Monday, December 22, 2014

اور گلاب خون میں نہا گئے






اور گلاب خون میں نہا گئے

عابدہ رحمانی

میں پسینے میں شرابور تھی ، دل بری طرح دھڑک تھا اچہا گئےانک میری آنکھ کھلی -عجیب ڈراؤنا بلکہ دل دہلانے والا خواب تھا --میں ایک خوبصورت گلابوں سے بھرے باغ میں کھڑی ہوں ایسا حسین منظر ہے کہ میری نظر نہیں ہٹتی -اچانک سارے گلابوں سے خون بہنے لگا ایسا جیسے کہ خون کے فوارے ابل پڑے-- خون سے میں بھی بری طرح نہا گئی ---
میں اٹھ کر بیٹھ گئی صفدر بے خبر سورہے تھے --میں نے تین مرتبہ اعوذباللہ پڑھا اور بائیں جانب تین مرتبہ تھوکا -- آیت الکرسی پڑھی رات کے تین بجے تھے--بجلی چلی گئی تھی بجلی سے چلنے والا ہیٹر بند ہو گیا تھا ، یو پی ایس چل رہاتھا - میں خاموشی سے بچوں کے کمرے میں گئی اقراء اور اسد سے لحاف سرک گیا تھا --میں نے دونوں کو لحاف اوڑھا دی --سردی آجکل بڑھ گئی ہے کمرے کافی ٹھنڈے ہوتے ہیں -- شام کو کچھ دیر کیلئے ہیٹر جلادیا تھا --پھر اظہر کے کمرے میں  دیکھا اسکا لحاف بھی درست کیا عجیب آڑا ترچھا لیٹا ہواتھا - اقراء کو دو روز سے بخار آرہاتھا اسکا ماتھا چھوا پسینہ آیا تھا اور بخار اتر گیا تھا-- اسے تو صبح اسکول نہیں بھیجنا تھا -
بچوں کےیونیفارم استری کرکے لٹکے ہوئے تھے دونوں کیلئے دو روز پہلے ہی سویٹر اور بلیزر خرید کر لے آئی تھی- بچے تیزی سے بڑے ہورہے تھے۔ پچھلے سال والے کافی تنگ اور چھوٹے ہوگئے دکان میں اسٹاک ختم ہوگیا تھاغنیمت ہے کہ میں نے پہلے سے آرڈر دیا تھا--بوٹ پالش  ہو چکے تھے فوجی زندگی کے یہی تو مزے ہوتے ہیں --کپڑے استری ، جوتے پالش--
بابا کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی وہ تہجد کیلئے اٹھے ہونگے - کل رات وہ کھانے کے بعد سقوط ڈھاکہ کی باتیں کرتے رہے انکا تو چشم دید تبصرہ تھاڈھاکہ کےریس کورس میدان میں جنرل نیازی نے جب جنرل ارورہ کے سامنے ہتھیار ڈالے اسے بیان کرتے ہوئےبابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے آواز میں رقت تھی- پاکستان اور پاکستانی فوج کیلئےانتہائی ہزیمت اور ایک عظیم ترین المیہ تھا -یہ سب المیے بھلائے نہیں جاسکتے- موجودہ پاکستان کی آزمائشیں کب ختم ھونگی ایک نہ ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے -- جب مکتی باہنی تھی اب طالبان ہیں-- بابا جنگی قیدی بن گئے تھے دو سوا دو سال بھارت کے فوجی کیمپ میں رہے--
بچوں  کو میں نے جلدی ہوم ورک ختم کراکر سو نے بھیج دیا اظہر کا ٹیوٹر بھی شام کو آتاہے-صبح اسکول جلدی جانا ہوتا ہے --ٹی وی پر سڈنی میں چاکلیٹ کیفے کا معرکہ چل رہاتھا- آئے دن دنیا میں ایک سے ایک قتل و غارتگری کی خبریں ، طبیعت اور مضمحل ہوجاتی ہے-
کوشش کے باوجود مجھے نیند نہیں آرہی تھی طبیعت عجیب پریشان سی تھی شاید اس خواب کا اثر تھا -میں خاموشی سے لیٹ گئی ڈیڑھ سال پہلے ہی کھاریاں سے ہمارا تبادلہ پشاور ہوا تھا --صفدر کو وزیرستان میں پوسٹ کردیا تھا ہر وقت جان پر بنی رہتی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ واپس اپنے یونٹ میں آگئے-- اقراء اسدن میرے ساتھ بیٹھی خبریں دیکھ رہی تھی ،" مما یہ دہشت گرد کیا ہوتا ہے --اور یہ خود کش بمبار- یہ کیسا monsterہوتا ہے ؟" میں اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی اور چینل بدل دیا - ہمارے بچے اسی ماحول میں بڑے ہو رہے تھے - صفدر کہتے ،" فوجی کے بچے ہیں انکو سب کچھ معلوم ہو نا چاہئے - لیکن مجھے گھبراہٹ ہوتی -شاید میں اتنی بہادرنہیں تھی--
فجر کیلئے بچوں کو جگا دیا ، یوں بھی انکی اسکول روانگی کا وقت ہونے والا تھا -سردیوں میں یہی تو فائدہ ہے فجر دیر تک ہوتی ہے- صفدر بھی تیار ہورہے تھے- اظہر اور اسد بھی تیار ہورہے تھے-- ملازم کو ناشتے کی ہدایات دیکر میں انکے بیگ درست کرنے لگی آج اظہر کی فرسٹ ایڈ کی کلاس تھی پھر ٹیسٹ تھا - اسد بیٹا تمہاری maths کی کاپی کہاں ہے ؟ یہ لڑکا تو بہت ہی لاپرواہ ہے کتنی مرتبہ سمجھایا ہے رات کو بیگ ٹھیک کر لیا کرو-
تینوں باپ بیٹا تیار ہوکر ناشتے کی میز پر آئے اظہر ماشاءاللہ قد میں باپ کو پہنچنے والاتھا-بابا دیر سے ناشتہ کرتے ہیں -میں انکے ساتھ  چائے کی پیالی لیکر بیٹھ گئی -اقراء اٹھے گی تو اسے دوائی پلاکر ناشتہ ساتھ کرلینگے--
ایک مرتبہ میرے دل میں ایا کہ صفدر کو اپنا خواب بتا دوں -لیکن انہیں پریشان کرنیسے کیا فائدہ - بچے جلدی میں ں ٹھیک سے ناشتہ ہی نہیں کرتے-اظہر نے بمشکل انڈا توس کھایا دودھ کا یک گھونٹ لیکر چھوڑدیا ۔۔مما فرج میںرکھ دیں واپس آکر پی لونگا --اسد نے صرف چاکلیٹ دودھ پیا -مما بھوک نہیں ہے- آج ٹیسٹ ہے--
صفدر بچوں کو ہدایات دینے لگے --بیٹا چھٹی کے بعد جلدی باہر آجایا کرو مجھے گاڑی اور ڈرائیور  کی ضرورت ہوتی ہے -- اظہر کہنے لگا مما آج چاکلیٹ پڈنگ بنایئے گا اسد کی فرمایش چکن کارن سوپ اور فرائیڈ رائس کی تھی- میں نے دونوں بچوں کو پیار کیا صفدر آواز دے رہے تھے  
اسد کی ٹائی درست کی-- شال لپیٹی اور انکو خدا حافظ کہنے باہر آئی --بچوں کا سکول ہماری پچھلی روڈ پر تھا -اکثر تو انکی اسمبلی کی آواز بھی آجاتی --
اس روز صفدر بابا سے کہنے لگے" بابا اللہ نے چاہا تو بچوں کو اعلٰے تعلیم دلانے باہر بھیجونگا -" مجھے تو اس تصور سے ہی عجیب گھبراہٹ ہونے لگی-
اقراء جاگ گئی ، اسے دوائی پلائی اور ہم دونوں ناشتہ کرنے لگے اسکے گلے میں کافی درد تھا -بمشکل اسنے دو چار نوالے کھائے، میں نے اسے دوبارہ لٹایا اور خود بھی اسکے پاس لیٹ کر اخبار پڑھنے  لگی--اکرم کچن میں کام کر رہاتھا --
یہ آوازیں ، شور یہ دھماکے ، تڑ تڑ فائرنگ شاید میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں --رابعہ رابعہ اٹھو بیٹا یہ بابا کی آوازتھی رابعہ یہ تو پچھلی گلی سے آواز آرہی ہے اللہ خیر کرے --
میں چیخ مار کر آٹھی فون کی گھنٹی بجی جارہی ہےمیرا موبایل بھی بج رہاہے-- بابا کہہ رہے ہیں اسکول پر حملہ ہو گیا ہے -- " بابا میرے گلاب ، میرے بچے، میرے جگر کے ٹکڑے مجھے ہوش نہیں اور سر پٹ بھاگتی جا رہی ہوں --خون خون میرے چاروں طرف خون -خون کے فوارے اور ظالموں بدبختوں نے میرے گلابوں کو، میرے جسم کے ٹکڑوں کو خون میں نہلا دیا---  





-- 
Sent from Gmail Mobile

After the Peshawar carnage!

Yesterday I commented on a post by orea maqbool jaan . Our media and these columnists show entirely a disillusioned picture of the situation in Pakistan .
Those hanged for futile murder attempt on Musharraf didn't kill him but 15 others . Therefore, it's an absolutely right act to punish them. The media and these columnists say , مشرف کے اقدام قتل کے سلسلے میں انکو پھانسی چڑھا یا گیا۔
This infuriates many like me.
Musharraf maroon is a big culprit. He instigated all this chaos and all of these brutalities started after the action of lal masjid and jama hafsa.of course they violated law n order but the action was not appropriate on both part. Musharraf should be tried and punished for his insane actions.
MQM turned the city of Karachi into a blood thirsty city. Their killers must be excuted, no mercy for any one!

 

Sunday, December 21, 2014

یہ موسم سہانا اور تھنیکس گیونگ ڈے





یہ موسم سہانا اور تھنیکس گیونگ ڈے


از عابدہ رحمانی


یہ سہانا موسم ،چہکتے پھدکتے ،چہچہاتے پرندے، بٹیروں کے غول کے غول ،گھومتے پھرتے دانہ دنکا چرتے،  نہ انکا شکار نہ کوئی شکاری کھلی ہوئی دھوپ ۔۔ ہلکی ہلکی

ہوا چل رہی ہے امریکہ کا یہ خطہ باقی ملک سے بالکل مختلف ہے ۔۔ یہ یہاں کا بہترین موسم ہے جبکہ باقی سارا ملک ٤٨ریاستیں سخت سردی اوربرفباری کا شکار

ہیں۔۔

امریکی قوم کا ایک بڑا تہوار تھینکس گیونگ ڈے یا یوم تشکر اسی جمعرات کو ہے  یہ امریکہ کا کرسمس کے بعد سب سے بڑا تہوار ہے --اسمیں لاکھوں ، کروڑوں ٹرکیاں یا فیل مرغ قربان ہوجاتے ہیں  بھلا ہو امریکی صدر کا کہ وہ دو ٹرکیوں کی جان بخشی کر دیتے ہیں -اس نیک عمل کو میڈیا خوب خوب سراہتا اور اچھالتا  ہے - بالکل مسلمانوں کے عید قربان والا حال ہوتا ہے--لیکن مسلمانوں میں بکرے یا دنبے کی جان بخشی کی روایت ہر گز نہیں ہے --بلکہ یہ کہا جاتا ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منائیگی--

کیلیفورنیا کی ایک سڑک پر غول کی غول   یہ ٹرکیاںگھومتی پھرتی چگتی چگاتیں نظر آتی تھیں--تو مجھے بڑی حیرت ہوتی -- ہمارا اصل تو اس ملک ہے جہاں ایک مرغی بھی بچ کر نہیں جاسکتی--

یہ تہوارنومبر کے آخری جمعرات کو منایا جاتا ہے یہ چار روزہ ویک اینڈ ہے اور یہاں کا سب سے زیادہ سفر کرنیوالا تہوار ہے اسوقت ہزاروں لاکھوں لوگ شاہراہوں اور ہوائی اڈوں پر بیٹھے ہیں-شمال اور شمال مشرق کی جانب موسم طوفانی ہے -برفباری کے طوفان آئے ہیں -جسکی وجہ سے کئی پروازیں تاخیر سے جارہی ہیں- اسمیں لوگ اپنے پیاروں کے ہمراہ ٹرکی مسلم اڑاتے ہیں یا نوش فرماتے ہیں -ٹرکی کے ساتھ گریوی، آلو کا بھرتہ ، کرین بیری کی چٹنی اور کئی لوازمات ہوتے ہیں- آخر میں کدو کا میٹھا یا pumpkin pie ضرورہوتی ہے -بہت سے خیراتی ادارے اور گر جے غرباء میں مفت ٹرکی اور کھانا تقسیم کرتے ہیں -- مسلمان گھرانوں میں بھی یہ تہوار جوش و خروش اور پورے لوازمات کے ساتھ منایا جاتا ہے حلال ٹرکیاں جابجا دستیاب ہوتی ہیں اب تو ایک قسم بٹربال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حلال طریقے سے ذبح ہوتی ہے-چھٹیوں کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے -- ٹرکی کا گوشت کافی روکھا ہوتا ہے اور صحت کیلئے مفید ہوتا ہے -- اسمیں ایک خاص قسم کا مادہ ہوتا ہے جس سے بڑی اچھی نیند آتی ہے-- اب یہ امریکہ کا ایک بڑا تہوار ہے--

اسکی مختلف روایات ہیں 1863 میں اسکو امریکی صدر ابراہم لنکن نے وفاقی چھٹی قرار دیا--پرانی روایات کے مطابق نئے آنے والوں کی1621 میں پہلی فصل کی کٹائی کے بعد انہوں نے شکریہ کا جشن منایا جو چار روز تک چلتا رہا -یہاں کے قدیم باشندوں نے بھی اسمیں شرکت کی اس آؤ بھگت میں انہیں ٹرکی پکا کر کھلائی اور خاطر مدارات کیں -- ا- اس چھٹی کے ساتھ چھٹیوں کے موسم کا آغاز ہوتا ہے جو کرسمس اور نئے سال تک چلی جاتی ہیں -- اس کے بعد کرسمس کی دھوم دھام شروع ہو جاتی ہے-- یوم تشکر پر نیویارک میں میسی پریڈ بھی ایک معمول اختیار کر گیا ہے -- وہ اس تقریب میں اور رنگ بھر دیتا ہے--

اس یوم تشکر کا سب سے بڑا دھوم دھڑکا تو بلیک فرائڈے یا سیاہ جمعہ کی سیل کا ہے -- حیرت ہے کہ مسلمانوںنے اس بلیک فرائی ڈے کے نام پر ابھی تک اعتراض نہیں کیا --(اب اس وجہ تسمیہ کی کیا وجوہات ہیں ابھی میں نے اسکی تحقیق نہیں کی ) اسکا تمام خریداروں کو بری انتظار ہوتا ہے --ایک لڑکی تو بیسٹ بائے best buy store کے سامنے ایک ہفتے سے ٹینٹ لگاکر بیٹھی ہے - کہ جیسے ہی اسٹور کھلے وہ سب سے پہلے جا پہنچے -- رات کو بارہ بجے کے فورا بعد اسٹور کھلتے ہیں لوگ باگ موٹے موٹے جیکٹ پہنے بلکہ کمبل لپیٹے انتظار میں ہوتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے سستی اشیاء خرید کر لے جائیں دروازہ توڑ سیلز یعنی بکری ہوتی ہے --اسوقت امریکی معاشرہ سب ادب آداب بھول جاتا ہے - خوب دھکم پیل ہوتی ہے لیکن شائقین اس رات کا سال بھر انتظار کرتے ہیں سٹورنت نئے طریقوں سے اپنے اشتہارات دیتے ہیں -- اب تو آن لائن بلیک فرائڈے کی سیل چلتی ہیں ، جس سے دور دور تک لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں-- یہ کاروباری معاشرہ ہے خریداروں کا نفسیاتی جائزہ لے کر انہیں خوب  خوب خریداری پر آمادہ کیا جاتا ہے-


لیکن شاید کسی کی نظر لگ گئی --اسوقت امریکہ سخت فسادات کی لپیٹ میں ہے -- سارا امریکہ اور تمام میڈیا یہ رونق اور چہل پہل بھول کر ان فسادات کو براہ راست دکھا رہا ہے -

فرگوسن میسوری میں جو فسادات ہورہے ہیں پاکستان والا حال ہے گاڑیاں اور بلڈنگ  جل رہے ہیں لوٹ مار توڑ پھوڑ ہو رہی ہے سارے ملک میں جلسے جلوس اور مظاہرے ہو رہے ہیں-- مائیکل براؤن سیاہ فام لڑکے کو سفید فام پولیس آفیسر ولسن نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا آور جیوری نے پولیس آفیسر پر فرد جرم عائد نہیں کیابلکہ اسکو بری کردیا --اسکے خلاف پورے ملک میں ایک مظاہروں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اسقدر توڑپھوڑ اور تباہی ہورہی ہے فرگوسن میں تو شہر میں فوج اور بکتربند گاڑیاں بھی آگئی ہیں -- ولسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسنے اپنے فرائض کا دفاع کیا ہے --جبکہ سیا ہ فام  عوام اور لڑکے کے لواحقین اس حقیقت کو ماننے پر تیار نہیں ہیں -

اسوقت امریکہ ایک نسلی تقسیم کا شکار ہے -- سیاہ فام اسطرح کے قتل کو ظلم اور ناانصافی کہتے ہیں --لگتا ہے انکے لئے امریکہ کولاؒائبیریا جیسا دوسرا ملک بسانا ہوگا--آج بہت سےگورے امریکی

سوچتے ہونگے کہ کاش ہم انکو افریقہ میں ہی رہنے دیتے --ہائے یہ زود پشیماں کا پشیماں ہونا

خزاں کے رنگ






خزاں کے رنگ۔ ۔

از


عابدہ رحمانی


سامنے کھڑے میپل کے درخت میں ابھی محض چند پتے باقی ہیں -رفتہ رفتہ سردیاں اپنا رنگ جمارہی ہیں-- سردیوں میں یہ درخت بالکل ٹنڈ منڈ ہو جاتے ہیں--جاتی بہار کی طرح جاتی خزاں کا بھی کیا چھب کیارنگ ہوتا ہے- ہر جانب گرے ہوئے پتوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے لوگ ریک کر کر کے اپنے چمنوں میں ڈھیر لگا رہے ہیں اور پھر مخصوص تھیلوں میں بھر کر کوڑے والے ٹرک کے اٹھانے کے لئے رکھ دیتے ہیں --کہیں کہیں پر صفائی کی گاڑیاں آکر پتوں کی صفائی کر رہے ہیں --

ان پتوں سے بڑی عمدہ کھاد تیار ہوتی ہے --پاکستان کی طرح جلاڈالنے کا کوئی تصور نہیں --

خزاں کے یہ خوبصورت رنگ ٹھنڈے علاقوں کا خاصہ اور حسن ہے--


ستمبر کے آخر تک میپل کے درختوں کی چوٹیوں کے رنگ بدلنے شروع ہوۓ لال ، پیلے ، بھورے کتھئی، پیرہن ۔۔ یہ سپاٹ سبز رنگ والے درخت اچانک جوبن پر آگئے۔۔ ایک ایک پتے کے کئی کئی رنگ یوں لگتا ہے ہر پتہ ایک خوبصورت پھول میں ڈھل گیا ہے اسکے ساتھ ہی خزاں کی آمد کا آغاز ہوا ، گرمیاں اپنی الوداعی شامیں گزار کر رخصت ہونے لگیں ، دن مختصر اور راتیں لمبی ہونے لگیں نمازیوں کو بھی رعایت ملی فجر کافی دیر سے اور عشاء جلد ہونے لگی--


یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند -- بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ


درختوں اور پتوں کے یہ بدلتے ہوئے رنگ کیا حسن اور خوبصورتی لئے ہوتے ہیں میں تو انپر فریفتہ دیوانی ہو جاتی ہوں پاؤں کے نیچے سرسراتے چرمر چرچراتے ہوئے پتے ،جی سیر ہی نہیں ہوتا دل چاہتاہے بس ان پتوں کے بکھرے فرش پر چلتے رہو اور ان مناظر سے لظف اندوز ہوتے رہو ، ہوا چلی تو لہرا لہرا کر پتے گرنا شروع ہوئےخالق کاینات کی  یہ حسین صناعی کہ روح جھوم جھوم اٹھتی ہے ،سبحان اللہ-- اور اس لمحے زندگی اسقدر خوبصورت اسقدر شاندار لگ رہی ہوتی ہے  جی چاہتا ہے کاش یہ وقت یہ لمحہ تھم جائے--دنیا میں کوئی غم کوئی دکھ نہیں لیکن بدلتے ہوئے موسم اور وقت کے ساتھ یہ لمحہ بھی فورا گزر جاتا ہے کیونکہ اسکو گزرنا ہی ہے--


میں ہمیشہ سے پیڑ پودوںاور قدرت کے ان حسین مناظر کی عاشق ہوں -- رنگوں کی یہ بہار دیکھنے جسے فال کلرز کہا جاتاہےہم مسکوکا بھی گئے -- انٹاریو کا یہ علاقہ میٹھے پانی کی بڑی بڑی صاف شفاف جھیلوں اور قبل از تاریخ چٹانوں کی آماجگاہ ہے ان چٹانوں کے اوپر اگے ہوئے پیڑ پودے اور درختوں میں خزاں کے بکھرے رنگ ، خوشنما جھیلیں ، جھیلوں میں روواں اسٹیم شپ کی سیاحی  ( کروز ) زندگی کے حسین لمحات کومذید بھر پور بنا دیتے ہیں-

ڈیجیٹل کیمروں اور سمارٹ فون پر تصویر کشی کی آسانی سے خزاں کے ان رنگوں کی تصاویر لیتے لیتے طبیعت سیر ہی نہیں ہوتی -- یہ تفر یحی مقامات اب موسم سرما کے لئے بند ہوچکے ہیںہم بھی وۃاں آخری ہفتے میں گئے -اسی طرح کے دیگر پارک و مقامات اب مئی کے اواخر یا جون میں کھولے جائینگے --

کہتے ہیں موسم انسان کے اندر ہوتا ہے اندر کا موسم خوشگوار ہو تو باہر کا موسم کسی کا کچھ نہین بگاڑتا جبکہ میرے مطابق باہر کا موسم انسان کے اندر کے موسم سے مربوط ہے اور اسپر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے-دنیا میں چار موسموں کا چرچا ہے - بہار، خزاں ، گرما ، سرما یا گرمی ،سردی ہاں دنیا کے  کچھ شہروں اور خطوں میں موسم میں برائے نام تبدیلی آتی ہے جیسے کراچی میں اتنی لمبی گرمیاں چلتیں کہ گرمی ، پسینوں اور رطوبت سے طبیعت بری طرح پریشان ہو جاتی, جتنی گرمی میں شدت آتی ہر کوئی لڑنے مرنے پر تیار اور سردیاں، کوئٹہ لہر کی مرہون منت ہوتیں گرم کپڑوں کے استعمال کا کچھ موقع مل جاتا ورنہ کراچی کی سردی کے لئے صبح شام ایک ہلکی شال یا ہلکا سویٹر کافی ہوتا -- ان دنوں مجھے اسلام آباد جاکر جاڑوں کا بیحد مزہ آتا تھا جہاں گیس کے ہیٹر سے تمازت لیتے، چلغوزے ، مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں کھاتے اور جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہمارے گھر اندر سے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں تو خوب اوڑھ لپیٹ لیتےاور اب تو گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے--

جغرافیائی لحاظ سے منطقہ حارہ پر واقع ممالک میں موسم میں مرطوبیت اور گرمی زیادہ تر رہتی ہے جبکہ شمال کی طرف جیسے جیسے جاتےجائیں تو سردی ہی سردی اور پھر بحر منجمد شمالی کی طرف برف ہی برف--


خزان کے موسم یا سردیوں کی اپنی ایک خوبصورتی اور حسن ہے  دن کا پتہ ہی نہیں چلتا ابھی دن پوری طرح چڑھا ہی نہیں کہ شام ہوگئی اور خاص طور پر ان ممالک میں جہاں وقت گرمیوں میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جاتا ہے اور سردیوں میں پلٹا دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی روشنی کو نہیں روک پاتے سکینڈے نیویا کے ممالک تو ہم سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں اور جہاں پر سردیوں میں رات ہی رات اور گرمیوں میں دن ہی دن ہوتا ہے-


اور یہا ں کےمعمر شہری جو عرف عام میں  برفانی پرندے   سنو برڈزکہلاتے ہیں وہ بھی خزاں کے  ان رنگوں میں سردی بڑھنے اور برفباری سے پہلے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر  

گرم خطوں کی جانب مائل بہ پرواز ہوتے ہیں - کینیڈا کی مرغابیاں اور دیگر پرندے بھی جو کہ واقعتا سنو برڈز ہیں وہ بھی موسم کی تبدیلی کے ساتھ گرم خطوں کی جانب روانہ ہوتے ہیں - کینیڈا کا جو خطہ امریکہ کے ساتھ ساتھ ہے نسبتا کم ٹھنڈا ہے جبکہ شمال کی جانب ٹھنڈک اور برف بڑھتی چلی جاتی ہے- مرغابیوں سے تو امریکہ والے خوب تنگ ہیں جبکہ بوڑھے سنو برڈز کیلئےگرم ریاستوںفلوریڈا، اریزونا،کیلیفورنیا اور دیگر میں  پورے پورے شہر بسا رکھے ہیں- اور انکو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے -انمیںمحض کینیڈا کے ہی نہیں بلکہ امریکہ کے شمال مشرقی اور ٹھنڈ ی ریا ستوں کے با شندے بھی ہوتے ہیں -جو معتدل موسم کی تلاش میں ان شہروں میں جا بستے ہیں اکثر متمول حضرات کے ان دونوں علاقوں میں اپنے ذاتی مکا نات ہوتے ہیں -وہ گرمیاں ٹھنڈے اور سردیاں گرم علاقوں میں گزارتے ہیں-

بقول شاعر



خزاں کے موسم کی سرد شامیں

سراب یادوں کے ہاتھ تھا میں


کبھی جو تم سے حساب مانگیں

مایوسیوں کے نصاب مانگیں


بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں

تو جان لینا کے خواب سارے


میری حدوں سے نکل چکے ہیں

تمہاری چوکھٹ پہ آ روکے ہیں


مسافتوں سے تھکے ہوئے ہیں

غبار راہ سے اٹے ہوئے ہیں


تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں

کچھ اس طرح سے دارئ ہوئے ہیں


سوالی نظروں سے تک رہے ہیں

تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے

جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں



عابدہ

Abida Rahmani


کینیڈا کا یوم تشکر اور امریکہ کا کولمبس ڈے



----


--

کینیڈا کا یوم تشکر Thanksgiving Day

اور امریکہ کا یوم کولمبس Columbus Day

از --

عابدہ رحمانی

امریکہ اور کینیڈا کا یوں سمجھیئے چولی دامن کا ساتھ ہے -پھر بھی فی زمانہ یہ دو الگ ملک ہیں کینیڈا کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی انفرادیت برقرار رکھے-- اسپر امریکہ کو ہر گز کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ سیانوں کے مطابق امریکہ کو کینیڈا سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے--انکی چھٹیاں یا لمبے سہ روزہ ویک انڈ بیشتر ساتھ ہی منائے جاتے ہیں -اسکے نام البتہ مختلف ہوتے ہیں --کینیڈا میں یوم وکٹوریہ ہوگا تو امریکہ میں یوم صدر ہوگا-- ابھی بارہ  اکتوبر کو کینیڈا میں یوم تشکر تھینکس گیونگ ڈے منایا گیا اور امریکہ میں کولمبس ڈے-  

کینیڈا میں یہ دن اکتوبر کے دوسرے سوموارکو منایا جاتا جبکہ امریکہ میں نومبر کے آخری جمعرات پر --لیکن چاروں دانگ جو دھوم دھڑکا امریکی یوم تشکر کا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ اسکے اگلے روز کے سیاہ جمعے ( black Friday) کا ہوتا ہے کہ کافی سارے کینیڈین بھی اسکے دیوانے ہوتے ہیں-- اسکے بر عکس کینیڈا کی تھینکس گیونگ خاموشی سے گزر جاتی ہے -- نہ ہی وزیر اعظم یا گورنر جنرل کسی ٹرکی کی جان بخشی کرتے ہیں --نہ ہی کدو کا میٹھا( pumpkin pie) بنتی ہے کیونکہ ابھی تو سارے پمپکن ہالوین(Halloween) کے انتظار میں سجے ہوئے ہیں--

امریکی اور کینیڈین تھینکس گیونگ میں ایک ہی روایت کی پیروی کی جاتی ہے اور ایک ہی قسم کی اشیاء خورد و نوش تیار ہوتی ہیں -- وہی ٹرکی یا فیل مرغ روسٹ کیا جاتا ہے اسکے ساتھ اسکے لوازمات بنتے ہیں آلو کا بھرتا ، گریوی ، کرین بیری کی میٹھی چٹنی وغیرہ وغیرہ--

اللہ بلا کرے مقامی باشندوں کا جنہوں نے دور دیس سے  آنے والوں کی خاطر تواضع کی انہیں کھلایا پلایا اپنے ہاں بسایا اور اسکے بعد کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے --

کچھ وہی حال ہوا ہوگا --

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ-- ہاۓ اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

یہ چھٹیاں جاتی ہوئی گرمیوں کی ، آتے ہوئے موسم خزاں اور سرد موسم کا پیغام دیتی ہیں --

جب اس خزاں کے آغاز میں درختوں کے رنگ بدلتے ہوئے پتے ایک سے ایک  حسیں پھب اور بہار دکھاتے ہیں--جب میپل کا پتہ سبز سے لال ، سرخ اور پھر پیلا ہوجاتا ہے اسطرح دوسرے پودوں اور درختوں کے پتے شوخ رنگوں میں ملبوس ہو جاتے ہیں --کیا دیوانہ کرنے والا منظر ہوتا ہے -سبحان اللہ

خِزاں کے دور میں لُطفِ بہار لیتا ہُوں


ریاستہاۓ متحدہ امریکہ میں  کولمبس ڈے منایا گیا- اسوجہ سے یہ سہ روزہ ویک اینڈ تھا  چونکہ یہ ایک وفاقی  چھٹی ہےاوریہاں کے معاشرے میں سہ روزہ ویک اینڈ کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے -یہاں کے کافی ریاستوں میں اسکے ساتھ موسم خزاں کی چھٹیوں کو ملا دیا جاتا ہے-کافی لوگ اس طرح کے ویک اینڈ پر سیر و تفریح کا پروگرام بنا ڈالتے ہیں - اور کچھ نہیں تو سٹوروں میں زبردست سیل لگ جاتے ہیں اور خریداری کا لطف اٹھایا جاتا ہے- کیونکہ آیئندہ thanksgiving اور کرسمس کے تحائف کی بھی خریداری کرنی ہے--- یہ ساہوکاری اور کاروباری معاشرہ ہے ہمہ وقت سٹور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کب اور کیسے خریداروں کو نشانہ بنایا جاءے اسی کو ٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں-

امریکہ کرسٹوفر کولمبس کا ممنون احسان ہے کہ اسنے اسے مغالطے میں دریافت کرلیا وگرنہ ابھی تک دنیا امریکہ سے محروم رہتی اور وہ کہیں گوشہ گمنامی میں پڑا رہتا-ذرا سوچئے اگر امریکہ اب تک دریافت نہ ہو چکا ہوتا تو کیا ہوتا شائد دنیا کا کچھ بھلا ہی ہوجاتا- جاپان، چین ،ویٹنام، عراق، افغانستان ،ایران ، پاکستان ، شمالی کوریا اور دیگر بے شمار ممالک چین کی بانسری بجاتے رہتے اور باقی دنیا میں بھی راوی چین ہی چین لکھتا- نہ ہی یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی نہ ہمیں ان کمپیوٹروں کی لت پڑتی -  پھریہ ڈھیروں ڈھیر سائینسی ایجادات کا کیا ہوتا؟ بقول حسن نثار کے" ہم تو اپنے پوتڑے بنانے کے قابل بھی نہیں" بہر کیف دنیا اسکے باوجود بھی چل رہی تھی لوگ زندہ تھے کھا پی رہے تھے اور خوب لڑ جھگڑ بھی رہے تھے- البتہ ہاں یہ ایٹمی دوڑ اور یہ ڈرون خدا کی پناہ---- امریکہ نے دنیا کا جانے انجانے میں وہی حشر کیا جو کولمبس نے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کے مقامی باشندوں کا کیا --جسکی لاٹھی اسکی بھینس!

 ہاں  دنیا کا بھلا ہوتا  نہ ہوتا امریکہ کا تو ہو ہی جاتا -- ہر وقت امریکہ کو کتنی گالیاں پڑتی ہیں ، جھنڈے جلائے جاتے ہیں  صدر کے پتلے جلائے جاتے ہیں، شرم دلائی جاتی ہے لیکن امریکہ ایسا ڈھیٹ کہ ٹھس سے مس ہی نہیں ہوتا بلکہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے-پاکستان میں ہر جلوس میں نعرے بازی ہوگی” گو امریکہ گو اس سے ایک تو وہ دوبئی چلو والا قصہ لگتا ہے کہ جاؤ چلے جاؤ امریکہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ، دوسرےامریکہ میں یہ نعرہ کھیلنے والی  ٹیموں کو بڑ ھاوا دینے کے لئے کہا جاتا ہے  کہ “ گو گو “آگے بڑھو اور سب کو مات دو- نعرے بازی بھی ایک آرٹ ہے-- لیکن پھر وہی امریکہ ہمارے ہر دکھ کا مداوا بھی ہے زلزلے آۓ ، سونامیاں آئیں ، سیلاب آئے ،ہر تباہی میں امریکی امداد پیش پیش ، پھر نہ ہمیں انکی امدادی ٹیمیں بری لگتی ہیں نہ انکے جہاز اور نہ ہی ہیلی کوپٹرجب انجیلینا جولی ہمارے کیمپوں کے دوروں پر ہوتی ہے تو ہمیں سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے- میرے ساتھ یہی تو مشکل ہے کہ موضوع سے بھٹک جاتی ہوں اور کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہوں--

اسوقت امریکہ کا یہ حال ہے کہ ویزے کے لئے سب سے لمبی لائینیں اسی کی ایمبیسی میں لگی ہوتی ہیں ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ جائے ، کم از کم ایک مرتبہ تو جائےاور جس کو ویزہ نہیں ملتا وہی سب سے زیادہ برا بھلا کہتا ہے , ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے میرے والد صاحب مرحوم ایک مرتبہ میں نے مشورہ دیا کہ آپ امریکہ گھوم آئیے ، کہنے لگے اللہ تعالی مجھ سے یہ ہرگز نہیں پوچھے گا کہ امریکہ گئے تھے یا نہیں ؟--میں نے انکو قائل کرنے کی کافی کوشش کی کہ دیکھئے گا "فردوس گر بر روئے زمیں است --ہمیں است ہمیں است ہمیں است" لیکن وہ نہیں مانے ،اسی جنت کو تو بچانے کے لئے امریکہ ساری دنیا کو تگنی کا ناچ نچاتا رہتا ہے ہے--

اور یہ سب کولمبس کا قصور ہے نہ وہ امریکہ دریافت کرتا نہ ہی امریکہ کو یہ دن دیکھنے پڑتے-اب کولمبس نکلا تو ہندوستان کی تلاش میں تھا لیکن جا پہنچا امریکہ ، اب نجانے اسوقت امریکہ کا کیا نام تھا؟ وہ اپنے تیئں یہی سمجھا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے کولمبس اطالوی نژاد ہسپانوی جھاز راں تھا اسوقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلایا کرتا تھا- کولمبس کو 1492 عیسوی میں باد شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے مالی امداد کے ساتھ اس مہم پر روانہ کیا، اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ کامیاب لوٹے گا تو اسکو امیرالبحر یا گورنر بنادینگے - فرڈیننڈ اور ازابیلا مسلمانوں کے جانی دشمن جنہوں نے اسپین سے اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانؤں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا- جب مسلمان یورپ میں آئے اسوقت یورپ مکمل تاریکی میں تھا - یہ اسلام کا سنہری دور تھا وہ اپنے ساتھ علم و دانش، علوم و فنون لائے - اسپین میں اب بھی انکے سنہرے شاندار ماضی کے آثار نمایا ں ہیں- کولمبس پہلی مرتبہ تین جھازوں کے بیڑے میں جزیرہ بہاماس کے پاس اترا ان سب علاقوں میں قبائیلی اطوار تھے یہاں کے لوگ نسبتا پر امن تھے- کولمبس کو یہاں عیسائیت پھیلانے کے اور اپنی نو آبادیا ں بسانے کی کافی گنجائش نظر ائی اور اسکے بعد اسنے مزید تین سفر کئے اور کافی جہازوں کی معئیت میں ہر قسم کے آبادکاروں کو لایا جنمیں کسان ، تاجر ، کاریگر اور صناع شامل تھےاور یوں اپنی نو آبادیا ں بسا کر یہاں کا وائس رائے بن بیٹھا البتہ اسکے ظلم و ستم کی اتنی داستانیں بادشاہ کو پہنچیں کہ بالاخر بادشاہ نے اسکو پابہ جولاں داخل زنداں کیا جھاں 54 سال کی عمر میں وہ دار فانی سے کوچ کرگیا-

اس سارے قصے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کولمبس کا ذیادہ عمل دخل اور حاکمئیت جزائر غرب الہند اور کیوبا میں رہی  اور وہ مرکزی امریکہ میں جو اب ریاستہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے میں کبھی داخل ہی نہی ہوا لیکن پھر بھی امریکہ والے اسکو اپنا سمجھتے ہیں اور اسکی اس دریافت پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اسکے آنے کے بعد ہی یوروپی آباد کاروں کو امریکہ اپنے خوابوں کی منزل کی صورت میں نظر آیا اور شمالی امریکہ یوروپی سفید فام تارکین وطن کا نیا ملک بن گیا --جبکہ لاطینی امریکہ میں ہسپانوی نو آبادیا ں بنیں-

اسی خراج تحسین کی خوشی  میں نیویارک میں بہت بڑا کولمبس کا مجسمہ ایستادہ ہے اور وہ کولمبس اسکوائیر کہلاتا ہے-البتہ اس مجسمے پر دل جلے ریڈ انڈئینز   نے خوب سنگ باری بھی کی ہے اب کولمبس نہیں تو اسکا مجسمہ ہی سہی - سی این این پر دکھا رہے تھے کہ اب 550 سال کے بعد  ایک کولمبس اپارٹمنٹ بھی بن گیا ہے جس سے مین ہٹن کا بڑا خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا ہے-شائد کولمبس کی روح اسمیں آکر قیام کرے--


ریڈ انڈئینز کو ہم لال ہندوستانی کہتے ہیں اسلئے کہ انکے سامنے اسطرح کہنا ایک نسلی گالی کہلاتا ہے جسے یہاں racial slur کہتے ہیں جیسے کسی سیاہ فام کو نیگرو یا نیگر کہنا اسکی توہین ہے اور وہ قا نونی چارہ جوئی کر سکتا ہے- کیا کہنے امریکہ کے قوانین اور قانونی چارہ جوئی کے ؟ لال ہندوستانی نام بھی کولمبس نے دیا ورنہ تو انکے بڑے بڑے قبائیل تھے جنکے کافی اچھے اچھے نام ہیں - چروکی ، اپاچی،نواؤ navajo  اب اپاچی،  ہیلی کاپٹر ہوگیا چروکی مشہور جیپ اور اسی طرح کے بیشمار نام - امریکن انکو عزت سے اب  نیٹؤ مقامی باشندے  بلاتے ہیں جبکہ کینیڈئین فرسٹ نیشن چلئے اسطرح ہی سہی کچھ عزت تو دی گئی ورنہ تو غالب, حملہ آور یوروپیئن اقوام نے مار مار کر ایک چوتھائی بھی رہنے نہ دیا--اور اب جو انکا حال ہے کہ عموما ایک نمائیشی حیثیئت ہے خوب نشے میں دھت رہتے ہیں جگر کے امراض کثرت شراب نوشی سے عام ہیں ، فربہی کی بیماری بہت عام ہے جسکی وجہ سے انمیں ذیابیطس بھی کافی پایا جاتا ہے -مختلف مواقع پر اپنے پروں والے لباس پہن کر ڈانس کرینگے -  انکی زمینوں پر جوۓ کی اجازت ہے اس بناء پر بڑے بڑے کسینو بناۓ گئے ہیں --سرخ ہندوستانیوں کا ذکر پھر کبھی تفصیل سے کرونگی -

اسوقت مجھے Macy's جاناہے جہاں کولمبس ڈے کی زبردست سیل لگی ہوئی ہے-----






-- 
Sent from Gmail Mobile