Wednesday, July 31, 2013

الوداع اے ماہ رمضان عید کی آمد آمد

الوداع  اے ماہ رمضان 
عید کی آمد آمد

عابدہ رحمانی
 اب جبکہ رمضان آخری عشرے میں داخل ہوگیا ہے اعتکاف والے معتکف ہوگئے مغفرت اور نار جہنم سے نجات کا عشرہ شروع ہو چکا ہے روزے دار اللہ کی رحمت اور مغفرت کے طلبگار ہیں مساجد ہیں کہ ماشاءاللہ نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں - پورے پورے خاندان کے ساتھ لوگ کشاں کشاں چلے آرہے ہیں - بچوں کے لئے کھیلنے کے کمرے ہیں، بے بی سٹنگ کا انتظام بخوبی موجود ہے - بوڑھے بچے جوان ایک چہل پہل ، ایک ہما ہمی نماز ختم ہونے کے بعد یوں لگتا ہے ایک میلہ لگا ہوا ہے  بھانت بھانت کی بولیاں ، مختلف رنگ اور نسل کے مسلمان ایک رشتہ اخوت میں جڑے ہوۓ ، زیادہ تر ان ممالک کے باسی جہاں قتل و غارت گری ، فرقہ پرستی،مذہبی سیاسی یا فوجی دہشت گردی انتہائی عروج پر ہے - لیکن اس سکون اور اطمینان میں اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کے لئے ان ممالک کا انتخاب بھی کیا خوب انتخاب ہے کہ دیار مغرب کے امن و امان میں خوب دل کھول کر عبادات کریں ، پنج وقتہ فرض نماز کی ادائیگی اپنی جگہ ،رمضان کی رونقیں ، افطار ، مغرب عشاء ، تراویح اور پھر قیام الیل، خوش الحان قاریوں کی قراءت کیا روح پرور سماں آیات وعید پر قاریوں کا پھوٹ پھوٹ کر گریہ و زاری کرنا اور وتر کی دعاؤں کا سماں ، آج کی رات تو سحری کا بھی شاندار انتظام تھا- حرمین شریفین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے مجھے شافعی اور مالکی طریقے کی وتر بہت پسند ہے کیا رقت آمیز دعائیں ہوتی ہیں بس قبولیت کی دیر ہے- اور اسی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ رمضان یہیں منایا جائے -
 ایک عزیز بتا رہے تھے کراچی کی جس مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے وہ سپاہ صحابہ کی مسجد تھی دو مسلح گارڈ پہرے پر اور ہر ایک کی تلاشی لی جاتی تھی - پھر ہر وقت حملے کا خطرہ  ایسے میں آپ یکسوئی سے کیا عبادت کر سکتے ہیں ؟ اب تو مساجد میں اسکینرز اور میٹل ڈیڈیکٹرز ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ دہشت گردی کا خدشہ وہیں پر زیادہ ہے- اس موضوع پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ آپکی عبادت گاہیں بھی حد درجہ  غیرمحفوظ ہو جائیں-

ابھی تو رمضان شروع ہی ہوا تھا اور دیکھتے دیکھتے 23 واں روزہ بھی آن پہنچا - - 
ناصر جہاں کا سلام آخر آجکل میرے کانوں میں گونجتا ہے اب اسکا رمضان سے کیا تعلق؟
بس اتنا ہی، جو چل بسے تو یہ اپنا سلام آخر ہے 
سلام آخر کو رمضان آخر کہہ سکتے ہیں-- 
رمضان کا تحفہ اہل ایمان کے لئے عید الفطر کا دن ہے جب وہ اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہوئے اپنی خوشی مناتے ہیں-  روزے دار تو روزوں سے بے حال ہو چکے ہوتے ہیں  اکثر وہ مسلمان جو روزے نہیں رکھتے عید زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں اور انکی تیاریاں بھی خوب ہوتی ہیں اب وہ اتنے بھی گئے گزرے مسلمان نہیں ہیں کہ عید بھی جی بھر کر نہ منائیں- اتنی مسلمانی پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے-

"ارے بھئی آپ تو عید کا چاند ہوگئے نظر ہی نہیں آتے"
اردو بولنے والے از راہ گرمجوشی اپنے ملنے والوں میں یہ جملہ یا محاورہ جا بجا بولتے ہیں- جب کہ ہم مسلمان ابھی رمضان کے اختتام پر عید کا چاند ڈھونڈھنے کی کوشش کرینگے-آختتام سے مراد ہے 29 کی شب کیونکہ 30 کو تو  چاند کو بہر حال نکلنا ہی ہوتا ہے- ہلال عید یا عید کا چاند ہماری آدھی نہیں تو کم ازکم ایک تہائی اردو شاعری کا احاطہ کئے ہوے ہے۔اس چاند کو ڈھونڈھنے  اور پانے کیلئے کیا کیا رومانی اور جذباتی  اشعار کہے گئے ہیں کہ انمیں سے ایک بھی ابھی میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے شائد گوگل کرنا پڑیگا  - پھر اس چاند اور محبوب کے حسن جمال کا موازنہ ، جذ با تئیت تو بر صغیر میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے -پھر اس پر مستزاد اردو محاورے جنمیں عید کا چاند جا بجا استعمال ہوتا ہے-چاند اور عید کے چاند کو حسن و جمال کے استعاروں میں وصال و فراق کے محاؤروں میں خوب خوب چاشنی ملاکر بیان کی گیا ہے- ہماری ایک مغنیہ کیا لہک لہک کر یہ گیت گاتیں
انوکھا لاڈلا ، کھلن کو مانگے چاند
رمضان کی 29 کو جتنی ڈھونڈیا اس چاند کی ہوتی ہے کہ چاند کو خود بھی  اس اہمیئت کا اندازہ نہیں ہوگا-یا شائد ہے جب ہی تو وہ جھلک نہٰیں دکھلاتا یا ہلکی سی جھلک دکھلا کر غائب ہوجاتا ہے- عرب دنیا میں نہ معلوم چاند اور عید کے چاند کے ساتھ کیا رومانئیت منسلک ہے وہ عربی میں اپنی تہی دامنی کے سبب میں نہیں جانتی لیکن یقینا وہاں کے مؤمنین بھی چاہتے ہونگے کہ 29 پر چاند ہو جائے اور وہ ایک اور روزے سے بچ جایئں -آجکل تو وہاں پر شدید ترین گرم موسم ہے -ہاں البتہ انپر ایر کنڈیشننگ کے لحاظ سے اللہ کا احسان ہے- امریکہ کے روشن خیال مسلمانوں کو کیلنڈر بنانے کا خیال آیا اور اسکے حساب سے چاند کی تاریخیں طے کیں اس حساب سے ہم کیلنڈر والوں کو پورے 30 روزے رکھنے ہیں اور ہماری زندگی سے چاند کا انتظار غائب ہوگیا -- لیکن دیگر کافی تعداد میں بھائی بندے اس پر متفق نہ ہو سکے ، انہوں نے چاند دیکھنے اور ڈھونڈنے کو ہی صحیح جانآ- اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھنا افضل ہے ، ہم اپنے مطالب کیلئے سنت کی پیروی خوب کرتے ہیں-
 پاکستان میں روئیت ہلال کمیٹی بنی ہوئی ہے جنکا اہم کام عید اور رمضان کے چاند کو نکالنا ہوتا ہے، اسکے سرپرست اعلے  عموماایک انتہائی ضعیف العمر اور بزرگ مولانا کو نامزد کیا جاتا ہے جنکی بینائی بھی خاصی کمزورہو چکی ہوتی ہے-( معذرت کے ساتھ) -لمبی چوڑی تقریریں اور تکلفات ہوتے ہیں چاند کو ڈھونڈھنا ایک اہم ترین فریضہ ہوتا ہے - پوری قوم دم بخود ہوتی ہے کہ اب چاند نکلا کہ نکلا اکثر اوقات ایسا ہوا کہ چاند کی خبر رات کو با رہ بجنے کے بعد آئی اور اکثر نے اگلے روزے کی سحری بھی کرلی اور معلوم ہوا کہ عید ہوگئی-ہمارے خیبر پختونخواہ والے عید کو پشتو میں" اختر" کہتے ہیں - عیدالفطر چھوٹی عید کہلاتی ہے جبکہ عیدالاضحی بڑی عید - اور وہ کبھی بھی بقیہ پاکستان سے عید اور رمضان پر متفق نہیں ہوتے بلکہ ایک روز پہلے مناتےتھے-، چاہے روئیت ہلال والے پشاور میں ہی چاند نکال ڈالیں-اس مرتبہ کچھ بہت ہی انوکھا ہوا ہے جسے کہا جا رہا ہے " تحریک انصاف کا نیا خیبر پختون خوا، خبریں آرہی ہیں کہ انہوں نے بقیہ پاکستان کے ساتھ رمضان کے ساتھ اختر منانے کا فیصلہ کیا ہے - ایک انتہائی انوکھا کام ،اللہ خیر کرے--
 بھارت کے بارے میں حیرت ہے کہ میں لاعلم ہوں کہ وہاں کی اتنی بڑی مسلم آبادی چاند دیکھنے کے لئے کیا پاپڑ بیلتی ہے -؟ افسوس کہ ہم کتنےبے خبر پڑوسی ہیں، حالانکہ بالی ووڈ اور اسکے ستاروں  سے تو ہمارا قریبی ناتا ہے- اور عید کے چاند کی ساری رومانیت تو وہیں کی دین ہے-
عرب ممالک میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے چاند کی ڈھونڈیا ہوتی ہے- یوروپ، آسٹریلیا، کینیڈا، دیگر ممالک  اور امریکہ والےیا تو اپنے طور پر چاند کو ڈھونڈتے ہیں کچھ اپنے موروثی ممالک کی پیروی بھی کر ڈالتے ہیں کہ عید انکے ساتھ منائی جاۓ- شمالی امریکہ میں اگر مسلمان ایک ہی دن عید منا لیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ورنہ وضاحتوں پر وضاحتیں اور شرمندگی الگ - ایک ہی ملک ایک ہی محلے میں بسا اوقات تین مختلف دن عید منائی جاتی ہے بیچارے اوباما اور سٹیفن ہارپر بھی مخمصے میں کہ عید کی مبارکباد کس روز دی جائے- اسکول والے الگ پریشان اور انکا ایک ہی سوال " تم لوگ اپنا تہوار ایک دن ساتھ کیوں نہیں مناتے؟ ہم نے تو یہ طریقہ اپنایا ہے کہ عید کے روز روزہ شیطان کا اور جو پہلے عید مناتا ہے اسکے ساتھ مناتے ہیں-

پاکستان میں چاند رات کو بڑے شہروں اور کراچی میں جو چہل پہل ہوتی ہے اور چاند رات کا بازاروں میں جو رت جگا ہوتا ہے وہ منچلوں اور نوجوانوں کے لئے ایک حد درجہ لطف کا باعث ہوتا ہے- لڑکیاں بالیاں ساری رات مہندی اور چوڑیوں کے چکر میں کاٹ دیتی ہیں چوڑیوں والے منہ مانگے دام لیتے ہیں -کتنے سٹال بن جاتے ہیں کالج یونیورسٹی کے لڑکے باجیوں کو چوڑیاں پہنانے کے لئے ایک سے ایک بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اورکتنی با پردہ اور با حیا خواتین بھی چوڑیاں بچانے کی چکر میں ہاتھ بڑھا لیتی ہیں ارے ڈاکٹر، درزی اور چوڑی والے سے کیسا تکلف؟ کیا چناکے ہوتے ہیں جب تنگ سے تنگ چوڑیا ں پہنائی جائیں--لیکن اس طرح سے ٹوٹنے والی ساری کی ساری چوڑی والے کی ہوتی ہیں-- یہ ریت ابھی تک قائم ہے ؟- اس سے پہلے تو خواتین دعائیں مانگتی تھیں کہ آج چاند نہ ہو اور انکو عید کی تیاری کرنے کا ایک اور روز مل جاۓ- آخری وقت کی خریداریاں ، پکوان کی تیاریاں ، کئی اقسام کی سویئاں، ہوائیاں کٹ رہیں ، مصالحے پس رہے ہیں،ساری ساری رات خواتین کی اگلے دن کی تیاریوں میں گزر جاتی ہے  -اس سے پہلے جب گھروں میں سلیقہ شعار خواتین سلائیاں کرتی تھیں تو  گوٹے لچکےٹانکنا ،تر پائیاں کرنا اور پھر تمام ملبوسات کا اہتمام کہ تینوں دنوں میں کیا کیا پہننا ہے کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے- موجودہ دور میں بوتیک اور درزیوں نے عید کے اہتمام کو لوٹ لیا ہے -رمضان کے پہلے ہی سے درزیوں کے مزاج بگڑنے شروع ہوتے ہیں اور پہر یہ لوڈ شیڈنگ کا عارضہ یا بہانہ- اب چاند رات میں بوتیک اپنی قیمتیں کم از کم دگنی کر دیتے ہیں-اسکے ساتھ پارلروں کا راج ہوتا ہے مردانہ اور زنانہ دونوں-مہندی کا کام تو تمام دنیا میں کون کی ایجاد سے کافی آسان ہوگیا ہے اس کون کے ایجاد کرنیوالے کو ایک مہندی ایوارڈ براۓ تجدیدئیت ضرور دینا چاہئے تھا- اگلے روز عید کی نماز کے لئے گھر کے مرد ہی جاتے تھے اسوقت تک خواتین کی باقی تیاریاں ہوچکتی تھیں-
 ہم لوگوں کے ہاں عید کا کیا اہتمام ہوتا تھا اکثر گھروں میں رنگ روغن تک ہو جاتا تھا - گملے تک رنگ دئے جاتے ہر چیز اجلی اور جاذب نظر ہو -پھر عیدیوں کا سلسلہ اگلے روز صبح سے ہی شروع ہوتا تھا جسنے رات کو سب سے زیادہ پریشان کیاتھا ڈھول پیٹنے والا وہ سب سے پہلے ، پھر گلی کا خاکروب جو عیدیں پر ہی نظر اتا تھا 'چوکیدار، مالی، ڈاکیہ جو سارے مہینے کی ڈاک جمع کرکے صرف عید کے دن لاکر دیتا ایک سے ایک عید کارڈ، بھیجنے والوں کی محبت کی گواہ ہوتے- ہم نے بھی درجنوں عید کارڈ بھیج دئے ہوتے تھے ان عید کارڈ کی خریداری بھی ایک دلچسپ اور بڑا مشن ہوتا تھا کہ ہر مرتبہ کچھ انوکھا پن ہو جو آپکی ذوق سلیم کا آئینہ دار ہو، پوری فہرست بنتی تھی کہیں کوئی عزیز، یار دوست رہ نہ جائے، ان کارڈز کو سپرد ڈاک کرنیکا مسئلہ ، ڈاکخانے والے بھی ایک حتمی تاریخ دے دیتے تھے-   ہماری زندگیوں سے بہت سے حسین لمحے خود بخود غائب ہوتے جارہے ہیں-اب انٹرنیٹ اور ای کارڈز نے اس تکلف سے بے نیاز کر دیا ہے -- پھر اللہ فیس بک کو سلامت رکھے اسنے مزید کام آسان کردیا ہے
 ایک تانتا سا بندھ جاتا ملازمین، اپنے بچوں ، عزیز رشتہ داروں کی عیدی کا سلسلہ الگ جاری رہتا - بچے اپنی عیدی گن گن کر خوش ہوۓ جاتے تھے-
میں اس نوسٹالجیا سے نکنا چاہتی ہوں یاد ماضی عذاب ہے یا رب - یہ وقت خوش ہونے کا ہے-
 اب جن ممالک میں ہوں اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کیا کہنے ورنہ خصوصا چھٹی کا انتظام کرنا پڑتا ہے اسکولوں سے بچؤں کی اکثر چھٹی کرا دی جاتی ہے-لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسطرح نئی نسل کو اپنے دین اور روایات سے جوڑا جاۓ- اسکے لئے عید کے اہتمام پر کافی توجہ دی جاتی ہے- بہت سے بچوں کو یہ شعور دلاتے ہیں کہ ہم کرسمس نہیں بلکہ عید مناتے ہیں اسلئے بچوں کو عید کے تحائف دئے جاتے ہیں بلکہ خاندان کے تمام لوگ ایک دوسرے کو تحائف دیتۓ ہیں، گھروں کو کرسمس کی بتیوں سے سجا دیتے ہیں اندرونی خانہ بھی غباروں اور جھنڈیوںسے آرائش کر دی جاتی ہے ٹورنٹو مین کافی سارے مقامی سٹورزنے عید مبارک اور رمضان سیل لگائی ہوئی ہے اسی کوٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں- ہم بھی خوش وہ بہی خوش -مسیساگا میں یوں بہی محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے قریب پہنچ گئے ہیں- مساجد میں مستحقین کو عید کے تحائف دۓ جارہے ہیں اسکے لئے پہلے ہی سے فطرہ دینے کی اپیل کی جاتی ہے- فوڈبنک میں کافی خشک خوراک جمع ہوچکی ہے ، بچوں کے لئے کھلونے بھی جمع ہیں - ہم نے ان ممالک سے بہت سی اچھے طور طریقے بھی سیکھ لئے ہیں- عید کی نماز کے لئے  علی الصبح تیاری اور روانگی ہوتی ہے - اکثر مساجد دوبلکہ تین نمازیں ادا کرتے ہیں اسلامک سنٹر آف کینیڈا میں تین نمازیں ہونگی-  اسمیں جو چہل پہل ہوتی ہے ، سبحان اللہ
ان مساجد نے مسلمانوں کو جتنا متحرک کیا ہوا ہے کہ اللہ نظر بد سے بچاۓ -ذرا دیر قبل  نصف شب کا قیام ، سحر اور فجر کر کے آرہے ہیں-ماشاءاللہ!
عید کی تیاریاں یہاں بھی پورےزور شور سے ہوتی ہیں اب تو آن لائن پاکستان کے بوتیک سے آرڈر پر کپڑے منگوائے جاسکتے ہیں ،یہاں پر ہر دوسری تیسری خاتون کا یہی بزنس ہے  اور دیگر لوازمات بھی مل رہے ہوتے ہیں- اسکے علاوہ عید میلے بھی لگ جاتے ہیں جن میں خوب رونق ہوتی ہے-
اکثر لوگوں کے ہاں چاند رات کا خوب اہتمام ہوتا ہے بڑی بڑی پارٹیاں ہو جاتی ہیں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں اسمیں مدعو ہوتی ہیں مہندیاں سج رہی ہیں ، چوڑیاں پہنی جا رہٰی ہیں، ڈھولک کی تاپ، گیت گائے جا رہے ہیں کبھی گیت لگا کر کچھ پھیرے بھی لگا لئے جاتے ہیں آخر کو خوش ہونے کا بھی حق ہے اور جائزبھی ہے- یہاں عام طور پر عید میں لوگ اوپن ہاؤس کا اعلان کرکے احباب کو مدعو کرتے ہیں - یہ سلسلہ کافی دلچسپ ہوتا ہے کافی دوست احباب سے ملاقات ہو جاتی ہے لیکن صاحب خانہ کو کافی اہتمام کرنا پڑتاہے- اسکے لئے اوقات کا تعئین کردیا جاتا ہے- مساجد کی سطح پر بھی چاند رات اور عیدملن کی پارٹیاں ہوجاتی ہیں اور یہ پارٹیاں روزے داروں کے لئے جہاں ایک انعام ہوتی ہیں وہاں ان سے روزے نہ رکھنے والے بھی لظف اندوز ہوتے ہیں- اور کیوں نہ ہوں بقول کسے' ہم کم ازکم عید تو مناتے ہیں'-

اللہ تبارک و تعالیٰ اپکو شب قدر کی فضیلتوں ، سعادتوں اور برکات سے فیض یاب کرے
ہماری تمام عبادات اور محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے ہماری خطاؤں  کو بخش دے

آپ سب کو  عیدلفطر کی دلی مبارکباد ، اللہ کرے یہ آپ کیلئے اور اپکے تمام اہل خانہ کے لئے مسرتوں اور رحمتوں کا پیامبر ہو
عید مبارک
 اللھم تقبل منا و تقبل منکم کل عام و انتم بخیر

Tuesday, July 23, 2013

خوش رہو اہل چمن (وطن ) ہم تو سفر کرتے ہیں- رمضان المبارک کے رنگ ٹورنٹو کینیڈا میں

" خوش رہو اہل چمن (وطن ) ہم تو سفر کرتے ہیں-

 رمضان المبارک کے رنگ 

ٹورنٹو کینیڈا میں



عابدہ رحمانی

جب ہم نے اپنا رخت سفر باندھا تو لب پر یہ صدا تھی " خوش رہو اہل چمن (وطن ) ہم تو سفر کرتے ہیں---پیاروں نے کہا' گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے بھاگ رہی ہیں بلکہ بہتر اردو میں راہ فرار اختیا ر کر رہی ہیں؟"لوڈ شیڈنگ سے متعلق ایک شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے

---بجلی غائب رہے تو مر مر کے-زندگی یا حیات کٹتی ہے

دن گزرتا ہے سخت گرمی میں ، گھپ اندھیرے میں رات کٹتی ہے-




" نہیں بھئی ہم انمیں سے نہیں ہیں اور اب تو موسلا دھار بارشوں سے موسم اتنا پیارا ہوگیا ہے کیا کہنے! اور پھر یہ آموں کی لذ ت ، چونسہ ، انور راٹھول، لنگڑے، لیچی' آڑو ، خوبانی ، آلو بخارے کی بہار - جا من اور فالسے تو اس مرتبہ چکھے نہیں -جب کھانے کی چیزوں کا ذکر ہوتا ہےتو مجھے پُاکستانی پھل سب سے زیادہ یاد آتے ہیں اور اب تو ہمارے پاس بہترین سٹرابیری اور چیری بھی ہوتی ہے بس بلیو بیری اور رس بیری کی کمی ہے--ہاں یہ ضرور ہے کہ رمضان المبارک کی آمد اور برکت کی خوشی میںہمارے اسلامی مملکت میں قیمتوں میں دگنا،تگنا ا ضافہ ہو چکا تھا-- بہر کیف دانے دانے پر مہر ہے اور جہاں سے آب و دانہ اٹھ جائے تو کیا کیا جائے؟ - مختلف عوامل اور ضروریات ہوتی ہیں جسکے لئے سفر کو وسیلہ ظفر بھی کہا جاتا ہے-یوں اب تک اتنے سفر ہوچکے ہیں کہ ماہر سفر ہونے کی چھوٹی موٹی سند تو ضرور مل سکتی ہے -
 پاکستان میں ہمارا روزہ گیارہ جولائی سے شروع ہوا -جہاز میں میر ی ہمسفر اسپر بضد کہ وہ اپنا روزہ پورا کرینگی ، بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ کی دی ہوئی سہولیات سے فائدہ نہ ا ٹھانا حد درجہ ناشکری ہے اور یہ دن تو آپکے ساتھ ساتھ چلتا رہے گا 24 گھنٹے کا روزہ کیسے رکھینگی ؟ بالاخر انہوں نے ہتھیار ڈال ہی دئے- ٹورنٹو میں اثناء
' ICNA , ISNA 
اور دوسری ہم خیال جماعتیں رمضان المبارک کیلنڈر کے حساب سے نو جولائی سے شروع کرچکے ہیں میرے خیال میں کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئے - ہلال کمیٹی ، عرب ممالک میں دس جولائی سے آغاز ہوا-
 یہاں پہنچے تو لبرل پارٹی کینیڈا کے امیدوار جنکے والد کینیڈا کے مشہور وزیراعظم گزر چکے ہیں جسٹن ٹروڈو مسجد میں مدعو تھے تمام مسلمانوں میں اسکے لئے ایک جوش و خروش تھا - ہر ایک اسکے ساتھ تصویر بنانے کا متمنی ، مختصر تقریر کرکے وہ خوب گھل مل گیا ہر طرح کے تصنع سے پاک -مسلمان اسے اپنا دوست اور خیرخواہ جانتے ہیں- کیا پاکستان میں بھی ہمارے رہنما کسی مسجد کا اس طرح سے دورہ کرتے ہیں؟



ہم اثناء کی انتہائی وسیع،شاندار اور خوبصورت باقاعدہ گنبد و مینار والی مسجد جو" اسلامک سنٹر آف کینیڈا" کہلاتی ہےاور مسی ساگا میں واقع ہے میں آدائیگی عشاء و تراویح کے لئےجاتے ہیں اور الحمد للہ ابھی تک باقاعدہ وہیں ادائیگی ہوتی تھی - لیکن آج اپنے پرانے الفلاح اسلامک سنٹراوکول میں افطار' کھانا' عشاء اور تراویح ادا کی- ایک توقف کے بعد اپنی پرانی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، کیا گرمجوشی، چاہتیں اور محبتیں ، سبحان اللہ! انمیں ہر رنگ و نسل کی خواتین ہیںلیکن ایک ہی رشتے نے ہمیں جوڑ رکھا ہے- ان مساجد میںبہترین حفاظ قاریوں کی تلاوت جو کانوں میں رس گھولتی اور دلوں میں ایمان کو تازہ کرتی ہے- وہ جو دوران تلاوت آیات وعید پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں، جہاں روزانہ بلا مبالغہ ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے وسیع و عریض مصلے اور جمنیزئم تک نمازیوں سے پر ہو جاتے ہیں اس ہجوم میں تیز چلتا ہوا ائر کنڈیشنراور پنکھے بھی نا کافی محسوس ہوتے ہیں (اسلئے کہ کہ آجکل کینیڈا مین موسم گرما ہے جسمیں قدرے حبس و گرمی ہے اور 32 سنٹی گریڈ میں بھی یخ بستہ ماحول کے عادی بلبلا اٹھتے ہیں اور پھر یہ سب ماحولیاتی تبدیلی اور اوزون کی تہ میں سوراخ کا کمال ہے ، ورنہ 35،30 سال پہلے یہاں کی عوام پنکھوں اور اے سی سے نابلد تھی)-ماشاءاللہ کیا روح پرور منظر ہوتا ہے اس خطہ زمین میںمسلمانوں کے اجتماعات کا سبحان اللہ !

مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفان مغرب نے--

ان مسلمانوں میں ان کی اکثرئیت ہے جو اپنے ممالک میں ازاد خیال اور ماڈرن مشہور تھے اور مساجد سے دور بھاگتے تھے-یہاں کی بیباکی اور بے راہ روی دیکھ کر ان مساجد میں ہی انکو سکون ملتا ہے-میرا ایک عمومی تجزیہ یہ ہے کہ اللہ یہاں کی قوم کو مشرف بہ اسلام کردے تو یہ اسلام کا سنہرا ترین دور ہوگا کیونکہ اسقدر قانون کے، وقت کے ، وعدے کے پابند ہیں ، ہاں اپنی ذات کے لحاظ سے ہرالہامی قاعدہ قانون سے ازاد ہیں-

پارکنگ لاٹ میں ہزارہا کارٰیں اور جب مسجد کی پارکنگ پر ہو جائے تو پھر پڑوسیوں سے مستعار لیا جاتاہے ماشاء اللہ ان ایمان والوں میں اکثرئیت انکی ہے جو اگلی صبح کاموں پر جاتے ہیں - پوری 20 تراویح کی ادائیگی ہوتے ہوتےاور گھر پہنچتے پھنچتے رات کا ایک بج جاتا ہے اور ساڑھے 3 بجے سحری کا وقت ہو چکتا ہے - اکثرئیت 8 رکعت کے بعد جاچکتی ہے-لیکن بعد میں بھی کافی رکے ہوتے ہیں -باہر لابی میں کیئ دکانیں سجی ہوئی -خواتین کے پردے کے لحاظ سے ،عبایا، قسم قسم کے حجاب،دیگر لوازمات، ٹوپیاں،دینی کتب، قرآن پاک ، سی ڈیز،کھجوریں، شہد، طغرے اور اسلامی تہزیب و اقدار سے ہم آہنگ دیگر سجاؤٹ کی آشیاءبرائے فروخت ہیں -مختلف لوگ اپنے کاروباروں کے پرچے تقسیم کر رہے ہیں وہ نوجواں نسل جو یہاں پل بڑھ کر جوان ہوئی اور جنکے ماں باپ نے مغرب کی بے راھ روی دیکھ کر مساجد میں پناہ کو غنیمت جانا- انکے اپس میں ملنے کے مواقع بھی مئیسر ہیں- ایک اسلامی ماحول اور ثقافت جس سے بیشتر ہمارے جیسے مسلمان ممالک سے آنے والے بھی ناآشنا ہوتے ہیں - کیونکہ ہمارے ہاں تو بیشتر مساجد میں خواتین کا داخلہ ہی ممنوع ہوتا ہے- پچھلے سال لاہور میں بیڈن روڈ پر مسجد شہداء میں جب نمازٰیں قضاء ہورہی تھیں تو بھائی کے ہمراہ گیئ اسکا خیال تھا کہ یہاں خواتین کے لئے کمرہ ہے وضو خانے کی طرف جاتے ہوۓ ایک محترم راستہ روک کر کھڑے ہوۓ " بی بی یہ مردوں کا وضو خانہ ہے"" اور خواتین کا؟' وہ اوپر کمرہ ہے " اوپر کمرے مین گئ تو یوں لگا جیسے مدتوں سے اس کمرے میں کوئی داخل ہی نہیں ہوا ایک دو دروازوں کو دیکھا تو تالے پڑے تھے - تئیمم کرکے قصر ادا کئے-اب تو الحمدللہ موٹر وے پر مصلے اور خواتین کے وضو خانوں کا رواج ہو گیا ہے-- ان ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کے لئے بہترین بیت الخلاء اور وضو خانوں کا اہتمام ہوتا ہے-

افطار کے لئے جمعہ، ہفتہ ، اتوار کمیونٹی افطار کا اہتمام ہے جسمیں ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے- کھجور اور پانی کے افطار اور نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کھانے کا سلسلہ ہوتا ہے جو عام طور پر لنچ باکس کی صورت میں ہوتا ہے-ان سات روزوں مین ہم نے ایک افطار گھر پر کیا ہے ورنہ کسی نہ کسی تنظیم کی طرف سے اہتمام ہوتا ہے-مرسی مشن مدینہ کینیڈا جو نو مسلموں کو کافی تقوئیتاور امداد فراہم کر رہی ہے انکے جانب سے ایک پر تکلف پوٹ لک افطار کا اہتمام تھا--نو مسلموں اور جوانوں کی گرمجوشی قابل دیدنی تھی--یٰہاں کی عمومی زبان انگریزی ہے اس لئے جو عالم یہاں کے لہجے میں انگریزی بولتا ہے اور یہیں کا پلا بڑھا یا پڑھا لکھا ہو تو نوجوانون اور دیگر زبان بولنے والوں میں کافی مقبول ہے--اردو کا تعلق صرف اردو دانوں تک رہ جاتاہے- اس بڑھتے ہوئے مزہبی جوش و خروش سے حکومت کینیڈا ہر گز غافل نہیں ہے اور ہر مسجد میں مانیٹرنگ کے آلات لگائے گئے ہیں بلکہ مختلف سراغ رسان، جاسوس بھی چھوڑ رکھے ہیں---




-ٹورنٹو اور اسکے گرد و نواح میں لگ بھگ دو سو مساجد ہیں ، ایک اندازے کے مطابق جنوبی اونٹاریو میں لگ بھگ چھ لاکھ مسلمان ہیں جنمیں سے اکثرئت ٹورنٹو اور گرد و نواح میں آباد ہیں-یہاں کی چند دیگر بڑی مساجد جنمیں میں جا چکی ہوں الفلاح اسلامک سنٹر اوک ویل' ھملٹن اسلامک سنٹر، اناتولیہ اسلامک سنٹر، فاؤنڈیشن مسجد آف کینیڈا سکار بورو جو نگٹ مسجد کے نام سے معروف ہے ، الھدئ اسلامک سنٹر، جامعہ اسلامیہ، دعوہ سنٹر ، جامعی سنٹر، نیو مارکیٹ کی مسجد،ہالٹن اسلامک سنٹر، مسجد رحمت اللعالمین، نور الحرم مسجد ، مسجد الفاروق، ابوبکر مسجد ، ملٹن اسلامک سنٹراور بے شماردیگرچھوٹے بڑے مصلے ہیں جو مختلف عمارتوں میں قائم ہیں-سب سے بڑی خوبی ان تمام مساجد کی یہ ہے کہ خواتین کے لئے برابر کے مواقع میئسر ہیںاور وہ برابر کی تعداد میں آتی ہیں اس وجہ سے بر صغیر کی وہ تمام خواتین جو مساجد اور انکے اداب سے نابلد ہوتی ہیں وہ ان مساجد میں جاکر دین سے کافی قریب آ جاتی ہیںاور دین کو صحیح طور پر سمجھنے لگتی ہیں -علاوہ ازیں پورے خاندان کے لئے باہمی میل جول کا ایک بہترین موقع میسر آتا ہے- چھوٹے بچوں کو بھاگ دوڑ کے ایک وسیع جگہ جب کہ نوجوانوں کو آپس میں گپ شپ کے لئے ایک عمدہ پلیٹ فارم مل جاتا ہے-یہاں پر اکثر رشتے بھی جڑجاتے ہیں- ان تمام مساجد اور اداروں کی رشتے طے کرنے کی سہولیات بھی ہیں اور مختلف مواقع پر باہمی مختصر ملاقات کے مواقع فاہم کئے جاتے ہیں - بہت سارے بچے اور نوجوان مسجد کے رضاکارانہ کاموں میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی سے حصہ لیتے ہیں- مساجد بھی انکی حوصلہ افزائی کرتی ہیں
آخری عشرے میں ان مساجد میں معتکف افراد کے لئے پورا ایک کیمپ لگا دیا جاتا ہے - کافی معقول قسم کے انتظامات ہوتے ہیں- اسلامک سینٹر آف کینیڈا میں اخراجات کا تخمینہ کرکے سحر و افطار کا عمدہ انتظام کر دیا جاتا ہے- جسکی معتکف افراد ادائیگی کر دیتے ہیں-



رمضان میں ہی کافی فلاحی ادارے اپنے چندے کی مانگ کی مہم چلاتی ہیں انکو فنڈ ریزنگ ڈنرز
Fund raising dinners کہا جاتا ہے انمیں ٹکٹ کے علاوہ شرکاء کو انفاق فی سبیل اللہ پر اکسایا جاتا ہے اکثر لوگ کافی بڑی رقوم ہدیہ کر دیتے ہیں اسکے کافی ماہر قسم کے مقرر ہیں ایک مقبول ماہر برادر احمد شہاب ہیں جو عربی نژاد ہیں اور قرآن ، احادیث اور سیرہ کے لحاظ سے انگریزی میں کافی بااثر تقریر کرتے ہیں - شرکاء بہت کچھ ہدہیہ کرنے پر امادہ ہوجاتے ہیں ہزاروں ڈالر کے عطیات کا اعلان ہوتا ہے- اس ضمن میں اکنا ریلیف کینیڈا اور اسلامک ریلیف کا دعوت نامہ آچکا ہے- اسکے علاوہ مساجد اپنی چندے کی مہم عموما ختم قرآن والی رات کو کرتی ہیں -- یہ طریقہ مجھے سب سے اچھا لگا کہ آڈیٹر ان تمام امدنیوں کی آڈٹ کرتے ہیں اور اکثر بد عنوانیا ں بھی سامنے آتی ہیں- بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے --اسوقت ہم ماہ رمضان کی برکات سے مستفید ہورہے ہیں اور ہونا چاہتے ہیں--



کل عام و انتم بخیر، آپ سب کو ایک مرتبہ پھر ٹورنٹو سے ماہ رمضان مبارک!



Tuesday, July 16, 2013

میرے قارئین اور ناقدین کو ماہ صیام کی بابرکت  شمالی امریکہ، یوروپ اور دیگر ممالک میں بھی مسلمان اپنے طور پر ماہ رمضان کا آغاز کرتے ہیں - کوئی سعودی عرب کی پیروی کرتا ہے ، کوئی مصر کی، کہیں انحصار کیلنڈر پر ہے اور کہیں اسپر بضد کہ بچشم خود چاند دیکھا جائے- 
جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے تمام عالم اسلام اور مسلمانوں میں اس ماہ مبارک کی اہمیئت اور فضیلت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا-  ہمت ہر کس بقدر او است 
اس سے پہلے اخبارات اور مجالس کے ذریعے عوام الناس کو اس مہینے کی آمد کیلئے تیار کیا جاتا تھا اب اللہ بھلا کرے ڈیجیٹل اور آنلائن ٹیکنالوجی کا سماجی رابطے کی ویب سایٹ خصوصا فیس بک کا ایک سے ایک دیدہ زیب کارڈ، احکامات ، قرآن ، ،احادیث اور اقوال ذریں پر مبنی احکامات ایک طرف ہماری اصلاح اور درستگی کرتے ہیں، دوسری جانب ہمارے اندرونی جذبوں کو اجاگر کرتے ہیں- استقبال رمضان کو نجی محفلوں ، مساجد کی محفلوں میں بھی خصوصئیت حاصل ہے- الحمدللہ آنلائن سہولتوں کی بدولت ہمارے آنلاین دورہ قرآن کے کئی پروگرام شروع ہو چکے ہیں پھر بھی  بہت مجھے کمی لگ رہی تھی کہ ایک استقبال رمضان پروگرام سے بلاوا آہی گیا--مجھے نہیں یاد کہ ہمارے بچپن میں اسطرح کے کوئی سلسلے ہوتے تھے - بس رمضان آیا چاند کا اعلان ہوا اور لوگوں نے روزے رکھنے شروع کر دئے - مجھے وہ وقت یاد ہے کہ سخت گرمی میں میری والدہ تولیہ بھگو بھگو کر سر پر رکھتی جاتی تھیں اور پھر ہمارے گاؤں کے سب سے ٹھنڈے کنویں سے میں اپنی ملازمہ کے ہمراہ پانی لینے  جاتی تھی اسوقت ہمارے گاؤن میں بجلی نہیں تھی اور جب ڈوری سے چھت سے بندھا ہوا موٹے کٹ کا پنکھا جھلانے والا بچہ خود ہی بے خبر سو جاتا تھا -کیا دن تھے خربوزے اور تربوز ٹھنڈا کرنیکے لئے کاٹ کر رکھ دئے جاتے تھے -- ساعات کی دلی مبارکباد 
اللھم تقبل منا و تقبل منکم 
اللہ تعالی اپکو نیکیوں کی اس فصل بہار کو سمیٹنے والا اور جشن نزول قرآن کے اس ماہ سے فائدے اور نیک اعمال 
حاصل کرنیوالا بنائے-- آمین

 مرحبا اے ماہ صیام مرحبا 

نزول قرآن کی سالگرہ

عابدہ رحمانی

ماہ رمضان کی آمد آمد ہے پاکستان میں رویئت ہلال کمیٹی 29 شعبان کو بعد مغرب، ہلال رمضان ڈھونڈھنے کی کوشش کریگی اگر چاند نہ نظر آیا تو اگلے روز تو روزہ بہر صورت ہوگا  -جبکہ خیبر پختون خواہ میں ایک روز پہلے 9یا 8 جولائی کوپہلا روزہ ہوگا، اسمیں طالبان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے -یہ یہاں کی ایک روایت ہے - یہاں پر بقیہ پاکستان سے ہمیشہ ایک روز پہلے روزہ اور عید منائی جاتی ہے - ہمارے بچپن میں سنتے تھے کہ فلاں فلاں جاکر تحصیل میں قسم کھا کر آیا ہے، اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق دینے کی کہ اسنے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا ہے جبکہ حقیقتا ابھی اسکی شادی بھی نہیں ہوئی ہے --اسکو کھیل تماشہ بنانے والے صادق اور راسخ مسلمان اب بھی کم نہ ہونگے اور یہ سلسلہ یعنی بقیہ پاکستان سےایک روز پہلے عید منانا اور روزہ رکھنا ابھی بھی جاری ہے- وہاں پر ایک عام اصطلاح یہ استعمال ہوتی ہے " اچھا بڑا چاند ہے دیکھو ایک روزہ انہوں نے کھا لیا" بقر عید غالبا ایک ساتھ منائی جاتی ہے 

Monday, July 8, 2013

عید جو گزر گئی”

عید جو گزر گئی”


وقت بدلا حلات بدلے ملک بدلے تو عید کے طور طریقے بھی بدل گئے ایک شہر کے ایک گھر میں ایک زمانے میں عید کی ساری ٹینشن ساری پریشانی ایک ہی خاتون کو ہوا کرتی تھی چاہے وہ عیدالفطرہو یا عیدالالضحی کا موقع ، بس یہی فکر کہ کہیں پر کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوکسی قسم کی کمی نہ رہ جائے ہفتوں پہلے تیاریاں شروع ہو جاتیں ، سب کیلئے کپڑے نئے تیار ، سوتی کپڑوں میں کلف لگی ہوئی  ہو، استری کئے ہوئے ، آزاربند ڈلے ہوئے، جوتے ، چپل نئے ہوں تو بہتر، گھر میں کوئی لڑکی تو تھی نہیں اسلئے لڑکیوں والے تکلفات تو نہیں تھے لیکن لڑکوں کے اپنے مطالبے اور شوق– گھر صاف ستھرا چھم چھم کرتا ہوا عید پر پکوان کی تیاریاں، میٹھا بھی ، نمکین بھی ہو ، دو تین اقسام کی سوئیاں، مٹھائیاں، دہی بڑے ،کباب، چٹنیاں– بقر عید پر یہ مصروفئیت اور تیاری قربانی کے جانور کےآنے سے اور بڑھ جاتی -قربانی کا جانور منڈی سے لانا اگرچہ مردوں اور لڑکوں کا کام تھا- گھر کے بچے قربانی کے جانور کی خاطر مدارات میں لگ جاتے – گلی محلے، اڑوس پڑوس سے بکروں کے ممیانے اور گائیوں کے ڈکرانے کی آوازیں آرہی ہوتیں سڑکوں کے نکڑ پر چارہ، گھاس اور چنے بیچنے والے بیٹھ جاتے–  – مصالحے کون کونسے ڈالے جائیںگے  ابھی شان مصالحوں کا چرچا نہیں تھا 
جمعہ بازاروں کے چکر اتوار بازار عید بچت بازار گھر کے کسی فرد کا کسی ملازم ،ملازمہ کا جوڑا نہ رہ جائے ، درزیوں کے چکر اور پھر سب کو عید کے لئے تیار کرنا اور بقر عید پر گوشت کا  بانٹنا ،سمیٹنا ، پکانا عزیز و اقارب کی   خاطر تواضع شام کو سیخیں لگانا ، تکے ، بہاری کباب اور نہ جانے کیا کیا؟   ایپرن پہننے کے باوجود خاتون کے کپڑے گوشت کی خوشبو یا بد بو میں بس گئے ہوتے تھےٓ
 بقر عید میں  نماز کے فورا بعد قصائی کی ڈھونڈھیا، جیسے تیسے جانور ذبح ہوا تو  ” بس آپکی کلیجی نکال کر قریشی صاحب کا بکرا گرا کر آتا ہوں – پھر آکر آپکی تکا بوٹی ، چانپیں ،سری پاۓ سب بنوادونگا  ” اور جسکو سب سے زیادہ قربانیوں کا شوق تھا اسکی تو پھر جیسے  بات ہی نہ ٹالی جاتی قصائیوں تک سے دوستی ہوگئی ، پھر تو قصائی ایک آدھ روز پہلے خود ہی آجاتا جانور کو پانی پلاکر نہلا دینا میں اتنے بجے تک آجاونگا-سب حیران یہ قصائی کو کیا گیدڑ سنگھی سونگھائی ہے ایسا رام کر لیا ہے- اس مبارک صبح وہ اس گھر کا خاص   الخاص مہمان ہوتا تھا دو یا تین ہوتے تھے- مشہور تھا کہ بقر عید میں ہر کوئی چاقو ، چھری سنبھال کر قصائی بن جاتا ہے-تازہ تازہ کلیجی نکال کر اسکے پارچے کاٹ کر تل دئے جاتے-یہ انکے ہاں کی مخصوص ڈش تھی- احباب بھی فرمائش کرتے-  حصے بخرے کرنا، مانگنے والوں کی ایک لائن لگ جاتی، ملازم پہلے سے تلقین کردیتے ہمارا حصہ تو فریزر میں ڈالدیں وہ سوچتی چلو اسطرح شائد ثواب میں مزید اضافہ ہو- کھالوں کے لئے پہلے سے تعئین ہوچکا ہوتا تھا کس کو دینی ہے ورنہ  شہر میں کھالوں کی چھینا جھپٹی بقر عید پر ایک معمول تھا، اور اگر کارپوریشن والوں نے غفلت برتی تو ڈھیروں پڑی ہوئی اوجھڑیاں اور دیگر آلائیشیں جو تعفن پھیلاتیں کہ خدا کی پناہ– سانس لینا دوبھر ہوجاتا–
 ایک مرتبہ اسکی بقر عید امریکہ میں گزری -توبہ توبہ یہ بھی کوئی عید ہے ٹھٹھروں ٹوں ایک گھر میں عید باقی تمام شہر جانتا بھی نہیں کہ آج عید ہے -خاتون خانہ اپنی جاب پر تھیں ایک کوشر کلیجی منگوا کر پکائی اور عید کا قدرے اہتمام ہوا لیکن اسنے کان پکڑے کہ ائیند ہ اس ملک میں عید کبھی نہیں منانی- اسکا بڑا بول شائد اللہ کو بھی پسند نہ آیا حالا ت نے ایسا پلٹا کھایا کہ اسکی قیام گاہ یہی ممالک بن گئے اور عید منانے کی” ہمت ہر کس بقدر او است، کوئی تو اسے واقعتا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے ایک قابل ذکر دن بنانا چاہتا ہے -وہ جو دین سے منسلک ہیں وہ کوشش میں ہیں کہ اس دن کو خوب دل کھول کر منائیں اور ہر طرح سے اہتمام کریں ، گھروں کو سجائین ، قمقمے لگائین ، بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایسی محفلوں میں لے جائیں تاکہ انکو اس روز کی اہمئیت کا احساس ہوٓ اور کچھ ہو نہ ہو اسلامک سنٹرز جاکر نماز عید کی آدایئگی  ان ممالک کا خاصہ ہے اور یہ پہلو پاکستان میں اسکی زندگی سے غائب تھا- کیا لطف آتا ہے ہر رنگ اور ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ملکر-جتنا بڑا اجتماع اتنا ہی تنوع- اکثر مساجد میں نماز کے بعد اہتمام خورد و نوش بھی ہوتا ہے ورنہ بعد میں عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں ہر چیز ایک منظم انداز سے  - اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کافی پروگرام بن جاتے ہیں وگرنہ اکثر اسکولوں اور کاموں سے چھٹی لینا دشوار ہوتا ہے -جو بھی کرلیں اس ماحول کو بنانے کے تگ و دو کرنی پڑتی ہے  اب تو بڑے شہروں میں کچھ معلومات لوگوں کو حاصل ہو گیئ ہیں ورنہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟– بقر عید جمعے کوتھی اگلے دو روز ویک اینڈ کے تھے دعوتوں کے خوب سلسلے ہوئے – اوپن ھاؤس یہیں کا خاصہ ہیں وقت طے کرکے احباب کو مطلع کر دیا جاتا ہے کہ میرے ہاں دوپہر 12 بجے سے شام 5 بجے تک اوپن ہاؤس ہے- صاحبان خانہ مختلف پکوان تیار کرکے رکھ دیتے ہیں اور مہمانوں کا سلسلہ وقت مقررہ تک چلتا ہے تحفے تحائف کا خوب تبادلہ ہوتا ہے بچوں کے خوب مزے ہو جاتے ہیں– نیئ تہزیب سے بہت سی نئی اور اچھی باتیں سیکھ لیگیئ ہیں–اس مرتبہ اوکول کینیڈا میں اکنا کی طرف سے عید کے روز پروگرام تھا -” ایک کھلونا اپنے بچے کیلئے اور ایک پڑوسی بچے کے لئے لے جائیں ” اور یہ پروگرام وہاں سٹی ٹی وی سے براہ راست دکھایا گیا- مسلمان گروہ بہت سارے تفریحی پارکوں کو بک کر دیتے ہیں  اسطرح مسلم کمیونٹی کو آپس میں ملنے کے مواقع مل جاتے ہیں-
 رہیںقربانیاں اور اسکا اہتمام، دنیا رفتہ رفتہ جدت پسند ہوتی جارہی ہے اب تو حج میں بھی ٹوکن سسٹم ہوگیا ورنہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا کتنا مشکل کام ہوتا تھا – یہ شعبہ تو زندگی سے  جیسےخارج ہوگیا اللہ سلامت رکھے اپنے پیاروں کو انکے توسط سے قربانیاں یا تو مادر وطن میں ہورہی ہیں یا پھر آن لائن خیراتی ادارون کے ساتھ، اور یہاں کی قربانیوں کا کیا کہنا  کسی کسی فارم میں اجازت ہے کہ آکر اپنے جانور پر چھری پھیر دو لیکن وہ بھی ہزار تکلفات کے ساتھ  البقرقی میں ایک فارم تھا مشرق وسطی کا باشندہ وہ اسوقت تازہ کلیجی نکال کر دے دیتا تھا  ایک صاحب کا سنا تھا کہ وہ اپنے باتھ ٹب میں لاکر بکرا ذبح کرتے تھے  خوش قسمت تھے جو بچ گئے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا آجکل پاکستان میں اچھے عھدے پر فائز ہیں-  قربانی کا گوشت عموما تیسرے روز ملتاہے وہ بھی انکی مرضی سے جیسے کاٹ کردیں پچھلی بقر عید پر ران رکھنے کو کہا تو ثابت سری مل گئ  یوں دنبے ،بکرے اور گائے  سب کی  قربانیاں موجود ہیں- بلکہ فینکس میں ایک خاتون نے بتایا کہ انکا دو ایکڑ کا گھر ہے  ایک ایکڑ پر مویشی پالے ہیں اپنے گھر کے پلے بکرے  ہمیشہ ذبح کرتے ہیں واہ یہ لطف تو گاؤ ں ہی میں آسکتا ہے- – پاکستان میں جو ہوشربا گرانی ہے اب بکرے کا گوشت    6 یا 7سو روپے کلو تک ملتا ہے گائے کا 4 یا 5 سو روپے کلو، کافی مہنگا ہے اب وہاں بھی مرغی سب سے سستی ہے اسلئے بقر عید پر غریبوں کو اب واقعی خوشی ہوتی ہے اور فریج فریزر تو اب ہر ایک کے ہاں ہے-
اور وہ جن خاتون کا تذ کرہ تھا انکے تو اب عیش ہی عیش ہیں نہ گوشت کا جھنجھٹ نہ ہانڈی نہ چولھا وقت بھی کیا کروٹ بدلتا ہے —– بس اسکا شکر ادا کرنے کی دیر ہے

Saturday, July 6, 2013

اتحاد،ایمان،تنظیم

اتحاد،ایمان،تنظیم
Unity , faith ,discipline 
عابدە رحمانی
فضائیہ کالونی سے باہر نکلتے ہوۓ اسلام آبادایکسپریس وے پر   سامنے بنے ہوۓ ٹیلے پرقائداعظم کی نیون لائٹ سےمرصع ایک  کافی بڑی تصویر پر نظر پڑی اسکے نیچے اتحاد ،ایمان اور تنظیم نظر آۓ۔۔ابھی روشنی تھی اسلیۓ ان پر اندھیرا طاری تھآ لیکن کیا یہ روشن بھی ہوتے ہیں ؟ بالفرض اسوقت روشن ہوتے بھی ہوں جب بجلی موجود ہوتی ہےتو بھی کیا ہماری زندگی میں ان اصولوں کی چنداں اہمیت بھی ہے؟
 اسوقت مجھے خواجہ معین آلدین کا لکھا ہوا  تعلیم بالغان کا ڈرامہ شدت سے  --یاد آیا جسمیں اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم کی درگت بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے-اسوقت عمومی طور پر اگر ہم اپنے ملک اور اسکے حالات کا جائزہ  لیں تو اندازہ ہوگا کہ قائدکے یہ ذریں اصول ہم نے بچپن سے رٹے توضرور تھے اور جا بجا ہمیں لکھے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن انکا ہم نے جانے انجانے میں جو حشر کر دیا ہے کہ اپنے آپ سے بھی شرم آتی ہے-سب سے پہلے اتحاد کو لیجئے کہ ہم من حیث ا لقوم کسقدر متحد ہیں ہم مذہبی۔لسانی، علاقائی، رنگ و نسل ، فرقہ وارانہ اور اقتصادی گروہوں میں بری طرح منقسم ہیں- تقسیم محض تقسیم کی حد تک غیر فطری فعل ہرگز نہیں ہے لیکن ہم تو دوسرے گروہ کو برداشت کرنیکو ہرگز تیارہی نہیں ہیں- پورے ملک میں قتل و غارتگری، دھوکے اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے کہیں کس بہانے اور کہیں کس بہانے سے -- روزانہ پورے ملک میں جدال و قتال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے- خود کش دھماکے ، فرقہ وارانہ کشیدگی،انتقامی کار روائیاں جنکی کوئی حد نہیں ہے، کوئی انتہا نہیں ہے- میں تو اسقدر مایوس ہوگئی ہوں یا دوسرے الفاظ میں، میرا قلم اس دہشت گردی اور قتل و غارتگری کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے-دہشت گرد اسقدر منظم اور ظالم  ہیں کہ پورے ملک کو تخت و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں-ملک کے حفاظتی دستے، قانون نافذ کرنے والے ادارے بالکل بے بس اور بے دست و پاہ نظر آرہے ہیں پھر تنظیم اور یقین محکم یا ایمان کا جو حشر ہے کہ خدا کی پناہ -اگر قوت ایمانی ہے تو سادہ لوح اور بے بس عوام میں جو ہر طرح کی صورتحال اور تشدد کے ساتھ جی  رہے ہیں اور اس تمام صورتحال کو اپنا مقدر جانکر جینے   کی کوشش کر رہے ہیں
- اگر پچھلےچند دنوں کا جائیزہ لیں تو کیا کچھ نہیں ہوا - زیارت ریزیڈنسی پر راکٹ حملہ ، وہ مقام جہاں قائد نے اپنے آخری ایام گزارے - جب میں زیارت گئی تھی تو چشم تخیل  اور تصاویر کی مدد سے قائد کے نشست و  برخاست کا کمرہ ،انکی خوابگاہ   ، جس سے متصل کرنل الٰہی بخش کا کمرہ تھا، فاطمہ جناح کا کمرہ ، انکی لکھنے کی میز ، انکے قیام، انکی علالت کا تفصیلی نقشہ نظروں میں گھوم رہا تھا -غسلخانوں کی جدت پر مجھے کچھ اعتراض تھا - انکو بھی اسی صورت میں رہنے دیا جاتا ،تو یہ طبعزاد -تاریخی نقشہ پیش کرتا - لیکن یہ تو محض ایک عمارت تھی-ےاسی ریزیڈنسی کے بارے میں لکھی ہوئی امجد اسلام امجد کی ایک نظم کے چند قطؑعات بہت اچھے لگے-

یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے

ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا
یہیں کہیں تھا وہ بادل کہ جس کے سائے میں
نجانے کتنی ہی صدیوں کے دُھوپ کھائے ہوئے
ہر ایک دل کو ہر اک جان کو قرار آیا
………………
یہیں کہیں کسی دالان میں رُکی ہوگی
سَمے کے رُخ کو بدلتی وہ خوش خبر آواز
کہ جس نے چاروں طرف روشنی سی کردی تھی
کہ جس کو سُن کے ہُوا تھا یہ گُل سفرآغاز
…………………
یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سِلوٹ
گماں میں رینگتے خدشوں کی اک گواہی تھی
وہ دیکھتا تھا انھی کھڑکیوں کے شیشوں سے
سنہری دھوپ کے آنگن میں جو سیاہی تھی

 حالانکہ زندہ  قوموں میں عمارات بھی بہت اہم ہوتی ہیںاور پھر اسی دن بولان کالج طالبات کی بس پر حملہ کیا گیا اور جب انکوطبی امداد فراہم کرنیکے لئے میڈیکل ایمر جنسی میں لے جایا گیا تو ان ظالموں بد بختوں نے ان بے گنا ہوں کو بھی آگ اور خوں میں نہلا دیا--نانگا پربت کے بیس کیمپ میں گھس کر کوہ پیما ؤن اور انکے گائیڈ کو ہلاک کیا-کیسا بدلہ کسکا بدلہ اور کس سے لیا جا رہاہے؟ ملک اور ملکی اداروں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ان ظالموں کو کس طرح لگام دی جائے-- تو ادھر سے ایک ڈرون آکے انکا قلع قمع کرنیکی کوشش کرتا ہے - ظلم در ظلم فساد در فساد- انکے ساتھ بھی کتنے بے گناہ لقمہ اجل ہو جاتے ہیں-"آج اس چوکی پر اتنے اہلکار اور اتنے شدت پسند ہلاک ہوئے" - میں نے تو خبریں سننی ہی چھوڑ دی ہیں - میں سنوں یا نہ سنوں اس تمام صورتحال میں  میری اس مملکت خدادا د میں قاید کے اقوال کی کون پرواہ کرتا ہے جہاں پوری قوم اس میں الجھی ہوئی ہو کہ بجلی آئی، بجلی گئی - میں پچھلے تین سال سے مسلسل خوشگوار موسم بہار میں آتی ہوں اور اذیت ناک گرمیاں جھیلتی ہوںاسے میری خوش قسمتی جانیں یا بد قسمتی - ان تین سالوں میں بجلی کی صورتحال بد سے بد ترین ہوگئی پہلے سال تین گھنٹے پر ایک گھنٹہ بجلی جاتی دوسرے سال دو پر ایک گھنٹہ اور اب ہر گھنٹے پر ایک گھنٹہ جبکہ ایوان صدر ، ایوان وزیر آعظم دیگر اہم سرکاری دفاتر کے ساتھ ججز کالونی - کو بھی استثناء حاصل ہے کیوں بھئی کیا جج ان اٹھارہ کروڑ عوام سے نرالے ہیں- قانون کا نفاذ ہو تو سب کیلئے ہو-دنیا کہاں جارہی ہے اور ہم کہاں جارہے ہیں
قدرتی گیس  سی این جی رفتہ رفتہ عنقا ہوتی جا رہی ہے انکے پمپ پر سینکڑوں کے حساب سے گاڑیاں گھنٹوں اپنی باری کے انتظار میں رہتی   ہیں-عوام ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں الجھے ہوتے ہیں اور یہ مسائل  صبر و شکر اور بے بسی سے برداشت کرتے ہیں - ننھے بچے تک بجلی کو آتا دیکھ کر کھلکھلا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیںٓ--
ایک سے ایک ڈرامہ باز سیاسی  رہنا سے واسطہ ہے - وہ جو پچھلے 20-25 برس سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے تاج برطانیہ کے وفادار بنے بیٹھے تھے اور اپنی فرعونیت اور فسطائیت پر تلے ہوۓ تھے -"لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیآ "اب تاج برطانیہ کا کھایا ہوانمک بھلا کر انکو گالیاں دینے پر اتر آئےٓٓ-انہی قائد صاحب کی کراچی میں جا بجا وتصویروں کو دیکھ کر میرے ایرانی مہمانوں کوخیال ہوا کہ یہ بانئی پاکستان ہیں اور بڑی مشکل سے انہیں ساری بات سمجھا سکی-
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی -
ہم بات کر رہے تھے قائد کے ذرٰیں اصولوں کی-تنظیم، نظم ، ڈسپلن اس لفظ کو رفتہ رفتہ ہم اپنی لغت سے خارج کرتے جارہے ہیں - بھئی یہ اصطلاح تو افواج پر جچتی ہے یا ترقی یافتہ ممالک پر ، ہم تو اس سے مبراء ہیں  اور جسقدر بد نظمی اور افرا تفری پھیلا سکیں آخر کو ایک آزاد قوم ہیں اور ہماری مرضی جس طرح رہیں سب سے پہلے گندگی اور غلاظت ، اپنے گھروں کو صاف کرکے کوڑا باہر پھینکنا یا پھیلانا ،جابجا کوڑا گندگی توڑ پھوڑ،افرا تفری ہمارا قومی شعار ہے- فقیروں اور ہیجڑوں کی فوج ظفرموج ٹولیوں میں بھیک مانگتی نظر آتی ہے  معذور اور اپاہج تو ایک جانب صحتمند ، ھاتھ پاؤن سے سلامت پورے پورے خاندان کے ساتھ بھیک مانگ رہے ہیں -یہ کون ہیں کہاں سے آتے ہیں اور ان تمام فلاح معاشرہ کی تنظیموں میں کوئی انکا پرسان حال نہیں ہے ایک طرف ہمارے تیسری مرتبہ کے وزیراعظم کی 45 کروڑ کی گھڑی کی باز گشت ہے - کیا کسی غریب ملک کا وزیر اعظم اتنا امیر بھی ہو سکتا ہے ؟اسپر تو گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا مقابلہ ہونا چاہئے کہ اتنی مہنگی گھڑی دنیا میں اور کسکی ہے-؟ارتکاز دولت آپ سویس بنک اکاؤنٹ میں کریں یا ہاتھ پر گھڑی باندھ کر دونوں صورتوں میں ناجائز اور غیر قانونی ہے اور جو صحیح ٹیکس کی ادائیگی کریں وہ کیا ایک گھڑی  پر اتنی دولت خرچ کر سکتے ہیں -کیا اسوقت ہمارے حکمران جودیندار ہونیکا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس بڑھیا کو بھول گئے جو  امیرالمؤمنین عمر رض سے سوال کرتی ہے کہ انکا کرتا اتنا لمبا   کیوں اور کیسے ہوا-؟ نواز شریف اس گھڑی کا کیا جواز دینا چاہینگے-
جہاں حنا گیلانی ایک معصوم ملازم کوجگ توڑنیکی پاداش میں انہی شیشے کے ٹکڑون سے مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے - اس عورت کو کیا کسی قانون کے تحت سزا دی جائیگی- جو اس نبی کی پیروکار ہے " کہ خدا کی قسم اگر محمد صلعم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اسکا ہاتھ کاٹ دیا جاتا"لیکن کیا پاکستان میں ؟قانون کسی غریب اور بے کس کے لئے بھی ہے 
اسوقت مجھے امریکہ کی ایک دعوت یاد آرہی ہے ٓجہاں پاکستانی خواتین قیمتی ملبوسات اور زیورات میں ملبوس تھیں- میری گفتگو کچھ امریکن خواتین سے ہورہی تھی جو پاکستان سے نابلد تھیں-"پاکستان ایک ترقی پذیر ، غریب ملک ہے" میںنے انکو سمجھانے کی کوشش کی -"غریب؟ آپ لوگوں نے جو لباس اور زیورات زیب تن کئے ہوئے ہیں ہم تو انکے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے" -یہ وہ ممالک ہیں جہاں ٹیکس چوری ایک بہت بڑا جرم ہے اور اس کی سزا سے کوئی نہیں بچ سکتا--
خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے زیارت ریزیڈنسی تباہ ہوگئی تو کیا ہوا - قاید کا پاکستان اللہ سلامت رکھے تا قیامت جہان ہم انکے اصولوں کی پاسداری کر ینگے انشاءاللہ--اور ایک منظم متحد اور با ایمان قوم بنکر دکھائینگے