جواد صحیح سلامت ہیں۔ ریڈکراس کے ذریعے پیغام آنے جانے میں ایک سے دو مہینے لگ جاتے تھے اور پیغام بھی زیادہ سے زیادہ پچاس لفظ پر محیط تھا۔ پھر جب کچھ بنگلہ دیش کا ڈاک کا نظام بہتر ہوا تو جواد نے اپنے بھائی کو لندن ان کے نام خط بھیجا جو کہ اسکے بھاء ینوید نے کراچی ارسال کیا۔ اس خط میں پتے میں اس نے اپنے نام کے ساتھ ، خوندوکار ، لکھا تھا جو کہ ایک بنگالی ذات ، اور یہ محض ایک احتیاطی تدبیر تھی۔ جوابی پتا اپنے دوست شیرازی کا دیا تھا جو کہ پرانے ڈھاکہ میں رہتے تھے۔ ڈھاکہ فال کے بعد جب کہ ہر طرف قتل و غارتگری ہو رہی تھی شیرازی ان کو اپنے گھر لے گئے اورکئی روز تک اپنے ہاں رکھا بلکہ پناہ دی۔ شیرازی کے آباواجداد تو شیراز (ایران) سے آئے تھے پھر ڈھاکہ میں بنگالیوں بلکہ ڈھاکہ کے پرانے باشندے جنکو ڈھکیہ کہتے تھے ان میں انہوں نے شادی بیاہ کی ۔ ان کے ہاں بنگلہ اور اردو دونوں بولی جاتی تھیں اور وہاں کے لوگوں میں کافی عزت تھی۔
جواد نے اپنی ٹویوٹا کرولا 17 ہزار میں بیچ دی تھی۔ اس سے اپنا بھی گزر بسر کر رہے تھے اور اپنے دوست احباب کی بھی مدد کر رہے تھے اس لوٹ مار کے عالم میں یہ گاڑی بیچنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
            ا ب ان کے خطوط اسی طریقے سے آنے لگے۔ اس میں تقریباً تین سے چار ہفتے لگ جاتے تھے لیکن یہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔
اسی دوران ابا کے گھر پنڈی میں خالی ہو گیا تھا اور وہ مکان کی مرمت وغیرہ کی نیت سے پنڈی جانے کی تیاری کرنے لگے۔ جواد اپنے خطوط میں اپنی بے بسی مجبوریوں اور کسم پرسی کی داستان سناتے۔ اس سرزمین پہ جو کہ ان کی اپنی تھی جہاں سے انہیں عشق تھا وہ آج ایک قیدی اور بے یارومددگار کی زندگی گزار رہے تھے۔ جہاں قدم قدم پر خطرہ اور خوف تھا اور جو اب ایک ظلم کی بستی تھی پھر معلوم ہوا کہ کچھ لوگ دلالوں اور اسمگلروں کے ذریعے بھارت پہنچ گےء اور پھر بھارت سے نیپال اور بنکاک کے ذریعے پاکستان آئے، ظاہر ہے جواد بھی نکلنے کی کوشش میں تھے لیکن کب ؟ وہ جب خط بھیجتی تو بچوں سے بھی چند جملے ضرور لکھواتی وہ اپنے معلوم جذبات کا اظہار کرتے۔
ابا پنڈی جانے لگے تو اسے معلوم تھاکہ حالات اس کے لیے اور صبر آزما ہو جائیں گے۔ اس کو اس کی بھی گھبراہٹ تھی کہ وہ اکیلے کیسے رہیں گے بھابھی کہنے لگیں ’’وہ تو ہمیشہ جاتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔" ان کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے کہ رہی ہوں کہ خواہ مخواہ کی محبت جتا رہی ہو۔
جون کا مہینا تھا۔ ابا کو گئے ہوئے 3 ہفتے ہو چکے تھے۔ وہ مکان میں رنگ و روغن اور دیگر کام کروا رہے تھے۔ ایک شام اچانک ٹیلی گرام آیا کہ ان کی طبیعت کافی خراب ہے فوراً آ جاؤ ، یہ نقوی صاحب کی طرف سے تھا۔ سب لوگ بے حد پریشان ہوئے۔ نند صاحبہ کے ہاں دعوت تھی وہ بھی فارغ ہو کر آئیں۔ ابا کے جانے سے پہلے ان کی اور ابا کی خوب جھڑپ ہوئی تھی۔ ابا نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ اب میں پنڈی سے نہیں آؤں گا ۔ بھائی جان اگلی فلائیٹ سے روانہ ہوئے لیکن ابا جان کو جان لیوا اسٹروک ہوا تھا پہنچنے سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور جا چکے تھے بہت عظیم سانحہ تھا اس کو ایسا لگا کہ اس کا بزرگ ، اس کا سرپرست اس کا غمگسار چلا گیا ۔ وہ تو ان کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہی تھی ۔ اس کی نند تو شدت غم سے دیوانی سی ہو گئی شاید پچھتاوا بھی ہو۔ابا کو وہیں دفنایا گیا ، اماں اور شاہد (ان کا چھوٹا بیٹا) بھی وہیں دفن تھے۔
پہلے تو سوچا گیا کہ جواد کو بے خبر رکھا جائے لیکن پھر اطلاع کر دی گئی اس کسمپرسی کے عالم میں ان پر بھی قیامت گزر گئی۔ شیرازی کا چھوٹا بھائی منو بڑی باقاعدگی سے آتا تھا وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس کو وہاں سے کوئی خبر ملتی تو دینے چلا آتا۔ اور وہ اپنا دکھ درد بھی بانٹ دیتے۔ ابا کے جانے اور انتقال کے بعد حالات اور بھی صبرآزما ہو گئے تھے۔ وہ تو اللہ کا شکر تھا کہ جواد کی کمپنی کا کراچی آفس اسے کچھ رقم دے دیتا وہ اسے کچھ کیش دے گئے تھے ورنہ پھر بالکل ہی خالی ہاتھ ہوتی جس سے بچوں کی فیس وغیرہ کی ادائیگی ہو رہی تھی۔ جیٹھ کے دو لڑکوں سے وہ کافی خالف سی رہتی تھی۔ وہ ہر وقت بچوں کو چھت پر لے جا کر کھیلنا چاہتے تھے۔ ابا کے انتقال کے ڈیڑھ ماہ کے بعد اچانک بھابھی کی طبیعت بگڑ گئی ان کو بقائی ہسپتال لے جایا گیا انہیں دمے کا بہت شدید دورہ پڑا تھا۔ رات کو اس کی آنکھ کھلی تو اصغر کے رونے کی آواز آ رہی تھی کہنے لگا ’’اماں جی بھی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں‘‘ یکے بعد دیگرے دو غموں نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دکھ درد اور پریشانیاں بھول گئی۔
پھر ایک دن اچانک بیگ صاحب آ گئے وہ ان کو دیکھ کر ششدر رہ گئی کیونکہ وہ بھی ڈھاکے میں محصور تھے۔وہ ہندوستان ، نیپال اور بنکاک کے راستے پہنچے تھے ، بجائے اس کے کہ وہ اس کا دکھ درد بانٹتے وہ اس کی تکلیف اور پریشانیوں میں اضافہ کر گئے ان کی ایک بات بار بار اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ’’مجھے تو نہیں لگتا کہ جواد وہاں سے نکلنے کی کوئی کوشش کر رہے ہیں ارے ان کی تو خوب عیش ہے۔‘‘ ان کا اشارہ ان کی دو عزیز لڑکیوں کی طرف تھا جو وہاں تھیں۔
اس نے صرف اتنا کہا ’’میں نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ رکھا ہے اور اللہ بہتر کرے گا"
 جواد کے جتنے خطوط آئے تھے اس میں سوائے دعاؤں ، وظیفوں، اوراد اور پریشانی کے کچھ نہ ہوتا ، وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ ان ناگفتہ بہ حالات میں کتنا عیش کر سکتے ہیں ؟ پھر رفتہ رفتہ مختلف جاننے والوں کے بارے میں خبریں آ نے لگیں۔ فلانا آ گیا ہے ، جواد کے ایک اور قریبی دوست آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ    نکلنے کی کوششوں میں ہیں اکیلے ہوتے تو کبھی کے آ چکے ہوتے دراصل ان لڑکیوں کی وجہ سے ان پر بھاری ذمہ داری آ گئی ہے اور ان کو بحفاظت نکالنا چاہتے ہیں۔‘‘
اچانک ایک روز ہ مژدہ جانفرا آیا کہ جواد ہندوستان میں بہار پہنچ گئے ہیں اور ڈاکٹر حمیدی کے ہاں ہیں۔ دلالوں اور اسمگلروں کے ذریعہ لانچوں سے ان کو دریا پار انڈیا پہنچا دیا جاتا۔ انڈیا پہنچ کر وہ آزاد اور محفوظ ہو جاتے تھے۔ قدرت کی کیا ستم ظریفی تھی یا خوشی تھی کہ برداشت سے باہر تھی لیکن جب تک یہاں پہنچ نہ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس قدر خوف اور خدشات تھے ان کو رقم کی اشد ضرورت تھی تاکہ آنے کے لیے ٹکٹ خرید سکیں۔ چھوٹے بھائی نے لندن سے فوراً رقم ٹرانسفر کی، انڈیا سے بارڈر کراس کرکے نیپال پہنچے کٹھمنڈو سے بنکاک اور پھر کراچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک روئے جا رہی تھی۔ دور کہیں مرغوں کی بانگیں آنے لگیں ، لگ رہا تھا اندھیری رات کٹ جانے کو ہے لیکن اس کی ہچکیاں بند ہی نہیں ہو رہی تھیں ، آنسو تھے    کہ بہے جا رہے تھے لگ رہا تھا ۔ضبط اور برداشت کا بند آج بری طرح ٹوٹ چکا ہے ، آنسو بھی کتنی بڑی نعمت ہیں اور رحمت ہے رب کی ، انسانی دل و دماغ کو ہلکا اور آسودہ کر دیتے ہیں وگرنہ انسان غموں سے اندر ہی اندر گھٹ جائے۔ یہ آنسو بہنا اس وقت اور آسان ہو جاتے ہیں جب کوئی ڈھارس ملتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ شروع ہو گئی۔ ابھی کراچی کی حبس ناک گرمی شروع نہیں ہوتی تھی۔
پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی ، جواد کے بے حس جسم میں پہلی مرتبہ حرکت ہوئی اس نے اس کی طرف کروٹ لی ، اپنے قریب کیا ہلکے سے پیار کرکے بس اتنا کہا ’’دیکھو اب میں آ گیا ہوں‘‘ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اسے لگا جیسے کہ اس کے سارے دکھ درد ختم ہو گئے ہیں ایک نئی صبح طلوع ہونے کو تھی ، مسجدوں سے فجر کی اذانیں بلند ہونے لگیں۔
حی علی الفلاح ۔۔۔ حی علی الفلاح ۔۔۔ حی علی الصلوٰۃ ۔۔۔ حی علی الصلوٰۃ ۔۔۔اللہ اکبر
۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ الصلوٰۃ خیر من النوم۔
نوم جو کہ آنکھوں سے غائب تھی ، دونوں اٹھے (یعنی نیند) فجر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مجبور و بے بس بندہ ہر گھڑی ہر لمحے اللہ کے رحم و کرم اور فضل کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر بے پناہ فضل کیا تھا۔
***



 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 



-- 



عابدہ

Abida RahmaniMission of Global-Right-Path is to

Tuesday, December 1, 2015

پاکستان میں نفاذ اردو کے احکامات





پاکستان میں نفاذ اردو کے احکامات

از
عابدہ رحمانی

اردو پاکستان کی قومی اور باہمی رابطے کی زبان ہےایسی زبان جو زبان زد عام ہے یہ زبان پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں رچ بس گئی ہے۔ہر زبان والا پنجابی، پٹھان، سرائیکی ، سندھی ، بلوچی ، گلگتی ، میمن ،گجراتی ، کاٹھیا واڑی غرضیکہ ہر بولی والا اسکو اپنے لہجے سے بولتا ہے اور اپنا مافی الضمیر دوسرے پر واضح کر دیتا ہے۔یہ امر تسلیم کرنا چاہئیے کہ پاکستان کے علاقوں میں کسی بھی علاقے کی زبان اردو نہیں تھی ۔۔تقسیم ہند سے پہلے بھی بہت عرصے سے اردو ہی موجودہ پاکستان کے علاقوں  کی رابطے کی زبان تھی ۔پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے دو ٹوک الفاظ میں اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا ۔ مشرقی پاکستان میں جب یہی حکم صادر ہوا تو بنگالی اپنے خطے میں بنگلہ زبان پر اردو کے غلبے کو 
برداشت نہ کر سکے ۔۔ لیکن اب یہ فیصلہ وقت اور تاریخ کے اوراق میں دفن ہوگیا ہے۔۔

ہندوستان سے آئے ہوئے اردو داں طبقے کا بھی اپنے اپنے خطے کا لب وِ لہجہ ہے ۔۔حیدر آبادی،، بہاری ،یوپی، دہلی والے کر خنہ دار سب کے اپنے لہجے تھے ۔۔ ۶۸ برس گزرنے کے بعداب یہ تمام لب و لہجے ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے ہیں۔۔عالمی سطح پر بھی اردو پاکستان کی زبان کہلاتی ہےاور ہے۔۔بھارت کےمسلمان اب بھی اردو پڑھتے لکھتے ہیں اور بہتوں نے اردو زبان کو کافی سہارا دیا ہے ،لیکن سرکاری طور پر اسکا دیوناگری سکرپٹ ہے جسے ہم ہندی سکرپٹ کہتے ہیں ۔۔رسم الخط بدل کر بھارت سرکار  نے اردو پر بھرپور تعصب کی  کلہاڑی پھیر دی اس سے بڑا ظلم اردو کے ساتھ کیا ہوگا کہ اسکا رسم الخط ہی تبدیل کردیا جائے۔۔یہاں شمالی امریکہ میں جابجا جب ہندوؤں سے بات ہوئی اور انکی اردو کی تعریف کی تو وہ فوراً گویا ہوئے کہ نہیں ہم تو ہندی بول رہے ہیں ۔۔بھارتی فلموں میں جو اردو بولی جاتی ہے وہ بھی ہندی کہلاتی ہے ۔۔ اسلئے کلیتاً  اور حقیقتا اردو ہم پاکستانیوں کی زبان ٹھہری اور ہمیں اس پر فخر ہے 
داغ ہوئے ،غالب ہوئے میر ہوئے سب اسی کے زلف کے اسیر ہوئے
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی 
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

ہاں لیکن پاکستان میں اردو کے قومی زبان ہونے کے باوجود اور بارہویں جماعت تک ایک لازمی مضمون ہونے کے باوجود انگریزی ہمارے تمام دفاتر کی سرکاری زبان ہے ۔ اعلی طبقہ تو اسی تگ و دو میں ہے کہ انکے بچے اگر بہترین انگریزی بولینگے تو انکے لئے اعلے ملازمتوں اور بہتریں مستقبل کے دروازے کھل جائینگے ۔۔انگریزی کی اہمیت سے کسی کو انکا ر نہیں ہے لیکن اس سے اردو کو وہ حق اور مقام نہیں مل رہاہے جو کہ ایک قومی زبان کا ہونا چاہئے یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ اردو اور انگریزی ملا کر بولتا ہے۔۔ہملوگ کچھ ٓأدھا تیتر أدھا بٹیر بننے کی کوشش میں ہیں ۔۔ایک زمانہ تھا کہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کے ساتھ اردو بول چال رکھنے میں فخر محسوس کرتا تھا تاکہ انکا اردو کا لب ولہجہ صاف ہو ۔۔ اب تو پاکستان میں میرے عزیز و اقارب کا یہ حال ہے کہ ہر ایک کا بچہ اردو میں کمزور ہے ۔۔ بول چال کیلئے اردو بولتے ہیں لیکن اسمین کم از کم ۵۰ فیصد انگریزی ہوتی ہے ۔۔ ہر ایک کی کوشش ہے کہ بچہ انگریزی اچھی بولے۔۔۔۔یہ ایک طرح کا احساس کمتری بھی ہے ۔۔ہاں یہ میری ایک گزارش ہے کہ انگریزی کے وہ الفاظ جو اب اردو میں اتنے مدغم ہو گئے ہیں کہ وہ اردو ہی کہلاتے ہیں انکو ویسے ہی رہنے دینا چاہئے تاکہ زبان سادہ اور رواں رہے ۔۔ مثلا ڈاکٹر ، کلینک ،  کالج ، سکول ، سٹیشن جنکو ہم اردو میں اسکول اور اسٹیشن کہتے ہیں یا بہت سے ایسے نام جنکا اردو میں کوئی ٓأسان متبادل نہیں ہے ۔۔جیسے کمپیوٹر اور اسکے پروگراموں کے نام جو زبان زد عام ہیں ۔۔ایک عام ٓأدمی ان الفاظ کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی دیگر زبان کے الفاظ ہیں ۔۔ اور وہ ان الفاظ کے خالص  ترجمہ سے چکرا جاتا ہے ۔۔ جیسے ایک مرتبہ رکشہ ڈرایئور اب اسکا کیا ترجمہ اردو میں کیا جائے گا رکشہ چلانے والا سے میں نے کہا کہ جامعہ کراچی جانا ہے ۔۔کہنے لگا راستہ بتا دیں . سیدھا راستہ ہے” میں نے جواب دیا ۔۔قریب پہنچے تو کہنے لگا “ باجی سیدھا سیدھا کہنا تھا کہ یونیورسٹی جانا ہے ۔۔

 اب ایسے میں  پاکستان کی عدالت عظمی کے ایک تین رکنی بنچ نے متفقہ طور پر جو یہ فیصلہ دیا ہے کہ اردو زبان کو فوری طور پر سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔ اس حکم سے ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے ۔۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کا اطلاق ہم سب پر فرض ہے اردو کو بطور زبان نافذ کرنے کا حکم آئین میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت چلانے کے لئے ایک غیرملکی زبان کا استعمال غیر ضروری ہے۔ صدر مملکت، وزیراعظم اور تمام وفاقی سرکاری ادارے اور نمائندے ملک کے اندر اور باہر اردو میں تقاریر اور خطاب کریں۔ یہ بہت ضروری امر ہے ہمارے اکثر سربراہان اچھی انگریزی نہیں بول سکتے اور اسکی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔اپنی زبان بولیں مترجم ساتھ رکھیں وہ آپکی تقریر کا ترجمہ کرتا رہے گا ۔۔تمام دنیا کے ممالک چین ،جاپان ،ایران ،عرب ،روس ، فرانس، جرمنی تک اپنی زبانیں بولتے ہیں ۔فرانس برطانیہ کا پڑوسی ملک ہے لیکن خال خال ہی کوئی انگریزی بولتا ہے۔ پچھلے برس فرانس جانے کا اتفاق ہوا تھا اورجا بجا انگریزی نہ بولنے کی وجہ سے دقت پیش أ ئی لیکن یہ احساس بھی ہوا کہ انکو انگریزی نہ بولنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔ 
  پاکستان  کی عدالت عظمی کا یہ فیصلہ پورے پاکستان کی آواز ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے پاکستان بننےکے 68سال بعد پاکستانیوں کو اپنی زبان ملی ہے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اس پر بے حد خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ زبان کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہے، دنیا کی تمام اقوام اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں اور اس کے فروغ کے لئے کام کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لو گ ان کی زبان کو اختیار کریں۔دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں اردو کا درجہ چھٹا یا ساتواں ہے ۔ کوئی قوم بھی اپنی زبان کو نیچا یا ادنیٰ اور کم تر خیال نہیں کرتی پھر اپنی قومی زبان میں بات کرنے اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں جو آسانی اور لطف آتا ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں آتا۔ -پاکستان کی تخلیق کے ساتھ ہی اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا کاش کہ اسکے نفاذ پر عمل در آمد بھی ساتھ ہی ساتھ شروع ہوجاتا۔۔
انسانوں کی نقل مکانی میں انکا مذہب ، زبان اور تہذیب بھی انکےساتھ جاتےہیں۔ جو اگر غالب نہ ہو تو مقامی اثرات میں رفتہ رفتہ تبدیل ہو جاتے ہیں ۔۔شمالی امریکہ یعنی امریکہ اور کینیڈا میں لاکھوں پاکستانی ٓأباد ہیں ۔۔جنکی زبان اردو ہے اور ٓأپس میں مل بیٹھ کر اردو ہی بولتے ہیں۔۔ شعر و ادب کے بےشمار حلقے بنے ہوئے ہیں جہاں صاحب ذوق اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں ، شعراٗ اور ادبا کی کافی پذیرائی ہوتی ہےاور خوب محفلیں جمتی ہیں ۔ اردو کے اخبارات و رسائیل بھی بےشمار نکلتے ہیں أنلاین اخبارات و رسائیل بھی ہیں۔۔کئی ریڈیو چینل سے بھی اردو پروگرام أتے ہیں اسکے علاوہ بڑے شہروں جیسے ٹورنٹو، نیو یارک،ہیوسٹن ، شکاگو   وغیرہ میں چندگھنٹوں کے ٹی وی پروگرام بھی ٓأتے ہیں اور اسوقت انٹرنیٹ اور سیٹلایٹ نیٹورک سے متعدد پاکستانی گھرانوں میں پاکستانی چینل دیکھے جاتے ہیں جن سے پاکستان کی خبریں، ڈرامے ، دیگر پروگرام اور حالات سے ہر لمحہ ٓأگاہی ہوتی ہے ۔۔ اسطرح ان گھروں میں اردو کا بھی بول بالا ہوتا ہے۔۔
لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی موجودہ اور اگلی نسل تک تو اردو ہے لیکن تیسری نسل انگرٰیزی کو ہی اپنی زبان سمجھتی ہے اور انگریزی میں ہی ایک دوسرے سے رابطہ انکے لئے ٓأسان ہے معدودے چند اگر بول سکتے ہیں تو لکھنا پڑھنا محال ہے پھر بڑی مشکل سے رومن میں پڑھ لیتے ہیں ۔۔یہاں کے بسنے والے والدین کو بھی بچوں کو اردو پڑھانا ایک اضافی  اور غیر ضروری بوجھ لگتا ہے اس سے بہتر ہے کہ انکو سپینش  ( ہسپانوی )یا ( فرانسیسی )فرنچ سکھا دیں ۔۔  ظاہر ہے حکومت پاکستان اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتی ۔اور یہ یہاں کے تارکین وطن کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے ۔۔
اسلئے اب لوگوں کا مشن اور مقصد ہے کہ بچے اسلام پر قائم رہیں چاہے وہ کوئی بھی زبان بولیں اس سے کیا فرق پڑھتا ہے۔۔
یہ بہر کیف ایک اورچشم کشا صورتحال یہاں کے لحاظ سے ہے لیکن پاکستان میں اگر اردو کو عزت اور توقیر ملے گی اسکو ایک مکمل قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا تو   دنیا کی زبانوں میں اسکے وقار میں یقینا اضافہ ہوگا۔ اور یہاں پر بسنے والے پاکستانی نژاد یقینا اردو کی اہمیت  پر غور کرینگے اور اپنے بچوں کو اردو زبان سکھانے کی کوشش کرینگے ۔۔۔



Abida Rahmani


Monday, November 30, 2015

Trip to Malaysia

Selamat Datang
Welcome to Malaysia

(Notes from diary)

By

Abida Rahmani

My trip to Malaysia in a way was long overdue.This program got finalized last month.
It's my first ever visit to far east . Hopefully it is going to be a great experience. Finally  after a detailed research about the flights it got booked through emirates airlines !

My journey Started from Phoenix sky harbor international airport @10:15 am to JFK New York . I'll change the terminal to take my flight for Kuala lumpur through emirates airlines. Wish and pray for a safe and nice flight.
My flight from Phoenix through US airways arrived at terminal 8 in JFK airport. It all went very well without any glitch.Now I had to take Emirates flight from terminal 4.
After getting the baggage found the way to airtran , an airport train between terminals and arrived to emirates terminal. Luckily an agent was available for checking in and I checked in with quite ease. She asked me to reduce the weight of my carry on and put it in my baggage. It was a great help. After Checking  in went to a chapel which was more like a mosallah (Muslims prayers place).  to pray  and  had food later on from a nearby outlet. Did some phone calls..
So far so good.ا
At JFK international airport terminal 4 , waiting for the emirates flight to board on for Dubai and then Kuala Lumpur.
The flight in Airbus A380 -800 is awesome. The plane Is gigantic,May it is saved from disasters. The aviation industry has progressed so much.However the hospitality standards were far better in the bygone days.The American and Canadian Airlines are too practical now.
On my today's flight of US airways which is going to be the biggest US airline after merger with American Airlines,only water, tea, coffee and other soft beverages got served. There was no peanuts or pretzels even and rest of the food was on sale! The baggage is charged too.I was charged $4 extra for unknown reasons .

On this Dubai flight It was a great benefit  that we were only two ladies on either side of the middle 4 seats row. Both of us slept well by spreading our legs.. Service is really good. Watched some Pakistani TV shows.
It was a brief stopover at Dubai airport. Emirates terminal is magnificent. I remembered the old run down airport in 1996.It's a sigh of comfort for a Muslim land to be prospered.
Now on flight to Kuala Lumpur,the person sitting next to me is a nice gentleman .He works for halliburton , posted in KL he is regional in charge of southeast Asia . Seems to be quite enterprising.we talked at length about USA , Pakistan and Malaysia . He was a U.S. Graduate and had a luxurious life in Malaysia.

Arrival @ Kuala Lumpur

It was all lush green surroundings with spread out palm trees when the plane started its descent. The airport seemed old but quite upgraded with all basic modernization .Had to take a train to baggage and immigration. Got a three months visa to stay in Malaysia from immigration .

Mahmood  and kids were there to receive me. It was lovely to be with them. There building is 9 Bukit Utama condominium. They live on 23rd floor. No.4 is missing on each floor as a Chinese superstition,therefore floor no. 4 and 14 were missing. They have spacious dwelling and the building has great amenities. Golf course, swimming pools, tennis courts, gyms and much more. The area is beautifully landscaped.
.
Yesterday we went for dinner to Papparich restaurant  at centre point mall. It was a Nice dinner with spicy seafood Malaysian style with rice nasi and tasty coconut, pineapple drink. Then to masjid Wilayah ,a spacious masjid  with a grand architecture. We offered Maghreb prayers there and roamed around.it resembles the blue mosque of Istanbul.
In the morning we had Malaysian breakfast of rotis , just like our crunchy  parathas with daal and dried fish sauce. It was roti chanai with teh Tarik(mixed sweetened tea) .Went to kuala lumpur bird park, masjid Negara another beautiful Masjid for prayers and lunch. Islamic art museum was incredible with Islamic artifacts , dresses, furniture and models.
The weather outdoor is quite a bit hot and humid being an ecuadorian country ,it's weather , day and night are almost same all year round. With plenty of rainfall, the drainage system is wonder of the world.
There are eating areas outside masjids,where one can get food on affordable prices. Most of these street restaurants are called Mamaks. In the evening went for dinner to  authentic Delicacy of Karachi "BBQ Tonight "with Mahmood's courtesy.  It was superb with delicious, tasty variety of BBQ, chicken, lamb ,beef tikka, seekh kebabs and much more with tasty roughni naan.Earlier we went to the curves mall , had ice cream at baskin Robbins.
it's not  astonishing to find that most American Franchises of food, beverages , ice creams ,trendy branded garments, apparel,shoes and all other accessories are available in Malls in Malaysia as it’s all over the world. It shows how America or American economy is ruling the world.
Kuala lumpur is a sprawling modern city with prestigious malls, masajids,lush green parks , multiple shopping areas, towering residential buildings with a vast Variety of houses,modern highways, infrastructure and its twin towers or Petronas were once world's tallest towers. They still are a big attraction with its dancing fountains and shopping malls.
Yesterday did some of shopping and went to night market that starts after 10 pm . Nice experience through a glimpse of Malaysia.This night market has some good bargains as it was hot and humid we enjoyed drinking big coconuts full of nutritious water.
There were celebrations for Chinese New Year of Ram or Goat with red decorative lanterns all around in abundance and fireworks at night.
This morning the  Lion dance in the building was quite spectacular and captivating. It started with loud bang of music and dancing acrobats inside lion’s costume, a typical Chinese tradition.Then they went upstairs.Grabbed the big plates of oranges or tangerines and started tossing  to audience. It's some kind of Chinese tradition or superstition. I was able to catch one, a sign of good luck.
It was a hectic trip full of excitement so much to do and watch with aching knees felt impossible  at times.

To kuala selangor  in the afternoon . Prayers in masjid . Palm trees plantations . Date palms, coconut and others!

We drove Up the mountain in Kuala Selangor on a train to watch silver back monkeys at Melawati . Amazingly friendly specie,They had long arms with soft touch and small heads, the babies were of golden color. The color gradually changes to silver grey when they grow up.Malaysian Eagles or Hawks were circling around the area . Later I learned that they are after eating the babies.
We Bought monkey's food of beans, carrots, sweet potatoes and bananas to feed them.
it was selling all around. They jumped on us , climbed on our shoulders for food. A common specie of monkeys were there too but people were only interested in silver back monkeys.

Later on had typical Malaysian food and dessert, ABC by name ,A mix of beans and corn with ice cream,syrup and ice on top,I liked it. The  long cone shape crispy bread with sweet taste was yummy. Tried to have steamboat but it was not offered halal. Being a multi religious country they serve non halal menu too. Even in the building there are BBQ grills which shows halal and non halal.
Offered the prayers at masjid and proceeded after dark to see Fireflies on a boat ride in the  river. It was an Incredible experience !
There are certain trees in the river to which fireflies are attracted. Our cameras were not capable to catch the shots of fireflies in the dark. We wore life jackets and went on our boat. The boatman was going slowly near the trees. These were filled with glittering fireflies, a spectacular sight to watch and absorb.it looked like if the trees are illuminated with thousands of glitters. I remember these fireflies in my childhood during monsoons. We use to catch them and put them  in a jar. I assume that the idea of glittering light is derived from them.

Visit to Putrajaya
Putrajaya is the capital of Malaysia. A fabulous modern city with great architecture of parliament buildings, palaces, government residences, scenic parks. We drove up the hill near parliament building . From there had a great sight of city down with awesome layout lakes and rivers.
Went to a horticultural park .Over there the Moroccan pavilion was enchanting. Its architecture and inscription depicted the Granada and Cordoba of Spain. Many of the newly wedded couples posed for stylish pictures with their photographers,friends and family. The gardens were filled with exotic tropical plants. The palm tree plantations are spread over miles and miles.Then there are rubber trees , coconut palm, date palms and such an exotic variety of other palms and ferns.
We drove to Pink masjid for Maghrib and Isha. On our way we stopped at Green Masjid for Dhuhur. All these Masajids are constructed aesthetically with vibrant  colors, themes, exotic Quranic inscription and architecture. Grateful to Allah swt to have such a great Muslim country.
With the majority Muslim Malay population,Malaysia is quite diverse religiously and ethnically .Chinese form the largest minority and a lot of Tamils , filipinos  and other ethnicities could be seen.Malay Muslims are good practicing Muslims. Wearing scarf and modest dressing is common among Muslim women. S

Markets :
Visited these affordable markets. petaling Street, Central Market and Chinese Market ,got some good bargains!

Encounter with Dorian!
At the fruitmarket we got Mangosteen, Cherimoya, Jackfruit , Dragonfruit etc. However the most sought out Dorian was unavailable .Earlier have seen Dorian at ChinaTown grocery stores  but never tasted.It belongs to the jackfruit family.Saw its fruit sold in some pastry wrappers . We were adamant to have a real Dorian and luckily got a small one in a fruit shop. There were so many restrictions about its eating. Learned that it isn’t allowed in restaurants because of its bad smell.
Anyway I found it a tasty sweet and soft fruit, tasted creamy and custard like. The aftertaste was a bit like onion. However I was unable to figure out so much negative stuff against this fruit. My nephew and his family warned that we shouldn’t burp inside the car.


Visit to Singapore !
Singapore river cruise
It took us 5 hours from KL to reach and cross the borders  through Johor Boro.There were border formalities on both sides. Singapore once was a part of Malaysia ,now enjoys the status of an independent neighboring country. It was a British colony and then under Japanese occupation. Now it has a strong , vibrant economy,strong trade and business ties.
After settling down at our hotel, had dinner and went for the incredible and most famous "night
Safari". It was an absolute fun to encounter animals during night. We roamed through shuttle and on permitted spots walked around.With the restriction of " no flashed photography" tried to absorb it personally!
Singapore trip was a bit hectic and short with the feeling that it's too expensive compared to Malaysia. It'd have been better if there was one more day. The downtown malls and area is purely exclusive. Gardens by the bay"is something out of this world with exotic local plants and gardens around the world. The idea of supertrees was a fantastic one! Those were some fabricated tall structures all around wrapped with fresh plants. The plantation and irrigation system was incredible!
The  Marina bay singapore  river cruise proved to be a great treat to enjoy the fabulous sightseeing of Singapore down town around. The symbolic MarLion splashing water in the mid of the river. Singapore means the village of Lion. There is a story of a lion mermaid  in the local folk tales and it's a symbol of Singapore.
Then the high tall statue of Marlion was situated on Sentosa Island with changing colors that looked awesome. On Sentosa Island we went through train . The area is spectacular in attractions and displays.
On our way we had supper at  Little India in a restaurant . The soiled , stenched rundown eateries are a part of third world poor countries ,yet it was Singapore .

Then our Cherished visit was to Cameron highlands. At 5600 feet elevation it was one of the most scenic place.
Nice hotel room with a scenic window down the hill including amazingly lavish breakfast. The tea gardens were unique forming a serene uniform landscape over the hills.went to BOH tea shop , factory and surroundings . Watched how the tea leaves are processed in the old factory. The tea plant seems like some common shrub.It’s amazing how the human intelligence figured out processing it into a hot drink. Enjoyed our tea at the terrace of BOH tea shop.
Next day on our way back went to Genting Highland and had the awesome cable car ride through the Malaysian rain forests back and forth.


Tea Gardens at Cameron High Land!


My Malaysian trip was approaching its end ,with swollen feet and aching body . Went and explored many places ,Singapore,putrajaya, cyberjaya, Cameron highlands, Genting highlands, Petronas  towers, night safari @ Singapore, river cruise, gardens by the bay, Sentosa island , bird park KL. Most of the places were spectacular. For shopping the best were petaling   street and central market. Went to amazingly beautiful mosques. Masjid Wilayah,Jami or Indian masjid , masjid green at cyberjaya, pink masjid at putrajaya, masjid zainulabidin and so many small and big masjids. It's a blessings of an Islamic country to have prayer places everywhere.they call Musallahs “Surao”. The toilets were available in plenty in all public places and masjids. Some where In  Good shape , others rundown but water was there. In most toilets the toilet paper roll were hanged outside. Later on I realized the logic  that it was a wise step because with water it could have destroyed easily..
Toilets are Tandas here. I just loved their slogan Selamat Datang ( welcome) many of the words are similar to Urdu ,Arabic and Farsi. Awam is public .
Went to eat some amazing food at BBQ tonight, Hadhar moth, old town white coffee, teh Tarik and many more.
Extremely grateful to my Hosts they provided me extraordinary care, comfort and attention.
















Right now sitting in A38o going Dubai.


Landed at Dubai, the flight was smooth and enjoyable. When landing at Dubai, it was sand all around . What a vast difference than Malaysia. over there it was lush green all around.